اسراء و معراج اور قبلہ اول کا اعزاز و شرف عطا کرکے اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کو مسجد حرام کے ساتھ کئی اہم رشتوں سے جوڑ دیا ہے۔ جن میں سب سے اہم رشتہ نظریہ اور عقیدے کا رشتہ ہے ، جو مسلمانوں کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کراتا ہے کہ ان دونوں میں سے ایک کو کھونے کا مطلب دوسرے کو کھو دینا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد مسلمانوں کا سب سے زیادہ کسی شہر سے ایمانی رشتہ اگر ہے تو بیت المقدس سے ہے کیونکہ مسجد اقصی صرف گنبد و مینار پر مبنی ایک مسجد نہیں، بلکہ وہ اسلام اور مسلمانوں کا ایک نشان ہے، ان کی اسلامی میراث ہے، اسلامی تشخص کی ایک واضح علامت ہے، اس کی حفاظت ہمارا اسلامی اور مذہبی فریضہ ہے ۔ درج ذیل سطور میں مسلمانوں کے بیت المقدس سے نظریاتی رشتے اور تعلق کی چند واضح صورتیں درج کی جاتی ہیں تاکہ مسلمانوں کی نئی نسلوں پر بیت المقدس کی اہمیت ، فضیلت اور قدر و منزلت صحیح معنوں میں واضح ہوجائے اور مسلمانوں کی نئی نسلیں بیت المقدس کی حفاظت اور اس کی آزادی کیلئے ہمیشہ تیار رہیں۔
عقیدے کا رشتہ
انسانی زندگی کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو عقائد سے اور دوسرا پہلو اعمال سے تعلق رکھتا ہے ۔ پہلے انسان کے دل و دماغ میں خیالات اور ارادے پیدا ہوتے ہیں پھر انسان اپنے انہی ارادوں کے مطابق عمل کرنے لگتا ہے۔ آج نئے علوم اور نئی نئی ایجادات کے سبب قومیں مختلف نظریات اور عقائد میں منقسم ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے عقائد و نظریات کے لئے ایک دوسرے سے لڑنے مرنے پر تیار رہتی ہیں۔ جس کی تازہ ترین مثال فلسطین کے اندر مسلمان اور یہودیوں کے مابین عرصہ دارز سے جاری جنگ ہے ، جو صرف اور صرف عقیدے کی بنیاد پر لڑی جارہی ہے ۔ مسلمانوں کا بیت المقدس سے رشتہ عقیدہ اور نظریہ کی بنیاد پر ہے جس کا اظہار قرآن و حدیث سے ثابت درج ذیل دلائل سے ہوتا ہے۔
1۔واقعہ اسراء و معراج
واقعہ معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کی مسجد حرام سے بیت المقدس شہر کی مسجد اقصیٰ تک لے جایا گیا اور مسجد اقصیٰ سے ساتویں آسمان تک، اور وہاں سے سدرۃ المنتھی تک لے جایا گیا ، جہاں جنت الماوی موجود ہے ۔ اور پھر آسمان سے واپسی پر بیت المقدس لایا گیا ، اسلامی عقیدے کے مطابق بیت المقدس اس آسمانی سفر کا مرکز تھا۔ لہذا مسلمانوں کا اس شہر سے رشتہ و تعلق عقیدے کی بنیاد پرقائم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
(سورہ الأسراء آیت :1 )
پاک ہے وہ جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو حرمت والی مسجد سے بہت دور کی اس مسجد تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔
بیت المقدس ہی وہ شہر اورعلاقہ ہے جو مسجد اقصی کے اردگرد ہے تو اس لحاظ سے وہ بابرکت ہوا۔ سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم جگہ ہے، یہ آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے ، اس سرزمین پر اکثر انبیاء اور رسل آئے ہیں ، یہی وہ سرزمین ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہا ہوئی ، یہ آسمان کا دروازہ ہے ، یہ سرزمین محشر بھی ہے ۔ اللہ عزوجل نے سرزمین فلسطین کو خیر و برکت والی زمین قرار دیا ہے۔
معراج کا انکار قرآن کا انکار ہے
سفر معراج کے دو حصے ہیں ۔ ایک حصہ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ(بیت المِقدس) تک، جس کو قرآن پاک میں اسریٰ کہا گیا ہے۔ یہ لفظ قرآن کی آیت سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ (سورہ الأسراء آیت :1 ) کے لفظ ’’ أَسْرَىٰ ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جبکہ بیت المِقدس سے آسمان تک کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ حدیث ِمعراج میں مذکور’’ ثُمَّ عُرِجَ بنا إلى السَّماءِ‘‘ ( صحيح مسلم: 162 ) کے لفظ ’’ عُرِجَ ‘‘سے ماخوذ ہے۔معراج کا انکار قرآن کا انکار ہے۔ کیونکہ قرآن کریم میں اسراء کا لفظ صراحتاً ثابت ہے۔ جیسا کہ گذشتہ آیت میں گذر چکا ہے ۔
پس اگر کوئی شخص اسراء کا انکار کرے تو وہ قرآن کا منکر ہوجاتا ہے کیونکہ ایک ادنی مسلمان بھی جب اس آیت کو پڑھتا یا سنتا ہے تو اس آیت کے معنی و مدلول کو بخوبی سمجھ جاتا ہے۔ لہذا اسراء کا انکار کرنے والا قرآن کا منکر ہے اور قرآن کا منکر کافر ہے۔ واقعہ معراج کے ثبوت کیلئے قرآن پاک کی یہ آیت نہایت واضح اور صاف دلیل ہے اور اس میں کوئی بحث یا اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
معراج کا انکار حدیثِ رسول ﷺ کا انکار ہے
معراج کا انکار حدیثِ رسولﷺ کا انکار ہے ۔آیئے پہلے اسراء اور معراج کے متعلق چند احادیث ملاحظہ کریں تاکہ اس کی حقیقت واضح ہوجائے۔
پہلی حدیث : حدیث ِمعراج میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ
(صحيح البخاري : 349)
پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔
ثُمَّ عَرَجَ بي حتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أسْمَعُ فيه صَرِيفَ الأقْلامِ.
(صحيح البخاري : 349)
پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی۔ (جو لکھنے والے فرشتوں کے قلموں کی آواز تھی)
پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى انْتَهَى بِي إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا حَبَايِلُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ.
(صحيح البخاري : 349 )
پھر جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔
قرآن کی آیت اوراحادیث اس بات پر دلالت كرتی ہیں كہ نبی كریم ﷺ كے لیے اسراء و معراج كا واقعہ حق اور صداقت پر مبنی ہے بلكہ احادیثِ متواتره اور مشہوره سے ثابت ہے۔ لہٰذا جو معراج كا انكار كرے وه حدیث كا منكر ہے اور حدیث كا مطلقا منكر دائرہ اسلام سے خارج ہے ۔
چنانچہ شرح عقائدِ نسفیہ اور نِبراس میں ہے:
فالإسراء ھو من المسجد الحرام إلی البیت المقدس قطعي أی یقیني ثبت بالکتاب أی القرآن، و یکفر منکرہ
(النبراس، ص:295)
مسجدِ حرام سے بیت المقدس تک کے سفر کو اسراء کہا جاتا ہے جو قطعی، یقینی اور کتاب اللہ سے ثابت ہے اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہے ۔
واقعہ معراج کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ کا بیت المقدس کی طرف سفر، براق کا مسجد کے کونے میں باندھنا ، مسجد اقصی میں نماز پڑھنا، انبیاء کی امامت کرانا اور پھر آسمانوں کی طرف سفر کرنا قرآن و حدیث سے ثابت ان تمام حقائق کو دل سے تسلیم کرکے ان پر ایمان لائے بغیر کسی مسلمان کا اسلام اور ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ، لہذا یہ ثابت ہوا کہ بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ ایمان اور عقیدہ کی بنیاد پر ہے ۔
اس سلسلے میں دو اہم نکتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
پہلا نکتہ:
بیت المقدس سے نظریاتی یا عقیدے کی بنیاد پر تعلق اور رشتہ صرف فلسطین کے لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ یہ نظریاتی رشتہ دنیا کے مشرق اور مغرب میں موجود تمام مسلمانوں کا ہے کیونکہ بیت المقدس صرف فلسطین کے اندر موجود پچاس یا ساٹھ لاکھ فلسطینیوں کی امانت نہیں ہے بلکہ دنیا میں بسنے والے دو ارب سے زائد مسلمانوں کی امانت ہے۔ لہذا اس نظریاتی اور عقیدے کے تعلق اور رشتے کی بنیاد پر فلسطین کے معاملے میں مسلمانوں کی ذمہ داری دن بدن بڑھتی اور وسیع تر ہوتی جا رہی ہے۔
دوسرا نکتہ
جہاں تک دوسرے نکتے کا تعلق ہے: اس کا تعلق مسجد اقصیٰ کے رقبے سے ہے، جب مسجد اقصیٰ سے مراد صرف احاطہ شدہ عمارت نہیں ہے۔ بلکہ پوری مسجد کا علاقہ ہے جس کا رقبہ 144000 سکوائر میٹر ہے۔ مسجد اقصی کو اقصی کمپاؤنڈ کے نام سے ذہن میں رکھیں ، جس میں کئی مقامات شامل ہیں (1) قبۃ الصخرۃ (2) مسجد قبلی (3) مسجد براق (4) مصلی مروانی ۔ یعنی مسجد اقصی در حقیقت ایک اِحاطہ ہے جس کے اندر عمارتیں، مسجدیں، پرنالے، گنبد، گیلریاں اور محرابیں وغیرہ ہیں۔ اور یہ سارا کچھ مسجد اقصی کی عمارت ہے۔
شام کا علاقہ
حضرت نوح علیہ السلام کے بڑے بیٹے “سام’’ کے نام پہ آباد ہونے والے ملک “شام ” کو انگریزی میں “syria ” عربی میں “سوریا ” اور سریانی میں ”شام” کہتے ہیں۔ طوفان نوح کے بعد سام بن نوح اسی علاقے میں آباد ہوئے تھے۔ اس لئے یہ علاقہ “شام ” کے نام سے مشہور ہوگیا۔موجودہ مقبوضہ فلسطین شام کا علاقہ ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ اور بعد میں جس خطے کیلئے بلاد شام کہا جاتا تھا وہ ان چارممالک (سوریا ، لبنان، فلسطین اور اردن) پر مشتمل تھا ۔ غیر منقسم ملک شام پر 636 عیسوی سے 1920 ء تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ سنہ 1920 ء میں شریف مکہ کی غداری کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اورسنہ 1920 ء میں شام فرانس کے قبضہ میں چلا گیا۔ جس نے شام کو چار الگ الگ سرحدوں ”سوریا ، لبنان، فلسطین اور اردن” میں بانٹ دیا ۔ سنہ 1946 ء میں تقسیم شدہ سوریا کو فرانسیسی استعماریت سے آزادی ملی اور حافظ امین اس کا سربراہ بنا۔ سنہ 1970 ء میں حافظ الاسد نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ حافظ امین سے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ سنہ 2000 ء میں حافط الاسد کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا بشار الاسد اس ملک شام کا صدر بن گیا اور آج تک انبیاء کی یہ سرزمین اس کے ظلم و زیادتیوں کی زد میں ہے۔ درج ذیل سطور میں قرآن و حدیث کی روشنی میں بلاد شام کی مقدس سرزمین بیت المقدس کے متعلق نبی کریم ﷺ کی اُن چند بشارتوں کا تذکرہ حاضر خدمت ہے جن پر ایمان لانا ہر مسلمان کےعقیدے میں شامل ہے ۔
بیت المقدس کے متعلق رسول اللہ ﷺ کی بشارتیں
1۔ سرزمین محشر
شہر بیت المقدس قیامت کے دن حشر و نشر کی سرزمین ہو گا، وہیں لوگ جمع ہوں گے اور ان سے حساب لیا جائے گا۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّكم تُحْشرونَ رِجالًا و رُكْبانًا ، وتُجَرُّونَ علَى وجوهِكم ههنا وأومَأَ بِيَدِهِ نحوَ الشامِ
(صحيح الجامع: 2302)
ترجمہ : تم سوار اور منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے اکٹھے کیے جاؤ گے ،آپ ﷺ نے یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے ملک شام کی طرف اشارہ کیا ‘‘
ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
الشامُ أرضُ المحشرِ و المنشرِ
(صحيح الجامع: 3726)
شام حشر و نشر کی سرزمین ہے۔
امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
” أي البقعة التي يجمع الناس فيها إلى الحساب وينشرون من قبورهم ثم يساقون إليها ، وخصت بذلك لأنها الأرض التي قال الله فيها : بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ ( سورۃ الأنبیاء: 71) وأكثر الأنبياء بعثوا منها فانتشرت في العالمين شرائعهم فناسب كونها أرض المحشر والمنشر ” .
(فيض القدير للمناوي :4 / 171 )
“یعنی وہ مقام ہے جہاں لوگوں کو حساب کے لیے جمع کیا جائے گا اور لوگوں کو ان کی قبروں سے اٹھا کر اسی مقام کی طرف لایا جائے گا ، اور شام کو اس لیے خاص کیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ سرزمین ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ہم نے اس میں تمام جہانوں کے لیے برکت دی ہے)۔ اور زیادہ تر انبیاء کرام اسی سرزمین سے بھیجے گئے، اور یہیں سے دین کی دعوت دنیا میں پھیلی تو اس لیے مناسب تھا کہ شام کی سرزمین کو ارض محشر قرار دیا جائے ۔
2۔ فرشتوں کی نگرانی میں
حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
كُنَّا عِندَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ نؤلِّفُ القرآنَ منَ الرقاعِ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ طوبى للشامِ فقلْنا لأيٍّ ذلك يا رسولَ اللهِ قال لأن ملائكةَ الرحمنِ باسطةٌ أجنحَتَها عليْها
(صحيح الترمذي: 3954)
کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس کاغذ کے پرزوں سے قرآن کو مرتب کر رہے تھے تو آپﷺ نے فرمایا: خوشخبری ہے شام کیلئے ، صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم نے کہا : وہ کیوں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: شام پر اللہ کے فرشتوں نے اپنے پر پھیلا رکھے ہیں ۔
3۔ اہل شام دین کے مددگار
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
إذا وقعتِ الملاحِمُ، بعثَ اللہُ من دمشق بعثًا منَ الموالي، هم أَكرَمُ العربِ فَرَسًا، وأجودُهُ سلاحًا، يؤيِّدُ اللہُ بِهمُ الدِّينَ .
(صحيح ابن ماجه: 3303 ، والسلسلة الصحيحة :2777)
”جب بڑی بڑی جنگیں ہونے لگیں گی تو اس وقت اللہ تعالیٰ دمشق سے نو مسلم لوگوں میں سے ایک لشکر کو بھیجے گا ، وہ تمام عربوں میں عمدہ ترین شہسوار اور آلات حرب کی مہارت تامہ رکھنے والے ہوں گے۔ اللہ ان کے ذریعے دین کی مدد فرمائے گا ۔“
4۔ ایمان اور سلامتی کی سرزمین
فتنوں کے دور میں شام کی سرزمین سلامتی اور ایمان کی سرزمین ہوگی ۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بَينا أنا نائِمٌ إذ رَأيتُ عَمودَ الكِتابِ احتُمِلَ من تَحتِ رَأسي، فظَنَنتُ أنَّه مَذهوبٌ به، فأتبَعْتُه بَصَري، فعُمِدَ به إلى الشَّامِ، ألَا وإنَّ الإيمانَ حينَ تَقَعُ الفِتَنُ بالشَّامِ
( صححہ الألباني فی صحيح الترغيب: 3094، وشعيب الأرناؤوط في تخريج مسند أحمد :21781)
کہ ایک مرتبہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں میں نے کتاب( اسلام) کے ستونوں کو دیکھا کہ انہیں میرے سر کے نیچے سے اٹھایا گیا، میں سمجھ گیا کہ اسے لیجایا جارہا ہے چنانچہ میری نگاہیں اس کا پیچھا کرتی رہیں پھر اسے شام پہنچا دیا گیا۔ یاد رکھو! جس زمانے میں فتنے رونما ہوں گے اس وقت ایمان شام میں ہوگا۔
یعنی قرب قیامت مسلمانوں کا وطن شام ہو گا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آخری وقت میں شام کی سرزمین میں امن و ایمان کو استحکام ملے گا تاکہ جب مسلم ممالک میں فتنہ پیدا برپا ہوجائے تو مومن اس کی طرف جا سکیں ۔
5۔ اللہ کی حفاظت میں
شام و بیت المقدس اللہ کی حفاظت میں رہیں گے اور وہاں کے رہنے والوں کو اللہ فتنہ کے ذریعہ ہلاک نہیں کرے گا۔ حضرت عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سيصيرُ الأمرُ إلى أن تَكونوا جُنودًا مجنَّدةً جُندٌ بالشَّامِ، و جندٌ باليمنِ و جُندٌ بالعراقِ قالَ ابنُ حوالةَ: خِر لي يا رسولَ اللہِ إن أدرَكْتُ ذلِكَ، فقالَ: عليكَ بالشَّامِ، فإنَّها خيرةُ اللہِ من أرضِهِ، يَجتبي إليها خيرتَهُ من عبادِهِ، فأمَّا إن أبيتُمْ، فعليكُم بيمنِكُم، واسقوا من غُدُرِكُم، فإنَّ اللہَ توَكَّلَ لي بالشَّامِ وأَهْلِهِ
(صحيح أبي داود: 2483)
”عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ جاؤ گے، ایک ٹکڑی شام میں، ایک یمن میں اور ایک عراق میں“۔ ابن حوالہ نے کہا: اللہ کے رسول! مجھے بتائیے اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو کس ٹکڑی میں رہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اوپر شام کو لازم کرلو، کیونکہ شام کا ملک اللہ کی بہترین سر زمین ہے، اللہ اس ملک میں اپنے نیک بندوں کو جمع کرے گا، اگر شام میں نہ رہنا چاہو تو اپنے یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے تالابوں سے پانی پلانا کیونکہ اللہ نے مجھ سے شام اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ۔
6۔ سب سے بہترین لوگ
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ستكونُ هجرةٌ بعدَ هجرةٍ ، فخِيَارُ أهلِ الأرضِ أَلْزَمُهُم مُهَاجَرَ إبراهيمَ ، ويَبْقَى في الأرضِ شِرَارُ أهلِها ، تَلْفِظُهُم أَرْضُوهُم ، وتَقْذَرُهُم نَفْسُ اللهِ ، وتَحْشُرُهُمُ النارُ مع القِرَدَةِ والخَنَازِيرِ
( السلسلۃ الصحيحۃ: 3203 ، و أخرجہ أحمد:6871 بسند حسن)
” عنقریب یکے بعد دیگرے ہجرتیں ہوتی رہیں گی، بہترین اہل زمین وہ ہوں گے جو ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ کو لازم پکڑے رکھیں گے، اس وقت زمین میں بدترین لوگ باقی رہ جائیں، ان کی زمین ان کو پھینک دے گی یعنی وہ ایک ملک سے دوسرے ملک بھاگتے پھریں گے، اللہ تعالیٰ ان سے نفرت کرے گا، آگ ان لوگوں کو بندروں اور خنزیروں کے ساتھ اکٹھا کرے گی۔
اس حدیث میں حشر سے قیامت کے دن والا حشر مراد نہیں ہے نیز یہاں آگ سے مراد فتنے کی آگ ہے،
7۔ عیسی علیہ السلام کا جائے نزول
قیامت کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام عادل حکمران کے طور پر آسمان سے اتريں گے اور بیت المقدس میں نازل ہوں گے، حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
إذ بعثَ اللہُ عيسى ابنَ مريمَ، فينزلُ عندَ المَنارةِ البيضاءِ، شَرقيَّ دمشقَ، بينَ مَهْرودتينِ، واضعًا كفَّيهِ على أجنحةِ ملَكَينِ
(صحیح مسلم :2937)
جب اللہ تعالیٰ مسیح بن مریم علیہ السلام کو معبوث فرما دے گا وہ دمشق کے مشرقی جانب سفید مینار کے پاس آسمان سے اتریں گے۔ اس وقت وہ ہلکے زرد رنگ کی دو چادروں میں ملبوس ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔
8۔ دجال کی قتل گاہ
نبی کریم ﷺ نے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ثمَّ ينزِلُ عيسَى بنُ مريمَ ، عند المنارةِ البيضاءِ شرقِيَّ دمشقَ فيُدرِكُه عند بابِ لُدٍّ فيقتُلُه
(صحیح أبی داؤد: 4321)
پھر عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے پاس اتریں گے، اور اسے (یعنی دجال کو) باب لد کے پاس پائیں گے اور وہیں اسے قتل کر دیں گے۔
باب لد : فلسطین کے علاقے میں بیت المقدس کے قریب ہے، اور اسرائیل کے دار الحکومت تل ابیب سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ،اس وقت یہاں پر بین الاقوامی ہوائی اڈہ قائم ہے ، جو کمرشل ، پرائیویٹ اور فوجی تینوں طرح کی پروازوں کیلئے استعمال ہوتا ہے ۔
ایک اور مقام پر حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الإيمانُ يمانٍ والْكفرُ من قبلِ المشرقِ والسَّكينةُ لأَهلِ الغنمِ والفخرُ والرِّياءُ في الفدَّادينَ أَهلِ الخيلِ وأَهلِ الوبرِ يأتي المسيحُ – أي الدجال- إذا جاءَ دبرَ أحدٍ صرفتِ الملائِكةُ وجْهَهُ قبلَ الشَّامِ وَهنالِكَ يَهلِكُ
(صحيح الترمذي: 2243)
”ایمان یمن کی طرف سے نکلا ہے اور کفر مشرق (پورب) کی طرف سے، سکون و اطمینان والی زندگی بکری والوں کی ہے، اور فخر و ریاکاری فدادین یعنی گھوڑے اور اونٹ والوں میں ہے، جب مسیح دجال احد کے پیچھے آئے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور شام ہی میں وہ ہلاک ہو جائے گا“۔
9۔ مؤمنوں کا جائے قرار
سلمہ بن نفیل کندی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ولا يزالُ من أمَّتي أمةٌ يقاتِلونَ على الحقِّ، ويزيغُ اللہُ لَهم قُلوبَ أقوامٍ، ويرزقُهم منْهم حتَّى تقومَ السَّاعةُ وحتَّى يأتِيَ وعدُ اللہِ والخيلُ معقودٌ في نواصيها الخيرُ إلى يومِ القيامَةِ، وَهوَ يوحي إليَّ أنِّي مقبوضٌ غيرُ ملبَّثٍ، وأنتم تتَّبعوني أفنادًا يضربُ بعضُكم رقابَ بعضٍ، وعقرُ دارِ المؤمنينَ الشَّامُ
(صحيح النسائي: 3563)
میری امت میں سے تو ایک امت (ایک جماعت) حق کی خاطر ہمیشہ برسرپیکار رہے گی اور اللہ تعالیٰ کچھ قوموں کے دلوں کو ان کی خاطر کجی میں مبتلا رکھے گا اور انہیں (اہل حق کو) ان ہی (گمراہ لوگوں) کے ذریعہ روزی ملے گی ۔ یہ سلسلہ قیامت ہونے تک چلتا رہے گا، جب تک اللہ کا وعدہ (متقیوں کے لیے جنت اور مشرکوں و کافروں کے لیے جہنم) پورا نہ ہو جائے گا، قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی (خیر) بندھی ہوئی ہے اور مجھے بذریعہ وحی یہ بات بتا دی گئی ہے کہ جلد ہی میرا انتقال ہو جائے گا اور تم لوگ مختلف گروہوں میں بٹ کر میری اتباع (کا دعویٰ) کرو گے اور حال یہ ہو گا کہ سب (اپنے متعلق حق پر ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود) ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہوں گے اور مسلمانوں کے گھر کا آنگن (جہاں وہ کشادگی سے رہ سکیں) شام ہو گا“
10۔ خلافت ارض شام میں
قرب قیامت ارض شام میں خلافت کا قیام ہوگا ، عبد اللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
يا ابنَ حوالةَ، إذا رأيتَ الخلافةَ قد نزَلَت أرضَ المقدَّسةِ فقَد دنَتِ الزَّلازِلُ والبَلابلُ والأمُورُ العِظامُ، والسَّاعةُ يومَئذٍ أقرَبُ منَ النَّاسِ من يدي هذِهِ من رأسِكَ
(صحيح أبي داود: 2535، وصحيح الجامع :7838)
اے ابن حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارض مقدس ( شام ) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے ‘ مصیبتیں ٹوٹیں گی ۔اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہو گی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سرسے قریب ہے ۔
11۔ ایمان والوں کی آخری پناہ گاہ
قربِ قیامت بیت المقدس کی سرزمین ہی ایمان والوں کی آخری پناہ گاہ ہوگی ، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ستَخرُجُ نارٌ من حَضرموتَ أو من نحوِ بحرِ حضرموتَ قبلَ يومِ القيامةِ تَحشُرُ النَّاسَ قالوا : يا رسولَ اللَّهِ ، فما تأمُرُنا ؟ فقالَ : عليكُم بالشَّامِ
( صحيح الترمذي: 2217 )
ترجمہ: قیامت سے پہلے حضرموت یا حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھا کرے گی ، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: تم شام چلے جانا۔
12۔ مسلمانوں کا مرکز
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إنَّ فُسطاطَ المسلمين ، يومَ الملحمةِ ، بالغُوطةِ إلى جانبِ مدينةٍ يُقالُ لها: دمشقُ ، من خيرِ مدائنِ الشَّامِ
(صحيح أبي داود: 4298 )
” جنگ کے موقع پر مسلمانوں کا خیمہ ( مرکز ) دمشق نامی شہر کی جانب میں واقع مقام غوطہ ہو گا اور دمشق شام کے بہترین شہروں میں سے ہو گا ۔ “
13۔ مقام طائفہ منصورہ
بیت المقدس ہی وہ مقام ہوگا جہاں طائفہ منصورہ کا قیام ہوگا ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ظَاهِرِينَ لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ إِلَّا مَا أَصَابَهُمْ مِنْ لَأْوَاءَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللہِ وَهُمْ كَذَلِكَ قَالُوا يَا رَسُولَ اللہِ وَأَيْنَ هُمْ قَالَ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ وَأَكْنَافِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ
(السلسلة الصحيحۃ: 4/599 ، ولہ شواہد، وتخريج المسند لشعيب الأرناؤوط: 22320، صحيح لغيره)
ترجمہ: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ثابت قدم رہتے ہوئے غالب رہیگا اور اپنے دشمنوں کو مقہورکرتا رہے گا، دشمن کی شیرازہ بندی اسے کوئی گزند نہ پہنچا سکے گی الا یہ کہ بطور آزمائش اسے تھوڑی بہت گزند پہنچ جائے یہاں تک کہ قیامت آجائے گی اور وہ اسی حال پر قائم و دائم ہوں گے۔‘‘صحابہ کرام نے عرض کیا:’’ یا رسول اللہ یہ لوگ کہاں کے ہوں گے۔‘‘ تو نبی کریمﷺ نے جواب دیا :’’ یہ لوگ بیت المقدس کے باشندے ہوں گے یا بیت المقدس کے اطراف و اکناف میں ہوں گے۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لا تَزالُ طائفةٌ مِن أُمَّتي على الحَقِّ ظاهرينَ، وإنِّي لأرجو أنْ تَكونوهم يا أهلَ الشَّامِ
(تخريج المسند لشعيب الأرناؤوط: 19290 بإسناد صحيح)
ترجمہ : میری امت کی ایک جماعت حق پر غالب رہے گی ، اور مجھے امید ہے کہ اے شام والو! تم اس جماعت میں سے ہو گے۔
14۔ اللہ کی مدد
اہل شام کو اللہ کی مدد حاصل رہے گی ،چنانچہ سیدنا معاویہ اپنے باپ سیدنا قرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا فسدَ أَهْلُ الشَّامِ فلا خيرَ فيكم : لا تَزالُ طائفةٌ من أمَّتي منصورينَ لا يضرُّهم من خذلَهُم حتَّى تقومَ السَّاعةُ
(صحيح الترمذي: 2192، وسلسلہ صحیحہ:403)
ترجمہ :جب اہل شام میں بگاڑ پیدا ہوجائے، تو تم میں بھی کوئی خیر باقی نہ رہے گی ، میری امت کی ایک جماعت کی ہمیشہ مدد کی جاتی رہے گی، انہیں رسوا کرنے (کی کوشش کرنے) والا قیامت برپا ہونے تک انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“
15۔ مقام صور
بیت المقدس ہی وہ مقام ہوگا جہاں سے صور پھونکا جائے گا،چنانچہ قرآن مجید کی آیت :
وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنَادِ الْمُنَادِ مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ
( سورہ ق:41)
ترجمہ: اور توجہ سے سنیے۔ جس دن پکارنے والا قریب ہی سے پکارے گا۔
اس آیت کی تفسیر میں متعدد مفسرین نے یہ بات کہی ہے کہ بیت المقدس سے ہی صور پھونکا جائے گا ۔چنانچہ سیدنا کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
يأمر الله ملكا أن ينادي على صخرة بيت المقدس : أيتها العظام البالية ، والأوصال المتقطعة ، إن الله يأمركن أن تجتمعن لفصل القضاء .
( تفسیر ابن کثیر،تفسیر قرطبی،تفسیر بغوی ، تفسیر طبری ، تفسیر جلالین)
اللہ تعالیٰ ایک فرشتے کو حکم دے گا کہ بیت المقدس کے پتھر پر کھڑا ہو کر یہ آواز لگائے کہ اے سڑی گلی ہڈیوں اور اے جسم کے متفرق اجزاء، اللہ تمہیں جمع ہو جانے کا حکم دیتا ہے تاکہ تمہارے درمیان فیصلہ کر دے
درج بالا احادیث میں موجود بشارتوں سے معلوم ہوا کہ بیت المقدس سرزمین محشر ہے، قربِ قیامت ایمان والوں کی آخری پناہ گاہ ہوگی، بیت المقدس ہی وہ مقام ہوگا جہاں طائفہ منصورہ کا قیام ہوگا ، یہیں سے صور پھونکا جائے گا ، لوگ اس علاقے کی طرف ہجرت کریں گے ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول اسی علاقہ میں ہوگا، دجال بھی اسی علاقہ میں قتل ہوگا ، ایک وقت آئے گا جب شام کی یہ سرزمین خلافت اسلامیہ کا مرکز ہوگی ، یہاں دین اسلام نافذ ہوگا ، عدل و انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے ،اسی طرح قرب قیامت مسلمان یہودیوں پر غلبہ حاصل کریں گے ۔
احادیث میں دی گئی تمام بشارتوں کا تعلق عقیدہ علم غیب سے ہے اور ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی ﷺ کی تمام بشارتیں سو فیصد پوری ہوں گی ۔ چنانچہ احادیث سے ثابت ان تمام بشارتوں کو دل سے تسلیم کر کے ان پر ایمان لائے بغیر کسی مسلمان کا اسلام اور ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ، چونکہ قیامت پر ایمان لانا عقیدے کا ایک اہم حصہ ہے، اس لیئے شام کے علاقوں میں ان واقعات اور حادثات کا وقوع پذیر ہونا بھی اسلامی عقیدے میں شامل ہیں ۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ بیت المقدس سے مسلمانوں کا رشتہ ایمان اور عقیدہ کی بنیاد پر ہے ۔
مسلمانوں کا فریضہ
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی کہ جب تک یہودیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا نہ دیا جائے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تَقُومُ السَّاعَةُ حتَّى يُقاتِلَ المُسْلِمُونَ اليَهُودَ، فَيَقْتُلُهُمُ المُسْلِمُونَ حتَّى يَخْتَبِئَ اليَهُودِيُّ مِن وراءِ الحَجَرِ والشَّجَرِ، فيَقولُ الحَجَرُ أوِ الشَّجَرُ: يا مُسْلِمُ يا عَبْدَ اللهِ هذا يَهُودِيٌّ خَلْفِي، فَتَعالَ فاقْتُلْهُ۔
(صحيح مسلم: 2922)
“قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی، حتی کہ مسلمان یہودیوں سے جنگ لڑیں گےاورانہیں قتل کریں گے، یہودی ہر جگہ چھپتے پھریں گے یہاں تک کہ پتھر اور درخت کے پیچھے چھپے گا تو پتھر اور درخت کہے گا: اے مسلمان، اے اللہ کے بندے! یہ یہودی میرے پیچھے چھپا ہے آؤ اس کو قتل کردو۔
آج پوری دنیا سے یہودی اپنے مقتل ”اسرائیل“ میں جمع ہو رہے ہیں، قیامت سے پہلے یہ وقت ضرور آئے گا کہ مسلمان یہودیوں کو چن چن کر قتل کریں گے اور ایک بار پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت کے قریب حضرت امام مہدی اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ظہور کے بعد ایک مومن جماعت کے ہاتھوں بزور شمشیر مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس فتح ہوگا۔ بیت المقدس اور فلسطین کے موجودہ حالات سے یہ بات واضح ہے کہ وہ وقت اب قریب ہے، لہٰذا مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ قبلہ اول کی حفاظت اور آزادی کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں اور اپنی نسلوں کو اس کی تاریخ سے واقف کرواتے ہوئے اس کی بازیابی کیلئے ہر ممکن طریقوں سے تیار کریں!
اٹھ باندھ کمر مرد مجاہد کا جگر لے
مومن ہے تو پھر مسجد اقصٰی کی خبر لے