ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے ہم اُس کی حمد بیان کرتے ہیں اور اُسی سے مدد مانگتے ہیں اور اپنے نفس کی بُرائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں، اپنے اعمال کی خرابیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ جسے ہدایت دے د ے اُسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتااور جسے وہ گمراہ کردے اُسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کےسوا کوئی معبود نہیں، وہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں ۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کےبندے اور رسول ہیں۔آپ ﷺ نے پیغام پہنچادیا ،امانت ادا کردی اور امت کی خیر خواہی کی اور اللہ تباک و تعالیٰ کی راہ میں کما حقہ جہاد کیا۔
درود و سلام نازل ہوآپ ﷺ پر اور آپ ﷺ کی آل و اصحاب پراور جو دُرست طریقے سے اُن کی پیروی کرے اُن پر ۔
اما بعد!
اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیارکرو کیونکہ اُس کا تقویٰ بہترین کمائی ہے۔اُس کی اطاعت بلند ترین نصب ہے۔ اور دیکھو دنیا کی چمک دمک سے فریب نہ کھانا۔ تم سے پہلے کے لوگوں نے اِس سے دھوکہ کھایا تو اِس نے اُنہیں ہلاک کردیا۔اور اُس دن کے لیے عمل کرو جس دن تم اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔اور ہر ایک کو اُس کی کمائی کا بھرپور بدلہ دیا جائےگا اوراُن پر ظلم نہیں کیا جائےگا۔جان لو کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے ایک فیصلہ کیا ہے جسے نہ رد کیا جاسکتا ہے اور نہ دفع کیا جاسکتا ہے۔اور وہ یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کےسوا کسی اور چیز سے محبت کرے گا تولازماً اُسی سے عذاب دیا جائےگا۔اور جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور چیز سے ڈرے گا تو اُس چیز کو اُس شخص پر مسلط کردیا جائےگا۔اور جو اللہ تعالی ٰ کے سوا کسی اور سے اشتغال رکھے گا وہ اُس کے لئے باعثِ نحوست ہوگا۔اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ذات پر کسی اور چیز کو ترجیح دے گا تو وہ برکت سے محروم رہے گا۔اور جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرکے کسی اور کو راضی کرے گا تواللہ تعالیٰ لازماً اُس بندے کی نا راضگی کو اِس شخص پر لوٹادے گا۔
اے امت ِ مسلمہ! اس دنیاوی زندگی میں انسا ن پر جو حقوق عائد ہوتے ہیں اُن میں دو عظیم بنیادی حقوق ہیں جو زندگی بھر بلکہ موت کے بعد بھی اُس سے الگ نہیں ہوتے۔اور وہ دونوں بھلائی کا بھلائی سے اور احسان کا احسان سے بدلہ دینے کے قبیل سے ہیں۔
پہلا حق انسان کے خالق ،رازق اور مولیٰ کاحق ہے جو اُس نے اِس کوعدم سے وجود بخشا ،اُسے پیدا کیا اورا ُس کی خلقت اچھی کی۔اورزمین و آسمان کے درمیان جتنی بھی چیزیں ہیں اُن تمام کو مسخر کیا۔ اسی لیے بندے پر واجب ہےکہ وہ صرف اپنے پیدا کرنے والے ہی کی عبادت کرے اور اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرے۔اُس پر ایمان لائے اورا ُس کےرسولوں پر ایمان لائے۔
دوسرا حق والدین کا ہے۔عقلمند انسان پر اللہ تعالیٰ کے حق کےبعد والدین کے حق کا لازم ہونامخفی نہیں ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
النساء – 36
اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ سلوک واحسان کرو۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے والدین کےساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا اور احسان کا مطلب حسنِ سلوک ہے۔اور سنت ِ مطہرہ نے حسنِ سلوک کے معاملے میں ماں کے پلڑے کو راجح قرار دیاہے۔جیسا کہ حدیث میں ہے کہ کسی نےآپ ﷺ سے پوچھا : حسنِ معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔اُس نے پوچھا پھر کون؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ پوچھا پھر کون؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔ سائل نے پھر پوچھا کون ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تیری ماں۔سائل نے پھر پوچھا کہ کون تو آپ ﷺ نے فرمایا: تیرا باپ۔متفق علیہ
ماں نے اُسے اپنے شکم میں ڈھوتے ہوئے بہت سے بوج اُٹھائے۔پھر اُس کی پیدائش کے وقت انتہائی تکلیفیں جھیلیں۔ اُس کی تربیت میں پوری محنت صرف کی۔اُس کی دیکھ ریکھ میں رات بھر جاگی۔اُس کی خاطر مدارات کے لئے اپنی تمام خواہشات کو تیج دیا۔ہر حال میں اسے اپنے اوپر ترجیح دی۔اُس کی خوشی سے خوش اور اُس کے غم و الم سے غمگین ہوئی۔ جب وہ بیمار ہوا تو وہ بھی بیمار ہوگئی۔ جب وہ مدرسے میں پڑھنے گیا تو گویا وہ بھی پڑھ رہی تھی۔جب اُس کا امتحان ہوا تو گویا وہ ہی امتحان دے رہی تھی۔ہی صورتحال رہی یہاں تک کہ اُس کی تربیت پوری ہوگئی۔یہ ساری چیزیں ماں کےساتھ واقع ہوتی ہیں۔اسی لیے حسنِ سلوک اور حسنِ معاشرت کے معاملے میں اُسے ہی مقدم رکھا گیا ہے۔باپ کے مقابلے میں ماں کا درجہ تین گنا بڑا ہے۔ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےانہوں نے بیان فرمایا کہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام میں دو لوگ ایسے تھےجو اس امت میں اپنی ماں کے ساتھ سب سے زیادہ حسنِ سلوک کرنے والے تھے۔ایک عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اور دوسرے حارثۃ بن نعمان رضی اللہ عنہ ۔
جہاں تک عثمان رضی اللہ عنہ کی بات ہے تو انہوں نے بیان کیا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا مجھے یہ سکت نہیں ہوئی کہ میں اپنی ماں کو غور سے دیکھ سکوں۔ اور جہاں تک جناب ِ حارثۃ رضی اللہ عنہ کی بات ہے تو وہ اپنی ماں کے سر سے جوئیں نکالا کرتے تھے ، انہیں اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے تھے اور جب وہ حکم دیتی تھیں تو سوال تک نہیں کرتے تھے۔بلکہ جب اُن کے پاس کوئی ہوتا تو باہر نکل کر اُس سے پوچھتے کہ میری ماں نے کیا ہے؟ابنِ سیرین رحمہ اللہ جب اپنی والدہ سے بات کرتے تھے توجو انہیں جانتا تھاوہ گمان کرتا کہ یہ بیمار ہیں جیسے کہ وہ ابھی گریہ زاری کرنے والے ہیں جو انتہائی پست آواز میں اور انتہائی پست آواز میں گریہ کررہے ہیں۔
والد کو بھی حسنِ سلوک اور بھلائی میں ماں کے ساتھ جوڑا گیاہے ۔کہ انسان کے وجود میں آنے میں وہ بھی سبب ہے پھر انسان کے وجود میں آجانے کے بعد اس سےمحبت کرتاہے ، شفقت کرتاہے ۔اُس کے لیے کماتا ہے اور پھر اُس پر خرچ کرتاہے۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہانبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی رضامندی والد کی رضا مندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔صحیح ابن ِ حبان
اور آپ ﷺ نے فرمایا: باپ جنت کا بہترین دروازہ ہے اور اُس دروازے کی حفاظت کرو یا اُسے چھوڑ دو۔مسند احمد ،سنن الترمذی ، ابن ماجہ
عقلمند آدمی اپنے محسن کے حق کو پہچانتا ہے اور اُس کا بدلہ دینے کی کوشش کرتاہے ۔محسن کا حق نہ پہچاننا انسان کی گھٹیا ترین صفات میں سے ہے۔بطور ِخاص جب حق کے انکار کےساتھ سوئے ادب سے بدلہ دیا جائےبلکہ یہ خبیث طبیعت،کمینی خصلت کے ساتھ بُرے انجام کی دلیل ہے۔
اللہ کے بندو! ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک اللہ کی اطاعت ہے،انسان کے لیے خیر و برکت ہے۔اور دُعا کی قبولیت ،رزق میں کشادگی اور درازگی عمر کا باعث ہے۔آپ ﷺ نے فرمایا: جو یہ چاہے کہ اُس کے رز ق میں کشادگی ہو ،اُس کی عمر بڑھائی جائےتو اُسے صلہ رحمی کرنی چاہیئے۔ متفق علیہ
ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا معزز لوگوں کا شیوہ ہے اور فضل و کما ل کی دلیل ہے۔اور ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والا،اللہ تعالیٰ سے ،لوگوں سے اور جنت سے قریب ہوتاہے۔ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والے کو چاہییے کہ چاہے وہ جتنا بھی حسنِ سلوک کرلےاُن دونوں کا پورا شکریہ ادا نہیں کرسکتا۔
ایک آدمی نے جلیل القدر صحابی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: میں نے اپنی ماں کو خراسان سے اپنی گردن پر اُٹھایایہاں تک کہ میں نے اسی حالت میں سارے مناسک اداکئےتو کیا میں نے اپنی ماں کے حسنِ سلوک کا بدلہ دے دیا۔انہوں نے کہا : نہیں!۔ بلکہ اُس کی دردِ زہ کی تکلیف میں سے ایک تکلیف کا بھی نہیں۔مسلمان کو ماں باپ کی نافرمانی سے بچنا چاہیئے۔ ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اُس شخص کی ناک خاک آلود ہو! اُس شخص کی ناک خاک آلود ہو! اُس شخص کی ناک خاک آلود ہو!۔پوچھا گیا اللہ کے رسول ﷺ کس کی ؟آپ ﷺ نے فرمایا: اُس شخص کی کہ جس نے اپنے ماں باپ میں سے دونوں کو یا کسی ایک کو اُن کے بڑھاپے میں پایا اور پھر بھی جنت میں نہ جاسکا۔
ماں باپ کی نافرمانی کمینہ صفت اور کم ظرف لوگوں کا شیوہ ہے۔ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا ،اللہ تعالیٰ سے ،لوگوں سے اورجنت سے دور رہتا ہے اور وہ جہنم سے نزدیک ہوتاہے ۔علماء بیان کرتے ہیں کہ ہر معصیت کی سزا قیامت تک کے لیے مؤخر ہوسکتی ہے سوائے والدین کی نافرمانی کےکہ اُس کی سزا دنیا میں ہی دی جاتی ہے۔اور جیسا کرو گے ویسا بھروگے۔
مسلمانو! اپنے والدین کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو۔اُن کے حقوق ادا کرو۔اُن کی رضا مندی کو ہر چیز پر مقدم رکھویہاں تک کہ اپنے اوپر ،اپنے بچوں کے اوپراورا پنی بیویوں کے اوپر، تم کامیاب ہوگے اور خوش بخت رہوگے۔اور اللہ تعالیٰ ایسے والد پر رحم کرے جو حسنِ سلوک پر اپنے بچوں کی مدد کرے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
الاسراء – 23/24
اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا، نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا ۔ اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔
اللہ میرے لیے اور آپ کے لیے قرآنِ عظیم میں برکت دے اور اُس کی آیات اور حکمتوں سے ہم سب کو فیضیاب فرمائے۔اور میں اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں والدین سے حسن ِ سلوک کرنےکی توفیق عطا فرمائے۔میں وہ کچھ کہ رہا ہوں جو آپ سن رہے ہیں۔ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور میں اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے اور آپ سب کے لیےاور تمام مسلمانوں کےلیے مغفرت طلب کرتاہوں تو آپ بھی اُسی سے مغفرت طلب کریں ۔ بےشک وہ بڑا بخشنے والامہربان ہے۔
ہر قسم کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لیےہے اور درود و سلام نازل ہو ہادی و امین ،ہمارے نبی محمد ﷺ پر صاحبانِ فضل و کرامات ،آل و اصحاب پر ۔بہت زیادہ سلامتی ہو۔
اما بعد!
میں آپ کو اور خود کو عمر کے گزرنے اور وقت اور گھڑیوں کے ختم ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور اُس کی مغفرت اور خوشنودی کی طرف تیزی سے بڑھنے کی وصیت کرتاہوں اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے خیر کے راستے کو ہموار کیا ہے اور آسان بنایا ہے۔جس کے والدین انتقال کرچکے ہوں یا اُن میں سے کوئی ایک انتقال کرچکا ہوتو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں سےخیر ِ کثیر باقی ہے۔جیسے اُن کے لیے دُعا ،استغفار ،ان کے وعدوں کی تکمیل ، اُن کے دوستوں کا احترام اور اُن رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی جن سے رشتے اُن کے تعلق سےہوئے۔اسی طرح جب معلوم ہو کہ اُن میں سے کسی ایک کے ذمہ روزہ ہےتو بیٹا اُن کی طرف سے قضا کرےگا اورا ُن کی طرف سے حج کرے گااگر اُن دونوں نے فریضہ حج ادا نہ کیا ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کے پاس موت کے بعدوہ دونوں بری الذمہ ہوجائیں گے۔اُن کی نیکیوں میں اضافہ ہوگا اور بیٹے کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
ماں باپ کی موت کے بعد حسنِ سلوک کی کوشش سے اُن کی زندگی میں تم سے ہوئی کوتاہی کی تلافی بھی ہوسکتی ہے ۔
اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے ہمیں رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اور آپ ﷺ نے فرمایا : جس کے پاس میرا ذکر ہو وہ مجھ پر درود بھیجے کیونکہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ اُس پر دس مرتبہ درود بھیجے گا۔
اے اللہ ! تو درود و سلام نازل فرما محمد ﷺ اور تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو قیامت تک دُرست طریقے پر اُن کی پیروی کریں اور اُن کے ساتھ ساتھ ہم سےبھی اپنے جود وکرم سے ۔یا ارحم الراحمین۔
اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو غلبہ دے۔ اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو غلبہ دے۔
اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔
اے اللہ ! مسلمانوں کو متحد کردے ۔
اے اللہ ! اپنے دین اور اپنی کتاب کی مدد فرما اور اپنے نبی کریم ﷺ کی سنت کو غلبہ دے۔
اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔
اے اللہ تو مہنگائی ،سود ،زنا،وباء ،زلزلے ،آزمائشوں ،ظاہر و پوشیدہ باتوں کے شر سے ہمیں محفوظ فرما۔
اے اللہ ! ہم بدبختی کی پہنچ ، بُرے فیصلے اور ہر دشمن سے تیری پناہ لیتے ہیں۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے ہر بھلائی کا سوال کرتے ہیں خواہ وہ جلدی ملنے والی ہو یا دیر سے،خواہ اُس کا علم ہمیں ہو یا نہ ہواور ہر بُرائی سے تیری پناہ مانگتے ہیں خواہ جلدی آنے والی ہو یا دیر سے ، خواہ ہمیں اس کاعلم ہو یا نہ ہو۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے جنت اور اُس سے قریب کرنےوالے قول و عمل کا سوال کرتے ہیں۔اور ہم جہنم اور اُس سے قریب کرنے والے قول و عمل سے تیری پناہ لیتے ہیں۔
اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔
اے اللہ ! دلوں کو تقویٰ دے اوراُن کا بہترین تزکیہ کر تو ہی اُن کا آقا ہے ۔
اے اللہ ! ہمارے دین کی حفاظت فرما اور ہماری دنیا کی حفاظت فرماکہ جس میں ہمارا معاش ہے اورہماری آخرت کوہمارے لیے دُرست کردے۔
اے اللہ ! زندگی کو ہمارے لیے خیر کی زیادتی کا ذریعہ بنا اور موت کو ہر طرح کے شر سے نجات کا ذریعہ بنا۔
اے اللہ ! دین و دنیا کی ذلت سے ہماری حفاظت فرما۔
اے اللہ ! نعمتوں کے زوال سے ہم تیر ی پناہ چاہتے ہیں اور تجھ سے بھلائی کرنے کی توفیق چاہتے ہیں۔
اے اللہ ! تو دین کے دشمنوں کے مقابلےمیں ہمارے لیے کافی ہوجا۔ اے اللہ! تو ہمارے دشمنوں کے مقابلےمیں ہمارے لیے کافی ہوجا۔
اے اللہ ! ہمارے بیماروں کو شفاء ِ کاملہ عطا فرما۔
اے اللہ ہمارے مرحومین پر رحم فرما۔
اے اللہ ! تو فلسطین کی اور اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔
اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ،اگر تو نے ہم پر رحم نہ کیا تو یقینا خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ اے اللہ ! ہمیں دنیا میں بھلائی دے ،ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔اور درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر ،آپ ﷺ کی آل و اصحاب پر اور ہر طرح کی تعریف اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ عبداللہ الجھنی حفظه اللہ
تاریخ 23 ربیع الاول 1443هـ بمطابق 29 اکتوبر 2021
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…