سرمایہ دارانہ نظام کے نتائج

گزشتہ دو صدیوں سے سرمایہ دارانہ نظام نے دنیا کو اپنے شکنجہ میں جکڑ رکھا ہے ، یہ وہ نظام ہے جونہ صرف جسمانی بلکہ مالی اور ذہنی ظلم و استبداد پر مشتمل ہے ، جس کی بنیاد میں غریبوں کا خون اور چوٹی پر ارتکاز دولت ہے ، جس نظام کی نس نس میں لالچ وحرص بھری ہے ، اس نظام کے سرکردہ لوگ اپنے پیٹ کا جہنم لئے پوری دنیا میں دندناتے پھرتے ہیں اور دولت کا ایندھن اس جہنم کی آگ کوٹھنڈا کرنے کے بجائے مزید بھڑکاتا ہے ۔ دنیا کی تمام بڑی حکومتیں ، بڑی بڑی کمپنیاں اور تمام بینک اس نظام کے آلہ کار ہیں ، اور صد افسوس کہ مزعومہ اسلامی بینک بھی اسی نظام کی انگلی تھام کر چل رہےہیں۔ اس نظام سے پہلے بھی دنیا میں غریب بستے تھے لیکن اب غریب کا جینا بھی محال ہے، دولت مند بھی رہا کرتے تھے لیکن ان کی آنکھوں پر یوں لالچ کی پٹی نہ بندھی ہوا کرتی تھی۔ گزشتہ دو صدیوں کی تقریباً تمام جنگیں اسی نظام کی بقا اور اس کے سرکردہ افراد کے مفادات کے تحفظ کی خاطر لڑی گئیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں افراد ان جنگوں کی بھینٹ چڑھا دئے گئے۔جنگِ عظیم اول اور دوم اور حالیہ عراق اور افغانستان کی جنگیں ہمارے لئے نمونہ عبرت ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بھیانک اثرات پوری دنیا میں اپنی خوفناکی کے ساتھ موجود ہیں ، ان میں چند حقائق بطور عبرت کے پیش نظر ہیں:

عالمی غربت کے حوالہ سے چند حقائق

آمدنی میں ظالمانہ تقسیم

(1)   دنیا کی نصف آبادی یعنی تقریباً ساڑھے تین ارب افراد کی یومیہ آمدنی 2.50 ڈالر (تقریباً 246 روپے) سے بھی کم ہے۔[2]

(2) دنیا کی 80 فیصد آبادی یعنی تقریبا ساڑھے پانچ ارب افراد کی یومیہ آمدنی 10 ڈالر (تقریباً 984 روپے ) ہے یعنی 300 ڈالر (یا 29500) ماہانہ۔[3]

 (3)    دنیا کے غریب افراد جو کہ عالمی آبادی کا چالیس فیصد ہیں ، عالمی آمدنی میں ان کا حصہ صرف پانچ فیصد ہے، جبکہ دنیا کے امیر افراد جو کہ عالمی آبادی کا صرف بیس فیصد ہیں ، عالمی آمدنی  کے تین چوتھائی حصہ پر قابض ہیں۔[4]

بھوک کی ستائی دنیا

(4)    دنیا میں روزانہ تقریباً ایک ارب افراد  بھوکے سوتے ہیں۔

(5)    دنیا میں  روزانہ پچیس ہزار افراد بھوک کے سبب موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔[5]

ارتکاز دولت

(1)    2006 میں دنیا کی مجموعی GDP  (Gross Domestic Product) 48.2 ٹریلین ڈالر  تھی (تقریباً  482 کھرب ڈالر)، جبکہ دنیا کی آبادی  ساڑھے چھ ارب تھی۔

(2)    دنیا کے فقط 497 ارب پتی افراد  جو کہ عالمی آبادی کا 0.000008 فیصد ہیں ان کی دولت 3.5 ٹریلین ڈالر (35 کھرب ڈالر، یا 3450 کھرب روپے ) تھی ، جو کہ عالمی   GDP   کا 7.26  فیصد ہے۔

(3)   کم آمدنی والے ممالک(LIC. Low Income countries)جن کی مجموعی آبادی  ڈھائی ارب ہے ان کی مجموعی آمدنی 1.6 ٹریلین ڈالر (16 کھرب ڈالر)  ہے۔[6]

امیر اور غریب میں فرق

(1)    ایک طویل مدتی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ 1820ء میں امیر اور غریب ممالک کے درمیان فرق کا تناسب 1 = 3 کا تھا۔ یہ فرق رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہوا اور گلوبلائزیشن کے بعد (تقریباً 1960 ء  سے)  اس فرق میں بہت تیزی سے اضا فہ ہوا  اور یہ فرق1 = 74 ک جاپہنچا۔(یعنی امیر ملک کے ایک شہری کی دولت غریب ملک کے 74 شہریوں کے برابر ہے)۔[7]

 (2)عالمی اقتصادیات کا چیمپئن سمجھے جانے والےملک امریکہ اور دیگرکئی ترقی یافتہ ممالک کی اپنی آبادی میں یہ فرق تشویشناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ OECD  (Organization of Economics Cooperation & Development) کے مطابق  امریکہ میں یہ تناسب  1= 16 کا ہے، یعنی  ایک امیر امریکی کی دولت سولہ (16) غریب امریکیوں کے برابر ہے۔[8]

بھوک اور عیاشیاں:

(2)    عالمی اخراجات میں عدم توازن کی وجہ سے اخراجات کے رجحان میں بھی بہت فرق ہے، عیاشی اور آسائشات میں خرچ کی جانے والی رقم اس رقم سے کہیں زیادہ ہے جو  بنیادی ضروریات پر خرچ کی جاتی ہے۔[10]

قرض اور سود:

سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد دراصل قرض اور اس پر حاصل کردہ سود ہے۔ قرض اور سود کےاس عفریت نے پوری دنیا کی معیشت کو بری طرح جکڑ رکھا ہے ۔ سودی قرض کی ہولناکی کے متعلق چند حقائق درج ذیل ہیں:

(1)پوری دنیا کا مجموعی قرضہ  51 ٹریلین ڈالر  (510 کھرب ڈالر) کے قریب ہے۔اور پوری دنیا کی مجموعی آمدنی (GDP) 69.98  ٹریلین ڈالر ہے۔ یعنی دنیا کا مجموعی قرضہ پوری دنیا کی مجموعی آمدنی کا 73 فیصد ہے۔

(2) اس قرضہ میں ہر منٹ میں تین ملین ڈالر کا اضافہ ہورہا ہے ، یعنی ہر چھ گھنٹے میں ایک بلین ، ہر روز چار بلین، ماہانہ ایک سو بیس بلین اور سالانہ 1.4 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہورہا ہے۔[11]

(3)  دنیا کی سپر پاور کی معیشت قرضوں کے دلدل میں بری طرح پھنسی ہے ، اور دنیا میں کسی بھی ملک پر سب سے زیادہ قرضہ امریکہ ہی پر ہے،یعنی تقریباً 14ٹریلین ڈالر،  جس کا صرف سود ہی  662 بلین ڈالر ہے ، جوکہ پاکستان کے مجموعی قرضہ (117 بلین ڈالر) سے چھ گنا زیادہ ہے۔

بیروزگاری:

 قرض کے جال میں جکڑی معیشت نے ایک اور عفریت کو جنم دیا ہے جسے دنیا بیروزگاری کے نام سے جانتی ہے۔ یعنی ایسا شخص جو ہنر مند ہو ، باصلاحیت ہو رزق کمانے کی استطاعت رکھتا ہو ، وہ صرف اس لئے بیکار ہے اور اس کے گھر والے اس لئے غریب ہیں کہ سرمایہ دار زیادہ کمانے کی حرص میں انتہائی محدود افراد کو اجرت پر رکھتا ہے۔ اگرچہ بیروزگاری کے اور بہت سے اسباب ہیں لیکن ان سب میں ایک بات مشترک ہے کہ ان  تمام اسباب نے سرمایہ دارانہ نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ بیروزگاری کے عفریت سے ترقی پذیر ممالک (Developing Countries) سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ممالک (Developed Countries) متاثر ہیں ۔[12]

نجات کا راستہ :

 ان تمام معاشی و اقتصادی مسائل کا صرف ایک ہی حل ہے کہ اسلامی نظام معیشت کا نفاذ کیا جائے۔ اسلامی نظام معیشت کوئی خواب نہیں ، ایک حقیقت ہے، یہ نظام رسول اللہﷺکے مبارک دور سے شروع ہوا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اپنے کمال کو پہنچا اور عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور میں اس کے ثمرات و نتائج برآمد ہونا شروع ہوئے ، یہی وہ واحد نظام ہے جو پانچ سو سال کے طویل عرصہ تک اپنی مکمل آب وتاب سے دنیا میں موجود رہا، جبکہ کوئی بھی نظام معیشت  ڈیڑھ سو سال سے زائد عرصہ تک زندہ نہ ر ہ سکا،  حتی کہ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام بھی اپنے تمام تر جدید وسائل ، اثرورسوخ ، پرکشش دعووں کے باوجود ایک صدی کا مکمل عرصہ بھی طے نہ کرپایا اور اپنی موت آپ مرنے لگا ہے۔

 یہی وہ نظام تھا جس نے عرب کے بدوؤں کو دنیا کی سپر پاور بنادیا، غربت کا ایسا خاتمہ کیا کہ ڈھونڈنے سے بھی کوئی غریب نہ ملتا ، جس کا Debt to GDP بالکل صفر تھا ، جس میں Unemployment Rate  صفر تھا، اس سنہری دور کی چند مثالیں پیش نظر ہیں:

(1)  امیر المومنین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی نظام معیشت کے فیوض وبرکات اس طرح عام ہوئے کہ سيدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ یمن کے صدقات جمع کرنے کیلئے مقرر ہوئےوہاں انہوں نے بنی اکرم ﷺکے ارشاد:

توخذ من أغنياءهم  وترد  علی فقراءهم

 کہ زکاۃ ان کے اصحاب ثروت سے وصول کی جائے گی اور ان کے محتاج افراد کی طرف  لوٹا دی جائے گی ‘‘۔کی تعمیل کی۔ تمام  ضرورت مندوں میں تقسیم کے بعد بھی ایک تہائی مال بچ رہاوہ انہوں نے دربار امارت  میں پیش کردیا تو امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اسے وصول کرنے سے انکار کردیااور فرمایا:

لم أبعثک جابياً ولا آخذاً جزيه ولٰکن بعثتک لتأ خذ من أغنيا ء الناس فتردّ علیٰ فقراءهم

میں نے تمہیں مال اکٹھا کرنے یا جزیہ وصول کرنے نہیں بھیجا تھا میں نے تمہیں اس کام پر مقرر کیا تھا کہ ان کے مالدار لوگوں سے وصول کرو اور ان محتاج اورفقیرلوگوں تک پہنچا دو۔

سيدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے جواب دیا:

ما بعثت اليک بشیءوأنا أجدأحداًيأخذه منی

میں نے یہ مال آپ کی طرف اس وقت بھیجا کہ مجھے یہاں کوئی وصول کرنے والا نہیں ملا۔

  اس سے اگلےسال سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ نے صدقات کی مد میں موصول ہونے والے مال کا نصف بیت المال کے لئے ارسال کر دیا تو امیر المومنین عمر رضی اللہ عنہ نے پھر وہی بات کی اور سیدنا معاذبن جبل رضی اللہ عنہ  نے وہی جواب دیاتیسرے سال یہ ہوا کہ سیدنا معاذبن جبل کو یمن میں صدقہ لینے والا کوئی نہ ملااور انہوں نے تمام جمع شدہ مال دارالخلافہ مدینۃالرسولﷺکی طرف بھجوا دیا، خلیفہ ثانی عمرالفاروق رضی اللہ عنہ نے پھرکہا کہ میں نے تمہیں مال اکٹھا کرنے یا جزیہ وصول کرنے کے لئے متعین نہیں کیا تھااور سیدنامعاذبن جبل نے وہی جواب دیا: [13]

ما وجدت أحداً ياخذ مني شيئا

(2)جناب عمر بن عبدالعزیزرحمہ اللہ( جنہیں پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے) نے عراق میں اپنے والی ’’عبد الحمید بن عبد الرحمٰن کو لکھا کہ :

أخرج للناس أعطياتهم، أخرج للناس أعطياتهم

 لوگوں کو ان کے مقررہ وظیفے پہنچاؤ۔تو اس نے جواب میں لکھا سب کو ان کے مقررہ وظائف دینے کے بعد بھی بیت المال میں صدقات کا مال باقی ہے تو خلیفہ نے اسے حکم دیا:

أنظر کل من  أدان فی غير سفه ولا سرف فا قض عنه

جائزہ لو کہ جس شخص نے بھی حماقت پر قرض نہ لیا ہو اور نہ ہی فضو ل خرچی کی بناء پر مقروض ہو گیا ہو اس کا قرض ادا کر دو۔

 حاکم عراق عبد الحمید بن عبد الرحمن نے جواب دیا کہ اس طرح کے مقروضوں کا قرض بھی ادا کر دیا گیا ہےتاہم بیت المال میں زائد مال بدستور موجود ہے اس پر خلیفہ نے اسے لکھا :

أنظر کلّ بکر ليس له مال فشاء أن تزوّجه فزوّجه و أصدق عنه

اچھی طرح دیکھو جو کوئی غیر شادی شدہ چاہتا ہو کہ تم اس کی شادی کرو تو اس کے نکاح کا اہتمام کرو اور اس کا حق مہر بیت المال سے ادا کرو، اس نے جواب دیا :

أني قد زوجت من وجدت

اس طرح کا جو آدمی بھی مجھے ملا اس کا نکاح کر چکا ہوں۔تو خلیفہ نے حکم دیا:

انظر من کانت عليه جزية فضعف عن أرضه فاسلفه ما يقوی به علیٰ عمل أرضه فانا لا نريدهم لعام ولا عامين

’’ اگر کوئی جزیہ دینے والا اپنی زمین کی آمدن سے جزیہ دینے کے قابل نہیں رہاتو اس کو اتنا قرض دو جس سے وہ اپنی زمین سنوار سکےہم ان سے ایک سال نہیں بلکہ دو سال تک کچھ تقاضا نہیں کریں گے‘‘۔

 اسلامی نظام معیشت کی افادیت سمجھنے کے لئے یہ دو مثالیں ہی کافی ہیں، ہمارا یقین ہے کہ جب ایسے دور میں غربت کا خاتمہ ممکن ہے جب تجارت کے لئے ناکافی وسائل ہوں ، زراعت میں بے پناہ ترقی نہ ہونے کے باوجود تمام افراد کو مناسب غذا مہیا ہو، وسیع پیمانے پر کاروبار نہ ہونے کے باوجود تمام افراد کو روزگار ملے، تو موجودہ دور میں ان تمام وسائل کے ہوتے ہوئے یقیناً ان مقاصد کا حصول بہت ممکن ہے۔


[1] چیئرمین المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی

[2] World Bank Development Indicators

[3] Shaohua Chen and Martin RavallionWorld Bank, August 2008

[4] 2007 Human Development Report (HDR) , United Nations Development Program, November 27, 2007, p.25

[5] Hunger and World Poverty Sources: United Nations World Food Program

[6] World Bank Key Development Data & Statistics, World Bank, accessed March 3, 2008 Luisa Kroll and Allison Fass, 3 The World’s Richest People, Forbes, March 3, 20071999 Human Development Report, United Nations Development Programme

[8] OECD 2005

[9] World Bank, August 2008

[10] United Nations Human Development Report 1998, Chapter 1, p.37

[11] The Economist , The Global Debt Clock

[12] World Bank, World Development Indicators – Last updated March 2, 2011

[13] کتاب الاموال  لابی عبید :596    2کتاب الاموال لابی عبید بن سلام :ص251

الشیخ عثمان صفدر حفظہ اللہ: آپ کراچی کے معروف دینی ادارہ المعہد السلفی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالشھادۃ العالیہ کی سند حاصل کی، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، نیز اسلامک بینکنگ اور فنانس میں جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی جاری ہے۔ اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی کے مدیر ، الھجرہ آن لائن انسٹیٹیوٹ کے مدیر ہیں ، البروج انسٹیٹیوٹ کراچی میں مدرس کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔