متفرقات

سرزمینِ شام، فضائل و برکات اور رسول اللہ ﷺ کی بشارتیں

8 دسمبر 2024 کو پیش آنے والے انقلاب کے بعد سرزمینِ شام کے بارے میں لوگوں کی دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس لئے درج ذیل سطور میں عوام کی آگاہی کے لیے  قرآن و حدیث کی روشنی میں سرزمینِ شام کی اہمیت و فضیلت پیش خدمت ہے، تاکہ لوگ اس کی تاریخی، ثقافتی اور دینی اہمیت کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔

سرزمینِ شام کا تعارف اور جغرافیائی حدود

شام ایک تاریخی اسلامی ملک ہے جو مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں ترکی، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق، مغرب میں لبنان اور بحیرۂ روم، جبکہ جنوب مغرب میں مقبوضہ فلسطین موجود ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام کے بڑے بیٹے “سام’’ کے نام پہ آباد ہونے والے ملک “شام ” کو انگریزی میں “syria ”  عربی میں “سوریا ” اور سریانی میں ”شام” کہتے ہیں۔ طوفان نوح کے بعد سام بن نوح اسی علاقے میں آباد ہوئے تھے۔ اس لئے  یہ علاقہ “شام ” کے نام سے مشہور ہوگیا ۔ غیر منقسم ملک شام پر 636 عیسوی سے 1920 ء تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔ سنہ 1920 ء میں شریفِ مکہ کی غداری کی وجہ سے خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اور شام فرانس کے قبضہ میں چلا گیا جس نے شام کو چار الگ الگ سرحدوں ”سوریا ، لبنان، فلسطین اور اردن” میں بانٹ دیا۔ سنہ 1946 ء میں تقسیم شدہ سوریا کو فرانسیسی استعماریت سے آزادی ملی اور حافظ امین اس کا سربراہ بنا۔ سنہ 1970 ء میں حافظ الاسد نے ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ حافظ امین سے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ سنہ 2000 ء میں حافط الاسد کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا بشار الاسد ملکِ شام کا صدر بن گیا اور 8 دسمبر 2024 بشار الاسد کے 24 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوا اور انبیاء کی یہ سرزمین بشار کے ظلم و زیادتیوں سے آزاد ہوگئی۔  قرآن و حدیث کی روشنی میں جب ملکِ شام کی بات ہو تو اس سے چار ممالک (سوریا، لبنان، فلسطین، اردن ) مراد ہوں گے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ اور بعد میں جس خطے کیلئے بلادِ شام کہا جاتا تھا وہ ان ہی چار ممالک پر مشتمل تھا۔ بلادِ شام میں فلسطین کا شہر بیت المقدس اور سوریا کا شہر دمشق تاریخی اور شرعی اعتبار سے کافی فضیلت کا حامل ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی سرزمینِ شام میں دلچسپی

رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی توجہ سرزمینِ شام کی فتح کی جانب اس وقت سے مبذول کروانا شروع کر دی تھی جب 8 ہجری میں غزوہ موتہ پیش آیا۔ اس کے بعد 9 ہجری میں غزوہ تبوک اور 11 ہجری میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک مہم تیار کی گئی، جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت تک مؤخر رہی۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے 13 ہجری میں حج سے واپسی کے بعد شام کی جانب مہمات روانہ کرنا شروع کیں۔ بالآخر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں شام فتح ہوا۔ اس فتح کے بعد بازنطینی (رومی) افواج وہاں سے نکل گئیں اور ان کے حامی بھی ان کے ساتھ چلے گئے۔ اس کے بعد شام اسلامی ریاست کا حصہ بن گیا اور اسلامی تاریخ میں ایک مرکزی حیثیت اختیار کر گیا۔ یہاں تک کہ اموی خلافت کے دوران، دمشق اسلامی سلطنت کا دارالحکومت بن گیا۔

سرزمینِ شام نا صرف جغرافیائی طور پر اہمیت رکھتی ہے، بلکہ اس کے روحانی اور دینی اعتبار سے بھی بہت زیادہ فضائل ہیں ۔

درج ذیل سطور میں قرآن و حدیث کی روشنی میں بلادِ شام کی مقدس سرزمین کی فضیلت، اس کے جغرافیائی اور تاریخی اہمیت اور رسول اللہ ﷺ کی بشارتوں کے بارے میں تفصیل سے جانیں گے تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ یہ سرزمین  آخر کیونکر اتنی اہم ہے۔

1۔ بابرکت مقام

قرآن مجید میں کئی ایک ایسے مقامات ہیں جو بلادِ شام کی فضیلت پر دلالت کرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

وَنَجَّیْنٰاہُ وَلُوْطًا اِلَی الْاَرْضِ الَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا لِلْعٰلَمِیْنَ1

اور ہم نے ابراہیم اور لوط علیہما السلام کو اسی سر زمین میں پناہ دی کہ جسے ہم نے اہلِ دنیا کے لیے بابرکت بنایا ہے۔“

امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وهي أرض الشأم، فارق صلوات الله عليه وقومه ودينهم وهاجر إلى الشأم2

ترجمہ : یہ سرزمینِ شام ہے، جہا ں حضرت ابراہیم اور لوط علیہما السلام نے اپنی قوم اور ان کے دین کو چھوڑا اور شام کی طرف ہجرت کی۔

عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

أي: الشام، فغادر قومه في ” بابل ” من أرض العراق3

یعنی اس سے مراد ملکِ شام ہے، یعنی وہ اپنی قوم کو ” بابل“ یعنی عراق میں چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کر گئے ۔

تمام اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس آیت سے مراد سرزمینِ شام ہے کیونکہ حضرت ابراہیم اور لوط علیہما السلام کی ہجرت عراق سے شام کی طرف تھی۔

اسی طرح جہاں اللہ تعالیٰ نے سیدنا سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ کیا ، وہاں اس سرزمین کو با برکت سرزمین کہتے ہوئے فرمایا:

وَلِسُلَيْمَانَ الرِّيحَ عَاصِفَةً تَجْرِي بِأَمْرِهِ إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا4

اور سلیمان علیہ السلام کیلئے ہم نے تند و تیز ہوا کو بھی تابع بنا دیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت رکھی تھی۔

امام قرطبی اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

إلى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا، يَعْنِي الشَّامَ5

یعنی : اس با برکت سرزمین سے مراد شام ہے۔

2۔ رسول اللہ ﷺ کی خصوصی دعا

ارضِ شام وہ مبارک سر زمین ہے جس کیلئے رسول اللہ ﷺ نےخاص طور پر برکت کی دعا فرمائی ۔ سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ نے یہ دعا فرمائی:

اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا في شَأْمِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا في يَمَنِنَا قالوا: يا رَسولَ اللَّهِ، وفي نَجْدِنَا؟ قالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا في شَأْمِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا في يَمَنِنَا قالوا: يا رَسولَ اللَّهِ، وفي نَجْدِنَا؟ فأظُنُّهُ قالَ في الثَّالِثَةِ: هُنَاكَ الزَّلَازِلُ والفِتَنُ، وبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ6

ترجمہ: اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر صحابہؓ نے کہا: اے اللہ کے رسول(ﷺ)! ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا: ”اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما“ صحابہؓ نے پھر عرض کی: اے اللہ کے رسول(ﷺ)! ہمارے نجد کے لیے بھی برکت کی دعا کیجئے؟ راوی کہتے ہیں کہ غالباً تیسری مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے (نجد میں برکت کی دعا کی درخواست پر) فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہو گا۔

3۔ انبیاء کرام کا مرکز

سرزمینِ شام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا گیا چنانچہ امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وأكثر الأنبياء بعثوا منها فانتشرت في العالمين شرائعهم7

اکثر انبیاء کرام اسی سرزمین سے بھیجے گئے، اور یہیں سے دین کی دعوت دنیا میں پھیلی  ۔

نیز دیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرما کر اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا، جن میں سے سیدنا ابراھیم، سیدنا اسحاق ، سیدنا یعقوب، سیدنا یوشع علیھم السلام قابلِ ذکر ہیں۔ اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے تو اس سرزمین پر اپنی موت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی :

فَسَأَلَ اللہَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ8

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ مجھے ایک پتھر پھینکنے کے فاصلے تک مقدس سرزمین کے قریب کر دیا جائے۔

علامہ مہلب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے انبیاء کے پہلو میں دفن ہونے کی تمنا اس لیے کی تھی کہ میدانِ حشر کے قریب ہو جائیں اور اس مشقت سے بچ جائیں جو دور رہنے کی صورت میں پیش آ سکتی ہے، کیونکہ سرزمینِ شام ہی نے میدانِ محشر کی شکل اختیار کرنی ہے۔9

4۔  سرزمینِ محشر

ارضِِ شام قیامت کے دن حشر و نشر کی جگہ بنے گی۔ قیامت کے قریب ایک آگ لوگوں کو میدانِ محشر کی طرف دھکیلتے ہوئے لے جائے گی اور یہ آگ صبح، دوپہر اور شام ہر وقت ان کے ساتھ رہے گی، یہاں تک کہ وہ انہیں میدانِ محشر تک پہنچا دے گی۔ یہ میدانِ محشر ارضِ شام میں قائم ہوگا۔ وہیں لوگ جمع ہوں گے اور ان سے حساب لیا جائے گا۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ :

أنَّ مَوْلاةً لهُ أَتَتْهُ فقالتْ اشْتَدَّ عليَّ الزَّمانُ وإنِّي أُرِيدُ أنْ أَخْرُجَ إلى العراقِ قال فَهَلَّا إلى الشَّأْمِ أرضِ المَنْشَرِ اصْبِرِي لكَاعِ فإني سَمِعْتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يقولُ مَنْ صَبَرَ على شِدَّتِها ولَأْوَائِها كُنْتُ لهُ شَهِيدًا أوْ شَفيعًا يومَ القيامةِ10

ان کی ایک آزاد کردہ لونڈی ان کے پاس آئی اور ان سے کہنے لگی میں گردشِ زمانہ کی شکار ہوں اور عراق جانا چاہتی ہوں، تو انہوں نے کہا: تو شام کیوں نہیں چلی جاتی جو حشر و نشر کی سرزمین ہے اور صبر کر اے نالائق! کیونکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جس نے مدینہ کی سختی اور تنگی معیشت پر صبر کیا تو میں قیامت کے دن اس کے لیے گواہ یا سفارشی بنوں گا۔

اسی طرح حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّكم تُحْشرونَ رِجالًا و رُكْبانًا ، وتُجَرُّونَ علَى وجوهِكم ههنا وأومَأَ بِيَدِهِ نحوَ الشامِ11

ترجمہ : تم سوار، پیدل اور منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے اکٹھے کیے جاؤ گے ،آپ ﷺ نے یہ کہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے ملکِ شام کی طرف اشارہ کیا ‘‘

ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

الشامُ أرضُ المحشرِ و المنشرِ12

ترجمہ : سرزمینِ شام حشر و نشر کی سرزمین ہے۔

امام مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

أي البقعة التي يجمع الناس فيها إلى الحساب وينشرون من قبورهم ثم يساقون إليها ، وخصت بذلك لأنها الأرض التي قال الله فيها : بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ ( سورۃ الأنبیاء: 71) وأكثر الأنبياء بعثوا منها فانتشرت في العالمين شرائعهم فناسب كونها أرض المحشر والمنشر13

ترجمہ : یعنی وہ مقام ہے جہاں لوگوں کو حساب کے لیے جمع کیا جائے گا اور لوگوں کو ان کی قبروں سے اٹھا کر اسی مقام  کی طرف لایا جائے گا ، اور شام کو اس لیے خاص کیا گیا ہے کیونکہ یہ وہ سرزمین ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (ہم نے اس میں تمام جہانوں کے لیے برکت دی ہے)۔ اور زیادہ تر انبیاء کرام اسی سرزمین سے بھیجے گئے اور یہیں سے دین کی دعوت دنیا میں پھیلی تو اس لیے مناسب تھا کہ شام کی سرزمین کو ارضِ محشر قرار دیا جائے ۔

5۔ فرشتوں کی نگرانی

قربِ قیامت سرزمینِ شام فرشتوں کی حفاظت اور نگرانی میں ہوگا ۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

كُنَّا عِندَ رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ نؤلِّفُ القرآنَ منَ الرقاعِ فقال رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليْهِ وسلَّمَ طوبى للشامِ فقلْنا لأيٍّ ذلك يا رسولَ اللهِ قال لأن ملائكةَ الرحمنِ باسطةٌ أجنحَتَها عليْها14

ترجمہ: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس کاغذ کے پرزوں سے قرآن کو مرتب کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا: خوشخبری ہے شام کیلئے ، صحابہ کرام کہتے ہیں کہ ہم نے کہا: وہ کیوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: شام پر اللہ کے فرشتوں نے (حفاظت کے لئے) اپنے پر پھیلا رکھے ہیں ۔

6۔ دین کے مددگار

فتنوں کے دور میں اہلِ شام دین کے مددگار ہوں گے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا:

إذا وقعتِ الملاحِمُ، بعثَ اللہُ من دمشق بعثًا منَ الموالي، هم أَكرَمُ العربِ فَرَسًا، وأجودُهُ سلاحًا، يؤيِّدُ اللہُ بِهمُ الدِّينَ15

ترجمہ : جب بڑی بڑی جنگیں ہونے لگیں گی تو اس وقت اللہ تعالیٰ دمشق سے نو مسلم لوگوں میں سے ایک لشکر کو بھیجے گا، وہ تمام عربوں میں عمدہ ترین شہسوار اور آلاتِ حرب کی مہارتِ تامّہ رکھنے والے ہوں گے۔ اللہ ان کے ذریعے دین کی مدد فرمائے گا ۔“

7۔ ایمان اور سلامتی کی سرزمین

 فتنوں کے دور میں شام کی سرزمین سلامتی اور ایمان کی سرزمین ہوگی ۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

بَينا أنا نائِمٌ إذ رَأيتُ عَمودَ الكِتابِ احتُمِلَ من تَحتِ رَأسي، فظَنَنتُ أنَّه مَذهوبٌ به، فأتبَعْتُه بَصَري، فعُمِدَ به إلى الشَّامِ، ألَا وإنَّ الإيمانَ حينَ تَقَعُ الفِتَنُ بالشَّامِ16

ترجمہ : ایک مرتبہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں میں نے کتاب (اسلام) کے ستونوں کو دیکھا کہ انہیں میرے سر کے نیچے سے اٹھایا گیا، میں سمجھ گیا کہ اسے لے جایا جا رہا ہے چنانچہ میری نگاہیں اس کا پیچھا کرتی رہیں پھر اسے شام پہنچا دیا گیا۔ یاد رکھو! جس زمانے میں فتنے رونما ہوں گے اس وقت ایمان شام میں ہوگا۔

یعنی قربِ قیامت مسلمانوں کا وطن شام ہو گا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آخری وقت میں شام کی سرزمین میں امن و ایمان کو استحکام ملے گا تاکہ جب مسلم ممالک میں ہر جگہ فتنہ برپا ہو جائے تو مومن اس کی طرف جا سکیں ۔

8۔ اللہ کی حفاظت میں

اہلِ شام اللہ کی حفاظت میں رہیں گے اور وہاں کے رہنے والوں کو اللہ فتنے کے ذریعہ ہلاک نہیں کرے گا۔ حضرت عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سيصيرُ الأمرُ إلى أن تَكونوا جُنودًا مجنَّدةً جُندٌ بالشَّامِ، وجندٌ باليمنِ و جُندٌ بالعراقِ قالَ ابنُ حوالةَ: خِر لي يا رسولَ اللہِ إن أدرَكْتُ ذلِكَ، فقالَ: عليكَ بالشَّامِ، فإنَّها خيرةُ اللہِ من أرضِهِ، يَجتبي إليها خيرتَهُ من عبادِهِ، فأمَّا إن أبيتُمْ، فعليكُم بيمنِكُم، واسقوا من غُدُرِكُم، فإنَّ اللہَ توَكَّلَ لي بالشَّامِ وأَهْلِهِ17

ترجمہ : عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ تم الگ الگ ٹکڑیوں میں بٹ جاؤ گے، ایک ٹکڑی شام میں، ایک یمن میں اور ایک عراق میں“۔ ابن حوالہ نے کہا: اللہ کے رسول(ﷺ)! مجھے بتائیے اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو کس ٹکڑی میں رہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے اوپر شام کو لازم کرلو، کیونکہ شام کا ملک اللہ کی بہترین سر زمین ہے، اللہ اس ملک میں اپنے نیک بندوں کو جمع کرے گا، اگر شام میں نہ رہنا چاہو تو اپنے یمن کو لازم پکڑنا اور اپنے تالابوں سے پانی پلانا کیونکہ اللہ نے مجھ سے شام اور اس کے باشندوں کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے ۔

9۔ سب سے بہترین لوگ

سرزمینِ شام کی طرف ہجرت کرنے والے دنیا کے سب سے بہترین لوگ ہوں گے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ستكونُ هجرةٌ بعدَ هجرةٍ، فخِيَارُ أهلِ الأرضِ أَلْزَمُهُم مُهَاجَرَ إبراهيمَ، ويَبْقَى في الأرضِ شِرَارُ أهلِها، تَلْفِظُهُم أَرْضُوهُم ، وتَقْذَرُهُم نَفْسُ اللهِ، وتَحْشُرُهُمُ النارُ مع القِرَدَةِ والخَنَازِيرِ18

ترجمہ : عنقریب یکے بعد دیگرے ہجرتیں ہوتی رہیں گی، بہترین اہلِ زمین وہ ہوں گے جو ابراہیم ‏‏‏‏علیہ السلام کی ہجرت گاہ (شام) کو لازم پکڑے رکھیں گے، اس وقت زمین میں بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے، ان کی زمین ان کو پھینک دے گی یعنی وہ ایک ملک سے دوسرے ملک بھاگتے پھریں گے، اللہ تعالیٰ ان سے نفرت کرے گا، آگ ان لوگوں کو بندروں اور خنزیروں کے ساتھ اکٹھا کرے گی۔

یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارضِ شام کی طرف ہجرت کی تھی ۔

10۔ عیسی علیہ السلام کا جائے نزول

قیامت کے قریب حضرت عیسی علیہ السلام عادل حکمران کے طور پر آسمان سے اتريں گے اور سر زمینِ شام میں نازل ہوں گے، سیدنا اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو یوں فرماتے ہوئے سنا:

 ينزل عيسى بن مريم عليهما السلام عند المنارةِ البيضاء شرقي دمشق19

قیامت کے قریب عیسی بن مریم علیہما السلام دمشق کے مشرقی جانب سفید مینار کے پاس آسمان سے اتریں گے۔

ایک اور حدیث کے اندر سیدنا نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک صبح رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

إذ بعثَ اللہُ عيسى ابنَ مريمَ، فينزلُ عندَ المَنارةِ البيضاءِ، شَرقيَّ دمشقَ، بينَ مَهْرودتينِ، واضعًا كفَّيهِ على أجنحةِ ملَكَينِ20

ترجمہ : جب اللہ تعالیٰ عیسی بن مریم علیہما السلام کو معبوث فرما دے گا تو وہ دمشق کے مشرقی جانب سفید مینار کے پاس آسمان سے اتریں گے۔ اس وقت وہ ہلکے زرد رنگ کی دو چادروں میں ملبوس ہوں گے اور اپنے دونوں ہاتھ دو فرشتوں کے بازوؤں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔

11۔ دجال کا جائے قتل

دجال شام ہی میں ہلاک ہو جائے گا ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:

الإيمانُ يمانٍ والْكفرُ من قبلِ المشرقِ والسَّكينةُ لأَهلِ الغنمِ والفخرُ والرِّياءُ في الفدَّادينَ أَهلِ الخيلِ وأَهلِ الوبرِ يأتي المسيحُ – أي الدجال- إذا جاءَ دبرَ أحدٍ صرفتِ الملائِكةُ وجْهَهُ قبلَ الشَّامِ وَهنالِكَ يَهلِكُ21

ترجمہ : ایمان یمن کی طرف سے نکلا ہے اور کفر مشرق (پورب) کی طرف سے، سکون و اطمینان والی زندگی بکری والوں کی ہے اور فخر و ریاکاری فدادین یعنی گھوڑے اور اونٹ والوں میں ہے، جب مسیح دجال احد کے پیچھے آئے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف پھیر دیں گے اور شام ہی میں وہ ہلاک ہو جائے گا“۔

12 ۔  مؤمنوں کا جائے قرار

ارضِ شام مؤمنوں کا جائے قرار ہوگا ، سلمہ بن نفیل کندی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں  کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ولا يزالُ من أمَّتي أمةٌ يقاتِلونَ على الحقِّ، ويزيغُ اللہُ لَهم قُلوبَ أقوامٍ، ويرزقُهم منْهم حتَّى تقومَ السَّاعةُ وحتَّى يأتِيَ وعدُ اللہِ  والخيلُ معقودٌ في نواصيها الخيرُ إلى يومِ القيامَةِ، وَهوَ يوحي إليَّ أنِّي مقبوضٌ غيرُ ملبَّثٍ، وأنتم تتَّبعوني أفنادًا يضربُ بعضُكم رقابَ بعضٍ، وعقرُ دارِ المؤمنينَ الشَّامُ22

ترجمہ : میری امت میں سے ایک جماعت حق کی خاطر ہمیشہ برسرِ پیکار رہے گی اور اللہ تعالیٰ کچھ قوموں کے دلوں کو ان کی خاطر کجی میں مبتلا رکھے گا اور انہیں (اہلِ حق کو) ان ہی (گمراہ لوگوں) کے ذریعہ روزی ملے گی ۔ یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، جب تک اللہ کا وعدہ (متقیوں کے لیے جنت اور مشرکوں و کافروں کے لیے جہنم) پورا نہ ہو جائے گا، قیامت تک گھوڑوں کی پیشانیوں میں بھلائی (خیر) بندھی ہوئی ہے اور مجھے بذریعہ وحی یہ بات بتا دی گئی ہے کہ جلد ہی میرا انتقال ہو جائے گا اور تم لوگ مختلف گروہوں میں بٹ کر میری اتباع (کا دعویٰ) کرو گے اور حال یہ ہوگا کہ سب (اپنے متعلق حق پر ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود) ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہوں گے اور مسلمانوں کے گھر کا آنگن شام ہو گا“(جہاں وہ کشادگی سے رہ سکیں گے)

13۔ خلافت کا قیام

قربِ قیامت ارضِ شام میں ہی خلافت کا قیام ہوگا ، عبد اللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يا ابنَ حوالةَ، إذا رأيتَ الخلافةَ قد نزَلَت أرضَ المقدَّسةِ فقَد دنَتِ الزَّلازِلُ والبَلابلُ والأمُورُ العِظامُ، والسَّاعةُ يومَئذٍ أقرَبُ منَ النَّاسِ من يدي هذِهِ من رأسِكَ23

اے ابنِ حوالہ ! جب تم دیکھو کہ خلافت ارضِ مقدس ( شام ) تک پہنچ گئی ہے تو زلزلے آنے لگیں گے ‘ مصیبتیں ٹوٹیں گی ۔اور بھی بڑی بڑی علامتیں ظاہر ہوں گی اور قیامت اس وقت لوگوں کے اس سے زیادہ قریب ہوگی جتنا کہ میرا ہاتھ تمہارے سر سے قریب ہے ۔

14۔ آخری پناہ گاہ

قربِ قیامت شام کی سرزمین ہی ایمان والوں کی آخری پناہ گاہ ہوگی ، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

ستَخرُجُ نارٌ من حَضرموتَ أو من نحوِ بحرِ حضرموتَ قبلَ يومِ القيامةِ تَحشُرُ النَّاسَ قالوا : يا رسولَ اللَّهِ ، فما تأمُرُنا ؟ فقالَ: عليكُم بالشَّامِ24

ترجمہ: قیامت سے پہلے حضرموت یا حضرموت کے سمندرکی طرف سے ایک آگ نکلے گی جو لوگوں کو اکٹھا کرے گی ، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول(ﷺ)! اس وقت آپ ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم شام چلے جانا۔

15۔ مسلمانوں کا مرکز

قربِ قیامت شام کا شہر دمشق مسلمانوں کا مرکز ہوگا ۔ سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

إنَّ فُسطاطَ المسلمين ، يومَ الملحمةِ ، بالغُوطةِ إلى جانبِ مدينةٍ يُقالُ لها: دمشقُ ، من خيرِ مدائنِ الشَّامِ25

ترجمہ : جنگ کے موقع پر مسلمانوں کا خیمہ ( مرکز ) دمشق نامی شہر کی جانب میں واقع مقام غوطہ ہوگا اور دمشق شام کے بہترین شہروں میں سے ہوگا۔

16۔ مقامِ طائفہ منصورہ

سر زمینِ شام ہی وہ مقام ہوگا جہاں طائفہ منصورہ کا قیام ہوگا ۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا تَزالُ طائفةٌ مِن أُمَّتي على الحَقِّ ظاهرينَ، وإنِّي لأرجو أنْ تَكونوهم يا أهلَ الشَّامِ26

ترجمہ: میری امت کی ایک جماعت حق پر غالب رہے گی اور مجھے امید ہے کہ اے شام والو! تم اس جماعت میں سے ہوگے۔

17۔ اللہ تعالی کی خصوصی مدد

اہلِ شام کو اللہ تعالی کی خصوصی مدد حاصل رہے گی، چنانچہ سیدنا معاویہ اپنے باپ سیدنا قرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إذا فسدَ أَهْلُ الشَّامِ فلا خيرَ فيكم : لا تَزالُ طائفةٌ من أمَّتي منصورينَ لا يضرُّهم من خذلَهُم حتَّى تقومَ السَّاعةُ27

ترجمہ: جب اہلِ شام فساد کا شکار ہو جائیں تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں۔ میری امت میں سے ایک طبقہ نصرت مند رہے گا، جو لوگ ان کو بے یار و مددگار چھوڑیں گے وہ ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے، یہاں تک کہ قیامت آ جائے“۔

18۔ اللہ تعالی کی منتخب زمین اور منتخب بندے

شام اللہ تعالی کی منتخب زمین اور وہاں اللہ کے منتخب بندے رہیں گے۔ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

صَفوةُ اللهِ من أرضِه الشَّامُ ، و فيها صَفْوتُه من خلقِه و عبادِه ، و لَيدْخُلَنَّ الجنةَ من أمَّتِي ثُلَّةٌ لا حِسابَ عليهم و لا عذابَ28

ترجمہ : شام اللہ تعالی کی منتخب سرزمین ہے، وہاں اللہ کی پسندیدہ مخلوق اور پسندیدہ بندے رہائش پذیر ہیں اورمیری امت کی ایک جماعت جنت میں اس طرح داخل ہوگی کہ ان کا نہ حساب لیا جائے گا اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا عذاب ہوگا۔

منتخب سرزمین اور منتخب بندوں كا معنی

کسی سرزمین کا اللہ تعالی کے نزدیک منتخب ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہاں اعمالِ خیر بکثرت ادا کیے جائیں گے اور بندوں کا اللہ کے نزدیک منتخب ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ اللہ کے طاعت شعار اور عبادت گزار بندے ہوں گے۔ نیز اس حدیث کے اسلوب سے یہ بھی پتا چلتا ہے یہ مبارک جماعت جس کا ذکر اس حدیث کے آخر میں کیا گیا ہے ان میں سے اکثر اہلِ شام یا شام کے باشندے ہوں گے۔29

19۔ پانی صرف شام میں دستیاب ہوگا

آخری زمانے میں پانی صرف شام میں میسر ہوگا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يُوشِكُ أن تطلبُوا في قُراكم هذه طستًا من ماءٍ فلا تجدونَه، ينزوي كلُّ ماءٍ إلى عنصرِه؛ فيكونُ في الشامِ بقيةُ المؤمنين والماءِ30

ترجمہ: قریب ہے کہ تم ان بستیوں میں ایک پیالہ پانی کا تلاش کرو، لیکن کامیاب نہ ہو سکو۔ یعنی سارے کا سارا پانی اپنی اصل کی طرف سکڑ جائے گا اور باقی ماندہ مومن اور پانی شام میں ہوں گے۔

20۔ صحابہ کرام و اسلافِ امت کا مرکز

انبیاء کرام کے بعد سرزمینِ شام اسلام کا مرکز و محور اور صحابہ کرام و اسلافِ امت کا مسکن رہی ہے، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک لمبے عرصے تک دار الخلافہ یہی سرزمین رہی! شیخ الاسلام ابن تیمیہ، شیخ الاسلام ابن قیم، حافظ ذہبی، حافظ ابن کثیر رحمہم اللہ وغیرہم کثیرا کا تعلق بھی دمشق سے تھا۔

اسی سرسبز و شاداب سرزمین میں امام نووی شارحِ صحیح مسلم، شیخ الاسلام ابنِ تیمیہ ، علامہ ابن القیم ، حافظ ابنِ عساکر اور حافظ ابنِ حجر عسقلانی وغیرہ جیسے علماء و فضلاء پیدا ہوئے ۔ یہاں بہت سارے انبیاء ، بہت سارے علماء و محدثین اور بہت سارے صحابہ کرام مدفون ہیں۔

21۔اقتصادی پابندی کی پیشین گوئی :

ملکِ شام پر اہلِ روم کی طرف سے اقتصادی پابندیاں عائد کی جائیں گی ۔ سید نا ابو نضرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ کے پاس تھے کہ انہوں نے فرمایا:

يُوشِكُ أَهْلُ الْعِرَاقِ أَنْ لَا يُجْبَى إِلَيْهِمْ قَفِيْرٌ وَلَا دِرْهَمْ، قُلْنَا مِنْ أَيْنَ ذَلِكَ؟ قَالَ : مِنْ قِبَلِ الْعَجَمِ يَمْنَعُوْنَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ : يُوْشِكُ أَهْلُ الشَّامِ أَنْ لَا يُجْنِي إِلَيْهِمْ دِينَارٌ وَلَا مُدَى قُلْنَا مِنْ أَيْنَ ذَلِكَ؟ قَالَ : مِنْ قِبَلِ الرُّوْمِ31

قریب ہے کہ اہلِ عراق کے لیے ان کا قفیز (پیمانہ) اور درہم (چاندی کی کرنسی) کوئی فائدہ نہ دے۔ ہم نے پوچھا: یہ کیسے ممکن ہوگا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ غیر عرب (عجم) کی طرف سے ہوگا جو ان سب چیزوں کو روک دیں گے۔ پھر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قریب ہے کہ اہلِ شام کے لیے ان کا دینار (سونے کی کرنسی) اور مدی (پیمانہ) بھی کوئی فائدہ نہ دے۔ ہم نے پوچھا: ایسا کیسے ہوگا؟ تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ یہ اہلِ روم کی طرف سے ہوگا۔

22۔ رحمت و فضلِ الہی کی ٹھنڈی ہوائیں

قربِ قیامت سرزمینِ شام سے ٹھنڈی ہوائیں چلیں گی جو اللہ تعالی کی طرف سے اہلِ ایمان کے لیے رحمت و فضل کا باعث ہوں گی ۔ عبداللہ بن عمرو بن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يَخْرُجُ الدَّجَّالُ فِي أُمَّتِي فَيَمْكُثُ أَرْبَعِينَ – لَا أَدْرِي : أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ أَرْبَعِينَ شَهْرًا، أَوْ أَرْبَعِينَ عَامًا فَيَبْعَثُ اللهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ كَأَنَّهُ عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، فَيَطْلُبُهُ فَيُهْلِكُهُ، ثُمَّ يَمْكُتُ النَّاسُ سَبْعَ سِنِينَ، لَيْسَ بَيْنَ اثْنَيْنِ عَدَاوَةٌ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللهُ رِيحًا بَارِدَةً مِنْ قِبَلِ الشَّامِ، فَلَا يَبْقَى عَلَى وَجْهِ الْأَرْضِ أَحَدٌ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِنْ خَيْرٍ أَوْ إِيمَانٍ إِلَّا قَبَضَتْهُ، حَتَّى لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ دَخَلَ فِي كَبِدِ جَبَلٍ لَدَخَلَتْهُ عَلَيْهِ،حَتَّى تَقبِضَه32

ترجمہ: دجال میری امت میں چالیس تک رہے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ چالیس سے مراد چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال ہیں۔ پھر اللہ تعالی عیسی بن مریم علیہ السلام کو بھیجیں گے جو عروہ بن مسعود سے مشابہ ہوں گے۔ پس وہ دجال کو تلاش کریں گے اور اسے قتل کریں گے۔ پھر لوگ سات سال تک اس حال میں رہیں گے کہ دو آدمیوں کے مابین بھی دشمنی نہ ہوگی ۔ پھر اللہ تعالیٰ شام کی طرف سے ایک ٹھنڈی ہوا بھیجیں گے اور دنیا میں کوئی بھی ایسا شخص باقی نہ رہے گا کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان یا خیر ہو چاہے وہ پہاڑ کی کھوہ میں ہی داخل کیوں نہ ہو جائے وہاں بھی وہ ہوا گھس کر اس کی روح قبض کرلے گی ۔“

یعنی قیامت کی سختیاں شروع ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالی اپنے نیک بندوں کو اٹھا لیں گے۔

23۔ سرزمینِ شام کا نورانی نظارہ

سرزمینِ شام وہ پاکیزہ سر زمین ہے جسے رسول اللہ ﷺ کی ولادت کے وقت ہی آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ کو اس كی زیارت كرائی گئی ،چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

يا نَبيَّ اللهِ، ما كان أوَّلُ بَدءِ أمْرِكَ؟ قال: دَعْوةُ أبي إبراهيمَ، وبُشرى عيسى، ورَأَتْ أُمِّي أنَّه يَخرُجُ منها نورٌ أضاءَتْ منه قُصورُ الشَّامِ33

میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول ﷲ(ﷺ)! آپ کی نبوتِ مبارکہ کی شروعات کیسے ہوئی؟ رسول االلہ ﷺ نے فرمایا : میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور عیسی علیہ السلام کی بشارت ہوں۔ اور (میری ولادت کے وقت) میری والدہ ماجدہ نے دیکھا کہ اُن کے جسمِ اَطہر سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔‘‘

نبی اکرم ﷺ کی ولادت کے وقت شام کا یہ نورانی مظاہرہ اس بات کی دلیل ہے کہ  سرزمینِ شام ایک مقدس مقام ہے اور یہ ایک روحانی اور دینی مرکز ہے۔

امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں :

وتخصيص الشام بظهور نوره : إشارة إلى استقرار دينه، ونبوته ببلاد الشام . ولهذا تكون الشام في آخر الزمان معقلاً للإسلام وأهله، وبها ينزل عيسى ابن مريم34

ترجمہ: شام کو نور کے ظہور کے لیے خاص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سرزمین پر اللہ کے دین اور اس کی نبوت کو مضبوطی حاصل ہوگی۔

یہی وجہ ہے کہ آخری زمانے میں شام اسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بنے گا اور یہی وہ مقدس مقام ہوگا جہاں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے۔

24۔ یا جوج و ماجوج کی جائے قتل

قیامت سے پہلے سرزمینِ شام یاجوج و ماجوج کی قتل گاہ بن جائے گی ۔ سیدنا عبد الله بن عمر رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :

ثُمَّ يَسِيرُونَ حَتَّى يَنْتَهُوا إِلَى جَبَلِ الْخَمَرِ، وَهُوَ جَبَلُ بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَيَقُولُونَ : لَقَدْ قَتَلْنَا مَنْ فِي الْأَرْضِ هَلُمَّ فَلَنَقْتُلْ مَنْ فِي السَّمَاءِ، فَيَرْمُونَ بِنُشَّابِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرُدُّ اللهُ عَلَيْهِمْ نُشَّابَهُمْ مَخْضُوبَةً دَمًا35

پھر یاجوج اور ماجوج چل پڑیں گے اور خمر نامی پہاڑ کے پاس جا پہنچیں گے اور یہ پہاڑ بیت المقدس والا پہاڑ ہے ( جب وہاں پہنچیں گے ) تو کہیں گے جو لوگ زمین پر تھے انہیں تو ہم قتل کر چکے ، چلو اب جو آسمان پر ہے اُسے قتل کریں ، یہ کہتے ہوئے وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے تو اللہ ان کے تیروں کو خون کی طرح سُرخ کرکے اُن کی طرف پلٹا دے گا۔

پھر یاجوج اور ماجوج چل پڑیں گے اور خمر نامی پہاڑ کے پاس جا پہنچیں گے اور یہ پہاڑ بیت المقدس والا پہاڑ ہے ( جب وہاں پہنچیں گے ) تو کہیں گے جو لوگ زمین پر تھے انہیں تو ہم قتل کر چکے ، چلو اب جو آسمان پر ہے اُسے قتل کریں ، یہ کہتے ہوئے وہ اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے تو اللہ ان کے تیروں کو خون کی طرح سُرخ کرکے اُن کی طرف پلٹا دے گا۔

خلاصہ کلام

معزز قارئینِ محترم ! بلادِ شام کی فضیلت اور اہمیت پر اہلِ ایمان کو بار بار ترغیب دی گئی ہے کہ وہ اس مقدس سرزمین کی طرف ہجرت کریں۔ قیامت تک شام کو اللہ کی نصرت اور مسلمانوں کی علمی و سیاسی قیادت کا مرکز قرار دیا گیا ہے۔ اس سرزمین میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور امام مہدی کا ظہور بھی متوقع ہے۔ یہ تعلیمات اُمتِ مسلمہ کے عروج کے دوران شام کے اہم کردار کو واضح کرتی ہیں، جو اس کی تقدیر اور مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کن ثابت ہوگی۔ اللہ تعالی شام کے مسلمانوں کی مدد فرمائے ۔

_______________________________________________________________________________________________________________

  1. (الأنبیاء: 71)
  2. (جامع البیان عن تأویل آی القرآن، الأنبیاء: 71)
  3. (تفسیر سعدی ، الأنبیاء: 71)
  4. ( الانبياء: 81)
  5. (تفسیر قرطبی: 322/11)
  6. (صحيح البخاري: 7094)
  7. (فيض القدير للمناوي: 4 /171 )
  8. (أخرجه البخاري: 1339، ومسلم: 2372)
  9. (فتح الباري: 264/3)
  10. (سنن الترمذی: 3918، وقال الألباني: صحیح)
  11. (صحيح الجامع: 2302)
  12. (صحيح الجامع: 3726)
  13. (فيض القدير للمناوي: 4 / 171)
  14. (صحيح الترمذي: 3954)
  15. (صحيح ابن ماجه: 3303 ، والسلسلة الصحيحة :2777)
  16. (صحيح الترغيب: 3094)
  17. (صحيح أبي داود: 2483)
  18. (السلسلة الصحيحة: 3203)
  19. (صحيح الجامع: 8169)
  20. (صحیح مسلم :2937)
  21. (صحيح الترمذي: 2243)
  22. (صحيح النسائي: 3563)
  23. (صحيح أبي داود: 2535، وصحيح الجامع :7838)
  24. (صحيح الترمذي: 2217)
  25. (صحيح أبي داود: 4298)
  26. (تخريج المسند لشعيب الأرناؤوط: 19290 بإسناد صحيح)
  27. (صحيح الترمذي: 2192، والسلسلة الصحیحة:403)
  28. (صحيح الجامع: 3765، والسلسلة الصحیحة؛1909)
  29. (التنویر شرح الجامع الصغیر: 6/584)
  30. (السلسلة الصحيحة: 3078)
  31. (صحیح مسلم: 2913)
  32. (صحیح مسلم: 2940)
  33. (تخريج المسند لشعيب الأرناؤوط: 22261، بإسناد صحیح ، وصححه الحاکم: 3566، و ابن حبان: 6404، و الألباني في السلسلة الصحیحة: 383،1925)
  34. (تفسير ابن کثیر: 1/444)
  35. (صحیح مسلم: 2937)
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ

Recent Posts

اللہ تعالیٰ سے یہ رزق ضرور مانگیں!

اللہ تعالی سے کس رزق کا سوال کریں؟ رزق خاص اور رزق عام سے کیا…

4 days ago

شب برات منانا، عبادت یا بدعت؟

ماہِ شعبان میں پیارے نبی کریم ﷺ کا کیا معمول تھا؟ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا…

1 week ago

چھوٹے اعمال، بڑا ثواب!

نبی کریم ﷺ نے 40 چھوٹے اعمال میں سب سے بڑی نیکی کیا بیان فرمائی؟…

1 week ago

پانی کب ناپاک ہوتا ہے؟

پانی کی وہ کونسی تین صفات ہیں، جن میں کسی ایک کی تبدیلی سے پانی…

2 weeks ago

کیا نبی کریم ﷺ علم غیب جانتے تھے؟

علمِ غیب کسے کہتے ہیں؟ عالم الغیب سے کیا مراد ہے؟ کیا نبی کریم ﷺ…

2 weeks ago

کیا کافر کی موت پر RIP کہنا جائز ہے؟

غیر مسلموں سے متعلق غامدی صاحب کے قرآن و سنت سے متصادم نظریات! کیا غیر…

2 weeks ago