احکام و مسائل

تعوذاتِ نبوی ﷺ اور پناہ مانگنے کی حقیقت

ان الحمد للہ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد:

تمہید

الحمد للہ، اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا، نبی کریم ﷺ کی ہدایت عطا فرمائی اور قرآن مجید جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کیا۔ اللہ کے نبی ﷺ کی سنت ہمارے لیے وہ روشن راستہ ہے جس پر چل کر ہم دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ انہی سنتوں میں ایک اہم پہلو ہے تعوذات نبوی ﷺ یعنی وہ دعائیں اور اذکار جن کے ذریعے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔

تعوذ کا مفہوم

عربی زبان میں تعوذ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا، اس کی حفاظت میں آنا اور اس کی رحمت کے سائے میں داخل ہونا۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں “تعویذ” کا لفظ زیادہ رائج ہے، مگر اس سے مراد کچھ اور لی جاتی ہے: یعنی دھاگے، کاغذ یا کسی چیز کو گلے میں لٹکا لینا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ مصیبت، آفت یا نظر بد سے بچائے گا۔

یہ تصور اسلام کے صحیح عقیدے سے متصادم ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں اس کو تمیمہ کہا جاتا ہے، اور رسول اللہ ﷺ نے اس سے سختی کے ساتھ منع فرمایا۔

 نبی ﷺ کا فرمان ہے۔:

مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ1

جس نے کوئی تمیمہ لٹکایا اس نے شرک کیا۔

یعنی جو شخص اللہ کو چھوڑ کر کسی دھاگے، جوتی یا چیز کے ساتھ دل کا تعلق جوڑ لے تو وہ دراصل اللہ کے ساتھ شریک بنا لیتا ہے۔

قرآن و سنت کی رہنمائی

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا

وَقُلْ رَبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ۝ وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونِ2

اور کہہ دیجیے: اے میرے رب! میں شیطان کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اس بات سے بھی کہ وہ میرے قریب آئیں۔

اسی طرح قرآن کی آخری دو سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس جنہیں معوذتین کہا جاتا ہے، اصل میں پناہ کی سورتیں ہیں۔ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ تعلیم دی کہ ہر شر، حسد اور وسوسے سے بچنے کا راستہ اللہ کی پناہ ہے۔

نبی کریم ﷺ کی عملی سنت:

رسول اللہ ﷺ اپنی زندگی کے مختلف مواقع پر پناہ مانگتے اور امت کو بھی تعلیم دیتے۔

 مثلاً:

برے وسوسوں اور شیطان کے شر سے پناہ مانگنا۔

مصیبت یا خوف کے وقت “أعوذ بالله” کہنا۔

بیماری، نظر بد اور ہر آفت سے اللہ کی پناہ طلب کرنا۔

آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ:

مَنْ عَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ3

جو شخص کسی چیز کو لٹکائے (بچاؤ کے لیے) اللہ تعالیٰ اسے اسی کے سپرد کر دیتا ہے۔

یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو چھوڑ دیتا ہے کہ دیکھے یہ دھاگہ یا لٹکائی ہوئی چیز اسے بچاتی ہے یا نہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ان چیزوں کے اندر کوئی طاقت نہیں۔

علماء کی وضاحت:

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں

پناہ مانگنا دراصل اس ذات کی طرف بھاگنا ہے جو ہر شر، ہر خوف اور ہر آفت سے بچانے پر قادر ہے، اور یہ صفت اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور میں نہیں۔

لہٰذا حقیقی استعاذہ (پناہ طلب کرنا) ایک بندے کے توکل اور ایمان کی علامت ہے۔ یہ عبادت ہے جو صرف اللہ کے لیے خاص ہے۔

یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ پناہ مانگنے کا اصل طریقہ وہی ہے جو قرآن و سنت نے سکھایا۔ تعویذ، دھاگے اور دیگر خودساختہ ذرائع محض توہمات ہیں، جو انسان کو شرک کے قریب کر دیتے ہیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی میں ہمیشہ اللہ کی پناہ مانگنے کی سنت اپنائے، معوذتین اور مسنون دعاؤں کو یاد کرے اور ہر وقت اللہ پر بھروسہ رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی توکل نصیب فرمائے، اپنی پناہ میں لے اور ہر قسم کے شرک اور باطل عقائد سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

  1. (مسند احمد:۱۷۴۲۲)
  2. (سورۃ المؤمنون:۹۷۔۹۸)
  3. (سنن ترمذی:۲۰۷۲)
شیخ ابراہیم خلیل حفظہ اللہ

Recent Posts

Pakistan – Afghanistanجنگ اندیشہ درست ثابت ہوا

افغانستان میں طالبان کی فتح پر ظاہر کیا گیا وہ کون سا اندیشہ تھا جو…

1 day ago

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور اللہ کی غالب سنت

نبی کریم ﷺ کی دعوت انسانیت کے لیے سب سے عظیم نعمت تھی۔ آپ ﷺ…

4 days ago

جاوید احمد غامدی صاحب حدیث کو کیوں نہیں مانتے؟

کیا جاوید غامدی کے نزدیک حدیث دین کا ماخذ بن سکتی ہے؟ غامدی صاحب کن…

5 days ago

نماز مومن کی شناخت!

حضرت عمر بن خطابؓ نماز کے لیے تشریف لائے، صفوں کو درست کیا، اور نماز…

6 days ago

صفت رحمت اور صفت رحمٰن میں کیا فرق ہے

اللہ تعالیٰ کے دو عظیم نام الرحمن اور الرحیم، دونوں رحمت کی صفات پر دلالت…

1 week ago

اللہ کے لیے مومن سے محبت اور کفار سے نفرت

الله کے لیے سب کچھ قربان کرنا ہی ایمان کی اصل روح ہے، چاہے وہ…

2 weeks ago