ٹرانس جینڈر سے کیا مراد ہے؟
ٹرانس جینڈر انگریزی زبان کے دو کلمات Trans اور gender کا مجموعہ ہے۔ ٹرانس trans کا معنی ہے تبدیل کرنا اور gender سے مراد ہے جنس۔ گویا ٹرانس جینڈر پرسن سے وہ مرد یا عورت مراد ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مکمل مرد یا عورت پیدا کیا لیکن وہ اللہ کے فیصلے پر نا خوش ہیں اور اپنی پیدائشی جنس تبدیل کر کے مرد سے عورت یا عورت سے مرد بننا چاہتے ہیں۔
پاکستانی پارلیمنٹ نے 2018 میں خواجہ سرا اور خُنثی کی آڑ میں اس غیر انسانی رویے کو قانونی تحفظ فراہم کرتے ہوئے ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ منظور کیا ہے۔ جو سراسر غیر اسلامی اور غیر انسانی قانون ہے۔ یہ ایکٹ کن وجوہات کی بنا پر قرآن و سنت سے متصادم ہے اور اس میں کیا معاشرتی قباحتیں پائی جاتی ہیں اس تحریر میں یہی پہلو واضح کرنا مقصود ہے۔
خواجہ سر اور ٹرانس جینڈر میں کیا فرق ہے؟
بعض لوگوں نے خواجہ سراؤں یا ہیجڑوں کو ٹرانس جینڈر سمجھ رکھا ہے۔ یہ شدید غلط فہمی ہے۔ انہیں خواجہ سرا یا ہیجڑا کہلانے کے لئے کسی قانون کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لوگ تو جسمانی طور پر ہی نا مکمل ہیں ۔ انہیں تو سپریم کورٹ نے الگ شناخت دے رکھی ہے۔ خواجہ سرا وہ ہیں جو قدرتی اور پیدائشی طور پر بعض جنسی نقائص اور پیچیدگیوں کے ساتھ جنم لیتے ہیں جنہیں ہم مخنث کہتے ہیں اور انگریزی میں انہیں انٹر سیکس کہا جاتا ہے۔ جبکہ ’ٹرانس جینڈرز‘ پیدائشی طور پر مخنث پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ ایک مکمل مرد یا عورت کے طور پر پیدا ہوتے ہیں اور بعد ازاں اپنی مرضی سے جنس تبدیل کرواتے ہیں۔
ٹرانس جینڈر کی حقیقت :
آپریشن کے ذریعے مرد کے ظاہری اعضاء کو عورت کے ظاہری اعضاء میں تبدیل کرنا یا عورت کے ظاہری اعضاء کو مرد کے ظاہری اعضاء میں تبدیل کرنے کو تبدیلیِ جنس یا ٹرانس جینڈر سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ماہر ڈاکٹر تبدیلیِ جنس کے متمنی مرد (جو اعضاء و جوارح کے اعتبار سے مکمل ہو اور اس میں کسی طرح کا کوئی نقص نہ پایا جائے) کے آلہٴِ تناسل و خصیتین کو آپریشن کے ذریعے نکال دیتا ہے اور اس کی جگہ عورت کی شرمگاہ کے مثل ایک سوراخ بنا دیتا ہے اور پھر دواؤں کے ذریعے وہ مرد کے جسم میں عورت کے ہارمونز (ایسی آمیزش جو دورانِ خون کے ذریعہ جسم کے سیال مادوں میں تحلیل ہو کر افعالِ اعضاء کا سبب بنتی ہے) ڈال دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کے سینے پر ابھارپن پیدا ہو جاتا ہے اور اس کی آواز، چال ڈھال عورت کی طرح ہو جاتی ہے۔
اسی طرح اگرعورت اپنی جنس تبدیل کرانا چاہتی ہے تو ڈاکٹر آپریشن کے ذریعہ اس کے سینے کے ابھار، رحم وغیرہ کو ختم کردیتا ہے اور بچہ دانی کے سوراخ کو بند کردیتا ہے اور جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مرد کے آلہٴ تناسل کے مماثل ایک مصنوعی آلہ عورت کی شرمگاہ کی جگہ لگا دیا جاتا ہے جس کے ذریعے اگرچہ اُس عورت میں جماع کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے مگر اس سے مادہ منویہ کا خارج ہونا اوراس سے حمل کے ٹھہر جانے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔ نیز پھر ڈاکٹرز اُس عورت کے اندر مرد کے ہارمونز ڈال دیتے ہیں جس سے اس کی آواز، چال ڈھال مرد کی طرح ہو جاتی ہے اوراس کے چہرے پر بال نکلنے لگتے ہیں۔
تبدیلیِ جنس کے ذریعہ کیا حقیقت میں مرد عورت بن جاتا ہے اور عورت مرد بن جاتی ہے؟
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ تبدیلیِ جنس کے ذریعہ اگرچہ ظاہری تبدیلی تو ہو جاتی ہے مگر حقیقت میں مرد مرد ہی رہتا ہے اور عورت عورت ہی رہتی ہے۔ چنانچہ عورت بننے والے مرد کے لیے ممکن نہیں ہے کہ اس کو حیض آئے یا اس کو حمل ٹھہرے، اسی طرح مرد بننے والی عورت کے لیے ناممکن ہے کہ اس کے آلہٴ تناسل سے مادہ منویہ خارج ہو۔
یہ بھی پڑھیں: سدومیت یا ہم جنس پرستی
قانون میں بیان کردہ ٹرانس جینڈر کی تعریفیں :
تعریف نمبر : 1
وہ شخص ٹرانس جینڈر ہے جس کے اعضاء میں پیدائشی صنفی ابہام ہے لیکن اس کیلئے درست لفظ ’’ انٹر سیکس‘‘ یا ’’ ہرما فروڈائٹ ‘‘ (Hermaphrodite )ہے ۔
تعریف نمبر 2 :
وہ شخص جو مکمل مرد ہے وہ کسی وجہ سے مثلا دوا یا حادثہ کی وجہ سے مردانہ صلاحیت سے محروم ہو جائے تو وہ بھی اس قانون کے مطابق ٹرانس جینڈر ہے۔ حالانکہ وہ ایک مکمل مرد ہے ، اس کے احساسات و جذبات ، اس کی بائیوجیکل ساخت مردوں کی ہے صرف اس کی مردانہ قوت زائل ہونے سے اس کی جنس ہرگز تبدیل نہیں ہو سکتی۔
تعریف نمبر 3 :
ایسے افراد جو پیدائشی طور پر، جسمانی اور ہارمونز کے اعتبار سے مکمل مرد یا عورت کی جنس کے ساتھ پیدا ہوئے مگر بڑے ہو کر کسی نفسیاتی الجھن یا پیچیدگی ، معاشرتی دباؤ ، ٹرینڈ ، ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر اپنی جنس سے نا خوش ہیں ۔ اس ناخوشی یا نفسیاتی بیماری کو جینڈر ڈیسفوریا Gender dysphoria کہا جاتا ہے۔ ایسے افراد کو بھی اس قانون میں ٹرانس جینڈر کہا گیا۔ حالانکہ بائیولوجیکل یعنی حیاتیاتی ساخت اور شناخت کے اعتبار سے وہ ایک مکمل مرد یا عورت ہے۔
ٹرانس جینڈر کا لفظ کہاں سے آیا؟
در حقیقت ٹرانس جینڈر کا لفظ ہی ہم جنس پرستی کی عالمی تنظیم ایل جی بی ٹی کا خاص وضع کردہ ہے ( L، یعنی لیزبینlesbian, ہم جنس پرست عورت،G یعنی gayہم جنس پرست مرد، B یعنی bisexual , مرد و عورت دونوں سے تعلق رکھنے والا، T یعنی transgender ، یعنی مرد سے عورت بن کر، یا عورت سے مرد بن کر ہم جنس پرستی کرنے والا۔
ٹرانس جینڈر قانون میں مغربی فلسفہ
مغرب کے فلسفے کے تحت صنفی شناخت ایک ذاتی زندگی اور سوچ ہے جس میں ریاست یا معاشرے کو کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مداخلت کرے۔ اسی لیے مغرب میں صنفی شناخت کو طبی یا عدالتی کاروائی سے دور رکھا گیا ہے اور اسے محض اس فرد کی ذاتی سوچ پر قائم کر دیا گیا ہے۔ اور یہی وہ دروازہ ہے جس سے ہم جنس پرستی یا آزادیِ جنس یا جنسی رجحان نے قانونی حیثیت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
چند غیر مسلم ممالک میں ٹرانس جینڈر قانون کی ہیئت
ہمسایہ ملک بھارت میں ملکِ عزیز سے ایک سال بعد یعنی 2019 میں یہی قانون منظور کیا گیا ہے مگر وہاں اندراجِ صنف کے لیے دو مراحل مقررکر دیے گئے ہیں۔ اول: ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست اور ہمراہ متعلقہ دستاویزات پیش کی جائیں اور دوسرا: طبی معائنہ اور رپورٹ اور پھر اس کے بعد حتمی فیصلہ۔ اور اس حکم کی روشنی میں پبلک ریکارڈ میں صنف کا اندراج کیا جائے گا۔ اس پر وہاں عملدرآمد ہو رہا ہے۔ کینیڈا میں صنف کے بارے تبدیلی کا ایک خاص طریقہ مقرر کیا گیا ہے۔ وہاں برتھ سرٹیفیکیٹ میں اول تبدیلی کے لیے درخواست دی جائے گی۔ اس کے لیے طبی دستاویزات بھی پیش کی جائیں گی کہ کیا واقعتاً جنس تبدیل کی گئی ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا میں بھی اول برتھ سرٹیفیکیٹ پر تبدیلی جنس کا اندراج کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے بھی وہاں میڈیکل علاج اور تبدیلی جنس کے حوالے سے ثبوت طلب کیا جاتا ہے۔ جو کہ Sexual reassignment یعنی دوبارہ جنسی تعین کے حوالے سے دو ڈاکٹرزکا تصدیق نامہ منسلک کیا جانا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لیکن وطنِ عزیز پاکستان میں جنسی شناخت کو محض اس فرد کی ذاتی خواہش کا نتیجہ قرار دے دیا ہے جو کہ مغرب کی آزاد جنسی معاشرہ کا ایک چربہ ہے۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کی سفارشات
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ نے مارچ 2020ء میں اس قانون کو پاکستان میں نافذ کرنے پر تعریف کی۔ الجزیرہ کے مطابق پاکستان ان ممالک میں سرِ فہرست ہے جنہوں نے ٹرانس جینڈرز کو قانونی طور پر تسلیم کیا ہے۔ اور یہ امر بھی مسلّمہ ہے کہ چند مغربی ممالک کے بعد پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس نے ٹرانس جینڈرز کو ان کی صوابدید کے مطابق کسی بھی جنس میں درج کرانے کا اختیار دیا ہے۔
انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ کی مزید توقع اور سفارش ہے کہ ٹرانس جینڈر اور انٹرسیکس افراد کے حوالے سے مزید تخصیص کی جائے اوریہ بھی پابندی لگائی جائے کہ انٹرسیکس افراد کو کسی بھی طبی مداخلت یعنی یارمونز تھراپی وغیرہ سے بچایا جائے اگر اِس میں ان کی آزادانہ مرضی شامل نہ ہو۔
پاکستان سے مزید مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس قانون کا اطلاق غیر ملکی مہاجرین وغیرہ پر بھی کر دے جو کہ اپنے ملک میں جا کر کسی وجہ سے نہ کروا سکتے ہوں یعنی دوسرے ملکوں کے لوگ کسی بہانے سے پاکستان سے اپنی صنفی شناخت درج کروا سکتے ہیں۔
اس قانون میں شامل ایک دفعہ کے مطابق کوئی بھی پاکستانی شہری جو اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ جائے اس کو حق حاصل ہے کہ وہ خود شناسی کے اصول کے تحت اپنی صنف کو رجسڑڈ کروائے لیکن پاکستان سے مغربی دباؤ کے تحت اس قانون میں ابھی مزید تقاضا کیا جا رہا ہے کہ عمر کی حد کو ختم کیا جائے کیونکہ یہ بچوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک ہے اور ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے اور یہ کہ بچے کے مفاد کو دیکھتے ہوئے اس کی خواہش کا احترام کیا جائے اور اسے جنسی صنف کی تبدیلی کی اجازت دی جائے۔
ٹرانس جینڈر قانون کی خامیاں
اس قانون کی پہلی خامی یہ ہے کہ اس میں خواجہ سرا کے لئے ٹرانس جینڈر کالفظ استعمال کیا گیا ہے جبکہ اس کے لئے درست لفظ انٹر سیکس ہے۔
قانون کی دوسری خامی یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کی تعریف میں بائیولوجیکل یعنی حیاتیاتی ساخت اور شناخت کے اعتبار سے مکمل مرد اور عورت کو محض اپنے احساسات کی بناء پر ٹرانس جینڈر قرار دیا گیا ہے۔
تیسری خامی یہ ہے کہ اس ایکٹ کی شق نمبر 3 اور سب شق نمبر 2 کے تحت ان افراد کو حق دیا گیا ہے کہ وہ چاہیں تو مکمل مرد یا عورت ہونے کے باوجود اپنے شناختی کارڈ میں اپنی جنس، اپنی مرضی سے ، اپنے احساسات کے مطابق تبدیل کر سکتے ہیں اور نادرا یہ تبدیلی کرنے کا قانونی طور پر پابند ہوگا اور اس کے لئے اس قانون میں Self-Perceived gender identity یعنی (ذاتی تصور کی ہوئی جنسی شناخت) کی اصطلاح ڈالی گئی ہے۔
اس قانون کی چوتھی خامی یہ ہے کہ یہ قانون آئینِ پاکستان سے متصادم ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل RL227 اور شریعت ایکٹ 1991 کے مطابق کسی غیر شرعی قانون کا نفاذ پاکستان میں ممکن نہیں۔ آئین ِپاکستان کے مطابق تمام موجودہ قوانین کو قرآن پاک اور سنت کے احکام کے مطابق بنائے جانے کا حکم ہے۔
اس قانون کی پانچویں خامی یہ ہے کہ اس کے تحت کسی میڈیکل معائنے یا ڈاکٹر کی گواہی کی ضرورت نہیں ہے ۔ سب سے بڑی گواہی اور سب سے بڑا قانون انسان کے پوشیدہ جذبات اور احساسات کی گواہی ہے جو حتمی فیصلہ ہے ۔ اس گواہی کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ Yogya karta Principles plus 10 یعنی یوگیا کارتا پرنسپل پلس 10 کے ایجنڈے کو پاکستان میں نافذ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جو دنیا بھر میں LGBTQ ظریات یعنی ہم جنس پرستی اور جنسی بے راہ روی کو قانونی حیثیت دینے کے لیے کام کرتا ہے۔ یہ ایسا قانون ہے جس کے زیرِ سایہ ماڈرن نظریہ جنس اور ہم جنس پرستوں کی تمام اقسام اپنا گھناؤنا کام کرتی ہیں۔
ٹرانس جینڈر ایکٹ کا مکمل متن قومی اسمبلی کی درج ذیل ویب سائٹ سے ڈاونلوڈ کیا جا سکتا ہے۔
https://na.gov.pk/uploads/documents/1526547582_234.pdf
ٹرانس جینڈر قانون کے معاشرے پر اثرات
یہ قانون اپنی موجودہ شکل میں مردوں اور عورتوں میں ہم جنس پرستی کے کلچر کو فروغ دینے کا سبب بن رہا ہے۔ اس جدید قانون کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس سے ہم جنس پرستی کو قانونی تحفظ حاصل ہو جائے گا۔ یعنی ایک مرد جس میں کسی قسم کی کوئی صنفی خرابی نہیں ہے یہاں تک کہ وہ شادی شدہ اور صاحبِ اولاد ہے مگر اس کی خواہش یا میلانِ طبع یہ ہے کہ وہ ایک عورت کی طرح پہچانا جائے تو وہ بغیر کسی میڈیکل ٹیسٹ، سرٹیفکیٹ کے اس قانون کے تحت نادرا یا کسی بھی حکومتی ادارے میں خود کو عورت رجسٹر کروا سکتا ہے یا چاہے تو ٹرانس جینڈر بھی رجسٹر کروا سکتا ہے اور یہی حق ایک عورت کو بھی حاصل ہے۔
اس قانون کے تحت وہ مرد جو حکومتی کاغذات میں بطورِ عورت رجسٹرڈ ہے وہ کسی دوسرے مرد سے شادی بھی کر سکتا ہے۔
عورتوں کے لئے مختص تمام جگہوں، ٹوائلٹ، سوئمنگ پولز میں جا سکتا ہے۔ کیونکہ عورتوں کے تمام قوانین اس پر لاگو ہوں گے۔
اس ایکٹ کے مطابق وہ گرلز ہاسٹل میں ہماری بیٹیوں کے ساتھ رہائش اختیار کر سکتا ہے، ان کے واش رومز میں بلا روک ٹوک جا سکتا ہے، شادی ہال میں خواتین کی طرف بیٹھ سکتا ہے جبکہ یہ تمام شرمناک حرکتیں قابلِ مذمت ہیں اور خلافِ شریعت۔ نہ ہمارا دین اس کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ہماری ثقافت۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إيَّاكُمْ والدُّخُولَ علَى النِّساءِ
صحیح البخاری – 5232
یعنی اے مردو! تم غیر محرم عورتوں کے پاس جانے سے اجتناب کرو۔
اس قانون کے تحت کوئی مرد شناختی کارڈ میں اپنی جنس عورت لکھوا کر خواتین کے تعلیمی اداروں میں پڑھ سکتا ہے اور پڑھا بھی سکتا ہے۔ خواتین کی مجلسوں میں جا سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی بھی عورت شناختی کارڈ میں اپنی جنس مرد لکھوا کر وراثت میں دو گنا حصہ لے سکتی ہے۔ مسجد میں امامت کروا سکتی ہے۔ مردوں کی صف میں ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتی ہے۔
اس قانون کے تحت مرد یا عورت جو بھی اپنی جنس تبدیل کرائے گا تو اس کے جنس کے خانے میں X لکھا جائے گا۔ اب قانون میں یہ نہیں لکھا ہوا ہے کہ X کس سے شادی کرے گا۔ یوں اس قانون کے تحت ہم جنس پرستوں کی شادی کا راستہ ہموار کر دیا گیا ہے اوراس شادی کو قانونی جواز فراہم کیا گیا ہے۔ اسی طرح X کو وراثت مرد کی ملے گی یا عورت کی ملے گی۔ یہ بھی ایک سنگین تنازع کی شکل اختیار کرلے گا۔
اس سے مخنث افراد کے حقوق کی حق تلفی ہوگی کیونکہ اس قانون کا مقصد خواجہ سراؤں کو ان کے جائز حقوق دینا نہیں ہے۔ اگر اس قانون کا مقصد خنثیٰ یعنی انٹر سیکس افراد کو حقوق دینا تھا تو اس کا نام ٹرانس جینڈر ایکٹ کیوں رکھا گیا؟ اس کا نام Inter sex person protection right act انٹرسیکس پرسن پروٹیکشن رائٹس ایکٹ کیوں نہیں رکھا گیا ؟ حقیقت یہ ہے کہ جس مظلوم صنف یعنی حقیقی مخنث Intersex کیلئے یہ قانون بنایا گیا ہے ان کو اس قانون سے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے بلکہ جعلی مرد اور عورت قانونی طور پر ٹرانس جینڈر بنا کر اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
ایک عورت جو پیدائشی طور پر عورت ہے وه اپنے آپ کو مرد رجسٹر کروا کر وراثت میں اپنا حصہ دو گنا کروا سکتی ہے۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزی
اسلام کے ہاں بنیادی انسانی حقوق میں یہ چیز شامل ہے کہ دنیا میں آنے والے ہر نومولود کو معلوم ہو کہ اس کا باپ کون ہے؟ اس بنیادی اہم ترین حق کے انسان کی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اسی حق کی ضمانت دینے کے لیے نکاح کا رشتہ ہوتا ہے. اسی حق کے تحفظ کے لئے زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ ٹرانس جینڈر افراد اپنی بدترین خباثت کے ذریعے بچوں سے یہ حق بھی چھین لیتے ہیں۔
آپ ذرا تصور تو کیجیے کہ اولاً: ہم جنس پرست دنیا میں بچوں کی پیدائش اور نسل انسانی کی افزائش میں رکاوٹ ہیں۔ ثانیاً: اگر دو چار بچوں کا باپ حقیقی مرد، ٹرانس وومن بن جاتا ہے تو بچوں کے نسب کا کیا بنے گا؟ ان کو یہ حق کون دے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاللهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُم مِّنْ أَزْوَاجِكُم بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللهِ هُمْ يَكْفُرُونَ
النحل – 72
اور اللہ نے تمہارے لیے خود تمہی میں سے بیویاں بنائیں اور تمہارے لیے تمہاری بیویوں سے بیٹے اور پوتے بنائے اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا تو کیا پھر بھی لوگ باطل پر ایمان لائیں گے؟ اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کریں گے؟۔
جنس کی تبدیلی اور تبیین میں فرق:
فقہاءِ کرام نے ایسے شخص کے بارے میں جس کے اعضاء پورے طور پر ظاہر نہ ہوں اس بات کی اجازت دی ہے کہ آپریشن کے ذریعے اس کے اعضاء مکمل کر لیے جائیں تاکہ اس کا مذکر یا موٴنث ہونا واضح ہوجائے۔ لہٰذا یہاں جنس کو تبدیل نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی اصلی جنس کو واضح اور ظاہر کیا جاتا ہے جس کی شریعت میں گنجائش ہے۔
تبدیلیِ جنس کے جواز کے دلائل اور ان کا منصفانہ رد
کویت میں منعقدہ ایک مجلس میں تبدیلیِ جنس کے جواز کے حوالے سےایک عدالتی فیصلہ سنایا گیا اور اس پر دلائل بھی دیے گئے۔ درج ذیل میں ان کے دلائل اور ان کے جوابات پیشِ خدمت ہیں:
پہلی دلیل: جنس کو تبدیل کرانے والا شخص مجبورِ محض ہوتا ہے۔ وہ نفسیاتی طور پر دباؤ کا شکار ہوتا ہے حتیٰ کہ بعض دفعہ خودکشی کرنے پر بھی آمادہ ہو جاتا ہے لہٰذا اس کو معذور قرار دیا جائے گا۔
دلیل کا رد: اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ انسان اپنے اختیار سے نکل جاتا ہے اوراس کا داخلی دباؤ اِس درجہ پر پہنچ جاتا ہے کہ وہ اس عمل کے حوالے سے مجبورِ محض بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ اگر اس بنیاد پر تبدیلیِ جنس کو جائز قرار دے دیا جائے تو یہ علت بہت سے جرائم کے جواز کی دلیل بن جائے گی چنانچہ قاتل ہو یا سارق یا کوئی اور مرتکبِ جرم وہ بطورِ جواز کے یہی دلیل پیش کرے گا کہ وہ اِس جرم کے حوالے سے مجبورِ محض اور داخلی دباؤ کا شکار تھا۔
دوسری دلیل: ضرورت کی وجہ سے بھی یہ عمل جائز ہونا چاہیے کیوںکہ قاعدہ ہے:
الضّروراتُ تُبیحُ المَحظورات۔
دلیل کا رد: الضروراتُ تُبِیْحُ المَحْظُوراتِ“ کی بنیاد پر تبدیلیِ جنس کو جائز قرار دینا اور قاعدے کو اپنے محل میں استعمال نہ کرنا یہ فقہ و اصولِ فقہ سے نا آشنائی کی دلیل ہے کیوںکہ یہ بات واضح ہو چکی کہ جنس کو تبدیل کرانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کے ذریعے انسانی خواہش کی تسکین اور جنسی اضطراب و بے چینی ختم نہیں ہوتی بلکہ اس میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ بھی اپنی جنس تبدیل کراتے ہیں وہ پہلے سے بھی زیادہ جنسی اضطراب و پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں اور اگر بالفرض ضرورت کو تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی ہر ضرورت سے ممنوع چیز مباح نہیں ہو جاتی بلکہ ضرورت سے ایسی ضرورت مراد ہے جو محظور و ممنوع سے بڑھی ہوئی ہو چنانچہ علامہ ”تاج الدین سبکی ‘‘ نے اس کی صراحت کی ہے:
الضروراتُ تُبِیْحُ المحظورات بشرطِ عدمِ نُقْصَانِھا عنھا
ضروریات ممنوعات کی اجازت دیتی ہیں بشرطیکہ اس سے کوئی نقصان واقع نہ ہوتا ہو۔1
اور مذکورہ بحث سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ تبدیلیِ جنس کے ذریعے تخلیقِ الٰہی کے ساتھ کھلواڑ کرنا اور دوسری جنس سے مشابہت اختیار کرنا یہ ایسے بڑے گناہ ہیں جن پر قرآن و حدیث میں لعنت کی گئی ہے لہٰذا اس عمل کے جواز کے لیے اس قاعدہ کو جاری کرنا صحیح نہیں ہے۔
نیز جیسے یہ قاعدہ ہے ” الضرورات تبیح المحظورات “ تو دوسری طرف یہ بھی قاعدہ ہے:
الضررُ لا یزال بالضّرر
یعنی ایک ضرر کو ختم کرنے میں اگر دوسرا ضرر ہو رہا ہے تو اب اس ضرر کو ختم نہیں کیا جائے گا۔2
اور تبدیلیِ جنس کے ذریعہ انسانی شعور و اِحساس اور اندرونی میلان کی وجہ سے ظاہر ہونے والے نقصان کی بظاہر تلافی کی جاتی ہے مگر اِس کی وجہ سے دیگر کیا کیا خرابیاں و نقصانات پیدا ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ خود انسان کی ذات تک یہ نقصان محدود نہیں رہتا کہ زندگی بھر وہ اپنی صحت و تندرستی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے بلکہ پورے معاشرے پر اس کے نقصانات ظاہر ہوتے ہیں۔
تیسری دلیل: تبدیلیِ جنس یہ تَشَبُّہ بالجنس الآخر میں داخل نہیں کیوںکہ اس میں تَشَبُّہ سے مراد لباس، زینت، بات چیت، چال ڈھال میں مشابہت اختیار کرنا ہے۔
دلیل کا رد: یہ دلیل بھی چند وجوہ کے باعث باطل ہے۔ یہ دعوی کرنا کہ ”تشبّہ بالجنس الآخر“ کی حرمت کا تعلق لباس، زینت، چال ڈھال، بات چیت میں مشابہت سے ہے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے کیوںکہ فقہاءِ کرام نے صراحت کی ہے کہ ”تشبّہ“ سے مراد ایک جنس کا دوسری جنس سے ایسی چیز میں مشابہت اختیار کرنا ہے جو اس جنس کے ساتھ خاص ہو۔ جیسا كہ علامہ ابن حجر الهیتمی رحمہ اللہ نے فرمایا:
تَشَبُّهُ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ فِيمَا يَخْتَصِصْنَ بِهِ عُرْفًا
نیز مرد کی قبر کو دفن کے وقت چھپانے کی ممانعت صراحتاً عورتوں کے ساتھ مشابہت ہی کی وجہ سے ہے۔3
اس سے معلوم ہوا کہ مشابہت کا انحصار مذکورہ چار چیزوں میں ہی نہیں بلکہ عورتوں سے مشابہت کی ممانعت مطلق ہے جیسا کہ بخاری کی روایت ہے۔ لہٰذا مذکورہ چار چیزوں کے ساتھ مشابہت کو مقید کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔
چوتھی دلیل: تبدیلیِ جنس یہ تغیر لِخَلقِ اللہ نہیں بلکہ یہ مریض کی حالت کو بدلنا ہے۔
دلیل کا رد : یہ کہنا کہ تبدیلیِ جنس یہ تخلیقِ الٰہی کی تبدیلی نہیں بلکہ مریض کی حالت کو بدلنا ہے انتہائی نا سمجھی کی بات ہے جس کے پاس بھی تھوڑی سی عقل ہوگی وہ سمجھ سکتا ہے کہ جب مرد کی مخصوص چیزوں کی جگہ عورتوں کی مخصوص چیزیں لگا دی جائیں تو یہ یقینا تغیر لخلق اللہ ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے مذکر و موٴنث دونوں کو الگ الگ کچھ کام اور ذمہ داریاں دے رکھی ہیں، مرد کی ذمہ داریاں الگ ہیں اور ِعورت کی الگ۔ اب اگر کوئی مرد سے عورت بنتا ہے یا اس کے برعکس تو یہ بلا شک و تردد تخلیق
الٰہی میں تبدیلی ہے جو حرام و ناجائز ہے۔
پانچویں دلیل: انسان کی جنس صرف ظاہری اعضاء کا نام نہیں بلکہ ظاہر و باطن دونوں کا نام ہے۔
دلیل کا رد: اس دلیل کا حاصل یہ ہے کہ انسان کی جنس کا تعلق صرف ظاہر سے نہیں بلکہ باطن سے بھی ہے یعنی جنس کی تحدید و تعیین ظاہر و باطن دونوں پر موقوف ہے۔ یہ بات بھی شرعاً و عقلاً ممنوع ہے جیسا کہ گذشتہ صفحات میں تفصیل سے بیان کیا جاچکا۔ نیز اگر تسلیم بھی کر لیا جائے کہ جنس کی تعیین احساسات کے ذریعے ہوتی ہے تو کیا یہ صحیح ہے کہ اگر کسی کے دل میں یہ احساس اور خیال آ رہا ہے کہ وہ ”بندر“ یا ”چوہا“ ہے تو اس پر اسی کے احکام لگائے جائیں۔ اسی طرح جس کی ولادت مردہ ہونے کی حالت میں ہوئی یا کوئی بہرہ اور گونگا ہے تو اس کی جنس کے سلسلے میں ہمیں کوئی رائے دینے کا حق نہیں جب تک کہ اس کے احساسات اور طبعی میلان کے ذریعے معلوم نہ ہو جائے کہ وہ مرد ہے یا عورت اور ظاہر ہے کہ یہ نا ممکن ہے۔ الحاصل اگر جنس کی تعیین و تحدید میں شعور و احساس کو معیار بنایا جائے گا تو یہ سب فاسد اور باطل صورتیں لازم آئیں گی۔ نیز نفسیاتی مرض کے علاج کے لیے دوسرے بہت سے جائز طریقے ہیں جن کے ذریعے اس کے صحیح شعور و احساس کو بیدار کیا جا سکتا ہے۔
چھٹی دلیل: شریعت کے مقاصد و علل کی طرف نظر کرتے ہوئے بھی یہ عمل جائز ہونا چاہیے کیوںکہ شریعت میں مریض کو علاج کرانے کی اجازت دی گئی ہے۔
دلیل کا رد: آخر میں اُن کی یہ دلیل کہ جنس تبدیل کرانے والا شخص نفسیاتی مریض ہوتا ہے اور شریعت میں علاج و معالجہ کے حوالے سے وسعت سے کام لیا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ تبدیلیِ جنس یہ نفسیاتی مرض کا علاج ہے یا یہ خود بہت سے امراض و مفاسد کا مجموعہ ہے۔ اس کے بارے میں ما قبل میں تفصیل سے بیان کیا جا چکا اور اگر نفسیاتی مرض کے علاج کے سلسلے میں اِس جیسی فطرت سے متصادم اور دینی و دنیوی مفاسد پر مشتمل صورت کو جائز قرار دے دیا جائے تو ایک زانی بھی نفسیاتی مریض ہوتا ہے اور شرابی بھی نفسیاتی مریض ہوتا ہے۔ ان کے علاج کے لیے زنا اور شراب کو بھی جائز قرار دینا چاہیے؟۔
خلاصہ یہ کہ تبدیلیِ جنس کسی مرض کا علاج، ضرورت، داخلی دباؤ، طبعی میلان نہیں بلکہ فطرتِ الٰہی سے ہٹ کر دوسرے راستے سے اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کا ایک نیا طریقہ ہے جس کا ارتکاب کرنا سراسر گمراہی، حد سے تجاوز اور نقل کے مقابلے میں عقل کو ترجیح دینا ہے۔
ٹرانس جینڈر قانون اسلام مخالف کیوں ہے؟
تقسیمِ الہی پر عدم رضا مندی
اس قانون میں سب سے پہلی خرابی یہ ہے کہ اس قسم کے لوگ اللہ کی تخلیق اور تقسیم پر راضی نہیں ہیں۔ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے جیسے ہمیں بنایا وہ ہمارے لیے بہتر نہیں جبکہ ہمیں ایسے نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ گویا ایسے لوگ اپنے بارے میں اللہ کے کیے گئے فیصلے پر راضی نہ ہونے کی وجہ سے جنس مخالف کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے بارے میں فرمایا تھا :
الَّذِي خَلَقَكَ فَسَوَّاكَ فَعَدَلَكَ فِي أَيِّ صُورَةٍ مَّا شَاءَ رَكَّبَكَ
الانفطار – 7/8
جس نے تجھے پیدا کیا، پھر درست کیا پھر متوازن بنایا (اور) جس صورت میں بھی اس نے چاہا تمہیں جوڑ جاڑ کر تیار کردیا۔
یعنی اس نے تجھے رحمِ مادر میں حقیر نطفہ سے پیدا کیا جبکہ اس سے پہلے تیرا وجود نہیں تھا اور تجھے كامل انسان بنایا تو سنتا ہے دیكھتا ہے اور عقل و فہم ركھتا ہے۔ تجھے معتدل گھڑا اور حسین صورت والا بنایا۔ تیری دونوں آنكھیں دونوں كانوں، دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں كو برابر بنایا۔ اگر تیرے اعضاء میں یہ برابری اور مناسبت نہ ہوتی تو تیرے وجود میں حسن كی بجائے بے ڈھب پن ہو جاتا۔ اسی تخلیق كو قرآنِ كریم میں احسن تقویم سے تعبیر فرمایا:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
التین – 4
یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔
انسان کی دوسرے جانداروں پر فضیلت یہ ہے کہ اولو العزم انبیاء کے مساکن کی قسم اللہ تعالیٰ نے اس بات پر کھائی ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بہترین ساخت پر پیدا فرمایا ہے۔ اسے سیدھا اور استوار جسم دیا گیا ہے جو اور کسی مخلوق کو نہیں دیا گیا۔ پھر اسے فکر و فہم، علم و عقل، قیاس و استنباط اور علت و معلول سے نتائج اخذ کرنے کی جو قوتیں اور صلاحیتیں دی گئی ہیں وہ اور کسی مخلوق کو نہیں دی گئیں۔ آدم علیہ السلام کو مسجودِ ملائکہ بنایا گیا۔ زمین اور اس میں موجود اشیاء کو اس کے لیے مسخر کردیا گیا۔ انبیاء علیہم السلام اسی نوع سے مبعوث ہوئے جو اللہ کے ہاں افضلُ الخلائق ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی مرضی سے مرد یا عورت یا مرد بنایا مگر یہ اللہ کی مرضی کے خلاف اپنی مرضی کے مطابق اپنی جنس تبدیل کروانے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اسے اللہ کی تقسیم پسند نہیں۔
جنسِ مخالف سے مشابہت :
یہ قانون اس لیے بھی جائز نہیں کیونکہ اس میں مرد کی عورتوں یا عورت کی مردوں سے مشابہت اور ان جیسے بننے کی کوشش کرنا ہے۔ جبکہ یہ شریعت میں حرام ہے۔ اس کے چند ایک دلائل پیش خدمت ہیں۔
بناوٹی مخنث بننے والوں پر لعنت :
لَعَنَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ المُخَنَّثِينَ مِنَ الرِّجَالِ، والمُتَرَجِّلَاتِ مِنَ النِّسَاءِ، وقَالَ: أخْرِجُوهُمْ مِن بُيُوتِكُمْ قَالَ: فأخْرَجَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فُلَانًا، وأَخْرَجَ عُمَرُ فُلَانًا.
صحیح البخاری – 5886
رسول اللہ ﷺ نے مخنث مردوں پر اور مردوں کی چال چلن اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی اور فرمایا کہ ان زنانہ بننے والے مردوں کو اپنے گھروں سے باہر نکال دو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فلاں ہیجڑے کو نکالا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے فلاں ہیجڑے کو نکالا تھا۔
چال چلن میں مشابہت اختیار كرنے والواں پر لعنت :
لَعَنَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ المُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بالنِّسَاءِ، والمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بالرِّجَالِ
صحیح البخاری – 5885
رسول اللہ ﷺ نے ان مردوں پر لعنت بھیجی جو عورتوں جیسا چال چلن اختیار کریں اور ان عورتوں پر لعنت بھیجی جو مردوں جیسا چال چلن اختیار کریں۔
لباس میں مشابہت اختیار کرنے والوں پر لعنت :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عن أبي هريرةَ قالَ: لعنَ رسولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الرَّجلَ يلبسُ لبسةَ المرأةِ والمرأةَ تلبسُ لبسةَ الرَّجل.
صحیح ابی داؤد – 4098
اللہ کے رسول ﷺ نے لعنت کی ہے ایسے مرد پر جو عرت جیسا لباس پہنے اور ایسی عورت پر جو مرد جیسا لباس پہنے۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ ایسے شخص پر لعنت کرے جس نے چوپائے سے بد فعلی کی اور اللہ ایسے شخص پرلعنت کرے جس نے قومِ لوط والا فعل کیا۔
لَعَنَ اللهُ الواشِماتِ والمُسْتَوْشِماتِ، والمُتَنَمِّصاتِ، والمُتَفَلِّجاتِ لِلْحُسْنِ، المُغَيِّراتِ خَلْقَ اللَّهِ ما لي لا ألْعَنُ مَن لَعَنَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، وهو في كِتابِ اللهِ.
صحیح البخاری – 5948
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گودنے والیوں پر اور گدوانے والیوں پر، بال اکھاڑنے والیوں پر اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کرنے والیوں پر جو اللہ کی پیدائش میں تبدیلی کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے پھر میں بھی کیوں نہ ان پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اور وہ کتاب اللہ میں بھی موجود ہے۔
جسم کا مُثلہ :
تبدیلیِ جنس جسم کا مُثلہ کرنا ہے جو حرام ہے۔
نَهَى النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ عَنِ النُّهْبَى والمُثْلَةِ.
صحیح البخاری – 2474
نبی کریم ﷺ نے لوٹ مار کرنے اور مثلہ کرنے سے منع فرمایا ہے۔
پس اگر ناک اور کان کاٹنا مثلہ ہے تو پھرعورت کے پستان اور مرد کا آلہ تناسل اور خصیہ کاٹنا بالاولی مثلہ میں شمار ہوگا۔
نسلِ انسانی کو ختم کرنے کا خطرناک ذریعہ:
تبدیلی جنس زمین پر فساد برپا کرنے اور نسل انسانی کو ختم کرنے کا خطرناک ذریعہ ہے جو قطعاً حرام ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ
البقرۃ – 2505
اور جب واپس جاتا ہے تو زمین میں دوڑ دھوپ کرتا ہے، تاکہ اس میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو برباد کرے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔
یہ قانون انسانیت کے لئے اجتماعی خود کشی کے مترادف ہے۔ ایک مرد جو اپنی صنفی شناخت بطور عورت کروا کر ٹرانس عورت بن چکا ہے، اور اس بنیاد پر کسی دوسرے حقیقی مرد سے شادی رچا چکا ہے، کیا یہ دونوں نسل انسانی کی افزائش اور نشو و نما بھی کرسکیں گے؟ اس لحاظ سے یہ ایکٹ خود انسانیت کی بقا کے لئے زہر قاتل ہے۔
تخلیقِ الہی میں تبدیلی :
وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا
النساء – 119
اور میں انہیں گمراہ کرکے چھوڑوں گا، انہیں آرزوئیں دلاؤں گا اور انہیں حکم دوں گا کہ وہ چوپایوں کے کان پھاڑ ڈالیں اور انہیں یہ بھی حکم دوں گا کہ وہ اللہ کی پیدا کردہ صورت میں تبدیلی کر ڈالیں۔ اور جس شخص نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا اس نے صریح نقصان اٹھایا۔
تخلیقِ الہی میں تبدیلی کیسے؟
تخلیق الہی میں تبدیلی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان کی شکل و صورت تبدیل کریں گے اور ان کے حلال و حرام ہونے کے احکام بھی بدل دیں گے۔ اس میں رہبانیت (دنیا میں اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرکے جنگل میں جا رہنا)، قومِ لوط کا عمل، مردوں کا خصی ہو کر ہیجڑا بن جانا، عورتوں کو بانجھ بنانا، برتھ کنٹرول کے نام پر مردوں کی نس بندی اور عورتوں کے آپریشن کر کے بچے پیدا ہونے میں رکاوٹیں ڈالنا، عورتوں کو گھروں سے نکال کر ان کے فطری فرائض سے سبکدوش کر کے مردوں کی صف میں کھڑا کر دینا، عورتوں کو مملکت کی سربراہ بنا دینا، خوب صورتی کے لیے ابروؤں کے بال اکھاڑنا، جلد میں نیل وغیرہ بھر کر نقش و نگار بنانا، دانت باریک کروانا، سر پر مصنوعی بال لگوانا، مردوں کا داڑھی منڈوانا، عورتوں کا لباس کم از کم کر کے انھیں ننگا کرنے کی کوشش کرنا، یہ سب شیطانی کام ہیں اور اللہ تعالیٰ کی لعنت کا موجب ہیں۔ چنانچہ جو لوگ اپنی جنس تبدیل کرواتے ہیں وہ در حقیقت اللہ تعالی کی تخلیق کو بدلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں جو سراسر شیطان کا پسندیدہ عمل ہے۔
تقسیمِ وراثت میں ظلم :
ہمارے دین میں قرآن مجید کی تصریحات کے مطابق وراثت میں بیٹوں کا حصہ دوگنا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
يُوصِيكُمُ اللهُ فِي أَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ
النساء – 11
اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔
اس ایکٹ کے مطابق چونکہ ہر مرد عورت کو سیلف پرسیوڈ آئڈنٹٹی(self perceived identity) کا حق دے دیا گیا ہے. لہذا بہت ساری حقیقی خواتین اپنے آپ کو مرد ڈکلئیر کروا کر مالی کرپشن کا راستہ اختیار کریں گے۔ اور یوں اسلام کے قانون وراثت کا مذاق اڑایا جائے گا۔ اس قانون سے نہ صرف یہ کہ احکام الہی پامال ہوں گے بلکہ خاندانی تنازعات بھی جنم لیں گے اور معاشرہ مزید انتشار کی طرف بڑھے گا۔
لواطت کا گناہ :
ٹرانس جینڈر قانون کی ایک خرابی یہ ہے کہ کوئی بھی مرد اپنے آپ کو عورت بنا کر کسی مرد سے شادی کر لے اور وہ اس سے لواطت کا گناہ کرتا رہے۔ لواطت ایک ایسا گناہ ہے جس کے باعث اللہ تعالیٰ کا عذاب واقع ہوتا ہے۔ اس گناہ کی سنگینی کا اندازہ درج ذیل احادیث سے ہوتا ہے۔
ملعون عمل ::
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لعن اللهُ من وقع على بهيمةٍ لعن اللهُ من عَمَلَ عَمَلَ قومِ لوطٍ لعن اللهُ من عَمَلَ عَمَلَ قومِ لوطٍ ثلاثًا4
لواطت کرنے اور کروانے والے دونوں کو قتل کر دیا جائے :
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن وجدتُموهُ يعملُ عَملَ قومِ لوطٍ ، فاقتُلوا الفاعِلَ ، والمَفعولَ بِهِ5
تم جسےقوم لوط والا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دیں۔
عذاب ِالہی کا سبب
قومِ لوط اس مذموم و شیطانی حرکت کا ارتکاب کرتی تھی ،چنانچہ اللہ نے اپنے نبی لوط علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف نبی بنا کر بھیجتے ہوئے ان کے قوم کے فواحش اور منکرات کی اصلاح کا حکم دیا ۔اللہ کا ارشاد ہے :
وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُم بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِّنَ الْعَالَمِينَ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِّن دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَ
الاعراف – 80/81
اور لوط نے جب اپنی قوم سے کہا : تم بے حیائی کا وہ کام کرتے ہو جو تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے بھی نہیں کیا تھا۔ تم شہوت رانی کے لئے عورتوں کو چھوڑ کر مردوں کے پاس آتے ہو۔ تم تو حد سے بڑھے ہوئے لوگ ہو۔
جو لوگ فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے اس مذموم و شیطانی حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں وہ شریعت کی نظر میں ملعون ہیں ۔اسلام کی نظر میں لواطت ایک بہت ہی بڑا گناہ ہے۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں گنا ہوں میں سے صرف شرک، زنا، اور لواطت کو نجس اور خبیث سے تعبیر کیا ہے۔ ایک دوسری جگہ لکھا ہے کہ زنا اور لواطت کی نجاست دوسری نجاستوں سے بڑھ کر ہے۔عورتوں کے “دبر”میں خواہش پوری کرنا بھی لواطت کی ایک قسم ہے اور یہ فعل تمام علماء کے نزیک حرام ہے۔
قومِ لوط کا انجام:
یہ ایسا قبیح فعل اور گھناؤنی حرکت ہے جس کی وجہ سے ایسے افراد اور بستیوں پر فرشتوں کی لعنت اور اللہ تعالیٰ کا قہر نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ اس سے پہلی امتوں کو جو اس فعلِ شنیع میں مبتلا تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے پتھروں کی بارش کے ذریعہ ہلاک کر دیا اور ان کے اس خبیث اور سیاہ کرتوتوں کو اپنے صحیفوں اور کتابوں میں ہمیشہ کیلئے محفوظ کر کے دنیائے انسانیت کو متنبہ کیا اور ایسے عادات و اطوار سے بچنے کی سخت تلقین کی۔ چنانچہ اللہ کا فرمان ہے:
فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِيَهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهَا حِجَارَةً مِّن سِجِّيلٍ مَّنضُودٍ مُّسَوَّمَةً عِندَ رَبِّكَ وَمَا هِيَ مِنَ الظَّالِمِينَ بِبَعِيدٍ
ھود – 82/83
پس جب ہمارا عذاب آ گیا تو ہم نے اس بستی کا اوپری حصہ یچے کردیا، اور اس پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے کنکریلے پتھر کی بارش کر دی۔ جو تیرے پروردگار کے ہاں سے نشان زد تھے اور یہ (خطہ ان) ظالموں سے کچھ دور بھی نہیں۔
یعنی جو لوگ بھی ظلم کی روش پر چلیں گے مثلاً مغربی اقوام اور ان کے پرستار جو دھڑلے سے اس فعلِ بد کا ارتکاب اور اس کی اشاعت کر رہے ہیں۔ ان پر بھی یہ عذاب آنا کچھ دور نہیں یا ان ظالموں (یعنی رسول اللہ ﷺ کے زمانے کے کافروں) پر بھی نزولِ عذاب بعید از قیاس نہیں۔ اگر قومِ لوط پر عذاب آسکتا ہے تو ان پر بھی آسکتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ الٹی ہوئی بستیاں ان مکہ کے ظالموں سے کچھ دور نہیں بلکہ ملک شام کو جاتے ہوئے دائمی آباد راستے میں ہیں جن کی بے مثال بربادی یہ لوگ صبح و شام آتے جاتے دیکھتے ہیں۔
ذمہ داریوں سے راہِ فرار
اللہ تعالیٰ نے مرد و عورت کی تقسیم صرف ظاہری جسامت اور محض فزیکل وجود کی خاطر ہی نہیں رکھی بلکہ ایک عظیم حکمت اور خدمت انسانیت کے بڑے اہداف بھی ان دونوں اصناف کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ایک مرد بطورِ باپ اپنا رول ادا کرتا ہے اور عورت بطورِ ماں اپنا سب کچھ اولاد پر نچھاور کرتی ہے۔
اسی تناظر میں درج ذیل حدیث مبارکہ پر غور کیجیے۔ جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، فَالْإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ، وَالْمَرْأَةُ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا رَاعِيَةٌ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا ، وَالْخَادِمُ فِي مَالِ سَيِّدِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ
صحیح البخاری – 839
تم میں سے ہر فرد ایک طرح کا ذمہ دار ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا۔ پس بادشاہ حاکم ہی ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہو گا۔ ہر انسان اپنے گھر کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہو گا۔
عورت جب صنف نازک ہونے کے باوجود ٹرانس مین بنتی ہے تو در حقیقت وہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی راہ اختیار کرتی ہے۔ یہی حال مردكی جنس تبدیل کرکے عورت بننے والے ٹرانس وومن کا ہے۔
ایسے ٹرانس جینڈر افراد جو اپنے فرائض سے راہِ فرار اختیار کر کے لعنت کے مستحق ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ معاشرے کے مجرم اور غدار ہوتے ہیں۔ اسلامی معاشرے میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے ایسے افراد کو معاشرے میں بود و باش کے لائق نہیں سمجھا اور آپ ﷺ نے اس طرز عمل کے حامل افراد کو گھروں سے باہر نکالنے کا حکم دیا۔
جنت سے محرومی :
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ثلاثةٌ لا يدخلون الجنَّةَ : العاقُّ لوالدَيه ، والدَّيُّوثُ ، ورَجِلَةُ النِّساءِ
صحیح الترغیب – 2070
تین قسم كے لوگ جنت میں داخل نهیں هو ں گے : والدین كی نافرمانی كرنے والا : دیوث اور مرد نُما عورت۔
نا قابلِ علاج مرض کا پھیلاؤ :
ایڈز عصر حاضر کا ایک ناقابل علاج مرض ہے جو بے قید جنسی اختلاط کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے بلکہ وہ متعدی بھی ہے ،مغرب میں فواخش اور عریانیت کے نتیجہ میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ وہ عالمگیر مرض ہے جس سے دنیا کا کوئی خطہ، کوئی ملک محفوظ نہیں ہے، کروڑوں افراد اس اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں اور آئے دن اس مرض کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب تک لاکھوں افراد اس مرض میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں اور جو زندہ ہیں وہ انتہائی کرب کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ میڈیکل سائنس اور طب کے دیگر شعبوں میں تمام تر ترقی کے باوجود ابھی تک اس مرض کا کوئی موثرعلاج دریافت نہیں ہو سکا۔ اللہ تعالی سب مسلمانوں کواس حرام کاری سے محفوظ رکھے۔
ہم جنس پرستی کا بنیادی سبب:
طبی ماہرین ہم جنس پرستی کو خالصتاً نفسیاتی معاملہ قرار دیتے ہیں اور ہم جنس پرستوں کی طرف سے دیے جانے والے فطرت سے متعلقہ جوازوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور بتاتے ہیں کہ ہم جنس خواتین وحضرات اگرچہ کتنے ہی تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں لیکن اس معاملے میں وہ نفسیاتی مریض کی حیثیت رکھتے ہیں۔
مغربی ممالک میں ہم جنس پرستی کے نقصانات
ہم جنس پرستی جس طرح انسان کی روحانی زندگی کے لیے زہرِ قاتل ہے، اسی طرح انسان کی جسمانی صحت و افزائش کے لیے بھی انتہائی نقصان دہ اور خطرناک ہے۔ جدید طبی تحقیقات کے مطابق (Aids) ایڈز ایک ایسی بیماری ہے جو اس بد چلنی کی وجہ سے پھیلتی ہے ۔یہ ہمارے جسم کے دفاعی نظام کو اس حد تک کمزور کر دیتی کہ وہ مفلوج ہو جاتا ہے۔ اس بیماری نے حال ہی میں ان تمام ممالک میں تہلکہ مچادیا ہے جن میں ہم جنس پرستی اور فحاشی کو برا نہیں جاناجاتا ہے۔یہ ایک متعدی مرض ہے ،جو ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہوتا ہے اور اس بیماری کے وائرس کو ((LAY) Human lymphadenopathy virus) ہیومن لمپیتھیوڈنامپٹی کہاجاتاہے۔
اس بیماری کو اس وقت تک کنٹرول نہیں کیا جا سکتا جب تک اس فعل بد اور فحاشی کو ختم نہ کیا جائے۔ لیکن افسوس صد افسوس اس برے عمل کو ختم کرنے کی بجائے مختلف NGOs کی طرف سے(safe sex)کے نام پر اس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کو ختم کرنے کے لیے انواع و اقسام کے پمفلٹ تقسیم کیے جاتے ہیں اور مختلف ادویات متعارف کروائی جاتی ہیں تاکہ یہ عمل زیادہ ’’اچھے‘‘ اور ’’مطمئن‘‘ انداز میں فروغ پا سکے۔
نیشنل ایڈز ٹرسٹ کی طرف سے سامنے لائے گئے حقائق کے مطابق یورپی ملک برطانیہ میں تقریباً ایک لاکھ دس ہزار افراد ایچ آئی وی کے مہلک وائرس کا شکار ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی میں اس تعداد میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ایچ آئی وی کے شکار ہر چار میں سے ایک شخص میں اس مرض کی تشخیص نہیں ہوئی ہے اور اسے اس مرض کا شکار ہونے کا علم ہی نہیں ہے۔ برطانیہ میں 2013 میں محض چھ ہزار افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہوئی۔ ان میں سے نصف تعداد ’’ہم جنس پرست‘‘ مردوں کی تھی۔
جبکہ (dw.com) کے مطابق یورپی ممالک میں ہم جنس پرستی اور دیگر جنسی خباثتوں کے باعث ایک اور خوفناک جنسی بیماری سیفلس (Syphilis) تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یورپین سنٹر فار ڈیزیز پروینشن اینڈ کنٹرول کی طرف سے جاری كرده ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2007 سے 2017ء کے دوران یورپی ممالک میں سیفلس کے 2لاکھ 60 ہزار مریض سامنے آئے ہیں۔ 2010ء میں 5ہزار لوگ اس مرض کا شکار ہوئے تھے جبکہ 2017ء میں 33ہزار189 لوگوں کو یہ مرض لاحق ہوا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ مرض کسی تیزی سے یورپی ممالک میں پھیل رہا ہے۔
شاید دنیا اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مختلف قسم کی ادویات کے ذریعے سے ہم جنس پرستی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو کنٹرول کرکے اس فعلِ قبیح کی قباحت وشناعت کو ختم کیا جا سکتا ہے لیکن ایسا ہونا ممکن نہیں۔ ایں خیال است ومحال است وجنوں۔ ( safe sex) کی اس مہم کے ذریعے سے نہ ہم جنس پرستی کی شناعت کم ہو گی ،اور نہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل میں کوئی کمی ہی آئے گی۔ کیونکہ جب تک بیماریوں کی جڑ یعنی ہم جنس پرستی اور فحاشی اور عریانی کو معاشرے سے نہیں اکھاڑ پھینکا جائے گا اس وقت تک بیماریاں ظاہر ہوتی رہیں گی۔ اس ضمن میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ملاحظہ فرمائیں:
لم تَظْهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قَطُّ ؛ حتى يُعْلِنُوا بها ؛ إلا فَشَا فيهِمُ الطاعونُ والأوجاعُ التي لم تَكُنْ مَضَتْ في أسلافِهِم الذين مَضَوْا6
جب کسی قوم میں فحاشی اور عریانی ظاہر ہو جائے اور وہ اس کو اعلانیہ کرنے لگے تو ان میں طاعون کی بیماری پھیل جائے گی اور ایسی ایسی بیماریاں پیدا ہوں گی جو ان کے آباؤ اجداد میں نہ تھیں۔ ‘‘
درج بالا حدیث میں نت نئی بیماریوں کا بنیادی سبب فحاشی اور عریانی کو قرار دیا گیا ہے۔ کاش! ہمارے ارباب اقتدارکو بھی یہ بات سمجھ میں آجائے کہ نت نئی بیماریوں کو صرف ہسپتالوں، جدید میڈیکل انسٹی ٹیوٹس یا میڈیکل ٹریننگ سنٹرز کے قیام کے ذریعے سے ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ عریانی و فحاشی جیسے بنیادی اسباب کے خاتمہ کی کوئی سنجیدہ کوشش نہ کی جائے۔
پاکستان میں ہم جنس پرستی کا بڑھتا ہوا رجحان
پاکستان پر بدترین مغربی ثقافتی جارحیت کا آغاز ہوچکا ہے۔ چنانچہ 2018 میں پاکستان کی تمام لبرل سیاسی پارٹیوں نے اپنے تمام سیاسی اختلافات بھلا کر ’’خواجہ سرا‘‘ کے حقوق کے نام پر ایک بل پیش کیا۔بل پیش کرنے والوں نے خواجہ سراؤں کے حقوق کا سہارا لیکر ایسی مکاری اور ہوشیاری سے اس قانون کا مسودہ تیار کیا کہ اس میں ہم جنس پرستوں کے لیے قانونی تحفظ کا ایک خفیہ دروازہ رکھ دیا گیا۔ اور ہم جنس پرستی کو باقاعدہ قانونی تحفط فراہم کر دیا گیا۔ اس طرح دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ہم جنس پرستی کے رجحانات عام ہونے لگے ہیں۔
گزشتہ تین برسوں کے اعداد و شمار
یہ کوئی خدشہ یا خیالی بات نہیں ہے بلکہ پاکستانی سینیٹ کو مہیا کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2018 سے لیکر جون 2021 تک گزشتہ تین سالوں میں 28,723 افراد نے اپنی میلان طبع اور اندرونی طور پر محسوس کیے گئے احساسات اور جذبات کی بنیاد پر خود کو اپنی اس جنس سے علیحدہ شناخت کیلئے درخواست دی ہے جو انہیں پیدائشی طور پر الاٹ کی گئی تھی لیکن اب انہوں نے اپنی جنس شناختی کاغذات میں تبدیل کروا لیے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق جنس تبدیل کروانے والوں میں سب سے زیادہ مرد ہیں اورگزشتہ تین سالوں کے دوران ملک میں 16,530 یعنی 16,530 ایسے مرد تھے جنہوں نے اپنے آپ کو عورت رجسٹر کروا لیا۔ جبکہ 12,154 ایسی عورتیں ہیں جنہیں پیدائش كے وقت لڑکی بتایا گیا تھا مگر وہ اب خود کو مرد کہلوانا اور قانونی طور پر مرد بننا پسند کرتی ہیں ۔ یہی نہیں گزشتہ تین سال کے دوران 21 واقعات ایسے بھی تھے، جن میں ٹرانس جینڈر افراد تبدیلی جنس کے بعد مرد بن گئے جبکہ صرف نو واقعات میں ٹرانس جینڈر افراد کی جنس بدل کر انہیں عورتیں بنا دیا گیا۔
حكومتِ وقت سے مطالبہ
- حکومت وقت سے پرزور مطالبہ ہے کہ اس قانون میں ٹرانس جینڈر کی تعریف نمبر 2 اور تعریف نمبر 3 جس میں مکمل مرد اور عورت کو ٹرانس جینڈر قرار دیا گیا ہے وہ ختم کیا جائے۔
- کسی بھی شہری کی آپریشن کے ذریعے تبدیلی جنس سے پہلے اس کی درخواست کا جائزہ لینے کے لیے ضلعی سطح پر ایسے میڈیکل بورڈ بنائے جانا چاہئیں، جو کئی ارکان پر مشتمل ہوں۔
- ایسے بورڈز میں ایک ڈاکٹر، ایک ماہر نفسیات، ایک مرد سرجن، ایک خاتون سرجن اور کوئی نہ کوئی چیف میڈیکل افسر بھی شامل ہونا چاہیے تاکہ یہ اجازت دینے میں کسی غلطی کا احتمال نہ رہے کہ آیا کسی فرد کو اپنی جنس تبدیل کرانے کی اجازت ملنا چاہیے۔
- خنسی رائٹس پروٹیکشن یا اس طرح کے کسی واضح نام سے ان کے حق میں ایکٹ لایا جائے۔ جس میں انہیں جائز حقوقِ دیے جائیں۔ ان کے والدین کو کسی ضابطہ اخلاق کا پابند بنایا جائے۔ ان کے لیے ہماری شریعت میں پہلے سے ہی بہت ساری تفصیلات موجود ہیں، ان کے مطابق انہیں باعزت طور پر جینے کا حق دیا جائے۔
- ہمارے معاشرے میں خواجہ سراؤں کی ایک اپنی دنیا آباد ہے۔ ان کا ایک پورا مافیا ہے، نئے بھرتی ہونے والے ٹین ایجرز کو پرانے خواجہ سرا، گُرو، جب جہاں چاہتے ہیں بیچ ڈالتے ہیں، اور انسانیت کی تذلیل کرتے ہیں، اس مکروہ دھندے کے خلاف مؤثر ایکٹ لایا جائے۔
- بعض خواجہ سراؤں کے گرو، کم عمر مردانہ صفات رکھنے والے بچوں کو ورغلا کر یا نشہ دے کر اُن کے مردانہ اعضاء کو کاٹ ڈالتے ہیں، ان خبثاء کا احتساب کیا جائے۔
- جو بھی پیدائشی طور پر خُنثی ہیں، انہیں سپیشل بچوں کی طرح ڈیل کرتے ہوئے ہر جائز سہولت فراہم کی جائے، اور جو مکمل مرد و عورت اپنی مرضی اور خواہش پرستی کے تحت ٹرانس جینڈر بنے ہوئے ہیں، ان کاجسم فروشی کا دھندا بند کیا جائے اور شرعی سزائیں ان پر نافذ کی جائیں۔
- خواجہ سراؤں کے لیے انڈسٹریل زون بنائےجائیں جہاں خواجہ سرا کام کریں اور ان کی اسی زون میں کالونی، تعلیمی ادارے اور علاج گاہیں وغیرہ ہوں تاکہ انہیں معاشرے کا مفید اور کارآمد شہری بنایا جا سکے۔
ہماری ذمہ داری
ہر ذی شعور مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے دائرہ کار میں انفرادی و اجتماعی سطح پر ہم جنس پرستی کے نقصانات کو اجاگر کرکے اس کے خلاف بھر پور کردار ادا کریں۔اس سلسلے میں درج ذیل اقدامات کیے جا سکتے ہیں :
- قومی اخبارات، رسائل وجرائد،خصوصاً مذہبی رسائل ہم جنس پرستی کے متعلق آسمانی تعلیمات سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قلم کی قوت عطافرمائی ہے، وہ اس نعمت کا شکریہ اداکرتے ہوئے اس کے ذریعے سے ہم جنس پرستی کے خلاف بھرپور آواز بلند کریں۔
- وارثان منبر ومحراب اپنے دروس، جمعۃ المبار ک کے خطبات اور نجی محافل میں عامۃ الناس کو ہم جنس پرستی کے تصور،اس کے آغاز ،اس کے نقصانات اور اس کے نتیجے میں قومِ لوط کی تباہی وبربادی کے متعلق آگاہ کریں اور انہیں اخلاقی طور پر آمادہ کریں کہ وہ اپنے نو نہالوں کو جو کہ ان کا بھی اور پاکستان کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کا بھی مستقبل ہیں، بلیرڈ گیمز کی دوکانوں ، ویڈیو گیمز کے مراکز، سنوکر کلبز ، تھیٹرز ، منی سینماز اور دیگر ایسے مقامات میں جانے سے روکیں جہاں ہر طبقے ، ہر عمر اور ہر مزاج و فطرت کے لوگ جمع ہو کر مختلف قسم کی گیمز کھیلتے ہیں۔
- تعلیمی درس گاہیں، خواہ وہ دینی ہوں یا عصری اس ضمن میں طلبہ کی فکری تربیت کرتے ہوئے انھیں ہم جنس پرستی کی حقیقت اور اس کے دینی و دنیاوی نقصانات سے روشناس کرائیں ۔ یہ بات یقینی ہے کہ مختلف NGOs کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے مقابلے میں تعلیمی اداروں کی تھوڑی سی کاوش بھی بہترین نتائج کا باعث بنے گی۔
- جدوجہد کا ایک دائرہ کار یہ بھی ہے کہ حضرت لوط کی قوم کی تباہی کا مکمل قرآنی واقعہ، اس برائی کی مذمت میں مذکور احادیثِ نبویہ اس برائی کے روحانی اور طبی نقصانات کو کتابچے کی صورت میں شائع کروا کر عامۃ الناس میں تقسیم کرنے کا اہتمام کیا جائے ۔
ہم جنسی تعلق قطعاً ایک غیر فطری تعلق ہے۔ یہ تعلق اگر فروغ پائے گا تو سماج کی جڑ کاٹ کر رکھ دے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ہاں درست شعور کو عام کریں اور لوگوں کو صحیح پس منظرمیں دین کی تعلیم پہنچائیں۔
تمام علمائے کرام ، اسلامی تنظیمیں اور مختلف تعلیمی اداروں کے ذمہ دارن اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسلام اور آئینِ پاکستان سے متصادم اس قانون کے خلاف ہر ممکن جد وجہد کریں۔
اس حوالے سے مستند مواد زیادہ سے زیادہ نشر اور شیئر کریں۔
علمائے کرام عوام کی ذہن سازی کریں۔ تاکہ یہ سازش کامیاب نہ ہوسکے۔
لکھاری حضرات اپنی تحریروں سے ، خطیب حضرات اپنے خطبوں کے ذریعے اور با اثر افراد اپنے تعلقات کے ذریعہ اس قانون کے خلاف آواز بلند کریں۔
ہر شخص اپنی بساط کے کے مطابق سوشل میڈیا پر اس قانون کے خلاف آواز اٹھائے۔
سب مل کر اللہ تعالیٰ سے خوب دعا کریں کہ یہ قانون پاکستان میں نافذ العمل نہ رہے کیونکہ یہ صرف میرا یا آپ کا مسئلہ نہیں بلكہ دینِ اسلام کا مسئلہ ہے۔ ہماری آنے والی نسلوں کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے مستقبل کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم نے اس قانون کے خلاف آواز بلند نہ کی اور یہ قانون نافذ العمل رہا تو یاد رکھیئے كہ کہیں اللہ ہم پر ہی پتھروں کی بارش برسا کر ہمیں صفحۂِ ہستی سے ہی نہ مٹا دے۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آله وصحبه وأهل بیته أجمعین
- (الأشباہ والنظائر، تاج الدين عبد الوهاب بن علي بن عبد الكافي السبكي :1/162)
- الأشباہ والنظائر:(1/162)
- الزواجر عن اقتراف الكبائر : (1/256)
- (تخريج المسند لأحمد شاكر : 4/326 بإسناد صحيح )
- (صحيح الترمذي: 1456 ، وتخريج المسند لأحمد شاكر: 4/258 بإسناد صحيح)
- صحیح الجامع – 7978 / وأخرجه ابن ماجه – 4019