موجودہ سیاسی صورتحال اور نفرت کی فضا

سیاسی صورتحال اور نفرت کی فضا

دور حاضر کی حالیہ کشمکش نے ہماری ملکی فضا کو مغموم کر دیا ہے۔ہر نئی طلوع ہونے والی صبح اقتدار کی رسہ کشی کے دوران ہونے والی بد اخلاقی، زبان درازی اور بد تہذیبی کا نیا منظر سامنے لاتی ہے۔ آج کی اس تحریر میں میں اپنے قارئین کے سامنے سیاست کی اصل روح، مقاصد اور اسلامی نظریے کے مطابق سیاست اور سیاست کے موجودہ مفاسد کی حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کروں گی۔( ان شاءاللہ)۔ویکیپیڈیا کے مطابق سیاست لفظ  (Politics) “ساس” سے مشتق ہے جو يونانی زبان کا لفظ ہے، اس کے معانی شہر اور  شہر نشین کے ہیں۔ اگر لغت میں سیاست کے معنی کو دیکھا جائے تو یہ حکومت چلانا اور لوگوں کی امرو نہی کے ذریعے اصلاح کرنا ہے۔ اصطلاح میں سیاست کا معنی و مفہوم فن حکومت اور لوگوں کو اصلاح سے قریب اور فساد سے دور رکھنا ہے۔

اہلِ علم نے اسلامی و شرعی سیاست کی مختلف تعریفیں کی ہیں ۔

چنانچہ ڈاکٹر محمود صاوی سیاستِ شرعی کی اصطلاحی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

تدبير شئون الدولة الإسلامية، التي لم يرد بحكمها نص صريح، أو التي من شأنها أن تتغير وتتبدل بما فيه مصلحة الأمة، ويتفق مع أحكام الشريعة وأصولها العامة

یعنی اسلامی ریاست کے ان امور کو چلانا جن کے  نظم و نسق چلانے کے متعلق کوئی نص صریح موجود نہ ہو یا وہ امور انجام دینا جس میں قوم کے مفاد کے تحت تبدیلی کی جا سکے اور وہ امور شریعت کی دفعات اور اس کے عمومی اصولوں کے مطابق ہوں۔1

اب ہم نے سیاست کےمختلف معانی، تعریف سمجھنے کے بعد یہ دیکھنا ہے کہ اسلام کس طرح کی سیاست کا تقاضا کرتا ہے۔ قرآن حکیم میں باقاعدہ لفظ سیاست تو استعمال نہیں ہوا لیکن یہ بات ضرور واضح ہے کہ اسلام میں سیاست وہ فعل ہے جس کی انجام دہی سے لوگ اصلاح کے قریب اور فساد سے دور ہو جائیں۔ کسی بھی لحاظ سے اسلام ہمارے حالیہ غلط رویوں کا حامی نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیمات سے ہٹ کر ہمارے لبرل سیاست دان جو ہر معاملے میں مغرب کو راہنما مانتے ہیں اور اسلام اور اسلامی اقدار کے خلاف ہر وقت برسرِ پیکار رہتے ہیں وہ اہلِ مغرب کے مفہوم کو ہی دیکھ لیں وہ بھی فنِ حکومت کو برقرار رکھنے اور امورِ مملکت کا نظم و نسق بہترین انداز میں چلانے کو سیاست مانتے ہیں۔ غلط رویوں کو بالکل سیاست نہیں سمجھتے۔ قرآنِ حکیم نے اس کا مفہوم واضح کیا ہے۔ مثال کے طور پر ہم سورۃ البقرہ میں طالوت بادشاہ کے حوالے سے پڑھتے ہیں رب العزت کا فرمان ہے:-

وَقَالَ لَـهُـمْ نَبِيُّـهُـمْ اِنَّ اللّـٰهَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا ۚ قَالُوٓا اَنّـٰى يَكُـوْنُ لَـهُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْهُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ ۚ قَالَ اِنَّ اللّـٰهَ اصْطَفَاهُ عَلَيْكُمْ وَزَادَهُ بَسْطَةً فِى الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ ۖ وَاللّـٰهُ يُؤْتِىْ مُلْكَهٝ مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَاللّـٰهُ وَاسِعٌ عَلِـيْمٌ

البقرۃ – 247

ان کے نبی نے ان سے کہا بے شک اللہ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ مقرر فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا: اس کی حکومت ہم پر کیوں کر ہوسکتی ہے اس سے تو ہم ہی سلطنت کے زیادہ مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی کشائش نہیں دی گئی۔ پیغمبر نے کہا: بے شک اللہ نے اسے تم پر پسند فرمایا ہے اور اسے علم اور جسم میں زیادہ فراخی دی ہے اور اللہ اپنا ملک جسے چاہے دیتا ہے اور اللہ کشائش والا جاننے والا ہے۔

اور سورہ حج میں اللہ تعالیٰ نے ایک حکومت چلانے والے کے جو فرائض اور تقاضے ہیں ان کو بھی بہت واضح انداز میں بیان فرمایا:

اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِى الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ۗ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِ

الحج – 41

یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم زمین میں ان کے پاؤں جما دیں تو یہ پوری پابندی سے نمازیں قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور اچھے کاموں کا حکم کریں اور برے کاموں سے منع کریں۔ تمام کاموں کا انجام اللہ کے اختیار میں ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے یہی موقف واضح کیا ہے کہ”اس آیت میں اسلامی حکومت کی بنیادی اہداف اور اغراض و مقاصد بیان کئے گئے ہیں جنہیں خلافتِ راشدہ کی دیگر اسلامی حکومتوں میں بروئے کار لایا گیا اور انہوں نے اپنی ترجیحات میں ان کو سرِ فہرست رکھا تو ان کی بدولت ان کی حکومتوں میں امن اور سکون بھی رہا، رفاہیت و خوش حالی بھی رہی اور مسلمان سربلند اور سرفراز بھی رہے۔ آجکل اسلامی ملکوں میں فلاحی مملکت کے قیام کا بڑا غلغلہ اور شور ہے اور ہرآنے جانے والا حکمران اس کے دعوے کرتا ہے لیکن ہر اسلامی ملک میں بد امنی، فساد، قتل وغارت اور ادبار و پستی اور زبوں حالی روزِ افزوں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سب اللہ کے بتلائے ہوئے راستے کو اختیار کرنے کے بجائے مغرب کے جمہوری اور لادینی نظام کے ذریعے سے فلاح و کامرانی حاصل کرنا چاہتے ہیں جو آسمان میں تھگلی لگانے اور ہوا کو مٹھی میں لینے کے مترادف ہے۔ جب تک مسلمان مملکتیں قرآن کے بتلائے ہوئے اصول کے مطابق اقامتِ صلوۃ و زکوۃ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام نہیں کریں اور اپنی ترجیحات میں ان کو سرِ فہرست نہیں رکھیں گی وہ فلاحی مملکت کے قیام میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکیں گی ۔

ہماری موجودہ غیر اخلاقی سیاست اور نفرتوں کو فروغ دینے والے ماحول کی حمایت سیاست کا کوئی بھی  نظریہ نہیں کرتا۔ آئیے دیکھتے ہیں موجودہ سیاست کن مفاسد میں گھر چکی ہے۔

  • ہماری سیاست طعن و تشنیع کا مرکز بن چکی ہے۔ ان دنوں ایک دوسرے کی قبریں کھودنے، چیتھڑے اڑانے، طعنہ زنی، عیب جوئی اور تذلیل وتحقیر میں بہت لطف کا ذریعہ بن چکا ہے۔ جبکہ قرآن وسنت کی تعلیمات کی روشنی میں ان عادات واقدار کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان سورۃ الھمزہ میں ہے:

وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ

ھمزۃ – 1

ہلاکت ہے ہر اُس شخص کے لیے جو منہ پر طعنے دیتا ہے اور پسِ پشت عیب جوئی کرتا ہے ۔

طعنہ اور عیب جوئی قران میں تو مذموم ہے ہی اسلام کے علاوہ  بھی کسی مہذب معاشرے میں پسندیدہ نہیں۔

  • غلط خبروں کی تشہیر کی جاتی ہے اور لوگ بلا تردد اس کو پھیلاتے ہیں۔ حالانکہ سورہ حجرات میں رب العزت نے یہ تعلیم دی ہے کہ :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ

الحجرات – 6

اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر تمھارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہو جاؤ۔

قرآن پاک کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی فاسق خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو۔

 لیکن ہمارے ہاں عوام و خواص سب اس غلط خبر کا حصہ بن جاتے ہیں۔

سیاستدان ایک دوسرے کی عزت کو اچھالتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ٹوہ میں لگے رہتے ہیں اور پھر ایسی باتیں تلاش کرتے ہیں جس سے عار دلائی جائے اور اذیت پہنچائی جائے۔ وہ باتیں جو کہ بے دھیانی اور جلد بازی میں منہ سے  نکلتی ہیں۔ ان کا بھی پرچار یوں کیا جاتا ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا مجموعی قومی رویہ آخری حد تک خراب ہو چکا ہے اور تہذیب کا جنازہ نکل رہا ہے۔ ایسے لوگوں کو نبی محترم ﷺ کا فرمان یوں جھنجوڑ رہا ہے:

 رسول اللہ ﷺ منبر پر چڑھے اور بلند آواز سے پکارا: اے لوگو! جو اپنی زبان سے ایمان لائے ہو اور (ابھی) ایمان تمہارے دلوں میں جاگزیں نہیں ہوا‘ مسلمانوں کو ایذا نہ پہنچائو‘ انہیں عار نہ دلائو‘ ان کی پوشیدہ باتوں کے درپے نہ ہو جائو۔ پس بے شک جو اپنے مسلمان بھائی کے پوشیدہ راز کے درپے ہوگا اللہ تعالیٰ اس کی پردہ دری فرمائے گا اور جس کے عیوب کو اللہ ظاہر کر دے وہ رسوا ہو جائے گا خواہ وہ کجاوے میں بیٹھا ہو۔ نافع بیان کرتے ہیں: ایک دن حضرت عبداللہ بن عمرکی نظر بیت اللہ پر پڑی تو انہوں نے کہا: (اے بیت اللہ!) تیری عظمت بے پایاں ہے، تیری حرمت عظیم ہے لیکن ایک (بے قصور)مسلمان (کے خونِ ناحق) کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے‘‘۔2

فیک آڈیوز، ویڈیوز اور حقیقی ویڈیوز کے ذریعے بھی عزتوں کو تار تار کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام تو عیوب کی تشہیر پر قدغن لگاتا ہے تاکہ کوئی کسی کی عزت سے نہ کھیلے۔ قرآن نے اس کے حوالے سے فرمایا:

لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ

النور – 12

اسے سنتے ہی مومن مردوں عورتوں نے اپنے حق میں نیک گمانی کیوں نہ کی اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا صریح بہتان ہے ۔

 میمز اور کارٹونز کے ذریعے رسوائی کا بازار گرم ہے۔ گٹھیا جملے لکھ کر اور شکلیں بگاڑ کر اپنی نفرت اور بغض کا اظہار کیا جاتا ہے جو کہ احسن الخالقین کے خلاف جنگ کے مترادف ہے۔ لیکن ہمارے ہاں اپنی انا کی تسکین کا ذریعہ بن چکا ہے۔

سیاست کی موجودہ صورت حال میں انسانی خون بھی ارزاں ہو چکا ہے۔ سیاسی مقاصد کے حصول اور اپنی ہوس کی تکمیل کے لیے جان لینا بھی کوئی بڑی بات نہیں جس جان کا قتل رب العزت اور خود نبی کریم ﷺ نے منع فرمایا۔

نافع بیان کرتے ہیں: ایک دن حضرت عبداللہ بن عمرکی نظر بیت اللہ پر پڑی تو انہوں نے کہا: (اے بیت اللہ!)تیری عظمت بے پایاں ہے ، تیری حرمت عظیم ہے لیکن ایک (بے قصور)مسلمان (کے خونِ ناحق) کی حرمت اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے‘‘۔3

آخر میں کتاب وسنت کے نظریے کے علاوہ دیگر آراء بھی پیش کروں گی۔ جس سے یہ بات واضح کرنا مقصد ہے کہ سیاست کا مستحسن انداز کیا ہے؟  قرآن کے بیشتر مقامات پر ان سارے لوازمات کو بیان کیا گیا ہے جو کہ ایک حکمران کا خاصا ہیں۔ مثلاً عدل و انصاف، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، مظلوموں سے اظہارِ ہمدردی، انبیاء اور صلحاء کا اندازِ سیاست، بے بس کی حمایت اور ظالم اور ظلم سے نفرت کرنا، لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرنا، معاشرے کو ظلم و ستم اور غیر شرعی کاموں سے آزاد کرنا وغیرہ۔ اگر حدیث کے حوالے سے اس کا مفہوم دیکھا جائے تو عدل و انصاف اور تعلیم و تربیت کرنا ہی سیاست ہے۔ اہلِ علم نے ہمیشہ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کی سیرت ، حیاتِ طیبہ اور پاکیزہ روش ، استعماری قوتوں سے جنگ ، مفاسد کی روک تھام اور نصیحت کو سیاست قرار دیا ہے۔ فلاسفہ کے ہاں بھی اجتماعی زندگی کا سلیقہ اور صحیح اخلاق کی ترویج سیاست ہے۔ لہذا دین ایک ایسا قانون ہے جو بہترین زندگی کا سلیقہ سکھاتا ہے۔

  1. (نظام الدولة في الإسلام»، د/ محمود الصاوي ص:39، ط.أولى، لعام 1418هـ، دار الهداية بمصر)
  2. (سنن ترمذی:2032)
  3. (سنن ترمذی:2032)

مصنف/ مقرر کے بارے میں

بنتِ بشیر