ابتدائے اسلام سے ہی مسلمانوں کا بیت المقدس کی سر زمین سے بڑا گہرا اور مضبوط رشتہ ایک معروف حقیقت رہا ہے ،یہ رشتہ کئی اہم پہلوؤں مثلا عقائد ، عبادات ،تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر مشتمل ہے، بیت المقدس کی یہ بابرکت اور مقدس سرزمین مسلمانوں کے لئے شروع سے ہی عقیدتوں کا مرکز رہی ہے ، جو اسلام کے آغاز سے ہی مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو سب سے اہم ترین عبادت نماز کیلئے قبلہ بنانے، نماز پڑھنے اور دیگر فضیلتوں کے بیان سے واضح ہوتا ہے۔ قرآن مجید ، احادیث نبویہ ، سیرت اور تاریخ کے مطالعے سے مسلمانوں اور بیت المقدس کے ساتھ یہ تمام رشتے کھل کر سامنے آتے ہیں ۔ درج ذیل سطور میں قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمانوں کے بیت المقدس کے ساتھ دینی رشتے کے چند پہلوؤں کو بیان کرنا مقصود ہے ۔
1۔ قبلہ اول
مسلمانوں کے عقیدہ کی رو سے زمین کا یہ بقعہ ان بے شمار انبیاء کا قبلہ ہے جو محمد ﷺ سے پہلے رہے۔ خود محمد ﷺ کا پہلا قبلہ یہی ہے۔ خانۂ کعبہ سے پہلے آپ اسی طرف اپنا روئے مبارک کرکے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرتے تھے۔ نماز کا حکم نازل ہونے کے بعد مسلمانوں نے بیت المقدس کی طرف سولہ یا سترہ ماہ تک رخ کرکے نماز پڑھی۔ یعنی ایک سال اور پانچ ماہ تک بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ رہا، جیسا کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
صَلَّيْنَا مع رَسولِ اللهِ ﷺ نَحْوَ بَيْتِ المَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا، أوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ صُرِفْنَا نَحْوَ الكَعْبَةِ.
(صحيح مسلم: 525، وصحيح البخاري: 4492)
ترجمہ : ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر ہمارا رخ کعبہ کی طرف پھیر دیا گیا۔
لیکن جب درج ذیل آیت نازل ہوئی:
قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ
(سورۃ البقرة:144)
ترجمہ : ہم آپکے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا ہم آپ کو اسی قبلہ کی طرف پھیر دیتے ہیں جو آپ کو پسند ہے۔ سو اب آپ اپنا رخ مسجد الحرام (کعبہ) کی طرف پھیر لیجئے۔ اور (اے مسلمانو !) تم جہاں کہیں بھی رہو، نماز میں اپنا رخ مسجد حرام کی طرف کرو۔
تو اس آیت کے نازل ہونے کے بعد خانہ کعبہ مسلمانوں کا قبلہ بن گیا، لہذا بیت المقدس مسلمانوں کا اولین قبلہ شمار ہوتا ہے ۔
2۔ مسجد اقصیٰ میں 250 نمازوں کا ثواب
نماز دین کا اہم ستون ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر قرار دیا ہے ، حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
أنَّهُ سأل رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ عَن الصَّلاةِ في بَيتِ المقدِسِ أفضلُ أو في مسجِدِ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ فَقالَ صلاةٌ في مسجِدي هذا ، أفضلُ من أربعِ صلواتٍ فيهِ.
(صحيح الترغيب: 1179)
ترجمہ : انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آیا بيت المقدس میں نماز افضل ہے یا مسجد نبوی میں افضل ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: میری اس مسجد میں ایک نماز وہاں کی چار نمازوں سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
چونکہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے ، لہذا مسجد اقصیٰ میں ایک نماز کا ثواب 250 نمازوں کے ثواب کے برابر ہوا۔
3۔ ثواب کی نیت سے سفر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عبادت کی نیت اور ارادے سے مسجد اقصیٰ کی زیارت کی ترغیب دی ہے ،اور درج ذیل فرمان کے ذریعے مسجد اقصیٰ کو مسجدحرام اور مسجد نبوی سے جوڑ دیا ہے ۔ سیدنا ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ : الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَمَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى .
(رواه البخاري :1189 ، ومسلم :1397)
ترجمہ : یعنی مسجد الحرام،مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے علاوہ دنیا کی کسی بھی جگہ کی طرف ثواب اور برکت کی نیت سے سفر کرنا جائز نہیں ہے۔
4۔ نماز پڑھنے کی بہترین جگہ
رسول کریم ﷺ نے مسجد اقصی کو نماز پڑھنے کی بہترین جگہ قرار دیا ہے ، سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے مسجد اقصی کی شان بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَلَنِعْمَ الْمُصَلَّى هوَ، أرضُ المَحشرِ والمنشَرِ ، وليأتيَنَّ على النَّاسِ زمانٌ ولقَيْدُ سَوطِ أو قال : قوسِ الرَّجلِ حَيثُ يرى مِنهُ بيتَ المقدسِ ؛ خيرٌ لهُ أو أحبَّ إليه مِنَ الدُّنيا جميعًا .
(صحيح الترغيب: 1179)
ترجمہ : اور مسجد اقصی نماز پڑھنے کی بہترین جگہ ہے۔ حشر نشر کی سرزمین ہے، اور عنقریب لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب ایک کوڑے کے برابر جگہ یا آدمی کی کمان کے برابر جگہ جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ سکتا ہو، اس کے لئے ساری دنیا کی چیزوں سے بہتر اور محبوب ہوگی۔”
5۔ مسجد اقصی کی زیارت
رسول اللہ ﷺ نے مسجد اقصی کو دیکھنے کی فضیلت بیان کی ہے ،چنانچہ سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَلَيُوشِكَنَّ أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ مِثْلُ شَطَنِ فَرَسِهِ مِنَ الأَرْضِ حَيْثُ يَرَى مِنْهُ بَيْتَ الْمَقْدِسِ خَيْرٌ لَهُ مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعاً
(السلسلۃ الصحیحۃ:2902 )
ترجمہ : عنقریب ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ ایک آدمی کے پاس گھوڑے کی رسی کے بقدر زمین کا ایک ٹکڑا ہو جہاں سے وہ بیت المقدس کو دیکھ لے ۔ اگر اتنی جگہ بھی مل گئی تو اس کیلئے بیت المقدس کو ایک نظر دیکھ لینا پوری دنیا سے زیادہ افضل ہوگا ۔
6۔ نماز پڑھنے کی منت ماننا
رسول اللہ ﷺ نے مسجد أقصی میں نماز پڑھنے کی نذر یا منت ماننے کو جائز اور درست قرار دیا ہے ،حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر ایک شخص نے عرض کیا:
يا رسولَ اللہِ إنِّي نذرتُ للہِ إن فتحَ اللہُ عليْكَ مَكَّةَ أن أصلِّيَ في بيتِ المقدسِ رَكعتينِ قالَ صلِّ هاهنا ثمَّ أعادَ عليْهِ فقالَ صلِّ هاهنا ثمَّ أعادَ عليْهِ فقالَ شأنَكَ إذَن
(صحيح أبي داود: 3305)
ترجمہ :اے اللہ کے رسول ! میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ نے آپ کے ہاتھوں مکہ مکر مہ کو فتح کر وا دیا تو میں بیت المقدس میں جا کر نماز پڑھوں گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہیں نماز پڑھ لو اس نے پھر سوال کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر یہی جواب دیا اس نے پھر سوال کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری مرضی۔
7۔ مجاہد فی سبیل اللہ کا ثواب
بیت المقدس شہر کے رہنے والے کو مجاہد فی سبیل اللہ کے برابر کا ثواب ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا تزالُ طائفةٌ من أمَّتي على الدِّين ظاهرين لعدوِّهم قاهرين لا يضرُّهم مَن خالفَهم إلا ما أصابهم من لأواءٍ حتى يأتيَهم أمرُ اللهِ وهم كذلك قالوا وأين هم قال ببيتِ المقدسِ وأكنافِ بيتِ المَقدسِ. )
(السلسلۃ الصحيحۃ: 4/599) وتخريج المسند لشعيب الأرناؤوط: 22320 صحيح لغيره
ترجمہ : میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہیگا اور اپنے دشمنوں کو مقہور کرتا رہے گا،دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی الا یہ کہ بطور آزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے۔صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ لوگ کہاں کے ہوں گے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :’’ یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے۔
8۔ گناہوں کی معافی
رسول اللہ ﷺ نے بیت المقدس میں نماز کو گناہوں کی معافی کا سبب قرار دیا ہے ، سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سَأَلَ اللہَ ثَلَاثًا : حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ ، وَمُلْكًا لَا يَنْبَغِي لَأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ ، وَأَلَّا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِيهِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا ، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ
(صحيح ابن ماجہ: 1164،وصحيح الترغيب:1178)
ترجمہ :جب سلیمان بن داؤ علیہ السلام بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں کیں:(1) یا اللہ! میرے فیصلے تیرے فیصلے کے مطابق (درست)ہوں۔ (2) یا اللہ! مجھے ایسی حکومت عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی حکومت نہ ملے (3) یا اللہ! جو آدمی اس مسجد اقصی میں صرف نماز پڑھنے کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے وہ اس دن گناہوں سے پاک تھا جب اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے سلیمان علیہ السلام کی پہلی دو دعائیں تو قبول فرمالی ہیں(کہ ان کا ذکر تو قرآن مجید میں موجود ہے) مجھے امید ہے کہ ان کی تیسری دعا بھی قبول کرلی گئی ہوگی۔
9۔ برکت کی دعاء
بیت المقدس اس لحاظ سے بھی بابرکت اور مبارک خطہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارض شام کا نام لیکر برکت کی خصوصی دعا کی ہے ، بیت المقدس ارض شام کا ہی علاقہ ہے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے شام کیلئے دعا کرتے ہوئے فرمایا:
اللهُمَّ بارِكْ لَنا في شَامِنا، اللَّهُمَّ بارِكْ لَنا في يَمَنِنا
(صحیح البخاري :7094).
اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما۔
درج بالا تمام احادیث کا تعلق مختلف دینی عبادات اور اس کے ثواب سے ہے ، اور ان ساری عبادتوں کا تعلق بیت المقدس سے جڑا ہوا ہے، معلوم ہوا کہ مسلمانوں کا بیت المقدس سے عبادت اور بندگی کا ایک مضبوط تعلق اور رشتہ ہے جو قیامت تک کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتا ۔جب تک کائنات میں ایک بھی مسلمان زندہ ہے، عبادت کا یہ رشتہ بھی قائم و دائم رہے گا ۔
دینی رشتے کی مضبوط ترین بنیادیں
جب ہم مسجدحرام اور مسجد اقصیٰ کے درمیان مضبوط دینی رشتے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان درج ذیل حقائق باہم مشترک ہیں۔
مسجد حرام اور مسجد اقصی دونوں کائنات میں انسانی وجود کے ابتدائی زمانہ سے ہی اسلام کے دو اہم مرکز رہے۔
مسجد حرام اور مسجد اقصی دونوں مساجد روئے زمین پر اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کی گئی سب سے پہلی دو عبادت گاہیں ہیں ۔
مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ دونوں کی تعمیر تمام انسانوں کے جد امجد اور پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی ۔
مسجد حرام اور بیت المقدس دونوں کی بنیاد انبیاء کرام کے ہاتھوں رکھی گئی ۔
مسجد حرام اور مسجد اقصی دونوں کو مسلمانوں کا قبلہ ہونے کا شرف بھی حاصل رہا۔
سرزمین مکہ اور ارض فلسطین دونوں کو مرکز وحی اور انبیاء کی جائے پیدائش اور مسکن ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔
مسجد حرام اور مسجد اقصی دونوں کی طرف ثواب کی نیت سے خصوصی طور پر سفر کرکے جانا افضل و مستحب ہے۔
مسجد حرام اور بیت المقدس دونوں دجال اور اس کے فتنہ سے محفوظ رہیں گے ۔
مسجد حرام اور بیت المقدس دونوں کی متعدد بار تعمیرِ نو ہوئی۔
مسجد حرام اور بیت المقدس دونوں کا نام قرآن پاک میں خصوصیت کے ساتھ ذکر ہوا ہے ۔
الغرض آیات و احادیث، اور دیگر کثیر دلائل شریعت ثابت کرتے ہیں کہ اس خطۂ ارض کا اسلام اور امت مسلمہ کے ساتھ ایک خاص نسبت اور نہایت قوی دینی رشتہ ہے ۔
بیت المقدس سے تاریخی رشتہ
بیت المقدس ہزاروں سال قدیم شہر ہے، بہت سے عرب قبائل یہاں آکر آباد ہوئے، جیسے یبوسی ،معموری، آرامی، کنعانی، قدیم زمانے میں اس شہر کو یبوس بھی کہا جاتا تھا، جو کنعان کے قدیم قبائل میں سے ایک قبیلے کا نام ہے، قوم یبوس عرب کی سب سے قدیم قوم ہے جو فلسطین میں سات ہزار پانچ سو سال قبل مسیح سے پہلے آباد ہوئی ۔چنانچہ بیت المقدس میں موجود پتھر کی تختیاں اس حقیقت کو ثابت کرتی ہیں، تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان علاقوں میں یبوسی اور کنعانی عربوں سے زیادہ قدیم کوئی قوم نہیں پائی گئی ہے۔مؤرخین نے اس بات پر اتفاق کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا ہے کہ سب سے پہلے بیت المقدس کی بنیاد رکھنے والے اور اسے آباد کرنے والے ”یبوسی ” تھے، اور بیت المقدس کا پہلا نام ”یبوس” تھا۔ارض فلسطین کو ارض کنعان بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہاں کنعانی نسل کے بہت سے قبیلے بھی رہ چکے ہیں،۔ بیت المقدس کے دیگر ناموں میں ایک نام ”اورو سالم” بھی ہے ، جو ایک کنعانی نام ہے جس کا مطلب ”امن کا شہر” ہے ۔ کچھ عرصے کے بعد اسے یورسالیم کہا جانے لگا جو اب یروشلم ہوگیا ہے، اور یہودی اسے یروشلم ہی کہتے ہیں، جس وقت افریقی اور رومن نسل کے لوگ یہاں آباد ہوئے اس وقت اس شہر کا نام ایلیاء تھا، سیدنا عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں یہ علاقہ مسلمانوں کے زیر نگیں آیا تو اس کا نام تبدیل کرکے بیت المقدس رکھ دیا گیا جس کے معنی ہیں پاک گھر، مبارک و مقدس سرزمین1
معاہدہ عمریہ
جب سنہ15 ہجری یا 638 عیسوی میں حضرت ابو عبیدہ عامر بن الجراح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں اسلامی فوج نے بیت المقدس کو فتح کر لیا تو خلیفہ ثانی حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس شہر میں داخل ہوئے ۔ کیونکہ عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس نے یہ شرط رکھی تھی کہ بیت المقدس کی چابیاں لینے کیلئے عمر فاروق رضی اللہ عنہ خود بیت المقدس تشریف لائیں،چنانچہ کنیسۃ القیامہ میں عیسائیوں کے لاٹ پادری بطریرک صفریانوس اور عمائدین روم نے بیت المقدس آمد پر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا استقبال کیا اور بغیر کسی مزاحمت کے بیت المقدس کی چابیاں آپ کے حوالے کر دیں ،جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیت المقدس پہنچے تو آپ نے بیت المقدس کے باشندوں سے ایک معاہدہ کیا، جو ”عہدِ عمریہ ”کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے۔2
فتح بیت المقدس اور معاہدہ عمریہ طے پانے تک بیت المقدس میں مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان کوئی تعلقات موجود نہیں تھے۔ معاہدہ عمری تاریخ میں سب سے صاف واضح اور مشہور دستاویز ہے.3
۔یہ معاہدہ بیت المقدس میں جابیہ کے مقام پر طے پایا ۔اس تاریخی معاہدے پر سیدنا خالد بن الولید، عمرو بن العاص، عبدالرحمٰن بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم نے دستخط کیے۔4
مسلمانون کی طویل حکومت
عربوں اور مسلمانوں نے اس شہر پر فتح عمری سے لے کر 1967 عیسوی تک حکومت کی، پھر وہ وقت آیا کہ جب بیت المقدس 88 سال کے عرصے تک یہودیوں کے قبضے میں رہا ۔ پھر صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے سنہ 583 ہجری بمطابق 1187م میں یہود کے جبر و تسلط سے آزاد کر دیا۔ عربوں اور مسلمانوں کے دور حکومت میں اسلام کی برکت سے بیت المقدس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے لیے عدل و انصاف کی فراہمی ، امن و امان کی بحالی اور استحکام اور شہریوں کی جان و مال کی سلامتی اور تحفظ ممکن ہوا ۔
امت مسلمہ کا فریضہ ایک طرف اس عظیم مسجد اور اس علاقے کے یہ فضائل اور مراتب ہیں ، جس کا حق یہ تھا کہ اللہ تعالی کی طرف سے آخری اور افضل امت کا اعزاز پانے والی امت مسلمہ اس مقدس مسجد کی قدر کرتی ، اس بابرکت مسجد کو دینی شعائر سے آباد رکھتی اور ہر قسم کے کفر اور کفریہ تسلط سے پاک رکھتی لیکن آج اسی ارضِ مقدس کے مسلمان سخت آزمائشوں کا شکار ہیں ، انہیں وہاں ہر قسم کے تکلیف دِہ حالات کا سامنا ہے ، یہودی ظالم انہیں بلڈوزروں سے روند رہے ہیں ، بچوں کو قتل کر رہے ہیں ، گھروں کو مسمار کر رہے ہیں ، مسجد اقصی کی حرمت پامال کی جا رہی ہے ، یہ سب حالات تمام مسلمان رہنماؤں سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات اور ملکی مفادات سے بالاتر ہوکر متفق و متحد ہوجائیں ، اور ان مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے غم اور ان کے درد کو محسوس کریں اور جہاد کا پختہ عزم اور اعلان کریں تاکہ ان کفار کی جارحیت کا منہ موڑ جواب دیا جائے ۔ اگر ہم سچے اور پکے مسلمان بن کر ایک جسم کی مانند ہو جائیں جیسا اللہ کے پیارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ ” مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۔ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے ۔ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت ہمیں زیر نہیں کر سکتی ۔ اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر”تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں” والا قصہ بن جائے گا ۔یا اللہ مسجدِ اقصیٰ کو ظالموں ، سرکشوں اور غاصبوں کے ناپاک ہاتھوں سے پاک فرما ، فسلطینی مسلمانوں کے ضعف اور کمزوری کو ختم فرما ، انہیں قوت عطا فرما ، ان کے دشمنوں کی تدبیروں کو ناکام فرما ۔آمین یا رب العالمین ۔