بسم الله والحمد لله والصلاة والسلام علی رسول الله
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں ایک دفعہ پھر رمضان کا بابرکت مہینہ عطا کیا ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں كہ آپ كا روزه الله تعالیٰ كے ہاں قبول ہو تو قرآن وحدیث كی درج ذیل ہدایات پرعمل كیجئے۔
شعبان کی آخری تاریخوں میں روزہ نہ رکھیں
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ :
لَا يَتَقَدَّمَنَّ أحَدُكُمْ رَمَضَانَ بصَوْمِ يَومٍ أوْ يَومَيْنِ، إلَّا أنْ يَكونَ رَجُلٌ كانَ يَصُومُ صَوْمَهُ، فَلْيَصُمْ ذلكَ اليَومَ.
صحیح البخاری – 1914
تم میں سے کوئی شخص رمضان سے پہلے ایک یا دو دن کے روزے نہ رکھے البتہ اگر کسی کا خاص دنوں میں روزہ رکھنے کا معمول ہو تو وہ ان دنوں کے روزے رکھ لے۔
یعنی اگر کوئی شخص پیر اور جمعرات کا روزہ باقاعدگی سے رکھتا چلا آ رہا ہے اور شعبان کے آخری دنوں میں یہ دن آ جائیں تو پھر ان دنوں کا روزہ رکھ لے ۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر روزہ نہ رکھے۔
ماهِ رمضان كے مكمل روزے رکھ لیجئے
جب آپ كو رمضان كا چاند نظر آئے یا اس بات كا علم ہو جائے كہ ماهِ رمضان آچكا ہے تو آپ پر اس ماه كا روزه رکھنا واجب ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ
البقرۃ – 183
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
آپ نے رمضان المبارک کے روزوں کو درج ذیل باتوں کے اہتمام کے ساتھ رکھنا ہے تاکہ رمضان المبارک کے فوائد ، ثمرات اور برکات کے حقیقی مستحق بن سکیں۔
اپنے اعمال کو ریاکاری سے بچائیے
“ریا” کا مطلب ہے کہ اللہ کے علاوہ دوسروں کو دکھانے کے لئے عمل کرنا جبکہ اخلاص کہتے ہیں اللہ کی رضا اور اس کی قربت حاصل کرنے کے لئے عمل کرنا۔ ریا کاری اخلاص کی ضد ہے اور شرکیہ عمل ہے۔ “ریا” میں اللہ کی رضا شامل نہیں ہوتی وہاں عمل کرنے کا مقصد دکھاوا، شہرت، تعریف، قدر و منزلت اور دنیاوی منفعت کا حصول ہوتا ہے اور ان مقاصد کی بنیاد پر کیا گیا عمل اللہ کے مردود و باطل ہے ۔
اللہ کے ہاں عمل کی قبولیت کے لئے دو بنیادی شرطیں ہیں ۔ پہلی شرط یہ ہے کہ عمل میں اخلاص کا پایا جانا اور دوسری شرط کہ عمل کا سنت کے مطابق انجام دیا جانا یعنی وہی عمل اللہ کے یہاں قابلِ قبول ہے جو اخلاص کے ساتھ ( اللہ کی رضا کے لئے ) کیا گیا ہو اور اسے سنت کے مطابق ادا کیا ہوگا۔ لہٰذا كوئی بھی عمل كرنے سے پہلے اپنے اندر اخلاص پیدا كرنا ضروری ہے کیونکہ اگر ریا و نمود مقصود ہو تو ایسے عمل کو اللہ تعالی کسی بھی صورت قبول نہیں فرماتے ۔اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہر کام اخلاص کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ
البینة – 5
اور انہیں صرف اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے صرف ایک اللہ کی عبادت کریں اور بالکل یکسو ہو کر نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں یہی مستحکم دین ہے۔
نبی کریم ﷺ نے اپنی امت پر ریاکاری کا خطرہ محسوس کرتے ہوئے فرمایا تھا:
إنَّ أخوَفَ ما أخافُ عليكُمُ الشِّركُ الأصغرُ: الرِّياءُ، يقولُ اللهُ يومَ القيامةِ إذا جَزَى النَّاسَ بأعمالِهم: اذهَبوا إلى الذينَ كنتم تُراؤونَ في الدُّنيا، فانظُروا هل تَجِدونَ عِندَهم جزاءٍ.
صحیح الترغیب : 32
میں تم پرسب سے زیادہ جس چیز کا خطرہ محسوس کرتا ہوں وہ شرک اصغر کا خطرہ ہے اور وہ ریاکاری ہے. قیامت کے دن جب لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریا کاروں سے اللہ تعالی کہے گا: ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اور دیکھو کیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔
فجر سے پہلے نیت کیجئے
فرض روزے کے لیے شرط ہے کہ اس کی نیت رات کو یا کم از کم طلوعِ فجر سے پہلے پہلے کرلی جائے کیونکہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
من لم يبيِّتِ الصِّيامَ منَ اللَّيلِ فلا صيامَ لَه
صحیح النسائی – 2333
جو روزے کی نیت رات کو نہیں کرتا اس کا روزہ نہیں ہے۔
اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن لم يبيِّتِ الصِّيامَ قبلَ الفجرِ ، فلا صيامَ لَهُ
صحیح النسائی – 2330
جو شخص فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے۔
ان احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ فرض روزہ کی نیت روزانہ رات کو کرنی چاہیے ۔امام ابن خزیمہ نے (انما الاعمال بالنیات) پر باب باندھا ہے کہ: ”روزہ کی نیت فجر طلوع ہونے سے پہلے روزانہ کرنا واجب ہے برخلاف اس آدمی کے جس نے کہا ہے کہ ایک دفعہ کی نیت تمام مہینے کے لیے کافی ہے”۔1
اور امام ابن المنذر النیشابوری فرماتے ہیں: ”اجماع ہے کہ جس نے رمضان کی ہر رات روزہ کی نیت کی اور روزہ رکھا اس کا روزہ مکمل ہے”۔2
ایمان اور ثواب کی نیت سے روزہ رکھیئے
یعنی روزہ دار کی نیت اللہ کی رضا جوئی اور آخرت کا اجر و ثواب ہونا چاہئے. دنیا کی واہ واہ لوٹنا یا روزہ دار کی حیثیت سے شہرت پانا مقصود نہ ہو. اخلاص ہر عمل کی روح ہے اس کے بغیر نہ نماز قبول ہے نہ روزہ اور نہ کوئی دوسری عبادت. اسی کو حدیث شریف میں ایمان و احتساب سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ایمان اور ثواب کی نیت سے روزہ رکھنا ہے کیونکہ روزہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسی وقت قبول ہوگا جب آپ ایمان اور ثواب کی نیت سے رکھا جائے گا اسی لئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
مَن صَامَ رَمَضَانَ، إيمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ.
صحیح البخاری – 38
جو ایمان اور احتساب کے ساتھ رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
آنکھ، کان اور زبان کا بھی روزہ ہے
روزہ صرف کھانے پینے سے اجتناب کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر طرح کے چھوٹے بڑے گناہوں سے بچیں، شراب نوشی، نشہ خوری، سٹہ بازی، بدنظری، زناکاری، فتنہ پروری، دھوکہ دہی، جھوٹ، غیبت، چغل خوری، جھگڑا، گالی گلوچ ، مارپیٹ وغیرہ سے مکمل طور پر پرہیز کریں، آنکھ سے غیر محرم کو نہ دیکھیں، کان سے موسیقی اور گانے نہ سنیں۔ اگر آنکھ، کان اور زبان کو تما م برائیوں اور گناہوں سے باز رکھا تو رمضان ہمارے لئے فائدہ مند ہوگا بصورتِ دیگر اللہ تعالیٰ کو ہمارے دن بھر بھوکا اور پیاسا رہنے کی کوئی ضروت نہیں ہے کیونکہ روزے کی حکمتوں اور اس کے عظیم مقاصد میں سے تقویٰ کا حصول، شہوت کو توڑنا اور نفس کو تابع کرنا ہے۔ روزے کا مقصد مسلمان کے لیے صرف کھانے پینے سے منع کرنا نہیں ہے بلکہ نفس کی اصلاح اور تربیت مقصود ہے۔
چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:
مَن لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ والعَمَلَ به، فليسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ في أنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وشَرَابَهُ.
صحیح البخاری – 1903
جس نے بیہودہ باتوں اور بیہودہ کاموں سے اجتناب نہ کیا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکے اور پیاسے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
رمضان المبارک کا تقاضہ
رمضان المبارک کا مہینہ ایک پکے ، سچے، مومن ، متقی سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ جب روزہ کی حالت میں ہم عام حالات میں اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں یعنی کھانے پینے اور جماع سے رک جاتے ہیں تو وہ چیزیں جو پورے سال ہر حال میں حرام ہیں یعنی جھوٹ ، غیبت، چغل خوری ، سود خوری ، رشوت خوری ، لڑائی، جھگڑا ، مال حرام کا کھانا ، حسد، بغض ، بد نظری وغیرہ کے ساتھ ساتھ ٹی وی ، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے بھی دور رہنے کی پوری فکر کرنی چاہئے کیونکہ یہ چیزیں خرافات کا مجموعہ ہیں۔ ان چیزوں سے اکثر بے حیائی ، موسیقی اور اختلاطِ مرد و زن کی محفلوں کے سوا کچھ اور نشر نہیں ہوتا جو رمضان المبارک کے بے پناہ اجر و ثواب اور برکات کو ختم کرتی ہیں تبھی جا کر ہم روزے کا پورا حق ادا کر سکتے ہیں ۔ ورنہ سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی اجر وثواب حاصل نہیں ہوگا جیسا کہ رسول كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ربَّ صائمٍ ليسَ لَه من صيامِه إلَّا الجوعُ وربَّ قائمٍ ليسَ لَه من قيامِه إلَّا السَّهرُ
صحیح ابن ماجہ – 1380
بہت سارے روزے دار ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں بھوک کے سوا کچھ نہیں ملتا اور بہت سے راتوں كو قیام كرنے والے ایسے ہیں كہ انہیں سوائے نیند سے جاگنے كے اور كچھ نهیں ملتا ۔
یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو روزے کا حق ادا نہیں کرتے ہیں اور روزے کی حالت میں سارے گناہ کرتے رہتے ہیں ۔ اس لئے صرف بھوک پیاس کے علاوہ انھیں کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔ گویا ان لوگوں نے روزے رکھے لیکن روزے کے ثواب سے محروم رہے۔
سحری مت چھوڑئیے
کچھ لوگ رات کو ہی خوب کھا پی کر سو جاتے ہیں اور سحری کے لئے بیدار نہیں ہوتے۔ جب سحری کے لئے بیدار نہیں ہوتے تو نمازِ فجر سے بھی محروم ہو جاتے ہیں جو نہایت ہی بد بختی کی علامت ہے پھر سحری نہ کھانے کی وجہ سے سحری کی برکت سے بھی محروم رہتے ہیں اور دن بھر بھوک اور پیاس کی شدت کو محسوس کرتے ہیں ۔ رسولِ کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ :
تَسَحَّرُوا؛ فإنَّ في السَّحُورِ بَرَكَةً
صحیح البخاری – 1923
سحری کھایا کرو اس لئے کہ سحری کھانے میں یقینا برکت ہے۔
سحری چھوڑنا یہود ونصاری کی موافقت ہے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
فَصْلُ ما بيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الكِتَابِ، أَكْلَةُ السَّحَرِ.
صحیح مسلم – 1096
ہمارے اور اہل کتاب (یہود ونصاری) کے روزوں کے درمیان فرق سحری کھانا ہے۔
یعنی سحری کھانا جہاں باعث برکت ہے وہاں یہود و نصاری کی مخالفت ہے لہذا ہمیں یہود و نصاری کی مخالفت کرتے ہوئے سحری ضرور تناول کرنا چاہیے اگرچہ تھوڑا سا ہی کیوں نہ ہو۔
افطاری میں جلدی کیجئے
حضرت سہل بن سعد رضی الله عنه سے روایت ہے كہ رسول كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
لا يَزَالُ النَّاسُ بخَيْرٍ ما عَجَّلُوا الفِطْرَ.
صحیح البخاری – 1957
لوگ ہمیشہ بھلائی میں رہیں گے جب تک وه روزه كھولنے میں جلدی كرتے رہیں گے۔
إِنَّا معشرَ الأنبياءِ ، أُمِرْنَا أنْ نُّعجِلَ إفطارَنا ، ونؤخِرَ سحورَنا ، ونَضَعَ أيمانَنَا عَلَى شمائِلِنا في الصلاةِ
صحیح الجامع – 2286
ہم انبیاء علیہم السلام کی جماعت کو حکم دیا گیا ہے کہ ہم سحری تاخیر سے اور افطار جلدی سے کریں۔ افطاری دیر سے كرنا یہود و نصاری كی علامت ہے۔
لا يزالُ الدِّينُ ظاهرًا ما عجَّلَ النَّاسُ الفِطرَ لأنَّ اليَهودَ والنَّصارى يؤخِّرونَ3
دینِ اسلام اس وقت تک بلند رہے گا جب تک لوگ روزہ افطار کرنے میں جلدی کریں گے کیونکہ یہودی اور نصاریٰ دیر سے روزہ افطار کرتے ہیں۔
وقت پر نمازوں کا اہتمام
عام حالات میں بھی وقت پر فرض نمازوں کی دائیگی ضروری ہے لیکن رمضان کے دنوں میں تو اس کا کچھ زیادہ ہی اہتمام کرنا چاہئے۔ بہت سے لوگ روزہ رکھ کر سو جاتے ہیں انہیں نمازوں کی پرواہ بھی نہیں ہوتی حالانکہ قرآن کریم میں صاف طورپر فرما دیا گیا ہے :
إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا
النساء – 103
یقیناً نماز مومنوں پر مقررہ وقتوں پر فرض ہے۔
اس آیت میں نماز کو مقررہ وقت میں پڑھنے کی تاکید ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغیر شرعی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس طرح کم از کم ایک نماز غیر وقت میں پڑھی جائے گی جو اس آیت کے خلاف ہے۔ اسی طرح کسی عذرِ شرعی کے بغیر نماز کو وقت متعین سے مؤخر کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم ایک عبادت کے لیے دوسری عبادت میں کوتاہی کر رہے ہیں حالانکہ ہر عبادت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو صحیح وقت پر صحیح طریقے سے ادا کیا جائے۔
جھگڑوں ، گالیوں اور چیخنے چلّانے سے اجتناب كیجئے
قالَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: قالَ اللهُ: كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ له، إلَّا الصِّيَامَ، فإنَّه لي وأَنَا أجْزِي به، والصِّيَامُ جُنَّةٌ، وإذَا كانَ يَوْمُ صَوْمِ أحَدِكُمْ فلا يَرْفُثْ ولَا يَصْخَبْ، فإنْ سَابَّهُ أحَدٌ أوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ إنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ
صحیح البخاری – 1904
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، اللہ پاک فرماتا ہے کہ انسان کا ہر نیک عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ گناہوں کی ایک ڈھال ہے۔ اگر کوئی روزے سے ہو تو نہ وہ فحش گوئی کرے اور نہ شور مچائے۔ اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا لڑنا چاہے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار آدمی ہوں۔
مختلف احادیث کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ کوئی کتنا ہی برا سلوک کیوں نہ کرے مگر روزہ دار کو اپنے غصے پر قابو رکھنا چاہیے۔ حقیقت میں روزہ باطنی بیماریوں جیسے بد اخلاقی ، غیبت، بد کلامی وغیرہ کا خاتمہ کرتا ہے اور تزکیہ نفس کی تعلیم دیتا ہے۔ ذکر شدہ حدیث مبارکہ کے مطابق بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو روزے سے صرف بھوک اور پیاس ملتی ہے۔ یعنی ان لوگوں کو روزے کی اصل روح ، صبر، برداشت ، تحمل، سکون اور اللہ کا قرب حاصل نہیں ہوتا۔ لہٰذا ماہِ رمضان کو عبادات ، برکات اور گناہوں کی بخشش کے طور پر ہی لینا چاہئے تاکہ ہماری دُنیا و آخرت سنور جائے اور خود اصلاحی عمل کا آغاز ہمیں اپنی ذات اور اپنے اہلِ خانہ سے کرنا چاہئے۔ ہم خود بھی روزہ ، نماز کی پابندی کریں، اپنے بیوی بچوں اور عزیز و اقار ب کو بھی اس کا پابند بنائیں۔ اپنے اچھے رویے اور حسن سلوک سے بچوں کی تربیت کریں۔
حرام كمائی سے اجتناب
جن لوگوں کی کمائی حلال نہیں ہے یا اکثر کمائی تو حلال ہے لیکن کچھ فیصد حرام مال کی بھی آمیزش ہے یا آدھی کمائی حلال ہے اور باقی آدھی حرام ہے تو ان سے گزارش ہے کہ وہ یہ طے کریں کہ رمضان کے مہینہ میں ایک لقمہ بھی حرام کا پیٹ میں نہیں جانے دیں گے كیونكہ الله تعالیٰ اس شخص كی دعا كبھی قبول نہیں فرمائے گا جس کا کھانا حرام ہو ، جس کا پینا حرام ہو اور جس کا اوڑھنا حرام ہو ۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :
ثُمَّ ذَكَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أشْعَثَ أغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إلى السَّماءِ، يا رَبِّ، يا رَبِّ، ومَطْعَمُهُ حَرامٌ، ومَشْرَبُهُ حَرامٌ، ومَلْبَسُهُ حَرامٌ، وغُذِيَ بالحَرامِ، فأنَّى يُسْتَجابُ لذلكَ؟!
صحیح مسلم – 1015
آپ ﷺ نے ایسے آدمی کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے۔ اس کے بال پراگندہ اور گرد آلود ہوتے ہیں۔ وہ آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر کہتا ہے ”اے میرے رب ! ایے میرے رب! ‘‘مگر اس کا حال ایسا ہے کہ اس کا کھانا حرام کا ہے ، اس کا پینا حرام کا ہے ، اس کا لباس حرام کا ہے اور اس کی پرورش حرام غذا سے ہوئی ہے تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی؟”
لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ایسی مبارک گھڑی میں ہماری دعائیں سنی جائیں تو ہمیں اپنا کھانا پینا حلال و پاکیزہ بنانا ہوگا ۔ رمضان سے مستفید ہونے کے لئے لازمی ہے کہ اپنے پیٹ کو حرام مال سے پاک رکھے۔
بد دعائیں دینے سے اجتناب کیجیئے
انسان جب كسی سے تنگ آ جاتا ہے تو فوراً بد دعائیں دینی شروع کر دیتا ہے حتیٰ کہ اپنی اولاد کو اور اپنے آپ کو بھی بد دعائیں دینے سے گریز نہیں کرتا۔ ایسا نہیں كرنا چاہئے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
لا تَدْعُوا علَى أَنْفُسِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا علَى أَوْلَادِكُمْ، وَلَا تَدْعُوا علَى أَمْوَالِكُمْ، لا تُوَافِقُوا مِنَ اللهِ سَاعَةً يُسْأَلُ فِيهَا عَطَاءٌ، فَيَسْتَجِيبُ لَكُمْ.
صحیح مسلم – 3009
“اپنے لیے بددعا نہ کرو، اپنی اولاد کے لیے بددعا نہ کرو،اپنے مال وکاربار کےلیے بددعانہ کرو،کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری بددعا ایسی گھڑی کے موافق ہوجائے جس میں اللہ تعالیٰ انسان کو وہ کچھ عطا فرمادیتا ہے جس کا وہ سوال کرتاہے،اور یوں وہ تمہاری بددعائیں تمہاری ہی حق میں قبول کرلی جائیں۔
مظلوم کی بد دعا سے بچیئے
رمضان المبارک کے روزوں کا تقاضہ ہے کہ مسلمان دوسرے مسلمان بلکہ کسی بھی انسان پر ظلم نہ کرے۔اس لیے کہ مظلوم کی بد دعا فوراً عرش پر پہنچتی ہے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:
واتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ؛ فإنَّه ليسَ بيْنَهُ وبيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ.
صحیح البخاری – 1496
“مظلوم کی بد دعا سے بچو اس لیے کہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی آڑ نہیں ہوتی”۔
توبہ و استغفار كیجئے
كوئی كتنا ہی الله تعالیٰ كو بھول گیا ہو یا کوئی کتنا ہی گناہوں کی دلدل میں زندگیاں گزار رہا ہو اگر خلوصِ دل اللہ رب العزت کی طرف رجوع کر لیں تو اللہ ارحم الراحمین کا دروازہ ہمیں کھلا ہوا ملے گا۔
قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
الزمر – 53
کہہ دے اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی! اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ۔ بے شک اللہ سب کے سب گناہ بخش دیتا ہے۔ بے شک وہی تو بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
ایمان لانے سے قبل یا استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کیے ہوں انسان یہ نہ سمجھے کہ میں تو بہت زیادہ گناہ گار ہوں مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا؟ بلکہ سچے دل سے اگر ایمان قبول کرلے گا یا توبۃ النصوح کرلے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔
ندامتِ قلب کے ساتھ ہمیشہ کے لئے گناہ سے رک جانا توبہ ہے جبکہ ماضی کے گناہوں سے معافی مانگنا ’’استغفار‘‘ ہے۔ ’’توبہ‘‘ اصل ہے جبکہ توبہ کی طرف جانے والا راستہ ’’استغفار‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ ھود میں توبہ سے قبل استغفار کا حکم فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :
فَاسْتَغْفِرُوْهُ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَيْهِ اِنَّ رَبِّيْ قَرِيْبٌ مُّجِيْبٌ
ھود – 61
سو تم اس سے معافی مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو۔ بیشک میرا رب قریب ہے دعائیں قبول فرمانے والا ہے۔
کثرتِ توبہ و استغفارمنہجِ نبوی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ تُوبُوا إلى اللهِ، فإنِّي أَتُوبُ في اليَومِ إلَيْهِ مِئَةَ مَرَّةٍ.
صحیح مسلم – 2702
لوگو! اللہ کی طرف توبہ کیا کرو کیونکہ ایک دن میں اللہ سے سو بار توبہ کرتا ہوں۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
واللہِ إنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وأَتُوبُ إلَيْهِ في اليَومِ أكْثَرَ مِن سَبْعِينَ مَرَّةً.
صحیح البخاری – 6307
اللہ کی قسم! میں اپنے رب کے سامنے ایک دن میں سترمرتبہ سے زیادہ توبہ واستغفار کرتا ہوں ۔
توبہ و استغفار کے معاملے میں رسولِ کریم ﷺ کا طریقہ
رسول اللہ ﷺ نے توبہ واستغفار کے معاملے کو وفات سے قبل مزید بڑھا دیا تھ. چنانچہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان رَسولُ اللهِ ﷺ يُكثِرُ أنْ يَقولَ قَبلَ مَوتِه: سُبحانَ اللهِ وبحَمدِهِ، أستَغفِرُ اللهَ، وأتوبُ إليه4
رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے قبل کثرت کے ساتھ یہ کہنا شروع کر دیا تھا: اللہ تعالیٰ پاک ہے، اسی کے لئے ہر قسم کی حمد ہے، میں اللہ تعالی ٰسے اپنے گناہوں کی استغفار طلب کرتا ہوں۔ اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
یہ عام حالات میں نبی کریم ﷺ کی عادتِ مبارکہ تھی حالانکہ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفور لہ تھی۔
رمضان المبارك كی بابركت راتوں میں انسان ایک کمزور اور بے بس انسان اپنے رب کی رحمت، فضل اور احسان طلب کرنے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کو اٹھا دیتا ہے تو اس وقت اللہ رب العزت توبہ و رحمت کے دروازے کھول کر اپنے بندوں کے قریب تر آجاتے ہیں۔ گناہوں اور معصیتوں کے سمندروں میں ڈوبے ہوئے انسانوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے کہ ہم کس قدر توبہ و استغفار کے محتاج ہیں؟
ناراض لوگوں کو منایئے
دورِ حاضر میں باہمی عداوت، انتقامی کارروائیاں، لڑائیاں اور جھگڑے، قطع تعلق اور ناراضگیاں، معمولی باتوں پر آپے سے باہر ہو کر ظلم و زیادتی کرنا، غصہ اور جھنجھلاہٹ، گالی گلوچ اور اس طرح کی برائیاں معاشرے کا کلچر بنتا جا رہا ہے۔ قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں میں باہمی معاملات بگاڑ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں اور سلام دعا بھی ترک کر دیتے ہیں۔ قصور معاف کرنا اور صبر و برداشت سے کام لینا مسلمان کی بنیادی صفات ہیں جن سے ہم محروم ہوتے جا رہے ہیں اور سمجھتے نہیں کتنا بڑا نقصان کر رہے ہیں۔ بنی ﷺ نے فرمایا :
ليسَ الشَّدِيدُ بالصُّرَعَةِ، إنَّما الشَّدِيدُ الذي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الغَضَبِ.
صحیح البخاری – 6114
بہادر وہ نہیں جو دوسرے کو پچھاڑ دے۔ حقیقت میں بہادر تو وہ ہے جو غصے كے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہو۔
رمضان المبارك کے ثمرات سے مستفید ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپس کی رنجشوں اور ناراضگیوں کو ختم کر دیں۔ اگر آپ اپنے بھائیوں، دوستوں، عزیزوں اور قریبی رشتہ داروں میں سے کسی سے خفا ہیں تو صلح کرکے یہ ناراضگی اور رنجشیں دور کر لیں کیونکہ ناراضگی کی موجودگی میں آپ کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوگی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
تُفْتَحُ أبْوابُ الجَنَّةِ يَومَ الإثْنَيْنِ، ويَومَ الخَمِيسِ، فيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لا يُشْرِكُ باللَّهِ شيئًا، إلَّا رَجُلًا كانَتْ بيْنَهُ وبيْنَ أخِيهِ شَحْناءُ، فيُقالُ: أنْظِرُوا هَذَيْنِ حتَّى يَصْطَلِحا، أنْظِرُوا هَذَيْنِ حتَّى يَصْطَلِحا، أنْظِرُوا هَذَيْنِ حتَّى يَصْطَلِحا. وقالَ قُتَيْبَةُ: إلَّا المُهْتَجِرَيْنِ.
صحیح مسلم – 2565
ہر جمعرات اور پیر کے دن اعمال پیش کئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو معاف فرما دیتا ہے جو کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہراتا ہو سوائے اس شخص کے جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان ناراضگی ہو تو اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ان دونوں کو چھوڑ دو حتی کہ یہ آپس میں صلح کرلیں ۔
ليسَ الواصِلُ بالمُكافِئِ، ولَكِنِ الواصِلُ الذي إذا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وصَلَها.
صحیح البخاری – 5991
کسی کام کا بدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کے ساتھ صلہ رحمی کا معاملہ نہ کیا جا رہا ہو تب بھی وہ صلہ رحمی کرے۔
یعنی وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو برابر سرابر کا معاملہ کرنے والا ہو بلکہ صلہ رحمی کرنے والا دراصل وہ ہے جو دوسرے کے توڑنے پر صلہ رحمی کرے۔
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ:
لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي: يا عقبة بن عامر! صِل من قطعك، وأعط من حرمك، واعف عمن ظلمك5
میں رسول اللہ ﷺ سے ملا تو آپ نے مجھے فرمایا: اے عقبہ بن عامر! جو تم سے تعلق توڑے اس سے صلہ رحمی کرو، جو تمہیں محروم کرے اسے عطا کرو، جو تم پر ظلم کرے اس سے در گزر کرو۔
نمازِ تراویح كا اہتمام كیجئے
الله تعالیٰ نے اپنے كلامِ مجید میں نیک بندوں كی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا
الفرقان – 64
اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کرتے ہوئے رات گزارتے ہیں۔
یعنی اللہ کے نیک بندے راتوں کو بھی اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہتے۔ بلکہ انہیں رات کو عبادت میں زیادہ مزا آتا ہے۔ اس لئے کہ ایک تو رات کی عبادت میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا۔ دوسرے رات کی تنہائیوں میں بندہ جس طرح اللہ کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے اور مناجات کرسکتا ہے دن کو نہیں کرسکتا۔ اسی لئے احادیث میں رات کی عبادت اور بالخصوص نماز تہجد کی بہت فضیلت مذکور ہے۔
قیام اللیل گناہوں کی معافی اور گناہوں سے بچنے کا سبب ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَن قَامَ رَمَضَانَ إيمَانًا واحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ6
جس نے رمضان میں ایمان واخلاص کے ساتھ اور اللہ سے اجر کی توقع کے ساتھ قیام کیا اس کے تمام سابقہ گناہ معاف ہو گئے۔
قیام اللیل برائیوں کا کفارہ اور گناہوں کا خاتمہ کرنے کا سبب ہے
آپ ﷺ نے فرمایا:
عليكُم بقيامِ اللَّيلِ ، فإنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحينَ قبلَكُم ، و قُربةٌ إلى اللهِ تعالى ومَنهاةٌ عن الإثمِ و تَكفيرٌ للسِّيِّئاتِ ، ومَطردةٌ للدَّاءِ عن الجسَدِ7
تم لوگ قیام اللیل یعنی تہجد کا اہتمام کرو اس لئے کہ یہ تم سے پہلے نیک لوگوں کا طریقہ رہا ہے اور یہ تمهارے رب کی قربت کے حصول کا ذریعہ ہے، تمہارے برائیوں کا کفارہ اور تمہارے گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور تمہارے جسموں سے بیماریوں کو دور کر دینے والی ہے “۔
دعاؤں كا اہتمام كیجئے
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے احکام و مسائل کے درمیان دعا کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ
البقرۃ – 186
اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں۔ میں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے تو لازم ہے کہ وہ میری بات مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔
اس آیت سے پہلے اور بعد میں ماہِ رمضان کا ذکر ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماہِ رمضان خصوصاً روزے کی حالت دعا کی قبولیت کا خاص سبب ہے اور پھر افطار کا وقت قبولیتِ دعا کا وقت ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمُ الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَالصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ يَرْفَعُهَا اللَّهُ دُونَ الْغَمَامِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَتُفْتَحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ: بِعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ8
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی: (1) عادل امام کی (دعا)، (2) روزہ دار کی (دعا) یہاں تک کہ روزہ کھولے، (3) مظلوم کی (دعا) اللہ تعالیٰ اس کی دعا قیامت کے دن بادل سے اوپر اٹھائے گا اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میری عزت کی قسم! میں تمہاری مدد ضرور کروں گا گرچہ کچھ زمانہ کے بعد ہو۔
کونسی دعا زیادہ مانگی جائے؟
حضرت عباس بن مطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللہِ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَسْأَلُهُ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللہَ الْعَافِيَةَ، فَمَكَثْتُ أَيَّامًا، ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللہِ عَلِّمْنِي شَيْئًا أَسْأَلُهُ اللہَ فَقَالَ لِي: يَا عَبَّاسُ يَا عَمَّ رَسُولِ اللہَ سَلِ اللہَ الْعَافِيَةَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ
صحیح الترمذی – 3514
میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جسے میں اللہ رب العزت سے مانگتا رہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اللہ سے عافیت مانگو“ پھر کچھ دن رک کر میں رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے میں اللہ سے مانگتا رہوں۔ آپ نے فرمایا: ”اے عباس! اے رسول اللہ ﷺ کے چچا! تم اللہ سے دنیا و آخرت میں عافیت طلب کرو۔
اہم دعائیں اور اس کے الفاظ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا:
ما من دعوةٍ يدعو بها العبدُ أفضلُ من (اللَّهمَّ إنِّي أسألُك المعافاةَ في الدُّنيا والآخرةِ)
صحیح ابن ماجہ – 3120
کوئی بندہ جو بھی دعا مانگے وہ اس دعا سے افضل نہیں ہوسکتی: اے اللہ ! میں تجھ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کرتا ہوں۔
دوسری حدیث میں آتا ہے کہ جس نے رات کو اٹھ کر مندرجہ ذیل وظیفہ پڑھ کر دعا مانگی یا نماز پڑھی بارگاہِ الہی میں قبول ہوگی :
(لا إلَهَ إلَّا اللہُ وحْدَهُ لا شَرِيكَ له، له المُلْكُ وله الحَمْدُ، وهو علَى كُلِّ شيءٍ قَديرٌ، الحَمْدُ لِلہِ وسُبْحَانَ اللہِ ولَا إلَهَ إلَّا اللہُ واللہُ أَكْبَرُ، ولَا حَوْلَ ولَا قُوَّةَ إلَّا باللہِ ) ثُمَّ قالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، أوْ دَعَا؛ اسْتُجِيبَ له، فإنْ تَوَضَّأَ وصَلَّى قُبِلَتْ صَلَاتُهُ.
صحیح البخاری – 1154
صدقہ وخیرات کیجئے
احادیث میں صدقے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس کا اجر سات سو گنا تک ملتا ہے پھر اگر صدقہ وخیرات لوگوں کی ضرورت کے موقع پر ہو تو اس کی فضیلت اور بڑھ جاتی ہے۔ صدقہ و خیرات کا مطلب اللہ کی رضا جوئی کے لیے فقراء و مساکین، یتامی و بیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا افراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ان کی خبر گیری کرنا، بے لباسوں کو لباس پہنانا، بھوکوں کو غلہ فراہم کرنا، بیماروں کاعلاج معالجہ کرنا، یتیموں اور بیواؤں کی سر پرستی کرنا، معذوروں کا سہارا بننا، مقروضوں کو قرض کے بوجھ سے نجات دلانا اور اس طرح کے دیگر افراد کے ساتھ تعاون وہمدردی کرنا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ :
كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أجْوَدَ النَّاسِ، وكانَ أجوَدُ ما يَكونُ في رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وكانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ في كُلِّ لَيْلَةٍ مِن رَمَضَانَ، فيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ أجْوَدُ بالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ
صحیح البخاری – 3220
رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور آپ کی سخاوت رمضان شریف کے مہینے میں اور بڑھ جاتی جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کے لیے ہر روز آنے لگتے۔ جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ سے رمضان کی ہر رات میں ملاقات کے لیے آتے اور آپ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ خصوصاً اس دور میں جب جبرائیل علیہ السلام روزانہ آپ سے ملاقات کے لیے آتے تو آپ خیرات و برکات میں تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔
غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھیئے
ماهِ رمضان كے ان بابركت ایام میں غریبوں اور مسکینوں کا خیال رکھیئے خاص کر كم آمدنی والے غریب گھرانے اس ماہ کے اندرکھانے پینے کی چیزوں کے زیادہ محتاج ہوتے ہیں تو ایسے ایام میں صدقہ کی فضیلت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ ہمارے محلے میں، پڑوس میں اور ہمارے آس پاس کے علاقے میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو کم آمدنی کے باعث اس ماہِ مبارک میں سحری وافطاری کا انتظام نہیں کر سکتے تو اہلِ ثروت ومخیر حضرات کیلئے ایسے نادار لوگوں کی مدد کرنا اجر و ثواب کمانے کا بڑا موقعِ غنیمت ہے اور اس کے فضائل بھی کثرت سے وارد ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللَّهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ
صحیح مسلم – 2699
جو شخص کسی مسلمان کی دنیاوی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور کر دے تو اللہ اس کی قیامت کی تکالیف میں سے کوئی تکلیف دور فرمائے گا اور جس نے کسی نادار و تنگ دست محتاج کے ساتھ آسانی و نرمی کا رویہ اپنایا تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ دنیا و آخرت میں آسانی کا رویہ اپنائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کا عیب چھپائے گا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کا عیب چھپائے گا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد میں رہتا ہے جب تک کہ بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ الله وَأَحْسِبُهُ قَالَ : كَالْقَائِمِ لَا يَفْتُرُ وَكَالصَّائِمِ لَا يُفْطِرُ
صحیح البخاری – 6007
بیواؤں اور مساکین کی مدد کرنے والا اور ان پر خرچہ کرنے والا مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے یا وہ مسلسل قیام کرنے والے اور روزے رکھنے والے شخص کی طرح ہے۔
سلف صالحین میں کھانا کھلانے کا ذوق و جذبہ بڑا عام تھا اور یہ سلسلہ بھوکوں اور تنگ دستوں کو ہی کھلانے تک محدود نہ تھا بلکہ دوست احباب اور نیک لوگوں کی دعوت کرنا کا بھی شوق فراواں تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان تمام اعمال سے بچائے جو جنت میں جانے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ایسے اعمال کرنے کی توفیق سے نوازے جو ہمیں رحمت ومغفرتِ الٰہی کامستحق بنا دیں۔آمین!