اہل علم کا قسطوں کے کاروبارکی صحت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
اور جو جمہور اہل علم کا مؤقف معلوم ہوتا ہے وہ یہی کہ قسطوں کا کاروبار جائز ہے اور ضرورت کا تقاضہ بھی یہی ہے ۔ جس طرح خریدار کو یہ اختیار ہے کہ وہ چیز کی نقد قیمت ادا کرے یا رضامندی سے ایک مقررہ وقت تک اسے مؤخر کر لے ۔ اسی طرح عمومی دلائل کی بناء پرفروخت کنندہ کے لئے بھی جائز ہے کہ وہ ایک معقول حد تک وجوہات کی بنا پر قیمت بڑھاسکتا ہے ۔ البتہ قیمت کا یہ اضافہ مجبوری کا فائدہ اٹھانے اورظلم و زیادتی پر مبنی نہیں ہونی چاہئے ۔
قسطوں کے کاروبار کے جواز کے دلائل
1 معاملات میں اصل حلال ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ
المائدة – 01
’’ اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو‘‘۔
اور قیمت کی زیادتی تاخیر کی وجہ سے ہے لہٰذا اس معاملے میں تاجر اور خریدار دونوں کی مصلحت ہے، تاجر کی مصلحت قیمت زیادہ لینے میں اورخریدار کی مصلحت اس میں ہے کہ اس کو مطلوبہ چیز ماہانہ اقساط پر دستیاب ہوجاتی ہے ۔ چنانچہ اس معاملے کی ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ملتی لہذا اصل کی بنیاد پر اس پر حلال کا حکم لگے گا۔
2 شریعت کا ایک اصول یہ بھی ہے کہ معاہدوںمیں شروط و قیود لگانا جائز ہے بشرطیکہ وہ شریعت کے مخالف نہ ہوں ، تو جب فریقین اس شرط پر اتفاق کر لیں کہ قیمت قسطوں میں ادا کی جائے گی تومذکورہ اصول کی بنیاد پر اس کا حکم جواز کا ہے ،جیساکہ فرمان باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ
المائدة – 01
’’ اے ایمان والو! عہد و پیمان پورے کرو‘‘۔
3عدل کا تقاضہ بھی یہی ہے اس لئے کہ تاجر کو اس کی چیز کی قیمت اور اس سے حاصل ہونے والا فائدہ بعد میں ملا ، لہٰذا تاخیر کے نقصان کے پیش نظر اس کے لئے قیمت میں اضافہ جائز ہے ۔
4 بیع سلم پر قیاس بھی اس امر کے جواز کا متقاضی ہے ۔۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
” قدم رسول اللہ ﷺ المدينة وهم يسلفون في التمر السنة والسنتين والثلاثة فقال رسول الله ﷺ من أسلف في شيءٍ ففي كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم”
’’ رسول اللہ ﷺجب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو اہل مدینہ پھلوں میں بیع سلم کیا کرتے تھے ایک سال، دو سال، تین سال کی مدت کے لئے پس رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ جو شخص پھلوں میں بیع سلف کرے تو اسے چاہیے کہ متعین پیمانہ، متعین وزن اور متعین مدت کے ساتھ بیع سلف کرے‘‘۔[3]
سلم سے مراد : ’’ یہ کہ قیمت پیشگی ادا کردینا اور چیز ایک مدت کے بعد حاصل کرنا ہے ‘‘۔
اس میں عموماً چیز بڑھا کر اد ا کی جاتی ہے کیونکہ سلف کا معاملہ کرنے والا قیمت پیشگی ادا کرتا ہے اور سامان ایک مدت کے بعد لیتا ہے ،اورعام طور پر ان چیزوں کی قیمت سستی ہوتی ہے اور اس کی ادائیگی بھی زیادہ کی صورت میں ہوتی ہےبنسبت اس قیمت کے جو بوقت عقد مقرر ہوتی ہے ۔
5 بیع کی بنیادہی بڑھوتری پر مبنی ہے جبکہ قرض کی بنیاد تعاون ہے ۔اسی لئے قرض میں زیادہ وصول کرنا اسےتعاون کے دائرہ کار سے خارج کر دیتا ہے کہ جس کی بنیاد پر قرض کو جائزکیا گیا ہے۔
تنبیہ:
تاخیر کی بنیاد پرقسطوں کی رقم میں اضافہ کی شرط کا حکم : جب کوئی کہے کہ میں تمھیں یہ گاڑی دس ہزار ریال میں بیچتا ہوںاس شرط پرکہ اگر طے شدہ مدت میں ادائیگی نہ کی تو ایک مہینہ کی تاخیرکی صورت میں ایک سو ریال اضافی وصول کروں گا اور دو مہینے کی تاخیر کی صورت میں دو سو ریال ، اور اسی طرح جیسے جیسے تاخیر ہوتی گئی قیمت بڑھتی رہے گی ۔ یہ معاملہ اور بیع حرام ہے ، جائز نہیں ہے اس لئے کہ یہ( بعینہ ) جاہلیت والا سود ہے ۔
فقہ اسلامی اکیڈمی کی قسطوں کے کاروبار کے حوالے سے قرار داد
مجلس مجمع الفقه الاسلامی کاجدہ سعودی عرب میں منعقدہ چھٹے اجلاس جو بمطابق 17 تا 23 شعبان 1410ہجری موافق 14 تا 20 مارچ منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں قسطوں کے کاروبار کے حوالے سے پیش کردہ مقالہ جات سننے اور ان کا جائزہ لینے کے بعد جو قرارداد طے پائی وہ درج ذیل ہے ۔
1نقد کی بنسبت ادھار( قسطوں ) کی بیع پر قیمت بڑھانا جائز ہے جس طرح فروخت کی جانے والی چیز کی نقد قیمت بتانا جائزہے اسی طرح معینہ مدت کی اقساط میں ادائیگی کی قیمت بتانا بھی جائز ہے ۔البتہ یہ بیع اس وقت صحیح ہو گی جب خریدار اور فروخت کنندہ دونوں یقینی طور پر نقد اور ادھار (میں سے کسی
ایک)کا سودا کرنے میں سنجیدہ ہوں ۔اور اگر یہ سودا نقد و ادھار میں تردد کے ساتھ واقع ہو کہ کسی ایک قیمت پر یقینی اتفاق نہیں ہوا تو یہ شرعا جائز نہیں ہے ۔
2مدت سے مربوط کسی بھی قسم کی بیع میں شرعا یہ جائز نہیں کہ اس معاہدے میں حالیہ قیمت سے قسطوں کے منافع کا الگ سے ذکر کیا جائے جوکہ وقت سے مربوط ہو ۔چاہے فریقین اس منافع کو فیصدی طور پر اتفاق کریں یا اسے مارکیٹ ریٹ سے مربوط کریں۔[4]
3خریدار اگر قسطوں کی ادائیگی میں طے شدہ وقت سے تاخیر کرے ۔ تو ایسی صورت میں اس کی قسطوں کی رقم کو کسی صورت بڑھایا نہ جائے گا نہ ہی کسی سابقہ شرط کی صورت میں یا بغیر شرط کے کیونکہ یہ حرام کردہ سود ہے ۔
4ایسا مقروض جو ادائیگی کرسکتا ہے اس پر ادائیگی میں سستی کرنا حرام ہے لیکن اس کے باوجود ادائیگی میں تاخیر پر اس پر کوئی مالی جرمانہ نہیں لگایا جائے گا ۔
5 بائع کیلئے یہ جائز ہے کہ وہ خریدار کی طرف سے چند اقساط کی تاخیر سے ادائیگی کے سبب دیگر اقساط کی مدت مختصر کردے ( یعنی وہ قسطیں مقررہ وقت سے پہلے وصول کرے ) بشرطیکہ قرضدار نے بوقت عقد اس شرط پر اتفاق کیا ہو۔
6فروخت کنندہ کو معاہدہ کے بعد ملکیت رکھنے کا حق حاصل نہیں البتہ اس کے لئے یہ جائز ہے کہ مشتری پر سامان کے بطور ضمانت گروی رکھنے کی شرط لگا دے تاکہ اس کی تمام اقساط ادا ہوجائیں ۔[5]
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ : جب کسی آدمی کے پاس کوئی سامان ہو اور خریدار اس شخص سے وہ سامان نقد کے بجائے ادھار میں زیادہ قیمت ادا کرکے خریدنا چاہےتو اس کا شرعی حکم کیا ہے ؟
انہوں نے جواب دیا :’’ اکثر علماء کے نزدیک یہ جائز ہے اس فرمان الہی کی روسے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ
البقرة 282
’’ اے ایمان والو جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقررہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو اور لکھنے والے کو چاہیے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے‘‘۔
اللہ تعالی نے یہاں یہ شرط نہیں لگائی کہ یہ قرض کا معاملہ بس موجودہ قیمت ہی کے ساتھ ہو۔
اسی طرح یہ معاملہ آپﷺ کے اس فرمان کی وجہ سے بھی جائز قرار پاتا ہے کہ جب آپﷺمدینہ آئے اور مدینہ والے پھلوں میں ایک ، دو سال تک بیع سلم کرتے تھے تو آپﷺنے فرمایا :
“من أسلف في تمر فليسلف في كيل معلوم ووزن معلوم إلى أجل معلوم”
’’ جو شخص پھلوں میں بیع سلف کرے تو اسے چاہیے کہ متعین پیمانہ، متعین وزن اور متعین مدت کے ساتھ بیع سلف کرے‘‘۔[6]
اس حدیث میں نبیﷺنے بھی موجودہ وقت کی قید نہیں لگائی ۔ نیز امام حاکم اور بیہقی نے اسناد جید سے نقل کیا ہے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے کہ انہیں نبیﷺنے حکم دیا کہ وہ ایک لشکر کو تیار کریں اس وقت اونٹ کم پڑ گئے۔ نبیﷺنے انہیں حکم دیا کہ وہ ایک اونٹ کے بدلے دو اونٹ خرید لیں صدقہ کے اونٹ آنے تک ۔ اس معنی میں اور بھی دلائل بہت ہیں اس لئے کہ تجارت کا معاملہ ادھار میں صحیح نہیں رہ سکتا الا یہ کہ تاجر مقررہ قیمت سے زیادہ لے اس لئے کہ وہ سارے نقصانات کا پابند ہوتا ہے اور اس لئے کہ بائع قیمت کی زیادتی کے ذریعے ہی فائدہ حاصل کرتا ہے اورخریدار کو چھوٹ میں اور ادائیگی میں آسانی کا فائدہ حاصل ہوتا ہے کیونکہ ہر ایک تو یہ طاقت نہیں رکھتا کہ وہ اپنی ضرورت کی چیز یکمشت خرید لے اگر ادھار میں زیادتی ممنوع ہوتی تو اس سے کئی نقصانات جنم لیتے ۔کیونکہ شریعت کاملہ مصالح کے حصول اور ان کی تکمیل کیلئے اور مفاسد کے ازالے اور ان کو کم کرنے کیلئے آئی ہے ۔اور میں نہیں جانتا کہ اس مسئلے میں کسی نے اختلاف کیا ہو، بلکہ علماء کے کلام میں اس کا جواز و اباحت معروف ہے ۔اور یہ اس وقت ہے جب خرید و فروخت استعمال اور فائدے کے لئے کی جا رہی ہو ۔
مگر جب خریدار کوئی چیز اداھار میں اس لئے خریدے تاکہ اس کو نقد میں بیچ کراپنی فوری ضرورت کو پورا کر سکے، جیسے قرض کی ادئیگی ،گھر کی تعمیر ،یا شادی وغیرہ کیلئے،تو اگر یہ معاملہ صرف خریدار کی طرف سے ہے(یعنی ادھار میں بیچنے والا اس معاملہ سے لا تعلق ہو) تو اسکے جواز میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، اور اس کا نام مسئلہ التورق اور بعض نے اس کا نام الوعدۃرکھا ہے ۔ اس معاملہ میں زیادہ راجح یہی کہ یہ جائز ہے اور یہ فتوی ہم سابقہ عمومی دلائل کی وجہ سے دیتے ہیں، اس لئے کہ معاملات میں اصل جواز و اباحت ہے الا کہ جس کی حرام ہونے کے حوالہ سے کوئی خاص دلیل ہو،اور ضرورت بھی اس کی متقاضی ہے اس لئے کہ ضرورت مندکو بوقت ضرورت کوئی مدد کرنے والا نہیں ملتااور نہ ہی کوئی اسے قرض کے طور پر کچھ دیتا ہے اور اس وقت اس کی ضرورت بھی سخت ہے جو اسی معاملے کا تقاضا کرتی ہے تاکہ وہ اپنی ضرورت بھی پوری کر لے جو اسکے قرض کی ادائیگی کے راستے کھول دے‘‘[7]
وصلی اللہ و سلم علی نبینا محمد و علی آله وصحبه أجمعین
[1] استاد :فقہ اسلامی ،مدینہ یونیورسٹی ، مدینہ منورہ
[2] مدرس: معہد السلفی للتعلیم والتربیہ ، کراچی
[3] سنن ابی داؤد :کتاب لبیوع ،باب السلم فی وزن المعلوم (صحیح)
[4] اس شرط کو مثال سے ایسے سمجھا جائے کہ بائع خریدار سے کہے کہ میں فلاں گاڑی تمہیں نقد قیمت پر دس لاکھ میں بیچوں گا اور اگر قسطوں پر لو گے تو ایک سال کیلئے دس پرسنٹ اوپر لوں گا یا مارکیٹ ویلیو کے مطابق لوں گا ۔ اس کی ممانعت کا سبب قیمت کی لاعلمی ہے ۔ جوکہ جائز نہیں۔
[5] قرار داد نمبر :51 (2/6) قسطون کے کاروبار کے حوالے سے : مجلۃ المجمع: ع6ج1ص193 اور ع7ج2ص9
[6] ابو داؤد : 68متفق على صحته
[7] فتاوی ابن باز رحمہ اللہ19/98