سیدنا امیرالمومنین معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما پر اعتراضات تو بہت کیے جاتے ہیں جن میں سے ایک ایک اعتراض کا ہمیشہ اہلِ علم نے الگ الگ بھرپور جواب بھی دیا۔۔۔ کئیں کتابیں لکھی گئیں لیکن ایک تو دلائل ایسے خرافاتی ذہن قبول نہیں کرتے کیونکہ ان کے ذہن نہایت پراگندہ ہوچکے ہوتے ہیں۔
دوسرا ایسے لوگ محض لفاظی، بدزبانی اور لعن طعن پر بھی اتر آتے ہیں اور اسی کو پھیلاتے بھی ہیں جنہیں ایک حد تک تو برداشت بھی کیا جاتا ہے لیکن غلاظت و نجاست کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
کب تک انسان اس کی بدبو و تعفن برداشت کرے۔
لہذا ایسے بدزبانوں کی حقیقت آشکارہ کرنے کی خاطر عوام الناس پڑھنے اور سمجھنے والوں کے لیے ہمیں کچھ آسان سے الزامی سوالات رکھنے پڑتے ہیں جن کے ذریعہ کم از کم مسئلہ سمجھے والے حق تک پہنچ سکیں۔
بس اسی تعلق سے ہم آسان سا صرف ایک بنیادی سوال پیش کرتے ہیں کہ:
“رسول اللہﷺ کے عظیم نواسے سادات اہلِ بیت حسنین کریمین (سیدنا حسن و حسین) رضی اللہ عنہما نے سیدنا امیر معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے ہاتھ پر بیعت کی تھی کہ نہیں؟”۔
جس کا متفقہ مسلمہ جواب ہے کہ بلاشبہ بیعت کی تھی۔
اب کچھ اس کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں:
یہ بیعت کب کی تھی؟
شہادت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد نا؟
یعنی جب سیدنا علی سے سیدنا معاویہ کا اختلاف بھی ہوچکا تھا۔
حتی کہ جنگ صفین بھی ہوچکی تھی۔
سیدنا عمار بھی شہید ہوچکے تھے اور سیدنا علی بھی رضی اللہ عنہم۔
تو اب ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور کریں کہ کیا یہ سب کچھ حسنین کریمین بھی جانتے تھے نا؟ یقیناً۔
تو پھر اس سب کے بعد کیسے حسنین کریمین نے سیدنا معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی؟؟
پھر مزید کچھ باتیں سمجھ لیں:
سب سے پہلے یہ سمجھیں کہ بیعت کا مطلب کیا ہوتا ہے؟
بیعت کا مطلب واضح ہے کہ جس کی بیعت کی جارہی یا کی گئی اسے اپنا امام پیشوا مقتدی قبول و تسلیم کرنا اور خود کو اس کی اطاعت و ماتحتی میں دینا۔اور یہ سب حسنین کریمین نے زبانی و عملی طور پر سیدنا معاویہ کے لیے کیا بھی اور وہ اس پر قائم بھی رہے۔لہذا حسنین کریمین نے سیدنا معاویہ کو زبان و عمل سے اپنا امام و امیر تسلیم و قبول کیا تھا۔اب اس بیعت کی روشنی میں چند نہایت اہم سوالات یہ ہیں کہ:
پہلا سوال کہ کیا حسنین کریمین کسی بھی ایسی شخصیت کے ہاتھ پر بیعت کرسکتے ہیں جو معاذاللہ ان کے والد یا اہلِ بیت پر لعن کرتے یا کرواتے ہوں؟؟ اور وہ بھی منبروں پر؟؟
سبحانك هذا بهتان عظيم
یہ ناصرف یہ جھوٹ ہے بلکہ حسنین کریمین پر بھی اس جھوٹے الزام کے اثرات جاتے ہیں۔۔۔ سمجھیں!
دوسرا سوال یہ کہ کیا حسنین کریمین کسی ایسے شخص کے ہاتھ پر بیعت کریں گے جو اس عظیم منصب ہی کے لائق نہ ہوں؟
ہرگز نہیں۔۔۔ ہمارا تو حسنین کریمین بارے یہی یقین ہے۔۔۔
البتہ یہاں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایسا انہوں نے محض امت میں امن و امان قائم کرنے کے لیے کیا تھا ۔تو اس پر ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ سیدنا حسن نے عظیم قربانی دیتے ہوئے امت کی خاطر ایسا کیا جیسا کہ یہ فضیلت ان کی حدیث میں بھی ہے ۔۔۔لیکن یہاں تین باتیں قابل غور ہیں:
پہلی بات یہ کہ کیا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ بس یہی ایک وجہ تھی بیعت کی؟
ایسا ممکن نہیں کیونکہ اگر ایک طرف یہی وجہ ہوتی اور دوسری طرف بڑی بڑی وجوہات اس عمل میں مانع ہوتیں جیساکہ آج کے اعتراضات سے باور کرایا جاتا ہے تو محض اس وجہ کی بنیاد پر حسنین پوری امت کو سیدنا معاویہ کے حوالے ناکرتے۔لہذا یہ وجہ تو تھی ہی لیکن دوسرا پہلو یہ بھی تھا کہ سیدنا معاویہ کو امیرالمومنین تسلیم نا کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی ورنہ حسنین کریمین کیوں بیعت جیسا عظیم عمل اختیار کرتے۔
دوسری بات کہ سیدنا حسن کے لیے تو یہ توجیہ سمجھ آتی ہے کہ ان کے لیے رسول اللہﷺ کی پیشین گوئی تھی لیکن سیدنا حسین نے ایسا کیوں کیا؟
وہ بعد کی طرح پہلے بھی تو انکار کرسکتے تھے، خود کو الگ کرسکتے تھے وغیرہ وغیرہ۔لیکن طویل بحث کے بعد بھی بالآخر ہم اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ سیدنا معاویہ سے حسنین کا اختلاف ضرور تھا لیکن اس حد تک نہیں تھا جو انہیں سیدنا معاویہ کے ہاتھ پر بیعت سے یا انہیں امیرالمومنین ماننے سے بالکل ہی روک دے اور نہ ہی وہ سیدنا معاویہ کی اسلام و اہل اسلام کے لیے لائق و فائق قیادت، سیاست و سیادت سے ناواقف یا بے اعتباری میں مبتلا تھے۔
بلکہ حسنین کریمین کا اپنے گروہ و جماعت سمیت تمام مسلمانوں کی قیادت سیدنا معاویہ کے سپرد کرنے کا واضح مطلب یہ تھا کہ انہیں:
اسلام و اہل اسلام کے لیے سیدنا معاویہ کے اخلاص و امانت پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
سیدنا معاویہ کی اہلیت و قابلیت پر کوئی اشکال نہیں تھا
سیدنا معاویہ کی بہادری و بلند عزم پر کوئی شک نہیں تھا
سیدنا معاویہ کے عدل و انصاف پر کوئی شبہ نہیں تھا
سیدنا معاویہ کے کردار پر انہیں کوئی سوال نہیں تھا سیدنا معاویہ کی دور اندیشی اور حکمت و بصیرت پر کوئی شک نہیں تھا۔
اور سب سے بڑھ کر اہلِ بیتِ اطہار کے ساتھ سیدنا معاویہ کی محبت و احترام اور ان کا واجبی خیال رکھنے پر حسنین کریمین کو کسی قسم کا کوئی ڈر و خوف نہیں تھا ورنہ “رسول اللہﷺ کے نواسے، نوجوانان اہلِ جنت کے سردار حسنین کریمین کیسے اور کیوں سیدنا معاویہ کے ہاتھ پر بیعت کرکے ناصرف خود کو بلکہ تمام اہلِ بیت مع شیعانِ علی اور تمام مسلمانوں کو سیدنا معاویہ کی امارت میں کیسے دے سکتے ہیں؟؟ سوچیں!!”۔
کم از کم ہم اہل السنہ محبی الصحابہ تو حسنین کریمین کے خلاف ایسا کچھ بھی سوچ بھی نہیں سکتے۔
اور جو ایسا سوچتا ہے وہ سب سے پہلے اپنے ایمان کو ثابت کرنے کی فکر کرے کہ حسنین کریمین پر ایسی بدگمانی کے ساتھ وہ کیسے مسلمان رہ سکتا ہے۔
تیسری و اہم بات یہ کہ جب حسنین کریمین نے سیدنا معاویہ کو قبول کرتے ہوئے گلے لگا لیا تو پھر پیچھے رہ کیا گیا؟
لہذا حسنین کریمین سے محبت اور ان کے احترام و اتباع کا یہی تقاضا ہے جنہیں حسنین کریمین نے قبول کیا ہم بھی انہیں خوش دلی و احترام کے ساتھ قبول کریں ورنہ تو ہم حسنین ہی کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں گے۔۔۔ سمجھیں !!۔
باقی رہے دیگر وہ تمام اعتراضات جو سیدنا معاویہ کی شخصیت کو مجروح کرتے ہیں تو ان پر بھی میں بس یہی کہوں گا کہ غلطیاں یقینا ہر غیرِ رسول سے سرزد ہوسکتی ہیں۔۔۔ تو سیدنا معاویہ بھی معصوم عن الخطا نہیں تھے لیکن وہ غلطیاں ایسی نوعیت کی ہرگز نہیں جو امیر معاویہ سے منسوب کرکے خوب اچھالی جاتی ہیں ورنہ میرا سوال پھر وہی ہوگا کہ:
رسول اللہ ﷺ کے تربیت یافتہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ و ارضاہ اور دیگر تمام صحابہ کیسے ان غلطیوں کو برداشت کرتے ہوئے سیدنا معاویہ کی بیعت پر قائم رہے؟؟
جو قدم سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بعد میں اٹھایا وہ پہلے بھی اٹھا سکتے تھے اگر اعتراضات وہ ہوتے جو آج سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر کیے جاتے ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
حسنین کریمین جیسی عظیم و سادات شخصیات کی سیدنا معاویہ کے ہاتھ پر بیعت اور ان کا تادمِ حیات اس پر قائم رہنا اس بات کی روشن و قوی دلیل ہے کہ انہیں سیدنا معاویہ سے اختلاف ضرور تھا لیکن وہ اس نوعیت کا ہرگز نہیں تھا جس سے سیدنا معاویہ کی عدالت و شرافت اور امانت و سیادت پر حرف آتا ہو (جیساکہ کہ ان پر طعن و تشنیع کرنے والے روافض اور ان کے ہمنوا ہمیشہ سے ظاہر کرنے میں لگے رہے ہیں) اور اگر اتنی موٹی اور آسان سی بات بھی کسی عامی کی سمجھ میں نہیں آسکتی تو ایک طرف بڑی بڑی دلیلیں بھی اس کے لیے ناکافی ہیں اور دوسری طرف اس کا منحرفانہ عمل اس کے نزدیک پھر معاذاللہ حسنین کریمین کو بھی مجروح کرتا ہے۔
آخری بات وہی ہے کہ ہم جو یہ بات کر رہے ہیں وہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تک ہے کیونکہ آپ صحابی ہیں اور شرف صحبت رسول الل ہﷺ کے لیے اللہ رب العزت کا انتخاب ہے لہذا صحابی پر کوئی بھی ایسا اعتراض جس سے صحابی کی عدالت و امانت پر حرف آئے درحقیقت اللہ رب العزت کے انتخاب پر اور بالواسطہ اللہ تعالی پر اعتراض ہے اس لیے صحابی کا ہرممکن دفاع ہمارے ایمان کا لازمی جز ہے جبکہ جو کچھ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ہوا وہ ہمارا مقصودِ بحث ہی نہیں۔
اس لیے مکمل دلائل کا علم نہ ہونے اور ان کی صحیح فہم سے عدمِ واقفیت کی بنا پر نیز بسا اوقات انہیں سمجھنے کی عدمِ اہلیت کی بنا پر ان میں الجھنے کے بجائے کم از کم حسنین کریمین ہی کے عمل و منہج کو اپناتے ہوئے ہم ہر اُس الزام کو جھوٹا و بے بنیاد سجھیں جس سے سیدنا معاویہ کی شخصیت مجروح ہوتی ہو اور ان کی شان میں تنقیص ہوتی ہو۔۔۔ کیونکہ اگر وہ ایسے ہوتے تو حسنین کریمین یا تو ان کے ہاتھ پر بیعت نہ کرتے یا اس پر قائم نہ رہتے۔
سمجھنے والے کے لیے یہ باتیں کافی و شافی ہیں و باللہ التوفیق۔