قیام اللیل نیک اور تقویٰ والوں کا عمل ہے اور یہ بہت زیادہ اجر و ثواب والی عبادت ہے۔ قیام اللیل انسانی جان کے لئے باعثِ مشقت ہے کیونکہ رات کا وقت سونے اور آرام کا وقت ہے۔ انسانی نفس کا آرام و راحت کو چھوڑ کر قیام اللیل کی طرف آنا ایک عظیم جدوجہد ہے۔ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ قیام اللیل کیا کرتے تھے۔ جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مسلمان آدمی سے کہا۔
لاَ تدع قيامَ اللَّيلِ فإنَّ رسولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كانَ لاَ يدعُهُ وَكانَ إذا مرضَ أو كسلَ صلَّى قاعدًا.
(صحيح أبي داود: 1307)
تہجد ( قیام اللیل ) نہ چھوڑو کیونکہ رسول اللہ ﷺ اسے نہیں چھوڑتے تھے جب آپ بیمار یا سست ہوتے تو بیٹھ کر پڑھتے۔
اور نبی علیہ السلام کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ آدھی رات یا اس سے کچھ زیادہ یا اس سے کچھ کم تہجد میں گزاریں۔
يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ ﴿١﴾ قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿٢﴾ نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ﴿٣﴾ أَوْ زِدْ عَلَيْهِ
المزمل – 1/2/3/4
اے کپڑے میں لپٹنے والے۔ رات (کے وقت نماز) میں کھڑے ہو جاؤ مگر کم ۔ آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم کرلے۔ یا اس پر بڑھا دے۔
بخاری کی حدیث ہے: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
وكانَ لا تَشَاءُ أَنْ تَرَاهُ مِنَ اللَّيْلِ مُصَلِّيًا إلَّا رَأَيْتَهُ.
(صحيح البخاري: 1141)
اور رسول اللہﷺ کی حالت یہ تھی کہ آپ جب بھی رات کو انہیں دیکھیں تو وہ نماز ہی پڑھ رہے ہوتے تھے۔
رمضان المبارک میں قیام اللیل کو بہت اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔ نبی کریم ﷺکا معمول تھا کہ آپ ﷺ رمضان المبارک کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز، تسبیح و تہلیل اور قراتِ قرآن میں مشغول رہتے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
كانَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ يُرَغِّبُ في قِيَامِ رَمَضَانَ مِن غيرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فيه بعَزِيمَةٍ، فيَقولُ: مَن قَامَ رَمَضَانَ إيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ وَالأمْرُ علَى ذلكَ، ثُمَّ كانَ الأمْرُ علَى ذلكَ في خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ، وَصَدْرًا مِن خِلَافَةِ عُمَرَ علَى ذلكَ.
( صحيح مسلم: 759 ، صحیح البخاري: 2009)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان میں قیام اللیل کی ترغیب دیا کرتے تھے لیکن اس کا تاکیدا حکم نہیں دیتے تھے ۔ آپ ﷺ فرماتے کہ جو آدمی رمضان میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کرے تو اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔ رسول اللہ ﷺ وفات فرما گئے اور آپ ﷺ کا یہ حکم اسی طرح باقی رہا پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے آغاز میں اسی طرح یہ حکم باقی رہا۔
درج بالا حدیث مبارکہ سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں قیام اللیل کو بہت اہمیت حاصل ہے۔
رمضان میں نمازِ تراویح بھی قیام اللیل کی ایک اہم کڑی ہے جسے قیام رمضان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ نمازِ تراویح کے سبب جتنا قیام اس مہینے میں کیا جاتا ہے وہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں نہیں ہوتا۔ اس سے منشاءِ ایزدی یہ ہے کہ بندہ رمضان المبارک کی راتوں کو زیادہ سے زیادہ اس کے حضور عبادت اور ذکر و فکر میں گزارے اور اس کی رضا کا سامان مہیا کرے۔ اس لئے کہ رمضان کی با برکت راتیں شب بیداری کا تقاضا کرتی ہیں کیونکہ احادیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
يَنْزِلُ رَبُّنا تَبارَكَ وتَعالَى كُلَّ لَيْلةٍ إلى السَّماءِ الدُّنْيا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ، يقولُ: مَن يَدْعُونِي، فأسْتَجِيبَ له؟ مَن يَسْأَلُنِي فأُعْطِيَهُ؟ مَن يَستَغْفِرُني فأغْفِرَ له؟
(صحيح البخاري: 1145، ومسلم: 758)
ہمارا پروردگار بلند برکت والا ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں۔
دوسری حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إنَّ اللَّهَ يُمْهِلُ حتَّى إذا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الأوَّلُ، نَزَلَ إلى السَّماءِ الدُّنْيا، فيَقولُ: هلْ مِن مُسْتَغْفِرٍ؟ هلْ مِن تائِبٍ؟ هلْ مِن سائِلٍ؟ هلْ مِن داعٍ؟ حتَّى يَنْفَجِرَ الفَجْرُ.
(صحيح مسلم: 758)
اللہ تعالیٰ ( بندوں کو آرام کی ) مہلت دیتا ہے حتیٰ کہ جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے تو وہ آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے : کیا کوئی مغفرت کا طلب گار ہے؟ کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے؟ کیا کوئی مانگنے والا ہے؟ کیا کوئی پکارنے والا ہے؟ حتیٰ کہ فجر پھوٹ پڑتی ہے۔
قیام اللیل گذشتہ گناہوں کے لئے بخشش کا ذریعہ ہے:
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جاء رجلٌ إلى النَّبيِّ ، فقال : يا رسولَ اللهِ أرأيتَ إن شهدتُ أن لا إله إلا اللهُ ، و أنك رسولُ اللهِ ، و صلَّيتُ الصلواتِ الخمسِ ، و أدَّيتُ الزكاةَ ، و صمتُ رمضانَ ، وقُمتُه ، فممَّن أنا ؟ قال : من الصِّدِّيقين و الشُّهداءِ
صحیح الترغیب : 1003
ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ! اگر میں گواہی دوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں پانچ وقت کی نماز پڑھوں، زکات ادا کروں، رمضان کے روزے رکھوں اور قیام اللیل کروں تو میرا مقام کیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم صدیقین اور شہداء میں سے ہو۔
اللہ کے ہاں ایک نام :
من قامَ بعشرِ آياتٍ لم يُكتب منَ الغافلينَ ومن قامَ بمائةِ آيةٍ كتبَ منَ القانتينَ ومن قامَ بألفِ آيةٍ كتبَ منَ المقنطرينَ
(صحيح أبي داود : 1398)
جو شخص دس آیتوں ( کی تلاوت ) کے ساتھ قیام اللیل کرے گا وہ غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا، جو سو آیتوں ( کی تلاوت ) کے ساتھ قیام کرے گا وہ عابدوں میں لکھا جائے گا اور جو ایک ہزار آیتوں ( کی تلاوت ) کے ساتھ قیام کرے گا وہ بے انتہاء ثواب جمع کرنے والوں میں لکھا جائے گا
قیام اللیل مؤمن کا شرف :
آپ ﷺ نے فرمایا:
أتاني جبريلُ ، فقال : يا محمدُ عِشْ ما شئتَ فإنك ميِّتٌ ، وأحبِبْ ما شئتَ ، فإنك مُفارِقُه ، واعملْ ما شئتَ فإنك مَجزِيٌّ به ، واعلمْ أنَّ شرَفَ المؤمنِ قيامُه بالَّليلِ ، وعِزَّه استغناؤه عن الناسِ1
میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور كہنے لگے: اے محمد ﷺ! جب تک چاہو زندہ رہو بالآخر آپ نے مرنا ہے، جسے چاہیں پسند كر لیں بالآخر اس سے جدا ہونا ہے، جو چاہو عمل كرو كیوں كہ تمہیں اس كا بدلہ دیا جانا ہے۔ جان لیجئے كہ مومن كا شرف اس كا رات كا قیام ہے اور اس كی عزت لوگوں سے مستغنی ہونے میں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کا ذریعہ :
قیام اللیل اللہ تعالیٰ سے قریب ہونے کا ذریعہ ہے. حضرت بلال سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا :
عليكُم بقيامِ اللَّيلِ ، فإنَّهُ دَأْبُ الصَّالِحينَ قبلَكُم ، و قُربةٌ إلى اللهِ تعالى ومَنهاةٌ عن الإثمِ و تَكفيرٌ للسِّيِّئاتِ ، ومَطردةٌ للدَّاءِ عن الجسَدِ
(صحيح الجامع : 4079)
تم ہمیشہ رات کی نماز اپنے اوپر لازم کرلو اس لیے کہ یہ تم سے پہلے گذرے ہوئے نیک لوگوں کی عادت رہی ہے. یہ نماز تمہارے رب کی قربت کا ذریعہ ہے اور گناہوں کو مٹانے والی ہے، برائیوں كے لئے كفاره ہے اور جسم كی بیماریوں كو دور كرنے والی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی مسکراہٹ :
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قیام اللیل کرنے والے کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ خوشی سے مسکرا دیتا ہے ۔
قال ابنُ مسعودٍ : إنَّ اللَّهَ ليضحَكَ إلى رجُلَينِ : رجلٌ قامَ في ليلةٍ بارِدَةٍ مِن فِراشِهِ ولِحافِهِ ودِثارِهِ فتوضَّأَ ، ثمَّ قامَ إلى الصَّلاةِ ، فيقولُ اللَّهُ عزَّ وجلَّ لملائكتِهِ : ما حمل عبدي هذا على ما صنَعَ ؟ فيقولون : ربَّنا ! رجاءَ ما عِندَكَ ، وشفقَةً مِمَّا عندَكَ . فيقولُ : فإنِّي قد أعطيتُهُ ما رجا ، وأمَّنتُهُ مِمَّا يخافُ۔
(صحيح الترغيب: 630)
دو شخصوں کو دیکھ کر اللہ تعالی خوش ہوتا ہے: ایک وہ شخص جو سرد رات میں اپنے بستر اور لحاف سے اٹھ کر وضو کرتا ہے پھر جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تعالی فرشتوں سے پوچھتا ہے: میرے بندے کو یہ تکلیف برداشت کرنے پر کس چیز نے ابھارا ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ وہ آپ کی رحمت کا امیدوار ہے اور آپ کے عذاب سے ڈرتا ہے. اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم لوگ گواہ رہو میں نے اسکی امیدیں پوری کر دی اور جس چیز سے خوف کھا رہا ہے اس سے امن دے دیا۔
فرض کے بعد سب سے افضل نماز :
قیام اللیل فرض نمازوں کے بعد افضل ترین نماز ہے. رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ المَكْتُوبَةِ الصَّلَاةُ في جَوْفِ اللَّيْلِ
صحیح مسلم: 1163
فرض کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز یعنی نماز تہجد ہے۔
گناہوں کی بخشش کا سبب:
قیام اللیل سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور خطائیں دُھل جاتی ہیں۔
نبی ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
ألا أدُلُّك على أبوابِ الخيرِ ؟ . قلتُ : بلى يا رسولَ اللهِ ! قال : الصومُ جُنَّةٌ ، والصدقةُ تُطفِئُ الخطيئةَ كما يطفئُ الماءُ النارَ ، وصلاةُ الرجلِ من جوفِ الليلِ2
کیا میں آپ کو خیر کے دروازے نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطاؤں کو بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور رات کے وقت آدمی کی نماز۔ (یعنی نماز بھی خطاؤں کو بجھا دیتی ہے)۔
اللہ کی رحمت کا سبب:
اور یہ بندے کے لئے اللہ کی رحمت کا سبب ہے. فرمانِ نبوی ﷺ ہے:
رحم اللهُ رجلًا قام من اللَّيلِ فصلَّى و أيقَظَ امرأتَه ، فإن أبَتْ نضحَ في وجههِا الماءَ ، و رحم اللهُ امرأةً قامتْ مِن اللَّيلِ فصلَّتْ و أيقظتْ زوجَها ، فإن أبى نضحَتْ في وجهِه الماءَ3
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے پھر نماز پڑھے. اپنی بیوی کو بھی جگائے تو وہ بھی نماز پڑھے اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے. اللہ رحم فرمائے اس عورت پر جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے. اپنے شوہر کو بھی بیدار کرے اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔
اللہ کا شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ:
اور تہجد ان عبادات میں سے ہے جو اللہ کی بھرپور نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے کی جاتی ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ
أنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ كانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حتَّى تَتَفَطَّرَ قَدَمَاهُ، فَقالَتْ عَائِشَةُ: لِمَ تَصْنَعُ هذا يا رَسولَ اللَّهِ، وقدْ غَفَرَ اللَّهُ لكَ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِكَ وما تَأَخَّرَ؟ قالَ: أفلا أُحِبُّ أنْ أكُونَ عَبْدًا شَكُورًا فَلَمَّا كَثُرَ لَحْمُهُ صَلَّى جَالِسًا، فَإِذَا أرَادَ أنْ يَرْكَعَ قَامَ فَقَرَأَ ثُمَّ رَكَعَ.
( صحيح البخاري: 4837)
نبی کریم ﷺ رات کی نماز میں اتنا طویل قیام کرتے کہ آپ کے قدم پھٹ جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ اتنی زیادہ مشقت کیوں اٹھاتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا: کیا پھر میں شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ عمر کے آخری حصہ میں ( جب طویل قیام دشوار ہو گیا تو) آپ ﷺ بیٹھ کر رات کی نماز پڑھتے اور جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے ، قراءت کرتے اور پھر رکوع کرتے۔
فرشتوں کی حاضری :
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
مَن خَافَ أَنْ لا يَقُومَ مِن آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَن طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ؛ فإنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذلكَ أَفْضَلُ
(صحيح مسلم: 755)
’’جس کسی کو یہ اندیشہ اور خوف لاحق ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہیں ہو سکے گا تو اسے چاہیے کہ رات کے پہلے حصے ہی میں وتر پڑھ لے۔ اور جسے یہ توقع اور امید ہو کہ وہ بیدار ہو جائے گا تو اسے رات کے آخری حصے میں وتر پڑھنے چاہیے کیونکہ رات کے آخری حصے کی نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ بہت بہتر ہے۔
اللہ کا قرب حاصل کرنے کا وسیلہ:
أقربُ ما يكون العبدُ من الرَّبِّ في جوفِ اللَّيلِ
(صحيح الترغيب : 1647)
بندہ سب سے زیادہ اپنے رب کے قریب رات کی تاریکی میں ہوتا ہے۔
فتنوں سے حفاظت :
رات کی نماز اللہ کے حکم سے فتنوں سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:
قالت أمُّ سلمة – رضي الله عنها -: اسْتَيْقَظَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ لَيْلَةً فَزِعًا، يقولُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، مَاذَا أنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الخَزَائِنِ، ومَاذَا أُنْزِلَ مِنَ الفِتَنِ، مَن يُوقِظُ صَوَاحِبَ الحُجُرَاتِ – يُرِيدُ أزْوَاجَهُ لِكَيْ يُصَلِّينَ – رُبَّ كَاسِيَةٍ في الدُّنْيَا عَارِيَةٍ في الآخِرَةِ.
( صحيح البخاري: 7069)
ام سلمہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں: اللہ کے رسول ﷺ ڈرتے ہوئے اٹھے اور یہ کہہ رہے تھے: سبحان اللہ! اللہ نے کیا خزانے نازل کئے ہیں؟ اور کتنے ہی فتنے بھی نازل ہوئے ہیں؟ ان حجرے والیوں کو کون اٹھائے گا؟ یعنی ازواج مطہرات کو کون اٹھائے گا تاکہ وہ تہجد پڑھ لیں۔’’اس دنیا میں بہت سے لوگ جو لباس میں ملبوس ہیں آخرت میں بے لباس ہوں گے‘‘۔
جنت میں جانے کا سبب:
قیام اللیل جنت میں جانے کا ایک سبب ہے۔ رسولِ کریم ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ
قال عبدُ بن سلامٍ – رضي الله عنه -: أولُ شيءٍ سمِعتُ النبي – صلى الله عليه وسلم – تكلَّم به حين قدِمَ المدينة: «يا أيُّها النَّاسُ أفشوا السَّلامَ، وأطعِموا الطَّعامَ، وصِلوا الأرحامَ، وصلُّوا باللَّيلِ، والنَّاسُ نيامٌ، تدخلوا الجنَّةَ بسَلامٍ
(صحيح ابن ماجه: 2648)
عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب نبی علیہ السلام مدینہ آئے تو سب سے پہلے میں نے ان سے یہ بات سنی: اے لوگوں! سلام کو عام کریں، کھانا کھلائیں، صلہ رحمی کریں اور رات کو نماز پڑھیں اگرچہ لوگ سو رہے ہوں تو آپ جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جائیں گے۔
جنت میں اعلی مقام کی ضمانت :
جس نے قیام اللیل کیا وہ جنت کے اعلی مقامات میں ہوگا۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
إنَّ في الجنَّةِ غُرفًا تُرَى ظُهورُها من بطونِها وبطونُها من ظُهورِها فقامَ أعرابيٌّ فقالَ لمن هيَ يا رسولَ اللَّهِ فقالَ لمن أطابَ الكلامَ وأطعمَ الطَّعامَ وأدامَ الصِّيامَ وصلَّى باللَّيلِ والنَّاسُ نيامٌ
(صحيح الترمذي: 1984)
جنت کے کچھ کمرے ایسے بھی ہیں جن کا بیرونی حصہ اندر سے نظرآتا ہے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آتاہے۔تو ایک اعرابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ یہ کن کے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: (ان مقامات کا مستحق وہ ہوگا) جو اچھی بات کہے گا، کھانا کھلائے گا، روزوں کا اہتمام کرے گا اور رات کی نماز پڑھے گا اگرچہ لوگ سو رہے ہوں ۔
رات کے اوقات میں سے بھی رات کے آخری حصے میں قیام کی فضیلت زیادہ ہے۔ عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:
أَقْرَبُ مَا يَكُوْنُ الرَّبُّ مِنَ الْعَبْدِ فِيْ جَوْفِ اللَّيْلِ الْآخِرِ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَكُوْنَ مِمَّنْ يَّذْكُرُ اللّٰهَ فِيْ تِلْكَ السَّاعَةِ فَكُنْ4
’’رب تعالیٰ بندے کے سب سے زیادہ قریب رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے۔ اگر تو یہ کر سکے کہ اس وقت اللہ کا ذکر کرنے والوں میں سے ہو تو یہ کام کر۔‘‘
قیام اللیل کا بہترین طریقہ :
قیام اللیل کا سب سے بہتر طریقہ داؤد علیہ السلام کا طریقہ ہے۔ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنَّ رَسولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قالَ له: أَحَبُّ الصَّلَاةِ إلى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ عليه السَّلَامُ وكانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ ويقومُ ثُلُثَهُ، ويَنَامُ سُدُسَهُ،
(صحيح البخاري: 1131)
اللہ تعالیٰ کو نمازوں میں سے سب سے محبوب نماز داؤد علیہ السلام کی نماز ہے۔ وہ رات کا نصف سو جاتے اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو جاتے۔
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس ماہِ مبارک کے قیمتی لمحات اور ساعتوں میں قیام اللیل کی توفیق عطا فرمائے ۔