پہلا خطبہ:
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کےلئے ہے جوپہلی بار اور پھر دوبارہ پیدا کرنے والاہے۔بہت بخشے والا اور محبت کرنے والا ہے،عرش کا مالک اور بڑی شان والاہے۔جو چاہتا ہےکرتا ہے،جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اُسے معلوم ہے۔اور کوئی پتہ نہیں گرتا مگر وہ اُس کو بھی جانتا ہے۔اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتااورنہ کوئی تر یا خشک چیز گرتی ہے مگریہ کہ وہ سب کچھ کتاب ِ مبین میں ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی معبود نہیں ،وہ یکتا ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اُس کے بندے اور اُس کےرسول ہیں۔آپ ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت ،رسولوں کے امام اور تمام بنی آدم کے سردار بنا کرمبعوث کیے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آ پ ﷺ کے ذریعے نعمت کو پورا فرمایا اور دین کو مکمل کیا۔
اللہ تعالیٰ کا درود و سلام نازل ہو آپﷺ پر ،آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات پر،آپ ﷺ کی آل پر ،آپ ﷺ کے تمام اصحاب ِکرام پر اوراُن پر جو قیامت تک اُن کی پیروی کریں اور اُن کےراستے پر چلیں۔بہت زیادہ سلامتی نازل ہو۔
اما بعد!
اے لوگو!اپنے رب کا کما حقہ تقویٰ اختیار کرو،اسلام کے مضبوط کڑے کو تھام لو۔اللہ تعالیٰ سے اُس کے دین پر ثابت قدمی اور اُس کے نبی کی سنت کی پیروی طلب کروتاکہ تمہیں رحمٰن کا دیدارہمیشہ والی جنت میں حاصل ہو۔
اے لوگو! اپنے اُس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو پیدا کیا یہی تمہارا بچاؤ ہے۔
اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی نوع انسان کو بااختیار بنائے جانے میں سے یہ ہے کہ انسان مادی ترقی کی عظیم بلندیوں تک جاپہنچا ہے ۔وہ دورکی چیزوں کو قریب کرنے زمانے کو مختصر کرنے اور مشکلات کو آسان بنانے میں اس حد تک متنوع اور باکمال ہوگیا ہے کہ جس کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔تاہم یہ مناسب نہیں کہ ان سب چیزوں میں انہماک،موجودہ مادی عناصر اور اُن کے نتائج کے درمیان ہم آہنگی کے شعور کو دو آتشا کرنے کی ضرورت سے غافل کردے ۔تاکہ انسان کے جسم کی خدمت اور روح کو مہذب بنانے کی خدمت ایک ساتھ ہوسکے ۔اس لیے کہ روح ترقی جسم کی ترقی سے اعلیٰ ہے۔جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ ۖ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا ۖ
القصص – 77
اور جو کچھ اللہ تعالی نے تجھے دے رکھا ہے اس میں سے آخرت کے گھر کی تلاش بھی رکھ اور اپنے دنیوی حصے کو بھی نہ بھول ۔
اس لیے کہ اس ہم آہنگی کے فقدان سے ایسے لوگ نمودار ہوتے ہیں جن کی بُردباری پر اُن کی سختی اور نرمی پر تشدّد غالب ہوتا ہے۔ روح کی آسودگی پر جسم کی آسودگی کو ترجیح دینے کی وجہ اُنہیں سنگ دلی، جارحیت ،تشدّد اور دوسروں پر حاوی ہونے کی بیماری لاحق ہوتی ہے اور اِس بیماری پر نظر رکھنے والوں کے قلم اُسے غنڈہ گردی سے موسوم کرنے پر متفق ہیں۔ اس بیماری نے اُن ڈھیلے اورکمزور دلوں پر اپنا گھر بنا لیا ہے۔ جن کی تادیب اس بات پر نہیں ہوئی کہ وہ اپنے حقوق، جان و مال ،عزت و آبروکے تئیں دوسرے لوگوں کے حقوق اور اُن کی حرمتوں کااحترام کریں اور بیہودگی ،لوگوں پر زیادتی اور انہیں تنگ کرنے کی سنگینی کا احساس رکھیں اور رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی پرواہ نہ کریں: ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون ،مال اوراُس کی عزت حرام ہے۔ متفق علیہ
یہ بھی پڑھیں: شفقت و نرمی
یہ بھی پڑھیں: چھوٹے بچوں اور نوجوانوں کے ساتھ نبی کریمﷺ کا برتاؤ
اے اللہ کے بندو! بے شک یہ جارحانہ روّیہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب برتاؤ اور تہذیب کے بیچ واضح دوری ہو۔اس لئے کہ جو خالی نفس ہے وہ اُس وقت تک قابو میں نہیں رہے گا جب تک کہ اُسے قابو میں نہ کیا جائے۔ اور اُسے نرمی ،آسانی اور سکون کی لگام نہ لگائی جائے۔جن لوگوں نے اِس کو غنڈہ گردی کا نام دیا ہے وہ اِس لیے دیا ہے کہ موجودہ سرکشی بے حد گھناؤنی ہےاور زیادتی کرنے والا اپنی فطرت میں اپنی انسانی صورت سے نکل کراُن خطرناک درندوں کا برتاؤ کرنے لگتا ہےجو اپنے قریب کے جانداروں میں بھی حملہ کرکے چیر پھاڑ کرتا ہے اور انہیں کھاجاتاہے۔
تو اِس روّیے کے حامل لوگ بھی اِن درندوں کی طرح حملے کرتے ہیں اور درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔آدمی اگر فطری طور پر تُرش روی سے مانوس ہوجائے یہ روش بار بار اپنی بُری خصلت کے ساتھ اُس پر حملہ آور ہوتی ہے اورآدمی سرکش ہوجاتاہے۔ اِس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ایک شر دوسرے شر کو بھڑکاتا ہے۔ جو قابلِ نفرت تشدد کو ترجیح دے وہ جارحیت پسند ہوجاتا ہے۔
اللہ کے بندو! غنڈہ گردی انسا ن کے اندر رونما ہونے والا جارحانہ سلوک ہے۔جسے انسان دوسروں کے خلاف انجام دیتاہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ مرد ہو یا عورت ،چھوٹا ہو یا بڑا،ایک فرد ہو یا جماعت ۔اس سلسلے میں وہ اپنی قوت ،اپنی جوانی اور اپنے رفقاء پر بھروسہ کرتاہے۔اور جس کے خلاف جارحیت کررہا ہے اُس کی کمزوری اور اکیلے پن کا فائدہ اٹھاتا ہے۔گویا کہ یہ جارحیت پسند اپنی جارحیت کے سب کئی طرح کے برے اخلاق کی الٹی کرتاہے ۔جس کو اُس نے دانستگی یا نادانستگی میں اتنا نگل لیا ہے کہ وہ بدہضمی تک پہنچ گیاہے۔
ہر چند کہ اُس جارحیت کی کوئی خاص عمر نہیں لیکن اس جارحیت کو بچو ں ،بڑوں سن ِ شباب کو پہنچنے والوں کے درمیان سرسبز و شاداب زمین ملتی ہے۔ جہاں تک جارحیت کے مسائل کی بات ہے تو گھر ،بازار ،تعلیمی اداروں اور عام و خاص اجتماع گاہوں پر بہت زیادہ ہیں۔جارحیت دوطرح کی ہوتی ہے۔
پہلی مادّی جارحیت ہے۔اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ یہ سب و شتم ،مزاق اڑانے استہزاء کرنے یا گالی گلوچ کرنے اور اس طرح کی کئی دوسری چیزوں کے ذریعے لفظی ہوسکتی ہے۔یہ چھیڑ چھاڑاوربلیک میلنگ کے ذریعے، نفسی خواہشات کے ذریعے ہوسکتی ہے۔کسی کو مارنے یا جسمانی تشدد کرنے ،کوئی چیز چھین لینے یا ڈاکہ ڈالنے ،دوسروں کے مال کو برباد کرنے کی وجہ سے عملی ہوسکتی ہے۔
جارحیت کی دوسری قسم معنوی جارحیت ہے ۔ جو کہ تحقیر ،تعصب ،نسل پرستی ،حق کا انکار اور لوگوں کاحق مارناہے۔
اللہ کے بندو! جارحیت قابلِ نفرت بیماری ہے۔کسی بھی معاشرے میں اُس وقت تیزی سے بڑھ جاتی ہے جب تربیت کرنے والے لوگ اور اس تباہ کن بیماری کے ماہرین اس سے غفلت برتے ہیں۔بعض ماہرین نے اسے بہت سارے معاشروں کی عام صورتِ حال شمار کیا ہے۔چاہے اُن کے رہن سہن اور اُن کے خیالات جیسے بھی ہوں۔ اس سلسلے میں اُن کے یہاں ٹیلی ویژن، ریڈیو اور اخبارات میں بہت زیادہ گفتگو ہوتی ہے ۔کتنی زیادہ جارحیت کے واقعات ہیں جنہیں لوگ دائیں بائیں دیکھتے ہیں۔جیسے کہ چھیڑ چھاڑ ، بلیک میلنگ،ایذا رسانی ،دوسروں پر زیادتی ،لوگوں کےراستوں میں یا اُن کے اجتما ع گاہوں میں ،کبھی کبھی گھروں میں بیویوں کے درمیان،کبھی ماں باپ اور بال بچوں کے درمیان۔اور اِن میں سے کتنے معاملات ایسے ہیں جو پولیس تک بھی پہنچتے ہیں۔
اس جارحیت کی لعنت کو سامنے رکھئے اور دیکھئے کہ کتنے معاملے شفاء خانوں اور عدالتوں تک آتے ہیں،کتنے قصے اور کہانیاں ہیں جنہیں اخبارات بیان کرتے ہیں۔اور لوگ جنہیں خبر اور مشاہدے کے ذریعے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر متوجہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ شیر کرتے ہیں۔
اللہ کے بندو! یہ جو نظر آنے والی جارحیت ہے، سماج اور خاندان میں احسان مند ی ،بھلائی ،شفقت و محبت کی اینٹوں کومنہدم کرنے میں یہ جارحیت ،تشدد،باہمی نفرت اور حسد کی سب سے تیز کدال مانی جاتی ہے۔اس کی سنگینی اُس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ بچوں کے تعلیمی ماحول میں ہو۔کیونکہ فہم میں بنیادی مخرجات،ذمہ داریوں کو برداشت کرنے ،عادتوں کو مہذب بنانے اور نشو نما پانے والے بچوں کی باہمی محبت کے درمیان اور نیکی پر عام تربیت اور بچو اور بچیوں کے بلند اخلاق پر جو تربیت ہونی چاہیئے اُس کے درمیان واضح تضاد پایا جاتاہے۔
اسی طرح موجودہ سوشل میڈیا کے ذرائع کے سبب نئی الیکٹرنک اور ٹیکنیکل جارحیت بھی کم خطرناک نہیں ہے۔اس لیے کہ اس کا جو نقصان ہے وہ کسی بھی دوسرے ذرائع سے زیادہ ہر گھر میں پھیلا ہوا ہے اور طرح یہ کسی کو حاشیے پر ڈالنے اور کسی کو پریشان کرنے میں پوری طرح کارگر ہے۔اورا یک ہی سماج میں عام و خاص تمام کو پریشان کرنے کی صلاحی رکھتاہے ۔جبکہ یہ معاشرہ باہمی محبت و اخوت ،عام نیکی کے پاس و لحاظ اور اپنے اور دوسروں کے اوپر جو ذمہ داریاں عائدہوتی ہیں اُن ذمہ داریوں کے ادراک کا زیادہ ضرورتمند ہے۔
ہم اگر جارحیت کی طرف سرسری نظر بھی ڈالیں گے تو پائیں گے کہ یہ دراصل ایک ایسا عارضہ اور وحشیانہ عادت ہے جو اُس نفسیاتی بحران کو بھڑکاتی ہے۔جسے ان صفات کاحامل شخص جذب کرتارہتاہے۔گھریلو تربیت میں کسی خلل کی وجہ سے یا خاندان کے لوگوں کا تشدد کے ماحول میں جینے کی وجہ سے یا آدمی کا اپنے خاندان کے بیچ لگام لگی طاقت کو لیے پھر نے کی وجہ سے کہ اس کے گھر والوں نے اُس طاقت کو وہ آزدی نہیں دی تاکہ وہ اپنی طاقت کا استعمال اُس چیز میں کرسکے جو اُس کے لیے فائدہ مند ہونقصان دہ نہیں ۔یا اس کے شعور میں کمی کی وجہ سے یا اس کی تربیت میں خلل کی وجہ سے یا اُس میں پائے جانے والے انتقامی جذبے کی وجہ سے ہوتاہے۔ جیسے کہ گلاس جب بھر جاتا ہے تو چھلکنے لگتاہے ۔یوں وہ ان تمام ماحصل کا اظہار دوسروں کے ساتھ جارحانہ روّیہ اپنا کر کرتاہے ۔
یا تو وہ انتقام کے جذبے سے یا خود کو اذیت دینے کے جذبے سےیا کسی ایسی مشکل صورتِ حال سے نکلنے کی وجہ سے جس میں وہ پھنسا ہوتا ہے۔یا یہ کہ وہ یہ گمان کررہا ہوتا ہے کہ اِسی کا نام جوانی ،قوت اور غلبہ ہے ۔بطور ِ خاص جب اُس کے متعلقین میں ایسے رفقاء اور دوست ہوں جو اس معاملے میں اُس کی ہمت افزائی اور مدد کررہے ہوں یا اُس کے لیے اسباب مہیا کررہے ہوں یا اُس کی سزا و انجام کو کم تر بتارہے ہوں اس لیے کہ جارحیت پسند اور اُس سے متاثر آدمی اور جارحیت کے انجام و عواقب کو کم تر بتلانے والے سب کے سب جارحیت کو بڑھانے اور پھیلانے میں برابر کے شریک ہیں۔حقیقت میں عمل راہِ راست سے بھٹکنا اور ایسی بےضابطگی ہے جسے کسی بھی شکل میں قبول نہیں کیا جانا چاہیئے۔
جہاں تک جارحیت پسند آدمی کے لئے اِس عمل کی پسندیدگی کی بات ہے تو اُس کی اپنی شخصیت میں ایک طرح کا اضطراب پیدا ہوگا جس اس کے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوگا۔اُس کے اندر دائمی سرکشی والا برتاؤ پیدا ہوگا۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کسی کو چِت کرنے دیدنے والا آدمی پہلوان نہیں ہوتا بلکہ پہلوان وہ ہوتا ہے جو اپنے غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے۔صحیح بخاری
اے اللہ کے بندو! کسی دوسرے پر جارحیت کرنا پھیلا ہوا بگاڑہےاور جارحیت کرنے والا کمزور ہوتاہے ۔ ہر چند کے وہ اپنے آپ میں جوان دکھے کیونکہ جس شخص کو اُس کے نفسیاتی میلانات اپنے قابو میں کرلیں تو وہ محض اپنی خواہش کا غلام ہوتا ہےآقا نہیں۔اور ایسا آدمی گھٹیا درندوں کے اوصاف کو اسلام کے بلند اخلا ق پر فوقیت دیتا ہے ۔اور اسلام کی اصلاح والی راہ کو بگاڑنے والا ہوتاہے اور معاشرے کے مفاد پر اپنی ذاتی خواہشات کو مقدم کرتاہے۔جو آدمی حقیقت میں اپنے آپ سے محبت کرے گاوہ یہ جان لے گاکہ اُس کی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ذات سے کسی دوسرے کو اذیت و تکلیف نہ پہنچائے۔کیونکہ دوسرے کے لیے ایذارسانی کا سبب وہی شخص بنے گا جو اپنے آپ سے نفرت کرے گا کہ بیماری اُس کے اندر ہےنہ کہ مقابل میں ،قطع نظر اس کے کہ اُسے اِس بات کا ادراک ہے یا نہیں۔اگر کوئی اپنی جارحیت کے نشے سے بیدا رنہیں کیا جاتا ہے تو اُس کی کلہاڑی دوسرے کے کندھے سے لٹک جاتی ہے ۔اور جب تک پرہیز کیا جاتا ہے دوا کی ضرورت نہیں ہوتی۔اور جب دوا بیماری سے دور ہو تو وہ ہرگز اپنی صحیح جگہ پر نہیں آئےگی۔کیونکہ جب کوئی دیوار گرنے کے وقت گرد نہ اُڑائے تو وہ گرنے کے بعد بھی گرد نہیں اُڑائے گی۔
تخصص رکھنے والوں میں سے جو سکیورٹی کے افراد ،قانون دان ، تربیت کرنے والے اور ماہرِ نفسیات ہیں اُن سے یہ تاکیدی گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اس ہلاکت خیز مصیبت کو قابو کرنے میں اور زیادہ کوشش صرف کریں۔اس مصیبت پر قابو اُس وقت پایا جاسکتا ہے جب اُس کی تشخیص کی جائے،اُس کا سبب معلوم کیا جائے،اُس کی رکاوٹ کو بیان کیاجائے،اُس کو ختم کرنے کے لئے اُس کا مناسب حل مہیا کیا جائے،جو لوگ جارحیت کرتے ہیں اُن کی مذمت کی جائے اور اُن کو سزا دی جائے۔اور تمام مختلف اقسام کے تخصص رکھنے والوں کے درمیان اس بات کا اتفاق ہوکہ کوئی بھی سوراخ باقی نہ رہے یہاں تک کہ اُسے بھر دیا جائے۔ ہر متخصص کو اللہ تعالیٰ نے جو بھی علم دیا ہے وہ اُس کے ذریعے اِس مصیبت کو ختم کریں۔بلا استثنیٰ کے وہ تمام لوگ جن کا اس بات سے تعلق ہے ان کے لیے مناسب نہیں ہےکہ وہ جارحیت سے مقابلہ کرنے کے تخصص میں ایک دوسرے سے مقابلہ کریں اور نہ آپس میں لڑیں کیونکہ ہر آدمی کا اپنا کردا ر اور اپنی ذمہ داری ہے۔
لہٰذا نہ تو خاندان کے لوگ مربی پر اس بات کا الزام رکھیں اور نہ ہی مربی حضرات خاندان والوں پر اس کا الزام لگائیں۔اور یہ یہ دونوں مل کر کسی تیسرے پر اس بات کا الزام لگائیں۔پھریہ کہ جارحیت پسند لوگ اللہ تعالیٰ کے مکلف ہیں،اُن کو اللہ تعالیٰ کے ڈرنا چاہئیےاور دوسروں کو تکلیف پہنچانے اور سرکشی کرنے کی جو حرمت ہےوہ اُن کے ذہن نشین رہنی چاہئیے اور وہ اپنی جارحیت کا دنیا و آخرت میں پہلا نقصان اٹھانے والے خود ہوں گے۔اسی طرح اُ س کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ دُرستگی سے کام لے۔اللہ تعالیٰ سے مدد مانگے کے بعد اس سلسلے میں وہ اپنے غموں کو کم کرےاور جو منفی طاقتیں اُس کے اندر ہیں اُن پر لگام لگائےاور رضامندی ،صبر اور شفافیت سے اس کا مقابلہ کرے ۔
جارحیت جس چیز میں بھی ہوگی اُس کو برباد کردے گی اور جس چیز سے بھی نکالی جائے گی اُسے مزین کرے گی۔اور ایک آدمی کے بُرے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے جارحانہ مزاج کی وجہ سے کسی دوسرے مسلمان بھائی کوتکلیف پہنچائے یا اُس کو حقیر سمجھے یا پھر یہ کہ وہ اپنے اُس کے لیے لعن طعن کرنے والا،سرکشی کرنے والا،گمراہ کرنے والا ہو۔اس کامطلب یہ ہوگا کہ اُس نے اپنی زمام شیطان مردودکے سپرد کردی۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا
الاسراء – 53
اور میرے بندوں سے کہہ دیجیئے کہ وه بہت ہی اچھی بات منھ سے نکالا کریں کیونکہ شیطان آپس میں فساد ڈلواتا ہے۔ بےشک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
دوسری جگہ فرما یا:
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
الاحزاب – 58
اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وه (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناه کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ میرے لیے اور آپ کے لیے قرآن و سنت میں برکت دے اور مجھے اور آپ کو اُس کی آیات سے فائدہ پہنچائے ۔ میں نے جو کہا اگر وہ دُرست ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی جانب سے ، میں اپنی بات کہتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور آپ سب کے لیے مغفرت طلب کرتاہوں تو آپ سب بھی اُسی سے مغفرت طلب کریں۔
دوسرا خطبہ:
ہر طرح کی تعریف سارے جہانوں کے رب کے لئے ہے۔درود و سلام نازل ہو انبیاء و مرسلین میں سب سے اشرف و افضل پر۔
اما بعد!
اللہ کے بندو !اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور جان لو کہ دینی مانع کی اور دُرست اخلاق کے معاملے میں تربیت کی ناکامی جارحیت پیدا ہونے کے دو بڑے اسباب ہیں۔ پھر اس میں ماحول ،ہم خیال دوست اور معاشرے کے اثرات کا اضافہ کرلیا جائے۔اس لیے کہ دوست ہی دوست کی پیروی کرتاہے ۔اور ایسا آدمی جارحیت پسند نہیں ہوسکتاجس کے دوست سنجیدگی اور متانت پسند ہوں۔اور ایسا آدمی سنجیدہ نہیں ہوسکتا جس کا دوست متکبر و متشدد ہو۔
جارحانہ روّیے کا مناسب علاج یہ ہے کہ بچے کے اندر خود اعتمادی پیدا کی جائےاور بچپن ہی سے اُس کے اخلاق و سلوک کی نگرانی کی جائے تاکہ وہ اس مہلک پھندے سے نکل جائےاور اُس کی زندگی کے سفر میں جارحانہ روّیےجیسی بُری صفات ہم سفر نہ ہوں۔
اللہ کے بندو! اس کے برعکس اس معاملے میں جو بھی متخصص حضرات ہیں وہ سزا کے اُصول کو جزاء کے اصول کے مقابل کام میں لانے میں غفلت نہ برتیں ۔اس لیے کہ جارحیت کے رجحان کو کم کرنے میں یہ عمل بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے ۔وہ جارحیت جسے سے پورے معاشرے کے استحکام کو خطرہ لاحق ہے ۔اور یہ کہ یہ بات ضروری ہے کہ مسلم ممالک کے سربراہان جو قوانین بناتے ہیں انہیں عمل میں لایا جائے۔اور اُن قوانین کا مقصد یہ ہے کہ وہ اِ ن کے حقوق کی حفاظت کی توثیق کریں گے۔اور اُن کے کسی تکلیف دہ عمل اورمتشدد روّیے پر انہیں سزا دیں گے۔کیوں کہ کچھ شریر نفوس ایسے بھی ہیں کہ جن کو صرف یاددہانی اور نصیحت اس بُرائی سے روکھنے کے لئے کافی نہیں ہے۔وہ طاقت کے زور سے ہی سنتے ہیں۔جیسا کہ جنابِ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا قول ہے:اللہ تعالیٰ قوت سے وہ چیز روکتا ہے جو قرآن سے نہیں روکتا۔
یہ باتیں گزری ہوئی باتوں سے اہمیت میں قطعاً کم نہیں ۔ لوگوں کو بیدا ر کیا جائے،انہیں صحیح راستہ دکھایا جائےاور اخلاقِ کریمانہ کی طرف اُن کی دُرست رہنمائی کی جائے۔اور الفت و محبت ،بھائی چارے روح کو مختلف وسائل کے ذریعے پھیلایا جائے۔اور یہ بیان کیا جائے کہ جارحیت پسندی درحقیقت درندگی ہےاور آدمی اس کی نمائندگی کرنے لگے تو پھر جاحیت پسندی پر قابو پانا مشکل ہوجاتاہے ۔ اور یہ بھی بیان کیا جائے کہ کوئی بھی فتح جس کے پسِ پردہ جارحیت ہوتی ہے حقیقت میں کسی بھی شکست سے زیادہ بُری ہوتی ہے۔کیوں کہ ہر عقلمندشخص کے نزدیک یہ ایک جھوٹا غلبہ ہے ۔اس لیے کہ جب توجیہ و تعلیم کمزور ہوتی ہے تو جہالت عام ہوجاتی ہے۔اور جہالت سے خوف آتاہے،خوف سے تعصب اور تعصب سے ہی دراصل یہ جاہلیت آتی ہے ۔اور دُرست ہدایات یہ تاریک جہالت سے چھٹکارے کی روشنی ہے۔
تو اگر ہم بچوں اور جوانو ں میں پائے جانے والی جارحیت کے ساتھ بہتر برتاؤ کرلیں تو امت کے مستقبل ایک اہم گوشے کو مامون کردیں گے ۔اس لیے کہ آج کے بچے کل کے نوجوان ہیں اور آج کے نوجوان کل کے بوڑھے ہیں۔اورایک مضبوط معاشرہ ان تینوں اکائیوں پر مشتمل ہوتاہے ۔ اور یہ لوگ اُ س وقت تک باہمی اخلاق ، احترام و محبت کو نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ ایک دوسرے کے شر سے محفوظ نہ ہوں۔یقیناً آپ ﷺ نے دُرست فرمایا:مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔متفق علیہ
اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اور عمل میں اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص اور اللہ کے نبی کریم ﷺ کی پیروی کے بعد ہر اُس چیز پر عمل کرو جس کے ذریعے تم اللہ تعالیٰ کی محبت تک پہنچ سکتے ہو۔ اور درود و سلام بھیجو مخلوقات میں سب سے افضل محمد بن عبداللہ ﷺ پر کہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اِس کا حکم دیا گیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
ہماری طرف سے نبی کریم ﷺ اور اُن کے اہلِ خانہ پر درودو سلام ہو ۔لاتعدا د و بے شمار کہ اگر گنا جائے تو ختم نہ ہوں۔جس کے سبب ہمارے مالک و خالق کے نزدیک ہمارے درجات بلند ہوتے ہیں جہ کہ نجات ہے اور پیشانی پر تمغہ ہے ۔
اے اللہ اپنے نبی کریم ﷺ پر اور ان کی آل پر رحمتیں اور برکتیں اُسی طرح نازل فرما جس طرح تو نے ابراھیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں ہیں۔
اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان ہی کے ساتھ ہم سےبھی اپنے جود وکرم سے ۔یا اکرم الاکرمین
اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو غلبہ دے۔ اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو غلبہ دے۔
اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔
اے اللہ ! مسلمانوں کو متحد کردے ۔
اے اللہ ! اپنے دین اور اپنی کتاب کی مدد فرما اور اپنے نبی کریم ﷺ کی سنت کو غلبہ دے۔
اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔
اے اللہ ! دلوں کو تقویٰ دے اوراُن کا بہترین تزکیہ کر تو ہی اُن کا آقا ہے ۔
اے اللہ ! ہمارے دین کی حفاظت فرما اور ہماری دنیا کی حفاظت فرماکہ جس میں ہمارا معاش ہے اورہماری آخرت کوہمارے لیے دُرست کردے۔
اے اللہ ! زندگی کو ہمارے لیے خیر کی زیادتی کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر طرح کے شر سے نجات کا ذریعہ بنا۔
اے اللہ ! دین و دنیا کی ذلت سے ہماری حفاظت فرما۔
اے اللہ ! نعمتوں کے زوال سے ہم تیر ی پناہ چاہتے ہیں اور تجھ سے بھلائی کرنے کی توفیق چاہتے ہیں۔
اے اللہ ! تو دین کے دشمنوں کے مقابلےمیں ہمارے لیے کافی ہوجا۔ اے اللہ! تو ہمارے دشمنوں کے مقابلےمیں ہمارے لیے کافی ہوجا۔
اے اللہ ! ہمارے بیماروں کو شفاء ِ کاملہ عطا فرما۔
اے اللہ ہمارے مرحومین پر رحم فرما۔
اے اللہ ! تو فلسطین کی اور اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔
اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ،اگر تو نے ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا ً خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی دے ،ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔اور درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر ،آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر اور ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ سعود الشریم حفظه اللہ
تاریخ 9 ربیع الاول 1443هـ بمطابق 15 اکتوبر 2021