پہلا خطبہ :
تمام تعریف اللہ کے لیے جس نے صبر پر ابھارا، اور اسے اعلی ترین مقاصد کی کنجی بنایا، اور صبر کرنے والوں کے اجر و ثواب کو بڑا کیا، اور انہیں بلند ترین آرزؤوں سے نوازا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ ایک ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے صبر کا انجام کامیابی کو بنایا اور صبر کے ساتھ غلبہ کو رکھا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، مصیبت کے وقت صبر اور عطا کے وقت شکر کرنے والوں میں سب سے بہتر ، ان پر اللہ کی رحمتیں ہوں، اور ان کے معزز پاک باز اہل واصحاب پر ، اور ان کی اچھی طرح اتباع کرنے والوں پر ، جب تک رات ودن کی آمد رہے، اور ان پر بہت زیادہ سلامتی نازل فرمائے۔
اما بعد !
مومنوں کی جماعت! میں اپنے آپ کو اور تمہیں باطن و ظاہر ، تنگی و فراخی میں اللہ کے تقوی کی نصیحت کرتا ہوں۔
وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
البقرۃ – 197
اور زاد راہ لے لیا کرو اور بہترین زاد راہ پر ہیز گاری ہے، اور اےعقل مندوں مجھ سے ڈرو۔
امت مسلمہ! اللہ تعالی نے اپنے نبی ایوب علیہ السلام کو ان کی ذات، مال واولاد میں آزمائش سے دوچار کیا، تو ان کے بدن میں صرف دل و زبان ہی صحیح و سالم رہے، اور وہ صبر اور ثواب کی امید کرتے رہے، وہ اپنے قبول کرنے والے رب کے ذکر سے نہیں رکے ، 18 برس تک اپنے مرض کو جھیلتے رہے، یہاں تک کہ ہم نشین کنارہ کش اور دوست منتظر ہو گئے، اور ان کی بیوی کے سوا ان پر ترس کھانے والا کوئی باقی نہ بچا، وہ ان کا حق ادا کرتیں، اور ان کے قدیم احسان کو چکاتی رہیں، اور صبر اور ثواب کی امید کرتی رہیں، باوجود اس کے کہ ان پر مال و اولاد کی جدائی اور فقر کی مصیبت آن پڑی، ایوب علیہ السلام کی آزمائش ہر صبر کرنے والے، یاد کرنے والے اور عبادت گزار عبرت پڑنے والے کے لئے تسلی کا سامان بن گئی، اور اللہ اپنے نیک بندے کو آزماتا ہے۔
اس لیے نہیں کہ وہ اس کی نظر میں بے قیمت ہو تا ہے ، بلکہ اس لئے تا کہ وہ بندہ اپنے صبر اور نواب کی امید کی بنا پر جنت میں اس درجہ کو پہنچ جائے جو اللہ نے اس کے لیے تیار کر رکھا ہے۔ مسند احمد کی روایت ہے، سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! سب سے زیادہ کون آزمایا جاتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”انبیاء ورسل ، پھر جو ان کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو ان کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں مضبوط ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں کمزور ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق آزمائش بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روئے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہو تا اللہ نے فرمایا:
وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَىٰ رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ ﴿٤١﴾ ارْكُضْ بِرِجْلِكَ ۖ هَٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَشَرَابٌ ﴿٤٢﴾ وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿٤٣﴾ وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
ص – 41/44
اور ہمارے بندے ایوب (علیہ السلام) کا (بھی) ذکر کر ، جبکہ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے رنج اور دکھ پہنچایا ہے، اپنا پاؤں مارو، میں نہانے کا ٹھنڈا اور پینے کا پانی ہے ، اور ہم نے اسے اس کا پورا کنبہ عطا فرمایا بلکہ اتناہی اور بھی اس کے ساتھ اپنی (خاص) رحمت سے، اور عقلمندوں کی نصیحت کے لئے، اور اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا ( جھاڑو) لے کر مار دے اور قسم کو مت توڑ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے استے بڑا صابر بندہ پایا، وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔
اے مومنو کی جماعت! یقینا صبر بڑی فضیلت کا عمل ہے، اور نیکوں کا عظیم اخلاق ہے، اور وہ آدھا ایمان ہے، ایمان کے دو حصے ہیں، صبر اور شکر، اور صبر کی اہمیت اور اس کے عظیم مرتبہ کی وجہ سے قرآن میں اس کی فضیلت کا ذکر 90 مقامات سے زیادہ ہوا ہے، کبھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسے نماز کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے کہا:
اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ
البقرۃ – 153
اور صبر و نماز کے ذریعہ اللہ سے مدد طلب کرو۔
اور بھی اپنی محبت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے کہا:
وَاللَّهُ يُحِبُّ الصَّابِرِينَ
آل عمران – 146
اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کر تا ہے۔
اورکبھی اپنی خاص معیت پر کامیابی کے ساتھ ذکر کیا:
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
البقرۃ – 153
یقینا اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔
اور اللہ صابرین کے لیے بغیر حساب اجر و ثواب کو واجب کرتا ہے:
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
الزمر – 10
بلاشہ صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بلا حساب دیا جائے گا۔
اور اللہ تعالی نے صابرین کی تین خصوصیتیں رکھی ہیں جو کسی اور کو نہیں دیں : ان پر اللہ کی رضامندی و تعریف، ان پر اللہ کی رحمت، ان کے لیے اللہ کی ہدایت۔اور تمہارے لیے اللہ کا یہ قول کافی ہے:
الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿١٥٦﴾ أُولَٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ
البقرۃ – 156/157
تو صبر سراپا خیر و بھلائی ہے۔
وَلَئِن صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصَّابِرِينَ
النحل – 126
اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے لیے بہتر ہے۔
اور کتنے ہی آزمائش پر صبر کرنے والوں کی آزمائش ختم ہو گئی اور ان کے لیے اللہ کی محبت اور معیت باقی رہ گئی، اور بسا اوقات یہ ہوا کہ آزمائش باقی رہی یہاں تک کہ آدمی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ اور قیامت کے دن ایسے جنت سے سر فراز ہو گا جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، یہاں تک کہ عافیت والے جب صبر کرنے والوں کے لیے اللہ کی تیار کردہ نعمتیں دیکھیں گے تو تمنا کریں گے کہ اے کاش کہ انہیں بھی دنیا میں مصیبت پہنچتی۔
سنن ترمذی میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب قیامت کے دن ایسے لوگوں کو ثواب دیا جائے گا جن کی دنیا میں آزمائش ہوئی تھی تو اہل عافیت خواہش کریں گے کہ کاش دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کتر دی جاتیں”۔ (پھر کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کے عمل کے بدلہ میں ان کی آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپارکھی ہے ، یہ اُن کو اُن کے اعمال کا صلہ ملا ہے)۔
ایمانی بھائیو! صبر کا معنی کچھ لوگوں کے نزدیک ان واقعات سے تعلق رکھتا ہے جنہیں دور کرنا بس میں نہیں ہوتا، یا ان ناگہانی مصیبتوں سے جن سے چھٹکارا ممکن نہیں، حالانکہ صبر آدمی کی زینت ہے، وہ صبح وشام کی آمد ورفت میں، اپنے اہل خانہ اور زیر نگیں اشخاص کے ساتھ، اپنے پڑوسیوں اور دوستوں کے ساتھ جس سے مزین رہتا ہے، کیونکہ گھلنے ملنے جانے میں تکلیف پہنچنے کا خدشہ ہے، تولوگوں کے اخلاق اور ان کی طبیعتوں پر ، ان کی جہالت و سرکشی پر صبر ضروری ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ
آل عمران – 120
اور اگر تم صبر کرو اور پرہیز گاری کرو تو ان کے غریب ہے تمہارا کچھ نہ بگڑے گا۔
اور مسند احمد میں ہے کہ: رسول اللہ صلی ﷺ نے فرمایا: “جو مومن لوگوں سے ملتا جلتا ہے ور ان سے ملنے والی تکلیف پر صبر کر تا ہے، وہ اس مومن ہے زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور ان کی طرف سے آنے والی تکلیف پر صبر نہیں کرتا”۔
تو صبر کا تعلق بندے کے تمام معاملات و کمالات اور حالات سے ہے، جیسے کہ اطاعت پر صبر کرنا،اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
سو اس کی عبادت کر اور اسی کی عبادت پر قائم رہ، کیا تیرے علم میں اس جیسا کوئی اور ہے ۔
اور حرام اشیاء جیسے شہوات نفس، اس کی بر انگیختگی، اس کی رغبت و حرص کو ترک کر کے صبر کرنا، قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قَالَ أَنَا يُوسُفُ وَهَٰذَا أَخِي ۖ قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا ۖ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
یوسف – 90
کہا میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ، اللہ نے ہم پر احسان کیا، بے شک جو ڈر تا ہے اور صبر کر تا ہے تو اللہ بھی نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
اور اس جگہ پر سب سے بڑا صبر اس چیز پر ہے جس کے پانے کا جذبہ آدمی کے اندر تیز ہو اور حصول آسان، تو عزیز کی بیوی اور دوسری عورتوں کی سازش، اس کے ساتھ بہکانا اور فتنہ پروری، ،عزیز ِ مصر کی کی بیوی کا بن سنور کر آنا اور دعوت دینا، اور انجام سے نہ ڈرنا، تو یوسف علیہ السلام کے لیے فتنہ کے سارے اسباب جمع ہو گئے ، لیکن انہوں نے اپنے رب کی معصیت سے انکار کیا اور اِس فتنے پر صبر کیا، اور اپنے رب کی پناہ میں آگئے، اپنے تقوی پر مضبوطی سے جمے رہےاور کہا:
قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ ۖ إِنَّهُ رَبِّي أَحْسَنَ مَثْوَايَ ۖ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴿٢٣﴾ وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ ۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ ۚ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ ۚ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ
یوسف – 23
اللہ کی پناہ، وہ تو میرا آقا ہے جس نے مجھے عزت سے رکھا ہے ، بے شک ظالم نجات نہیں پاتے ، اور البتہ اس عورت نے تو اس پر ارادہ کر لیا تھا، اور اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا تو اس کا اردہ کر لیتا، اسی طرح ہوا تا کہ ہم اس سے برائی اور بے حیائی کو ٹال دیں، بے شک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔
اور صحیحین میں ہے: “کسی شخص کو بھی صبر سے بہتر اور کشادہ کوئی چیز نہیں ملی۔ شیخ سعدی رحمہ اللہ نے کہا: یقیناصبر سب سے بڑا تحفہ ہے کیونکہ اس کا تعلق بندے کے تمام امور اور اس کے کمالات سے ہے، اور اس کی ہر حالت صبر کا تقاضا کرتی ہے۔ اللہ کی اطاعت کے لیے صبر کی ضرورت ہوتی ہے، تا کہ اس کو انجام دے اور اس پر عمل کرے۔ اور اللہ کی نافرمانی سے صبر کرنا یہاں تک کہ وہ اسے اللہ کے لیے چھوڑ دے۔ اور اللہ کی تکلیف دہ تقدیر پر صبر کی ضرورت، تا کہ وہ اس سے ناراض نہ ہو۔ بلکہ اللہ کی نعمتوں اور نفس کے لیے محبوب اشیاء پر بھی صبر ہے، تاکہ نفس بیجا خوش، اور ناپسندیدہ طور پر نہ اترائے ، بلکہ اللہ کے شکر میں لگار ہے ، پس اسے ہر حال میں صبر کی ضرورت ہوتی ہے ، اور وہ صبر سے کامیابی پاسکے گا۔
صبر مسلمان کے لیے اللہ اور دار آخرت تک جانے والی راہ کا توشہ ہے، اس کی زندگی کے ہر معاملے کی مدد ہے اور اس کی حصولیابی کے ہر مرحلے کا ساز وسامان ہے، بندہ جتنا صابر ہو گا اللہ کے حکم سے وہ اتنا اپنے مقصد کو پہنچے گا اور اس کی امید یں پوری ہوں گی، پس کامیابی محنت ، ثابت قدی، جد و جہد اور صبر سے حاصل ہوگی۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
آل عمران – 200
اے ایمان والو! صبر کرو اور مقابلہ کے وقت مضبوط رہو اور ڈٹے رہو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو تا کہ تم نجات پاؤ۔
تو زیادہ صبر کرنے والا وہ ہے جو خود کو ناگواریوں پر گرفت ڈالنے کا عادی بناتا ہو، مقصد تک پہنچنے کے لئے صبر پر اپنے نفس سے جہاد کرتا ہو، اور مطلوب کو پانے کے لیے اپنے مال وطاقت اور وقت کو پیش کرتا ہو۔ موسی علیہ السلام کی علم سے محبت نے انہیں امادہ کیا کہ وہ اپنے خادم سے کہیں:
وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِفَتَاهُ لَا أَبْرَحُ حَتَّىٰ أَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ أَوْ أَمْضِيَ حُقُبًا
الکھف – 60
میں تو چلتا ہی جاؤں گا تا آنکہ دو دریاؤں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں یا پھر میں مدتوں چلتا ہی رہوں گا۔
تو وہ اپنے راستے چلتے رہے یہاں تک کہ کہہ اٹھے:
لَقَدْ لَقِينَا مِن سَفَرِنَا هَٰذَا نَصَبًا
الکھف – 62
اس سفر نے تو ہمیں بہت تھکا دیا ہے۔
اور جب خضر علیہ السلام کو پایا تو ان سے وعدہ کیا کہ وہ علم حاصل کرنے کے لیے صبر کریں گے اور ان کا کہا مانیں گے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴿٦٦﴾ قَالَ إِنَّكَ لَن تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا ﴿٦٧﴾ وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَىٰ مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا ﴿٦٨﴾ قَالَ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلَا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا
الکھف – 66/69
اس سے موسی نے کہا کہ میں آپ کی تابعداری کروں؟ کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھادیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے، اس نے کہا آپ میرے ساتھ ہر گز صبر نہیں کرسکتے، اور جس چیز کا آپ کو پورا علم نہ ہو اس پر صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں، موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور کسی بات میں میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔
اے مومنوں کی جماعت! صبر چنندہ لوگوں کا وطیرہ ، انبیاء کا اخلاق، اپنے رب کی عبادت میں ان کا توشہ، اور ان کی رسالت کی تبلیغ ۔ ہے، اس لیے اللہ تعالی نے اپنے نبی اکرم ﷺ کوحکم دیا کہ وہ ان میں سے اولو العزم کے صبر کی پیروی کریں۔ اللہ جل جلالہ نے فرمایا:
فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ
الاحقاف – 35
پھر صبر کر جیسا کہ عالی ہمت رسولوں نے کہا ہے اور ان کے لیے جلدی نہ کر۔
نبی اکرم ﷺ نے اپنے رب کا حکم مانا، تو آپ ان کے طریقے پر چلتے اور ان کی سیرت کو یاد کر کے صبر کرتے تھے، صحیحین میں ہے کہ اللہ کے نبی محمد ﷺ نے فرمایا: “موسی علیہ السلام پر اللہ رحم کرے اس سے زیادہ انہیں تکلیف دی گئی تو انہوں نے صبر کیا”۔
تو نبی اکرم ﷺ نے تمام انبیاء سے بڑھ کر صبر کیا، اور ہمارے رسول کریم ﷺ کی سیرت پریشانی ، تکلیف ، مشقت اور مشکلات سے بھری پڑی ہے ، مکہ اور مدینہ دونوں میں آپ ﷺ کی قوم نے آپ کو جھٹلایا۔کہانت ، جادوگری ، جنون اور شعر گوئی سے متہم کیا، آپ ﷺ کا مذاق اُڑایا، ٹھٹھول کیا، طعنہ دیا عیب جوئی کی، دشمنی کے درپے ہوئے ، اور سخت تکلیفیں پہنچائیں، آپ ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھائے، آپ کی پیٹھ پر اونٹ کی گندگی ڈالی، گھاٹی میں تین سال تک قید رکھا، جس میں آپ سخت پریشانی بھوک اور مشکلات سے گزرے، بلکہ آپ ﷺ کو قتل کرنے کی سازش رچی۔
وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
الانفال – 8
اور جب کافر تیرے متعلق تدبیر میں سوچ رہے تھے کہ تمہیں قید کردیں یا قتل کردیں یا دیس بدر کردیں، وہ اپنی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کر رہا تھا، اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے۔
اور سنن ترمذی میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :مجھےاللہ کی راہ میں ایسا ڈرایا گیا کہ اس طرح کسی کو نہیں ڈرایا گیا اور اللہ کی راہ میں مجھے ایسی تکلیفیں پہنچائی گئی ہیں کہ اس طرح کسی کو نہیں پہنچائی گئیں”۔ تو آپ ﷺ مکہ سے نکل گئے حالانکہ وہ آپ کے نزدیک سب سے بہتر سرزمین تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: ” مجھے معلوم ہے کہ تو اللہ کی زمین کا اللہ کے نزدیک سب سے بہتر حصہ ہے اگر تیرے باشندے مجھے تجھ سے نہ نکالتے تو میں نہیں نکلتا”۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے۔
فاطمہ رضی اللہ عنہا کے علاوہ آپ ﷺ کی ساری اولاد آپ ﷺ کی زندگی ہی میں وفات پاچکی تھی، تو آپ نے ثواب کی امید کی اور صبر کیا، آپ ﷺ پر تین مہینے گزر جاتے آپ ﷺ کے گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ ایک دن نکلے تو ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نظر آگئے آپ ﷺ نے فرمایا: کس ضرورت نے تمہیں اس وقت گھر سے نکالا ہے؟ دونوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ ! بھوک نے!۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، اسی ضرورت نے مجھے بھی نکالا ہے”۔
اور مسند احمد میں ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم ﷺ کو جو کی روٹی کا ایک ٹکڑا دیا تو آپ ﷺنے کہا: یہ پہلا کھانا ہے جو تمہارے ابا نے تین دن کے بعد کھایا ہے۔ بلکہ نبی اکرم ﷺ دنیا سے کوچ کر گئے لیکن کبھی جو کی روٹی سے بھی (کھانے سے) آسودہ نہیں ہوئے۔” اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔
جہاں تک لڑائی اور امن میں ، صحت و بیماری میں ، ظاہر و باطن میں ، سفر و حضر میں اطاعت اور مسلسل عبادت پر صبر کی بات ہے تو صدیقہ بنت صدیق رضی اللہ عنہما نے اس سلسلے میں کچھ بیان کیا ہے، صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ: اللہ کے نبی ﷺ رات میں اتنا قیام کرتے کہ آپ ﷺ کے پاؤں میں ورم آجاتا، تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ ایسا کیوں کرتے ہیں حالانکہ اللہ نے آپ کےا گلے اور پچھلے سارے گناہ معاف کر دیے ہیں؟ آپ ﷺ نے کہا: کیا میں اللہ کا شکرگزار بندہ بننا پسند نہ کروں”۔
اے ایمانی بھائیو! اللہ کی اطاعت پر، اس کی معصیت سے، اس کی تقدیر پر صبر کرو، امام المتقین کی پیروی میں، اور صابرین کے لئے جو اللہ نے تیار کررکھا ہے:
وَجَزَاهُم بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا
الانسان – 12
اور ان کے صبر کے بدلے انہیں جنت اور ریشمی لباس عطا کرے گا۔
اللہ تعالی نے فرمایا:
أَفَمَن يَعْلَمُ أَنَّمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ الْحَقُّ كَمَنْ هُوَ أَعْمَىٰ ۚ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ ﴿١٩﴾ الَّذِينَ يُوفُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَلَا يَنقُضُونَ الْمِيثَاقَ ﴿٢٠﴾ وَالَّذِينَ يَصِلُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَن يُوصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ وَيَخَافُونَ سُوءَ الْحِسَابِ ﴿٢١﴾ وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ﴿٢٢﴾ جَنَّاتُ عَدْنٍ يَدْخُلُونَهَا وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ ۖ وَالْمَلَائِكَةُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِم مِّن كُلِّ بَابٍ ﴿٢٣﴾ سَلَامٌ عَلَيْكُم بِمَا صَبَرْتُمْ ۚ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ
الرعد – 19 /24
کیا وہ شخص جو یہ علم رکھتا ہے کہ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے جو اتارا گیا ہے وہ حق ہے ، اس شخص جیسا ہو سکتا ہے جو اندھا ہو نصیحت تو وہی قبول کرتے ہیں ہیں عقلمند ہیں، جو اللہ کے عہد و پیمان کو پورا کرتے ہیں اور قول و قرار کو توڑتے نہیں، اور اللہ نے جن چیزوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے وہ اسے جوڑتے ہیں اور وہ اپنے پروردگار سے ڈرتے ہیں اور حساب کی ستی کا اندیشہ رکھتے ہیں، اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اسی لیے کھلے خرچ کرتے ہیں اور برائی کو بھی جلائی سے ٹالتے ہیں ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے ، ہمیشہ رہنے کے باغات جہاں یہ خود جائیں گے اور ان کے باپ دادوں اور بیوی اور اولادوں میں سے ہی جو نیکو کار ہو گئے ، ان کے پاس فرشتے ہر دروازے سے آئیں گے ، کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو ، میر کے بدلے ، کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا۔
اللہ قرآن و سنت میں میرے اور آپ کے لئے برکت عطا فرمائے ، اور اس کی آیات و حکمت سے مجھے اور آپ کو نفع دے، میں یہ بات کہہ رہا ہوں اور اللہ سے اپنے لئے اور آپ لئے ہر گناہ اور معصیت کی بخشش طلب کر تا ہوں، تو اس سے مغفرت طلب کرو، یقینا وہ بہت بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
ہر طرح کی تعریف اللہ کے لیے جو اپنے بندوں کے تھوڑے عمل سے راضی ہوا، اور ان پر نعمتوں کی بارش کی، اور اپنے آپ پر رحمت واجب کر لی، اور صلاۃ وسلام نازل ہو ہمارے سر دار دنبی محمد ، متقیوں کے امام ، روشن تابناک لوگوں کو جنات نعیم کی طرف لے جانے والے، رب کی رحمتیں اور سلامتی ہو ان پر ، ان کے تمام اہل و عیال واصحاب پر۔
امابعد !
اے مومنو! صبر ایمان کے ارکان میں سے ہے ، رحمن کی خوشنودی کی راہ ہے، صبر کی حیثیت دین میں ایسے ہے جیسے سر کا بدن میں، تو جس کے پاس صبر نہیں اس کا ایمان نہیں، اسی لیے رب نے اس کے طلب کی تاکید کی ہے، اسے عزیمت کے کاموں میں شمار کیا، اور اس پر اپنی مزید محبت مرتب کی، اور جو اس سے آراستہ ہوا اس سے عظیم ثواب کا وعدہ کیا، تو صبر والے: عزیمت وبلند ہمت والے ہیں:
يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
لقمان – 16
اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا (یقین مانو) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے ۔
اور صبر کرنے والے ہی غور و فکر کرنے والے، نشانیوں اور عبرتوں سے نفع اٹھانے والے ہیں:
وَمِنْ آيَاتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ ﴿٣٢﴾ إِن يَشَأْ يُسْكِنِ الرِّيحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلَىٰ ظَهْرِهِ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
الشوریٰ – 32 / 33
اور اس کی نشانیوں میں سے سمندر میں پہاڑوں جیسے جہاز ہیں، اگر وہ چاہے تو ہوا کو شہر ادے پس وہ اس کی ہے پر کھڑے رہ جائیں، بے شک اس میں ہر صبر کرنے والے شکر گزار کے لیے نشانیاں ہیں۔
اور دین کی امامت صبر ویقین ہی سے مل سکتی ہے:
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ
السجدۃ – 24
اور ہم نے ان میں سے پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے جب انہوں نے صبر کیا تھا، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین بھی رکھتے تھے۔
ابن القیم رحمہ اللہ نے کہا: اللہ نے (اس آیت میں ) صبر اور یقین کو یکجا ذکر کیا، یہ دونوں ، بندے کی سعادت ہیں، اور انہیں کھونے سے بندہ اپنی سعادت کھو دے گا، کیونکہ اللہ کے حکم کی مخالف شہوات ، اور اس کی خبر کی مخالف شبہات دل پر دستک دیتی رہتی ہیں، تو بندہ صبر سے شہوات دور کرے گا اور یقین سے شبہات ، یقینا شہوت اور شبہہ ہر اعتبار سے دین کے مخالف ہیں، تو اللہ کی عذاب سے وہی بیچ سکتا ہے جس نے صبر سے اپنی شہوات کو دور کیا، اور یقین سے اپنی شبہات کو “۔
ایمانی بھائیو: صبر جس کی فطرت میں نہیں، اسے اپنے نفس کے ساتھ جہاد کر کے اپنے مقصد کی تکمیل میں اللہ کی مدد طلب کرنا چاہئے اور زبر دستی صبر اپنانا چاہئے، جس نے اپنے نفس کو صبر کا عادی بنایا تو وہ نفس اس کا عادی ہو جاۓ گا، اسے لے کر اس میں ترقی کرے گا، یہاں تک کہ صابرین کے بلند مقامات سے سرفراز ہو گا، صحیحین میں ہے: “جو مشقت سے صبر کرے گا اللہ اسے صبر کا عادی بنادے گا”۔
اور جو چیز میں صبر کے لئے معاون ہیں، وہ یہ کہ اللہ کی رضاء اور ثواب حاصل کرنے ، اور اللہ کی خوشنودی بجالانے کے لئے اس سے آراستہ ہوا جائے۔
وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ
المدثر – 7
اور اپنے رب کے لئے صبر کر۔
وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّهِ ۚ
النحل – 127
اور صبر کر اور تیرا صبر کرنا اللہ ہی کی توفیق سے ہے۔
جس نے اللہ کی مدد سے وہ مدد سے صبر کیا، اس کا صبر ہلکا ہو گا، اس کی مصیبت آسان ہو گی، اللہ اس کے دنوں کو خوبصورت کرے گا، اور اس کے انجام کو بہتر ، اپنی اطاعت پر اس کی مدد کرے گا، اور گناہ سے اسے چیر دے گا۔
اسی طرح صبر کے لئے معاون یہ ہے کہ نفس کو ابھارنا اور مہمیز کرنا، اسے نیکو کار اور متقین کی ہم نشینی پر ، مجبور کرنا، اللہ تعالی اپنے نبی سے کہہ رہا ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ
الکھف – 28
تو ان لوگوں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں ۔
تو جسے یاد رہا کہ دنیا کی عمر چھوٹی ہے، اس کا سازوسامان حقیر ہے، اس کی زندگی دن کی ایک گھڑی ہے، جیسا کہ عزیز و جبار نے ذکر کیا، وہ اس گھڑی کو صبر میں گزارے گا۔
غزوہ تبوک جس میں نبی اکرم ﷺ نے مشقت و تنگی میں 50 دن گزارے، یہاں تک کہ جب فاروق رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ ہمیں غزوہ تبوک کی تنگی کے بارے میں بتاؤ ، تو انہوں نے کہا: ہم تبوک کے لئے سخت گرمی میں نکلے ، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا تو ہمیں سخت پیاس لگی، ہمیں ایسا لگنے لگا کہ ہماری گردن کٹ جائیں گی، یہاں تک کہ آدمی اپنے اونٹ ذبح کرتا ، اس کے گوبر کو نچوڑ کر پی جاتا، باقی اپنے سینے پر ڈال لیتا، اس کے باوجود اللہ نے اسے مشکل کی ایک گھڑی کا نام دیا، امام بقائی رحمہ اللہ نے کہا: اسے ایک گھڑی کا نام دیا ، مشکل وقت کو آسان بنانے اور مصائب سے مقابلہ پر ابھارنے کے لئے، کیونکہ اس کا وقت تھوڑا، اور اجر عظیم ہے، تو اس جنگ میں نبی اکرم ﷺ کے تئیں ان کی اتباع کی حالت ان کی پہلی حالت سے بہتر تھی۔
پھر جان لو، اے مومنو! اللہ نے تمہیں ایک معزز حکم دیا ہے، جس میں خود سے ابتدا کی اور فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
اے اللہ نبی پر رحمتیں نازل فرما، اور ان کی بیویوں اور اہل وعیال پر ، جس طرح تو نے ابراہیم کے آل پر نازل کیا تھا، اور محمد پر برکت نازل فرما، اور ان کی بیویوں اور اہل وعیال پر، جس طرح تو نے ابراہیم کے آل پر نازل کیا تھا۔
اے اللہ! خلفاء راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، علی سے راضی ہو جا، اور تمام صحابہ و تابعین سے، اور قیامت تک ان کی اچھے سے پیروی کرنے والوں سے ، اور اپنے عقو، جو وو کرم سے ہم سے بھی، اے ارحم الراحمین۔
اے اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت دے، اور دین کی حفاظت کر ، اس ملک اور تمام مسلم ملکوں کو مامون، محفوظ ، ترقی والا، خو شحال بنادے۔
اے اللہ اے حی و قیوم ! ہمارے تمام احوال کو درست کر دے، اور ہمیں ہمارے بھروسے پلک جھپکنے کے برابر بھی نہ چھوڑ۔
اے اللہ! غمزدہ مسلمانوں کے غم کو دور کر دے، پریشان حال کی پریشانی مٹادے، قرضداروں سے قرض چکا دے، ہمارے اور مسلمانوں کے پیاروں کو شفا دے۔
اے اللہ !ہر جگہ کے مسلمانوں کے حالات درست کر دے، اپنی رحمت سے ، اے ارحم الراحمین۔
اے اللہ! جو ہمارے اور ہمارے ملک اور امن کا برا چاہے اسے اس کی ذات میں مشغول کر دے، اس کی چال کو اس کی موت بنادے، اور اس ، اوراسی پر بری گردش ڈال دے، اے رب العالمین۔
اے اللہ! ہمارے ولی امر خادم حرمین شریفین کو اس کی توفیق دے جسے تو پسند کرتا اور جس سے راضی ہو ، ان کی پیشانی کو تقوی اور بھلائی کی طرف موڑ دے۔
اے اللہ !ان کو اور ان کے جانشین کو عباد وبلاد کی بھلائی کی توفیق دے۔
اے اللہ! انہیں اسلام اور مسلمانوں کی خدمت پر بہترین بدلہ دے۔اے اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو اپنی پسندیدہ چیز کی توفیق دے۔
اےاللہ! سرحد پر متعین ہماری فوج کی مدد کر ، اپنے اور ان کے دشمن کو برباد کر دے۔
اے اللہ !مسلم نوجوانوں اور دوشیزاؤں کی حفاظت فرما، ان کی امت اور وطن کو ان کے ذریعہ فائدہ پہونچا، ایمان کو ان کے نزدیک محبوب بنادے اور اسے ان کے دلوں میں مزین کر دے، انہیں ہدایت یافتہ بنا۔
اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں نیکی اور آخرت میں بھی نیکی دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔ اللہ ہمارے گناہوں کو بخش دے، ہمارے عیوب کو چھپا دے، ہمارے معاملے کو آسان کر، اور ہماری نیک تمناؤں تک ہمیں پہونچا دے۔ہمارے رب ہماری دعا قبول کر لے تو سننے جائے والا ہے، ہماری توبہ قبول کرلے، تو توبہ قبول کرنے والا رحم والا ہے۔
سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٨٠﴾ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ ﴿١٨١﴾ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
الصافات – 180 / 182
خطبة الجمعة مسجد الحرام: فضیلة الشیخ ڈاکٹر ماھر المعیقلی حفظه اللہ
11 ربیع الاول 1444هـ بمطابق 7 اکتوبر 2022