ایمان وعقائد

قیامت کے مناظر اور ہولناکیاں

پہلا خطبہ :

بے شک تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اس کی حمد بجالاتے ہیں ، اسی سے مدد مانگتے ہیں اور اسی سے بخشش طلب کرتے ہیں ، ہم اپنے نفس کی برائی اور اپنے برے اعمال سے اللہ تعالی کی پناہ چاہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالی ہدایت دے اسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں، اور جسے وہ گمراہ کر دے، اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔

اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی (سچا) معبود نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ بہت زیادہ درودو سلام نازل ہوں آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کی آل اور صحابہ کرام پر۔

حمد و صلاۃ کے بعد!

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے اور خلوت و سر گوشی ہر حال میں اس کی نگرانی کا احساس اپنے دل میں قائم رکھو۔

مسلمانو! اللہ عزوجل نے یوم آخرت پر یقین کو ایمان کے ارکان میں سے ایک رکن قرار دیا ہے اور اپنی کتاب میں ایسے دلائل وبراہین ذکر کیے ہیں جن سے یوم آخرت پر یقین کرنا ضروری ہو جاتا ہے ۔ ان دلائل و براہین میں اللہ سبحانہ و تعالی کا کسی چیز کو عدم سے پہلی بار وجود بخشنے پر قادر ہونا، دنیا میں مردوں کو زندہ کرنا، جانوروں کو پیدا کرنے کی قدرت رکھنا اور پانی برسا کر پیڑ پودوں کو نکالناوغیرہ شامل ہیں۔ اور تمام انبیا کرام بالا تفاق اپنی قوموں کے سامنے یوم آخرت کا ذکر کیا کرتے تھے۔

نبی کریم ﷺ کا طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے خطبوں میں گاہے بگاہے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے آخرت کے دن کا تذکرہ اور اس کی تفصیلات اس طرح بیان کرتے تھے گویا کہ وہ اس دن کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں۔ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : ”نبی اکرم ﷺ کے خطبے اللہ کی نعمتوں اور اس کے اوصاف کمال اور صفات حمیدہ پر حمد وثنا، اسلام کے اصولوں کی تعلیم ، جنت و جہنم اور یوم آخرت کا تذکرہ، تقوی الہی کا حکم، رب کی ناراضگی کی وجوہات اور رضامندی کے اسباب پر مشتمل ہوا کرتے تھے“۔

اللہ تعالی نے قیامت کے دن کو مختلف ناموں سے ذکر کیا ہے تاکہ لوگ اس سے عبرت حاصل کریں اور اس میں غور و فکر کریں۔ اس کے ناموں میں سے کچھ یہ ہیں:

  • یوم الدین ( بدلے کا دن)
  • یوم الفصل (فیصلے کا دن)
  • یوم الحساب (حساب کا دن)
  • یوم الحسرة (حسرت کادن)
  • یوم الجمع (سب کے جمع واکٹھا ہونے کا دن)
  • یوم البعث (دوبارہ اٹھائے جانے کا دن)۔

جب اللہ تعالی قیامت قائم کرنے کا فیصلہ کرے گا تو اسرافیل علیہ السلام  کو حکم دے گا، پھر وہ صور میں پھونک ماریں گے، جس سے بندوں کی روحیں اڑتے ہوئے آکر ان کے جسموں میں لوٹ آئیں گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ

یٰس – 51

”اور صور میں پھونکا جائے گا تو اچانک وہ قبروں سے اپنے رب کی طرف تیزی سے دوڑ رہے ہوں گے۔ “

 مخلوقات کے جسم سڑ گل جانے کے بعد اسی طرح تیار ہوں گے جس طرح پودا اگتا ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی آسمان سے بارش برسائے گا جس سے لوگ اسی طرح جی اٹھیں گے جس طرح دانے بوئے جانے کے بعد اگتے ہیں۔ انسان کے جسم کا ہر حصہ سڑ جائے گا سوائے ایک ہڈی کے۔ اور وہ ہے پیٹھ کے نچلے حصے کی ہڈی۔ اسی سے قیامت کے دن مخلوق کو دوبارہ بنایا جائے گا“۔ (بخاری و مسلم)۔

اللہ تعالی بندوں کے جسم، بال اور چمڑے کو دوبارہ اسی طرح پیدا کرے گا جس طرح سب کچھ اس دنیا میں تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

كَمَا بَدَأْنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيدُهُ

الانبیاء – 104

 جس طرح ہم نے پہلی پیدائش کی ابتدا کی (اسی طرح) ہم اسے لوٹائیں گے۔

 لوگ اپنی اپنی قبروں سے خوف زدہ ہو کر نکلیں گے۔ سب سے پہلے ہمارے نبی اکرم ﷺ اپنی قبر مبارک سے نکلیں گے۔

 آپ ﷺ نے فرمایا: ” میں قیامت کے دن بنی آدم کا سردار ہوں گا اور سب سے پہلے میری ہی قبر پھٹے گی۔ (مسلم)۔ اس دن لوگ ننگے پیر اور ننگے بدن ہوں گے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے: ” مخلوق میں سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام کو کپڑا پہنایا جائے گا۔“ (بخاری و مسلم)۔

جن وانس اور چوپائے ساری مخلوقات کو ایک سرخی مائل سفید زمین پر اکٹھا کیا جائے گا، جہاں کسی کی کوئی نشانی نہیں ہو گی۔ رب دو جہاں اس زمیں کو چمڑے کی طرح پھیلا دے گا اور وہ زمین آج کی معروف زمین کی طرح نہیں ہوگی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَاوَاتُ

ابراھیم – 28

 جس دن یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور آسمان بھی (بدل دیئے جائیں گے)۔

اس دنیا میں آدمی کا خاتمہ خیر یا شر جس پر ہو گا، اسے اسی پر قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ”ہر انسان کو اسی پر دوبارہ اٹھایا جائے گا جس پر اس کی موت ہوئی ہے۔“ (مسلم)۔

 بعض لوگوں کو ان کے اپنے عمل کی صورت میں اٹھایا جائے گا جس پر وہ اس دنیا میں قائم تھے اور جس کی سزا یا ثواب انہیں اسی دنیا میں مل گیا تھا۔ کچھ اہل ایمان ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالی اپنے سائے میں جگہ دے گا اور اس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ جبکہ کافر ذلت ورسوائی اور خوف و دہشت میں ہوں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يَوْمَ يَخْرُجُونَ مِنَ الْأَجْدَاثِ سِرَاعًا كَأَنَّهُمْ إِلَىٰ نُصُبٍ يُوفِضُونَ ‎﴿٤٣﴾‏ خَاشِعَةً أَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ ۚ

المعارج – 43/44

”جس دن وہ اپنی قبروں سے نکل کر اسی طرح دوڑے جارہے ہوں گے جیسے اپنے بتوں (کے استھانوں) کی طرف دوڑ رہے ہوں ان کی نگاہیں جھکی ہوں گی، ذلت ان پر چھار ہی ہو گی۔ “

یہ وہ دن ہو گا جس دن مخلوقات کی نگاہیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور دل حلق کو آجائیں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ ‎﴿٨﴾‏ أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ

النازعات – 8/9

 کئی دل اس دن خوف سے کانپ رہے ہوں گے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی۔

سورج ان سے اتنا قریب آجائے گا کہ اس کی حرارت و گرمی سے پریشان ہوں گے اور اپنے اپنے اعمال کے بقدر پسینے میں شرابور ہوں گے ، جس سے ان کی پریشانیاں مزید بڑھ جائیں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ” قیامت کے دن لوگ پسینے میں شرابور ہو جائیں گے اور حالت یہ ہو جائے گی کہ ان کا پسینہ زمین پر ستر ہاتھ تک پھیل جائے گا اور منہ تک پہنچ کر کانوں کو چھونے لگے گا۔“ (بخاری و مسلم)۔ دوسری حدیث میں ہے: ”اور لوگوں کو نا قابل برداشت غم اور پریشانی لاحق ہو گی۔“ (بخاری و مسلم)۔

جب لوگ دیر تک کھڑے کھڑے تھک جائیں گے اور مزید کھڑا رہنا نا قابل برداشت ہو گا تو وہ کسی ایسے شخص کو طلب کریں گے جو رب دو جہاں کے پاس ان کی سفارش کرے تاکہ اللہ تعالیٰ  ان کے پاس آئے اور ان کے درمیان فیصلہ کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا دیکھتے نہیں تم کس حالت میں ہو؟ کیا دیکھتے نہیں تم پر کیسی مصیبت آپڑی ہے؟ کیا تم کوئی ایسا شخص تلاش نہیں کرتے جو اللہ کے ہاں تمہاری سفارش کردے۔“ (بخاری و مسلم)۔

 تو لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ وہ اپنے رب کے پاس سفارش کریں تو وہ عذر پیش کریں گے اور کہیں گے : ”میر ارب آج اتنے غصے میں ہے جتنے غصے میں اس سے پہلے کبھی نہیں آیا اور نہ اس کے بعد کبھی آئے گا۔ “ پھر لوگ نوح، ابراہیم، موسی اور عیسی علیم السلام کے پاس آئیں گے، لیکن سب عذر پیش کریں گے اور آدم علیہ السلام کی طرح جواب دیں گے۔ پھر ہمارے نبی اکرم ﷺ کے پاس آئیں گے تو آپ ﷺ فرمائیں گے: ”ہاں مجھے منظور ہے۔

 آپ ﷺ فرماتے ہیں: ”تو میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آؤں گا اور اپنے رب کے حضور سجدے میں گر جاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ مجھ پر اپنی ایسی تعریفوں اور اپنی ایسی بہترین ثنا کے دروازے کھول دے گا اور انہیں میرے دل میں ڈالے گا جو مجھ سے پہلے  کسی کے لیے نہیں کھولے گئے ہوں گے ، پھر (اللہ) فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھائیں، مانگیں، آپ کو ملے گا، سفارش کریں، آپ کی سفارش قبول ہو گی۔ تو میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا اے میرے رب ! میری امت ! میری امت! “۔

اس کے بعد رب دو جہاں اپنے جلال و عظمت کے ساتھ آئے گا اور بندوں کے درمیان فیصلے فرمائے گا، اس وقت تمام مخلوق اللہ کے سامنے ایک ہی صف میں پیش ہو گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَعُرِضُوا عَلَى رَبِّكَ صَفًّا

الکھف – 48

اور سب کے سب تیرے رب کے سامنے صف بستہ حاضر کیسے جائیں گے۔

اللہ تعالی ان سے ہم کلام ہو گا، ان کے سامنے ان کے اعمال و کر توت بیان فرمائے گا، انھیں ان کے گناہوں کا اقرا کر وائے گا۔ رسولوں کو ان کی اپنی اپنی امتوں پر گواہ بنا کے لایا جائے گا۔ فرشتوں میں سے بھی کچھ گواہ بنیں گے۔ زمین بھی ان تمام چیزوں کی گواہی دے گی جو اس پر انجام دی گئی ہوں گی اور اعضا و جوارح بھی اپنے اعمال کی گواہی دیں گے۔

وہ تمام صحیفے اور رجسٹر پھیلا دیے جائیں گے جو لکھنے والے فرشتوں کے ہاتھوں میں ہوا کرتے تھے۔ اس دن ہر چھپی ہوئی چیز ظاہر ہو جائے گی۔ ارشاد باری تعالی ہے:

يَوْمَئِذٍ تُعْرَضُونَ لَا تَخْفَى مِنْكُمْ خَافِيَةٌ

الحاقة – 18

اس دن تم اللہ کے حضور ) پیش کیے جاؤ گے (اور) تمہارا کوئی راز چھپانہ رہ جائے گا۔

 بندہ کوئی کام کرتا ہے اور بھول جاتا ہے، لیکن اللہ اسے نہیں بھولتا، بلکہ اسے گن کے رکھتا ہے۔ بروز قیامت اسے بندے کے سامنے ظاہر کرے گا اور وہ اس کا انکار نہیں کر پائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

أَحْصَاهُ اللَّهُ وَنَسُوهُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ

المجادلة – 18

اللہ کو وہ سب (کام) یاد ہیں اور یہ ان کو بھول گئے ہیں اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔

اللہ سبحانہ و تعالی سب سے تیز حساب لینے والا ہو گا، وہ اپنی مشیت و قدرت سے ایک ہی وقت میں تمام مخلوق کا حساب لے لے گا۔ حساب کے وقت سب سے پہلے بندے سے توحید اور اتباع رسول ﷺ کے بارے میں پوچھا جائے گا پھر نماز کے بارے میں۔ اگر نماز درست رہی تو سارے اعمال درست رہیں گے اور نماز درست نہ رہی تو وہ خائب و خاسر ہو گا۔ قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اس وقت تک اپنی جگہ سے نہ ہٹیں گے جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے: ”اس کی عمر کے بارے میں کہ اس نے اسے کن چیزوں میں ختم کیا ؟ اس کے علم کے بارے میں کہ اس نے اسے کن چیزوں میں خرچ کیا؟ اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اسے کن چیزوں میں کھپایا؟“ (ترمذی)۔

 ہر ایک نعمت میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ  کا بندے پر یہ حق ہے کہ وہ اس کے بارے میں سوال کرے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ يَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِيمِ

التکاثر – 8

پھر اس دن ضرور تم سے نعمتوں کے بارے میں باز پرس ہو گی۔

حساب کے وقت لوگ دو طرح کے ہوں گے : ایک خوش نصیبوں کا گروہ ہو گا جو اپنا نامہ اعمال اپنے دائیں ہاتھ میں تھامے گا، اللہ تعالی اس سے نہایت آسان حساب لے گا، وہ قیامت کے میدان میں اپنے اہل و عیال اور دوستوں کے پاس خوشی خوشی واپس آئے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا ‎﴿٨﴾‏ وَيَنقَلِبُ إِلَىٰ أَهْلِهِ مَسْرُورًا

الانشقاق – 8/9

 تو (اسوقت) جس  شخص کے داہنے ہاتھ میں اعمال نامہ دیا جائے گا اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا اور وہ اپنے اہل کی طرف ہنسی خوشی لوٹ آئے گا۔

 دوسرا بد بختوں کا گروہ ہو گا جسے نامہ اعمال بائیں ہاتھ میں، یا پیچھے سے دیا جائے گا تو وہ گھبراتے ہوئے کہے گا:

يالَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَّة

الحاقة – 25

کاش ! مجھے میرا اعمال نامہ دیا ہی نہ جاتا۔

 اللہ تعالی اس کا سخت حساب لے گا، اس کے عمل کا ذرہ ذرہ گنے گا اور ہر چھوٹی بڑی چیز میں مواخذہ کرے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ ‎﴿١٠﴾‏ فَسَوْفَ يَدْعُو ثُبُورًا ‎﴿١١﴾‏ وَيَصْلَىٰ سَعِيرًا ‎

الانشقاق – 10/11/12

 ”ہاں جس شخص کا اعمال نامہ اس کی پیٹھ پیچھے سے دیا جائے گا تو وہ ہلاکت کو پکارے گا اور بھڑکتی ہوئی آگ میں جا پڑے گا“۔

اس عظیم مکان میں بندوں کو اللہ کے عدل وانصاف اور وسیع علم کا پتہ چل جائے گا۔ اہل ایمان اللہ کی وسیع رحمت، اس کے فضل و کرم اور احسان کا مشاہدہ کریں گے۔ اللہ تعالی خیر و بھلائی کرنے والوں کے ساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ فرمائے گا اور توبہ کرنے والوں کو معافی کا انعام دے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی مومن کو قیامت کے دن قریب کرے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی اسے اپنے پہلو میں لے لے گا اور اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کراتے ہوئے پوچھے گا: کیا تمہیں یہ گناہ یاد ہے؟ کیا تمہیں یہ گناہ یاد ہے ؟ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے یاد ہے۔ وہ سمجھے گا کہ اب میں ہلاک ہو گیا۔ اللہ تعالی فرمائے گا کہ :میں نے دنیا میں اس گناہ کے معاملے میں تیری ستر پوشی کی اور آج میں اسے تیرے لیے معاف کرتا ہوں۔ پھر اسے اس کی نیکیوں کا دفتر دے دیا جائے گا۔

 اور جہاں تک کافروں اور منافقوں کی بات ہے تو گواہان گواہی دیں گے:

هَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَىٰ رَبِّهِمْ ۚ أَلَا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ

” یہی لوگ تھے جو اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھتے تھے۔ دیکھو ! ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔“(ھود:۱۸)، (بخاری و مسلم)۔

میزان قائم کی جائے گی تاکہ بندوں کے اعمال تو لے جائیں، ان پر حجت قائم ہو جائے اور ان پر اللہ کا عدل وانصاف ظاہر ہو جائے۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِمَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبينَ

الانبیاء – 47

اور ہم قیامت کے دن ایسے ترازور کھیں گے جو عین انصاف ہوں گے ، پھر کسی شخص پر کچھ ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر رائی کے ایک دانہ کے برابر عمل ہو گا تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب لینے والے کافی ہیں۔

جس کی میز ان بھاری ہو گی وہ کامیاب ہو گا اور نجات پا جائے گا اور جس کی میزان ملکی ہو گی وہ ہلاک ہو جائے گا۔ لوگ اس وزن میں اپنے اعمال ودلوں کی درستی کے حساب سے الگ الگ اور مختلف ہوں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “بروز قیامت موٹا فربہ آدمی کو لایا جائے گا ، اس کا اللہ کے ہاں ایک مچھر کے پر کے برابر وزن نہیں ہو گا۔“ (بخاری و مسلم)۔

آخرت میں اللہ سبحانہ و تعالی کے عدل کا ایک مظہر یہ ہو گا کہ وہ لوگوں کو آپس میں ایک دوسرے سے انتقام دلوائے گا۔ پس جو کسی پر ظلم کیا ہو گا اس سے قیامت کے میدان میں بدلہ دلوائے گا۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”تمھیں روز قیامت حق والوں کے حق ضرور ادا  کرنے ہوں گے حتی کہ بغیر سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلوایا جائے گا۔ “ (مسلم)۔

 وہ آدمی ناکام ہو گا جس کی نیکیاں دوسروں کے لیے لے لی جائیں گی، حالانکہ وہ خود ان کا حد درجہ محتاج ہو گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے اپنے بھائی کی عزت یا کسی اور شے میں حق تلفی کر رکھی ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ آج ہی اس سے بری الذمہ ہو جائے، اس سے پہلے کہ (وہ دن آئے) جب نہ دینار ہوں اور نہ در ہم ۔ اگر اس کی کچھ نیکیاں ہوں گی تو جتنی اس نے حق تلفی کی ہو گی، اس قدر اس کی نیکیاں لے لی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں نہیں ہوں گی، تو اس کے بھائی کی برائیوں کو لے کر اس کے کھاتے میں ڈال دیا جائے گا “۔ (بخاری)۔

میدان محشر میں بہت بڑا اور وسیع حوض ہو گا، جو اللہ عزوجل ہمارے نبی اکرم ﷺکو عطا کرے گا، اس میں جنت کے نہر کوثر سے دو پر نالے بہیں گے، اس حوض کی لمبائی اور چوڑائی ایک ایک مہینے کی مسافت کے برابر ہو گی، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہو گا، اس کی خوشبو مشک سے بڑھ کر ہو گی، اس میں پیالے آسمان کے ستاروں سے بھی زیادہ ہوں گے ، جو انسان اس سے پیئے گا کبھی پیاسانہ ہو گا اور حوض سے ایسے لوگوں کو روک دیا جائے گا جنہوں نے دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد کی ہوں گی جن کی اجازت اللہ نے نہیں دی ہے۔

جب رب العالمین بندوں کے درمیان فیصلے سے فارغ ہو جائے گا تو لوگ میدان محشر سے جنت کی طرف یا جہنم کی طرف جانے لگیں گے۔ مومنوں اور منافقوں کو سامنے سے اور دائیں سے ان کے ایمان کے بقدر روشنی عطا کی جائے گی۔ دورخ کے اوپر پل صراط قائم کیا جائے گا۔ وہ ایک پھسلنے اور گرنے کی جگہ ہے وہاں قدم نہیں ٹھہریں گے۔ لوگ اس پر اپنے اعمال کے حساب سے گزریں گے۔ مومن اس پر سے پلک جھپکنے میں، بجلی کی سی تیزی سے، ہوا کی مانند، پرندے کی مانند اور تیز رفتار عمدہ گھوڑوں اور اونٹوں کی طرح گزر جائیں گے۔ اس پر درانتیاں، آنکڑے اور بڑے بڑے کانٹے ہوں گے جو لو گوں کو کھینچیں گے۔ ان میں سے بعض تو صحیح سلامت نجات پا جائیں گے ، بعض زخمی تو ہوں گے لیکن بچ جائیں گے اور بعض جہنم میں جاگریں گے۔ اور ہمارے نبی ﷺکی اس پل صراط پر کہہ رہے ہوں گے: اے اللہ ! تو نجات دے، اے اللہ ! تو نجات دے۔

جب اہل ایمان جہنم سے نجات پاکر پل صراط کو پار کر لیں گے تو پھر انھیں جنت اور جہنم کے درمیان ایک اور پل پر روک دیا جائے گا اور دنیا میں انھوں نے ایک دوسرے پر جو مظالم کیے تھے انھیں ان کا بدلہ دے دیا جائے گا پھر جب بالکل پاک صاف ہو جائیں گے تو جنت میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔

پھر ہمارے نبی ﷺ تشریف لائیں گے ، ان کے لیے جنت کا دروازہ کھولا جائے گا، اور آپ ہی سب سے پہلے اس میں داخل ہوں گے پھر آپ کی امت پھر باقی امتیں داخل ہوں گی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا، چوکیدار پوچھے گا: تم کون ہو؟ میں کہوں گا: محمد !وہ کہے گا: آپ ہی کے واسطے مجھے حکم ہوا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لیے دروازہ نہ کھولنا۔“ (مسلم)۔

مسلمانو! قیامت آنے والی ہے، اس میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ قیامت کا دن سخت مشکل، بھاری اور لمبا دن ہو گا۔ یکے بعد دیگرے پریشانی آتی جائے گی۔ اس کی ہولناکیوں سے بچوں کے بال سفید ہو جائیں گے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی ﷺ کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنی امت کو اس عظیم دن سے ڈرائیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

 ”اور انہیں بہت ہی قریب آنے والی ( قیامت سے آگاہ کر دیجئے جب کہ دل حلق تک پہنچ جائیں گے، اور سب خاموش ہوں گے۔“

لہذا عقل مند وہ شخص ہے جس نے اس کے لیے مکمل تیاری کرلی ہے ، اس کی سختیوں اور ہولناکیوں سے بچنے کے لیے تیار ہو گیا اور اللہ کی طرف پلٹ کر توبہ کی۔

أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ

میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ چاہتا ہوں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

الحشر – 18

اے ایمان والو! الله سے ڈرو اور ہر ایک کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لئے کیا سامان کیا ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ یقینا اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

اللہ تعالی قرآن کریم کو میرے اور آپ سب کے لیے بابرکت بنائے۔

دوسرا خطبہ :

 تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اس کے احسانات پر، اور ہر طرح کا شکر ہے اس کی توفیق اور انعامات پر، میں اللہ کی عظمت شان کا اعتراف کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ بے شمار در ورد و سلام نازل ہوں آپ ﷺ پر، آپ ﷺ کی آل اور صحابہ کرام پر۔

مسلمانو!آخرت کے دن کے بارے میں واقفیت حاصل کرنا ہر ایک مسلمان پر واجب ہے۔ قیامت کے بارے میں جس کا علم زیادہ ہو گا اس کے ایمان میں اضافہ ہو گا۔ لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اسے یاد کریں اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل کریں۔ انسان پر واجب ہے کہ آخرت کے بارے میں اتنا علم حاصل کرے جس سے کہ اس کا عقیدہ صحیح ہو اور قول و فعل میں درستی تک پہنچنے میں معاون ومدد گار ہو۔ کامیاب وہ ہے جسے اللہ کامیاب کر دے اور ناکام وہ ہے جسے اللہ نفس کے سپرد کر دے۔

پھر جان لو کہ اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی  کریم ﷺ پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالی ہے:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

 اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو ۔

 اے اللہ! ہمارے نبی کریم  محمدﷺپر درود و سلام اور برکتیں نازل فرما، اے اللہ ! خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان اور علی سے راضی ہو جا، جنھوں نے حق وانصاف کے ساتھ فیصلے کیے بلکہ تمام صحابۂ کرام سے راضی ہو جا، اور اپنے جود و کرم کی بارش برساتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہو جا، اے سب سے زیادہ کرم کرنے والے !

اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو عزت و غلبہ عطا فرما، شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، دشمنانِ دین کو تہس نہس کر دے۔

 اے اللہ ! اس ملک کو اور تمام اسلامی ممالک کو امن وامان اور خوشحالی کا گہواہ بنادے۔

 اے اللہ! ہمارے امام اور ان کے ولی عہد کو اپنے پسندیدہ امور کی توفیق دے، نیکی و تقوی کے کاموں پر لگا دے اور ان کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو فائدہ پہنچا۔ اے سارے جہانوں کے پالنہار! تو مسلمانوں کے تمام حکمرانوں کو قرآن مجید پر عمل کرنے اور تیری شریعت کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔

رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

البقرۃ – 201

”اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی۔ اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔“

رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الخاسرين

الاعراف – 23

ہمارے پروردگار! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم بہت نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْيَ وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

النحل – 90

اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔

 وہ اللہ جو عظمت اور جلال والا ہے، اسے یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو، وہ تمہیں اور زیادہ عطا کرے گا۔

وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ

العنکبوت – 45

بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے ، جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔

خطبة الجمعة مسجدالنبویﷺ: فضیلة الشیخ ڈاکٹرعبدالمحسن بن محمد القاسم حفظه اللہ
26 رجب 1444 ھ بمطابق 17 فروری 2023

فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

آپ یعنی جناب عبد المحسن بن محمد بن عبد الرحمن القاسم القحطانی کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے گریجویشن کیا اور المعہد العالی للقضاء سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مسجد نبوی کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ محکمۃ الکبریٰ مدینہ منورہ میں قاضی (جسٹس ) بھی ہیں ۔

Share
Published by
فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

Recent Posts

شب برات منانا، عبادت یا بدعت؟

ماہِ شعبان میں پیارے نبی کریم ﷺ کا کیا معمول تھا؟ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیا…

3 days ago

چھوٹے اعمال، بڑا ثواب!

نبی کریم ﷺ نے 40 چھوٹے اعمال میں سب سے بڑی نیکی کیا بیان فرمائی؟…

6 days ago

پانی کب ناپاک ہوتا ہے؟

پانی کی وہ کونسی تین صفات ہیں، جن میں کسی ایک کی تبدیلی سے پانی…

6 days ago

کیا نبی کریم ﷺ علم غیب جانتے تھے؟

علمِ غیب کسے کہتے ہیں؟ عالم الغیب سے کیا مراد ہے؟ کیا نبی کریم ﷺ…

1 week ago

کیا کافر کی موت پر RIP کہنا جائز ہے؟

غیر مسلموں سے متعلق غامدی صاحب کے قرآن و سنت سے متصادم نظریات! کیا غیر…

1 week ago

ہم کشمیر کے مسلمانوں کی مدد کیسے کریں؟

سال میں ایک دن یوم یکجہتی کشمیر منانا کیسا ہے؟ یوم یکجہتی کشمیر منانے سے…

1 week ago