نحمده ونصلی علی رسوله الكریم وعلی آله وصحبه اجمعین۔
اما بعد!
دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں عقائد، اعمال، معاملات وغیرہ کو بڑی وضاحت سے بیان کردیا گیا ہے۔ اسلام اللہ کی نازل کردہ وحی کا نام ہے۔اور اسی کی اتباع کا حکم ہے۔
اتَّبِعُوا مَا أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءَ
الاعراف – 3
تم لوگ اس کا اتباع کرو جو تمہارے رب کی طرف سے آئی ہے اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر من گھڑت سرپرستوں کی اتباع مت کرو۔
کسی بھی دینی مسئلے کی صحیح تعبیر کے لیے قرآن وسنت کو دیکھنا اور اسی سے مسئلے کے حکم کو اخذ کرلینا عین منشاء اطاعت رسول ﷺ ہے۔
مگر یہ اخذِ حکم یا اس کا ترک منہج سلف اور فہم سلف صالحین کے عین مطابق ہونا چاہیے کہ ابتداءً یہی سبیل المومنین ہے۔
اس سبیل سے انحراف بالکل اسی طرح قابل مذمت ہے کہ جس طرح اطاعت و اتباع رسولﷺ سے انحراف قابل مذمت ہے۔ احکام اسلام کی تبلیغ وتفہیم میں سلف صالحین کے فہم کو ہی مقدم رکھا جانا ضروری ہے، ان کی بیان کردہ تعبیر وتشریح بسلسلہ سند صحیح ہم تک پہنچتی ہے۔ اور جب کسی تعبیر وتشریح کا تسلسل اور ربط خیر القرون کے سلف صالحین سے نہ جوڑا جاسکے تو سمجھ لینا چاہیے کہ ’’آج کی‘‘ بیان کردہ تعبیر وتشریح از خود ’’محل نظر‘‘ ہے اور قابلِ ترک بھی ہے۔
اس تمہید کے بعد سمجھ لیجیے کہ احکاماتِ اسلامی نماز، روزہ، حج، زکٰوۃ وغیرہ ’’مقررہ‘‘ اوقات کے ساتھ منسلک ہیں اور ان کے ابتداء وانتہاء کے احکام اور ان پر عمل کا طریقہ کار بالکل واضح ہے خواہ دلائل و براہین سے ہو اور خواہ امت مسلمہ کے اجتماعی عمل سے۔
زیرِ نظر ’’ تحریر‘‘ رُویَتِ ہلال کے مسئلے پر ایک خلاصہ ہے جو کہ اصل کتاب ’’حقیقت اختلاف مطالع ومسئلہ رُویَت ہلال‘‘ سے ماخوذ ہے۔ اگرچہ بعض جگہ کچھ الفاظ اضافی یا کمی کے مواد کو سمیٹے ہوئے ہیں۔
مسئلہ رُویَتِ ہلال: بھی دیگر مسائل کی طرح بالکل ظرہ وبارہ ہے اگر فہم سلف صالحین کو مقدم رکھا جائے۔‘‘
ملکِ عزیز پاکستان میں رمضان المبارک اور عیدین کے موقعوں پر خصوصاً آوازیں بلند ہوتی ہیں کہ چاند تو ایک ہی ہے لہٰذا ساری دنیا کو ایک ہی جگہ کی رُویَت کا پابند کردیا جائے یا پھر بعض لوگوں کا خیال یہ ہوتا ہے کہ صرف مکہ مکرمہ کی رُویَت کو ساری دنیا پر لاگو کردیا جائے۔وغیرہ وغیرہ۔ اس سلسلےمیں صحیح بات کیا ہے؟؟؟
اسی بات کے پیشِ نظر اس ’’تحریر‘‘ کو بطورِ’’خلاصہ‘‘ کے پیش کیا جا رہا ہے تاکہ کم وقت میں ’’مسئلہ رُویَت ہلال‘‘ کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ تفصیلی مباحث کے لیے اصل کتاب کا مطالعہ کرلیا جائے۔
واللہ ولی التوفیق۔
اختلاف مطالع ایک حقیقت:
مطالع مطلع کی جمع ہے اور مطلع کامعنی چاندکے طلوع ہونے کی جگہ ہے۔ چاند اور سورج دونوں کے طلوع ہونے کی جگہ کو مطلع کہا جاتا ہے۔
رُویَت ہلال کے سلسلے میں اختلاف مطلع ایک ایسی حقیقت ہے جس پر علماء دین اور اہل فلک کا اتفاق ہے۔اس پر سبھی علماء متفق ہیں کہ جس طرح ایک شہر سے دوسرے شہر میں سورج کے طلوع اور غروب کا فرق ہے بعینہ اسی طرح ہلالِ ماہِ نو کے طلوع اور عدمِ طلوع کا فرق رہتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ: ’’فلک کی معرفت رکھنے والے اہل علم اس پر متفق ہیں کہ اختلاف مطلع ایک حقیقت ہے۔ اس لیے اگر مطلع ایک رہا تو روزہ رکھنا (سب پر) واجب ہوگا ورنہ تو نہیں۔‘‘مذہب شافعی کا صحیح قول یہی ہے۔ اور امام احمد کے مذہب میں ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔
مزید لکھا ہے کہ: شمس وقمر کا طلوع اور غروب تمام زمین پر ایک وقت میں نہیں ہوتا۔1
اختلاف مطلع کی حقیقت کو درج ذیل کتب میں بھی بیان کیا گیا ہے۔2
رُویَت ہلال کے سلسلے میں اختلاف مطلع کا اعتبار ایک حقیقت ہے۔
اگرچہ اہل علم اس مسئلہ میں مختلف آراء رکھتے ہیں مگر صحیح ترین بات جو مشاہدہ اور واعق کے بھی عین مطابق ہے وہ یہی ہے کہ رُویَت ہلال کےسلسلے میں مختلف المطالع رکھنے والے علاقوں کا حکم بھی ایک دوسرے سے جدا ہوگا۔ سب کو ایک ہی جگہ کی رُویَت کا پابند نہیں کیا جاسکتا۔
سطور بالا میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت اس سلسلے میں بالکل واضح ہے تمام مکاتب فکر کے محقق علماء کی یہی رائے ہے۔
شیخ عبیداللہ رحمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: حنفیہ ، مالکیہ اور شافعیہ کے محققین کہتے ہیں کہ اگر دو شہروں میں بُعد نہ ہو اور( وہ دونوں) قریب قریب ہوں جس کی وجہ سے اختلاف مطالع نہ ہو تو وہ دونوں (شہر) رُویَت میں ایک دوسرے کا اعتبار کریں گے اور روزہ رکھیں گے۔ جیسا کہ بغداد و بصرہ وغیرہ۔ اور اگر دونوں شہروں میں دوری ہو تو ہر ایک اپنی ہی رُویَت کو معتبر جانے گا۔ جیسے حجاز اور عراق وغیرہ۔
فقہاءِ احناف کے اقوال کی تفصیلی بحث میں لکھتے ہیں کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔ امام زیلعی حنفی کا قول (اعتبار اختلاف مطالع دوسر کے شہروں میں) نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: زیلعی کا قول تسلیم کیے بغیر چارہ ہی نہیں (وگرنہ بصورت دیگر کہیں عید ستائیسویں رمضان کو اور کہیں تو اکتیسویں یا بتیس کو (مرعاة المفاتیح) اس سلسلے میں احناف کی معتبر ترین شخصیت مولانا عبد الحی لکھنوی رحمہ اللہ تحقیق فرماتے ہیں: اور محققین کے نزدیک یہ ہے کہ جو بلاد قواعد ہیئت کے اعتبار سے اختلاف مطالع رکھتے ہیں ان میں اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا۔اور ایک شہر کی رُویَت سے دوسرے شہر پر رُویَت کا حکم نہ لگایا جائے گا۔ بعضوں کے نزدیک اختلاف مطلع سے حکم بھی بدل جاتا ہے اسی کو صاحب تجرید نے اختیار کیا ہے۔ اور ظہیریہ میں سیدنا ابن عباس سے منقول ہے کہ شہر شہر میں وہاں کے لوگوں کی رُویَت معتبر ہے…زیلعی نے کہا: شبہ یہ ہے کہ اختلاف مطالع کا اعتبار کیا جائے گا۔ کیونکہ ہر قوم اسی کی مخاطب ہے جو اس کے پیش نظر ہے۔3
نیز تفصیلی بحث کے لیے ایک حنفی عالم دین مولانا سیف اللہ خالد رحمانی کی ’’جدید فقہی مسائل‘‘ کا مطالعہ کیجیے (یاد رہے کہ’’ عدم اعتبار اختلاف مطالع‘‘ متقدمین احناف کا قول تھا جو کہ اس قدر وزنی دلائل سے مزین نہ تھا جتنا کہ اعتبار اختلاف مطالع کا قول )
اسلامی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ تمام مسلمانوں کو ایک ہی جگہ کی رُویَت کا پابند کیا گیا ہو۔ اور نہ ہی اس وقت یہ ممکن تھا۔ اللہ کا دین جدید مواصلاتی نظام کا نہ کبھی محتاج تھا اور نہ آج ہے۔
معیارِ جاوداں آج بھی وہی ہے:
صُوْمُوا لِرُؤْیَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْیَتِهِ
’’روزہ کی ابتداء چاند کی رُویَت سے کرو اور روزہ کی انتہاء بھی چاند کی رُویَت سے کرو۔(یعنی شوال کا چاند دیکھ کر عید مناؤ) شہری، دیہاتی، پڑھا لکھا اور گنوار، جدید مواصلاتی نظام سے آراستہ یا تہی دست فقط اسی معیار کا پابند ہے۔ نہ دور دراز کی خبروں کا انتظار اور نہ دور دراز خبر پہنچانے کا ذمہ دار۔
’’مکہ مکرمہ کی رُویَت سب کے لیے‘‘ یہ قول بلا دلیل ہے؟؟
قرآن وسنت میں یہ بات کہیں بیان نہیں ہوئی کہ تمام عالم اسلام کو فقط مکہ مکرمہ کی رُویَت کے تابع کردیا جائے۔
٭شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو یہ کہتا ہے کہ مکہ مکرمہ کی رُویَت ہی فقط معتبر ہے تو اس کے قول کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور اس سے یہ لازم آتا ہے کہ دیگر علاقوں میں چاند نظر آنے کے باوجود ان پر روزہ وعید کے احکام لاگو نہ ہوں کیونکہ مکہ میں تو نظر آیا ہی نہیں۔4 اور یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ مکہ مکرمہ کے مغربی ممالک میں چاند مکہ مکرمہ سے بھی پہلے نظر آ جاتا ہے۔ وہاں کے مسلمان باشندے کیا کریں گے؟؟؟ چاند دیکھ کر آنکھیں بند کرلیں یا پھر روزہ رکھنے سے انکار کردیں حالانکہ چاند وہ دیکھ چکے ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ، شیخ ابو السلام محمد صدیق رحمہ اللہ ، شیخ عبد الرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ ، شیخ مقصود الحسن فیضی اور مولانا ضیاء الدین لاہوری نے اس نظریے کا بڑی سختی سے رد کیا ہے اور اس نظریہ کو بلا دلیل بتلایا ہے۔5 لہٰذا قول بالا فقط جذبات پر مبنی موقف تو ہوسکتاہے مگر دلائل سے عاری ہے۔
(لکل أهل بلد رؤيتهم) ’’کا موقف ہی صحیح ہے ‘‘
اختلاف مطالع یا بعد شاسع کی وجہ سے محققین علماء دین کا یہی موقف رہا ہے اور اس کی دلیل (تمام محدثین وعلماء نے) حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کو قرار دیا ہے۔ یہ حدیث صحیح مسلم، ابو داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، مصنف ابن ابی شیبہ، صحیح ابن خزیمہ اور منتقی الاخبار میں دیکھی جاسکتی ہے۔
اس حدیث میں ہے کہ سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ملک شام کی رُویَت کو مدینہ کے لیے نا کافی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
هٰكَذا أَمَرَنَا رَسُولُ اللّٰهِ ﷺ
’’ہمیں اللہ کے رسولﷺ نے اسی طرح حکم دیا تھا۔‘‘
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو کچھ کہا وہ حقیقتاً مرفوع ہے یعنی اس بات کے قول رسول اللہ ﷺ ہونے کی تصریح ہے۔
اسلامی تاریخ میں کہیں بھی یہ بیان نہیں ہوا کہ کسی صحابی رضی اللہ عنہم یا تابعی رحمہم اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس موقف کی تردید کی ہو۔ گویا اجماع سکوتی ہوگیا۔
اور اجماع (لَا تَجْتَمِعُ عَلَى ضَلَالَةٍ) کے بمصداق گمراہی پر نہیں ہوسکتا۔ امام ترمذی کے دور تک صرف یہ ایک قول تھا کہ: (لكل أهل بلد رؤيتهم) اسی لیے امام ترمذی نے صرف اسی پر اکتفا کیا۔ اختلاف بعد کے لوگوں کا پیدا کردہ ہے۔ اس موقف کے حامل علماء کا ایک جم غفیر ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
صحابی رسول ﷺ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ، قاسم بن محمد، سالم بن عبداللہ، سیدنا عکرمہ، امام اسحٰق ابن راہویہ، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ، امام نووی، امام قرطبی، علامہ ابن رشد، حافظ عبد البر، علامہ نواب صدیق حسن خان، شیخ احمد اللہ پرتاب گڑھی، شیخ عبداللہ حمید، مولانا عبد الجبار بن شیخ عبداللہ غزنوی، مولانا یحییٰ اعظمی، شیخ محمد عاصم الحداد، شیخ عبید اللہ رحمانی، شیخ ثناء اللہ امرتسری، خطیب الہند محمد جونا گڑھی، شیخ ابو سعید شرف الدین دہلوی، پروفیسر محمد اسماعیل سلفی، علامہ حافظ محمد گوندلوی، مولانا عطاء اللہ حنیف، حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا عبدالحی لکھنوی، مولانا صادق سیالکوٹی، مولانا عبد الستار محدث دہلوی، شیخ عبدالرحمٰن کیلانی، شیخ ابن باز، شیخ ابن عثیمین (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین) حافظ عبد المنان نورپوری، شیخ عبد اللہ ناصررحمانی، حافظ سلیم ابو عمر اور اہل حدیث فتویٰ کمیٹی کے جملہ اہل علم ارکان جن کا فتویٰ دار الحدیث رحمانیہ کراچی سے شائع ہوچکا ہے۔
وطنِ عزیز پاکستان میں انتشار کیوں؟؟
جب یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہر اہلِ بلد کی اپنی رُویَت کا اعتبار ہے تو پھر ہر رمضان وعیدین میں انتشار کیوں؟ اس کی وجہ ظاہر ہے کہ دلائل سے ہٹ کر خود ساختہ نظریہ کو اختیار کرنا ہے۔ کیاعوام کیا علماء سب ہی آزاد ہیں اور اب تو خیر سے نام نہاد علم کے دعویدار’’مفتی‘‘ بنتے جا رہے ہیں۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ کبھی بھی ایسانہیں ہواکہ تمام لوگوں کو کسی ایک جگہ یا صرف مکہ مکرمہ کی رُویَت کا پابند کیا گیا ہو۔ خود پاکستان میں ہمیشہ بنوں وغیرہ میں علیحدہ رُویَت سے عید ہوتی رہی ہے۔ اب یہ کونسا ’’گناہِ کبیرہ‘‘ ہوگیا کہ فتویٰ بازی شروع ہوگئی۔ مکہ مکرمہ کی رُویَت کا اعتبار فقط جذباتی نعرہ ہے وگرنہ کون نہیں جانتا کہ مکہ مکرمہ کے دینی منہج ونظریاتی فکر کے یہ ’’نعرہ باز‘‘ کس قدر دشمن ہیں۔
دوسری وجہ انتشار کی صحیح موقف کو گڈمڈ کر دینا ہے۔ اگر (لكل أهل بلد رؤيتهم) کا موقف صحیح ہے تو اس کا یہ معنی سمجھ لینا کہ بس جی کراچی، نوری آباد وحیدر آباد و ہالہ سب کو الگ الگ کردیا جائے بالکل غلط اور خود ساختہ ہے۔
بات سمجھ لینی چاہیے کہ بلد کا اطلاق کبھی شہر پر ہوتا ہے اور کبھی ملک و وطن پر مگر رُویَت ہلال کے اعتبار کے سلسلے میں اہل علم نے نہ تو سرحدی حد بندی کا اعتبار کیا ہے اور نہ ہی مسافت قصر وغیرہ کا۔ بلکہ اس سلسلے میں اتحاد مطلع کے تمام علاقوں کو ایک ’’بلد‘‘ قرار دیا گیا ہے اور اختلاف مطلع کے علاقوں کو علیحدہ علیحدہ ’’بلد‘‘ قرار دیا گیا ہے۔6
لہٰذا اگر ملک پاکستان میں تمام علاقوں کے مابین اختلاف مطلع نہیں ہے تو گویا یہ ایک ہی بلد ہوگا اور تمام پاکستانیوں کے لیے ایک ہی دن روزہ کی ابتداء ممکن ہے اور اسی طرح ایک ہی دن ان کے لیے عید منانا بھی ممکن ہے۔بشرطیکہ رُویَت محققہ ہو اور اپنی ہی ہو نہ کہ کسی دور دراز علاقے کی جیسے کے حجاز و اندلس کی۔ (ہماری معلومات کے مطابق برصغیر پاک وہند کے مطلع میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے) واللہ اعلم. لہٰذا یہ بات بالکل واضح ہے کہ انتشار کی وجہ صحیح موقف سے انحراف ہے یا پھر صحیح موقف کی خود ساختہ من مانی ترجمانی۔ نتیجہ وہی ہے جو ہونا چاہیے۔
چاند تو ایک ہی ہے۔
بعض احباب بڑی معصومیت سے کہہ دیتے ہیں کہ ’’چاند ایک ہی ہے‘‘ ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ جب چاندہے ہی ایک تو احکام میں اس کا اعتبار (لوگوں کے لیے) الگ الگ کیسے ہوسکتا ہے۔ تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ ’’سورج بھی ایک ہی ہے‘‘ آخر احکام میں اس کا اعتبار بھی تمام لوگ جدا جدا ہی کرتے ہیں اور کوئی بھی اس عمل کو اختلاف امت سے تعبیر نہیں کرتا۔ قرآن مجید میں کہیں بھی نہیں کہ لوگوں کا سورج از روئے احکام کے جدا جدا ہے۔ مطلقاََ ارشاد ہوتا ہے:
اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّيْلِ
الاسراء – 17
’’سورج ڈھلنے سے لے کر رات گئے تک نماز کو قائم کیجیے‘‘ ۔
یہ حکم نہ صرف سعودیہ والوں کےلیے ہے اور نہ ہی صرف پاکستان والوں کے لیے ساری دنیا کے لوگ اس کے مخاطب ہیں اور سورج تو ہے بھی ایک تو گویا یہ معنی لے لیا جائے کہ بس جہاں سے بھی سورج ڈھلنے کی خبر آجائے نماز کے اوقات سب کے لیے شروع ہوجائیں گے؟؟
یقیناً کوئی اس معنی ومفہوم کے لینے پر آمادہ نہیں ہوگا کیونکہ اس میں جو قباحتیں ومشقتیں پوشیدہ ہیں اسے سب سمجھ سکتے ہیں۔ اپنے اپنے وقتوں میں اپنے اپنے علاقوں میں نماز قائم کرنا نہ تو شرعاً ممنوع ہے اور نہ ہی عقلاً اس پر کوئی اعتراض ہوسکتا ہے اور نہ ہی کسی نے آج تک اس عمل کو انتشارِ امت سے تعبیر کیا ہے۔ تو پھر روزے اور عیدین میں اپنے چاند کا اعتبار کس بنیاد پر اتحادِ امت کے منافی ہے؟
کیا دوسرے شہر کے(ملک کے) لوگ اس خبر پر روزہ افطار کرسکتے ہیں؟ کہ فلاں علاقے میں سورج غروب ہوگیا ہے۔ جبکہ ان کے ہاں ابھی سورج غروب ہی نہیں ہوا۔
یقیناً نہیں! تو یاد رکھیں چاند مکمل سورج کی طرح ہے کہ چاند کا وقت باعتبارِ ماہ کے ہے اور سورج کا وقت باعتبارِ یوم کے ہے۔ بہرحال جس طرح آج شریعتِ مطہرہ کے احکام کا معنی ومفہوم بیان کیا جا رہا ہے اسے دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب اپنے اپنے وقتوں پر نماز ادا کرنے زکوٰۃ دینے اور سحر وافطار کرنے کو بھی انتشار امت کی سبیل اور یہود وہنود کی سازش قرار دے دیا جائےاور یہ بھی کہا جائے کہ اتحادِ امت ایک ساتھ نماز پنجگانہ ادا کرنے اور ایک ساتھ سحر وافطار کرنے میں ہے۔واللّٰه المستعان۔
پورے ملک میں ایک ہی دن عید کے لیے حکومتِ وقت کا لائحہ عمل:
اگر حکومتِ وقت واقعی اس مسئلے کے متعلق سنجیدہ ہو جائے تو تمام مکتبِ فکر کے اہل علم وفضل اور ماہرین فلکیات کے اشتراک سے ایسی کمیٹیاں تشکیل دی جاسکتی ہیں جو صرف رُویَت ہلال سے متعلق کام پر مامور ہوں اور انتہائی ذمہ داری و دیانت داری سے اس بات کی تحقیق پر سب سے پہلے آمادہ ہوں کہ کیا واقعی کراچی سے پشاور تک از روئے قواعد ریاضی ایسا اختلاف مطالع کہیں ہوسکتا ہے یا نہیں؟ جس کی بنا پر ایک جگہ کی شہادت کا اعتبار کرنے سے دوری جگہ مہینہ صرف 28 دن کا رہ جائے یا پھر 31 دن کا بن جائے۔ اگر ایسا اختلاف مطالع نہیں تو پورے پاکستان میں ایک ہی دن عید منائی جاسکتی ہے۔ اور اگر ایسا اختلاف ہے تو جس حصہِ ملک میں ایسا اختلاف ہے اس کو علیحدہ کرکے باقی ملک میں ایک دن عید منانے کا اہتمام ہو اور اس دوسرے حصہ کو وہاں کی اپنی رُویَت کے تابع چھوڑ دیا جائے۔
پورے ملک یا اس کے اکثر حصے میں جہاں یہ ثابت ہو جائے کہ اختلاف مطالع کا مذکورۃ الصدر اثر نہیں پڑتا۔ ایک ہی دن عید منانے کی جائز صورت کچھ اس طرح ممکن ہے۔
٭پورے ملک میں تمام میڈیائی اور مواصلاتی مراکز کو اپنے اپنے طورپر رُویَت ہلال کا اعلان کرنے سے روک دیا جائے اور حکومت کی سطح پر تشکیل دی جانے والی کمیٹی کے فیصلے کو نشر کرنے کی اجازت دی جائے۔
٭اس کمیٹی کے ذیلی ونگز میں ہر قصبہ کی ایک مختصر کمیٹی شامل ہو جس کی رہنمائی کسی مستند و مقامی عالم دین کے سپرد ہو اور انتظامی نظم وضبط کی درستگی کے لیے ایک آفیسر بھی اس کا نگراں ہو۔
یہ کمیٹی اپنے شہر وقصبے سے آنے والی شہادتوں کی سماعت کرے اور اگر شرعی ضابطوں کے مطابق اسے معتبر سمجھے تو خود اعلان کرنے کے بجائے تحریراً دو گواہوں کے ہاتھ اپنے سے بڑی کمیٹی کو بھیج دے۔ اور اگر کسی بستی میں کوئی ایساعالم موجود نہ ہو جو شرعی ضابطہ شہادت کو بروئے کار لاسکے تو اس بستی کو کسی اور قریبی بستی کے تابع کردیا جائے جہاں ایسا عالم دستیاب ہو۔
٭بڑی و ضلعی کمیٹی اس طرح تمام قصبوں اور شہروں سے اس طریق پر شہادت کو جمع کرکے اور تمام ذمہ داران اہل اعلم وفضل اور ماہرین فلکیات کی نظر ثانی اور توثیق کے بعد حکومت وقت کو یہ اطلاع دینے کے بعد ملکی سطح پر جدید وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے رُویَت ہلال کے اثبات یا عدم ثبوت کا اعلان کرے۔
سعودیہ عربیہ میں بھی اہل علم وفضل اور جدید ماہرین فلکیات کی باہمی مشاورت سے عرصہ دراز سے مسئلہ رُویَت ہلال کنڑول میں ہے۔ حکومت وقت متفقہ فیصلے سے انحراف کرنے والے اور نعرہ یکجہتی کے خود ساختہ علمبرداروں کے لیے بھی اسی طرح کوئی لائحہ عمل طے کرسکتی ہے۔ واللّٰه ولی التوفيق۔
علماء اور عوام کی ذمہ داری
علماء حق کی ذمہ داری یہ ہے کہ جب ان سے علم (صحیح مسئلہ) کے متعلق سوال ہو تو وہ اسے بیان کریں وگرنہ یہ وعید ہے کہ قیامت کے دن انھیں (کتمان علم کی وجہ سے) آگ کی لگام پہنائی جائے گی، صحیح موقف کو کھل کربیان کریں عوام کی رہنمائی فرمائیں اور مسئلہ ہذا کی حقیقت سے آگاہ فرمائیں۔ حالات وشخصیات سے گھبرا کر موقف بدل لینا یا احساس کمتری کا شکار ہوکر گھر بیٹھ جانا اور تیر و نشتر برسانا کوئی دانشورانہ عمل نہیں ہے۔ مرکزی رُویَت ہلال کے ذمہ داران سے کوئی شکوہ ہے تو اس کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کریں۔ رائے عامہ ہموار کریں۔ مسئلے کا حل تلاش کریں۔
اور عوام کو چاہیے کہ اِدھر اُدھر منہ اٹھا کر دوڑ پڑنا صحیح نہیں بلکہ وہ دلائل و براہین سے لیس ہو کر صحیح موقف کی ترجمانی میں اپنا کردار ادا کریں۔ اہل علم سے نظریات کی دلیل کا مطالبہ کریں اور ملکی سطح پر اتفاق و اتحاد بر قرار رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش میں حصہ ڈالیں۔
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…