پہلا خطبہ
حمد و ثناء کے بعد !
پتھروں سے صنم تراشی و پرستی !
لوگوں ! حضرت محمد ﷺ کی نبوت سے پہلے سابقہ زمانوں میں اور پہلے انبیاء علیہم السلام کے بعد لوگ اس روئے زمین پر بڑی جاھلیت میں مبتلا تھے ۔ اس عہد تاریخ میں لوگوں کا تعلق روحانی دنیا اور نورالہی سے منقطع ہوچکا تھا یہی وجہ تھی کہ ان پر عقائد و قوانین اور نفس پرستی کے اندھیرے چھائےہوئے تھے ایسے ظلمات اور اندھیرے کہ جن میں کوئی عقلمند بھی اتنی سی روشنی بھی نہیں پا رہا تھا کہ جس کی مدد سے وہ راہ ہدایت پر چل سکے یا ضلالت و گمراہی سے نجات پا سکے ، بلکہ وہ سخت گھٹاٹوپ اندھیرے تھے کہ تہ بہ تہ ایک دوسرے پر چڑھےہوئے تھے ۔ ایسے پھر ان کی یہ گمراہی و ضلالت اس حد تک گر گئ کہ انہوں نے پتھروں ، درختوں اور طرح طرح کے گھڑےہوئے اور کھڑے یا پڑھے بتوں کو پوجنا شروع کردیا اور ان کے سامنے جھکنے لگے ۔ انہیں اس روش پر لگانے والی چیز ان میں انسانیت کا فقدان و نایابی ، ان میں عقل و فکر کا قحط و افلاس اور ساتھ ہی ان کی فطرت کی خود کشی تھی ۔ اب وہ انسان نہیں محض انسانی جسم و شکل کی ایک چیز بن کر رہ گئے تھے ۔ اندھیرے کہ جن میں اس وقت کے لوگ زندگی کی راہوں پر ایک شتر بے مہار کی طرح چلے جا رہے تھے ۔ ایسے ظلمات و اندھیرے کہ انھوں نے ان لوگوں کی عقول کو اس حد تک پہنچا رکھا تھا کہ وہ لوگ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے لئے معبود تراشتے اور پھر ان کی عبادت کرنے کے لئے ان کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے تھے حالانکہ انہیں اور ان ہاتھوں کے بنائے ہوئے معبودان باطلہ کا خالق صرف اللہ تعالی ہے جو کہ ہر قسم کی عبادت کے لائق ہے مگر وہ اندھے بہرے ، گمراہ اور بدراہ ہو گئے ۔
پھر ان کی یہ گمراہی و ضلالت اس حد تک گر گئ کہ انہوں نے پتھروں ، درختوں اور طرح طرح کے گھڑےہوئے اور کھڑے یا پڑھے بتوں کو پوجنا شروع کردیا اور ان کے سامنے جھکنے لگے ۔ انہیں اس روش پر لگانے والی چیز ان میں انسانیت کا فقدان و نایابی ، ان میں عقل و فکر کا قحط و افلاس اور ساتھ ہی ان کی فطرت کی خود کشی تھی ۔ اب وہ انسان نہیں محض انسانی جسم و شکل کی ایک چیز بن کر رہ گئے تھے ۔
قوم نوح کے نیک و بزرگ شخصیات کی پرستش !
اس زمانے کے عقلی قحط اور صنم پرستی وغیرہ کے سلسلہ میں ان لوگوں کی حالت بیان کرتےہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
وہ بت جن کی قوم نوح علیہ السلام نے پوجا کرتی تھی اب وہ عربوں میں پوجے جا رہے تھے ۔ ود نام کا بت دومۃ الجندل کے لوگوں بنی کلب کے پاس تھا اور وہ اس کی پوجا کرتے تھے ، [سواع ] کو قبیلۂ ھذیل کے لوگ پوجتے تھے ۔ [ یغوث ] بنی مراد سے پرستش کر وارہا تھا ، سبأ کے قریب واقع بالجرف کے قبائل بنی قطیف بھی یغوث ہی کے پجاری تھے ۔
[ یعوق ] کی پوجا بنی ہمدان میں ہو رہی تھی جبکہ [ نسر ] کی عبادت و پوجا حمیری قبائل آل ذی کلاع نے اختیار کر رکھی تھی ۔ یہ در اصل حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے کچھ نیک و صالح لوگوں کے نام تھے ۔ جب عقائد و عقول کے لحاظ سے وہ ہلاک ہو گئے تو شیطان نے ان کے دماغ میں ڈال دیا کہ انہیں اپنی مجلسوں میں معبود بنا کر نصب کر لو اور ا ن بتوں کو صالحین قوم نوح کے نام دے دو تو انھوں نے ایسا ہی کیا ۔ اور جب وہ لوگ ہلاک ہو گئے اور علم اٹھ گیا تو ان بتوں کی پوجا پاٹ شروع ہو گئ ۔ ( صحیح بخاری )اللہ کے بندو ! صالحین قوم نوح علیہ السلام کی عبادت و پوجا شروع ھونے سے قبل اہل عرب حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کی ملت و دین پر تھے ۔ وقت گزرتا گیا ، علم کم ہوتا گیا ، علماء فوت ہو گئے اور عربوں میں پھرسے ازسرنو بت پرستی نے قدم جمالئے اور ملت ابراہیمی منسوخ ہو گئی اسے بدل ڈالاگیا ۔
اس بت پرستی کی شقاوت و بد بختی کا موجد ( مکہ کا ایک شخص ) ابو خزاعہ عمرو بن لحی تھا ۔ وہ ہی تھا جس نے بتوں کی پوجا شروع کی ، بتوں کے نام نذر کرکےجانوروں کو کھلا چھوڑنا شروع کیا تھا ۔ نبی اکرم ﷺ نے ایک مرتبہ سورج گرھن لگنے پر نماز کسوف پڑھانے کے دوران اسے جہنم میں دیکھا کہ وہ جھنم کی آگ میں اپنی انتڑیاں کھینچتا ہوا چل رہا ہے ۔ کیونکہ وہ پہلا شخص ہے جس نے بتوں کے نام جانوروں کو چھوڑنا اور ان کی نذریں ماننا (اور عبادت کرنا ) شروع کیا تھا اور اسی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین حنیف کو بدلا تھا ۔ ( صحیح مسلم )
امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : عمروبن لحی وہ پہلا شخص ہے جس نے حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کے دین کو بدلا ، حجاز میں بتوں کو داخل کیا اور بھیڑ بکریوں کے چرواہوں کو ان کی عبادت اور ان سے تقرب حاصل کرنے پر لگایا تھا ۔
تخلیقِ جن و انس کا مقصد !
مسلمانو ! اللہ تعالی نے جن و انس دونوں کو پیدا کیا تاکہ وہ زمین پر صرف اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کریں ۔ اللہ تعالی نے ہی حضرت محمد ﷺ کو روشن شریعت دے کر مبعوث فرمایا ۔ وہ شریعت جس میں وہ تمام قواعد و ضوابط موجود ہیں جو شارع حکیم نے مقرر فرمائے ہیں اور انہی میں سے ہی وہ پانچ ضروری اموربھی ہیں جن کے تحفظ اور نگرانی و نگہبانی کے حکم پرانبیاء و رسل علیہم السلام کا اجماع و اتفاق ہے اور وہ پانچ چیزیں یہ ہیں :
دین ، جان ، مال ، آبرو ، عقل ۔
اور ہر وہ فساد و بگاڑ جو ان پانچ چیزوں میں سے کسی بھی چيز کی طرف سے در آنے لگے تو اس کا دفع دور کرنا واجب ہے ، کہ وہ برائیی جیسے جیسے پھیلتی جائے گی اس کے موجد کو زندگی میں اور موت کے بعد بھی دوسروں کی برائی و گناہ کا حصہ پہنچتا رہے گا ، جیسا کہ عمروبن لحی کا معاملہ ہے جس نے حجاز مقدس میں بت داخل کئے اور دین و ملتِ ابراہیم علیہ السلام کو بدل ڈالا ۔ اور مذکورہ پانچ ضروری امور میں سے سب سے پہلے نمبر پر آنے والی چیز دین و عقیدہ اور توحید باری تعالی کی ضرورت ہے ۔
نبی اکرم ﷺ کا بتوں کو توڑنا !
نبی اکرم ﷺ نے راستے کو واضح و روشن کر دیا ہے اور ایک آپ ﷺ کے ذریعے ہی اللہ تعالی نے جزیرہ عرب کو وثنیت پرستی ، تماثیل پرستی اور صنم و بت پرستی جیسی تمام غلاظتوں سے پاک کر دیا ہے ۔ عربوں کے سب سے بڑے بت کا نام [ ھبل ] تھا اور وہ مکہ مکرمہ کی سب سے بالائی جگہ پر رکھا ہوا تھا اور اس کے گرد تین سو ساٹھ بت رکھےہوئے تھے جوکہ سب کے سب ہی پتھر سے تراشےہوئے تھے ۔ فتح مکہ کے دن نبی اکرم ﷺ نے دخول کعبہ کے وقت اپنے دست مبارک سے ان بتوں کو توڑا اور ان کی جھوٹی شان و شوکت پر کاری ضرب لگاتےہوئے آپ ﷺ قرآن کریم میں نازل شدہ اللہ تعالی کا یہ ارشاد پڑھتے جارہے تھے ۔
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا
الاسراء – 81
اور کہہ ( اعلان کر ) دیجیئے کہ حق آ گیا اور باطل نابود ہو گیا ، یقینا باطل تھا بھی نیست و نابود ہونے والا۔
امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
[ اس میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ جب غلبہ حاصل ھو جائے تو مشرکین کے نصب کردہ تمام اوثان و اصنام اور بتوں کو توڑ دینا چاہیئے ۔ ]امام ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں :
اصنام اور بتوں کے حکم میں ہی وہ مجسمے ( اسٹیچوز)بھی داخل ہیں جو قیمتی پتھروں ، لکڑی یا ایسی ہی کسی دوسری چیز سے بنا کر سجائے گئے ہوں ۔
اللہ کے بندو ! نبی اکرم ﷺ نے کعبہ کے گرد مشرکوں کے رکھےہوئے بت توڑے جبکہ اس وقت بعض صحابہ یہ شعر پڑھتے جاتے تھے :
اے عزی ٰ ! ہم تیری عبادت کا ان کار کرتے ہیں ، تجھ سے کسی قسم کی بخشش و مدد ہرگز طلب نہیں کرتے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالی نے تجھے ذلیل و رسوا کر دیا ہے ۔
نبی اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ کے ارگرد مختلف علاقوں میں نصب کردہ بتوں کو توڑنے کیلئے اپنے صحابہ کرام کے دستے بھیجے اور مکہ مکرمہ میں ایک منادی نے یہ اعلان کر دیا :
جو شخص اللہ تعالی اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے گھر میں پڑے بت کو توڑ دے ۔
عزّیٰ نامی بت کی سرکوبی !
نبی اکرم ﷺ نے حضرت خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا تاکہ وہ عزی نامی بت مسمار کریں۔ انہوں نے اسے مسمار کیا اور واپس آ کر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضری دی تو نبی اکرم ﷺ نےان سے پوچھا ؟ { کیا تم نے کچھ دیکھا : } [ تو انہوں نے عرض کیا : نہیں ۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : { تب پھر تم نے اسے صحیح طور پر مسمار ہی نہیں کیا ، دوبارہ جاؤ اور اسے خوب مسمار کر کے آؤ ۔ } حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ واپس گے ان کا رنگ اور تیور بدلےہوئے تھے ، انہوں نے اپنی تلوار سونت رکھی تھی ۔ ایک کالے رنگ کی ننگے بدن اور بکھرےہوئے بالوں والی عورت حضرت خالد رضی اللہ عنہ کی راہ میں آڑے آئی ۔ عزیٰ کے دربار کے خادم و گدی نشین نے اس بڑھیا کو بچانے کے لئے چلانا شروع کیا مگر خالد رضی اللہ عنہ نے اتنے زور سے اس بڑھیا پر تلوار کا وار کیا کہ اسے دولخت کر دیا ۔ اب پھر نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس بڑھیا کا قصہ سنایا تو آپ ﷺ نے فرمایا :{ ہاں ! یہی عزیٰ تھی ۔ اور اب وہ تمھارے ملک میں پوجے جانے سے مکمل طور پر مایوس ہو گئی ہے ۔ } ( سنن نسائ )
(1) سواع کی تباہی :
اس کے بعد نبی اکرم ﷺ نے حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ کو قبیلۂ بنی ھذیل کے بت [ سواع ] کی تباہی کیلئے بھیجا ۔ جب وہ سواع کے دربار پر پہنچے تو گدی نشین آڑے آیا ۔ اس نے کہا : تم ہمارے بت کو تباہ و برباد نہیں کر سکتے ۔ تمھاری مزاحمت اور اس کا دفاع کیا جائے گا ۔ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سواع کے قریب گئے اور اسے پاش پاش کر دیا اور بعد میں وہ سجادہ نشین خود بھی مسلمان ہو گیا ۔
(2) منات کی بربادی :
پھر نبی اکرم ﷺ نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ منات کو ٹھکانے لگائیں ۔ وہ گئے اور اسے ریزہ ریزہ کر کے آئے ۔
(3) ذوالکفین کا گھیراؤ جلاؤ :
جب نبی اکرم ﷺ نے طائف جانے کا ارادہ فرمایا تو پہلے وہاں حضرت طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تاکہ وہاں کے بت ( مزار ) ذوالکفین کو مٹائیں ، وہ گئے اور انہوں نے جا کر اس دربار و مزار کو تہس نہس کر دیا ، انہوں نے مشرکین کے اس باطل معبود کے منہ میں آگ بھرتےہوئے یہ اشعار پڑھے :
اے ذوالکفین ! ہم تیرے پجاری نہیں ہیں ، ہماری ( حق کی ) میلاد تو تیری میلاد سے بھی پہلے کی ہے ۔ یہ دیکھو ! میں نے تیرے منہ میں آگ بھر دی ہے اور تیرے دل کو جلا دیا ہے ۔
(4) فلس کو مسمار کروانا :
پھر نبی اکرم ﷺ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو فلس نامی بت کے دربار کی طرف بھیجا ۔ یہ قبیلہ بنی طیء کا بت تھا ۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس فلس کے دربار کا ستیاناس کیا ۔
(5) ذوالخلصہ کا ستیاناس کروانا :
اس طرح یمن میں بھی ایک دربار بڑا مشہور و معروف تھا جہاں ذوالخلصہ نامی بت رکھا ھوا تھا ، نبی اکرم ﷺ نے حضرت عبداللہ بن جریر البجلی رضی اللہ عنہ کو بھیج کر اس کا ستیاناس کروا دیا ۔
تجدید ملتِ ابراہیمی اور ضرب کلیم !
اسی طرح تمام بتوں کو پاش پاش کر وا کر نبی اکرم ﷺ نے ملت ابراہیم ی اور دین انبیاء کی تجدید کی اور پھر سے توحید کا پرچم لہرانے لگا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالی سے دعا مانگتےہوئے کہا تھا :
وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
إبراهیم – 35
اے اللہ ! مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچانا ۔
اور اپنی قوم سے مخاطب ہو کر انہوں نے فرمایا :
وَتَاللَّـهِ لَأَكِيدَنَّ أَصْنَامَكُم بَعْدَ أَن تُوَلُّوا مُدْبِرِينَ
الأنبیاء – 57
اور اللہ کی قسم ! میں تمھارے ان معبودان باطلہ کے ساتھ ، جب تم چلے جاؤ گے ، تو ایک چال چلوں گا۔
پورے عرب میں جگہ جگہ پوجے جانے والے بتوں کے درباروں مزاروں کو تہہ و بالا کر کے نبی اکرم ﷺ نے حضرت موسی علیہ السلام والی ضرب کلیم کی یاد بھی تازہ کر دی کیونکہ موسی علیہ السلام نے سامری کے بنائے ہو ئے بت ( بچھڑے ) کا فسوں توڑنے کیلئے اس سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا :
وَانظُرْ إِلَىٰ إِلَـٰهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا ۖ لَّنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا
طهٰ – 97
اور اب تو اپنے اس معبود کو بھی دیکھ لینا جس کا تو اعتکاف کئےہوئے تھا کہ ہم اسے جلا کر ریزہ ریزہ کرکے دریابرد کر دیں گے ۔
عام مجسموں ( شوپیس وغیرہ کے طور پر استعمال ہونے والوں ) کا حکم !
مسلمانو ! اصنام و تماثیل اور بتوں کے بارے میں قولا و فعلا نبی اکرم ﷺ نے جو جو موقف اختیار فرمایا وہ بڑا ہی نمایاں تھا ۔ اور آپ ﷺ نے صرف ان بتوں کے بارے میں ہی یہ موقف اپنانے پر بس نہیں کیا کہ جن کی اللہ کے سوا عبادت و پوجا کی جاتی تھی اور جن کی اسی طرح ہی تعظیم کی جاتی تھی جو کہ صرف اللہ تعالی کا حق ہے بلکہ نبی اکرم ﷺ نے گھروں میں رکھے اور سنبھالے جانے والے مجسموں یا تماثیل کے بارے میں بھی واضح ہدایات دے رکھی ہیں جن کی اگر چہ پوجا نہیں کی جاتی تھی مگر آپ ﷺ نے ان کے بارے میں بھی فرمایا ہے :
میرے پاس جبرائییل علیہ السلام آئے اور انہوں نے فرمایا : میں کل آپ کے پاس آیا تھا مگر میں آپ کے گھر میں اس لئے داخل نہ ہوا کہ گھر کے باہر دروازے پر پڑی تماثیل ( مجسموں ) نے مجھے روک دیا تھا۔( ابو داؤد ، ترمذی ، عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ )
اسی حدیث میں یہ بھی ہے مذکور ہے کہ جبرائییل علیہ السلام نے مجھے حکم دیا کہ ان مجسموں کے سر کاٹ دیں تاکہ یہ کٹےہوئے درخت کے تنے کی طرح رہ جائیں ۔
اللہ کے بندو ! کوئ عقلمند یہ تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ نبی اکرم ﷺ نے وہ تماثیل و مجسمیں عبادت یا تعظیم کے لئے رکھےہوئے ہوں ۔ ہرگز نہیں ۔بات محض اتنی سی تھی کہ وہ دروازے کے باہر پڑےہوئے تھے ۔ ورنہ آپ ﷺ تو وہ شخصیت ہیں کہ حضرت عمرو بن عنبسہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : اللہ تعالی نے آپ کو کس چیز کے ساتھ بھیجا ہے ؟ اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا :اللہ تعالی نے مجھے صلہ رحمی کرنے اور اس کا حکم دینے ، بتوں کو توڑنے ، اللہ کی توحید کا علم بلند کرنے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے کی تعلیمات دے کر مبعوث فرمایا ہے ۔ ( صحیح مسلم )
صحابہ کرام اور آئمۂ دین کا طرز عمل !
(1) اللہ والو !اس طرز عمل کو نبی اکرم ﷺ اور آپ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیز آئمۂ دین رحمہم اللہ نے بھی اپنایا تھا ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہیاج اسدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا :
(1) اللہ والو !اس طرز عمل کو نبی اکرم ﷺ اور آپ سے پہلے کے انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نیز آئمۂ دین رحمہم اللہ نے بھی اپنایا تھا ۔ چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت ابوہیاج اسدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مجھے فرمایا : کیا میں تمھیں بھی اس کام کیلئے نہ بھیجوں جس کام کیلئے مجھے نبی اکرم ﷺ نے بھیجا تھا۔( پھر فرمایا: ) کوئ تمثال و بت نہ چھوڑو سب کو مسمار کر دو ، جو کوئی بلند و بالا قبر ( مزار و دربار ) دیکھو اسے گراکر برابر کر دو ۔ ] ( صحیح مسلم )
اہل علم کے یہاں یہ بات طے ہے کہ اس جگہ کلمۂ تمثال نکرہ اور نہی کے سیاق میں آیا ہے ۔ لہذا یہ ہر تمثال کو شامل ہے وہ چاہے کسی بھی قسم کی کیوں نہ ہو ، چاہے وہ عبادت کیلئے بت بنا کر رکھی گئی ہو ۔ یا چاہے وہ محض زینت و ڈیکوریشن کیلئے بطور شوپیس رکھی ہوئی ہو ۔
(2) امام محمد بن اسحاق نے اپنی کتاب المغازی میں حضرت ابوالعالیہ سے روایت بیان کی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں : [ جب ہم نے تستر کو فتح کیا تو ہم نے دیکھا کہ ہرمزان کے گھر میں چارپائی پر ایک مردہ آدمی پڑا ہے جس کے پاس ہی اس کا مصحف بھی رکھا ہے ۔ ہم اس آدمی کو اٹھاکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف لئے گئے آگے چل کر وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : تم نے اس آدمی کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ انہوں نے کہا : ہم نے اس کے لئے دن کے وقت تیرہ مختلف قبریں کھودیں جب رات ہوئی تو ہم نے اسے کسی ایک قبر میں دفن کر دیا اور تمام قبروں پر مٹی برابر کر دی تاکہ لوگوں کو اس کے بارے میں اندھیرے میں رکھا جا سکے تاکہ وہ اس کی قبر نہ کھود سکیں ۔ ایک آدمی نے کہا : تم نے ایسا کیوں کیا ؟ وہ لکھتے ہیں : اس شخص کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جب کبھی قحط سالی ہوتی اور بارش نہ برستی تو لوگ اس شخص کی چار پائی باہر نکالتے تھے جس کے نتیجہ میں بارش ہو جاتی تھی ۔
(3) علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اس قصہ پر حاشیہ و تعلیق چڑھاتےہوئے لکھتے ہیں : اس قصہ میں وہی رویہ مذکورہوا ہے جو انصار و مہاجرین صحابہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر کو لوگوں سے اندھیرے میں رکھنے کیلئے ان کی تدفین پر کیا تھا ۔ تا کہ لوگ فتنہ میں مبتلا نہ ہوں اور دعائیں کرنے کیلئے یا ان سے تبرک حاصل کرنے کیلئے ان کی قبر کو زیارت گاہ ( مزار ) نہ بنا لیں ، اور اگر متاخرین کو ان کی قبر کا پتہ چل جائے تو وہ ان کی قبر کی زیارت میں سبقت لے جانے کیلئے باہم شمشیرزنی بھی کرتے ۔
(4) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ ابن سعد نے (طبقات میں ) صحیح سند کے ساتھ روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو یہ خبر ملی کہ لوگ اس درخت کے پاس آتے ہیں جس کے نیچے نبی اکرم ﷺ نےاپنے ( چودہ سو ) صحابہ کرام سے بیعت ( رضوان ) لی تھی اور اس کے پاس آکر نمازیں پڑھتے ہیں ۔ اس پر پہلے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اس فعل سے ڈرایا دھمکایا اور پھر بالآخر اسے کاٹ دینے کا حکم صادر فرما دیا اور ان کے حکم سے اس درخت کو واقعی کاٹ دیا گیا ۔
توحید باری تعالی کے تحفظ اور شرک کی طرف کھلنے والے دروازوں کو بند کرنےکیلئے خود نبی اکرم ﷺ اور پھر آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس طرح کے انسدادی مواقف اور حفاظتی تدابیر اختیار کیں۔
کیونکہ کوئی بدعت جب وجود میں آ جائے اور وہ لوگوں کو قرآن و سنت کے احکام و تقاضوں سے پھیرنے والی بھی بن جائے اور اس کے لئے دلائل نما شبہات و اعتراضات بھی گھڑلئے گئے ہوں اور کئی باتیں جوڑ کر اسے ثابت کرنے کی کوشش کر لی گئی ہو تو پھر وہ بدعت بھی ایسی شکل اختیار کرنے لگتی ہے جیسے کہ وہ کوئی واقعی چیز اور مسلمات میں سے کچھ ہو جس کا تدارک و دفیعہ بڑی مشکلات کے بعد ہی ممکن ہو سکے ۔
بت سازی و بت پرستی کا آغاز !
اور اس بات کی دلیل حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا فاکہی وغیرہ کے حوالے سے نقل کردہ کلام ہے جس میں عبیداللہ بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے بت سازی اور ان کی پرستش کا آغاز حضرت نوح علیہ السلام کے عہد میں ہوا ۔ اس طرح بچے اپنے والدین سے نیکی و حسن سلوک کیا کرتے تھے کہ ان کے بت بنا بنا کر رکھتے ۔ اور اس کا آغاز ان کے یہاں بھی یو ہوا کہ ایک شخص مر گیا ۔ اس کے بیٹے نے اس کی وفات پر بہت جزع و فزع اور غم کیا اور اسے صبر نہ آیا ۔ بالآخراس نے والد کی شکل کی ایک تمثیل یا مورتی بنا کر رکھ لی ۔ جب کبھی اسے دیکھنے کا شوق آتا، اس کی مورتی یا مجسمے کو دیکھ کر دل بھلا لیا کرتا تھا ۔ پھر جب وہ مرا تو اس کے ساتھ اس کے بیٹے نے ویسے ہی کیا جیسے اس نے اپنے باپ کے ساتھ کیا تھا ۔پھر یہ ایک رسم ہی چل نکلی ۔ بالآخر جب ان میں سے بڑے ایک ایک کرکے مر گئے تو ان کی اولاد نے کہا کہ ہمارے آباء و اجداد نے انہیں اسی لئے بنایا تھا کہ یہ ان کے معبود تھے لہٰذا انہوں نے ان کی عبادت شروع کر دی ۔
تہذیب و ثقافت کا دور اور عزّت و شرف ؟
مسلمانو ! آج کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس مادی تہذیبی دور گلوبلائزیشن کے کلچر اور ثقافتی زمانے اور سیال قلم کے مالک لوگوں کی زندگی میں یہ کیسے ممکن ہے کہ بتوں کی پرستش کی غلاظت اور ان کی تعظیم کرنے کانظریہ ان کے معاشروں میں پھیل سکے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں! یہ اب بھی ممکن ہے اور اس میں تعجب والی بھی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ جب علم حقیقی کا فقدان ہو اور دلوں میں دین کی اہمیت کم ہو جائے تو یہ سب کچھ اب بھی ممکن ہے اور اس بات کی واضح دلیل یہ ہے کہ آج کے دور میں بھی اللہ تعالی کے سوا کتنے ہی معبودان باطلہ موجود ہیں کوئی بت کی شکل میں ہے کوئی نصب کیا ہوا ہے کوئی چلتے پھرتے جاندار کی شکل میں ہے ، اور یہ بات کسی صاحب عقل و دانش اور اہل بصیرت و نظر سے پوشیدہ ہے ، اور پھر اس سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے کہ پہلے مشرکین عہد جاہلیت میں بھی ہماری طرح ہی عقل تھی ، ان کے بھی ہماری طرح ہی جسم تھے ۔ وہ بھی منہ میں زبان بلکہ فصیح رکھتے تھے اور عربوں کے مابین انہیں قیادت و سیادت حاصل تھی ، اور سارے اس بات کا بھی اعتراف و اقرار کرتے تھے کہ خالق و رازق اور اس کارخانۂ دنیا کو چلانے والا صرف اللہ تعالی ہی ہے ۔ اس کے باوجود انہوں نے بتوں کی پوجا کی ، ان کی تعظیم کی ورنہ پھر ابراہیم علیہ السلام کو کیا ضرورت تھی کہ وہ اللہ سے دعائیں کرتے کہ اے اللہ مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے بچانا ۔
شرک کا پھر دور دورہ !
اللہ کے بندو ! اس بات کی تاکید اس چیز سے بھی ہو جاتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنی امت پر اس شرک کی غلاظت کے در آنے سے ڈرے بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں بعض لوگوں پر یہ غلاظت آ گرے گی ۔ چنانچہ سنن ابوداؤد میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :
اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ میری امت میں سے بعض قبائل بتوں کی پوجا نہ شروع کر دیں ۔
بلکہ صحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے :
اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ قبیلۂ دوس کی عورتیں ، ذوالخلصہ نامی بت کے مزار کا طواف نہ کرنے لگیں گی ۔
اور یہ ذوالخلصہ ایک معروف بت ہے جسے حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے اس وقت پاش پاش کیا تھا جب انہیں نبی اکرم ﷺ نے یمن کی طرف بھیجا تھا نبی اکرم ﷺ کی اسی حدیث میں اس بات کی دلیل موجود ہے کہ یہ بت پرستی جیسے کبھی پہلے رہی یہ ویسے ایک مرتبہ پھر لوٹ آئے گی ۔ گویا یہ دن وہی ہیں کہ جنھیں اللہ تعالی لوگوں کے درمیاں پھیرتا رہتا ہے ۔ لوگوں میں سے کوئی موحد ہے اور کوئی مشرک ، ان میں سے کوئی تو اللہ تعالی کی تدبیر سے ڈرتا ہے اور کوئی بے خوف پڑا ہے اور اللہ کی تدبیر سے صرف وہی لوگ بے خوف رہ سکتے ہیں جو کہ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
اگر شرک کے دوبارہ لوٹ آنے والی بات نہ ہوتی تو پھر نبی اکرم ﷺ کے اس سے ڈرانے کا راز کیا تھا ؟ جبکہ آپ ﷺ نے حکومت توحید کی بنیاد رکھی اور اپنے زمانے میں آپ ﷺ نے شرک کا سر کچل کر رکھ دیا اور اسے بالکل مٹا دیا حتی کہ اپنی وفات کے قریب آخری لمحات حیات میں سکرات الموت کے دوران بھی آپ ﷺ یہ فرما گئے ہیں :
اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فرمائے ۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا ۔
اور پھر نبی اکرم ﷺ کو خدشہ ہوا کہ یہ مرض شرک کہیں میرے بعد میری امت میں بھی نہ آجائے لہٰذااس سے ڈراتےہوئے فرمایا :
( مؤطا امام مالک ) میری قبر کو بت نہ بنا دینا کہ اس کی عبادت ہونے لگ جائے ۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ اور ابن ابی حاتم رحمہ اللہ نے روایت بیان کی ہے کہ ابراہیم تیمي نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں جو ارشاد الہی ہے کہ انہوں نے دعا کی :
وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ
إبراهیم – 35
اے اللہ ! مجھے اور میری اولاد کو اس بات سے بچانا کہ ہم بتوں کی پوجا کریں ۔
ابراہیم علیہ السلام جیسے موحد و حنیف انسان کے بعد پھر دوسرا کون ہے جو اس آزمائش و بلاء سے بچ سکے ۔
بتوں کی پوجا میں واقع ہونے سے وہی بے خوف ہو سکتا ہے جو ان کی حقیقت سے ہی واقف نہ ہو ، نہ کچھ علم شرعی کا مالکہھو اور نہ ہی اس توحید خالص اور شرک سے ممانعت کی ان تعلیمات کو جانتا ہو جو نبی اکرم ﷺ لے کر آئے تھے ۔
شیطان اور ترغیب شرک !
اس شرک کے میدان میں شیطان کے کردار کا تذکرہ کرتےہوئے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
شیطان ہمیشہ قبرپرستوں کے دل میں یہ بات ڈالتا ہے کہ ان پر مزارات تعمیر کرو اور پھر اُنہیں اِن پر مجاور بن کر بیٹھ جانے کی ترغیب دلاتا ہے ۔ پھر انہیں آہستہ آہستہ اہل قبور کو پکارنے اور ان کی عبادت کرنے پر لگا دیتا ہے اور پھر انہیں مکمل بت کی شکل بنا دینے پر اکساتا ہے اور وہ پردے اور قندیلیں لٹکا دیتے ہیں اورجب یہ بات ان کے دلوں میں جائز ہی ہو جاتی ہے تو پھر انہیں اس اعتقاد پر مضبوط کرنا شروع کر دیتا ہے کہ جو شخص تمھیں ان کاموں سے روکے وہ ان عالی مرتبہ لوگوں کی شان میں گستاخی کرنے والا ہے ، اور سمجھتا ہے کہ ان کے کوئی مقام و مرتبہ اور حرمت و قدر نہیں ۔ اب ظاہر ہے کہ ایسے شخص پر تو مشرکین کو بڑا غصہ آتا ہے اور وہ آستین چڑھاکر اس کے خلاف محاذ کھول دیتے ہیں ۔ جیسا کہ ارشاد الہی ہے :
وَإِذَا ذُكِرَ اللَّـهُ وَحْدَهُ اشْمَأَزَّتْ قُلُوبُ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ ۖ وَإِذَا ذُكِرَ الَّذِينَ مِن دُونِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
الزمر – 45
جب اکیلے اللہ تعالی کا ذکر کیا جائے تو ان لوگوں کے دل نفرت کرنے لگتے ہیں جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اورجب اس کے سوا (غیراللہ) کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کھل اٹھتے اور وہ خوش ہو جاتے ہیں ۔
یہ بیماری بہت سارے جاہل اور کتنے ہی ایسے لوگوں کے دلوں تک سرایت کرچکی ہے جو علم دین کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں حتی کہ وہ اہل توحید سے عداوت و دشمنی رکھتے ہیں ۔ انہیں بڑے بڑے بے بنیاد الزام دیتے ہیں اور لوگوں کو ان سے متنفر کرنے میں لگے رہتے ہیں ۔
صنم و وثن ؟
اللہ کے بندو ! یہ بات بھی ذھن میں رکھیں کہ بعض اہل علم نے اس بات کو طے کیا ہے کہ کبھی صنم و بت کا اطلاق وثن پر بھی ہوتا ہے اور وثن سے مراد ہر وہ چیز ہے جس کی پوجا و عبادت کی جائے۔ وہ چاہے کسی بھی شکل میں ہو ۔ اللہ تعالی نے اس سے منع کیا اور فرمایا ہے :
فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ
الحج – 30
پس تمھیں اللہ کے سوا پوجی جانے والی چیزوں سے دور رہنا چاہیئے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیئے ۔
بعض لوگوں نے غیراللہ کی عبادت کے مفہوم کو بڑا محدود کردیا ہے اور اس سے مراد صرف پتھروں کی اور بتوں کی عبادت ہی لی ہے ۔ جبکہ یہ ان کے اس مسئلہ کے بارے میں سخت جہالت و بے علمی کی علامت ہے، کیونکہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا صرف اسی بات میں منحصر نہیں ہے کہ صرف پتھر کے بت کو رکوع و سجدہ کیا جائے بلکہ اس کے محدود فہم کی وضاحت نبی اکرم ﷺ نے فرمائی ہے : چنانچہ جب حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ کو یہ ارشاد الہی پڑھتے سنا :
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ
التوبة – 31
انہوں نے اپنے پیشواؤں کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا تھا۔
تو حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے تھے ۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : کیا تمھارے وہ پیشوا اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام قرار نہ دیتے تھے اور تم ان کی اس بات کو مان کر ان چیزوں کو حرام سمجھتے تھے ؟ اور وہ اللہ تعالی کی حرام کردہ اشیاء کو حلال قرار دیتے اور تم انہیں حرام مانتے تھے ؟ حضرت عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : کیوں نہیں ؟ ایسا تو ہم کرتے تھے ۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یہی ان کی عبادت کرنا ہے ۔ ( مسنداحمد ، ترمذی ، اور امام ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ہے ۔ )
اے اللہ ہم ظاہر و باطن تمام فتنوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں کہ ہم تیرے ساتھ کسی چیز کو شریک کریں جبکہ ہم اسے جانتے ہوں ، اے اللہ ! ہم اگرکسی چیز کو ان جانے میں تیرے ساتھ شریک بنا لیں تو ہمیں بخش دے تو بڑا بخشنے والا ہے ۔
اسلامیان عالم ! اللہ کا خوف کھاؤ اور یہ بات ذہن نشین کر لو کہ اللہ کے لئے صرف دین خالص ہی ہے اور ہر مسلمان مرد و زن کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے ظاہر و باطن کی خوب تطہیر و صفائی کر لے اور ان امور سے بچ جائے جو اسے اکیلے اللہ تعالی کی عبادت کرنے سے پھیر کر شرک پر لگانے والے ہیں ، اسی طرح ہم تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ ہم اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی اطاعت و پیروی کریں ۔ اور انہیں اپنی ذات ، اپنے والدین اور تمام رشتہ داروں پر ترجیح دیں ۔ ایسے ہی تمام لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے معاشروں کو حسب مقدور بتوں کی پوجا اور ان کی عبادت کی غلاظت سے پاک کریں ۔ خصوصا ان چیزوں سے اپنے گھروں کو پاک کریں جو محض زینت کیلئے شوپیس کے طور پر رکھی گئی ہیں ۔ کیونکہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کوئی مجسمہ یا تصویر ہو ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اگر کسی دعوت و ولیمہ میں مدعو کیا جاتا تو دعوت دینے والے سے پوچھتے کہ تمھارے گھر میں کوئی مجسمے یا تصویریں تو نہیں ہیں ؟ اگر وہ کہتا کہ نہیں ہیں تو اس کی دعوت کو قبول فرما لیتے ۔
خبردار ! مفاسد و بگاڑ کے راستوں کو بند کرنا اور شرک کی طرف لے جانے والے ذرائع کا سد باب کرنا بہت ضروری امر ہے جس سے عام مسلمانوں کو کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہیئے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیعت رضوان والا درخت صرف اسی غرض سے اکھڑوا دیا تھا ۔
بت اور مجسمے رکھنا ، ان کی تعظیم کرنا اور مزاروں و درباروں کی تعظیم کرنا اسلام میں ایک نیاپیداکردہ امر ہے اور اس کے پیدا کرنے والے بھی کوئی اہل علم و تقوی لوگ نہیں تھے بلکہ یہ چیزیں پیدا کرنے والے لوگ خواہشات نفس کے پیروکار ، جاہل و بے علم اور اقتدار و غلبہ والے لوگ تھے کیونکہ قرآن کریم میں اصحاب کہف کے تذکرےمیں اللہ تعالی نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے ۔ چنانچہ ارشاد الہی ہے :
قَالَ الَّذِينَ غَلَبُوا عَلَىٰ أَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَيْهِم مَّسْجِدًا
الكهف – 21
جن لوگوں نے ان کے بارے میں غلبہ پایا وہ کہنے لگے ہم تو ان کے آس پاس مسجد بنا لیں گے ۔
دور حاضر کا شرک !
موجودہ دور میں یہ معاملہ بہت بڑھ چکا ہے ۔ بعض لوگوں تو ربوبیت اور الوہیت باری تعالی میں شرک کرنے لگے ہیں۔، انہوں نے بعض اہل قبور سے طرح طرح کے اعتقاد قائم کر رکھے ہیں اور انہیں اصنام و تماثیل کی شکل دے رکھی ہے ، اور ان کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ غیب جانتے ہیں اور جو شخص ان کا تصور کرے اور ان کی طرف متوجہ ہو وہ اس کی بات و حاجت پوری کرتے ہیں ۔ وہ مشکلات کو دور کرنے اور حاجات پوری کرنے کی قدرت و طاقت رکھتے ہیں بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں نے بعض قبروں کو اسی طرح انصاب و بت بنا لیا ہے جس طرح کہ پہلے عربوں نے کیا تھا ۔ ان کے نام کی قسمیں کھاتے ہیں ۔ ان کی شفاعت و سفارش طلب کرتے ہیں بلکہ ان کے نام نذر کے جانور چھوڑے جاتے ہیں ۔ ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھانے کیلئے جانور لے جائے جاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی اور کہیں کہیں ایسا بھی ہے کہ صاحب قبر کی یادگاریں بنائی گئی ہیں اور ان کی بھی تعظیم کی جا رہی ہے ، ان کی حرمت و عظمت باور کرائی گئی ہے اور اس یادگار پر زیادتی کرنے والوں کی سزا وہ رکھی گئی ہے جو اللہ کے دین پر زیادتی کرنے اور اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ کو گالی دینے والے کی بھی نہیں رکھتے۔
افادات امام ابن قیم رحمہ اللہ !
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے نبی اکرم ﷺ کے غزوہء طائف اور آپ ﷺ کے لات نامی بت کو ریزہ ریزہ کرنے کا تذکرہ کرتےہوئے لکھا ہے :
اس واقعہ میں کئی فوائد پنہاں ہیں ۔
(1) پہلا یہ کہ ایسے مقامات ِشرک کو بحال رکھنا جائز نہیں ہے بلکہ جب غلبہ و اقتدار حاصل ہو جائے تو ایک ہی دن میں انہیں ختم کرنا ضروری ہے۔
(2) اسی طرح ان قبروں اور مزاروں کا حکم بھی ہے جنھیں عبادت گاہیں بنا لیا گیا ہے اور جہاں اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہے۔