نکاح نامے میں ختم نبوت کا حلف نامہ اور قادیانی سے نکاح کی شرعی حیثیت

الحمدللہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ !

نکاح نامے میں ختم نبوت کا حلف نامہ  شامل کرنے کی قرارداد پنجاب اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلی ہے۔سوال یہ ہےکہ اس قرارداد کی ضرورت کیا تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قادیانی ختم نبوت کے  انکار کے باعث مرتد و زندیق ہیں  اس لیے کسی مسلمان کا کسی قادیانی سے نکاح منعقد نہ ہوگا اور جان بوجھ کر ایسا کرنا گناہ ہے۔   علم نہ ہونے کی وجہ سے بھی ایسا کرنا جائز نہیں  اور نہ ہی یہ نکاح منعقد ہوگا ۔ ان کے درمیان شرعی طور پر یہی حکم ہے کہ فوراً علیحدگی کروائی جائے گی۔ اور  مرتد کی سزا تو قتل ہے ، یہاں وہ شوہر ہونے کی صورت میں عورت کے سر کا تاج بن جائے  یا بیوی ہونے کی صورت میں گھر کی ملکہ ۔

یہ بات مسلمانوں کو کیونکر گوارا ہوسکتی ہے ۔  دوسری طرف  نکاح نامے میں   ختم نبوت سے متعلق کوئی شق موجود نہ ہونے کے باعث  قادیانی اپنے ارتداد کو مخفی رکھتے اور نکاح کے بعد واضح ہونے کی صورت میں باقی مسائل کھڑے ہونا اپنی جگہ !! سب سے بڑا مسئلہ   نکاح کے عدم انعقاد کا  کھڑا  ہوجاتا ۔ عرصہ دراز سے ایک  طرف حکمرانوں کا  اس قسم کے مسائل کی کوئی اہمیت نہ  دینا  اور دوسری طرف وہ غیرمسلموں  کے بارے میں عجیب وغریب قوانین بنانے میں مصروف عمل نظر آنا ، کبھی ناموس رسالت کی سزا موضوع بحث بنتی تو کبھی کم عمر کے اسلام کی ! ! کبھی  غیر مسلم کے  قبول اسلام سے روک تھام کے قوانین پریشان کن تھے اور ہیں ۔ ایسے میں پنجاب اسمبلی کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا ہے کہ  نکاح نامے میں ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کرنے کی قرار داد منظور کرلی گئی ہے۔ اس حلف نامے کی ضرورت کے حوالے سے اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہی  کا کہنا تھا :

“‏بہت سے ایسے کیس سامنے آ رہے ہیں کہ شادی کے بعد دولہا قادیانی نکلا اس کے سدباب کیلئے نکاح نامے میں بھی ختم نبوت کا حلف نامہ شامل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ نکاح ہونے سے پہلے ہی تمام شکوک و شبہات دور کر لیے جائیں۔”

لہذا پنجاب اسمبلی  کا یہ اقدام قابل تحسین ہے اسے تمام صوبوں میں نافذ العمل ہونا چاہیے اور اہل اسلام کو اس حوالے سے اپنی کوششیں اور کاوشیں بروئے کار لانی چاہییں۔

مصنف/ مقرر کے بارے میں

الشیخ ڈاکٹر حافظ محمد یونس اثری حفظہ اللہ