الحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وعلی آلہ واصحابہ اجمعین۔

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ پاکستان کا سال 2025 – 2024 کا بجٹ آچکا ہے اور اس بجٹ کے حوالے سے کچھ تجزیہ آپ سب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور اس بجٹ کا ہم اِس انداز سے جائزہ لیں کہ ایک اسلامی ملک کا کس طرح کا بجٹ ہونا چاہیے تھا اور جو موجوہ بجٹ ہے اسکے اندر ہمیں کیا نظر آتا ہے کہ کیا یہ ایک اسلامی ریاست کا بجٹ ہے؟ اور کیا موجودہ بجٹ میں مُلکِ پاکستان کے باسیوں اور مملکتِ پاکستان میں رہنے والوں کے لئے سہولتیں اور آسانیاں ہیں؟ یا اس بجٹ کے اندر اُن کے لیے تکلیفیں اور مشقتیں ہیں اور اگر تکالیف ہیں تو اُن کی وجوہات کیا ہیں؟ اگر پریشانیاں ہیں تو اُس کے اسباب کیا ہیں؟ اور اُن کا حل کیا ہے؟ یہ فقط توجہ دلانے کے لیے ایک مختصر سی بات آپ حضرات کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔

بجٹ پاکستان 2024 اور 2025 کا مختصر جائزہ

اگر ہم پاکستان کے موجودہ بجٹ 2024 اور 2025 کا جائزہ لیں تو یہ تقریباً  اٹھارہ ہزار آٹھ سو ارب روپے کا بجٹ ہے ۔ بجٹ کے دو حصے ہوتے ہیں ایک Resources یعنی حکومتی آمدنی اور وسائل اور دوسرا  Expendation  یعنی حکومتی اخراجات. حکومتی آمدنی  Resources یعنی کہ ہمارے پاس یہ بجٹ کہاں سے آئے گا ؟ تو اٹھارہ ہزار آٹھ سو بلین میں سے تقریباً دس ہزار ارب روپے ہماری ٹیکس آمدنی ہے یعنی ہمارے پورے سال کا خرچہ اٹھارہ ہزار آٹھ سو ارب روپے ہے۔ اور جو ہماری آمدنی ہم لے رہے ہیں، جو ہم کما رہے ہیں اور جو گورنمنٹ کی آمدنی ہے جو ٹیکس کی ادائیگی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے تو وہ تقریباً دس ہزار ارب روپے ہے۔ اب باقی رہ گئے آٹھ ہزار آٹھ سو ارب روپے، وہ کہاں سے پورے ہوتے ہیں؟ اس کے لیے پھر قرضے لیے جاتے ہیں جیسے ہم بجٹ کا جائزہ لیں تو تقریباً ہمارے پاس پانچ ہزار بلین روپے یہ Bank borrowing ہیں یعنی بینک قرضہ ہے جو کہ گورنمنٹ نے بینکوں سے قرضہ لینا ہے اور پھر اسی طریقے سے تقریباً دو ہزار  چھ سو ارب روپے یہ None Bank Borrowing یعنی مختلف سیکورٹی وغیرہ اور جو  ہمارے ہاں ٹی بل  ‘T-bills’وغیرہ ہوتے ہیں ان کی وجہ سے اور اسی طریقے سے تقریباً سات سو ارب روپے اداروں کی نجکاری یعنی پرائیویٹائزیشن کے ذریعے سے کمائے جائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً ہم سات یا آٹھ  ہزار ارب روپے اپنے بجٹ کو پورا کرنے کے لیے مزید قرضہ لیں گے۔

ہم یہ قرضہ کیوں لے رہے ہیں؟

 ہم اتنا سارا قرضہ کیوں لے رہے ہیں؟ اور ہمارے اخراجات کیا ہیں؟ آئیے ہم یہاں پر اُن اخراجات کا جائزہ لیتے ہیں ۔

اگر ہم یہاں پر Expendation یعنی اخراجات کو دیکھیں تو تقریباً اٹھارہ ہزار آٹھ سو ارب میں سے نو ہزار سات سو پچھتر ارب روپے حکومتِ پاکستان نے سُود کی مَد میں ادا کرنا ہے۔ یہاں پر اصل قرضے کی بات نہیں ہو رہی ہے بلکہ ہمیں جو سُود ادا کرنا ہے، جو انٹرسٹ ہم نے دینا ہے وہ ہمارے اٹھارہ ہزار ارب روپے کے بجٹ میں سے آدھا بجٹ اسلامی ریاست ملکِ پاکستان سُود کی مد میں ادا کرے گی ۔ اور باقی پھر دیگر اخراجات ہیں مثلا: دو ہزار ارب روپے پاکستان کے دفاعی اخراجات ہیں، کچھ تنخواہوں کے اخراجات ہیں، کچھ ملکِ پاکستان میں ہونے والے ترقیاتی کام کے بجٹ ہیں اور اسی طرح کی کچھ اور چیزیں بھی ہیں ۔ اب سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ کما رہے ہیں وہ تو ہم سارے کا سارا قرضے کی صورت میں سُود کی شکل میں واپس کر رہے ہیں مطلب تو یہ ہوا کہ ہم تو خسارے میں جا رہے ہیں ۔

پاکستان پر قرضہ بڑھنے کے اسباب اور وجوہات

 ملکِ پاکستان پر جو ابھی ٹوٹل قرضہ ہے وہ تقریباً دو سو چھپن ارب ڈالر کا ہے تو ایسا کیا ہوا کہ اتنا قرضہ بڑھ گیا اور جب ہم اس کا پچھلے سال سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے سال ہم نے سات ہزار ارب روپے قرضوں کی سود کی ادائیگی کرنے میں دیے تھے اور اس سال ہم ساڑھے نو ہزار ارب روپے دے رہے ہیں یعنی ڈھائی ہزار ارب روپے مزید ہم سُود کی ادائیگی میں دے رہے ہیں۔ تو اس کی کیا وجہ ہے؟ جب اقتصادی ماہرین سے اس بارے میں پوچھا جاتا ہے تو اُن کے دو تین جوابات ہمارے سامنے آتے ہیں:

1۔  ایک تو یہ کہ ہمارے حکمران کرپٹ تھے انھوں نے قرضہ لیا اور انھوں نے کھا لیا، لگایا نہیں، اس پر انویسٹ نہیں کیا اور پھر اس کو صحیح طریقے سے آگے لے کر نہیں چلے ۔

2۔ دوسرا یہ کہ ہماری قوم ٹیکس ادا نہیں کرتی ہے اس وجہ سے ہمارے پاس وسائل  Resources کم پڑ جاتے ہیں۔

کیا پاکستان کو پیچھے لے جانے میں علماء ملوث ہیں؟

درج بالا حقائق سے یہ بات تو طے ہو گئی کہ اس ملکِ پاکستان کو پیچھے لے جانے میں اور اس کو نقصان پہنچانے میں کم از کم علماءِ کرام شامل نہیں ہیں ۔ کرپشن کرنے والے جو لوگ ہیں وہ ایچیسن کالج سے پڑھے ہوں گے ، وہ کسی یونیورسٹی سے پڑھے ہوں گے ، وہ کسی بیکن ہاؤس یا کسی کراچی گرامر کے طلباء ہوں گے ، وہ کسی مدرسہ سلفیہ ، کسی دینی جامعہ یا دارالعلوم کےطلباء نہیں ہوں گے ۔ تو یہ بات تو طے ہو گئی کہ اس ملکِ پاکستان کو اپنے پاؤں پر پیچھے لے جانے میں، ترقی میں اس کی پچھلی دوڑ لگانے میں دین دار طبقہ شامل نہیں ہے کہ جس کے بارے میں بہت شور مچایا جاتا ہے بلکہ ملکِ پاکستان کو پیچھے لے جانے میں پڑھے لکھے لوگ شامل ہیں۔

اکنامکس (economics) کی اصطلاح جی ڈی پی اور ڈیبٹ (debt)

 ایک اصطلاح (Terminology) ہے جو اکنامکس میں آتی ہے “جی ڈی پی اور ڈیبٹ” ہمارا جو ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی Ratio ہے یعنی پاکستان کی جو قومی آمدنی ہے ، پورا پاکستان مل کر جو کما رہا ہے اس میں سے ہمارا جو ڈیبٹ (قرضہ) ہے وہ اس کا ٪ 70 فیصد ہے یعنی تین سو چوّن ارب ڈالر ہماری آمدنی ہے  اور دو سو چھپپن ارب ڈالر ہمارے اُوپر قرضہ ہے ۔ اور یہ صرف ہماری ٹوٹل آمدنی ہے اس میں گورنمنٹ کی آمدنی شامل نہیں ہے جو وہ ٹیکس سے کما رہی ہے۔ یہ ہو گیا پاکستان کا ڈیبٹ ۔

ترقی یافتہ ممالک کا جائزہ

اب ہم یہاں اُن ملکوں کو دیکھتے ہیں جہاں ٹیکس زیادہ دیا جا رہا ہے جیسے امریکہ، برطانیہ ، جرمنی ، جاپان وغیرہ اسی طرح اور بھی جو ترقی یافتہ ممالک ہیں تو کیا وہاں پر قرضے کم ہیں؟ آئیے ہم اُن کا بھی یہاں تھوڑا سا جائزہ لے لیتے ہیں ۔

یو۔ ایس ۔اے (USA):

یو ایس اے (USA)  کا جو ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی  Ratio ( تناسب ) ہے (یعنی اُنکی ٹوٹل جو آمدنی ہے اور اُن کا جو ٹوٹل قرضہ ہے) تو یو۔ ایس۔ اے۔ کا ٹوٹل قرضہ اُن کی ٹوٹل آمدنی کے ایک سو بیس فیصد ہے یعنی پوری آمدنی بھی گئی امریکہ کی اور مزید بیس پرسنٹ بھی اس کے اوپر قرضہ ہے ۔

یو ۔ کے (UK): 

برطانیہ کا ٹوٹل ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی کا قرضہ اس کی آمدنی کے مقابلے میں ٪ 88 ہے یعنی پاکستان سے٪ 17 فیصد زیادہ ہے ۔

جاپان:

اور جاپان کا ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی ٪ 268 فیصد ہے یعنی جاپان جو بہت ترقی یافتہ ملک ہے جیسا آپ سب کو پتہ ہے کہ وہاں کی تو بڑی ڈیجیٹل دنیا ہے ، جاپان ملک سے بہت سے ساز و سامان ایکسپورٹ ہوتے رہتے ہیں ، اس کے باوجود بھی اُن کا قرضہ اُن کی آمدنی کا ٪ 268 فیصد ہے ۔ پاکستان تو پھر بھی بہت پیچھے ہے (٪71) فیصد پر کھڑا ہے ۔

خلاصہ کلام

 تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جو یہ ٹیکس کے معاملات ہیں اور یہ جو طریقہ کار ہے یہی درست نہیں ہے ۔

 آخر اس کی وجہ کیا ہے؟

  چاہے آپ ترقی یافتہ ممالک کی طرف چلے جائیں، چاہے آپ پاکستان کی بات کرلیں یا انڈر ڈویلپ ممالک کی بات کر لیں تو وجہ ان سب کی یہی ہے کہ جو اللہ رب العالمین نے قرآنِ مجید میں ذکر کر دی ہے۔

“يَمْحَقُ اللّہُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ

( سورۃ بقرۃ :  276)

ترجمہ: اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

 یعنی اللہ رب العالمین سود کی معیشت کو تباہ کر دیتا ہے۔ یہ جو دنیا سُود پر چل رہی ہے ڈیبٹ ٹو ڈیبٹ ہماری جو اِکنامی چل رہی ہے ، Banking System جو سارا کا سارا ڈیبٹ ٹو ڈیبٹ پر کھڑا ہوا ہے یعنی قرض پر کھڑا ہوا ہے ، بڑی بڑی ریاستیں جو کہ بہت ترقی یافتہ ریاستیں مانی جاتی ہیں وہ بھی قرضے کی بنیاد پر چل رہی ہیں۔ قرضے سے قرضہ لے کر پھر مزید قرضہ ادا کیا جاتا ہے ۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا حال

 اسلامی جمہوریہ پاکستان کی مثال میں نے آپ احباب کو ذکر کی کہ نو ہزار ارب ابھی قرضہ مزید لیا جائے گا پھر اس کا سود بھی ادا کیا جائے گا اور پھر یہ واپس بھی کرنا ہے تو یہ ایک جال ہے کہ جس میں انسان پھنستا چلا جاتا ہے اور وجہ کیا ہے کہ اس کے اندر سُود موجود ہے اور اللہ رب العالمین نے اس بارے میں ہمیں آگاہ کر دیا ہے۔ آپ کسی بھی اقتصادیات کے ماہرین سے پوچھیں گے وہ ہمیں یہ بتائیں گے کہ یہ ٹیکسس کا معاملات ہے ۔

ایک سوال

  میرا یہاں پر سوال یہ ہے کہ ہم لوگ سُود پر بات کیوں نہیں کرتے ؟ قرضے پہ بات کیوں نہیں کی جاتی؟ کیونکہ سُود وہ مصیبت ہے ، یہ وہ فتنہ ہے ، یہ وہ بیماری ہے جس نے پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور دنیا آہستہ آہستہ اس جال کے اندر ڈُوبتی چلی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ ڈوب چکے ہیں ، کچھ ڈیفالٹ کر چکے ہیں ، کسی نے ڈیفالٹ کرنا ہے ، قرضے در قرضے کی معیشت چل رہی ہے اور وجہ اس کی کیا ہے کہ سُود کے اُوپر پوری معیشت ہے اور اس کو سُود نے جکڑا ہوا ہے ۔

آئی۔ ایم ۔ایف (IMF) اور دیگر اداروں کے قیام کا مقصد

اگر آپ اس کی تفصیلات میں جائیں گے کہ آئی۔ ایم ۔ایف کا قیام کیوں عمل میں لایا گیا؟ ورلڈ بینک (World Bank) کیوں قائم کیا گیا؟ ان کے قیام کے بعد پھر ریاستوں کو کیوں آزاد کیا گیا ؟ کہ جب انہوں نے انہیں اپنی اقتصادی پالیسیوں میں جکڑ دیا تو اس کے بعد اُنکو آزاد کیا گیا۔  لہذا آپ اگر تاریخ پڑھیں گے تو آپ سب کو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اصل میں ریاستوں کو آزاد نہیں کیا گیا بلکہ اقتصادی شکنجے میں اُن کو پھنسا دیا گیا ہے۔

معاملے کا واحد حل اور اسلامی بینک کے ماہرین سے ایک سوال

 اور اس شکنجے سے نکلنے کا واحد حل یہی ہے کہ اسلامی ریاستوں کو اسلام کی طرف لوٹنا پڑے گا ہمیں اُن تمام بینکوں کو خیر آباد کہنا پڑے گا ۔ اور یہاں میں بجٹ کو سامنے رکھتے ہوئے اس حوالے سے ایک اور بات بھی عرض کرنا چاہوں گا بلکہ پوچھنا چاہوں گا ہمارے اسلامی بینک کے ماہرین سے کہ آپ کے اسلامی بینک کو قائم ہوئے کم و بیش چوبیس سال ہو چکے ہیں ۔ پاکستان کو اس سے کیا فائدہ پہنچا ہے ؟ بلکہ بجٹ کا جائزہ لینے والے احباب یہ جانتے ہوں گے کہ اسلامی بینکس گورنمنٹ کی جو سیکیورٹیز خریدتے ہیں اور پھر جو گورنمنٹ میں انویسٹ کرتے ہیں تو وہ بھی بنیادی طور پر گورنمنٹ اُن کو سود ہی ادا کر رہی ہوتی ہے ۔ گورنمنٹ کی کتابوں میں وہ انٹرسٹ کے طور پر لکھا جاتا ہے ۔ وہاں پروفٹ کا کوئی ریشو نہیں ہے تو ہماری انویسٹمینٹ جو حکومت کے پاس جا رہی ہے (سیکیورٹیز کی مَد میں) اس پہ بھی ہمیں سود ہی مل رہا ہوتا ہے ۔ اسلامی بینک نے بھی اس بارے میں کوئی بھی کار آمد پہلو سر انجام نہیں دیا ہے۔

سود کی معیشت باعثِ خسارہ

تو سارا معاملہ در اصل یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے اس حوالے سے ہمیں پہلے ہی بتا دیا ہے کہ جب تک سود کی معیشت میں جکڑے رہو گے اس فریب سے باہر نہیں نکل سکتے اور بجٹ کے احوال کو دیکھتے ہوئے میں دوسری بات کو مکمل کروں کہ اگر ہمارے ذہن میں یہ بات موجود ہے کہ بجٹ کا خسارہ  اور گورنمنٹ کی جو آمدنی ہے وہ ٹیکس کے ذریعے سے مکمل ہو سکتی ہے تو ہم ایک ایسی خام خیالی میں بیٹھے ہیں جس پر پوری دنیا بیٹھی ہوئی ہے اور وہ اپنے اخراجات کو پورا نہیں کر پا رہے ہیں ۔

ٹیکس ظلم ہے

 اللہ رب العالمین اور اللہ کے رسول ﷺ نے ٹیکسس کو ظلم قرار دیا ہے ۔ اسلامی ریاستوں میں ٹیکسس صرف غیر مسلم پر ہوتا تھا جس کو جزیہ بھی کہا جاتا تھا، خراج بھی کہا جاتا تھا۔ مسلمانوں کے اوپر زکوۃ کی ایک شرعی عبادت فرض تھی اور اسلامی ریاست اس کے باوجود بھی اتنی مالدار ہوتی تھی کہ وہ اپنی تمام رعایا کا بہترین انتظامات کرتے، ان کی میڈیکل کی تمام تر سہولیات ، اُنکی تعلیم ، اُنکی غذائی اجناس ،  الغرض ضروریات کی ہر چیز مکمل ہوا کرتی تھی ۔ وجہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست اسلامی اُصولوں کے اُوپر چلتی تھیں نہ کہ ٹیکس کے نظام پر ۔ اسلام نے جب ہمیں ایک پورا اقتصادیات کا نظام دیا ہے اس کو سمجھنے اور اس کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور وہ لوگ یا تو جاہل ہیں یا احمق ہیں یا ظالم ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے اندر اقتصادیات کا نظام موجود نہیں ہے ۔

 اسلام کا آٹھ سو سال، ہزار سال تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بارہ سو سال تک اس دنیا کے اندر اقتصادیات کا نظام لاگو رہ چکا ہے کہ جس میں بغیر ٹیکس کے خلافتِ عثمانیہ بھی چلی ہے، خلافتِ عباسیہ بھی بغیر ٹیکس کے چلی ہے اور اور اسی طرح خلافتِ اُمیہ بھی چلی ہے ۔ اور لوگوں نے دیکھا کہ کس طرح اس دور میں لوگ خوشحال ہوا کرتے تھے ۔ تو ہمیں اصل میں اپنے دین کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے ، دین کو پڑھنے کی ، سمجھنے کی اور انفرادی اور اجتماعی طور پر اس کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔ اللہ رب العالمین ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین ثم آمین)

الشیخ عثمان صفدر حفظہ اللہ

آپ کراچی کے معروف دینی ادارہ المعہد السلفی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالشھادۃ العالیہ کی سند حاصل کی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، نیز اسلامک بینکنگ اور فنانس میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی جاری ہے۔ اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے مدیر ، الھجرہ آن لائن انسٹیٹیوٹ کے مدیر ہیں ، البروج انسٹیٹیوٹ کراچی میں مدرس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

Recent Posts

اہل فلسطین کی مظلومیت اور امت کی بےحسی! بنیادی سبب کیا ہے؟

سب سے مضبوط رشتہ کونسا ہے؟ اہلِِ ایمان کے باہمی تعلق کی جو مثال بیان…

2 days ago

اللہ تعالی ظالم کو مہلت کیوں دیتا ہے؟

ظالم کو مہلت کیوں ملتی ہے؟ کیا یہ مہلت ظالم کے حق میں ہوتی ہے؟…

6 days ago

اللہ تعالی پر توکل کیسے بڑھائیں؟

اللہ تعالی پر کامل یقین ہونے کی علامت کیا ہے؟ ایمان اور توکل کو بڑھانے…

7 days ago

جب دشمن نے پیارے نبی کریم ﷺ کی تلاوت سنی!

ولید بن مغیرہ کون تھا؟ پیارے نبی کریم ﷺ نے جب اس پر تلاوت کی…

1 week ago

منافقانہ عادات سے بچیں!

کیا کوئی مسلمان عقیدے یا عمل کے اعتبار سے نفاق میں مبتلا ہو سکتا ہے؟…

1 week ago

کیا ہر کسی کو سننا چاہیے؟

اسلامی ممالک میں "فتنہ الحاد"(Atheism) ایک فیشن یا حقیقت؟ ملحدین سے متاثر ہونے والوں کی…

1 week ago