نکاح
اللہ رب العالمین جو تمام کائنات کا خاشلق ،مالک اور رازق ہے۔اس نے اس کائنات کو بے مقصد نہیں بنایا بلکہ ایک مقصد کے تحت اس کی تخلیق فرمائی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ
الذاریات:56
یعنی اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیاہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
اس مقصد کے تحت افزائش نسل کا بھی انتظام فرمایا: ارشاد باری تعالیٰ
وَّخَلَقْنٰكُمْ اَزْوَاجًا
سورۃ النباء : 8
یعنی اور تمہیں جوڑےجوڑے پیدا کیا۔
نیز ہر جنس کو اللہ تعالیٰ نے جوڑا جوڑا بنایا ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
الذاریات: 49
یعنی: اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کردیئے شاید تم (ان سے) سبق حاصل کرو۔
چونکہ جن و انس شرعاً مکلف بنائے گئے ہیں، لہذا انہیں افزائش نسل کے لئے نکاح کا پابند کیا گیا یعنی نکاح کا مقصد صرف جنسی تسکین نہیں ہے اسی لئے نکاح کے تعلق سے چند امور کو بہت اہمیت و تفصیل سے بتایا گیاکہ نکاح میں تطہیر نسل ہے اس وجہ سے زنا اور نکاح کے نام پر زنا کی مختلف صورتیں شرعاً حرام قرار دی گئی ارشاد باری تعالیٰ
وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيْلًا
الاسراء:32
یعنی اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ۔ کیونکہ وہ بے حیائی کا کام ہے اور برا راستہ ہے۔اسی طرح نکاح شغار سے بھی منع فرمایا وٹے سٹے کا نکاح جبکہ ان کے نکاح کے درمیان حق مہر بھی نہ ہو۔ نیز نکاح متعہ، نکاح مسیار بھی حرام ہیں۔
حدیث میں ہے کہ نکاح متعہ حرام ہے:
’’ عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن متعة النساء يوم خيبر‘‘
یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے دن متعہ ایگریمنٹ نکاح سے منع فرمایا۔
اس میں تحفظ ہے محترم رشتوں کا اس وجہ سے سورۃ نساء کی آیت
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا
سورۃ النساء 23
یعنی تم پر حرام کی گئیں تمہاری مائیں، تمہاری بیٹیاں، تمہاری بہنیں، تمہاری پھوپھیاں، تمہاری خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کی وہ بیٹیاں جو تمہاری گود میں پرورش پارہی ہوں بشرطیکہ تم اپنی بیویوں سے صحبت کرچکے ہو ۔ اور اگر ابھی تک صحبت نہیں کی، تو ان کو چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں تم پر کوئی گناہ نہیں، اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں بھی (تم پر حرام ہیں) جو تمہاری صلب سے ہوں ۔ نیز یہ کہ تم دو بہنوں کو اپنے نکاح میں جمع کرلو ۔ مگر جو پہلے گزر چکا سو گزر چکا۔ (کیونکہ) اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔اور شادی شدہ عورتوں سے بھی نکاح نہ کرو۔ مگر وہ کنیزیں جو تمہارے قبضہ میں آجائیں ۔
ان مذکورہ خواتین سےنکاح حرام قرار دیا گیا اس میں تطہیر عقائد کا بھی لحاظ رکھا گیا: ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ
سورۃ البقرۃ:221
یعنی اور مشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔
نیزسورۂ نساء کی پہلی آیت میں ارشاد باری تعالی ہے:
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا
سورۃ البقرۃ 21
یعنی لوگو! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے (دنیا میں) بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ۔ نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قطع رحمی کے بارے میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بلاشبہ اللہ تم پر ہر وقت نظر رکھے ہوئے ہے۔
آیت کریمہ کے ترجمے سے ہی یہ مفہوم واضح ہوجاتا ہے کہ جنسی تسکین کا مہذب طریقہ میں اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کا جوڑا بنایا اور یوں ہم جنس پرستی کا بھی خاتمہ فرمادیا ۔اب تک کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ نکاح میں شرعاً درج ذیل امور کی رعایت کی گئی ہے :
تطہیر نسل ،محترم رشوں کی عصمت کا تحفظ ،تطہیر عقائد ،نیز ہم جنس پرستی سے بھی روکا گیا ہے۔ ارکان نکاح ،لڑکی اور اس کے ولی کی رضامندی ،گواہوں کا ہونا،حق مہر مقرر کرنا اور لڑکے کا قبول کرنا ان تمام کے دلائل ذیل میں درج کئےجاتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ:
وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا
البقرۃ : 221
یعنی اور مشرک مردوں سے (اپنی عورتوں کا) نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئیں ۔
یہ خطاب ولی کو ہے ،ولی کی اہمیت بتائی جارہی ہے۔
اگر شوہر نے ایک مرتبہ طلاق دے دی اور پھر عدت گزر چکی اب اگر سابقہ زوجین ملنا چاہیں ایسے موقع پر بھی ولی کی اہمیت برقرار رکھی گئی اور اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا:
فَلَا تَعْضُلُوهُنَّ أَن يَنكِحْنَ أَزْوَاجَهُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُم بِالْمَعْرُوفِ
سورۃ البقرۃ :232
یعنی انہیں اپنے (پہلے) خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو جبکہ وہ معروف طریقے سے آپس میں نکاح کرنے پر راضی ہوں ۔
یعنی تم انہیں نہ روکو نکاح سے یہ خطاب عورت کے ولیوں کو ہے جبکہ یہ باہم رضامندہو، تو تم انہیں نکاح سے نہ روکو یعنی تم انہیں نکاح کی اجازت دے دو۔ گواہان کے تعلق سے مسند احمد میں حدیث ہے لا نکاح الا بولی و شاھدی عدل یعنی بغیر ولی کے نکاح نہیں ہوتا اور دو عادل گواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
اور سورۂ نساء میں فرمایا
وَاٰتُوا النِّسَاۗءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةٍ
النساء:4
یعنی نیز عورتوں کو ان کے حق مہر بخوشی ادا کرو ۔
مزید اس حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
أحق الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج
صحیح بخاری2721
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شرطیں سب سے زیادہ پوری کئے جانے کی مستحق ہیں جن کے ذریعہ عورتوں کی شرمگاہوں کو حلال سمجھا گیا۔
اب جب قبول کا مرحلہ آتا ہے ارشاد باری تعالی
فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
سورۃ النساء:03
یعنی عورتوں میں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمہیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمہاری ملکیت کی لونڈی یہ زیادہ قریب ہے (کہ ایسا کرنے سے ناانصافی اور) ایک طرف جھکنے سے بچ جاؤ ۔یعنی تم ان عورتوں سے جو تمہارے لئے حلال ہیں نکاح کرو اس جگہ نکاح کرنے والے کو ولی یا گواہوں کا پابند نہیں کیا گیا۔
مزید ارشاد فرمایا:
أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ
24سورۃ النساء:
یعنی: تمہارے لئے جائز قرار دیا گیا ہے کہ تم اپنے مال کے ذریعے سے تلاش کرو ، بشرطیکہ تمہارا مقصد نکاح میں لانا ہو محض شہوت رانی ہو۔
نکاح کے تعلق سے شریعت ولی کو چند احکامات کاپابند کرتی ہے ۔
کہ وہ بیٹی کی جائز خواہشات کا احترام کریں اسے سمجھنے کی کوشش کریں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے
الأيم أحق بنفسها من وليها والبكر تستأذن في نفسها وإذنها صماتها
سنن ابی داؤد: 2098
یعنی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ثیبہ اپنے نفس کی زیادہ حق دار ہے بنسبت اپنے ولی کے اور باکرہ سے اس کے نفس کے متعلق ( نکاح کی) اجازت لینی چاہیئے اور اس کی خاموشی اس کی اجازت ہے ۔
مذکورہ روایت کے مفہوم سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ نکاح خواہ کنواری لڑکی کا ہو یابیوہ کا ان کی اجازت، ان کا رضامند ہو نا ضروری ہے۔
طلاق:
طلاق کا لغوی معنیٰ جدائیگی ہے جبکہ شرعی اصطلاح میں طلاق کا معنیٰ ہے جب زوجین یہ سمجھے کہ وہ اللہ کی حدود کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو پھر اس کا واحد حل طلاق ہے۔
شوہر نے باری تعالیٰ کے فرامین پر عمل کرتے ہوئے اس سلسلہ میں سورۂ نساء کی آیت
فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ
سورۃ النساء:34
یعنی انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو۔
کے تحت اسے نصیحت کرکے گھر میں رہتے ہوئےاس سے بستر الگ کرکے یاکچھ مار پٹائی سے اسے راستہ پر لانے کی کوشش کی ۔ اب اگرمعاملہ اس سے بھی تجاوز کرجائے پھر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّـهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
سورۃ النساء 35
یعنی اور اگر تمہیں زوجین کے باہمی تعلقات بگڑ جانے کا خدشہ ہو تو ایک ثالث مرد کے خاندان سے اور ایک عورت کے خاندان سے مقرر کر لو ۔ اگر وہ دونوں صلح چاہتے ہوں تو اللہ تعالیٰ ان میں موافقت پیدا کردے گا۔ اللہ تعالیٰ یقینا سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔
یعنی دونوں فریق کی طرف سے بااثر لوگوں نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی لیکن بالآخر معاملہ طلاق پر ہی منتج ہوا۔
شرعاً اگر نباہ کی کوئی صورت نہ ہوتو طلاق کےاستعمال کو آخری حل کے طور پر کیا جاسکتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ:
وَإِن يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّـهُ كُلًّا مِّن سَعَتِهِ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ وَاسِعًا حَكِيمًا
سورۃ النساء:130
یعنی اور اگر میاں بیوی جدا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اپنی وسعت سے ہر ایک کو بے نیاز کر دے گا اللہ تعالیٰ وسعت والا حکمت والا ہے۔
یعنی اگر ان کے درمیان جدائی (طلاق ) واقع ہوچکی ہے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کردےگا۔
طلاق دینے کا شرعی طریقہ :
جہاں تک طلاق دینے کا تعلق ہے،اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ حالت طہر میں طلاق دی جائے ایسا طہر جس میں ازدواجی معاملات نہ ہوئے ہو۔ ایک وقت میں ایک ہی طلاق دی جائے۔اور طلاق دیتے وقت دو آدمیوں کو گواہ بنالیا جائے، اس کی دلیل سورہ طلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ رَبَّكُمْ ۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ ۚ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّـهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِكَ أَمْرًا
سورۃ الطلاق 01
یعنی:اے پیغمبر (مسلمانوں سے کہہ دو کہ) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلا ق دو اور عدت کا شمار رکھو اور خدا سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرو ۔ (نہ تو تم ہی) ان کو (ایام عدت میں) انکے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں ہاں اگر وہ صریح بےحیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) اور یہ خدا کی حدیں ہیں ۔ جو خدا کی حدوں سے تجاوز کریگا وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ (اے طلا ق دینے والے) تجھے کیا معلوم شاید خدا اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کردے ۔
مزید ارشاد باری تعالیٰ
اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِيْحٌۢ بِاِحْسَانٍ
البقرہ 229
یعنی طلاق رجعی دو مرتبہ ہے، یعنی ایک بار طلاق دینے کے بعد رجوع کا اختیار دو مرتبہ ہے، پھر چاہے تو تیسری بار طلاق دے کر اس کو فارغ کردیںیا اس کو طلاق نہ دے اور اپنے نکاح میں رکھے۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی عام طور پر ایک مجلس میں تین طلاقیں ایک ساتھ دینے کا رواج نہیں تھا۔
البتہ اگر ایسا واقعہ پیش آیا تو آپ نے تینوں طلاقیں نافذ نہیں کی بلکہ اسے ایک ہی کے حکم میں شمار کیا یا اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ جس کی تفصیل کتب احادیث میں دیکھی جاسکتی ہے۔
نوٹ:موجودہ حالات میں اس امر کی بھی بہت زیادہ ضرورت ہےکہ لوگوں کو طلاق دینے کاصحیح طریقہ بتایا جائے تاکہ آئے دن جو طلاق کے حوالے سے شرعی مسئلہ ایک کھیل بن کر رہے گا ہے اس کا صحیح طور پر نفاذ عمل میں آئے گا۔
خلع:
شرعاً فسخ نکاح کی ایک صورت ہے جس میں بیوی کسی معقول وجہ سے شوہر کے ساتھ نبھاہ نہیں کرسکتی اور وہ طلاق چاہتی ہو،تو وہ اپنا حق مہر شوہر کو واپس کرے گی۔نیز اگر شوہر حق مہر کے علاوہ بھی مزید کچھ مطالبہ کرتا ہے تو بیوی وہ بھی دے کر اپنے آپ نکاح کے بندھن سے آزاد کرواسکتی ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ
فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر 229
یعنی عورت رہائی پانے کے لئے کچھ دے ڈالے، اس پر دونوں پر گناہ نہیں ۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے آکر ان الفاظ میں اپنے خاوند سے لینے کی خواہش کا اظہار کیا کہ ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی :مَا أَعْتِبُ عَلَيْهِ فِي خُلُقٍ وَلاَ دِينٍ، یعنی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ سے کسی بری عادت یا دینداری کی وجہ سے ناراض نہیں ہوں، لیکن میں حالت اسلام میں ناشکری نہیں کرنا چاہتی ہوں،تو آپ نے اس سے پوچھا: أتردین حدیقتہ علیہ۔۔ یعنی کیا تو اس کا باغ اس کو واپس کرنے کو تیار ہے ؟ اس نے جب ہاں میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خاوند (ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ) کو بلواکر فرمایا: اقبل الحدیقۃ و طلقھا تطلیقۃ یعنی اپنا باغ لے لو اور اس کو چھوڑ دو
صحیح بخاری: 5273
خلع کے حوالے سے چند امور قابل غور ہیں۔
- ۔یہ عورت کے مطالبہ پر ہوگا۔
- ۔ وہ حق مہر واپس کریگی
- ۔اس میں رجوع نہیں ہوسکتا۔
- ۔اس کا نفاذ حکومت کی طرف سے ہوگا، یا پنچائیت بلاکر کروایاجائے۔
خلع کی عدت ایک ماہ ہے۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ خلع حاصل کرنے والی عورت کی عدت ایک حیض ہے۔
سنن ابی داؤد
یہ تمام امور اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ خلع کی حیثیت طلاق نہیں بلکہ فسخ نکاح ہے۔
شادیاں ٹوٹنے کے اسباب:
ہمارے معاشرے میں اکثرشادیاں جو ناکام ہوجاتی ہیں اور ان کا انجام خلع یا طلاق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے کئی اسباب ہیں جنہیں چند ایک جو زیادہ اہم ہے اس کی طرف نشاندہی کی جاتی ہے۔
(1) رشتہ کرتے وقت معیار دین کو نہ بنایا جانا
عام طور پر رشتہ کرتے وقت یہ تو معلوم کیا جاتا ہے کہ لڑکا کہاں ملازمت کرتا ہے ؟ کتنا کماتا ہے؟ گھر اپنا ہے کہ نہیں اور اگر ان سوالات کے جواب مطمئن ہوتے ہیں تو رشتہ کردیتے ہیں ، لیکن لڑکے کا دینی معاملہ کیسا ہے ؟ عقیدۃ ً و عملاً صوم و صلوۃ کا پابند ہے یا نہیں؟ حلال کماتا ہے یا نہیں؟ اس حوالے سے کوئی چھان بین نہیں کی جاتی حالانکہ احادیث میں اس حوالے سے بھی رہنمائی موجود ہےجیسا کہ ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[اذا خطب الیکم من ترضون دینہ و خلقہ فزوجوہ ان لا تفعلوہ تکن فتنۃ من الارض و نساء عریض ])رواہ الترمذی
یعنی جب تمہارے پاس ایسے شخص کی طرف سے نکاح کا پیغام آئے جس کے دین و اخلاق سے تم خوش ہو تو اپنی بیٹی کا اس سے نکاح کردواور اگر ایسا نہیں کروگے تو زمین میں بڑے فسادات رونما ہونگے۔
(2)کورٹ میرج ،یعنی بغیر ولی کی اجازت کے نکاح کرلینا:
لڑکیوں کا گھر سے اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہوکر کورٹ چلے جانا۔اور یہ بیان دینا کہ میں عاقلہ بالغہ ہوں اور میں اپنی خوشی سے اس سے نکاح کرنا چاہتی ہوں ۔ مجھے اس پر پورا اعتماد ہے اور یوں اسے کورٹ سے شادی کا اجازت نامہ دے دیا جاتا ہے۔
اور پھر نکاح کے کچھ عرصہ کے بعد ہی لڑکی کو اس بات کا احساس ہوجاتاہے کہ میں نے انتہائی قدم اٹھاکر غلطی کی، جب آشنا فرار ہوجاتا ہے۔
(3)اولاد کی دینی تربیت نہ ہونا:
اولادکی دینی تربیت کے اعتبار سے والدین صرف اتنا ہی کافی سمجھتے ہیں کہ بیٹی کو قرآن مجید ناظرہ پڑھا دیا جائے ،نماز پڑھنا آجائے، تاکہ رمضان میں یا جمعہ کے دن اس کا اہتمام کرلیا جائے قرآن کا جہاں تکک تعلق ہے وہ بھی رمضان میں یا جمعہ کے دن اس کا اہتمام کرلیا جائے قرآن کا جہاں تک تعلق ہےوہ بھی رمضان میں پڑھ لینا چاہئے یا کبھی صرف میت کے مسئلہ میں ایک آدھا پارہ پڑھ لیا جائے،جبکہ دینی اعتبار سے تربیت میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اس میں ان احکامات پر توجہ دلانا جن کا تعلق خواتین ہی سے ہے ،جیسے پردے کے احکامات خانگی مسائل سے واقفیت ہونا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اپنی بچیوں کو سورہ نور کی تعلیم دو ، آج کل والدین سہولت کی خاطر بہت سی جگہوں پر خواتین کو اس طرح کہ مختصر کورس کروالے جاتے ہیں جس سے ایک عورت کو اچھی خاصی دینی معاملات سے آگاہی ہوسکتی ہے۔
خلع کے اسباب تو بہت ہیں۔مثلاً والدین کا اپنی بیٹیوں کی صحیح دینی بنیادوں پر تربیت نہ کرنا بلکہ بیٹی کی غلطی پر بھی اس کی سائیڈ لینا اس کی حوصلہ افزائی کرنا، اس طرح کا معاملہ بالآخر خلع پر ہی منتج ہوتا ہے۔
کئی والدین تو ایس بھی دیکھنے میں آئیں کہ شادی کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہوتا اور آپس میں نبھاہ کی صورت بنتی نظر نہ آرہی ہو تو خود ہی خلع کے کاغذات بنواکر لڑخے کو جہراً سائن پر مجبور کرتے ہیں،حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ بیٹی کو سمجھاتے طرفین سے بڑوں کو بٹھا کر معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس قسم کے والدین کے لئے جناب عمر رضی اللہ عنہ کا وہ واقعہ جس میں وہ اپنی بیٹی کو بہت ہی ناصحانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں دیکھو بیٹی تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہنا میں تمہیں وہ چیز مہیا کروں گا۔
دیکھو تم اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان نہ کرنا، نہ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی ریس کرتے ہوئے ایسا مطالبہ کرنا کیونکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ محبوب ہے
صحیح بخاری:کتاب النکاح باب عظۃ الرجل ابنتہ
مذکورہ بالا واقعہ والدین کو یہ پیغام دیتا ہے کہ ماں باپ کو بیٹی کا گھر بسانے کے لئے کتنی کوشش کرنی چاہئے اور کسی قدر سنجیدہ ہوکر اس بارے میں سوچنا چاہئے۔ نیز ہر اس رویہ اور عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہئے جس سے بیٹی کو بلاوجہ شہ ملے اور اس کا گھر برباد ہو۔
اسی طرح لڑکی کی مرضی کے بغیر جبراً رشتہ طے کردینا جبکہ لڑکی کسی معقول وجہ سے انکار کررہی ہواس قسم کی شادیوں کا بالآخر انجام خلع پر ہی منتج ہوتا ہے۔
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خنساء بنت خذام کا معاملہ آیا ان کے والد نے ان کا نکاح ان کی مرضی کے بغیر کردیا تھا۔ اس سلسلہ میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نکاح کو رد کردیا۔
’’عن خنساء بنت خذام الأنصارية أن أباها زوجها وهي ثيب فكرهت ذلك فأتت النبي صلى الله عليه وسلم فرد نكاحھا‘‘
صحیح بخاری: 6945