رمضان المبارک کے آخری عشرے کی فضیلت
پہلا خطبہ
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے۔ ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں، اس سے مدد و مغفرت چاہتے ہیں اور اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے برے اعمال سے اس کی پناہ لیتے ہیں۔ جسے وہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ آپﷺ پر اور آپﷺ کے آل و اصحاب پر درود اور بہت زیادہ سلامتی نازل کرے۔
اے ایمان والوں! اللہ تعالی سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہیے اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا۔
اما بعد
لوگوں! ان دنوں میں گھنٹے کتنی تیزی سے گزر رہے ہیں اور سالوں میں دن کتنی تیزی سے بیتے جا رہے ہیں۔ غور کیجیے! ہمارے دن کتنی تیزی سے گزر رہے ہیں۔ یہ ہماری زندگی کے ختم ہونے اور ہماری عمر کے فنا ہونے کی خبر دے رہے ہیں جیسے کہ آپ نے دیکھا کہ یہ مبارک مہینہ اپنے پہلے عشرے کے ساتھ شروع ہوا پھر اس کے بعد درمیانی عشرہ آیا اور اب اس کا آخری عشرہ آ پہنچا ہے، اس کے دن کتنی تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور اس کی ساعتیں کتنی جلدی گزر رہی ہیں۔ جو ختم ہو گیا گویا وہ تھا ہی نہیں اور جو بیت گیا سو بیت گیا۔
اللہ تعالی نے ہم پر فضل فرمایا کہ ہم نے ان دس دنوں اور ان کی قیمتی راتوں اور ان کے عظیم فضیلتوں اور برکتوں کو پایا تو اب ہم میں سے کون اپنی کمر کسے گا ، محنت کرے گا اور ان کا حق ادا کرے گا کہ ان کی بھلائی سے محظوظ ہو۔ نیکیوں میں سبقت لے جانے والوں پر راتیں طویل ہوتی ہیں وہ ہر سال دس راتوں کے انتظار اور رب العالمین کی رضا کے شوق میں انہیں گنتے رہتے ہیں پھر جب انہیں یہ بابرکت راتیں نصیب ہو جاتی ہیں تو وہ اپنی مراد اور مطلوب کو پا لیتے ہیں اور اپنے رب کی دی ہوئی نعمت پر اسکا شکر ادا کرتے ہیں
اے روزے دارو! رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے جس میں سب سے قیمتی حصہ آخری عشرہ ہے جو فضیلتوں اور برکتوں سے گھرا ہوا ہے اور اس عشرے میں سب سے زیادہ قیمتی حصہ شبِ قدر ہے جس کے شرف کو پانے کی کوشش ہر مومن کرتا ہے جو عظیم اجر اور بلند درجات کا خالص مند ہوتا ہے اسی لیے نبی کریم ﷺ جب آخری عشرہ آتا تو اس میں خصوصی طور پر مزید نیک اعمال کرتے۔
لوگوں! عبادات کو صبر اور ثابت قدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَاب1
صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔
لہذا! ہمیں ان دنوں میں اور ہر وقت اطاعت پر صبر کرنا چاہیے تاکہ ہم وافر اجر اور عظیم ثواب حاصل کر سکیں اور انہیں ضائع کرنے سے بچیں کہ ہم ناکامی کا شکار نہ ہوں، اس عشرے کو گنوا نہ بیٹھیں۔
اور ابنِ جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
انسان کتنی ہی لمحات ضائع کر دیتا ہے اور ان میں وہ عظیم ثواب سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ دن کھیتی کی مانند ہیں گویا انسان سے کہا گیا ہو کہ تم ایک بیج بو گے تو تمہیں کونٹلوں میں غلہ واپس ملے گا تو کیا کسی عقلمند کے لیے روا ہے کہ وہ بیج نہ بوئے اور سستی برتے۔
ابنِ رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اے وہ شخص! جس نے اپنی زندگی اطاعت کے سوا دوسری چیزوں میں ضائع کر دی وہ شخص جس نے اپنے رمضان بلکہ اپنی پوری زندگی میں غفلت برتی اور اسے برباد کر دیا، اے وہ شخص! جس کا ساز و سامان ٹال مٹول اور کوتاہی ہے اور یہ کیا ہی برا ساز و سامان ہے ، اے وہ شخص! جس نے قرآن اور رمضان کو اپنا مخالف بنا لیا تم نے جسے اپنا مخالف بنا لیا ہے اس سے شفاعت کی امید کیسے رکھ سکتے ہو۔
مومنوں وقت ختم ہونے سے پہلے جلدی کرو، موت آنے سے پہلے ہوشیار ہو جاؤ۔ ہمارے رب عزوجل نے ہمیں نیکیوں میں سبقت کرنے اور قربتوں کے حصول میں تیزی دکھانے کی دعوت دی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَسَارِعُوا إِلَىٰ مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ2
’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیزگاروں کے لئے تیار کی گئی ہے‘‘۔
بھائیو! ماہِ رمضان کے دن کم ہو چکے ہیں بلکہ اس کے دوتہائی حصے کے دن اور راتیں ختم ہو چکی ہیں۔ کب سے آخری تہائی باقی ہے مگر یہ ایک عظیم تہائی ہے جس کی فضیلت باقی تمام دنوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ وہ عشرہ ہے جسے بندہ عبادت اور اخلاص کے ساتھ مشکور رکھتا ہے تاکہ اسے مغفرت ، گناہوں سے معافی، اللہ کی رضا اور جہنم سے آزادی نصیب ہو تو کیا اس کے بعد بھی کوئی عقل مند اس عظیم فضیلت میں کوتاہی کر سکتا ہے اور کیا کوئی سمجھدار شخص اس خیر سے بے رغبت ہو سکتا ہے۔
اللہ کے بندو! اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور نیکی کے ہر میدان میں بقدر استطاعت حصہ لو اور غافل لوگوں کے غفلت اور لہو و لعب میں ان کے ساتھ شریک نہ ہو۔ اپنے اہل و عیال اور بھائیوں کی مدد کرو تاکہ وہ اپنے وقت کو بہتر طور پر استعمال کر سکیں اور اپنی استطاعت کے مطابق انہیں فائدہ پہنچانے اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے کی کوشش کرو، توبہ کی تجدید اور اس بات کے حریص بنو کہ اپنے رب کے ساتھ تمہیں خلوت نصیب ہو جس میں تم اس سے مناجات کرو اور انسیت اور تسلی پاؤ۔
اللہ کے بندو! ان دنوں میں ہمیں بکثرت اللہ کا ذکر قران کی تلاوت اور دعا کرنا چاہیے یاد رکھو کہ جن جن عبادتوں کے ذریعے کوئی اللہ کا قرب حاصل کرتا ہے ان میں سے کوئی عبادت اسے اتنی پسند نہیں جس قدر وہ عبادت پسند ہے جو اس نے اس پر فرض کی ہے لہذا ہمیں دیکھنا چاہیے کہ سنگین شرعی خلاف ورزیوں میں سے فرض نمازوں کی ادائیگی میں سستی اور انہیں ضائع کرنا ہے اور بندے کا جان بوجھ کر ظہر کی نماز چھوڑ کر سونا ہے یہاں تک کہ اس کا وقت نکل جائے اور پھر بعد والی نماز کے ساتھ اسے جمع کر کے پڑھے اور کہے کہ رات کے قیام اور عبادت کی وجہ سے تھک گئے تھے۔ ہمیں جان لینا چاہیے کہ جس طرح ہم قیام اللیل کا اہتمام کرتے ہیں اسی طرح ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم فرض نمازوں میں کوتاہی نہ کریں۔ ایک مسلمان کی عبادات میں تواضع رکھنا اور فرائض کو مقدم رکھتے ہوئے سنن و نوافل سے لا پرواہ ہونا چاہیے۔
اس کوتاہی سے بھی بڑا سنگین اور خطرناک عمل ان لوگوں کا ہے جو رمضان میں روزہ رکھتے ہیں مگر نماز نہیں پڑھتے بلکہ کھلے عام اس نماز کو چھوڑنے کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کی پابندی کا اور اس کے قیام کا انہیں حکم دیا گیا ہے۔ یہ کتنا قبیح اور خطرناک عمل ہے جو خیر و برکت کو ختم کر دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص نماز کو جو کہ سب سے افضل عمل ہے ضائع کر دیتا ہے تو دوسرے فرائض کو اور زیادہ ضائع کرنے والا ہوگا کیونکہ نماز دین کا ستون اور بنیاد ہے۔ لہذا! جس نے نماز کے سلسلے میں کوتاہی کی ہے اسے چاہیے کہ جلد توبہ کرلے قبل اس کے کہ موت اسے آ پکڑے اور وقت نکلنے سے پہلے ابھی اپنا تدارک کرلے۔
اللہ تعالی فرماتا ہے:
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا3
پھر ان کے بعد ایسے اطاعت نہ کرنے والے پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کردی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑگئے، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا۔
اللہ کے بندوں! اسی طرح ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم ان چیزوں سے بچیں جو ہمیں ہدایت کے راستے سے ہٹا کر گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں۔ مشغول اور غافل کرنے والی ان چیزوں سے دور رہیں جو اللہ سے ہمیں روکتی ہیں۔ اپنی سماعت اور بصارت کو اللہ کی حرام کردہ اشیاء اور بگاڑنے والی چیزوں سے محفوظ رکھیں کیونکہ جب انسانی اعضاء گناہوں میں ملوث ہو جاتے ہیں تو ان کا فائدہ ناپید ہو جاتا ہے اور یہ گناہوں اور برائیوں کے ارتکاب پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ ہمیں لمبی امیدوں سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ اچھے اعمال سے روکتی ہیں اور اپنے رب کے حضور عاجزی اور انابت اختیار کرنا چاہیے اور ایسا عمل کرنا چاہیے جو ہمیں قبر میں انسیت دے اور قیامت کے دن ہمارے چہروں کو روشن کرے۔
اللہ مجھے اور آپ کو قرآن میں برکتوں سے نوازے، اس میں موجود آیتوں، ذکر حکیم سے ہمیں فائدہ پہنچائے۔ وہ بہت زیادہ سخاوت و کرم والا ہے۔ آپ اس سے مغفرت طلب کریں بلا شبہ میرا رب بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جو فضل و انعام والا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بادشاہ، پاک اور سلامتی والا ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں جو مخلوق کہ قدوہ ہیں اللہ۔ ان پر درود و سلامتی نازل فرمائے اور انکے نیک و معزز آل و اصحاب پر اور بہت زیادہ سلامتی نازل کرے ۔
اما بعد!
دیکھو! اللہ نے ہم پر کرم کیا کہ ہم نے آخری عشرے کی راتوں کو پا لیا ہے تاکہ یہ آخری عشرہ اس شخص کے لیے ایک موقع ہو جس نےگزشتہ دنوں میں کوتاہی برتی یا اس شخص کے لیے تکملہ اور زیادہ بڑا توشہ ہو جس نے شرورع رمضان سے ہی اس کو غنیمت جانا، اس میں محنت کی اور اچھی طرح طاعتوں کو انجام دیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لیے قدوہ ہیں جو اس آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے تھے جتنی کہ دوسرے دنوں میں نہیں کرتے۔ آپﷺ اس میں اعتکاف کرتے تھے اور شب قدر کی تلاش میں رہتے تھے جب عشرہ آجاتا تو آپ راتوں کو جاگتے، اپنے گھر والوں کو بھی جگاتے اور اپنی کمر کس کر محنت میں لگ جاتے۔
عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے پوچھا: اگر مجھے لیلۃ القدر مل جائے تو میں کیا دعا کروں؟ آپﷺ نے فرمایا: تم یہ کہو:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي
اے اللہ! تو معاف کرنے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے مجھے معاف فرما دے۔
چناچہ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ کی رحمت کے جھونکوں اور اسکے وسیع فضل سے بہرہ ور ہوں، اس کی عظیم بخشش کا سوال کریں، کثرت کے ساتھ نیکیوں کو انجام دیں، مختلف عبادات کے ذریعے تقرب حاصل کریں اوروقت کو ضائع کرنے اور برائیوں کے ارتکاب سے دور رہیں۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ ہماری اور اس آخری عشرے کے درمیان لذتوں کو ختم کرنے والی موت حائل ہو جائے۔
اللہ کے بندوں! اگر اس عظیم آخری عشرہ کی سوائے شب قدر کے کوئی فضیلت اور منزلت نہ ہوتی تو بھی کافی تھا۔
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے:
4لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
اس رات میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ5
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے عبادت میں کھڑا ہو اس کے تمام اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے
آپﷺ نے یہ بھی فرمایا:
شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کرو اور اس بات کی زیادہ امید ہے کہ یہ شب قدر آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہو۔
کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ وَيَقُولُ تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ6
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا:
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: دَخَلَ رَمَضَانُ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ـ صلى الله عليه وسلم: إِنَّ هَذَا الشَّهْرَ قَدْ حَضَرَكُمْ وَفِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ مَنْ حُرِمَهَا فَقَدْ حُرِمَ الْخَيْرَ كُلَّهُ وَلاَ يُحْرَمُ خَيْرَهَا إِلاَّ مَحْرُومٌ۔7
انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رمضان آیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ مہینہ جو تمہارے پاس آیا ہے اس میں ایک رات ہے جو کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اور جو شخص اس سے محروم کر دیا گیا تو وہ ہر قسم کی خیر و بھلائی سے محروم کر دیا گیا اور اس کی خیر سے محروم شخص ہر قسم کی خیر و بھلائی سے محروم ہے۔
چنانچہ عزم مصمم کرو اور عزائم کو مہمیز دو۔ جس نے اس رات کے شرف کو پا لیا وہ کامیاب اور مالا مال ہوا اور جو اس سے محروم رہا وہ ناکام و نامراد ہوا اس موقع کو غنیمت سمجھو اور کوتاہی اور غفلت سے بچو کیوںکہ موسم کے دن گنتی کے ہیں اور فضیلت کے اوقات دکھ رہے ہیں۔ اے خیر کے طلبگار! آگے بڑھو۔ اے مغفرت کے امیدوار! آؤ۔ اے جنت کے خواہاں! آگے آؤ اور اے شر کے طلبگار! باز آجاؤ۔
یہ باتیں رہیں اور درود و سلام بھیجو محنت و قیام کرنے والوں میں سب سے بہتر اور نماز روزہ کرنے والوں میں سب سے پاکیزہ ہستی اور مخلوق کے سردار پر جس کا تمہیں رب ذوالجلال و الاکرام نے حکم دیا ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا 8
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ! درود و سلام اور برکت نازل کر اپنے بندے اور رسول محمد(ﷺ) پر، ان کے آل و اصحاب پر۔ اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔
خطبہ جمعہ، مسجد حرام
تاریخ: 21 رمضان 1446ھجری ۔
بمطابق21 فروری 2025 عیسوی
خطیب: فضیلۃ الشیخ أ۔ د۔ فیصل غزاوی حفظہ اللہ
_________________________________________________________________________________________________________________________
دنیاوی اسباب و وسائل کو اختیار کرنا کیوں ضروری ہے؟ دنیا سے فائدہ اٹھانے کی…
ناجائز ریاست اسرائیل کے جنگلوں میں لگی عبرتناک آگ نے تقریباً 5,928 مربع ایکڑ کے…
نبی کریم ﷺ کو طلبہ سے کس درجے محبت تھی؟ جب ایک تاجر نے اپنے…
نبی کریم ﷺ نے کس سورت کی تلاوت کی تلقین فرمائی؟ کس سورت کو پڑھنا…
کیا طاقت اور مضبوطی کا دار و مدار تعداد کی کثرت پر ہے؟ اتباعِ حق…
بینکنگ سسٹم کی بنیاد کیا ہے؟ کیا اسلامک بینک حلال ہے؟ اسلامک بینک کا متبادل…