4 مارچ 2022 بروز جمعہ پاکستان کے شہر پشاور میں دورانِ جمعہ دل دہلادینے دہشت گردی کاواقعہ پیش آیا، جس کے نتیجے میں 70 سے زائد نمازی شہید ہو گئے ۔ سانحہ پشاور سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ انسانیت دشمن دہشت گرد عناصر ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں ۔یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ نہتے شہریوں کو عین عبادت کے موقع پر دہشت گردی کا نشانہ بناکر خون میں نہلا دیا گیا ہو ۔بلکہ اس سے قبل بھی مسجدوں اور امام بارگاہوں کو خون سے رنگین کیا جاتا رہا ہے ،مگر یہ بات سمجھ سے بالاترہے کہ شہر کی ایک مرکزی عبادت گاہ میں سیکورٹی کا اتنا ناقص انتظام کیسے تھا کہ حملہ آور مسجد کے گیٹ پر تعینات پولیس اہلکاروں پر فائرنگ کر کے بآسانی مسجد کے اندر گھسنے میں کامیاب ہوگئے ،باوجود اس کے کہ شہر پشاور پہلے بھی انسانیت دشمن درندوں کا خاص ہدف رہا ہے،اسلام اور انسانیت کے دشمن عناصر عام نمازوں کے بجائے جمعہ کا انتخاب اس لیے کرتے ہیں کہ اس موقع پر زیادہ نمازی جمع ہوتے ہیں، اور پھر بے گناہ لوگوں کو خون میں نہلا کر اپنی شیطانی فطرت کی تسکین کرتے ہیں، انسانیت کے دشمن یہ عناصر ایک ایسی سوچ وفکر پر کاربند ہیں جو اپنے علاوہ کسی کو مسلمان نہیں سمجھتے اور بے گناہ شہریوں کے قتل کرنے کو کار ثواب اور باعث اجر سمجھتے ہیں ۔ اس شدت پسندانہ فکر وسوچ کے خلاف سب کو مل کر جد وجہد کرنے کی ضرورت ہے۔
آپریشن ضرب عضب کے بعد امن وامان کی صورتحال کافی حد تک بہتری آئی تھی مگر اب ایسا لگتا ہے دہشت گرد پھر سے سرگرم ہو گئے ہیں، جو ہمارے سیکورٹی اداروں اور ایجنسیوں کے لیے ایک چیلنج ہے، اس کے ساتھ ہمیں اپنے صفوں میں چھپے دشمن عناصر کی کھوج لگانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔اس دہشت گردی میں ہمارے پڑوسی ملک بھارت کے عزائم کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جب بھی پاکستان میں غیر ملکی ٹیم سیریز کھیلنے پاکستان آتی ہے تو بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے، لہذا تمام سیکورٹی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اعلی پیمانے پر تحقیق کرکے سانحہ پشاور کے ذمہ داروں کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرکے انسانیت دشمن عناصر کی سازشوں کو ناکام بنایا جائے ۔
یہاں پر قرآن وحدیث کی روشنی میں چند باتیں بیان کی جاتی ہیں تاکہ معصوم جانوں کو بے دریغ قتل کرنے والوں کو معلوم ہوجائے کہ اﷲ اور اُس کے ﷺ کے نزدیک ایک مومن کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی کیا اہمیت ہے، مومن کی حرمت کیا ہے، ایک مومن کے لیے رسول اللہ ﷺنے کیا فرمایاہے ۔
اسلام میں مسلمانوں کے جان و مال کا احترام
اِسلام تکریم اِنسانیت کا دین ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کو نہ صرف اَمن و آشتی، تحمل و برداشت اور بقاء باہمی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے۔ یہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ رنگ و نسل تمام انسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا
المائدۃ – 32
جو کوئی کسی کو قتل کرے، جبکہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلہ لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا، اور جو شخص کسی کی جان بچالے، تو یہ ایسا ہے، جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔
یعنی ایک شخص کے خلاف قتل کا یہ جرم پوری انسانیت کے خلاف جرم ہے، کیونکہ کوئی شخص قتلِ ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے، جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا احساس مٹ جائے، ایسی صورت میں اگر اس کے مفاد یا سرشت کا تقاضا ہوگا تو وہ کسی اور کو بھی قتل کرنے سے دریغ نہیں کرے گا، اور اس طرح پوری انسانیت اس کی مجرمانہ ذہنیت کی زد میں رہے گی، نیز جب اس ذہنیت کا چلن عام ہو جائے تو تمام انسان غیر محفوظ ہو جاتے ہیں، لہذا قتلِ ناحق کا ارتکاب چاہے کسی کے خلاف کیا گیا ہو، تمام انسانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ جرم ہم سب کے خلاف کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قرآن وحدیث میں انسانی جان کی قدر ومنزلت
انسانی جان کی قدر ومنزلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں ہمیں شرک سے منع کیا ہے وہیں ناحق انسانی جان لینے کو بھی حرام قرار دیاہے، اللہ تعالیٰ نے جہاں بھی گناہ کبیرہ کا ذکر فرمایا ہے وہاں شرک کے فوراً بعد قتلِ نفس کا ذکر ضرور کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ
الأسراء – 33
اور جس جان کو اللہ نے حرمت عطا کی ہے، اسے ناحق قتل نہ کرو۔
یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ لفظ مسلمان یا مومن استعمال نہیں کیا گیا بلکہ لفظ ’’ناس‘‘ ہے، یعنی انسان خواہ اس کا عقیدہ کچھ بھی ہو، جب تک وہ کوئی ایسا گناہ نہ کرے، جس کی سزا قتل ہو، اس کی جان محفوظ ہے۔ سزا کا تعین بھی اللہ نے ہر مسلمان پر نہیں چھوڑا بلکہ اہل علم اورعدالت کو حق ہے کہ وہ کسی انسان کے جرم کا تعین کریں اور اسلامی قانون کے مطابق سزا تجویز کریں۔
مساجد پر حملہ كرنے والے سب سے بڑے ظالم ہیں
اِعتقادی، فکری یا سیاسی اِختلافات کی بنیاد پر مخالفین کی جان و مال یا مقدس مقامات پر حملے کرنا نہ صرف غیر اسلامی بلکہ غیر انسانی فعل بھی ہے۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے اللہ کے گھروں کا تقدس پامال کرنے والے اور وہاں لوگوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے والے ہرگز نہ تو مومن ہو سکتے ہیں اورنہ ہی ہدایت یافتہ۔ مسجدوں میں خوف و ہراس کے ذریعے اللہ کے ذکر سے روکنے اور انہیں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے ویران کرنے والوں کو قرآن نے نہ صرف سب سے بڑا ظالم قرار دیا ہے، بلکہ انہیں دنیا و آخرت میں ذلت آمیز عذاب کی وعید بھی سنائی ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ
البقرۃ – 144
اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کا نام ذکر کرنے سے روکے اور اس کی خرابی کے درپے ہو؟ انہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مسجدوں میں اللہ سے ڈرتے ڈرتے داخل ہوتے۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے انسانی جان کو ہمیشہ عزت و حرمت حاصل رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کا ناحق قتل کرنا کفر کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑا گناہ ہے، کسی انسان کو ناحق قتل کرنے میں جہاں اللہ تعالیٰ کے حکم کی پامالی اور اس کی نافرمانی ہے، جو حقوق اللہ ہے، وہاں اس میں ایک انسان کو ناحق قتل کرکے اس کے لواحقین کو تکلیف پہنچانا یہ ”حقوق العباد“ سے تعلق رکھتا ہے، اس پر قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں: چنانچہ اللہ کا ارشاد ہے:
قتلِ ناحق کی سزاجہنم ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَه عَذَاباً عَظِیْما
النساء – 93
اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور الله اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کرر کھا ہے۔
کن صورتوں میں قتل جائز ہے ؟
شریعت نے صرف تین صورتوں میں قتل کو جائز قرار دیا ہے :
- قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص
- شادی شدہ مرد یا عورت اگر زنا کرے تو حد قائم کرنے کی صورت میں انہیں رجم کر کے مار ڈالنا
- ارتداد کے جرم میں قتل کرنا
چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله عنهمابیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، يَشْهَدُ أنْ لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ وأَنِّي رَسولُ اللَّهِ، إلَّا بإحْدَى ثَلاثٍ: النَّفْسُ بالنَّفْسِ، والثَّيِّبُ الزَّانِي، والمارِقُ مِنَ الدِّينِ التَّارِكُ لِلْجَماعَةِ.
صحیح البخاری – 6878
جو مسلمان شخص یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون (یعنی قتل کرنا) فقط تین صورتوں کی وجہ سے حلال ہے ، جان کے بدلے جان (قاتل کو قتل کرنا) شادی شدہ زانی اور دین سے مرتد ہو کر جماعت چھوڑنے والا ۔
ان تینوں صورتوں کے علاوہ جو بھی قتل ہوگا وہ قتل ناحق اور فساد فی الارض کے ضمن میں ہی آئے گا اور ایک آدمی کا ناحق قتل کیاسب لوگوں کو قتل اس لئے قرار دیا گیا کیونکہ ایسا آدمی پوری انسانیت کا اور امن عامہ کا دشمن ہوتا ہے اور دوسرے لوگ بھی اسے یہ جرم کرتے دیکھ کر اس پر دلیر ہوجاتے ہیں لہٰذا اس جرم کی سزا کا اظہار ان الفاظ سے کیا گیا اور بنی اسرائیل چونکہ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہتے تھے اس لیے بطور خاص ان الفاظ سے تنبیہ کی گئی ہے اور اس جرم کے برعکس اگر کوئی شخص کسی کو مظلومانہ موت سے نجات دلا کر بچا لیتا ہے تو وہ بھی اتنی ہی بڑی نیکی ہے کیونکہ ایسا شخص انسانیت کا ہمدرد اور امن عامہ میں ممد و معاون بنتا ہے۔
انسانی خون کے حرمت کے سلسلے میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔
حقیقی مسلمان کون ہے ؟
نبی کریمﷺ نے فرمایا:
المُسْلِمُ مَن سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِن لِسانِهِ ويَدِهِ
صحیح البخاری – 6484
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے۔
ایک مؤمن کی حرمت کعبہ کی حرمت سے بھی زیادہ ہے۔
گناہوں و نافرمانیوں سمیت سیاسی، فکری یا فقہی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کو کافر اور مشرک قرار دیتے ہوئے انہیں بے دریغ قتل کرنے والے ظالموں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ اور اُس کے رسول ﷺکے نزدیک مومن کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی کیا اہمیت ہے۔
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ : مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا1
”حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنهما بیان كرتے ہیں كہ میں نے نبی كریم ﷺ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔”
روز قیامت سب سے پہلے خون كا حساب ہوگا
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنهمابیان کرتے ہیں ،رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
أَوَّلُ مَا يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِي الدِّمَاء2
’’ روز قیامت لوگوں کے درمیان سب سے پہلے خونوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا ۔‘‘
مقتول قاتل كو عرش تك لے جائے گا
حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنهما سے روایت ہے كہ نبی كریم ﷺ نے فرمایا:
يجيءُ المقتولُ بالقاتلِ يومَ القيامةِ ناصيتُهُ ورأسُهُ بيدِهِ وأوداجُهُ تشخَبُ دمًا يقولُ يا ربِّ هذا قتلَني حتَّى يُدنيَهُ منَ العرشِ
صحیح الترمذی – 3029
’’ روزِ قیامت مقتول قاتل کو لے کر آئے گا اس (قاتل) کی پیشانی اور اس کا سر مقتول کے ہاتھ میں ہو گا اور اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا ۔ اور وہ کہے گا : اے میرے رب ! اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ حتی کہ وہ اسے عرش کے قریب لے جائے گا ۔‘‘
خون ِناحق كا مرتكب عبادت میں سُست و کاہم بن جاتا ہے
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَا يَزَالُ الْمُؤْمِنُ مُعْنِقًا صَالِحًا مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا فَإِذَا أَصَابَ دَمًا حَرَامًا بَلَّحَ
صحیح أبی داؤد – 4270
’’ جب تک مومن کسی خونِ حرام کا ارتکاب نہیں کرتا تو وہ اطاعت گزاراور صالح رہتا ہے اور جب وہ کسی خون حرام کا ارتکاب کر لیتا ہے تو وہ سستی و تھکاوٹ کا شکار ہو کر نیک کام سے عاجز ہوجاتا ہے ۔‘‘
خون ناحق كےمرتكب شخص كا كوئی عمل قبول نہیں
حضرت عباده بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے كہ نبی كریم ﷺ نے فرمایا :
مَن قتَل مؤمنًا؛ فاغتبَطَ بقتلِهِ، لم يقبَلِ اللهُ منه صرْفًا ولا عدلًا
صحیح أبی داؤد – 4270
جو کسی مومن کو ناحق قتل کرے، پھر اس پر خوش بھی ہو، تو اللہ اس کا کوئی عمل قبول نہ فرمائے گا نہ نفل اور نہ فرض۔
مؤمن كو قتل كرنے والے كی بخشش نہیں ہوگی
ابودرداء رضی الله عنہ سے روایت ہے كہ نبی كریم ﷺ نے فرمایا :
كلُّ ذنْبٍ عسى اللهُ أن يغفِرَه، إلَّا مَن مات مُشركًا، أو مؤمِنٌ قتل مؤمِنًا مُتعمِّدًا..
صحیح أبی داؤد -4270
’’ امید ہے کہ اللہ ہر گناہ معاف فرما دے سوائے اس شخص کے جو حالت شرک میں فوت ہوگیا ہو ،یا جس نے عمداً کسی مومن کو قتل کیا ہو ۔‘‘
مؤمن بھائی كی طرف اسلحے كے ساتھ بھی اشاره نہ كرے
فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اِقدام ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺنے اہلِ اِسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں كہ رسول كریم ﷺنے فرمایا :
لا يُشِيرُ أحَدُكُمْ علَى أخِيهِ بالسِّلاحِ؛ فإنَّه لا يَدْرِي لَعَلَّ الشَّيْطانَ يَنْزِعُ في يَدِهِ، فَيَقَعُ في حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ.
صحیح البخاری – 7072
تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔‘‘
اسلحے سے اشارہ کرنے والا ملعون ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
مَنْ أَشَارَ إِلَى أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَلْعَنُهُ حَتَّى يَضَعَهَا وَإِنْ كَانَ أخاهُ لأبيهِ وَأمه»
صحیح مسلم – 2616
’ جو شخص نیزے سے اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرے ، فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں ، حتی کہ وہ اسے رکھ دے ۔ خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی ہی کیوں نہ ہو ۔‘‘
اسلحے کی نمائش كی ممانعت
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
نَهى رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ أن يُتعاطى السَّيفُ مسلولًا
صحیح الترمذی – 2163
رسول کریم ﷺ نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا۔
درج بالا بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب اسلحہ کی نمائش، دکھاوا اور دوسروں کی طرف اس سے اشارہ کرنا سخت منع ہے تو اس کے بل بوتے پر ایک مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے آتشیں گولہ و بارود سے مخلوقِ خدا کے جان و مال کو تلف کرنا کتنا بڑا گناہ اور ظلم ہوگا!۔
حجۃ الوداع کا پیغام
حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پرفرمایا:
لا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ.
صحیح البخاری – 7080
میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ کر کافر نہ بن جانا ۔‘‘
آپ ﷺ نے میدانِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا
صحیح البخاری – 1739
بلا شبہ تمہارے خون اور تمہارے مال آپس میں ایک دوسرے پر حرام ہیں، جیسا کہ آج کے دن کی بے حرمتی تمہارے اس مہینے میں، تمہارے اس شہر میں حرام ہے۔
ایک مسلمان کو ڈرانا بھی گناہ ہے
ابن ابی لیلی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُرَوِّعَ مُسْلِمًا
صحیح أبی داؤد – 5004
کسی مسلمان کے لیے یہ لائق نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو خوف زدہ کرے ۔
مؤمن کا قتل پوری دنیا کی تباہی سے بھی بڑا ہولناک ہے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَقَتْلُ مُؤْمِنٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا
صحیح النسائی – 3997
قسم ہےاس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! البتہ مومن کا ( ناحق ) قتل اللہ تعالیٰ کے ہاں ساری دنیا کی تباہی سے زیادہ ہولناک ہے ۔‘‘
ایک مؤمن کے مقابلے میں ساری دنیا معمولی چیز ہے
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
لَزَوالُ الدُّنيا أهْوَنُ علَى اللہ مِن قتلِ رجلٍ مسلمٍ
صحیح الترمذی – 1395
’’اللہ تعالی کے نزدیک پوری دنیا کا زوال و تباہی ایک مسلمان کے قتل سے کم تر ہے۔‘‘ یعنی ساری دنیا تباہ ہو جائے ،یہ اللہ کے ہاں چھوٹا عمل ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک مسلمان کو قتل کیا جائے۔
ناحق خون کرنے والے کے لئے دروازہ تنگ ہے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےارشاد فرمایا:
لَنْ يَزَالَ الْمُؤْمِنُ فِي فُسْحَةٍ مِنْ دِينِهِ ، مَا لَمْ يُصِبْ دَمًا حَرَامًا.
صحیح البخاری – 6862
”مومن اس وقت تک اپنے دین کے بارے میں برابر کشادہ رہتا ہے (اسے ہر وقت مغفرت کی امید رہتی ہے) جب تک ناحق خون نہ کرے جہاں ناحق کیا تو مغفرت کا دروازہ تنگ ہو جاتا ہے۔“
ناحق خون کرنے والا سخت ترین مشکلات میں
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ ارشاد نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ وَرَطَاتِ الْأُمُورِ الَّتِي لَا مَخْرَجَ لِمَنْ أَوْقَعَ نَفْسَهُ فِيهَا ، سَفْكَ الدَّمِ الْحَرَامِ بِغَيْرِ حِلِّهِ
صحیح البخاری – 6863
ہلاک کرنے والے وہ امور کہ جن میں پھنسنے کے بعد نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا، ان میں سے ایک وہ ناحق خون کرنا ہے، جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے۔
ناحق خون میں شامل سب لوگ جہنم میں ہوں گے
نبی کریم ﷺ نےارشاد نے فرمایا:
لَوْ أَنَّ أَهْلَ السَّمَاءِ، وَأَهْلَ الْأَرْضِ، اشْتَرَكُوا فِي دَمِ مُؤْمِنٍ، لَأَكَبَّهُمُ اللہُ فِي النَّارِ
صحیح الترمذی – 1398
اگرتمام آسمان اور زمین والے ایک مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ ان سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے گا“۔
آخری بات:
قرآن وحدیث کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، الله اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله تعالیٰ نے قاتل کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے، لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ قتل جیسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ بچے، حتٰی کہ کسی بھی درجہ میں قتل کی معاونت سے بچنا بھی لازم ہے، کیونکہ بسا اوقات ایک شخص کے قتل سے نہ صرف اس کی بیوی بچوں کی زندگی، بلکہ خاندان کے مختلف افراد کی زندگی بعد میں دوبھر ہو جاتی ہے اور اس طرح خوش حال خاندان کے افراد بیوہ، یتیم اور محتاج بن کر تکلیفوں اور پریشانیوں میں زندگی گزارنے والے بن جاتے ہیں۔
جب سے ہم نے اللہ تعالیٰ کے حکموں اور امام الانبیا حضرت محمد ﷺ کی سنت کی پیروی کرنے سے منہ موڑا ہے۔ آئے روز ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں کہ بھائی غیرت کے نام پر اپنی بہن کو قتل کر رہا توبہن اپنے آشنا کے ساتھ مل کر اپنے بھائی کو قتل کر رہی ہے، باپ بیٹے کو قتل کر رہا ہے توبیٹا باپ کو قتل کر رہا، شوہر اپنے گھر والوں کے ساتھ مل کر اپنی بیوی کی جان لے لیتا ہے اور بیوی اپنے بیٹوں، بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے شوہر کی جان لے لیتی ہے، بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے۔ بیٹیوں کو جہیز کا سامان کم لانے کی وجہ سے ان کی جان لے لی جاتی ہے ،اگر طلاق یافتہ عورت اپنے جہیز کی واپسی کا مطالبہ کرے تواس کوقتل کر دیا جاتا ہے۔ کیا ہم انسان کہلانے کے لائق ہیں۔ یہ سب کچھ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے ہیں۔
حکومت وقت کو چاہیے کہ ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے ملکی قوانین پر سختی سے عمل کرا یا جائے تاکہ اس طرح کے دل سوز واقعات سے بچا جا سکے۔ لہٰذا قوم کے دانش مند، ہم درد اور باشعور نوجوان طبقے کو چاہیے کہ امام الانبیا سیدنا حضرت محمد مصطفیﷺ کی عظیم اجتماعی سنت کی پیروی میں دور حاضر کی فرعونی، قارونی اور ہامانی طاقتوں کو ظلم سے باز رکھنے کے لیے ان کی مدد کا بیٹرہ اٹھائے تاکہ دھرتی پر کوئی ظالم باقی رہے اور نا کوئی مظلوم۔
وصلی اللہ علیٰ نبینا محمد وعلیٰ آله وصحبه وأھلبیته أجمعین