موزے یا جرابوں پرمسح کے مسائل

جرابوں اور موزوں پر مسح کرنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔جہاں تک چمڑے کے موزوں کا تعلق ہے تو اس بارے میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں کہ ان پر مسح کرنا جائز ہے۔ جرابوں پر بھی بنیادی طور پر تمام ائمہ اور علماء کے نزدیک مسح کرنا جائز ہے فرق اتنا ہے کہ بعض نے کچھ شرطیں لگائی ہیں کہ اگر وہ شرائط پوری ہوں تو پھر جرابوں پر مسح کرناجائز ہوگا ورنہ نہیں ، جبکہ جرابوں پر مسح کرنے کے بارے میں جو احادیث ہیں ان میں کسی قسم کی شرائط کا ذکر نہیں۔

ذیل میں ہم وہ احادیث پیش کرتے ہیں جن سے جرابوں پر مسح ثابت ہوتا ہے۔

پہلی حدیث:  جراب (اونی یا سوتی موزے) پر مسح کرنے کی دلیل حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ:

توضَّأَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ومسحَ على الجَورَبينِ والنَّعلينِ

 نبی اکرم ﷺنے وضو فرمایا اور اپنی جرابوں اور جوتوں پر مسح فرمایا۔1

اس حدیث کو امام احمدؒ نے اپنی مسند اور امام  ترمذیؒ اور امام ابن ماجہؒ نے اپنی اپنی سنن’’باب المسح علی الجوربین‘‘  کے تحت روایت کی ہے۔

دوسری حدیث:  امام احمد نے اپنی مسند میں اور امام ابو داؤد نے اپنی سنن میں یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ بیان کی ہے کہ:

عن ثوبان قال بعث رسول الله ﷺ سریة فأصابهم البرد فلما قدمو علی النبی ﷺ شکوا إلیه ما أصابهم من البرد فأمرهم أن یمسحوا علی العصائب والتساخین

 ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یعنی رسول اللہ ﷺ نے ایک قافلہ بھیجا تو سرد موسم کی وجہ سے انہیں تکلیف پہنچی جب وہ واپس نبی ﷺ کے پاس آئے تو سردی کی تکلیف کی شکایت آپ سے کی تو آپ ﷺ نے انہیں پگڑیوں اور تساخین پر مسح کرنے کا حکم دیا۔‘‘2

عربی میں ’’تساخین‘‘ ہر اس چیز کو کہاجاتا ہے جس سے پاؤں گرم رکھے جائیں ’ جس میں موزے اور جراب دونوں شامل ہیں۔ اس روایت کی سند صحیح ہے، اسے حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ اور حافظ ذھبی رحمہ اللہ دونوں نے صحیح کہاہے۔3اس حدیث پر امام احمد رحمہ اللہ کی جرح کے جواب کےلئے نصب الرایہ وغیرہ دیکھیں4۔

تیسری حدیث:  حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کی روایت امام ابن ماجہؓ نے اپنی سنن میں بیان کی ہے:

  أن رسول اللہﷺ توضأ و مسح علی الجوربین والنعلین

حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے وضو فرمایا اور جرابوں اور موزوں پر مسح کیا۔5

ان احادیث میں ایک تو واضح طور پر جرابوں  کے الفاظ آئے ہیں اور دوسرا ان کے ساتھ کسی قسم کی شرائط کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔

مذکورہ  احادیث سے ہر قسم کے موزوں (چمڑے، اونی، سوتی) پر مسح کرنے کی واضح دلیل سامنے آگئی، ساتھ ہی مسح سے متعلق دیگر تمام نصوص کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ احادیث میں موزہ یا جراب پہ مسح کا حکم عام ہے ،اس کی کوئی  عذر یا علت بیان نہیں کی گئی ہے کہ صرف مجبوری میں یا ٹھنڈ کی وجہ سے یا مرض کی وجہ سے مسح کرسکتے ہیں ۔ لہذا  آدمی بیمار ہو یا تندرست، مقیم ہویا مسافر، معذور ہو یا غیر معذو ر،  موزے پہ مسح کرسکتا ہے خواہ گرمی کا موسم ہو یا سردی کا،  اور چاہےگرم پانی موجود ہویا پھر سردی کم ہو یعنی بلاکسی عذر اور بغیر کسی مجبوری کے کسی بھی موسم میں اور کہیں بھی موزہ اور جراب پر مسح کرسکتے ہیں ۔

مسح جوربین اور اجماعِ امت

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:

وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

النساء – 115

جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا:  ’’اللہ میری اُمت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں کرے گا اور اللہ کا ہاتھ جماعت (اجماع) پرہے‘‘۔6

اس آیت کریمہ اور حدیث صحیح سے ثابت ہوا کہ اجماعِ اُمت حجت ہےاور اُمت مسلمہ کی سب سے بہترین  جماعت صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم اجمعین) صحیح العقیدہ تابعین عظام اور تبع تابعین کی جماعت ہے اور صحابہ و تابعین کا اس بات پر اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ اس اجماع کے دلائل درج ذیل ہیں:

پہلی  دلیل: ابن منذر رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’رسول اللہ ﷺکے نو صحابہ کرام سے جرابوں پر مسح کرنا مروی ہے، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں: علی بن ابی طالب، عمار بن یاسر، ابو مسعود، انس بن مالک، ابن عمر، براء بن عازب، بلال، ابو امامہ، اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہم اجمعین‘‘۔7

امام أبو داود رحمه الله كہتے ہیں :

ومَسَحَ على الجوربين: عليُّ بنُ أبي طالبٍ، وابنُ مسعودٍ، والبراءُ بنُ عازبٍ، وأنسُ بنُ مالكٍ، وأبو أُمامةَ، وسهلُ بنُ سعدٍ، وعمرُو بنُ حُرَيْثٍ، ورُوِيَ ذلك عن عُمَرَ بنِ الخطَّاب وابنِ عبَّاسٍ

امام ابو داود نے ان کی تعداد میں مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا: ابو امامہ،  عمرو بن حریث، عمر  فاروق اور ابن عباس رضی اللہ عنہم بھی ان میں شامل ہیں۔8

ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’صحابہ کرام نے جرابوں پر مسح کیا اور ان کے زمانے میں کسی نے ان کی مخالفت نہیں کی تو اس طرح ا س پر اجماع ہو گیا‘‘۔9

دوسری دلیل: سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: 

رأیت علیًّا بال ثم تو ضأ ومسح علی الجوربین

میں نے علی (بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کو دیکھا، انھوں نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور جرابوں پر مسح کیا۔10

تیسری دلیل:

عن الأزرق بنِ قيسٍ قال: رَأَيْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ أَحْدَثَ؛ فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، وَمَسَحَ عَلَى جَوْرَبَيْنِ مِنْ صُوفٍ؛ فَقُلْتُ: أَتَمْسَحُ عَلَيْهِمَا؟ فَقَالَ: إِنَّهُمَا خُفَّانِ، وَلَكِنَّهُمَا مِنْ صُوفٍ

ازرق بن قیس  رحمہ اللہ كہتے ہیں كہ انس بن مالك رضی اللہ عنہ كو وضو كی ضرورت پڑی تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا ، اور اپنے سر کا مسح کیا اور جورابوں پر مسح کیا ،  تومیں نے کہا کہ کیا آپ ان  جورابوں پر مسح کرتے ہیں  ؟تو  کہنے لگے کہ یہ دونوں جورابیں ایسے موزے ہیں جو اون کے بنے ہوئے ہیں ۔11

چوتھی دلیل:  رجاء بن ربیعہ الزبیدی الکوفی (رحمہ اللہ)سے روایت ہے کہ: 

رأیت البراء توضأ فمسح علی الجوربین

میں نے براء (بن عازب رضی اللہ عنہ) کو دیکھا، انھوں نے وضو کیا تو جرابوں پر مسح کیا۔12

پانچویں دلیل:  ابو وائل شقیق بن سلمہ الأسدی الکوفی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ (ابو مسعود) عقبہ بن عمرو الانصاری رضی اللہ عنہ نے وضو کیا

ومسح علی الجوربین

  اور جرابوں پر مسح کیا۔13

چھٹی دلیل: ابن جریج نے عن کے ساتھ عطاء (بن ابی رباح رحمہ اللہ تابعی) سے روایت کی، انہوں نے فرمایا:

  المسح علی الجوربین بمنزلة المسح علی الخفین

جرابوں پر مسح موزوں پر مسح کے قائم مقام ہے۔14

ساتویں دلیل:ابراہیم بن یزید النخعی (تابعی صغیر، رحمہ اللہ) نے فرمایا:

الجوربان والنعلان بمنزلۃ الخفین

جُرابیں اور جُوتے (بوٹ) موزوں کے قائم مقام ہیں۔15

ان صریح و صحیح آثار سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام و تابعین عظام کا اس پر اجماع ہے کہ جرابوں پر مسح جائز ہے۔

مسح  جوربین کے لیے علماء کے شرائط:

جرابوں پر مسح کی اجازت دینے والے اکثر علمائے کرام یہ کہتے ہیں کہ جرابوں کا موٹا ہونا ضروری ہے کہ انہیں پہن کر آپ چل سکیں۔16

کیونکہ جرابوں کا حکم موزوں والا ہی ہے، اور موزے شفاف اور باریک نہیں ہوتے، اس لیے موزوں کے حکم میں وہی جرابیں ہوں گی جو شفاف اور باریک نہ ہو ں بلکہ موزے کی طرح موٹی ہوں۔

کاسانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:   اگر جرابیں پتلی اور اتنی باریک ہوں کہ ان میں سے پانی رس جائے تو سب کا اس بات پر اجماع ہے کہ ان پر مسح کرنا جائز نہیں “۔17

ابن القطان الفاسی (م 628 ھ)نے بحوالۃ کتاب النیر للقاضی ابی العباس احمد بن محمد بن صالح المنصوری (م 350 ھ تقریباً) اور بطورِ جزم لکھاہے:

وأجمع الجمیع أن الجوربین إذا لم یکونا کثیفین لم یجز المسح علیھما

اور سب کا اس پر اجماع ہے کہ اگر جرابیں موٹی نہ ہوں تو ان پر مسح جائز نہیں۔18

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ک سے جب پوچھا گیا كہ کیا جرابوں پر موزوں کی طرح مسح کرنا جائز ہے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا:   ’’جرابوں پر مسح کرنا  اس وقت جائز ہے جب انہیں پہن کر چلنا ممکن ہو،  چاہے جرابوں کے تلوے چمڑے کے ہوں یا نہیں”۔19

نیز ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ: ’’ اگر جرابیں بالکل باریک ہوں تو ان پر مسح کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ عام طور پر باریک جراب پہن کر چلنا ممکن نہیں ہوتا، اور نہ ہی ان پر مسح کرنے کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔20

اسی طرح فتاوی دائمی کمیٹی (5/267) میں ہے کہ:  ’’ جرابوں کا موٹا ہونا ضروری ہے کہ اس میں سے جلد نظر نہ آئے‘‘۔21

اسی طرح ایک جگہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: ’’ ہر اس چیز پر مسح کرنا جائز ہے جو پاؤں ڈھانپنے کیلیے استعمال ہو، چاہے وہ موزے ہوں یا موٹی جرابیں”۔22

اسی کے مطابق شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کا فتوی ہے: ’’بھیڑ یا اونٹ کی اون، بالوں اور سوت وغیرہ سے بنی ہوئی جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے، بشرطیکہ موٹی ہوں اور جس قدر پاؤں کو دھونا لازمی ہے اتنے حصے کو ڈھانپنے کے ساتھ ساتھ دیگر شرائط بھی پوری ہوں”۔23

نیز ایک اور مقام پر انہوں نے کہا: ’’ اگر جراب اتنی باریک ہو کہ جلد نظر آئے تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہے”۔24

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’جرابوں پر مسح کرنے کی شرط یہ ہے کہ جرابیں موٹی اور پورے قدم کو ڈھانپ دیں، چنانچہ اگر جرابیں شفاف ہوں تو اس پر مسح کرنا جائز نہیں ہوگا، کیونکہ اس صورت میں پاؤں ننگا ہونے کے حکم میں ہوگا ‘‘۔25

امام احمد کہتے ہیں: جرابوں پر مسح اسی وقت درست ہوگا جب جرابیں موٹی ہوں کیونکہ صحابہ کرام نے جرابوں پر مسح کیا ہی اس لیے تھا کہ وہ جرابیں ان کے ہاں موزوں کے قائم مقام تھیں، اس طرح کہ انسان وہ جرابیں پہن کر باآسانی چل پھر سکتا تھا۔26

لہٰذا اس فرق کا تقاضا ہے کہ موزے پہننے والے کیلیے ان پر مسح کی اجازت دی جائےلیکن باریک جرابیں پہننے والے کو مسح کی اجازت نہ دی جائے، نیز باریک جرابوں کو موزوں پر مسح کیلئے قیاس کرنا بھی قیاس مع الفارق ہوگا”۔27

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اکثر علمائے کرام باریک اور شفاف جرابوں پر مسح کرنے کی اجازت نہیں دیتے ، نیز اگر جرابوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے تو موٹی جرابوں کے بارے میں ہے۔

  1. صحیح الترمذی:99، صحیح ابن ماجہ :460
  2. سنن ابی داؤد ،رقم الحدیث:۱۴۶
  3. المستدرک والتلخیص ،الرقم:۶۰۲)
  4. نصب الرایہ (۱؍۱۶۵)
  5. ابن ماجه،  ج۱ کتاب الطہارة،  باب ماجاء فی المسح علي الجوربین والنعلین( ص: ۲۹۰۔ رقم الحدیث ۵۶۰)
  6. المستدرک للحاکم 1/ 116 ح 399 وسندہ صحیح، ولہ شاھد حسن لذاتہ عند الطبرانی فی الکبیر( 12/ 447 ح 13623)
  7. الأوسط (1/462(
  8. سنن أبي داود (١/ ١١٣)
  9. المغنی( 1/215)
  10. الاوسط لابن المنذر 2/ 115 ح 477 وسندہ صحیح، دوسرا نسخہ 1/ 462 ث 479)
  11. أخرجه الدولابيُّ في  ’’الكُنى والأسماء‘‘  (١٠٠٩). وصحَّحه أحمد شاكر،  وانظر:  سلسلة الآثار الصحيحة  لأبي عبد الله الداني بنِ منير آل زهوي (١٢٠).
  12. مصنف ابن ابی شیبہ( 1/ 189 ح 1984، وسندہ صحیح)  اس روایت کی سند میں سلیمان بن مہران الاعمش رحمہ اللہ نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔
  13. مصنف ابن ابی شیبہ( 1/ 189 ح 1987، وسندہ صحیح)
  14. مصنف ابن ابی شیبہ نسخہ عوامہ ( 2/ 278 ح 2002، دوسرا نسخہ ح 1991)
  15. مصنف ابن ابی شیبہ( 2/ 275 ح 1987، وسندہ حسن، دوسرا نسخہ 1/ 188 ح 1975)
  16. المبسوط (1/102) ، المجموع  ( 1/483) ، الإنصاف (1/170)
  17. (بدائع الصنائع (1/10)
  18. الاقناع فی مسائل الاجماع (ج 1 ص 227 فقرہ: 351)
  19. مجموع الفتاوى (21/213 )
  20. شرح عمدة الفقه (1/251 )
  21. فتاوی دائمی کمیٹی  سعودی عرب(5/267)
  22. فتاوى اللجنة الدائمة (4/101 )
  23. فتاوى و رسائل الشیخ محمد بن ابراہیم  (2/66)
  24. فتاوى و رسائل الشیخ محمد بن ابراہیم  (2/68 )
  25. فتاوى الشیخ ابن باز( 10/110)
  26. المغنی لابن قدامہ) 1/216)
  27. تحفۃ الأحوذی) 1/ 285)
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: