احکام و مسائل

رمضان کا مہینہ، قرآن کا مہینہ

رمضان کا مہینہ قرآن کا مہینہ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآَنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ

(سورۃ البقرۃ : 185 )

رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور حق و باطل میں امتیاز کرنے والے واضح دلائل موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان میں قرآن کو بیت العزت سے آسمان ِدنیا کی طرف نازل فرمایا پھر حسب ضرورت اور حالات کے مطابق نبی ﷺ پر دھیر ے دھیرے اتارا۔

تمام آسمانی صحیفے ماہِ رمضان میں نازل ہوئے

 بلکہ ماهِ رمضان وه ماه مبارك ہے کہ  اللہ تعالی نے قرآن کے علاوہ دیگر کتابوں کو بھی اسی ماهِ رمضان ہی میں نازل فرمایا، چنانچہ سیدنا واثلہ بن اسقع ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

أُنزِلَت صحُفُ إبراهيمَ أولَ ليلةٍ من رمضانَ ، و أُنزلَت التوراةُ لستٍّ مَضَين من رمضانَ ، و أُنزِلَ الإنجيلُ لثلاثِ عشرةَ ليلةً خلَتْ من رمضانَ ، و أُنزلَ الزَّبورُ لثمانِ عشرةَ خلَتْ من رمضانَ ، و أُنزِلَ القرآنُ لأربعٍ و عشرين خلَتْ من رمضانَ1

ابراہیمی صحیفے رمضان کی پہلی رات کو، تورات رمضان کی چھٹی رات کو،انجیل رمضان کی تیرہ تاریخ کو اور قرآن مجید رمضان کی چوبیس تاریخ کو نازل ہوا۔

رسول اللہ ﷺ کے لیے قرآن کا دور

اسی لیے جبرائیل علیہ السلام رمضان المبارک میں رسول اللہ ﷺ کو قرآن کا دور کراتے تھے اور اس دور کا اثر رسول اللہ ﷺ پریوں ظاہر ہوتا تھاجیساکہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :

كانَ رَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ أجْوَدَ النَّاسِ، وكانَ أجوَدُ ما يَكونُ في رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وكانَ جِبْرِيلُ يَلْقَاهُ في كُلِّ لَيْلَةٍ مِن رَمَضَانَ، فيُدَارِسُهُ القُرْآنَ، فَلَرَسولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ أجْوَدُ بالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ المُرْسَلَةِ

(صحيح البخاري: 3220)

یہ بھی پڑھیں:ماہ رمضان المبارک:برکات و خصوصیات


رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں جب آپ ﷺ سے جبرائیل علیہ السلام کی ملاقات ہوتی تو آپ کی سخاوت اور بھی بڑھ جایا کرتی تھی۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ ﷺ سے ملاقات کے لیے تشریف لاتے اور آپ ﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے۔ جب جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملتے تو اس وقت نبی کریم ﷺ تیز ہوا سے بھی بڑھ کر سخی ہو جاتے تھے۔

نبی کریم ﷺ کا عمل

نبی کریم ﷺ قیام اللیل میں اتنی دیر تک کھڑے ہو کر قرآن کی تلاوت کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیوں پر ورم آ جاتا جیساکہ صحیحین میں حضرت ابو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

قَامَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ حتَّى تَوَرَّمَتْ قَدَمَاهُ، فقِيلَ له: غَفَرَ اللَّهُ لكَ ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِكَ وما تَأَخَّرَ، قالَ: أفلا أكُونُ عَبْدًا شَكُورًا.

( صحيح البخاري: 4836)

رسول اللہ ﷺ نماز میں رات بھر کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ کے دونوں پاؤں سوج گئے۔ آپ ﷺسے عرض کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کی اگلی پچھلی تمام خطائیں معاف کر دی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟

رسول اللہ ﷺ کی تلاوتِ قرآن

رسول اللہ ﷺ کی قرآن کی تلاوت غور و فکر، عمل اور خشوع و خضوع پر مشتمل ہوتی تھی۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: جس میں ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول ہے: «رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنْ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّي» ”اے رب! انہوں نے بہکایا (یعنی بتوں نے) بہت لوگوں کو، سو جو کوئی میری راہ پر چلا وہ تو میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا سو تو بخشنے والا مہربان ہے۔“ اور یہ آیت جس میں عیسیٰ علیہ السلام کا قول ہے:

«إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ»

”اگر تو ان کو عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور جو تو ان کو بخش دے تو تو مالک ہے حکمت والا۔“ پھر اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا:

«اللَّهُمَّ أُمَّتِي أُمَّتِي»

”اے پروردگار میرے! امت میری، امت میری۔ اور رونے لگے“.2

نبی ﷺ کی عادت مبارکہ

نبی ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ نماز میں بعض آیات کو بار بار دہرایا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

قام النبيُّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ بآيةٍ حتى أصبحَ يُرددُها والآيةُ إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

(صحيح ابن ماجه: 1118)

کہ نبی کریم ﷺ نے نماز کے لئے قیام فرمایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک ہی آیت (کی بار بار تلاوت) کرتے ہوئے صبح ہوگئی۔ وہ آیت یہ تھی: إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (اے اللہ! اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بیشک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہے)۔“

صحابہ کرام کا بھی یہی عمل تھا ۔ وہ قرآن پڑھتے تھے اور اس پر عمل کرتے تھے اور اس پر غور و فکر کرنا اور اس کے عجائبات پر سوچ وبچار کرنے کو اچھا سمجھتے تھے۔چنانچہ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

لا تَهُذُّوا القرآنَ كَهَذِّ الشِّعْرِ، ولا تَنْثُرُوه نَثْرَ الدَّقْلِ، وقِفُوا عندَ عجائبِهِ، وحَرِّكُوا بِهِ القلوبَ3

کہ اس قرآن کو اس شعر کی طرح تیزی سے نہ پڑھو اور نہ ہی ردّی کھجور کے بکھیرنے کی طرح اس کو بکھیرو، اس کے عجائبات پر توقف کرو اور اس کے ذریعے اپنے دلوں کو حرکت دو۔“

”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے انہیں کہا:

إِنِّي لأَقْرَأُ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ: هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ، إِنَّ أَقْوَامًا يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، وَلَكِنْ إِذَا وَقَعَ فِي الْقَلْبِ فَرَسَخَ فِيهِ نَفَعَ .

( صحیح مسلم: 822 )

یہ بھی پڑھیں:رمضان المبارک کے آخری عشرے کی تیاری


کہ میں سورہ مفصل کو ایک رکعت میں پڑھتا ہوں۔ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا: (تم) اس طرح جلدی جلدی پڑھتے ہو جس طرح شعر پڑھے جاتے ہیں۔ بیشک کچھ لوگ قرآن پڑھتے ہیں مگر قرآن اُن کے گلے سے نیچے نہیں اترتا۔ (لیکن یاد رکھو!) قرآن مجید جب دل و دماغ میں راسخ و پختہ ہو جائے تب ہی نفع دیتا ہے۔“

رمضان میں دو طرح کا جہاد

حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

واعلمْ أنَّ المؤمِنَ يجتمِعُ له في شَهْرِ رمضانَ جِهادانِ لنفْسِهِ: جهادٌ بالنَّهارِ على الصيامِ، وجِهادٌ بالليلِ على القيامِ؛ فمَنْ جَمَعَ بين هذينِ الجهادينِ ووَفَّى بِحُقوقِهِما وصَبَرَ عليهِما وُفيَّ أجْرَهُ بغيرِ حِسَابٍ4

“جان لو کہ ماہِ رمضان میں مومن  نے اپنے نفس کے ساتھ دو قسم کا جہاد کرنا ہے،

دن کا جہاد روزے کی صورت میں۔

رات کا جہاد قیام کی صورت میں۔

تو جس نے دلجمعی کے ساتھ دونوں طرح کا جہاد کیا، اور ان کا حق ادا کیا، اور اس پر صبر و استقلال کا مظاہرہ کیا تو اس نے بے حساب اجر سمیٹ لیا !”

قرآن شفارش کرنے والا

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

القرآنُ شافعٌ مشفَّعٌ ، وماحِلٌ مصدَّقٌ ، من جَعلَه أمامَه قادَه إلى الجنَّةِ ، ومن جعلَه خَلفَ ظهرِه ساقَه إلى النَّارِ

(صحيح الترغيب: 1423)

”قرآن مجید سفارش کرے گا اور اس کی سفارش مانی جائے گی، یہ ‏‏‏‏ اپنے پڑھنے والوں کے حق میں بحث کرے گا اور اس کی تصدیق کی جائے گی، جس نے اس کو اپنے سامنے رکھا تو یہ جنت کی طرف اس کی رہنمائی کرے گا اور جس نے اس کو اپنی پیٹھ پیچھے رکھا تو یہ اسے ہانک کر جہنم میں لے جائے گا۔“

سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران کی برکتیں

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا،

اقْرَؤُوا القُرْآنَ فإنَّه يَأْتي يَومَ القِيامَةِ شَفِيعًا لأَصْحابِهِ، اقْرَؤُوا الزَّهْراوَيْنِ البَقَرَةَ، وسُورَةَ آلِ عِمْرانَ، فإنَّهُما تَأْتِيانِ يَومَ القِيامَةِ كَأنَّهُما غَمامَتانِ، أوْ كَأنَّهُما غَيايَتانِ، أوْ كَأنَّهُما فِرْقانِ مِن طَيْرٍ صَوافَّ، تُحاجَّانِ عن أصْحابِهِما، اقْرَؤُوا سُورَةَ البَقَرَةِ، فإنَّ أخْذَها بَرَكَةٌ، وتَرْكَها حَسْرَةٌ، ولا تَسْتَطِيعُها البَطَلَةُ.

( صحيح مسلم: 804)

”قرآن پڑھا کرو، کیونکہ وہ روز قیامت اپنے پڑھنے والوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا، سورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران دو چمکتی ہوئی روشن سورتوں کو پڑھو، کیونکہ وہ قیامت کے دن اس حال میں آئیں گی گویا کہ وہ دو بادل ہیں یا دو سائبان ہیں یا پرندوں کے غول ہیں جو صفیں باندھے ہوئے اپنے پڑھنے والوں کے حق میں بحث و مباحثہ کریں گے، سورۂ بقرہ پڑھا کرو، کیونکہ اسے حاصل کر لینا باعث برکت اور اسے ترک کر دینا باعث حسرت ہے، اور جادوگر اسے حاصل نہیں کر سکتے۔ “

مصائب سے نجات اور گمراہی سےحفاظت

قارئین کرام ! ماہ رمضان میں اور رمضان کے بعد بھی قرآن کی تلاوت کرنے کا  پختہ عزم اور عہد کریں، کیونکہ قرآن کی تلاوت دلوں کی زندگی اور ان کی شفا ہے۔کیونکہ جو شخص قرآن کو خالصتاً رب کی رضا کے لیے پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی رہنمائی اور حفاظت فرمائے گا، انہیں مصائب ومشکلات سے دور رکھے گا اور اور گمراہی سےبھی محفوظ رکھے گا۔جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى

(سورہ طہ : 123)

جو شخص میری ہدایت کی اتباع کرے گا وہ دنیا میں گمراہ نہیں ہوگا، اور نہ آخرت میں تکلیف اٹھائے گا۔

قرآن اللہ کی رسی

 رسول اللہ ﷺ نےقرآن کے بارے میں ارشاد فرمایا:

«هُوَ حَبْلُ اللهِ، مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى ضَلالَةٍ.

(صحيح مسلم: 2408)

قرآن کریم اللہ کی رسی ہے جس نے اسے تھام کر اس کا اتباع کیا وہ سیدھی راہ پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہی پر ہوگا ۔

قرآن راہِ ہدایت

اور قرآن میں ہدایت چاہنے والوں کے لیےہدایت ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا

(سورۃ اسراء :9)

 یہ قرآن تو وہ راستہ دکھاتا ہے جو سب سے سیدھا ہے اور جو لوگ ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں انھیں بشارت دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔

سورہ عنکبوت کے اندر ارشاد فرمایا:

أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ

(العنكبوت: 51)

کیا انھیں یہ کافی نہیں کہ ہم نے ان پر یہ کتاب نازل کی ہے جو انھیں پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ اس میں ایمان لانے والوں کے لئے یقیناً رحمت اور نصیحت ہے۔

 اولاد کوقرآن کی تعلیم کا اجر

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

يَجيءُ القرآنُ يومَ القيامةِ كالرَّجُلِ الشَّاحِبِ، يقولُ لصاحبِهِ: هل تَعرِفُني؟ أنا الذي كنتُ أُسهِرُ لَيْلَكَ، وأُظْمِئُ هَواجِرَكَ، وإنَّ كلَّ تاجرٍ مِن وراءِ تِجارتِهِ، وأنا لكَ اليومَ مِن وراءِ كلِّ تاجرٍ؛ فيُعطَى المُلْكَ بيمينِهِ، والخُلْدَ بشِمالِهِ، ويوضَعُ على رأسِهِ تاجُ الوقارِ، ويُكْسى والِداهُ حُلَّتَيْنِ لا تقومُ لهما الدُّنيا وما فيها؛ فيقولانِ: يا ربِّ، أنَّى لنا هذا؟ فيُقالُ: بتعليمِ وَلَدِكُما القرآنَ.

(السلسلة الصحيحة:( 2891)

”قرآن مجید روز قیامت اجنبی آدمی کے روپ میں آئے گا اور صاحب قرآن سے پوچھے گا: کیا تو مجھے پہچانتا ہے؟ (‏‏‏‏پھر قرآن مجید اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے کہے گا:) میں وہی ہوں جو تجھے راتوں کو بیدار اور دوپہروں کو پیاسا رکھتا تھا۔ آج ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہے اور میں تیری خاطر ہر تاجر کے پیچھے ہوں۔ پھر صاحبِ قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہت اور بائیں ہاتھ میں دوام عطا کر دیا جائے گا، اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا، اور اس کے والدین کو دو عمدہ پوشاکیں پہنائی جائیں گی، وہ اس قدر بیش قیمت ہوں گی کہ دنیا و مافیہا (‏‏‏‏کی قیمت) ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! یہ پوشاکیں ہمارے لیے کیوں؟ توجواب میں کہا جائے گا: تم دونوں نے اپنے بچے کو قرآن کی تعلیم دی تھی ۔

برکتوں والا گھر

 جس گھر میں قرآن کریم پڑھاجائے تو وہ گھر برکتوں والا ہوتا ہے ۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

إِنَّ الْبَيْتَ لَيَتَّسِعُ عَلَى أَهْلِهِ، وَتَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَتَهْجُرُهُ الشَّيَاطِينُ، وَيَكْثُرُ خَيْرُهُ أَنْ يُقْرَأْ فِيهِ الْقُرْآنُ، وَإِنَّ الْبَيْتَ لَيَضِيقُ عَلَى أَهْلِهِ وَتَهْجُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَتَحْضُرُهُ الشَّيَاطِينُ ، وَيَقِلُ خَيْرُهُ أَنْ لَا يُقْرَأْ فِيهِ الْقُرْآنُ5

” بے شک جس گھر میں قرآن کریم پڑھاجائے تو وہ گھر اپنے رہنے والوں کے لیےکشادہ ہو جاتا ہے۔ اس میں رحمت کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ شیاطین اس گھر کو چھوڑکربھاگ جاتے ہیں اور اس میں خیر وبرکت کی کثرت ہوجاتی ہے۔ اور جس گھر جس میں قرآن کریم نہ پڑھا جائے تو وہ گھر اپنے رہنے والوں کے لیے تنگ ہو جاتا ہے ، فرشتے اس کو چھوڑ جاتے ہیں، اس میں شیاطین آکر بس جاتے ہیں اور اس گھر میں خیر و برکت کی قلت ہو جاتی ہے۔

گھروں کو قبرستان نہ بناؤ

اسی لیے رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

لا تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقابِرَ، إنَّ الشَّيْطانَ يَنْفِرُ مِنَ البَيْتِ الذي تُقْرَأُ فيه سُورَةُ البَقَرَةِ.

(صحيح مسلم: 780)

” اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ یقینا شیطان اس گھر سے دور بھاگتا ہے جہاں، سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے”۔ 

قرآن پڑھنے والے اور نہ پڑھنے والے کی مثال

ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:

 مَثَلُ الذي يَقْرَأُ القُرْآنَ كالأُتْرُجَّةِ: طَعْمُها طَيِّبٌ، ورِيحُها طَيِّبٌ، والذي لا يَقْرَأُ القُرْآنَ كالتَّمْرَةِ: طَعْمُها طَيِّبٌ، ولا رِيحَ لَها، ومَثَلُ الفاجِرِ الذي يَقْرَأُ القُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحانَةِ: رِيحُها طَيِّبٌ، وطَعْمُها مُرٌّ، ومَثَلُ الفاجِرِ الذي لا يَقْرَأُ القُرْآنَ كَمَثَلِ الحَنْظَلَةِ: طَعْمُها مُرٌّ، ولا رِيحَ لَها.

(صحيح البخاري: 5020)

اُس مومن کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو سنگترے جیسی ہے جس کی خوشبو بھی پاکیزہ ہے اور مزہ بھی پاکیزہ ہے اور اس مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا کھجور جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی لیکن مزہ میٹھا ہوتا ہے اور منافق کی مثال جو قرآن پڑھتا ہو، ریحانہ (پھول) جیسی ہے جس کی خوشبو تو اچھی ہوتی ہے لیکن مزہ کڑوا ہوتا ہے اور جو منافق قرآن بھی نہیں پڑھتا اس کی مثال اندرائن جیسی ہے جس میں کوئی خوشبو نہیں ہوتی اور جس کا مزہ بھی کڑوا ہوتا ہے۔

قابلِ رشک انسان

ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ :

لا حَسَدَ إلَّا في اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ عَلَّمَهُ اللَّهُ القُرْآنَ، فَهو يَتْلُوهُ آناءَ اللَّيْلِ، وآناءَ النَّهارِ، فَسَمِعَهُ جارٌ له، فقالَ: لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ ما أُوتِيَ فُلانٌ، فَعَمِلْتُ مِثْلَ ما يَعْمَلُ، ورَجُلٌ آتاهُ اللَّهُ مالًا فَهو يُهْلِكُهُ في الحَقِّ، فقالَ رَجُلٌ: لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ ما أُوتِيَ فُلانٌ، فَعَمِلْتُ مِثْلَ ما يَعْمَلُ.

( صحيح البخاري: 5026)

 “رشک تو بس دو ہی آدمیوں پر ہونا چاہئے :ایک اس پر جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا اور وہ رات دن اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے ،  اس کا پڑوسی سن کر کہہ اٹھے کہ کاش مجھے بھی اس جیسا علم قرآن ہوتا اور میں بھی اس کی طرح عمل کرتا اور وہ دوسرا جسے اللہ نے مال دیا اور وہ اسے حق کے لیے لٹا رہا ہے۔ (اس کو دیکھ کر) دوسرا شخص کہہ اٹھتا ہے کہ کاش میرے پاس بھی اس کے جتنا مال ہوتا اور میں بھی اس کی طرح خرچ کرتا”۔

دو گنا اجر وثواب

عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :

مَثَلُ الذي يَقْرَأُ القُرْآنَ وهو حافِظٌ له، مع السَّفَرَةِ الكِرامِ البَرَرَةِ، ومَثَلُ الذي يَقْرَأُ وهو يَتَعاهَدُهُ، وهو عليه شَدِيدٌ؛ فَلَهُ أجْرانِ.

( صحيح البخاري: 4937)

 “اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے، مکرم اور لکھنے والے نیک (فرشتوں) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا”۔

تین آیتوں کا ثواب

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

أَيُحِبُّ أحَدُكُمْ إذا رَجَعَ إلى أهْلِهِ أنْ يَجِدَ فيه ثَلاثَ خَلِفاتٍ عِظامٍ سِمانٍ؟ قُلْنا: نَعَمْ، قالَ: فَثَلاثُ آياتٍ يَقْرَأُ بهِنَّ أحَدُكُمْ في صَلاتِهِ، خَيْرٌ له مِن ثَلاثِ خَلِفاتٍ عِظامٍ سِمانٍ.

( صحيح مسلم: 802)

”کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ اپنے گھر لوٹ کر جائے تو اسے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیاں گھر پر بندھی ہوئی ملیں“؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں (کیوں نہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی شخص نماز میں تین آیتیں پڑھتا ہے، تو یہ اس کے لیے تین بڑی موٹی حاملہ اونٹنیوں سے افضل ہیں“۔

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

خَرَجَ رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ وَنَحْنُ في الصُّفَّةِ، فَقالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يَغْدُوَ كُلَّ يَومٍ إلى بُطْحَانَ، أَوْ إلى العَقِيقِ، فَيَأْتِيَ منه بنَاقَتَيْنِ كَوْمَاوَيْنِ في غيرِ إثْمٍ، وَلَا قَطْعِ رَحِمٍ؟ فَقُلْنَا: يا رَسولَ اللهِ، نُحِبُّ ذلكَ، قالَ: أَفلا يَغْدُو أَحَدُكُمْ إلى المَسْجِدِ فَيَعْلَمُ، أَوْ يَقْرَأُ آيَتَيْنِ مِن كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، خَيْرٌ له مِن نَاقَتَيْنِ، وَثَلَاثٌ خَيْرٌ له مِن ثَلَاثٍ، وَأَرْبَعٌ خَيْرٌ له مِن أَرْبَعٍ، وَمِنْ أَعْدَادِهِنَّ مِنَ الإبِلِ.

( صحيح مسلم : 803)

 رسول اللہ ﷺ گھر سے نکل کر تشریف لائے۔ہم صفہ (چبوترے) پر موجود تھے ، آ پ نے فرمایا :” تم میں سے کون پسند کرتا ہے کہ روزانہ صبح بطحان یا عقیق (مدینے کی وادی) میں جائے اور وہاں سے بغیر کسی گنا ہ اور قطع رحمی کے دو بڑے بڑے کوہانوں والی اونٹنیاں لائے؟ ” ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم سب کو یہ بات پسند ہے ، آپ نے فرمایا: “پھر تم میں سے صبح کوئی شخص مسجد میں کیوں نہیں جاتا کہ وہ اللہ کی کتاب کی دو آیتیں سیکھے یا ان کی قراءت کرے تو یہ اس کے لئے دو اونٹنیوں کے حصول سے بہتر ہے اور یہ تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر اور چار آیتیں اس کے لئے چار سے بہتر ہیں اور (آیتوں کی تعداد  جو بھی ہو) اونٹوں کی اتنی تعداد سے بہتر ہے”۔

رمضان میں کی گئی برائی کا گناہ

رمضان میں کی گئی برائی کا گناہ عام دنوں میں کی گئی برائی سے زیادہ ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس رمضان میں نجاشی نامی شخص کو لایا گیا جس نے شراب پی رکھی تھی، آپ نے اسے نشہ اترنے تک چھوڑ دیا، پھر اسے اسی کوڑے مارے اور قید کر دیا،اگلے دن قید سے نکال کر مزید بیس کوڑے مارے اور فرمایا :

“ثمانين للخمر، وعشرين لجرأتك على الله في رمضان!

(المصنف لابن أبي شیبة : 28624)

اسی کوڑے شراب کی حد ہے اور بیس کوڑےمزید اس لیے کہ تم نے رمضان میں بھی اللہ کی نافرمانی کی اس قدر جرات دکھائی (اور شراب پی لی).

شیخ ابنِ باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

“اگر مہینہ فضیلت والا ہو یا جگہ فضیلت والی ہو تو ایک نیکی پر کئی نیکیوں کا ثواب ملتا ہے اور برائیوں کا گناہ بھی بڑھ جاتا ہے. پس رمضان میں کی گئی برائی کا گناہ غیر رمضان میں کی گئی برائی سے بڑھ کر ہے، جیسے رمضان میں کی گئی نیکی کا ثواب رمضان کے علاوہ کی گئی نیکی سے ذیادہ ہے.6

 روزے کا ساتھ تلاوتِ قرآن کا اجر

بندہ مومن جب روزہ کے ساتھ تلاوت قرآن کا بھی اہتمام کرے تووہ اس کا زیادہ حقدار ہوتاہے کہ قیامت کے دن یہ اعمال اس کے حق میں سفارش کریں کہ اس کے درجات بلند کردئے جائیں اور گناہ مٹا دئے جائیں۔عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الصيامُ والقرآنُ يشفعانِ للعبدِ يومَ القيامَةِ ، يقولُ الصيامُ : أي ربِّ إِنَّي منعْتُهُ الطعامَ والشهواتِ بالنهارِ فشفِّعْنِي فيه ، يقولُ القرآنُ ربِّ منعتُهُ النومَ بالليلِ فشفعني فيه ، فيَشْفَعانِ7

“روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے حق میں سفارش کریں گے، روزہ کہے گا: (اے پالنہار! میں نے اسے کھانے پینے اور خواہشات نفس سے روکے رکھا ، اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما) اور قرآن کہے گا: (میں نے اسے رات میں سونے سے باز رکھا ،اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما) چنانچہ دونوں کی سفارش قبول کر لی جائے گی ۔

تیس لاکھ نیکیاں

قرآن کے حروف کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ ہے اور اس کی آیات چھ ہزار سے زیادہ ہیں۔اور حدیث میں آتا ہے ۔عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ:‏‏‏‏ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَأُ بِهَا

(صحيح أبي داود: 1464)

صاحب قرآن سے کہا جائے گا: قرآن پڑھتے جاؤ اورجنت کےدرجات چڑھتے جاؤ، اور اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جس طرح تم دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتے تھے، پس تیرا مقام وہاں ہو گا جہاں تم آخری آیت تلاوت کرکے ختم کروگے۔

عزت و شرافت کا تاج

ایک اور حدیث کے اندر حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

يَجِيءُ صاحِبُ القُرآنِ يومَ القِيامةِ ، فيقولُ القرآنُ : يارَبِّ حُلَّهُ ، فيَلْبسُ تاجَ الكرامةِ ، ثُم يقولُ : ياربِّ زِدْه ، فيَلبسُ حُلَّةَ الكرامةِ ، ثُم يقولُ : ياربِّ ارْضَ عَنه ، فيَرضَى عنه ، فيُقالُ لهُ : اقْرأْ ، وارْقَ ، ويُزادُ بِكُلِّ آيةٍ حسنةً8

”قرآن قیامت کے دن پیش ہو گا پس کہے گا: اے میرے رب! اسے (یعنی صاحب قرآن کو) جوڑا پہنا، تو اسے کرامت (عزت و شرافت) کا تاج پہنایا جائے گا۔ پھر وہ کہے گا: اے میرے رب! اسے اور دے، تو اسے کرامت کا جوڑا پہنایا جائے گا۔ وہ پھر کہے گا: اے میرے رب اس سے راضی و خوش ہو جا، تو وہ اس سے راضی و خوش ہو جائے گا۔ اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور چڑھتا جا، تیرے لیے ہر آیت کے ساتھ ایک نیکی کا اضافہ کیا جاتا رہے گا“۔

اگر کسی کو قرآن مکمل کرنے کی توفیق حاصل ہوجائے اور اس کا عمل خلوص اور قابل قبول ہو تو ہر قرآن کے مکمل کرنے پر اس کے لیے تیس لاکھ نیکیاں ہوں گی، بلکہ بندے کی نیت کے مطابق اس سے بھی کئی گنا زیادہ اجر وثواب ملے گا۔

تقرب الہی کا ذریعہ

تلاوتِ قرآن مجید تقربِ الہی کاعظیم ترین ذریعہ ہے ، خواہ تراویح یا تہجدمیں تلاوت کی جائے یا نماز کے باہر تلاوت کی جائے ،حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

منْ قرأَ حرفًا من كتابِ اللهِ فله به حسنةٌ ، والحسنةُ بعشرِ أمثالِها لا أقولُ آلم حرفٌ ، ولَكِن ألِفٌ حرفٌ، ولامٌ حرفٌ، وميمٌ حرفٌ

(صحيح الترمذي: 2910)

”جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملے گی، اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی، میں نہیں کہتا «الم» ایک حرف ہے، بلکہ «الف» ایک حرف ہے، «لام» ایک حرف ہے اور «میم» ایک حرف ہے“

رضائے الہی کا ذریعہ

قرآن کی کثرت سے تلاوت درجات بلند کرنے اور رب کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے اور ہر حرف پر دس نیکیاں ہیں اور اللہ چاہے تواس سے بھی زیادہ اجر دے سکتا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ

( صحیح مسلم : 1151 )

”آدمی کا ہرنیک عمل دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔

اور ایک جگہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إذا أحسنَ أحدُكمْ إِسلامَه فكُلُّ حسنةٍ يَعمَلُها يُكتَبُ لهُ عشَرَةُ أمْثالِها ، إلى سَبعِمائةِ ضِعفٍ ، وكُلُّ سيِّئةٍ يَعملُها يُكتَبُ لهُ مِثلُها حتى يلْقَى اللهَ9

”جو شخص اپنے اسلام کو اچھا بنا لے تو اس کی ہر نیکی کا ثواب دس گنا لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی ایک نیکی کا ثواب سات سو نیکیوں کے برابر لکھا جاتا ہے اور برائی اپنے مثل لکھی جاتی ہے۔ (یعنی ایک برائی کا گناہ ایک ہی گناہ ہے) یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے۔

باعث ِعزت ورفعت

قرآن قوموں کے لیے باعث ِعزت ورفعت ہے۔اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں کو قرآن پر عمل کرنے کے سبب شان اور بلندی سے نوازا اور اور بعض قوموں کو قرآن کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے زلت ورسوائی میں دھکیل دیا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :

أَمَا إنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عليه وَسَلَّمَ قدْ قالَ: إنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بهذا الكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ به آخَرِينَ.

(صحيح مسلم: 817)

سنو تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اللہ تعالیٰ اس کتاب کے سبب سے کچھ لوگوں کو بلند کرے گا اور کچھ لوگوں کو گرا دے گا۔“

اگر آپ اپنے دل اور وقت کو قرآن سے بھریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو قرآن کے ذریعے دنیا میں لوگوں کی نظروں میں اور آخرت میں بلند درجات پر فائز کرے گا۔

سلف صالحین کا طریقہ

یہ وہ چند احادیث ہیں جو رمضان او رغیر رمضان میں تلاوتِ قرآن کی ترغیب سے متعلق آئی ہیں، قرآن کی تلاوت ماہ رمضان میں کی جانی والی ایک اہم ترین عبادت ہے، سلف صالحین کا طریقہ تھا کہ وہ رمضان میں کئی دفعہ ختمِ قرآن کرنے کا اہتمام کرتے تھے، کوئی تین راتوں میں قرآن ختم کرلیتا ، تو کوئی چار دنوں میں ختم کرتا اور کوئی چار سے زائد دنوں میں قرآن ختم کرتا۔اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ، مجھے اور آپ کو اس کی آیتوں اور حکمت پر مبنی نصیحت سے فائدہ پہنچائے ۔اے اللہ! ہمیں رمضان میں نیک عمل کی توفیق نصیب فرما۔

  1. (السلسلة الصحيحة: 1575 ، وصحیح الجامع : 1497)
  2. ( صحيح مسلم: 202)
  3. (أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف: 8733)
  4. (لطائف المعارف؛ 1/171)
  5. (أخرجه الدارمي (3336) إسناده صحيح وهو موقوف على أبي هريرة( ابن أبى شيبه: 10076)
  6. (مجموع فتاوی ومقالات : 446/15 )
  7. (صحیح الترغیب :984 ،وصحيح الجامع: 3882)
  8. (صحيح الترغيب: 1425، صحيح الترمذي: 2915)
  9. (صحيح مسلم 129، وصحیح الجامع: 287)
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ

Recent Posts

منہجِ سلف سے کیا مراد ہے؟

منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…

2 days ago

یا محمد ﷺ کہنا یا لکھنا کیسا ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…

3 days ago

ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد!؟

اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…

6 days ago

داتا اور مشکل کشا کون؟

اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…

7 days ago

مشکلات اور پریشانیوں کےحل کےلیے نسخہ؟

قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…

1 week ago

جنتی فرقہ کونسا ہے؟

فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…

2 weeks ago