مائنڈ کا سیٹ نہ ہونا….؟

ہمارے کرم فرما جناب’’یاسر پیرزادہ‘‘ صاحب نے ’’ذراہٹ کے‘‘ کالم لکھاہے، احباب نے مشورہ دیاکہ موصوف کی اصلاح کے لیے قلم کو جنبش دیں ذراڈٹ کے اور شرعی اعتبار سے اس کا تجزیہ بھی کریں۔ موصوف کا عنوان تھا’’ ویلنٹائن ڈے کا رونا‘‘ اگر چہ ہر’’شخص‘‘ کےخیالی خوابوں کو دیکھنا پڑھنا اور تعاقب کرنا کچھ ایسا ضروری بھی نہیں وگرنہ تو منزل تک پہنچنا ناممکن ہوجاتاہے۔ بہر کیف موصوف کی تحریر بے ضمیر نے ہمیں ایک آیت کی طرف توجہ دلادی کہ:

وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ ۗ

التوبة – 47

’’ان کے ماننے والے خود تم میں موجود ہیں‘‘۔

 کچھ احباب بھی اغیار کے یار ہوتے ہیں۔

جناب نے صحیح فرمایابات ویلنٹائن ڈے کی نہیں مائنڈ سیٹ کی ہے یقیناًاگر جناب کا مائنڈ ہوتا اور پھر سیٹ ہوتا تو وہ کبھی بھی جملہ اہل علم اور احباب خرد ودانش کو انتہا پسندوں کا عذر خواہ قرار نہ دیتے، کیا صدر ممنون حسین بھی جناب والا کی نظر میں انتہا پسندوں کے عذر خواہ قرار پاتے ہیں؟ان انتہا پسندوں کا جو بھی موقف ہو ہمیں ا س سے سروکار نہیں مگر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اسلام کی جامعیت میں عقیدہ ، عمل، تہوار، خوشی ، غمی ،لباس، تہذیب وتمدن، ثقافت اور انداز محبت سب کچھ موجود ہے حتیٰ کہ کسی حد تک فنون لطیفہ بھی دستیاب ہے تو پھر یہ کہنا کہ مائنڈ سیٹ کی خرابی ہے یہ کس حدتک صحیح بات ہوسکتی ہے؟

کیا معاشرے کے اخلاق واقدار کی تصحیح کی بات مائنڈ سیٹ کی خرابی ہے؟ افسوس کہ چند نام نہاد اسلامی کلچر کے علمبرداروں کی غلط روش اور غلط طریقہ تنفیذ کو بنیاد بناکر موصوف نے ’’ذراہٹ کے‘‘نہیں بلکہ’’ بالکل ہٹ کے‘‘ اپنے منفی خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔سن لیجئے یہاں کوئی کسی کے لباس، تراش وخراش اور خوشی واظہارِ خوشی کا دشمن نہیں۔البتہ’’ان ارید الاالاصلاح‘‘ کے تحت صحیح اور غلط کی نشاندہی ہر مسلمان کا فریضہ ہے رسول رحمت ﷺ  کا ارشاد گرامی ہے:

’’من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه ومن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان‘‘

’’ جو منکرات کو دیکھے ہاتھ سے روک دے، وگرنہ توزبان سے کہہ کر روک دے یا پھر دل سے تو بُرا جانے‘‘[1]

کیامنکرات پر لب کشائی کرنے والوں کو طالبان جیسوں کا عذر خواہ کہاجائے گا؟ہم عرض کریں گے جناب والا! آپ کیا اپنی اس تحریر بے ضمیر میں مغرب کی عذر خواہی نہیں کررہے ؟

جنا ب نے موسیقی کو عین اسلامی شعار اور اسلامی حکم قرار دینے کی کوشش کی ہے صرف اس بنیاد پر کہ بہت سے جید علما اسے حرام قرار نہیں دیتے ۔ وغیرہ وغیرہ حیرت ہے کہ

’’ حبک الشیئ یعمی ویصم‘‘

’’کسی چیز کی محبت اندھابہرا بنادیتی ہے‘‘۔

 کیاتحت السمآء ہر چیز میں اختلاف نہیں ہے تو کیا اس بنیاد پر ہر رطب ویابس کو گلے لگالیاجائے؟ صرف اس لیے کہ بعض جید علماء اس کی مدح میں رطب اللسان ہیں؟

جنابِ من مسائل کا حل قول راجح میں ہوتا ہے نہ کہ قول مرجوح میں! اور آپ کے نام نہاد علماء جید نہیں جدید ومتجدد ہوسکتے ہیں ۔ جو علماء میں شمار ہی نہیں ہوتے یا پھر ان کا مسائل میں تفردانہیں لے ڈوبا ہے ۔ آپ نام تو بتائیں’’غامدی‘‘ اور اس کی فکر کے ہمنوا لوگوں کے سوا کون موسیقی کو اسلام کے فنون لطیفہ میں شمار کرتاہے؟ مائنڈ سیٹ کیجئے۔موصوف نے دہشت گردی اور ستم گری طالبان کے تناظر میں رقص اور ڈانس پر بھی لب کشائی کرکے اسے سند جواز دینے کی کوشش کی ہے اور وہ بھی اس دلیل پر کہ جب وہ ستم کرتے ہیں تو پھر علماء کو تکلیف کیوں نہیں ہوتی وغیرہ وغیرہ۔؎

تو ہم عرض کرتے ہیں کہ’’پیرزادہ صاحب‘‘ یہ تو ایسے ہوگیا کہ وہ کپڑے پہنیں اور ہم برہنہ ہوکر ان کی مخالفت کریں؟ عجیب بلکہ عجیب تر معاملہ ہے آپ کا کہاں ان کا تشدد کہ جس پر پوری قوم بلکہ پورا عالم اسلام سراپااحتجاج ہے اور کہاں قوم کی بیٹی کا رقص اور ڈانس۔؟

اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ

المائدة – 8

’’عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیاده قریب ہے ‘‘۔

جناب فرماتے ہیں یہ عذر خواہ ویلنٹائن ڈے کو مغربی تہوار کہتے ہیں اور پھر موصوف مغربی ایجادات کی مدح میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ یہ انہوں نے بنایا اور وہ ایجادکیا اور ہم ان کی اقدار میں گوڈے گوڈے ڈوب چکے ہیں ۔ہم جناب کو مشورہ دیں گے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کے فرماں بردار آپ وہاںہی شفٹ ہوجایے ،خوب بنے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔

اللہ کے بندے! کیا ایجادات اور ایجادات کا استعمال اقدار وتہذیب اختیار کرنے کا پیش خیمہ ہوا کرتاہے۔؟

شریعت ِاسلامی اقدار وتہذیب کی نوک پلک سنوارتی ہے ایجادات کی نہیں۔ آپ نے تو ان کی ایجادات ایسے گِنوائی ہیں کہ گویاوہ ہماری زندگی کا جز ولاینفک ہو۔؟قطعاً نہیں جناب ضرورت اور ایجاد اور تہذیب وتمدن میں فرق کرنا ہوگا۔آپ کو پتہ ہے جناب کہ لیپ ٹاپ، موبائل سمیت بے شمار ایجادات کے بغیر بھی زندگی ممکن تھی اور آج بھی ہے اور کل بھی ہوگی مگر آپ اپنے ممدوح مغرب کی اس اداپر کیا کہیں گے کہ وہاں والدین اولڈ کئیر ہاؤس میں سِسک رہے ہیں؟دولت کی خاطر کتوں اور بِلّوں سے عورت شادی کررہی ہے؟ ہر دوسراصدر اور وزیراعظم اپنے’والد‘ کو نہیں جانتا؟ کیوں ؟ اور پھر سینٹ ویلنٹائن کو جو پھانسی دی گئی وہ دلیل ہے کہ اصحاب کلیسا وگرجاخود اس ویلنٹائن ڈے کے خلاف ہیں؟تو آپ کیا’’ذرا ہٹ کے‘‘ لکھنے بیٹھ گئے؟…اپنی اداؤں پر ذرا غور کیجئے…مائنڈ سیٹ کیجئے۔آپ کو بھی ویلنٹائن ڈے منانے کا شوق نہیں ہے تو پھر’’ غصہ‘‘ کس بات پر ہورہے ہیں؟ مائنڈ سیٹ  کیجئے، مائنڈ مت کیجئے۔!

ایک مسلمان ہونے کے ناطے سے ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ:

٭…ویلنٹائن ڈے غیر اسلامی تہوارہے اور

وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُوْنَ الزُّوْرَ

کےبمصداق رحمن کے بندے کفارکے تہواروں کو نہیں مناتے۔

٭…ویلنٹائن ڈے ، حیاء کے منافی ہے۔جبکہ نبیﷺکافرمان ہے:

’’والحياء شعبة من الإيمان‘‘

اور حیاء ایمان کا شعبہ ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الایمان ،باب امور الایمان ،حدیث نمبر:9۔)

٭… حیاء اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں ایک ختم تو دوسرا بھی ختم۔

ارشادِ نبویﷺہے:

’’الحياء والإيمان في قرن فإذا سلب أحدهما اتبعه الآخر‘‘

معجم اوسط طبرانی، حدیث رقم : 8313

٭…ویلنٹائن ڈے ، تعلیم اسلام کے منافی ہے اور وہ یہ ہے کہ دو محبّت کرنے والوں کے لیے ’’نکاح‘‘ سے بڑ ھ کر کچھ نہیں۔

نبی ﷺ کا فرمان ہے:

’’ لم نر للمتحابين مثل النكاح‘‘

سنن ابن ماجه ۔ كتاب النكاح، باب ما جاء فی فضل النکاح، حدیث رقم: 1847

[1] صحیح مسلم:کتاب الایمان ، باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان حدیث نمبر:78

الشیخ عبدالوکیل ناصر حفظہ اللہ: کراچی کے معروف علماء میں سے ا یک نام الشیخ عبدالوکیل ناصر صاحب کا ہے، آپ ان دنوں جامعۃ الاحسان الاسلامیہ کراچی کے سینئر مدرس کی حیثیت سے دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔اس کے ساتھ ساتھ سندھ بھر میں خطابات و بیانات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔