پہلا خطبہ :
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس کا کوئی ہمسر نہیں کہ اس کا مقابلہ کیا جاسکے ، اس کا کوئی شریک نہیں جس کی خوشامد کی جائے ، اس کا کوئی ہم مثل نہیں جس کی برابری کی جاسکے، زمین کو سکون وراحت بنا کر پھیلایا، اس میں نہریں جاری کیں، اس سے اناج اور پھل اگائے، رات کو تاریک بنایا اور دن کو روشن کیا، رسولوں کو مبعوث کیا اور اپنے دلائل کے مینار نصب کئے وہ رات و دن خفیہ اور علانیہ اللہ کی عبادت کی طرف بلاتے رہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ایسے شخص کی گواہی جو اللہ ہی کا بندہ بنارہا، اپنے سامنے اس کی مدد کو پایا، اسی کے وعید سے ڈرا اور اسی کے وعدے کی امید کی۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور سول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو درست دین اور صحیح راستے کے ساتھ تمام جہانوں کے لئے رحمت، متقیوں کا امام اور تمام مخلوقوں کے لئے حجت بنا کر بھیجا۔
اللہ تعالیٰ کا درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کی آل پر ،اُمہات المؤمنین پر ، اور آپ ﷺ کے نیکو کار اور پاک باز اصحاب کرام پر، اور ان پر جو قیامت تک ان کی اچھی طرح سے پیروی کریں۔
اما بعد !
میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں، تقوی بہترین لباس اور توشہ ہے، اسی سے توفیق و در ستگی اور ہدایت و راہ یابی ہے:
وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَىٰ ۚ وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ
البقرۃ – 197
” اور اپنے ساتھ زادراہ لے لیا کرو،سب سے بہتر توشہ اللہ تعالیٰ کا تقوی ہے اور اے عظمند و! مجھ سے ڈرتے رہا کرو”۔
پھر جان لو! اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے، سب سے سچی بات اللہ تبارک وتعالی کی کتاب ہے، اور سب سے اچھا طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔ سب سے بُری بات دین کے اندر نئی ایجادات ہیں، ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
مومنو! اللہ تعالی کی عبودیت اور رسول اللہ ﷺ کی پیروی کا مقام تمام مقامات میں سب سے سے عظیم اور بلند ہے۔ سب سے معزز اور بہترین مرتبہ ہے، سب سے گراں قدر اور رفعت والی منزلت ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
الاحزاب – 7
اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔
رسولوں کی بعثت کی نعمت بھر پور نعمتوں، بلند مرتبوں اور سب سے عظیم شان والی نعمتوں میں سے ہے، ان پر ایمان لانے اور ان کی اتباع کرنے سے بندوں کو دنیا و آخرت کی خوش بختی اور کامیابی حاصل ہوتی ہے، دنیا و آخرت میں وہ اپنے رب کی رضامندی سے شاد کام ہوتے ہیں، تو یہی سب سے عظیم مطلوب اور سب سے بلند آرزو ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ
النور – 52
جو بھی اللہ تعالی کی، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، خوف الہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں”۔
مسلمانو!اس مقدس و مبارک سرزمین میں اور اس کے پرانے ٹیلوں اور گھاٹیوں کے درمیان نور سے عظیم ترین قصہ لکھا گیا جسے بنی نوع انسان نے جانا جس کے لئے تاریخی پیمانے بدل گئے ، یہ وہ قصہ ہے جس نے زمین کو آسمانوں سے ملا دیا، اور دلوں کو مخلوقات کے رب سے جوڑ دیا، اس قصے نے انبیاء و مرسلين عليهم افضل التسلیم والصلوات کے کارواں کو جاری رکھا، اور جہانوں کو حق کے نور سے روشن کر دیا تا کہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکالے۔
یہ ختم نبوت اور محمد ﷺکی بعثت کا قصہ ہے۔ محمد رسول الله ﷺ، جن کے مقام کو اللہ تعالیٰ نے بلند کیا، آپ ﷺ کے معاملے کو عظیم بنایا، آپﷺ کے ذکر کو دوام بخشا۔
آپﷺ کی نبوت کے اقرار اور آپ ﷺکی شریعت کی اطاعت کے بغیر شہادت درست نہیں ہوگی، اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
الذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِي الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَالإنجيل
الاعراف – 157
” جو لوگ ایسے رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جن کو وہ لوگ اپنے پاس تورات وانجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں”۔
محمد اللہ ﷺ کے رسول ہیں، عقلی دلائل سے آپ ﷺ کی رسالت کی سچائی ثابت ہو چکی ہے، فطری اسباب نے آپ ﷺ کی شریعت کو تسلیم کرنے کی رہنمائی کی ہے اور حقیقت کے شواہد نے آپ ﷺ کی نبوت کے درست ہونے کو ثابت کیا ہے۔
اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ کو ایسے احکام و شریعت کے ساتھ بھیجا جو اپنے مقاصد میں حکمتوں سے پر ہیں، اور ایسے احکام کے ساتھ بھیجا جو اپنے فروع میں باریک ہیں، اور اپنی خبروں کے ساتھ بھیجا جو اپنے مضامین میں سچ ہیں، اور جو اپنی تفصیلات اور اطلاقات کے اعتبار سے ہر زمان و مکان کے لائق ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِن لَّدُنْ حَكِيمٍ خَبِيرٍ
ھود – 1
” یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم باخبر کی طرف سے”۔
دوسری جگہ اللہ نے فرمایا:
وكذلك أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَبُ وَلَا الْإِيمَنُ وَلَكِن جَعَلْنَهُ فُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّكَ لَتَهْدِى إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
الشوریٰ – 52
” اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے ؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں، بیشک آپ راہ راست کی رہنمائی کر رہے ہیں”۔
جو صراط مستقیم تک پہنچناچاہتا ہو اور سیدھے راستے پر ثابت قدم رہنا چاہتا ہو تو اسے نبی کریم ﷺکی پیروی کرنی چاہیے ، یہی اللہ تعالی کا وہ راستہ ہے جسے اس نے اپنے رسولوں کی رہنمائی میں اپنے بندوں کے لئے قائم کیا ہے، اور اسے اپنے تک پہنچنے کے لئے اپنے بندوں کا راستہ بنایا ہے، اس کے علاوہ ان کے لئے کوئی دوسر اراستہ نہیں ہے، اسی لئے بندے کی درستگی اور اس کی سعادت اللہ تعالی کے اس قول کے مفہوم کو پورا کرنے میں ہے:
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
الفاتحة – 5/6
“(اے پروردگار) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مددمانگتے ہیں۔ ہم کو سیدھے رستے پر چلا”۔
اور بندہ ” ایاک نعبد ” کو پورا کرنے والا نہیں ہو گا مگر دو عظیم ترین اصول کے ساتھ۔
پہلا : عبودیت و بندگی کو اللہ تعالی کے لئے خالص کرنا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:
إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى
متفق علیه
عمل کا دارومدار نیت پر ہے، اور ہر شخص کے لئے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی “۔
دوسر ا:رسول اکرم ﷺ کی پیروی کی جائے، وہ اس طرح کہ جو آپ ﷺ حکم دیں اس کی اطاعت کی جائے، جو آپﷺ خبر دیں اس کی تصدیق کی جائے، اور جس سے آپ ﷺمنع کریں اور روکیں اس سے خود کو روک لیا جائے، اور اللہ تعالی کی صرف اسی طریقہ پر عبادت کی جائے جو آپﷺ نےبیان کی ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ
الحشر – 7
ا در تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو”۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌ
متفق علیه
”جس نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی ایسا کام ایجاد کیا جو کہ اس میں نہیں وہ مردود ہے۔
اور یہ حدیث اسلام کے اصولوں میں سے عظیم ترین اصول ہے ، جو ظاہر میں اعمال کے لئے میزان کا درجہ رکھتی ہے، جس طرح ” عمل پر نیتوں کے دارومدار ” والی حدیث باطن میں اعمال کے لئے میزان کا درجہ رکھتی ہے۔
اللہ کے بندو! اللہ کے دین میں پیروی کا عظیم مقام اور بڑا مرتبہ ہے ، یہی رسولوں کی بعثت کی غرض و غایت ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وما أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيَطَاءَ بِإِذْنِ اللهِ
النساء – 64
“ہم نے ہر ہر رسول کو صرف اسی لئے بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے”۔
اور انسان کے پیروی کے بقدر اس کے ایمان کا وزن کیا جائے گا، اور اس کے مقام میں فرق ہو گا، اسی لئے نبی اکرم ﷺ کی پیروی کو لازم پکڑنے پر اللہ تعالی کا بہت سا حکم آیا ہے۔ بایں طورکہ اللہ تبارک تعالی نے نبی اکرم ﷺ کے نام کو سب سے معزز کلمہ اور اسلام کے عظیم رکن میں اپنے نام سے جوڑا، اور یہ لاالہ الا اللہ اور محمد الرسول اللہ کی گواہی ہے، اوراللہ تبارک تعالی نے قرآن مجید میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کا تیس سے زائد جگہوں پر حکم دیا ہے، اور نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت سے اور ان کی مخالفت کو اپنی مخالفت سے جوڑا ہے، جس طرح اپنے نام سے ان کے نام کو جوڑا ہے، تو اللہ کا جہاں ذکر ہو گا وہاں رسول اللہ ﷺ کا بھی ذکر ہو گا۔
من وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّتِ تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَالِدِينَ فِيهَا وَذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
النساء – 13
جو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کا قول ہے: “ہم اقتداء کرتے ہیں گھڑتے نہیں کرتے ، ہم اتباع کرتے ہیں بدعت ایجاد نہیں کرتے ، اور سب سے اچھی چیز جسے ہم تھامے ہوئے ہیں وہ اثر ہے”۔ ابن بشران نے امالی میں کہا ہے کہ ابن مسعود کا یہ کلام صحیح ہے۔
سفیان رحمہ اللہ کا قول ہے: ” کوئی قول بغیر عمل کے درست نہیں ہو سکتا ہے، اور کوئی قول و عمل بغیر نیت کے درست نہیں ہو سکتا ہے، اور کوئی قول و عمل اور نیت سنت کی موافقت کے بغیر درست نہیں ہو سکتی ہے۔ (ابانۃ الکبری لابن بطہ)
مومنو! ساری بھلائی رسول اکرم ﷺکی پیروی میں ہے ، اور پوری برکت آپ ﷺ کے منقول کلام کو حفظ کرنے میں ہے، یہی مقصود علم اور پہنچانے والا راستہ ہے، علم وہ ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ میں آیا ہے، انہیں دونوں کے اندر ہر تلاش کرنے والے کے لئے ہدایت ہے، اور ہر بچنے والے کے لئے نجات ہے ، ہر شبہ میں پڑنے والے کے لئے فیصلہ کرنے والا ہے ، ہر نور کے متلاشی کے لئے ان کانور سب سے بہتر ہے، تو ہر طرح کی سلامتی پیروی کرنے میں ہے اور ہر طرح کی ندامت بدعت ایجاد کرنے میں ہے۔اللہ تعالی کا فرمان ہے:
مَن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَن تَوَلَّى فَمَا أَرْسَلْنَكَ عَلَيْهِمْ حُفیظ
النساء – 80
” اس رسول کی جو اطاعت کرے اسی نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی اور جو منھ پھیر لے تو ہم نے آپ کو کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہیں بھیجا”۔
رسول اللہ ﷺ کی شریعت محفوظ سفینہ ہے، جس نے اس میں سوار ہو کر اپنے آپ کو محفوظ کر لیاوہ نجات پاگیا، اور ایسا سیدھا راستہ ہے کہ جو اس پر چلا وہ اپنی مرادوں کو پہنچ گیا، اس لئے کہ نبی اکرم ﷺمعصوم من الخطاء ہیں:
وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ
النجم – 3/4
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں۔ وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔
تو یہی وہ کمال ہے جس میں کوئی نقص نہیں، وہ جمال ہے جس میں کوئی کھوٹ نہیں، وہ جلال ہے جس میں کچھ بھی کمی نہیں، اسی کے اندر شفاء ہے اور یہی مطلوب ہے ، جو آپ کی اقتداء کرے وہ گناہوں اور برائیوں سے محفوظ رہے گا، ناشائستہ چیزوں اور عیوب سے بچارہے گا، اور اپنے رب کی رحم سے اس کے بدلے میں اپنی آرزو اور امید کو حاصل کرے گا۔
اللہ کے بندو! اللہ تبارک تعالی کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی جائے اور اس کی پیروی کی جائے، حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کچھ لوگوں کو لگا کہ وہ اللہ تعالی سے محبت کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس آیت سے آزمایا:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
آل عمران – 31
” کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے”۔
(تفسیر ابن کثیر ) تو کون سی شرط اس شرط سے زیادہ مضبوط اور قوی ہو سکتی ہے، جب کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول کی پیروی کولوگوں کی اللہ سے محبت اور اللہ کی لوگوں سے محبت کے لئے شرط قرار دیا ہے، تو ایسا نا ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے بغیر اللہ کے لئے ان کی محبت اور اللہ کی محبت ان کے لئے ثابت ہو۔ اور کون سی کر امت اس سے بلند ہو سکتی ہے جب کہ اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کی پیروی میں محبت کو محصور کیا ہے اور اس پیروی کا بدلہ اللہ عزوجل کا اپنے بندے سے محبت کو قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ حَسَنَةٌ لِمَن كَانَ يَرْجُوا اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
الاحزاب – 21
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔
کون سا راستہ اس سے زیادہ مفید ہو سکتا ہے جب کہ اللہ تعالی نے نبی اکرم ﷺ کی اطاعت کو جنت میں داخل ہونے کا راستہ بنایا ہے ، نبی اکرم ﷺ کا فرمان ہے:
“كُلُّ أُمَّتِي يَدخُلُونَ الجَنَّةِ إِلَّا مَنْ أَبَى”، قِيلَ: وَمَنْ يَأْبَى يَا رَسُول الله؟ قَالَ: “مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى
أخرجه البخاري من حديث أبي هريرة -رضي الله عنه
ساری امت جنت میں جائے گی سوائے ان کے جنہوں نے جانے سے انکار کیا۔“ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ ! انکار کون کرے گا؟ فرمایا ”جو میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا اس نے جانے سے انکار کیا۔
مومنو!فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبَكُمُ اللهُ
آل عمران – 31
“کہہ دیجئے! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو، خود اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا”۔
اللہ تعالی کے اس قول میں غور و فکر کرنے والا پائے گا کہ یہ آیت اللہ تعالی کی محبت کے وجوب، اس کی علامت، اس کے نتیجہ اور ثمرات کو شامل ہے۔ تو محبت کی علامت دین کے اصول و فروع، اقوال و افعال، اور تمام ظاہری و باطنی احوال میں رسول کریم ﷺ کی سچی پیروی ہے۔ اور اس کا نتیجہ اللہ تعالی کی محبت کی دعوے داری کی سچائی کا ثبوت ہے ، اور اس کے ثمرات رب کائنات کی محبت کا حصول، گناہوں اور برائیوں سے مغفرت، بلندی درجات سے کامرانی، آسمان و زمین کے رب کی رحمت اور ہر طرح کے حالات اور انجام میں توفیق و درستگی کو پانا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۚ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا
النساء – 69
” اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرے، ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا ہے، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں”۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو اپنی کتاب کے طریقے اور اپنے نبی کریم محمد ﷺ کی سنت سے فائدہ پہنچائے، میں اپنی یہ بات کہ رہا ہوں اور اللہ سے اپنے لیے ، آپ کے لیے اور باقی مسلمانوں کے لیے ہر گناہ وخطا کی مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ اس سے مغفرت طلب کریں، بیشک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔
دوسرا خطبہ :
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے جس کی رحمت تمام بندوں کو شامل ہے، اور جس نے اپنی اطاعت کرنے والوں کو درست راستے کی ہدایت سے خاص کیا، اپنے فضل سے انہیں نیک اعمال کی توفیق دی، اور وہ اپنی مراد تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ایسی گواہی جسے میں قیامت کے دن کے لئے ذخیرہ کروں۔ اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، ہدایت و درستگی کے راستے کی طرف بلانے والے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا درود و سلام نازل ہو آپ ﷺ پر ، آپ ﷺ کی آل و ازواج پر ، اور آپ ﷺ کے معزز و سخی اصحاب پر۔
اما بعد!
جان لو اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے !کہ پیر وی اس وقت تک نہیں ہو سکتی ہے جب تک کہ عبادت اپنے سبب اور جنس، قدر و کیفیت اور زمان و مکان میں شریعت کے مطابق نہ ہو۔ یہ وہ چھ اوصاف ہیں ، جن کے عبادت میں اکٹھا ہوئے بغیر پیروی نہیں ہوتی ہے۔
مؤمنو! جو آدمی چاہتا ہو کہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرے تووہ اپنی اتباع کو خواہش سے الگ کرلے، اس لئے کہ خواہش اور پیروی اکٹھے نہیں ہو سکتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوَاهُ بِغَيْرِ هُدًى مِّنَ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ
القصص – 50
پھر اگر یہ تیری نہ مانیں تو تو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کر رہے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے ؟ جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے، بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ۔
اس آیت کے اندراللہ تعالی نے پیروی کو دو قسموں میں بانٹا ہے جس کی کوئی تیسری قسم نہیں۔ تو ایک وہ کہ جس کی طرف رسول اللہ ﷺ نے بلایا ہے۔ اور دوسری خواہش کی پیروی۔ یہ دونوں انسان کے دل میں مقابلہ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ دونوں میں سے کوئی ایک غالب آجاتا ہے۔ خواہشات نفس اور ان کے داخل ہونے کے راستے سے بچو، اس کی ایسی شکلیں اور لباس ہیں جو بہت سارے لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیتے ہیں، اور شیطان خواہش کے راستوں سے مؤمن کے اندر داخل ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے ہلاک کر دیتا ہے۔
نبی مصطفی ﷺ کی مکمل پیروی کے ذریعہ ہی ان خواہشات کے آگے کھڑا ہوا جا سکتا ہے اور ان کے دروازے کو بند کیا جا سکتا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کے نبی کریم ﷺ کی کما حقہ اتباع کیجیے ، ان کے راستے کو نہ چھوڑیں، ہر چند کے اس کی طرف بلانے والے محرکات موجود ہوں، اس لئے کہ یا تو پیروی ہو گی یا بدعت ہو گی۔ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
لا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ هَوَاهُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِهِ .
(صححه النووي)
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ اس کی خواہشات نفس میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائیں۔ اس حدیث کو ابن ابی عاصم نے السنہ میں روایت کیا ہے ، اور اسے اہل علم کی ایک جماعت نے صحیح قراردیا ہے، ان میں امام نووی بھی ہیں۔
نبی اکرم ﷺ نے اُن تین لوگوں کو ڈانٹا جنہوں نے اپنے نفس پر سختی کی تھی، آپ ﷺ نے اُن سے فرمایا:
أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ، أُصُومُ وَأُفْطِرُ، وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ، وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي
أخرجه البخاري ومسلم، من حديث أنس -رضي الله عنه
سن لو! اللہ تعالیٰ کی قسم! اللہ رب العالمین سے میں تم سب میں زیادہ ڈرنے والا اور پر ہیز گار ہوں لیکن میں روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں۔ (رات میں) نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے “۔ بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو حضرت انس سے روایت کیا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آخری وصیتوں میں سے یہ ہے کہ انہوں نے کہا کہ “تمہارے لئے سنتیں مقرر کی گئی ہیں اور فرائض تمہارے لئے رکھے گئے ہیں، تمہیں واضح راستوں پر چھوڑا گیا ہے، تا کہ تم لوگوں کو ادھر ادھر گمراہ نہ کرو۔ اس حدیث کو امام مالک رحمہ اللہ نے موطا میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے، بویصری نے اتحاف المہرہ میں کہا ہے کہ اس کی سند کے رجال صحیح ہیں۔
ایک آدمی نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے کہا: اے ابو عبد اللہ! میں کہاں سے احرام باندھوں؟ آپ نے فرمایا: ذوالحلیفہ سے، جہاں سے اللہ کے رسول ﷺ نے احرام باندھا ہے، اس شخص نے کہا کہ میں مسجد سے احرام باندھنا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا کہ ایسا مت کرو، اس شخص نے کہا میں مسجد میں قبر کے پاس سے احرام باندھنا چاہتا ہوں، آپ نے فرمایا کہ ایسا مت کرو، مجھے ڈر ہے کہ تم فتنے میں پڑ جاؤ، اس نے کہا کہ اس میں کون سافتنہ ہے؟ یہ تو چند میل ہے جو میں زیادہ کر رہا ہوں،آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ تم یہ سوچو کہ تم ایسی فضیلت حاصل کر رہے ہو جس سے رسول اللہ ﷺقاصر رہے۔ میں تو اللہ تعالیٰ کو یہ کہتے ہوئے سن رہا ہوں:
فلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أمْروة أن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
النور – 63
اللہ کے بندو! اللہ کی واضح کتاب کو اورامت کے سلف صالحین کی فہم کے مطابق خاتم النبیین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو، تمہارا رب تم کو رسوا کن عذاب سے نجات دے گا اور تم کو اپنے متقی دوستوں کے ساتھ جنت میں داخل کر دے گا۔
اتنی بات ہوئی اور درود و سلام پڑھیں اللہ کے بہتر رسول محمد بن عبد اللہ ﷺ پر، آپ کے رب نے آپ کو اپنی کتاب میں اس کا حکم دیا ہے:
” بیشک اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھی پڑھتے رہا کرو”۔
اے اللہ! تو درود و سلام اور برکت نازل فرما رسول امین ﷺ پر، آپ ﷺ کے نیک پاکباز اہل خانہ پر، آپ ﷺ کی بیویوں امہات المؤمنین پر۔
اے اللہ! تو راضی ہو جا چاروں خلفائے راشدین سے ، تمام صحابہ کرام سے ، تابعین سے اور تاقیامت ان لوگوں سے جو ان کی اچھی طرح پیروی کریں اور ان کے ساتھ ہم سے اپنے عفو وجود اور احسان سے بھی راضی ہو جا، یا اکرم الاکرمین۔
اے اللہ ! اسلام اور مسلمانوں کو توحید کو مضبوطی سے تھامنے اور مدد، نصرت اور تایید کے ذریعہ غلبہ عطا فر ما یا عزیز یا مجید !
اے اللہ ! ہمارے لیے دین کو درست کر دے جس میں ہمارے معاملہ کی حفاظت ہے اور ہماری دنیا کو ہمارے لیے بہتر کر دے جس میں ہماری روزی ہے اور ہمارے لیے ہماری آخرت کو بہتر کر دے جس میں ہمیں لوٹنا ہے اور زندگی کو ہمارے لئے ہر خیر میں بڑھوتری کا سبب بنا دے اور موت کو ہمارے لیے ہر شر سے راحت بنادے اپنی رحمت سے اے ارحم الراحمین! اور تمام معاملات میں ہمارے لے بہتر انجام عطا فرما، اور دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے بچا۔
اے اللہ! ہمارے ملکوں کو امن، ایمان اور سلامتی سے ڈھانپ لے، ہمارے اور مسلمانوں کے ملکوں کی ہر جگہ حفاظت فرما یار حیم یارحمن!
اے اللہ! ہم اپنے امام و ولی امر خادم حرمین شریفین ، ان کے ولی عہد اور معاونین کے لیے ہراس چیز کا سوال کرتے ہیں جس میں ملک اور لوگوں کی بھلائی ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے انھیں بہتر بدلہ دے۔ اے آسمان وزمین کے رب!
اے اللہ! مسلمانوں کے حکمرانوں کو اپنی ہدایت کی توفیق دے اور ان کے عمل کو اپنی رضا والا بنا۔
اے اللہ ہمارے سپاہیوں کی مدد فرما اور ان کے قدم جما دے، ان کے کلمے کو یکجا کر ، ان کی صفوں کو متحد کر، ان کے زخمیوں کو شفا دے، ان کے شہداء کو قبول فرما، اور فتح کو ان کا حلیف بنا، اے رب العالمین۔
اے اللہ! مصیبت زدوں کو راحت دے اور پریشان زدہ کی پریشانی دور فرما، قرض داروں کا قرض ادا کر، ہمارے اور مسلمانوں کے بیماروں کو شفاء دے ، اور ہمارے اور مسلمانوں کے فوت پاچکے لوگوں پر رحم فرما، یارب العالمین۔
اے اللہ! تو ہمیں تو بہ اور انابت کی توفیق دے، ہمارے لئے قبولیت و اجابت کے دروازے کھول دے، اور ہمیں خوب بھلائی عطا فرما۔
اے ہمارے رب! تو ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
خطبة الجمعة مسجدالحرام : فضیلة الشیخ یاسر الدوسری حفظه اللہ
12 رجب 1444 ھ بمطابق 03 فروری 2023