میڈیا کی بے لگام افواہیں اور مسلمانوں کے لئے لائحہ عمل

پہلا خطبہ:

یقینا تمام  تعریفیں اللہ عز وجل کے لئے ہیں، ہم اس کی کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اس کا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، اور اس کا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں محمد  اللہ بندے اور اس کے رسول  ہیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ

آل عمران – 102

  اے ایمان والو! اللہ سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں ہی آئے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا

النساء – 1

  لوگوں! اپنے اس پروردگار سے ڈرتے رہو جس نے تمہیں ایک جان  سے پیدا کیا پھر اسی سے اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے (دنیا میں) بہت سے مرد  اور عورتیں پھیلا دیں ۔ نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور قریبی  رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بلاشبہ اللہ تم پر ہر وقت نظر رکھے ہوئے ہے ۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (70) يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

الاحزاب – 70/71

والوں! اللہ سے ڈرو، اور سچی بات کیا کرو۔ اللہ تعالی تمہارے اعمال درست کردےگا، اور تمہارے گناہ بھی معاف کردےگا، اور جو اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرے وہ بڑی کامیابی کا مستحق ہے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانوں!

میڈیا کی بے لگام پھلتی پھولتی صورت حال ، اور عالمی منظر نامے میں  سماجی اور دیگر تبدیلیوں نے  پوری دنیا کو خطرناک سماجی صورتِ حال سے دوچار کردیا ہے، اور وہ ہے افواہیں پھیلانا،  جن کے ذریعے معاشرے میں انفرادی یا اجتماعی طور پر بغیر کسی ثبوت، دلیل، اور تصدیق کے بے بنیاد خبروں کو عام کیا جاتا ہے، مزید برآں کہ ان افواہوں کو شکوک و شبہات سے بھر پور حالات میں پھیلایا جاتا ہے،انہی افواہوں کی وجہ سے  قوم ، ملک اور معاشروں پر منفی اثرات  خوف، شور و غوغہ، اور بے چینی کی صورت میں رونما ہوتے ہیں۔

اس لئے افواہوں کے نتائج ہمیشہ برے اور غلط برآمد ہوئے ہیں، یہ کوئی تعجب والی بات نہیں ؛ کیونکہ افواہوں کی بنیاد ہی متعدد گھٹیا مقاصداور اہداف پر ہوتی ہے، جن میں خطرناک  ترین یہ ہے کہ افواہیں اسلام دشمن قوتوں کا مسلمانوں کے دین و دنیا ، امان و اقتصاد،خوشحالی و ترقی، اور حالتِ امن و جنگ کے خلاف انتہائی مؤثر ہتھیار ہے، ان افواہوں کو بالخصوص عصرِ حاضر میں گھٹیا اہداف پانے کے لئے مناسب حالات، اور ذرخیز مٹی  دیکھ کر  ہی بویا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ افواہیں دو رُخی ، اور ڈرپوک لوگوں کی طرف سے پھیلائی جاتی ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلًا [60] مَلْعُونِينَ

الاحزاب – 60/61

  اگر منافقین ، اور جن کے دلوں میں خرابی ہے اور وہ جو مدینہ میں ہیجان انگیز افواہیں پھیلانے والے ہیں، اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم ان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے تمہیں اٹھا کھڑا کریں گے ، پھر وہ اس شہر میں مشکل ہی سے تمہارے ساتھ رہ سکیں گے۔ ان پر ہر طرف سے لعنت کی بوچھاڑ ہوگی۔

کتنی ایسی افواہیں ہیں جن کی وجہ سے امت اسلامیہ کا جسم چھنّی ہوا،  اور دشمن مسلمانوں کو ضرر رسانی  جیسے گھٹیا اہداف پانے میں کامیاب رہے۔

اسی لئے شریعتِ اسلامیہ نے معاشرتی تحفظ کو دوام بخشنے کے لئے ہر نقصان دہ و ضرر رساں چیز کے بارے میں واضح تعلیمات دیں،کہ ان افواہوں اور جھوٹی خبروں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے  قلمدان و زبان کی حفاظت کا حکم دیا، چنانچہ فرمایا:

وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا

الاسراء – 36

 کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو، یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔

کتاب وسنت نے جھوٹ کی تمام اقسام کو سختی کیساتھ  ممنوع قرار دیا  ہے، مثلاً: خبر میں جھوٹ کے اندیشہ کے باوجود آگے پھیلانا، یا اندازوں اور تخمینوں  کو بنیاد بنا کر نشر کرنا ، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ

التوبة – 19

اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہمیشہ سچے لوگوں کیساتھ رہو۔

اسی طرح آپ ﷺنے فرمایا: (یقینا جھوٹ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے، اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتے ہیں) متفق علیہ۔

مسلمان بھائیوں!

ں کو آگے پھیلانا شرعی طور پر منع ہے، فطرت اور عرفِ عام دونوں کے اعتبار سے ناپسندیدہ بھی ہے، کتنی ہی ایسی خبریں ہیں جو بغیر کسی ثبوت و تصدیق کے پھیلائی گئی اور انکی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا، اسی لئے ہر مسلمان کو تصدیق کے بغیر  کوئی بھی خبر نشر کرنے سے یکسر منع کیا گیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: 

مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَيْهِ رَقِيبٌ عَتِيدٌ

ق – 18

 وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لئے) تیار رہتا ہے۔

ہمارے نبی مکرم ﷺنے فرمایا: (کسی آدمی کے جھوٹے ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو آگے نشر کردے) مسلم ایک روایت میں ہے : (انسان کے گناہگار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے نشر کرے)

مسلمانوں!

اپنے آپ کو ایسی خبروں کے پھیلانے سے بچاؤ  جن  کا کوئی ثبوت نہیں ، جن کے درست ہونے کے کوئی شواہد نہیں؛ کیونکہ یہ بھی جھوٹ بولنے اور نشر کرنے کی ایک قسم ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے متقی بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ

الفرقان – 72

 مؤمن لوگ جھوٹ  میں شریک نہیں ہوتے۔

اورایک صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کیا میں تمہیں اکبر الکبائر گناہ کے بارے میں نہ بتلاؤں)صحابہ نے کہا: کیوں نہیں ! اللہ کے رسول!آپ نے فرمایا: (اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا) آپ یہ بات کرتے ہوئے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے، پھر آپ سیدھے ہوگئے، اور فرمانے لگے: (جھوٹ بولنا، جھوٹی گواہی دینا بھی اسی میں شامل ہے)  آپ یہ بات بار بار دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم اپنے جی میں کہنے لگے کاش آپ خاموش ہو جاتے۔

چنانچہ غلط خبریں ، اور بے لگام باتیں نشر کرنا مسلمانوں کیساتھ دھوکہ اور فراڈ میں شامل ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: (مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں) متفق علیہ

بے سر وپا خبریں نقل کرنا، اور پھیلانا، صحیح بخاری و مسلم  کی حدیث کے مطابق ہر حالت میں ممنوع قیل وقال میں سے ہیں، جیسے کہ مسلم  نے ابو ہریرہ سے مرفوعاً یہ بھی نقل کیا ہے کہ: (تمہارے لئے قیل وقال، کثرتِ سوال، اور ضیاعِ اموال منع کیا گیا ہے)۔

اے مسلم! اپنی زبان کی حفاظت کرو، اپنے قلم و قرطاس کو بے بنیاد خبریں نشر کرنے سے بچاؤ گے تو سلامتی پاؤ گے، وگرنہ واضح  گناہ، اور عظیم بہتان کے مرتکب قرار پاؤ گے، جن کا آپ کو دنیا میں کوئی فائدہ ہوگا، بلکہ دینی تشخص پامال ہوگا۔

سنن ابو داود میں صحیح سند کیساتھ فرمانِ نبوی ہے: (بد ترین تکیہ کلام “لوگ یہ کہتے ہیں” ہے) جبکہ صحیح مسلم میں ہے: (جو شخص جان بوجھ کر کوئی مشکوک خبر بیان کرے، تو وہ بھی جھوٹے لوگوں میں شامل ہے)

اسلامی بھائیوں!

ایک مسلمان کا افواہوں اور بے بنیاد خبروں کے بارے میں ٹھوس موقف اور فیصلہ  یہی ہے کہ منہج الہی و طریقہ نبوی  کو تھام لے، اور وہ اس آیات میں ذکر ہوا ہے:

وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ لَمَسَّكُمْ فِي مَا أَفَضْتُمْ فِيهِ عَذَابٌ عَظِيمٌ [14] إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُمْ مَا لَيْسَ لَكُمْ بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ عَظِيمٌ

النور – 14/15

 جبکہ تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جھوٹ کو لیتی چلی جا رہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہے جا رہے تھے جس کی متعلق تمہیں کوئی علم نہ تھا ۔ تم اسے ایک معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ بڑی بات تھی۔ کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ ” ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ! یہ تو ایک بہتان عظیم ہے!”۔

اسی طرح  سورہ نساء میں فرمایا:

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا

النساء – 83

اور جب کوئی امن کی یا خطرے کی خبر ان تک پہنچتی ہے تو اسے فوراً اڑا دیتے ہیں ۔ اور اگر وہ اسے رسول یا اپنے کسی ذمہ دار حاکم تک پہنچاتے تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں، اور اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تمہارے شامل حال نہ ہوتی تو چند لوگوں کے علاوہ سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے۔

اے مسلم! آپ کا ٹھوس موقف  یہی ہے کہ آپ  تصدیق اور تحقیق  کا منہج اپناؤ، کہ آپ بے بنیاد، غیر موثوق ذرائع سے حاصل ہونے والی خبروں کو پھیلانے میں جلدی مت کریں، اس کا ذکر اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں فرمایا: 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ

الحجرات – 6

اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم نادانستہ کسی قوم کا نقصان کر بیٹھو پھر تمہیں اپنے کئے پر نادم ہونا پڑے۔

اور آپ ﷺنے بھی جلد بازی کے بارے میں فرمایا: (متانت اللہ کی طرف سے ہے، اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے) حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: “مسلمان معاملات واضح ہونے تک خاموش رہتا ہے”، چنانچہ ایک مسلمان کے لئے یہ بہت بڑی سعادت ہوگی کہ جھوٹی خبریں  اور افواہیں پھیلانے  سے بچ جائے۔

پھر مسلم معاشرے پر یہ بھی ایک ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں  کے متعلق اڑائی جانے والی بے سروپا  خبروں کو مت پھیلائیں، بالخصوص نامور اور مشہور لوگوں کے بارے میں اسکا اہتمام کریں  کہ قرآنی آداب اور تعلیمات کو ملحوظ خاطر رکھیں، جیسا کہ فرمانِ باری تعالی ہے:

لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَذَا إِفْكٌ مُبِينٌ

النور – 12

 جب تم نے سنا تھا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے دل میں اچھی بات کیوں نہ سوچی! اور یوں کیوں نہ کہہ دیا! کہ ”یہ تو صریح بہتان ہے”۔

اسی طرح چند آیات کے بعد فرمایا:

وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُمْ مَا يَكُونُ لَنَا أَنْ نَتَكَلَّمَ بِهَذَا سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ

النور – 16

 کیوں نہ اسے سنتے ہی تم نے کہہ دیا کہ “ہمیں ایسی بات زبان سے نکالنا زیب نہیں دیتا، سبحان اللہ! یہ تو ایک بہتان عظیم ہے!”۔

تمام مسلمان بری باتوں، اور بے آبروکرنے والی  خبروں کو نشر  مت کریں، اسوقت عموما ہر شخص کے پاس جدید موبائل وغیرہ موجود ہیں، جنکی وجہ سے شیطان انسان کو دین ودنیا کے نقصان میں ڈال سکتا ہے، اس لئے مسلمانوں اللہ سے ڈرو، تمہیں اللہ کی اطاعت کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔

اور اس وقت تک انسان گناہوں سے نہیں بچ سکتا جب تک اپنے پورے جسم پر تقوی الہی نافذ نہیں کرتا، اور اپنے ذہن میں یہ بات نہیں ڈالتا کہ  ایک چوکس نگران اس کی نگرانی کر رہا ہے، اس قسم کی نشر و اشاعت کے بارے میں فرمان باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ

النور – 19

 جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔

اہل علم کا کہنا ہے کہ: اس آیت میں فحاشی  کی تمام اقسام کو کسی بھی طریقے سے نشر کرنے کے بارے میں باقاعدہ ایک ضابطہ بیان کیا گیا ہے، تا کہ ہر آنکھ، کان، اور زبان فحاشی سے محفوظ رہے، حقیقت میں انہی تعلیمات پر عمل کرنے والا معاشرہ ہی ایسا مسلم معاشرہ ہے  جس کے بارے میں اللہ تعالی چاہتا ہے کہ تمام مسلمان ایسے ہی بن جائیں۔

چنانچہ مسلمانو! اگر تم دنیا و آخرت میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو اللہ سے ڈرو، اور اسلامی آداب ، طریقہ نبوی اپناؤ۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لئے قرآن کریم کو بابرکت بنائے، اور ہمیں اس کے معانی و مفاہیم  سے مستفید ہونے کی توفیق دے، میں اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے لئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش  مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں وہی ہمیں کافی ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں  کہ دنیا ہو یا آخرت کہیں بھی اللہ علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں، وہ یکتا ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُسکے بندے اور رسول ہیں، آپ ہی کے ذریعے اللہ تعالی نے پردوں میں پڑے دلوں ، نابینا آنکھوں ، اور بہرے کانوں کو کھولا ، اللہ تعالی اُن پر ، اُنکی آل، اور صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں، اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانوں! اللہ سے ڈرو، جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالی اسے نیک بخت بنائے گا، اور وہ کبھی بھی بد بخت نہیں ہوگا۔

مسلمانوں!

افواہیں پھیلانے کا رجحان معاشروں کے لئے ناسور بن چکا ہے، جو کہ  معاشروں کے لئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، بلکہ آجکل بسا اوقات  افواہوں کو سوچی سمجھی سازشوں کے تحت منظم طریقے سے خاص اہداف حاصل کرنے کے لئے  ایسے مواصلاتی ذرائع  کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے جو بھوسے میں آگ اور روشنی و آواز کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی کیساتھ باتوں کو نشر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس لئے تمام مسلم اقوام  کو متحد ہوکر  نبی ﷺکی مقرر کردہ تعلیمات کے مطابق افواہوں کا مقابلہ اور جڑ سے انکا خاتمہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اور اسلامی میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ اللہ سے ڈریں اور خبریں نشر کرتے وقت انکی تصدیق کے لئے بہترین معیار قائم کریں، میڈیا کے لوگ  پوری امت کے بارے میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہونگے،  یہی لوگ مسلمانوں کے افکارو نظریات ، اور امن و امان کے امین اور ذمہ دار ہیں، جو اس ذمہ داری کو صحیح طریقے سے نہیں نبھائے گا وہی نا مراد وناکام ہوگا، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ

الانفال – 27

اے ایمان والو! دیدہ دانستہ اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ ہی تم آپس کی امانتوں میں خیانت کرو۔

مسلمان بھائیوں!

ہمیں اللہ تعالی نے ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام :

ہمیں اللہ تعالی نے ایک بہت بڑے عمل کا حکم دیا ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام :

یا اللہ! ہمارے پیارے نبی  ، ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور سربراہ محمد  پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتیں نازل فرما ، یا اللہ! خلفائے راشدین ابو بکر ، عمر، عثمان ، علی ، آپ کی آل، تمام صحابہ کرام، اور قیامت تک ان کے راستے پر چلنے والےافراد سے راضی ہوجا۔

یا اللہ! مسلمانوں کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! تمام مسلم معاشروں کو سنت نبوی کے عین مطابق بنا دے۔

یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے بارے میں غلط ارادے رکھے یا اللہ! اسے اپنی جانے کے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! جو بھی مسلمانوں کے بارے میں غلط ارادے رکھے یا اللہ! اسے اپنی جان لے لالے پڑ جائیں، یا اللہ! مسلمانوں کو امن وامان کی دولت سے مالا مال فرما! یا اللہ! مسلمانوں کو امن وامان کی دولت سے مالا مال فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو امن وامان کی دولت سے مالا مال فرما، یا رحیم! یا رحمن!

یا اللہ!مسلمانوں کو دنیا و آخرت میں فائدہ دینے ولاے کام کرنے کی توفیق دے، یا اللہ! ان سب کو حق پر متحد فرما دے، یا اللہ! ان سب کو حق پر متحد فرما دے، یا اللہ! جو گمراہ ہوچکے ہیں انہیں کتاب وسنت کا پیرو کار بنادے، یا اللہ! جو گمراہ ہوچکے ہیں انہیں کتاب وسنت کا پیرو کار بنادے، یا اللہ! جو گمراہ ہوچکے ہیں انہیں کتاب وسنت کا پیرو کار بنادے، یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! تمام مسلمان مرد وخواتین کو معاف فرما دے، جو زندہ ہیں انہیں بھی اور جو فوت ہوچکے ہیں انہیں بھی معاف فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما۔

یا اللہ! ہمارے حکمران   کواپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما، اور انکے دونوں نائب کو اپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما،  یا اللہ! سب کواپنے پسندیدہ کام کرنے کی توفیق عنائت فرما ۔

یا اللہ! اس ملک کی حفاظت فرما، یا اللہ! اس ملک کی حفاظت فرما، یا اللہ! اس ملک کی اور دیگر تمام ممالک کی حفاظت فرما،یا اللہ! ہمارے اور دیگر تمام اسلامی ممالک کو دشمنوں کی تخریب کاریوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! تمام اسلامی ممالک کو دشمنوں کی تخریب کاریوں سے محفوظ فرما،یا اللہ! تمام اسلامی ممالک کو دشمنوں کی تخریب کاریوں سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! مسلمانوں کے مال، جان، اور عزت آبرو کی حفاظت فرما،  یا اللہ! ہم پر اپنا کرم کرتے ہوئے خونِ مسلم محفوظ بنا دے، یا اللہ! ہم پر اپنا کرم کرتے ہوئے مسلمانوں کے مال، جان، اور عزت آبرو محفوظ بنا دے، یا حیی ! یا قیوم! یا ذالجلال والاکرام!

یا اللہ! مسلمانوں کے کچھ علاقے شورش زدہ ہیں، یا اللہ! انہیں امن و امان والا بنا دے،  یا اللہ! تو ان کے حالات کو ہم بہتر جانتا ہے، یا اللہ! ان کی تکالیف رفع فرما دے، یا اللہ! ان کی تکالیف رفع فرما دے، یا اللہ! ان کی مصیبتوں کو ٹال دے، یا اللہ! ان کی مصیبتوں کو ٹال دے، یا ذالجلال والاکرام! یا حیی! یا قیوم!

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمارے ملک میں بارش نازل فرما، یا اللہ! بارش نازل فرما، یا اللہ! مسلم ممالک میں بارشیں نازل فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما،یا اللہ! رحمت والی بارش نازل فرما، یا اللہ! رحمت والی بارش نازل فرما، یا اللہ! رحمت والی بارش نازل فرما، یا ذالجلال والاکرام! یا حیی! یا قیوم!یا غنی! یا حمید!

اللہ کے بندوں!

اللہ ذکر کثرت کے ساتھ کیا کرو اور صبح و شام اسی کی تسبیحات پڑھا کرو!۔

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ: آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔