22 رجب کی حقیقت اورشان معاویہ رضی اللہ عنہ

حرمت کے چار مہینے ہیں ، ذو القعدہ ، ذو الحجہ ، محرم اور رجب۔ اس وقت رجب کامہینہ جاری ہے۔حرمت کے چار مہینے جس طرح اسلام سے پہلے معزز ومحترم جانے جاتے تھے اسی طرح بعد از اسلام بھی ان کو وہی حیثیت حاصل ہے،چنانچہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

إنَّ عِدَّةَ الشُّہُورِ عِندَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْہَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ

(التوبة:36)

یعنی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے، جو اللہ تعالی کی کتاب (لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے چلی آ رہی ہے جس دن اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا تھا،ان (بارہ مہینوں )میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں،یہی دین (کا) سیدھا سادہ(تقاضا) ہے۔

حرمت والے مہینوں کی فضیلت

ان مہینوں میں جہاں نیک کام کا اجرو ثواب دوگنا ہو جاتا ہے ، اسی طرح گنا ہ کے ارتکاب پر وبال اور عذاب بھی دوسرے مہینوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے، علامہ قرطبی فرماتے ہیں:

”فیضاعف فیه العقاب بالعمل السيّء کما یضاعف بالعمل الصالح”

(تفسیرقرطبی:  8/134)

اس ماہ میں گنا ہ کے ارتکاب پر وبال اور عذاب دوسرے مہینوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ جیساکہ نیک کام کا اجرو ثواب دوگنا ہو جاتا ہے ۔

اسلام نے اس مہینہ کو بہت معزز ومحترم بتلایا ہے ،مگر افسوس کہ بعد کے جہلاء نے اس مہینہ میں بہت سی من گھڑت خرافات شروع کردیں جس کا دین ِاسلام اور شریعتِ محمدیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ قرآن وحدیث میں ان کے بارے میں کوئی ذکر ملتا ہے۔


یہ بھی پڑھیں: حُرمت والے مہینےاور درجن سے زائد فضیلتوں والا ایک آسان عمل


کونڈوں کی حقیقت

عربی زبان میں کونڈے کو مِعْجَن اور مِعْلَف کہتے ہیں ۔ معجن کی جمع معاجن اور معلف کی جمع معالف ہے ۔لیکن جس مفہوم میں یہ پاکستان اور ہندوستان میں مستعمل ہے ، دنیا کی کسی اور زبان میں نہیں ۔22 رجب کو جو کونڈے پکائے جاتے ہیں ۔اس غیر شرعی دن اور عبادت کا مقصدامام جعفر صادق رحمۃاللہ علیہ کی یومِ پیدائش کو قرار دیاجاتا ہےاور یہ تاثر دیا جاتا ہےکہ کونڈے پکانے کا مقصد امام جعفر صادق رحمہ اللہ کو ایصال ثواب پہنچانا ہے۔حالانکہ  22 رجب امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی نہ یومِ ولادت ہے اور نہ ہی یومِ وفات ۔


یہ بھی پڑھیں: ماہِ رجب ۔ بدعات کے نرغے میں!


یومِ ولادت امام جعفر صادق رحمہ اللہ

 شیعہ مؤرخین كے مطابق امام جعفر صادق رحمہ الله بروزجمعہ طلوع فجر کے وقت اور دوسرے قول کے مطابق منگل 17 ربیع الاول سنہ 80 ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔(تاج المواليد،علامہ طبرسي، ص 43:   ومنتہي الامال ،شيخ عباس قمي، ج2، ص 120

یوم ِوفات امام جعفر صادق رحمہ اللہ

جبکہ وفات کے بارے میں شیعہ مؤرخین کا کہنا ہےکہ امام  صاحب کی یومِ وفات کے بارے میں دو قول منقول ہیں ۔ بعض نے 15 رجب سن 148ھ اور بعض نے 25شوال سن 148ہجری بیان کیا ہے اور مشہور شیعہ مورخوں اور سیرت نویسوں کے نزدیک دوسرا قول یعنی 25شوال ہی معتبر ہے‘‘(وقايع الأيام ،شيخ عباس قمي، ص: 81؛ منتهی الآمال، ج2، ص: 155)


یہ بھی پڑھیں: فضائل ماہِ رجب سے متعلقہ احادیث کی تحقیق


حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی یوم وفات

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ 22 رجب سنہ 60 ہجری کو صحابی رسول،کاتب وحی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ہے، علامہ طبری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

مات معاویةبدمشق سنة ستین یوم الخمیس لثمان بقین من رجب

(تاریخ طبری:5/324)

یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ نے سنہ 60 ہجری میں جمعرات کے دن وفات پائی کہ ماہ رجب  کے آٹھ دن باقی تھے۔

اسی طرح شیعہ مصنف شیخ طوسی اپنی کتاب مصباح المتھجد میں کہتا ہے:

وفي اليوم الثاني والعشرين منه كان وفاة معاوية بن أبي سفيان۔

( مصباح المتھجد ص: 812 )

اس ماہ کی 22 تاریخ کو معاویہ ابن ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔


یہ بھی پڑھیں: ماہ رجب تعارف ، فضیلت اور بدعات کی حقیقت


22 رجب کی حقیقت شیعہ کتب کی روشنی میں

خوشی کا دن

رجب کی 22 تاریخ کومؤمنوں کے ماموں، صحابی رسول، کاتبِ وحی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا دن ہے ،جو تمام مسلمانوں کیلئے غم کا دن ہے لیکن شیعہ مکتب فکر کے ہاں شکر و خوشی کا دن ہے ۔چنانچہ انتہائی معتبر شیعہ مؤلف شیخ مفید اپنی کتاب مسار الشیعہ میں کہتے ہیں:

وفي اليوم الثاني والعشرين من سنة ستين من الهجرة كان هلاك معاوية بن أبي سفيان، وسنه يومئذ ثمان وسبعون سنة، وهو يوم مسرة للمؤمنين، وحزن لأهل الكفر والطغيان۔

( مسار الشیعة: ص:59)

اس ماہ (یعنی رجب) کی 22 تاریخ، ساٹھ ہجری کو معاویہ بن ابی سفیان ہلاک ہوا، اور اس کی عمر اس وقت  78 سال تھی، اور یہ مومنین(یعنی اہل شیعہ) کیلئے مسرت و شادمانی کا دن ہے، جبکہ اہل کفر(یعنی اہل سنت) کیلئے غم کا دن ہے۔

یومِ وفات پرشکرانے کا روزہ

حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ کی  یومِ وفات پرشکرانے کا روزہ  رکھنا مستحب ہے۔ابن طاووس اپنی کتاب میں لکھتا ہے:

اليوم الثاني والعشرون منه سنة ستين من الهجرة أهلك الله أحد فراعنة هذه الأمة معاوية بن أبي سفيان عليه اللعنة، فيستحب صيامه شكرا لله على هلاكه

(اقبال الاعمال ج 3 ص: 260 )

اس ماہ کی 22 تاریخ ، ساٹھ ہجری کو اللہ نے اس امت کے فرعونوں میں سے ایک فرعون معاویہ بن ابی سفیان کو ہلاک کیا، اس دن کا روزہ مستحب ہے تاکہ اس کی ہلاکت پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔

اور شیخ مفید لکھتے ہیں: معاویہ کا انتقال ہوا دارالفناء سے دارالبقاء کی طرف اس مہینہ کی 22 تاریخ میں، اور اس دن روزہ رکھ کر اللہ کا شکر کیا جائے اس نعمت پر۔(زاد المعاد-علامہ باقر مجلسی:ص:34 )

شانِ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے فرامین كی روشنی میں

1۔  حضرت امیر معاویہ  رضی اللہ عنہ کیلئے رسول اللہ ﷺ کی دعائیں

(الف )ہادی ومہدی ہونے کی دعا

نبی کریم ﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں ہادی ومہدی ہونے کی دعاکرتے ہوئے فرمایا:

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عَمِيرَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ “‏اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ ‏”‏

(صححه الألباني في الصحیحة: 1969)

حضرت عبد الرحمن بم أبی عمیرہ جن کا شمار صحابہ کرام میں ہوتا ہےنبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں دعاء دی اور فرمایا : ’’ اے اللہ ! معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنا دیجئے اور اس کے ذریعے سے لوگوں کو ہدایت عطا فرما ‘‘

حدیث شریف كے فوائد :

۔ اس حدیث میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه کی فضیلت ومنقبت واضح ہے ۔ آپ  نے ﷺ کے حق میں ہادی اور مہدی ہونے کی دعا ء فرمائی اور یہ دعاء دلائل النبوہ میں سے ایک روشن دلیل ہے ۔

2۔ رسول اللہ ﷺ مستجاب الدعاء تھے  ، آپ کی یہ دعاء اللہ تعالیٰ نے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه کے حق میں قبول فرمائی ۔ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بہت سارے لوگوں کو راہِ حق پر لگا یا ، آپ کے دور ِحکومت میں اسلامی سلطنت وسیع ہوئی ، بہت سارے لوگوں نے راہِ حق کو قبول کیا ، دعوتِ اسلام دُور دراز کے علاقوں تک پہنچی اور خراسان وسجستان ، افریقہ ، روم اور قسطنطنیہ کے علاقے زیرِ نگین ہوئے  ۔

3۔ ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنه نے حضرت عمیر بن سعد رضی الله عنه کو حمص کی گورنری سے معزول کرکے حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه کو ان کی جگہ والی مقرر کیا تو کچھ لوگوں نے چہ مگوئیاں کیں ، حضرت عمیر رضی الله عنه نے انہیں کہا : حضرت معاویہ رضی الله عنه کا صرف بھلائی کے ساتھ ذکر کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ان کے حق میں یہ دعاء فرماتے ہوئے سنا ہے کہ’’ اے اللہ  ! اس کے ذریعے سے ( لوگوں) کو  ہدایت عطا فرما‘‘(صحیح الترمذی: 3019)

(ب )حساب وکتاب کی تعلیم اورعذاب سے بچاؤ کی دعا

حضرتِ عرباض بن ساریہ رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں :

‘‘سمعت رسول  الله ﷺ یقول:’’اللّٰہُمَّ عَلِّمْ معاویة الَکِتَابَ والْحِسَابَ وَقِهِ الْعَذَابَ

(صححه الألباني في الصحیحة:3237)

کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو سنا : آپ ﷺ فرما رہے تھے:  اے اﷲ! معاویہ رضی الله عنه کو کتاب و حساب کا علم عطا فرما اور اسے عذاب سے محفوظ فرما۔

حدیث شریف كے فوائد:

۔ اس حدیث میں حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه کی فضیلت واضح ہے ۔ آپ ؓكیلئے رسول اللہ ﷺ نےحساب وکتاب کی تعلیم اور عذاب سے بچاؤ کی دعاء فرمائی ۔ 

۔ رسول کریم ﷺ ،مستجاب الدعاء تھے لہذا حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ دعاء ضرور قبول فرمائی ہوگی ۔ جب عذابِ جہنم سے بچاؤ مل گیا تو جنت کے وارث ہوں گے ۔

3 ۔  حضرت امیر معاویہ رضی الله عنه پر لعن طعن کرنے اور ان کے ایمان میں شک کرنے والے ذرا پنے ایمان کا جائزہ لیں ۔ رسول اللہ ﷺ جن كیلئےجہنم سے بچاؤ کی دعاء فرمارہے هیں ، ان کے بارے ایسے گندے کلمات کی جسارت کرنا اپنے ایمان کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے ۔

(ج) حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں مغفرت کی دعا

حضرت ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نےنبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے  :

أَوَّلُ جَيْشٍ مِن أُمَّتي يَغْزُونَ البَحْرَ قدْ أوْجَبُوا، قالَتْ أُمُّ حَرامٍ: قُلتُ: يا رَسولَ اللَّهِ أنا فيهم؟ قالَ: أنْتِ فيهم، ثُمَّ قالَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: أوَّلُ جَيْشٍ مِن أُمَّتي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لهمْ، فَقُلتُ: أنا فيهم يا رَسولَ اللَّهِ؟ قالَ: لا.‘‘

(صحیح البخاری:2924)

یہ بھی پڑھیں: سیرت امیر معاویہ اور22رجب کے کونڈے


کہ میری امت کا پہلا لشکر جو سمندری سفر کرکے غزوہ کرے گا اس نے اپنے لئے مغفرت واجب کر لی‘‘  حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟ آپ ﷺنے فرمایا :ہاں!  تم بھی ان کے ساتھ ہوگی، پھر نبی کریم نے فرمایا:  میری امت کا سب سے پہلا لشکر جو قیصر (رومی  بادشاہ )کے شہر( قسطنطنیہ )کے خلاف غزوہ کرے گا ان کی مغفرت ہوگی،  میں نے کہا: اللہ کے رسول !کیامیں بھی ان کے ساتھ ہوں گی؟  آپ ﷺنے فرمایا: نہیں ۔

حدیث شریف کے فوائد

1 ۔ اس حدیث میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہوئی کہ ان کی سرکردگی میں پہلا بحری جنگ رونما ہوئی۔چنانچہ امام فریابی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے سمندر ی غزوہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ہوا۔ (الشریعة للآجری : 5/2441)

حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے علم کے مطابق اہلِ سیر ومؤرخین کا اس میں اختلاف نہیں کہ حدیث میں مذکورہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا غزوہ جس میں حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا بھی شریک تھیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی  خلافت میں رونما ہوا۔ (التمھید لابن عبدالبر : 1/242)

2 ۔ اس حدیث میں رسول اللہﷺنے دو دعائیں کیں، پہلی دعا میں “قد أو جبوا” کا لفظ ارشاد فرمایا ہے اور یہ غزوہ قبرص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں  28 ہجری میں واقع ہوا جس میں حضرت ام حرام رضی اللہ عنہا شہید ہوئیں، دوسری دعا میں “مغفور لهم ” کا لفظ ارشاد فرمایا اور اس میں قیصر کا شہر یعنی قسطنطنیہ کے غزوہ کا ذکر ہے اور یہ غزوہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا جس میں قسطنطنیہ پر حملہ کیا گیا ،اس لشکر کے امیر یزید بن معاویہ تھے ۔

 حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے “قد أوجبوا” کا معنی یوں کیا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایسا کارنامہ سرانجام دیا جس کی وجہ سے ان کے لیے جنت واجب ہوگئی ۔ (فتح الباری: 6/ 121)

3 ۔ اس حدیث سے یه بھی معلوم هوا كه رسول کریمﷺکی دعاء حضرت امیر معاویہ رضی اللہ اور ام حرام رضی اللہ عنہا کے حق میں قبول ہوئی ،چنانچه ام حرام رضی اللہ عنہا پہلے بحری غزوہ میں شہادت كی موت پاكر سرخرو ہوئی۔ اورحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ كو اس پہلے سمندری جہاد میں شرکت کی سعادت ملی اور لسان ِنبوت سے مغفرت اور جنت کی بشارت حاصل كی۔چنانچہ مھلب بن احمد بن ابی صفرہ اندلسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ “اس حدیث سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت ظاہر ہوئی کیونکہ انہوں نے سب سے پہلا سمندری جہاد کیا ۔ (فتح الباری 6/120 -) التمہید لابن عبدالبر /235)

(د )حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت کی دعا

نبی کریم ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت كی دعاكرتے ہوئےفرمایا :

اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ ، وَمَكِّنْ لَهُ فِي الْبِلَادِ ، وَقِهِ الْعَذَابَ

(مسند أحمد: 5/2438 ، والسلسلة الصحيحة: 7/691)

اے اللہ ! معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتاب کا علم سکھا اور اسے ملکوں کی حکومت عطا فرما اور اسے عذاب سے بچا۔

حدیث شریف کے فوائد

1۔ اس حدیث سے معلوم هوا كه رسول کریمﷺکی دعا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کے حق میں قبول ہوئی اور آپ خلافت کے منصب پر متمکن ہوئے ۔

شيخ الإسلام ابن تيمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 وكانت إمارة معاوية ملكًا ورحمةً 

(جامع المسائل:5/154)

حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت بادشاہت اور رحمت پر قائم تھی۔

2۔ رسول اللہ ﷺ سےسسرالی رشتہ کا شرف

قال رسول اللہ ﷺ کُلُّ سَبَبٍ وَنَسَبٍ مُنْقَطِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِلَّا سَبَبِي وَنَسَبِي.

( صححه الألباني في الصحيحة  :2036)

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺنے فرمایا : ’’روز قیامت میرے تعلق اور نسب کے سوا ہر تعلق اور نسب ختم ہو جائے گا‘‘

حدیث شریف کے فوائد

1۔  اس حدیث سے بھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت نمایاں ہوتی ہے ۔کیونکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ ﷺ سے مصاہرت کا رشتہ تھا ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا(رملہ بنت ابو سفیان) رسول اللہ ﷺ کی زوجہ محترمہ تھیں ۔ اورسول اللہ ﷺ کا نسب وسسرالی کا یہ مقدس رشتہ روز قیامت بھی قائم رہے گا۔  اسی طرح حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے برادر نسبتی لگے ، یہ بھی بہت بڑا شرف وفضل ہے جس سے حضرت ابو سفیان بن صخر رضی اللہ عنہ کا گھرانہ دیگر گھرانوں کی طرح مشرف ہوا ۔

3۔  حضرت امیر معاویه رضی الله عنه مؤمنوں كے ماموں هیں

امام ابن الخلال رحمہ اللہ(م311ھ)روایت کرتے ہیں کہ:

أَنَّ أَبَا طَالِبٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللهِ أَقُولُ: مُعَاوِيَةُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ وَابْنُ عُمَرَ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ، مُعَاوِيَةُ أَخُو أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَحِمَهُمَا، وَابْنُ عُمَرَ أَخُو حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَحِمَهُمَا، قُلْتُ: أَقُولُ: مُعَاوِيَةُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ “

(السنة لأبي بكر بن الخلال: 657)

ابو طالب نے امام احمد(م241ھ) سے پوچھا کہ میں کہتا ہوں: معاویہ اور ابن عمر مومنوں کے ماموں ہیں (یعنی کیا یہ درست ہے)؟ تو انہوں نے فرمایا: جی ہاں، کیونکہ معاویہ رضی اللہ عنہ رسول الله ﷺ کی بیوی ام حبیبہرضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول الله ﷺ کی بیوی حضرت حفصہ کے بھائی ہیں

جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے تفسیر در منثور میں امام بیہقی اور ابن عساکر کے حوالے سے آیت مبارکہ :

عَسَى اللہُ اَنْ یَّجْعَلَ بَیْنَكُمْ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ عَادَیْتُمْ مِّنْهُمْ مَّوَدَّةً  

 (سُورَة الممتحنة آیة : 7 )

کے تحت فرمایاکہ:

كَانَت الْمَوَدَّة الَّتِي جعل الله بَينهم تَزْوِيج النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أم حَبِيبَة بنت أبي سُفْيَان فَصَارَت أم الْمُؤمنِينَ وَصَارَ مُعَاوِيَة خَال الْمُؤمنِين .

( الدر المنثور، ج:8،ص:130)

کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس آیت کریمه کی تفسیر میں فرمایا: کہ جو محبت اللہ تعالیٰ نے ان کے درمیان پیدا فرمائی وہ نبی کریم ﷺ کا حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمانا ہے۔ تو حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہا مومنوں کی ماں اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مومنوں کے ماموں ہوئے۔

نیز البدایہ والنہایہ میں ہے:

هو معاوية بن أبي سفيان صخر بن حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي أبو عبد الرحمن القرشي الأموي، خال المؤمنين، وكاتب وحي رب العالمين، أسلم هو وأبوه وأمه هند بنت عتبة بن ربيعة بن عبد شمس يوم الفتح.

(البداية و النهاية ج:8،ص:21)

یعنی معاویہ بن ابی سفیان کا سلسلۂ نسب یہ ہے: معاویہ بن ابی سفیان بن صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔ آپ قرشی اموی ہیں، کنیت ابو عبد الرحمن ہے اور آپ مومنوں کے ماموں ہیں اور وحی الٰہی کے کاتب ہیں۔ آپ اور آپ کے والد اور آپ کی والدہ ہند بن عتبہ فتح مکہ کے دن اسلام لائے۔

امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اہل ایمان کے ماموں ، اللہ کے وحی کے کاتب اور مسلمانوں کے خلفاء میں ایک خلیفہ ہیں  (لمعة الاعتقاد،  ص:33) 

امام ابو یعلی الفراء کا قول ہے : ’’ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مؤمنین کے ماموں اور رب العالمین کی وحی کے کاتب ہیں۔  (کتاب الاعتقاد ، ص: 43)

لهذا جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے سسرالی رشتے داروں کو ہدف تنقید اور لعن و طعن کا نشانہ بناتے ہیں وہ دراصل اپنےماموں کو گالی دیتے ہیں اور ایسے بُرے، بدبخت اور بے حیالوگ ہیں جونبی کریم ﷺکو ایذاء وتکلیف پہنچاتے هیں ۔

4۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

 كَانَ الْمُسْلِمُونَ لَا يَنْظُرُونَ إِلَى أَبِي سُفْيَانَ وَلَا يُقَاعِدُونَهُ، فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا نَبِيَّ اللهِ ثَلَاثٌ أَعْطِنِيهِنَّ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: عِنْدِي أَحْسَنُ الْعَرَبِ وَأَجْمَلُهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ أُزَوِّجُكَهَا؟ قَالَ نَعَمْ، قَالَ: وَمُعَاوِيَةُ، تَجْعَلُهُ كَاتِبًا بَيْنَ يَدَيْكَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَتُؤَمِّرُنِي حَتَّى أُقَاتِلَ الْكُفَّارَ كَمَا كُنْتُ أُقَاتِلُ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: نَعَمْ

( صحيح مسلم: 2501)

مسلمان (فتح مکہ کے موقع پر) حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی طرف نہ دیکھ رہے تھے اور نہ ہی انہیں ساتھ بٹھا رہے تھے ، حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے نبیﷺ میں آپ سے تین چیزیں مانگتا ہوں ، آپ مجھے یہ چیزیں عطا فرما دیں، آپﷺ نے فرمایا : جی ہاں ، عرض کیا : میرے پاس عرب کی حسین وجمیل بیٹی ام حبیبہ بنت ابو سفیان ہے ،میں اسے آپ کے نکاح میں دیتا ہوں ، آپﷺ نے فرمایا : ٹھیک ہے ،ابو سفیان رضی اللہ عنہ عرض گذار ہوئے کہ آپ معاویہ کو اپنا کاتب بنا لیجئے ، آپ نے فرمایا : جی ، ٹھیک ہے ، پھر عرض کیا : آپ مجھے امارت سونپ دیں تاکہ میں جس طرح مسلمانوں کے خلاف جنگ کرتا رہا ہوں اسی طرح اب کفار کے خلاف جنگ وقتال کرکے بدلہ لے سکوں ، آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے ۔

حدیث شریف کے فوائد

1 ۔ اس حدیث سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب ِرسول ہونے کا اثبات ہوا ۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ

’’وكان يكتب الوحي ‘‘ 

(دلائل النبوۃ للبیهقی243/6: ، وسیر أعلام النبلاء:  148/3  بسند صحیح)

یعنی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کاتبِ وحی تھے۔واضح رہے کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا تعلق اہل بیت سے ہے ، جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے کاتب ِوحی ہونے کی شہادت دے رہے ہیں ۔

2 ۔ رسول اللہ ﷺ کا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتبِ وحی بنانا بہت بڑا شرف و فضل ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے حصے میں آیا۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے کاتب ، صحابی ،برادر نسبتی اور اللہ تعالیٰ کے وحی کے امین تھے ۔( الشریعة للآجري: 2466/5  وتاریخ بغداد:  233/1  )

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے صحابی ہیں اور انہوں نے باقی کاتبین کے ساتھ آپ ﷺ کے سامنے وحی کی کتابت کی ہے ۔( البداية والنهاية:397/11)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :

استَكْتَبَه النبي صلى الله عليه وسلم لخِبْرَتِه وأمانته  

(منهاج السنة  :4/439)

کہ رسول اللہ ﷺ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کےتجربے اور امانت داری کی بنا پران سےوحی کی کتابت کروائی۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ ’’ حضرت امیر معاویہ کے کاتب ِوحی ہونے پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے (البداية والنہاية: 354/5 )۔

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ نبی کریم ﷺ کے کاتبین میں سے سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا تھا، یہ دونوں حضرات دن رات آپ ﷺ کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے۔( جوامع السیرة لابن حزم:ص27 )

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مراسلہ نبوی کے قاری تھے۔ (مسند احمد:3/441 )

آپ رضی اللہ عنہ پر رسول اللہﷺ کا اتنا عظیم اعتماد تھا کہ خصوصی خطوط کے محرر رہے۔(الاصابة:3/393)

5۔  رسول کریم ﷺ کا اظہار اعتماد

رسول کریم ﷺ حضرت امیر معاویہ کی کتابتِ وحی پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ حضرت سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ  :

إِنَّ عُيَيْنَةَ ، والْأَقْرَعَ سَأَلَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا ، فَأَمَرَ مُعَاوِيَةَ أَنْ يَكْتُبَ بِهِ لَهُمَا ، فَفَعَلَ وَخَتَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَمَرَ بِدَفْعِهِ إِلَيْهِمَا ، فَأَمَّا عُيَيْنَةُ فَقَالَ : مَا فِيهِ ؟ قَالَ : فِيهِ الَّذِي أُمِرْتُ بِهِ ، فَقَبَّلَهُ ، وَعَقَدَهُ فِي عِمَامَتِهِ

( أخرجه أحمد في المسند:180/4 ، وصححہ الاألبانی في صحیح أبي داود: 1629 )

عیینہ بن حصین اور اقرع بن حابس نے رسول کریم ﷺ سے کچھ مانگا ، آپ ﷺ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھنے کا حکم فرمایا کہ ان کیلئے تحریر لکھ دیں ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے تحریر لکھ دی تو رسول اللہ ﷺ نے اس پر مہر ثبت کردی اور فرمایا: ان دونوں کو یہ تحریر دیدیں ۔ حضرت عیینہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس تحریر میں کیا ہے؟ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرمایا: اس میں فرمان ِرسول  اللہ ﷺ تحریر ہے ، حضرت عیینہ رضی اللہ عنہ نے خط کا بوسہ لیا اور اسے اپنی پگڑی میں باند ھ لیا ۔

حدیث شریف کے فوائد

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ وحی کے علاوہ بھی دیگر اشیاء تحریر کرتے تھے ، اوریہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی کتابت پر اعتماد کرتے تھے ۔

6۔ رسول اللہ ﷺ کے ہاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقام

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

خَرَجَ مُعَاوِيَةُ عَلَى حَلْقَةٍ فِي الْمَسْجِدِ فَقَالَ: مَا أَجْلَسَكُمْ؟ قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ قَالَ: آللَّهِ مَا أَجْلَسَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ؟ قَالُوا: آللَّهِ مَا أَجْلَسَنَا غَيْرُهُ قَالَ: أما إِنِّي لم أستحلفكم تُهْمَة لكم وَمَا كَانَ أَحَدٌ بِمَنْزِلَتِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَلَّ عَنْهُ حَدِيثًا مِنِّي وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى حَلْقَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقَالَ: «مَا أَجْلَسَكُمْ هَاهُنَا» قَالُوا: جَلَسْنَا نَذْكُرُ اللَّهَ وَنَحْمَدُهُ عَلَى مَا هَدَانَا لِلْإِسْلَامِ وَمَنَّ بِهِ علينا قَالَ: ” آالله مَا أجلسكم إِلَّا ذَلِك؟ قَالُوا: آالله مَا أَجْلَسَنَا إِلَّا ذَلِكَ قَالَ: «أَمَا إِنِّي لَمْ أَسْتَحْلِفْكُمْ تُهْمَةً لَكُمْ وَلَكِنَّهُ أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَخْبَرَنِي أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُبَاهِي بِكُمُ الْمَلَائِكَة‘‘

(صحیح مسلم:2701)

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں ایک حلقے کے پاس تشریف لائے تو فرمایا: تمہیں کس نے یہاں بٹھایا ہے ؟َ لوگوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کیلئے یہاں بیٹھےہیں، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا تم اللہ کی قسم اٹھاتے ہو کہ صرف اسی لیے یہاں بیٹھے ہیں؟ لوگوں نے کہا : ہم اللہ کی قسم اٹھاتے ہیں کہ ہم صرف اسی لیے بیٹھے ہیں ، حضرت معاویہ رضی الہ عنہ نے فرمایا: میں نے کسی بد گمانی کی وجہ سے تم لوگوں سے قسم نہیں اٹھوائی ہے ۔ آپ لوگوں میں سے ایسا کوئی نہیں ہے جسے رسول اللہ ﷺ سے مجھ جیسی قربت حاصل رہی ہو ، اس کے باوجود میں نے کم احادیث بیان کی ہیں ، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے حلقے میں تشریف لائے ، آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ یہاں کیوں بیٹھے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ ہم ذکرِ الہی کرنے اور اس بات پر شکر ادا کرنے کیلئے بیٹھے ہیں کہ اس نے اسلام کی طرف ہماری رہنمائی کی اور اس کے ذریعے ہم پر احسان کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم لوگ اللہ کی قسم اٹھاتےہو کہ تم لوگ صرف اسی مقصد کیلئے بیٹھے ہو ؟ صحابہ نے کہا : اللہ کی قسم : ہم اسی لیے بیٹھے ہیں ، آپ ﷺنے فرمایا: میں نے تمہارے متعلق کسی بد گمانی کی وجہ سے تم لوگوں سے قسم نہیں اٹھوائی بلکہ میرے پاس جبریل علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے مجھے خبر دی کہ اللہ عز وجل تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے ۔

حدیث شریف کے فوائد

1۔  حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی رسول اللہ ﷺ سے انتہائی قربت تھی ، جیساکہ حدیث سے واضح ہے ۔

2۔  حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کی اقتداء کرتے ہوئے اور آپ ﷺ کے فعل کی حکایت بیان کرنے کیلئے قسم اٹھوائی ، کسی بدگمانی کی وجہ سے قسم نہیں اٹھوائی ۔

حضرت امیر امعاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے برادرِ نسبتی اور کاتب

عن عبد الله بن بريده رحمه الله قال : أن معاوية خرج على قوم يذكرون الله عز وجل فقال : سأبشركم بما بشر به رسول اللهﷺ   مثلكم ، إنكم لا تجدون رجلاً منزلته من رسول الله ﷺ منزلتي ، أقل حدیثاً عنه مني كنت ختنه ، وكنت في كتابه ، وكنت أرحل له راحلته ، وإن رسول الله ﷺ قال لقوم یذكرون الله عزوجل ’’ إن الله تبارك وتعالیٰ یباهي بكم الملائكة‘‘

( الشریعة للآجري : 1947 ، وسنده صحیح)

عبد اللہ بن بریدہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کچھ لوگوں کے پاس تشریف لائے جو ذکرِ الہی میں مشغول تھے اور فرمایا: میں تمہیں وہ خوشخبری سناتا ہوں جو رسول اللہ ﷺ نے تمہارے جیسے لوگوں کے متعلق سنائی تھی کہ بلا شبہ تم لوگوں کو ایسا شخص نہیں ملے گا جس کا رسول اللہ ﷺکے ہاں مجھ سے زیادہ مقام ومرتبہ ہو ۔  اور جو مجھ سے نبی ﷺ کی بہت کم حدیث بیان کرنے والا ہو۔ میں آپ ﷺ کا برادر نسبتی ہوں ، میرا شمار آپ ﷺ کےوحی کے کاتبوں میں ہوتا تھا ،اور میں ہی آپ ﷺ کی سواری تیار کرکے دیتا تھا ۔چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ذکرِ الہی میں مشغول رہنے والوں کے بارے میں فرمایا: ’’ بلا شبہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے زریعہ فرشتوں پر فخر کرتا ہے ۔

حدیث شریف کے فوائد

1۔   حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت کے پہلوؤں میں ایک پہلو یہ واضح ہوا کہ وہ اہل اللہ کے ساتھ بڑے خوش ہوتے تھے اور ذکر الہی میں مشغول رہنے والوں کو مزید رغبت دلایا کرتے تھے ۔

2۔   سیدناامیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا مقام ومرتبہ عیاں ہوا کہ آپ کو رسول کریم ﷺ کے ساتھ بہت زیادہ قرب حاصل تھا ، ایک تو آپ ﷺکے برادر نسبتی تھے ، آپﷺ کے کاتب تھے ، اور آپﷺ کی سواری تیار کرتے تھے ، یہ عظیم مراتب ہیں جو معاویہ رضی اللہ عنہ کو حاصل تھے ۔

حضرت ابو سعید خدری  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

عن أبي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قال: قال رسول اللَّهِ ﷺ:تَمْرُقُ مارِقَةٌ عِنْدَ فُرْقَةٍ مِنَ المُسْلِمِينَ، يَقْتُلُها أوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بالحَقِّ.

( صحيح مسلم: 1064)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ مسلمانوں کے افتراق واختلاف کے وقت ایک گروہ (خوارج) اسلام سے خارج ہوجائے گا اور اسے مسلمانوں کے دونوں گروہوں میں سے جو گروہ حق کے زیادہ قریب ہوگا وہ قتل کرے گا ‘‘

حدیث شریف کے فوائد

1۔ حدیث میں مسلمانوں کے دو گروہوں سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء ہیں اور جنگ ِصفین میں دونوں گروہوں کے اختلاف اور افتراق کے وقت جو گروہ دین ِاسلام سے خارج ہوا تو وہ بالاتفاق خوارج کا گروہ ہے۔

2۔ اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہمادونوں حق پر تھے ، اور ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت حق کے زیادہ قریب تھی کیونکہ انہوں نے خوارج سے قتال کیا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد اور متاؤل تھے۔ اس اجتہاد پر انہیں بھی ثواب ملے گا ۔ ان شاء اللہ ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یہ صحیح حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ دونوں گروہ (حضرت علی اور ان کے اصحاب اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما اور ان کے اصحاب ) حق پر تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے اصحاب حق سے نسبتاً زیادہ قریب تھے ۔ (مجموع الفتاوی467/4 )

3۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اختلاف حق وباطل کا اختلاف نہ تھا بلکہ اجتہادی اختلاف تھا ، البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت حق سے زیادہ قریب تھی ، اگر آپ کی یہ مراد نہ ہوتی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت کو  ’’حق سے زیادہ قریب ‘‘ کے بجائے محض ’’ برحق جماعت ‘‘ کہا جاتا ۔

ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فر مایا :

 ’’لا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَقْتَتِلَ فِئَتَانِ عَظِيمَتَانِ، يَكُونُ بَيْنَهُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِيمَةٌ، دَعْوَتُهُمَا وَاحِدَةٌ

(صحیح البخاری:3413 ، ومسلم :2888)

’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک کہ (مسلمانوں کی ) دو عظیم جماعتیں آپس میں قتال نہ کریں ، ان کے درمیان شدید لڑائی ہوگی حالانکہ دونوں کا دعوی ایک ہی ہوگا ۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’ دونوں گروہوں سے اصحاب جمل اور اصحاب صفین کی جماعتیں مراد ہیں وہ دونوں اسلام کی طرف دعوت دیتے تھے ‘‘۔ ( البداية والنہاية: 192/9) 

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے کسی ایک کا بھی مقصودطلبِ اقتدار نہیں تھا بلکہ دونوں اسلام  ہی کی دعوت لے کر کھڑی ہوئی تھیں لہذا  دونوں حق پر تھے ، بعض روایات میں ہے کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  نے فرمایا کہ : امیر معاویہ کےمقابلے میں نکلنا یہ میری ذاتی رائے ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی باہمی جنگ ان کی اجتہادی آراء تھیں ۔

4۔ رسول للہ ﷺ نے دونوں جماعتوں کو مسلمان اور حق پر کہا ہے لہذا ان کی تکفیر کرنا اور انهیں فاسق یا باغی قرار دینا بالکل ناحق ہے ۔

5۔ حضرات صحابہ کرام کے باہمی اختلافات ومشاجرات میں توقف کیا جائے اور ان کے خلاف زبان درازی نہ کی جائے اور طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنایا جائے  ، ایسا کرنے والا راہِ حق سے ہٹا ہوا ہے اور گمراہ شخص ہے۔

6۔ اس حدیث میں خارجی، نواصب اور رافضی فرقوں کا رد ہے جو اہل بیت اور صحابہ کرام کی تکفیر وتفسیق کرتے ہیں اور ان دونوں پاک باز لوگوں کو جدا جدا کرتے ہیں حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے دونوں گروہوں کے حق پر ہونے کی گواہی اور پیش گوئی فرمائی ،دین سے خارج ہونے والا گروہ خوارج تھا ، نہ کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کا گروہ ، وہ دونوں مسلمانوں کے عظیم گروہ تھے ۔

10۔  مسلمان جماعت

حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ عَلَى المِنْبَرِ وَالحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ إِلَى جَنْبِهِ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً، وَعَلَيْهِ أُخْرَى وَيَقُولُ: «إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ»

(صحیح البخاری :2704، ومسلم : 2421)

میں نے رسول اللہ ﷺکو منبر پر دیکھا جبکہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں تھے ، آپ ﷺکبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے اور کبھی حسن رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوتے  اور فرماتے ’’ بے شک  میرا یہ بیٹا سردار ہے اور امید ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو عظیم جماعتوں میں صلح کرائے گا ‘‘

حدیث شریف کے فوائد

1۔  اس حدیث میں نواسہ ٔرسول، جگر گوشہ ٔبتول حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت و اضح ہوئی ، آپﷺ نے انہیں سردار کہا اورصلح کا عظیم فريضہ انجام دینے کی پیش گوئی فرمائی ۔

2۔   اس حدیث میں حضرت معاویہ اور حضرت حسن  رضی اللہ عنہاکے باہمی صلح کا تذکرہ ہے  ۔اس صلح کے بارے جو رسول اللہ نے پشین گوئی فرمائی تھی وہ حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی ، اس سے مسلمانوں کی باہمی خونریزی رُک گئی ۔

3۔  حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خلافت سونپ کر ایک عظیم کردار ادا کیا ، اس سے ان کے شرف سیادت میں مزید اضافہ ہوا ۔ 

4۔ رسول اللہ ﷺ نے دونوں جماعتوں کو مسلمان قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت باغی نہ تھی ۔

11۔ غلبہ اسلام اور خلافت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ 

حضرت جابر بن سمرہ  رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا :

’’لا يَزالُ الإسلامُ عَزيزًا إلى اثنَيْ عَشَرَ خَليفةًكُلُّهم مِن قُرَيشٍ.

( صحیح البخاری :7222  ، ومسلم : 1821)

’’ بارہ خلیفوں تک اسلام غالب رہے گا اور وہ سب قریش سے ہوں گے ‘‘

حدیث شریف کے فوائد

1۔ بلاشبہ ان بارہ خلفاء میں سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ، ان کا دورِ خلافت 20 سال تک رہا ، اس دور میں  اسلام اکثر ملکوں تک پہنچا ، آپ ہی کے دورِ خلافت میں صقلیہ کا عظیم الشان جزیرہ فتح ہوا ، سجستان سے کابل تک کا علاقہ زیرِ نگین ہوا ، جزیرہ قبرص فتح ہوا ، افریقہ اور روم کے کچھ علاقے مفتوح ہوئے ، لہذا آپ کا دور ِخلافت اسلامی تاریخ کاایک عہدِ ز رّین تھا ۔

2۔ اس حدیث میں اثنا عشریہ روافض کا رد ہے جو اس سے اپنے مزعومہ بارہ امام مراد لیتے ہیں ، ان کا قول باطل ہے ایک تو ان کے مزعومہ اماموں میں اکثر خلیفہ وحاکم نہیں رہے اور دوسرے نمبر پر ان کے دور میں اسلام کی کوئی شان وشوکت میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ ان میں سے بعض اپنی جان بچانے کے لیے چھپے رہے ، اور ان کا آخری امام ( ان کے بقول ) ابھی تک  غار میں روپوش ہیں ۔

12 ۔  حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہدِ حکومت میں رحمت کی پیش گوئی ۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أولُ هذا الأمرِ نبوةٌ ورحمةٌ، ثمَّ يكونُ خلافةٌ ورحمةٌ، ثمّ يكون مُلكاً ورحمةً،  ثمّ يكون إمارةً ورحمةً ۔

(صححه الألبانی في الصحیحة:3270)

اسلام کے آغاز میں نبوت اور رحمت کا دور ہوگا ، پھر خلافت اور رحمت کا دور ہوگا ، پھر امارت اور رحمت کا دور ہوگا ۔

حدیث شریف کے فوائد

1۔ اس نبوی پیش گوئی میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت نمایاں ہے کہ آپ کے دور ِحکومت میں رحمت کی شان ظاہر ہوگی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:

ما رأيتُ رجلًا كان أخْلَقَ للمُلك من معاوية

(مصنف عبد الرزاق:20985 ،  والسنة لأبی بکر الخلال: 637  بسندصحیح )

  میں نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر ملوکیت کے لیے موزوں شخص نہیں دیکھا ۔

2۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ اہل علم کا اتفاق ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اس امت کے سب سے افضل بادشاہ تھے ، آپ سے پہلے چاروں حکمران خلفاء نبوت تھے اور آپ کی بادشاہت باعثِ رحمت تھی جیساکہ حدیث میں ہے ۔ (مجموع الفتاوی:478 /4 ،  ومنہاج السنة:453/7 )

اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو صحابہ کرام اور اہل بیت عظام سے سچی محبت اور ان کےہر قول و عمل کو اختیار کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ