روزے کی مشروعیت میں حکمت
پہلا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بجا لاتے ہیں، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور ہم اپنے نفس کی برائیوں اور اپنے برے اعمال سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرنے والا اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو! جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تم ہرگز نہ مرو مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو۔ اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ۔ اور اللہ سے ڈرو جس کے واسطے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور رشتوں سے بھی، بے شک اللہ ہمیشہ تم پر پورا نگہبان ہے۔
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور سیدھی بات کیا کرو۔ اللہ تعالی تمہارے اعمال کو درست کر دے گا اور تمہارے گناہ کو معاف کر دے گا اور جس شخص نے اللہ اور اس کے رسول کا کہا مان لیا اس نے بڑی کامیابی حاصل کر لی۔
اما بعد!
میں خود کو اور آپ سب کو اس چیز کی نصیحت کرتا ہوں جو سب سے بڑی نصیحت ہے اور اس خوبصورت چیز کی جس سے بندہ آراستہ ہوتا ہے اور اس بہترین چیز کی جس پر دل قائم رہتا ہے اور وہ تقوی ہے، اس شخص کے لیے جو دنیا میں فخر و عزت اور آخرت میں ذخیرہ چاہتا ہو اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا وہ اس سے اس کی برائیاں دور کر دے گا اور اسے بڑا اجر دے گا۔
مومن بھائیوں اور بہنوں
آپ سب کو اس عظیم مہینے کے آنے اور اس کے قیمتی وقت کو پانے پر مبارک ہو۔ آپ کو اس کے گھنے باغوں کے سائے میں آرام حاصل کرنے اور اس کے چشموں سے سیراب ہونے پر مبارک ہو۔ یہ ایک عظیم زمانہ ہے جس کی رات اور دن کی روشنیاں چمک رہی ہیں اور اس کے پھول اپنی کلیوں سے کھل اٹھے ہیں۔ اللہ تعالی نے اس مہینے کے ذریعے امت مسلمہ پر اپنا خاص فضل و احسان فرمایا اور اسے مہینوں کا تاج اور اہل ایمان کے لیے تجارت کا موسم اور دنوں کا بہار بنایا۔ رمضان کے مہینے کو پانا ایک عظیم نعمت ہے جو اس کے عطا کرنے والے اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کا تقاضا کرتی ہے۔
ارشادِ باری تعالی ہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۗ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَىٰ مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ1
ترجمہ: رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو لوگوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ہدایت کی اور (حق و باطل میں) فرق کرنے کی واضح دلیلیں ہیں، تو تم میں سے جو اس مہینے میں حاضر ہو وہ اس کا روزہ رکھے اور جو بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرنا ہے۔ اللہ تمھارے ساتھ آسانی کا ارادہ رکھتا ہے اور تمھارے ساتھ تنگی کا ارادہ نہیں رکھتا اور تاکہ تم گنتی پوری کرو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو، اس پر جو اس نے تمھیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو۔
چنانچہ اس بابرکت مہینے کو پانا ایک نعمت ہے جس کی طرف اللہ نے آیت کے اختتام پر اشارہ فرمایا ہے اور یہ ایک ایسی عظیم نعمت ہے جو اللہ تعالی کا ظاہر ہے اور باطن شکر بجا لانے کا تقاضا کرتی ہے کیونکہ یہ ایک بابرکت زمانے اور فضیلت والے وقت کو پانا ہے جس میں بندہ اللہ کے قرب کی منزلیں طے کرتا ہے اور اپنے رب کی طرف سفر طے کرتا ہے جو دیگر اوقات میں میسر نہیں آتا کیونکہ اگرچہ اس کا وقت مختصر ہوتا ہے لیکن اس میں اطاعت اور بندگی کے دروازے کھل جاتے ہیں اور خیر و بھلائی کے اسباب وسیع ہو جاتے ہیں۔
عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَجُلَيْنِ مِنْ بَلِيٍّ قَدِمَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ إِسْلَامُهُمَا جَمِيعًا، فَكَانَ أَحَدُهُمَا أَشَدَّ اجْتِهَادًا مِنَ الْآخَرِ، فَغَزَا الْمُجْتَهِدُ مِنْهُمَا فَاسْتُشْهِدَ، ثُمَّ مَكَثَ الْآخَرُ بَعْدَهُ سَنَةً، ثُمَّ تُوُفِّيَ، قَالَ طَلْحَةُ: فَرَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ: بَيْنَا أَنَا عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ، إِذَا أَنَا بِهِمَا، فَخَرَجَ خَارِجٌ مِنَ الْجَنَّةِ، فَأَذِنَ لِلَّذِي تُوُفِّيَ الْآخِرَ مِنْهُمَا، ثُمَّ خَرَجَ، فَأَذِنَ لِلَّذِي اسْتُشْهِدَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيَّ، فَقَالَ: ارْجِعْ، فَإِنَّكَ لَمْ يَأْنِ لَكَ بَعْدُ، فَأَصْبَحَ طَلْحَةُ يُحَدِّثُ بِهِ النَّاسَ، فَعَجِبُوا لِذَلِكَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدَّثُوهُ الْحَدِيثَ، فَقَالَ: «مِنْ أَيِّ ذَلِكَ تَعْجَبُونَ؟» فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا كَانَ أَشَدَّ الرَّجُلَيْنِ اجْتِهَادًا، ثُمَّ اسْتُشْهِدَ، وَدَخَلَ هَذَا الْآخِرُ الْجَنَّةَ قَبْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَلَيْسَ قَدْ مَكَثَ هَذَا بَعْدَهُ سَنَةً؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ: «وَأَدْرَكَ رَمَضَانَ فَصَامَ، وَصَلَّى كَذَا وَكَذَا مِنْ سَجْدَةٍ فِي السَّنَةِ؟» قَالُوا: بَلَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فَمَا بَيْنَهُمَا أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ2
ترجمہ: طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: انہوں نے فرمایا: قبیلہ بَلِیِّ کے دو آدمی رسول اللہ ﷺ کے پاس (ہجرت کرکے مدینہ) آگئے۔ وہ دونوں اکٹھے مسلمان ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت (نیکی کے کاموں میں) زیادہ محنت کرنے والا تھا، چنانچہ اس محنت کرنے والے نے جہاد کیا اور شہید ہوگیا۔ دوسرا آدمی اس کے بعد ایک سال تک زندہ رہا، پھر وہ فوت ہو گیا۔ حضرت طلحہ نے فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوں۔ اچانک دیکھا کہ وہ دونوں بھی وہاں موجود ہیں۔ جنت سے ایک آدمی باہر آیا اور اس نے بعد میں فوت ہونے والے کو (جنت میں جانے کی) اجازت دے دی۔ (کچھ دیر بعد) وہ پھر نکلا اور شہید ہونے والے کو اجازت دے دی۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر کہا: واپس چلے جاؤ ، ابھی آپ کا وقت نہیں آیا۔ صبح ہوئی تو طلحہ نے لوگوں کو خواب سنایا۔ انہیں اس پر تعجب ہوا۔ رسول اللہﷺ کو بھی معلوم ہوا اور لوگوں نے نبیﷺ کو (تفصیل سے خواب کی) بات سنائی۔ آپ نے فرمایا: تمہیں کس بات پر تعجب ہے؟ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! دونوں میں یہ شخص زیادہ محنت والا تھا، پھر اسے شہادت بھی نصیب ہوئی لیکن جنت میں دوسرا اس سے پہلے چلا گیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ (دوسرا) اس (پہلے) کے بعد ایک سال تک زندہ نہیں رہا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: اس نے رمضان کا مہینہ پایا اور اس میں روزے رکھے اور سال میں اتنی اتنی رکعت نماز پڑھی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ان دونوں (کے درجات) میں تو آسمان و زمین کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ فرق ہے‘‘
مومن بھائیوں اور بہنوں
رمضان المبارک ایسا مہینہ ہے جس میں دل اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، بوجھل روحیں اس میں اپنا پڑاؤ ڈالتی ہیں، لمبے سفر کے بعد اپنے بوجھ اور بھار کو اتار دیتی ہیں اور پیاسی روحیں اس کے شیریں چشمے سے سیراب ہوتی ہیں اور سفر کی تھکاوٹ اور گرمی کی شدت کے بعد اس کی ٹھنڈی چھاؤں میں لطف حاصل کرتی ہیں کیونکہ مومن بندہ چاہے اللہ سے کتنا ہی دور کیوں نہ ہو جائے، اس کا دل کتنا سرد کیوں نہ ہو اور اس کی آنکھیں کتنی خشک کیوں نہ ہو جائیں، اس کے دل کے اندر خیر و بھلائی کے جذبات اور نیکی کی ترغیبیں ہمیشہ ذکر کے باغوں کی مشتاق رہتی ہیں اور اللہ سے دوری کی وحشت سے کراہتی اور تڑپتی ہیں۔
رمضان المبارک میں دلوں کے اللہ کی طرف رجوع کرنے، اس کی اطاعت و بندگی سے انسیت حاصل کرنے، اس کے قرب کی نعمت سے لطف اندوز ہونے ، اس سے مناجات کی لذت پانے اور اعضاء و جوارح کا اس کی رضا میں مشغول ہونے کے راز میں سے یہ ہے کہ اللہ نے اس مہینے میں خیر کے دروازے کھول دیے ہیں، رحمتوں کے اسباب مہیا کر دیے ہیں اور برکتوں کے بادل برسا دیے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا كَانَتْ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ صُفِّدَتْ الشَّيَاطِينُ وَمَرَدَةُ الْجِنِّ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ وَنَادَى مُنَادٍ يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ أَقْبِلْ وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ أَقْصِرْ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنْ النَّارِ وَذَلِكَ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ3
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں ان میں سے کوئی دروازہ کھلا نہیں رہتا اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں رہتا۔ اور ایک اعلان کرنے والا منادی کرتا ہے: اے نیکی کے طلب گار! آگے بڑھ اور اے برائی کے طلب گار! رک جا۔ اور اللہ تعالیٰ جہنم سے( بعض) لوگوں کو آزاد کرتا ہے۔( رمضان میں) ہر رات اسی طرح ہوتا ہے
ماہِ رمضان قرآن کا مہینہ ہے کیونکہ اس مہینے میں قرآن کی آیات نازل ہوئی اور اس مہینے میں اللہ تعالی برکتیں نازل کرتا ہے۔ تو تعجب کی بات نہیں کہ یہ رب العالمین کا کلام ہے اور یہ روح اور باطنوں پر خیر و برکت کی ایسی بارش برسائے جس کا اثر اعضاء و جوارح اور ظاہر پر نمایاں ہو ۔
قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ، وَأَجْوَدَ النَّاسِ، وَأَشْجَعَ النَّاسِ4
’’ترجمہ: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ خوبصورت، سب سے زیادہ سخی اور سب سے زیادہ بہادر تھے ‘‘
یہ وہ مہینہ ہے جس میں نفس کے بندھن اور اس کی سرکشی توڑ دی جاتی ہے، اس کی خواہشات اور شہوات کو لگام لگائی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اپنی رکاوٹوں اور تعلقات سے آزاد ہو کر عبادات و اطاعت کے میدانوں میں اپنے خالق کی طرف بڑھتا ہے۔ پس مبارک ہو اسے، جس نے اس کی گھڑیوں کو پایا اور اس کے لمحہات سے فائدہ اٹھایا اور اپنے مالک کی اطاعت اور اس کی رضا مندی کے حصول کے لیے کوشش کی۔ اللہ میرے اور آپ کے لیے ماہِ رمضان کو بابرکت بنائے ہمیں قرآن اور سنت سے فائدہ پہنچائے اور احسان کے مقامات تک پہنچائے۔
میں وہی کہتا ہوں جو آپ نے سنا اور میں اپنے لیے اور آپ کے لیے اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اس سے آپ مغفرت طلب کریں۔ بے شک وہ بہت زیادہ معاف کرنے والا، بہت بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس کی حمد و ثنا اس کی عطا کردہ انعام اور بخشش میں سے ہے اور اس کی نعمتوں پر شکر ادا کرنا اس کی نعمتوں میں سے ہے۔
میں اس کی حمد بیان کرتا ہوں اس شخص کی طرح جو اس کی نعمتوں کے حق کو پہچانتا ہو اور اس کی حمد و ثنا کو شمار کرنے سے اپنی عاجزی کا اعتراف کرتا ہو۔ میں اس کی تعریف اس طرح کرتا ہوں جیسے ایک محتاج کرے جو ہر لمحے اس کے سہارے رہتا ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ اپنی الوہیت، ربوبیت اور اسماء و صفات میں کامل ہے اور کامل و پاکیزہ درود و سلام نازل ہو اس کے برگزیدہ بندے، تمام رسولوں کے سردار اور آخری نبیﷺ پر، اللہ تعالی درود و سلام نازل فرمائے آپﷺ پر، آپﷺ کے آل و اصحاب پر جو ہدایت کے چراغ اور آسمان کے روشن ستارے تھے اور ان لوگوں پر جنہوں نے اخلاص کے ساتھ ان کی اتباع کی جب تک بادل اپنی بارش برساتے رہیں اور بارش کے قطرے زمین پر گرتے رہیں۔
اما بعد
مومن بھائیوں اور بہنوں
بے شک رمضان کے مہینے میں ایسے عظیم شرعی مقاصد اور احداف پوشیدہ ہیں جو ایک مومن کو اس حکیمانہ ربانی شریعت کی تعظیم میں رک جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی درسگاہ ہے جہاں نفسوں کی تربیت ہوتی ہے، اخلاق کی پاکیزگی ہوتی ہے، خواہشات اور شہوات پر لگام لگائی جاتی ہے اور روح صبر و تحمل اور خوبصورتی کا لباس پہن لیتی ہے۔ یہ مقصد اور اثر غیر رمضان میں جائز خواہشات سے رک جانے سے کہیں زیادہ گہرا اور وسیع اثر رکھتا ہے جو فرد اور معاشرے دونوں پر نفسیاتی اور اخلاقی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِهِ فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ فِي أَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ5
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور دغا بازی کرنا ( روزے رکھ کر بھی ) نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے
بے شک روزے کی فرضیت کے عظیم ترین مقاصد میں سے ایک یہ ہے کہ اس میں بندگی اور ایمان کی سچائی پوری ہوتی ہے اور بندہ احسان کے درجے تک پہنچتا ہے جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا :
الْإِحْسَان : أَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ6
ترجمہ: احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ سکتے وہ تمہیں دیکھ رہا ہے
روزہ ایک پوشیدہ عبادت ہے۔ یہ بندے اور اس کے رب کے درمیانی خفیہ اطاعت ہے۔ یہ ایسی عبادت ہے جس میں اللہ کے لیے اخلاص کے معنی پورے ہوتے ہیں، اس کی بندگی و سچائی ظاہر ہوتی ہے اور ہر حال میں اس کی نگرانی کا شعور پیدا ہوتا ہے چاہے لوگ موجود ہوں یا نہ ہوں۔ ظاہری طور پر آسود کی وجہ سے بھوکا رہنے والا اللہ کی رضا اور تقرب کے لیے روزہ رکھنے والے کی طرح معلوم ہوتا ہے، اسی لطیف معنی اور بلند مقصد کی وجہ سے اللہ تعالی نے اس عبادت کو اپنے ساتھ خاص کر لیا اور اسے اپنی طرف منسوب کیا ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ لَهُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ7
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدم کے بیٹے کا ہرعمل (ثواب میں)بڑھتا ہے ۔(یعنی)ایک نیکی دس گناہ سے سات سو گناہ تک بڑھتی ہے ، سوائے روزے کے۔ اللہ کا فرمان ہے وہ(روزہ) (خالص)میرے لئے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا
وہ (انسان) میری خاطر اپنی خواہش اور اپنا کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے۔ وہ اپنے رب کی بندگی اور اس کی نگرانی کے احساس کی وجہ سے اپنے کھانے پینے اور خواہشات کو ترک کر دیتا ہے پس اگرچہ مخلوق کی نظروں سے اوجھل ہو پھر بھی وہ اپنے رب کی عبودیت اور بندگی کی وجہ سے اپنی خواہشات کی پیروی نہیں کرتا ۔
اے مومن مردوں اور عورتوں! آج کے دن مخلوق کے سب سے بہترین فرد اور کائنات کے سردار محمد ﷺ پر درود پڑھنا مستحب ہے۔ چنانچہ نبی ﷺنے فرمایا :
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ, فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ, فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ۔ 8
ترجمہ: یقینا تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعے کا دن ہے ۔ اس میں آدم پیدا کیے گئے ، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی ، اسی میں «نفخة» ( دوسری دفعہ صور پھونکنا ) ہے اور اسی میں «صعقة» ہے ( پہلی دفعہ صور پھونکنا ، جس سے تمام بنی آدم ہلاک ہو جائیں گے ) سو اس دن میں مجھ پر زیادہ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔
دعا
یا اللہ! درود و سلام اور برکتیں نازل فرما اگلے اور پچھلے تمام لوگوں کے سردار، تمام الانبیاء، خاتم النبی ﷺ پر اس کے بقدر جو تیری کتاب میں شمار کر رکھا ہے، تیرے قلم نے تحریر کیا ہے اور تیرے علم نے جسے اپنی وسعت میں لے رکھا ہے۔
اے اللہ! ہدایت یافتہ اور قائدین سے تو راضی ہو جا۔ ابوبکر ، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا۔ اسی طرح تابعین کرام اور قیامت تک آنے والے ان کے پیروکار اور ہم سے بھی راضی ہو جا ۔
اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما ، کفر اور اہل کفر کو ذلیل و رسوا فرما اور اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے اور تمام مسلم ممالک کو مضبوط ، محفوظ اور امن والا بنا دے اور اس ملک کے علماء اور عقیدے کی حفاظت فرما، اس کے مقدسات اور حرمتوں کو محفوظ فرما، اس ملک کے فوجیوں اور سرحدوں کی حفاظت فرما۔
اے رب العالمین! اے اللہ! اس میں رہنے والے بوڑھے جوان مرد خواتین اور اس کی پولیس اور سیکیورٹی کی مدد فرما۔ اے اللہ! ہمارے کمزور مسلمان بھائیوں کی ہر جگہ مدد فرما۔ اے اللہ! فلسطین کے مسلمانوں کا مددگار اور معاون بن جا۔ اے اللہ! ان کی مدد فرما۔ اے اللہ! مسلمانوں کے حالات درست کر دے۔
اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اے اللہ! ہمارے پیشوا ، خادم حرمین شریفین کے ولی عہد کو ایسے کاموں کی توفیق عطا فرما جن میں بندوں اور ملکوں کی بھلائی ہو اور جو خیر و نفع اور درستگی کا باعث ہو، فوری اور مستقبل میں، دین و دنیا میں۔
اے سب سے زیادہ کرم کرنے والے! اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا۔ اے اللہ! ہم ہر وہ بھلائی چاہتے ہیں جو تو جانتا ہے اور ہر اس برائی سے پناہ مانگتے ہیں جو تو جانتا ہے۔ بے شک تو ہر چیز کو جاننے والا ہے۔
اللہ کے بندوں! اللہ کا شکر ادا کر کے اس کے فضل و کرم کو طلب کرو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کر کے اس کی نعمتوں کی حفاظت کرو ، چمٹ کر اور جم کر اس سے دعا کرو۔ اللہ تعالی ان تمام باتوں سے پاک ہے جو کافر اس کی شان میں کہتے ہیں اور رسولوں پر سلامتی ہو اور سب تعریف اللہ کے لیے ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
خطبہ جمعہ، مسجد نبویﷺ
07 رمضان المبارک 1446ھ بمطابق 07 مارچ 2025
فضیلۃ الشیخ: احمد بن علی الحذيفی حفظہ اللہ
____________________________________________________________________________________________________________________________
غزہ کی حالیہ صورتحال کس قرآنی آیت کی عکاسی کرتی ہے؟ رمضان المبارک میں اہلِ…
رمضان المبارک میں نبی کریم ﷺ کی عبادت کیسی ہوتی تھی؟ نبی کریم ﷺ کا…
کیا احتیاط کے نام پر روزہ کھولنے میں تاخیر كرنا درست ہے؟! شريعت میں روزہ…
کاروبار (Business) کی زکوۃ نکالتے ہوئے کن تین تقسیمات کو مدنظر رکھنا چاہیے؟ کاروبار سے…
زکوۃ کے لیے سال گزرنے کی شرط سے کیا مراد ہے؟ سال کا حساب کرتے…
رمضان المبارک برکت، رحمت اور روحانی ترقی کا مہینہ ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ…