ارشاد باری تعالیٰ ہے :
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
(الإسراء: 1)
” پاک ہے وہ ذات جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی خوب سننے والا،سب کچھ دیکھنے والا ہے۔“
مسجد اقصیٰ روئے زمین پر مسجد حرام کے بعد تعمیر ہونے والی دوسری قدیم مسجد ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جس کی تعمیر مختلف انبیاء کے ہاتھوں ہوئی ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جو ابراہیم علیہ السلام سے لیکر عیسی علیہ السلام تک بیشتر انبیاء کا مرکز رہی۔ اس کے اندر بہت سے انبیاء و مرسلین نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جن میں ابراہیم ، اسحاق، یعقوب، زکریا، یحییٰ، عیسیٰ، داؤد، سلیمان علیھم السلام شامل ہیں۔ یہ تقریباً سترہ مہینوں تک مسلمانوں کا قبلہ اول رہا۔ یہ مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ سفرِ معراج کے موقع پر خاتم الانبیاء سیدنا محمد رسول اللہﷺ نے اسی مسجد میں تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی اور یہیں سے معراج کے سفر کا آغاز ہوا۔ یہ وہ مسجد ہے جس کے اردگرد میں اللہ تعالی نے برکتیں اوررحمتیں رکھی ہیں۔ یہ وہ مسجد ہے جس کی فضیلت، عظمت اور اہمیت قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ درج ذیل سطور میں مسجد اقصیٰ کی اولین تعمیر کی بابت مفسرین ، محدثین اور مؤرخین کی آراء اور اقوال پیش خدمت ہیں ۔ مسجد اقصیٰ کی ابتدائی بنیاد کے بارے میں اقوال و آثار کثرت کے ساتھ مروی ہیں۔
محمد بن یوسف الصالحی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :
أول من أسس المسجد الأقصی آدم علیه السلام
ترجمہ : مسجد اقصی کی بنیاد سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے رکھی تھی۔1
چنانچہ بہت سی روایات اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے مسجد حرام کی تعمیر کی ہے ، لہذا اسی بات کی بنیاد پر مسجد اقصیٰ کی پہلی تعمیر بھی آدم علیہ السلام کے دور میں یا آپ کے بیٹوں کے دور میں ہوئی ہے ۔
چنانچہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فقد روینا أن أول من بنی الكعبة آدم ، ثم انتشر ولده في الأرض ، فجائز أن یكون بعضهم قد وضع بیت المقدس ، ثم بنی إبراهیم علیه السلام الكعبة بنص القرآن
ترجمہ : ہم تک یہ بات روایت کی گئی ہے کہ وہ آدم علیہ السلام تھے جنہوں نے سب سے پہلے کعبہ کو تعمیر کیا ، پھر ان کی اولاد زمین میں پھیل گئی تو ممکن ہے ان کی اولاد میں سے کسی نے بیت المقدس کو بھی تعمیر کر دیا ہو ، اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا ، جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے۔2
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
وهذا یعني أن المسجد الأقصی بني قبل إبرهیم وداؤد وسلیمان ، وأنه كان أول بناء بني في كل أرض الشام بشكل عام ، وكان أول بناء بني علی أرض القدس الشریف بشكل خاص ، إذن ، المسجد الأقصی بني في القدس الشریف قبل وجود أي كنیس أو كنیسة أو مسجد فیها
ترجمہ : اس کا مطلب یہ ہوا کہ مسجد اقصیٰ ابراہیم، داؤد اور سلیمان علیھم السلام سے پہلے تعمیر ہوئی تھی اورعمومی طور پر سرزمین شام میں تعمیر ہونے والی پہلی عمارت تھی اور خاص طور پر بیت المقدس کی سرزمین پر تعمیر ہونے والی پہلی عمارت تھی۔ تو یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ مسجد اقصیٰ بیت المقدس میں سب سے پہلے تعمیر ہوئی اور مسجد اقصیٰ سے پہلے یہاں کوئی عبادت گاہ، چرچ یا مسجد موجود نہ تھی۔لہذا منطقی طور پر بھی یہ بات درست ہے کہ دونوں تعمیرات کے درمیان چالیس سال کا وقفہ ہونا چاہیے اور یہ حدیث شریف میں بیان شدہ حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے اور اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔3
حدیث رسول ﷺ کی تصدیق میں قرآن و حدیث اور تاریخی شواہد
اُس حدیث کے نص میں شک کی کوئی گنجائش نہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے درمیان چالیس سال کی مدت بتائی ہے۔ کیونکہ اس حدیث کے صحیح ہونے کے بہت سے شواہد موجود ہیں، یہ دلائل درج ذیل ہیں:
1۔ قرآنی دلائل
قرآن مجید کے بیان کے مطابق کائنات میں عبادت کیلئے بنایا گیا پہلا گھر مسجد حرام ہے جو کہ مکہ میں موجود ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ
( آل عمران: 96)
ترجمہ : بلاشبہ سب سے پہلا گھر (عبادت گاہ) جو لوگوں کے لیے تعمیر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں واقع ہے، اس گھر کو برکت دی گئی اور تمام جہاں والوں کے لیے مرکز ہدایت بنایا گیا۔
اور صحیح تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آدم علیہ السلام کے زمانے میں قائم ہوا تھا۔ کیونکہ جب قرآن پاک نے ابراہیم علیہ السلام کے خانہ کعبہ کی تعمیر کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ
(البقرة :127)
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل ( علیہ السلام) بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کی تعمیر کے لئے لفظ ” رفع ” استعمال کیا ہے ۔
لفظ وضع اور رفع میں فرق
لفظ “وضع” اور “رفع” میں واضح فرق ہے ، ”وضع” کا مطلب کسی چیز کی بنیاد رکھنا ، ابتدا کرنا، یا شروع کرنا ہے، جب کہ ”رفع” کا مطلب کسی بنیاد کو تجدید یا اپ ڈیٹ کرنا ہے۔ یعنی پہلے سے موجود کسی چیز کی تجدید کرنا ہے ۔
ڈاکٹر کامل سلامہ الدقس کہتے ہیں :
وما دمنا بصدد الحدیث عن بیت الله فلا بد أن نتعرض لمن بناه ، إذ إن الشائع عند كثیر من المفسرین أن سیدنا إبراهیم علیه السلام هو الذي بنی البیت ، وحجتهم في ذلك قوله عز وجل : وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ (البقرة :127) وهذا فهم خاطئ ، والله أعلم ۔ إذ إن النص یصرح بأن إبراهیم هو الذي رفع قواعد البیت ، والرفع لغة : هو الارتفاع ، والقواعد موجودة والله سبحانه وتعالیٰ أمر إبراهیم برفعها ، بعد أن أطلعه علی مكان البیت بقوله تعالیٰ : وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (سوره الحج: 26) وعلی هذا الفهم لایكون إبراهیم هو الباني للبیت ، لأن البناء مكین ولكن البیت مكان ، فلیس میلاد البیت علی ید إبراهیم ، لأنه كما سبق ثابت قبل الرفع
ترجمہ : بیت اللہ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں ان لوگوں کے متعلق جاننا چاہیے جنہوں نے اسے بنایا تھا، کیونکہ بہت سے مفسرین کے درمیان یہ بات معروف ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ہی بیت اللہ کی تعمیر کی تھی ، اور ان کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ
(البقرة :127)
ترجمہ: اور جب ابراہیم (علیہ السلام) اور اسماعیل ( علیہ السلام) بیت اللہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔
یہ ایک غلط فہمی ہے۔ جبکہ کلام اللہ کی عبارت میں یہ واضح بتایا گیا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں، اور عربی لغت میں رفع کا مطلب پہلے سے موجود شئی کو بلند کرنا ہے، یعنی بیت اللہ کی بنیادیں موجود تھیں ، اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو بیت اللہ کی جگہ کی نشاندہی کرنے کے بعد اسے بلند کرنے کا حکم دیا، جیسا کہ قرآن پاک کی درج ذیل آیت سے واضح ہوتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ
(سوره الحج: 26)
وہ وقت یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کی جگہ کی نشاندہی کی اور ان سے کہا کہ آپ کسی چیز کو بھی میرا شریک نہ ٹھہرائیں، اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے شرک و بت پرستی سے پاک رکھیے۔
اس نص کے مطابق ابراہیم علیہ السلام بیت اللہ کی بنیاد رکھنے والے قرار نہیں پاتے کیونکہ عمارت پہلے سے بنی ہوئی تھی اور بیت اللہ ایک تیار شدہ گھر ہے۔ لہذا بیت اللہ کی بنیاد ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھوں نہیں ڈالی گئی کیونکہ یہ عمارت اس کی دیواریں اونچی ہونے سے پہلے موجود تھی، بعد میں اس کی دیواریں اٹھائی گئیں ۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔4
اس بات کی تصدیق اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتی ہے:
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ
(إبراهیم :37)
ترجمہ : اے ہمارے رب ! میں نے اپنی بعض اولاد کو تیرے بیت حرام کے پاس ایک وادی میں بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں ہے، اے ہمارے رب ! میں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں، اس لیے تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف پھیر دے، اور بطور روزی انہیں انواع و اقسام کے پھل عطا کر، تاکہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔
آیت کے نص سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ مسجد حرام ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کے دوبارہ تعمیر کرنے سے پہلے موجود تھی۔ کیونکہ جب ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا پڑھی تو اسماعیل علیہ السلام دودھ پیتے بچے تھے اور کعبہ کی تعمیر نو اس وقت ہو رہی تھی جب اسماعیل علیہ السلام کی عمر تیس سال تھی۔ اس سے ان لوگوں کا قول باطل ہو جاتا ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام ہی وہ شخص تھے جنہوں نے بیت اللہ کی بنیاد رکھی تھی۔
2۔ احادیث نبوی کے دلائل
کتب احادیث میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جو شبہ والی حدیث کے صحیح ہونے کی تصدیق کرتی ہیں ، چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک طویل حدیث ہاجرہ اور ان کے بیٹے اسماعیل علیھما السلام کے واقعہ میں مروی ہے۔ اس طویل حدیث میں ہے: ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عورتوں میں سب سے پہلے سیدہ ہاجرہ نے کمر پر پٹہ باندھا تاکہ سارہ ان کا سراغ تک نہ پائیں۔ چنانچہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام ہاجرہ علیہا السلام اور ان کے بچے کو وہاں سے نکال لائے۔ ہاجرہ علیھا السلام اسمٰعیل علیہ السلام کو دودھ پلاتی تھیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انھیں ایک بڑے درخت تلے بٹھا دیا جہاں آب زمزم ہے مسجد الحرام کی بلند جانب میں۔ اس وقت نہ وہاں کوئی آدمی آباد تھا اور نہ ہی پانی تھا۔ آپ انھیں ایک تھیلہ کھجور کا اور ایک مشکیزہ پانی کا دے کر چلے آئے۔ سیدہ ہاجرہ ان کے پیچھے آئیں اور پوچھا ’’ابراہیم ہمیں ایسی وادی میں چھوڑ کر کہاں جارہے ہو جہاں نہ کوئی آدمی ہے اور نہ پانی ہے؟‘‘ ہاجرہ علیہا اسلام نے کئی بار یہ بات پوچھی مگر ابراہیم علیہ السلام نے مڑ کر نہ دیکھا۔ پھر کہنے لگیں ”کیا اللہ نے آپ کو ایسا حکم دیا ہے؟“ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا ”ہاں“ پھر کہنے لگیں ’’اچھا پھر اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا ‘‘ اور پھر واپس آگئیں۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام ان دونوں کو مکہ میں چھوڑ کر روانہ ہو گئے ۔
فَانْطَلَقَ إبْرَاهِيمُ حتَّى إذَا كانَ عِنْدَ الثَّنِيَّةِ حَيْثُ لا يَرَوْنَهُ، اسْتَقْبَلَ بوَجْهِهِ البَيْتَ، ثُمَّ دَعَا بهَؤُلَاءِ الكَلِمَاتِ، ورَفَعَ يَدَيْهِ فَقالَ: رَبِّ (إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ (إبراهیم :37)
(صحيح البخاري: 3364 ، كتاب الأنبیاء)
ترجمہ : جب ابراہیم علیہ السلام مکہ سے چل کر اس ثنیہ نامی ٹیلے پر پہنچے جہاں سے وہ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے تو بیت اللہ کی طرف منہ کرکے اپنے ہاتھ اٹھا کر ان کلمات کے ساتھ یہ دعا کی: اے ہمارے رب ! میں نے اپنی بعض اولاد کو تیرے بیت حرام کے پاس ایک وادی میں بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں ہے، اے ہمارے رب ! میں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں، اس لیے تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف پھیر دے، اور بطور روزی انہیں انواع و اقسام کے پھل عطا کر، تاکہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔
سیاق و سباق سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا اس دن کی تھی جس دن انہوں نے اپنے شیرخوار بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں چھوڑا تھا۔ جبکہ قرآن کے نصوص سے ثابت ہوتا ہے کہ بیت اللہ کی دیواریں اٹھانے کا کام اسمٰاعیل علیہ السلام کے جوان ہونے کے بعد ہوا۔ تبھی تو اسماعیل علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر میں اپنے والد کی مدد کی۔ چنانچہ اللہ کا فرمان (عند بیتك المحرم) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بیت اللہ اس دن موجود تھا جس دن ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کو دودھ پیتی حالت میں مکہ میں چھوڑ دیا تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد حرام ابراہیم علیہ السلام سے پہلے موجود تھی۔ جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مسجد اقصیٰ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے بھی موجود تھی ۔5
اس کے علاوہ دیگر احادیث سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر سے پہلے مسجد حرام موجود تھی ، ان احادیث میں بخاری کی روایت کردہ سابقہ طویل حدیث کا بقیہ حصہ بھی ہے۔ جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
“فَإِذَا هي ” أی ھاجرۃ” بالمَلَكِ عِنْدَ مَوْضِعِ زَمْزَمَ، فَبَحَثَ بعَقِبِهِ -أَوْ قالَ: بجَنَاحِهِ- حتَّى ظَهَرَ المَاءُ، فَجَعَلَتْ تُحَوِّضُهُ وتَقُولُ بيَدِهَا هَكَذَا، وجَعَلَتْ تَغْرِفُ مِنَ المَاءِ في سِقَائِهَا وهو يَفُورُ بَعْدَ ما تَغْرِفُ. قالَ ابنُ عَبَّاسٍ: قالَ النَّبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ: يَرْحَمُ اللہُ أُمَّ إسْمَاعِيلَ، لو تَرَكَتْ زَمْزَمَ -أَوْ قالَ: لو لَمْ تَغْرِفْ مِنَ المَاءِ- لَكَانَتْ زَمْزَمُ عَيْنًا مَعِينًا. قالَ: فَشَرِبَتْ وأَرْضَعَتْ ولَدَهَا، فَقالَ لَهَا المَلَكُ: لا تَخَافُوا الضَّيْعَةَ؛ فإنَّ هَاهُنَا بَيْتَ اللہِ يَبْنِي هذا الغُلَامُ وأَبُوهُ، وإنَّ اللہَ لا يُضِيعُ أَهْلَهُ، وكانَ البَيْتُ مُرْتَفِعًا مِنَ الأرْضِ كَالرَّابِيَةِ تَأْتِيهِ السُّيُولُ فَتَأْخُذُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ”
(صحيح البخاري: 3364)
ترجمہ : ہاجرہ علیہا السلام اچانک دیکھتی ہیں کہ جہاں اب زمزم (کا کنواں) ہے، وہیں ایک فرشتہ موجود ہے۔ فرشتے نے اپنی ایڑی سے زمین میں گڑھا کر دیا، یا اپنے بازو سے، جس سے وہاں پانی ابل آیا۔ ہاجرہ علیہا السلام نے اسے حوض کی شکل میں بنا دیا اور اپنے ہاتھ سے اس طرح کر دیا (تاکہ پانی بہنے نہ پائے) اور چلُّو سے پانی اپنے مشکیزہ میں ڈالنے لگیں۔ جب وہ بھر چکیں تو وہاں سے چشمہ پھر ابل پڑا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ ام اسماعیل پر رحم کرے، اگر زمزم کو انہوں نے یوں ہی چھوڑ دیا ہوتا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چلُّو سے مشکیزہ نہ بھرا ہوتا تو زمزم ایک بہتے ہوئے چشمے کی صورت میں ہوتا۔ بیان کیا کہ پھر ہاجرہ علیہ السلام نے خود بھی وہ پانی پیا اور اپنے بیٹے کو بھی پلایا۔ اس کے بعد ان سے فرشتے نے کہا کہ اپنے ضائع ہونے کا خوف ہرگز نہ کرنا کیونکہ یہیں اللہ کا گھر ہو گا، جسے یہ بچہ اور اس کے والد تعمیر کریں گے اور اللہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں کرتا، اب جہاں بیت اللہ ہے اس وقت وہاں ٹیلے کی طرح زمین اٹھی ہوئی تھی۔
اور امام محمد بن عبد الله بن أحمد الأزرقي رحمہ الله فرماتے ہیں:
کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ منقول ہے :
“يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَامَا يَحْفِرَانِ عَنِ الْقَوَاعِدِ، وَيَحْفُرَانِهَا، وَيَقُولَانِ: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ سُمَيْعُ الدُّعَاءِ، رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام دونوں کعبہ کی بنیاد کھودنے لگے، وہ بنیاد کھودتے اور ساتھ یہ دعا کرتے جارہے تھے : رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ سُمَيْعُ الدُّعَاءِ، رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ۔6
اس سے معلوم ہوا کہ کعبہ کی بنیادیں پہلے سے موجود تھیں اور ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام دونوں ان بنیادوں کی کھدائی کر رہے تھے ۔
اسی طرح امام عبد الرزاق اور امام ابن ابی حاتم عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح سند کے ساتھ روایت نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے قرآن کریم کی آیت : وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ(البقرة: 127) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:
الْقَوَاعِدُ الَّتِي كَانَتْ قَوَاعِدَ الْبَيْتِ قَبْلَ ذَلِكَ
یعنی بنیادوں سے مراد گھر کی وہی بنیادیں ہیں جو پہلے سے موجود تھیں۔7
درج بالا دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجدِ حرام ابراہیم علیہ السلام سے پہلے موجود تھی، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مسجد اقصیٰ بھی ابراہیم علیہ السلام سے پہلے موجود تھی۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسجد اقصیٰ سلیمان علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام سے پہلے اور بنی اسرائیل کی تاریخ بالعموم اور بالخصوص یہودیوں کی تاریخ سے پہلے موجود تھی۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
سنن ابن ماجہ اور نسائی کی ایک روایت ہے :
لمَّا فرغَ سُلَيْمانُ بنُ داودَ من بناءِ بيتِ المقدِسِ سألَ اللہَ ثلاثًا حُكْمًا يصادفُ حُكْمَهُ وملكًا لا ينبغي لأحدٍ من بعدِهِ وألَّا يأتيَ هذا المسجدَ أحدٌ لا يريدُ إلَّا الصَّلاةَ فيهِ إلَّا خرجَ من ذنوبِهِ كيومِ ولدتْهُ أمُّهُ فقالَ النَّبيُّ صلَّى اللہُ عليهِ وسلَّمَ أمَّا اثنتانِ فقد أُعْطيَهُما وأرجو أن يَكونَ قد أُعْطيَ الثَّالثةَ
(صحيح ابن ماجہ: 1164)
ترجمہ : سلیمان بن داود علیھما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے انہوں نے تین چیزیں مانگیں، اللہ عزوجل سے مانگا کہ وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کریں جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی، اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کے لیے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا ہو۔
حدیث سے پیدا شدہ اشکال
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کو سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، اب یہاں پر ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ مسجد حرام کو سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا ، جیسا کہ قرآن مجید کی آیت : وإذ یرفع إبراهیم القواعد من البیت وإسماعیل (البقرة :127) کے تحت بعض علماء کرام کا موقف ہے اور ساتھ یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ مسجد اقصیٰ کو سب سے پہلے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کیا تھا تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں آتا ہے کہ ان دونوں مسجدوں کی تعمیر کا درمیانی عرصہ چالیس سال ہے ، جبکہ ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ تھا ، تو یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے کہ مسجد حرام سب سے پہلے سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کی تھی ؟
اشکال کا جواب
اس اشكال كا جواب دیتے ہوئے امام ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ کے بابت لکھتے ہیں :
وقد أشكل هذا الحدیث علیٰ من لم یعرف المراد به ، فقال : “معلوم أن سلیمان بن داؤد هو الذي بنی المسجد الأقصیٰ ، و بینه و بین إبراهیم أكثر من ألف عام ” وهذا من جهل هذا القائل ، فإن سلیمان إنما كان له من المسجد الأقصیٰ تجدیده لا تأسیسه ، والذي أسسه هو یعقوب بن إسحاق صلی الله علیهما وعلی آلهما وسلم بعد بناء إبراهیم الكعبة بهذا المقدار
ترجمہ : حدیث کا مفہوم نہ سمجھنے والے کو اس حدیث سے اشکال پیدا ہوگیا اور کہہ بیٹھا کہ ”یہ بات تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ مسجد اقصیٰ سلیمان علیہ السلام ہی نے تعمیر کی تھی جبکہ سلیمان علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام کے درمیان ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ تھا تو اس شخص کی یہ بات اس کی جہالت کی وجہ سے ہے کیونکہ سلیمان علیہ السلام نے تو مسجد اقصیٰ کی محض تجدید کی تھی نہ کہ تأسیس اور در اصل اس کے بانی یعقوب بن اسحاق علیہما السلام ہیں ، جنہوں نے ابراہیم علیہ السلام کے کعبہ کو تعمیر کرنے کے چالیس سال بعد اس کی بنیاد رکھی تھی ۔8
اور حافظ ابن حجر نے امام ابن الجوزی رحمہ اللہ سے اس اشکال کا جواب یوں نقل کیا ہے :
إن الإشارة إلی أول البناء و وضع أساس المسجد ، و لیس إبراهیم علیه السلام أول من بنی الكعبة ولا سلیمان علیه السلام أول من بنی بیت المقدس
ترجمہ : (حدیث ابو ذر میں) صرف اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روئے زمین پر سب سے پہلے کس مسجد کی بنیاد رکھی گئی ، ( یعنی حدیث میں یہ ذکر نہیں کہ مسجد حرام کو سب سے پہلے ابراہیم علیہ السلام نے بنایا تھا ) لہذا ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے شخص نہیں جنہوں نے مسجد حرام کو سب سے پہلے بنایا اور نہ ہی سلیمان علیہ السلام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے بیت المقدس کو سب سے پہلے تعمیر کیا تھا ۔9
اور امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويرتفع الإشكال بأن يقال: الآية والحديث لا يدلان على أن بناء إبراهيم وسليمان لما بنيا ابتداءَ وضعهما لهما، بل ذلك تجديد لما كان أسسه غيرهما وبدأه
ترجمہ : یعنی آیت اور حدیث سے ہر دو کا اشکال یوں رفع کیا جاسکتا ہے کہ ہر دو اس امر پر دلالت نہیں کرتے ہیں کہ ان ہر دو کی ابتدائی بنیاد ان دونوں بزرگوں نے رکھی ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر دو کی ابتدائی بنیاد غیروں کے ہاتھوں کی ہے اور یہ دونوں ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام ان ہر دو مقامات کی تجدید کرنے والے ہیں۔10
امام قرطبی رحمہ اللہ :
إن الحدیث لا یدل علیٰ أن إبراهیم وسلیمان لمّا بنیا المسجدین ابتدءا وضعَهما لهما ، بل ذلك تجدید لما كان أسسه غیرهما
ترجمہ : حدیث میں یہ بات قطعا نہیں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہما السلام ان دونوں مسجدوں کی سب سے پہلے بنیاد رکھنے والے تھے ، بلکہ ان کی تعمیر تو درحقیقت تجدید تھی ۔11
امام سیوطی رحمہ اللہ سنن نسائی کی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
“أن آدم نفسه هو الذي وضع المسجد الأقصى، وأن بناء إبراهيم وسليمان تجديد لما كان أسسه غيرهما وبدأه”.
ترجمہ : بلا شبہ آدم علیہ السلام نے خود ہی مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی ہے ، اور ابراہیم علیہ السلام اور سلیمان علیہ اسلام نے مسجد اقصی کی جو تعمیر کی ہے وہ تو درحقیقت مسجد اقصی کی تجدید ہے جس کی بنیاد اور ابتدا کسی نے پہلے رکھ دی تھی ۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
” الإشارة إلى أول البناء ، ووضع أساس المسجدين ؛ وليس أول من بنى الكعبة إبراهيم ، ولا أول من بنى بيت المقدس سليمان ، وفي الأنبياء والصالحين والبانين كثرة ، فالله أعلم بمن ابتدأ.
ترجمہ : حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ میں صرف اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روئے زمین پر سب سے پہلے کس مسجد کی بنیاد رکھی گئی ، لہذا ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے شخص نہیں جنہوں نے خانہ کعبہ کو سب سے پہلے بنایا، اور نہ ہی سلیمان علیہ السلام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے بیت المقدس کو سب سے پہلے تعمیر کیا تھا ۔12
پھر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اشکال پر دوسرے اقوال نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
لكن الاحتمال الذي ذكره ابن الجوزي أوجهُ ، وَقَدْ وَجَدْتُ مَا يَشْهَد لَهُ وَيُؤَيِّد قَوْل مَنْ قَالَ : إِنَّ آدَم هُوَ الَّذِي أَسَّسَ كُلًّا مِنْ الْمَسْجِدَيْنِ ، فَذَكَرَ اِبْن هِشَام فِي ” كِتَاب التِّيجَان ” أَنَّ آدَم لَمَّا بَنَى الْكَعْبَة أَمَرَهُ اللہُ بِالسَّيْرِ إِلَى بَيْت الْمَقْدِس وَأَنْ يَبْنِيَه فَبَنَاهُ وَنَسَكَ فِيهِ
ترجمہ : جو احتمال ابن الجوزی رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ : ” ہوسکتا ہے کہ آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد بیت المقدس بنایا ہو” وہ زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ مجھے اس شخص کی تائید میں جس کا کہنا ہے کہ دونوں مسجدوں کی بنیاد آدم علیہ السلام نے رکھی ہیں ایک قول ملا ہے جسے ابن ہشام نے کتاب التیجان میں ذکر کیا ہے اور وہ قول یہ ہے کہ آدم علیہ السلام جب تعمیر کعبہ سے فارغ ہوچکے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیت المقدس کی طرف جانے کا حکم دیا ، چنانچہ انہوں نے تعمیل حکم کرتے ہوئے اسے تعمیر کیا اور اس میں عبادت کی ”۔13
اور امام قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں :
وقد رُوي أن أول من بنی البیت ( الحرام) آدم علیه السلام كما تقدم ، فیجوز أن یكون غيره من ولده وضع بيت المقدس من بعده بأربعين عاماً
ترجمہ : یہ بات بھی روایت کی گئی ہے کی بیت اللہ (خانہ کعبہ) کو سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے تعمیر کیا ، جیسا کہ گزر چکا تو ہوسکتا ہے کہ انہی کی اولاد نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد بیت المقدس کو بھی تعمیر کر دیا ہو ۔14
تعمیر بیت اللہ کے بارے میں مفسرین کی مختلف آراء اور اقوال
ابو جعفر محمد بن جریر الطبری نےاپنی تفسیر میں قرآن پاک کی آیت :
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ (البقرة :127)۔
کے تحت چند مفسرین کے اقوال نقل کیے ہیں :
” قواعد البیت ” یعنی گھر کی بنیاد۔ ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام نے خانہ کعبہ کی جس بنیاد پر تعمیر کی تھی وہ بنیاد پہلے سے موجود تھی یا اس کی بنیاد بھی ان دونوں کی رکھی ہوئی ہے؟ اس بارے میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں :
پہلا قول : خانہ کعبہ کی بنیاد سب سے پہلے آدم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے رکھی پھر آپ کے بعد اس کے نشانات مٹ گئے اور عمارت اور بنیاد کسی کا نشان باقی نہ رہا۔ اس کے بعد جب ابراہیم علیہ السلام آئے تو آپ نے اللہ کے حکم سے خانہ کعبہ کی نئی تعمیر آدم علیہ السلام کی بنیاد پر کی ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عطاء رحمہ اللہ سے بھی یہی روایت منقول ہے ۔
عطاء کی روایت میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے عرض کی : اے رب میں فرشتوں کی آواز نہیں سن پاتا ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: یہ تمہاری لغزش کا نتیجہ ہے ، البتہ تم زمین پر اترجاؤ اور وہاں میرا ایک گھر بناؤ ، تم بھی اس کا طواف اسی طرح کیا کرو جس طرح تم نے ملائکہ کو میرے آسمانی گھر ( عرش) کا طواف کرتے دیکھا ہے ۔15
دوسرا قول یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے آسمان سے آدم علیہ السلام کے ساتھ زمین پر اتاری تھی ، آپ اس بنیاد کے چاروں طرف اس طرح طواف کرتے تھے جس طرح آسمانوں پر عرش کا طواف کرتے تھے ۔ پھر نوح علیہ السلام کی قوم پر جب اللہ کاعذاب طوفان کی صورت میں آیا تو کعبہ کی یہ بنیاد آسمان پر اٹھا لی گئی اور بعد میں ابراہیم علیہ السلام نے اسی بنیاد پر خانہ کعبہ کی تعمیر کی ۔ یہ قول ابن عمر رضی اللہ عنھما ، ابو قلابہ ، قتادہ ، ابان ، اور عطاء بن ابی رباح رحمھم اللہ سے روایت ہے ۔16
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ:
«لمّا أهبط اللّه آدم من الجنّة، قال: إنّي مهبطٌ معك أو منزلٌ معك بيتًا يطاف حوله، كما يطاف حول عرشي، ويصلّى عنده، كما يصلّى عند عرشي. فلمّا كان زمن الطّوفان رفع، فكانت الأنبياء يحجّونه ولا يعلمون مكانه، حتّى بوّأه اللّه إبراهيم وأعلمه مكانه، فبناه من خمسةٍ أجبلٍ: من حراءٍ، وثبيرٍ، ولبنان، وجبل الطّور، وجبل الخمر».
ترجمہ : جب آدم علیہ السلام کو جنت سے اتارا گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک گھر بھیجتا ہوں، اس کا طواف تم اسی طرح کرنا جس طرح میرے عرش کا کیا جاتا ہے اور اس کے پاس نماز اسی طرح پڑھنا جس طرح میرے عرش کے پاس نماز پڑھی جاتی ہے۔ طوفان نوح کے موقع پر یہ گھر اٹھالیا گیا تھا ، اس کے بعد انبیاء علیہم السلام اس کے حج کے لئے آتے لیکن اس جگہ کے متعلق انہیں علم نہ ہوتا ، آخر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو اس کی جگہ بتائی اور آپ نے اس کی تعمیر پانچ پہاڑوں کے پتھروں سے کی ۔ جبل حراء، جبل ثبیر، جبل طور، جبل لبنان اور جبل الخمر ۔17
امام قرطبی رحمہ اللہ کا قول
امام قرطبی رحمہ اللہ قرآن کریم کی آیت : إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكاً وَهُدىً لِلْعَالَمِينَ (آل عمران:96)
کے تحت لکھتے ہیں :
إن أول بيت وضع في الأرض للعبادة هو بيت الله الحرام بمكة المكرمة – حرسها الله – وبعده المسجد الأقصى بأربعين عاماً
ترجمہ : روئے زمین پر عبادت کے لئے تعمیر شدہ پہلا گھر خانہ کعبہ ہے جو مکہ میں واقع ہے ، اللہ اس کی حفاظت فرمائے۔ خانہ کعبہ کے چالیس سال بعد مسجد اقصی تعمیر ہوئی ہے ۔18
اسی طرح امام قرطبی رحمہ اللہ قرآن کریم کی آیت : وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ (البقرة:127) کے تحت لکھتے ہیں :
إن الآية والحديث الذي رواه النسائي لا يدلان على أن إبراهيم وسليمان عليهما السلام ابتدأ وضعهما بل كان تجديدًا لما أسس غيرهما”.
مفسرین کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ خانہ کعبہ یا مسجدِ حرام ابراہیم علیہ السلام سے پہلے موجود تھی، جو اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مسجد اقصیٰ بھی ابراہیم علیہ السلام سے پہلے موجود تھی۔اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مسجد اقصیٰ سلیمان علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام سے پہلے موجود تھی۔19
3۔ تاریخی شواہد
تاریخ کی کتابوں میں بہت سی نصوص اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ مسجد اقصیٰ ابراہیم، اسماعیل، داؤد اور سلیمان علیھم السلام سے پہلے موجود تھی۔ ان میں وہ اقوال بھی شامل ہیں جو اس سے قبل مسجد اقصیٰ اور مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے مراحل کے بارے میں بیان کیے گئے تھے، ان اقوال میں ابن الأثیر کا قول بھی شامل ہے۔ چنانچہ ”ذكر بناء بيت المقدس ، ووفاة داود عليہ السلام ” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں :
أصاب الناس في زمان داود طاعون جارف ، فخرج بهم إلى موضع بيت المقدس ، وكان يرى الملائكة تعرج منه إلى السماء ، فلهذا قصده ليدعو فيه ، فلما وقف موضع الصخرة دعا الله تعالى في كشف الطاعون عنهم ، فاستجاب له ورفع الطاعون ، فاتخذوا ذلك الموضع مسجداً .
ترجمہ: داؤد علیہ السلام کے زمانے میں لوگوں پر ایک تباہ کن طاعون نازل ہوا تو داؤد علیہ السلام لوگوں کو بیت المقدس کے مقام پر لے گئے کیونکہ داؤد علیہ السلام بیت المقدس میں فرشتوں کو آسمان کی طرف جاتے دیکھا کرتے تھےاس لئے وہاں پر جا کر دعا کرنے کا ارادہ کیا۔ جب وہ مقام صخرۃ پر پہنچے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ لوگوں سے طاعون کی وبا کو اٹھالے۔ اللہ تعالیٰ نے داؤد علیہ السلام کی دعا سن لی اور طاعون اٹھا لیا تو لوگوں نے اسی جگہ کو مسجد بنا لیا۔20
اس عبارت میں اس بات کی واضح دلیل موجود ہے کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں مسجد بنائے جانے سے پہلے ہی معروف تھی اور یہ بات آدم علیہ السلام کے زمانے میں ہی مسجد اقصی کی بنیاد رکھنے کی تصدیق کرتی ہے۔ اس طرح یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مدت بتائی ہے وہ صحیح ہے کیونکہ حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو شک کا باعث ہو کیونکہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کی ابتدائی تعمیر آدم علیہ السلام کی طرف منسوب ہے۔ البتہ مسجد اقصیٰ کی تجدید اور تحدیث ابراہیم اور داؤد علیھما السلام دونوں کی طرف منسوب ہے۔ لہذا یہ اس بات کے منافی نہیں ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بیان ہوئی ہے جس میں مسجد الحرام اور مسجد اقصیٰ کی بنیاد کے درمیان چالیس سال کا عرصہ بیان کیا گیا ہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھتے ہیں:
ويذهب آخرون إلى أن آدم -عليه السلام- هو أول من بناه، ويروون في ذلك حديثًا بسند يتصل إلى الرسول -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: “بعث الله جبريل إلى آدم وحواء فقال لهما: ابنيا لي بيتًا. فخط لهما جبريل، فجعل آدم يحفر وحواء تنقل التراب، فلما بناه أوحى الله إليه أن يطوف به، وقيل له: أنت أول الناس وهذا أول بيت،
ترجمہ : بعض دوسرے مؤرخین کا خیال ہے کہ خانہ کعبہ کو آدم (علیہ السلام) نے سب سے پہلے بنایا تھا، اور وہ اس میں ایک مرفوع حدیث بیان کرتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو آدم اور حوا (علیھما السلام) کے پاس بھیجا اور ان سے کہا کہ میرے لیے ایک گھر بناؤ تو جبرائیل نے ان کے لئے بنیاد کی لکیر کھینچی اور آدم علیہ السلام نے بنیاد کھودنی اور حوا علیہا السلام نے مٹی ہٹانا شروع کردی، جب انہوں نے اسے بنایا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کا طواف کرنے کا حکم دیا اور آدم کو یہ بتایا گیا کہ : آپ لوگوں میں سے پہلے انسان ہیں اور یہ دنیا میں اللہ کا پہلا گھر ہے۔21
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مرفوعا نقل کرتے ہیں :
بعث اللہ جبرئیل إلی آدم و حواء فأمرھما ببناء الکعبة فبناہ آدم ، ثم أمر بالطواف به و قیل له أنت أول الناس و ھذا أول بیت وضع للناس
ترجمہ : الله تعالیٰ نے جبریل علیہ السلام کو آدم و حوا علیہما السلام کی طرف بھیجا اور ان کو بیت اللہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ آدم علیہ السلام نے بیت اللہ کو تعمیر کیا پھر آدم علیہ السلام کو بیت اللہ کا طواف کرنے کا حکم دیا اور آدم علیہ السلام سے کہا گیا کہ تو پہلا آدمی ہے اور یہ پہلا گھر ہے جو کہ لوگوں کے لیے بنایا گیا ہے ۔22
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا:
يا رَسولَ اللہِ أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ أَوَّلَ؟ قالَ: المَسْجِدُ الحَرَامُ. قُلتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قالَ: ثُمَّ المَسْجِدُ الأقْصَى. قُلتُ: كَمْ كانَ بيْنَهُمَا؟ قالَ: أَرْبَعُونَ، ثُمَّ قالَ: حَيْثُما أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ، والأرْضُ لكَ مَسْجِدٌ.
(صحيح البخاري: 3425)
ترجمہ : یا رسول اللہ ! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی تھی؟ فرمایا کہ مسجد الحرام۔ میں نے سوال کیا، اس کے بعد کون سی؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ۔ میں نے سوال کیا اور ان دونوں کی تعمیر کا درمیانی فاصلہ کتنا تھا؟ فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس جگہ بھی نماز کا وقت ہو جائے فوراً نماز پڑھ لو۔ تمہارے لیے تمام روئے زمین مسجد ہے۔
فوائد حدیث
اس حدیث سے درج ذیل باتیں معلوم ہوئیں :
1۔ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے سب سے پہلے تعمیر ہونے والی مسجد ” مسجد حرام ” ہے ۔
2۔ روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے تعمیر ہونے والی دوسری مسجد ” مسجد اقصیٰ ” ہے ۔
3۔ بیت اللہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد مسجد اقصیٰ کی تعمیر ہوئی ہے۔
4۔ مسجد حرام کے بعد سب سے قدیم مسجد ” مسجد اقصیٰ” ہے ۔
درج بالا دلائل اور شواہد سے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر آدم علیہ السلام کے دور میں ہوئی ہے ۔ لہذا یہ ثابت ہوگیا کہ مسجد أقصی کی تعمیر بھی آدم علیہ السلام کے زمانے میں ہوئی ہے کیونکہ درج بالا صحیح حدیث کے مطابق مسجد أقصی کی تعمیر بیت اللہ کی تعمیر کے چالیس سال بعد ہوئی ہے ۔
4۔ عقلی دلائل
1۔اللہ تعالی نے تمام انبیاء کے لیے نماز کو مشروع قرار دیا تھا جس کے لیے ایک قبلہ کا ہونا ضروری تھا۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ آدم علیہ السلام کے دین میں نماز کا مشروع ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے لیے آدم علیہ السلام کوئی قبلہ بھی تعمیر کریں ۔
2 ۔اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ ابراہیم علیہ السلام نے سب سے پہلے بیت اللہ کی تعمیر کی تو اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اس بات کا بھی اقرار کیا جائے کہ ابراہیم علیہ السلام سے ما قبل اسلامی شریعتوں میں حج کا کوئی تصور نہ تھا جو کہ غلط ہے۔ لہذا یہ ثابت ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے مختلف انبیاء کے ہاں حج کا تصور اس بات کو ملتزم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے ایک قبلے کا وجود مانا جائے۔
3۔ ابراہیم علیہ السلام جب اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ ہاجرہ علیہا السلام کو سرزمین مکہ میں آباد کر نے کے لیے وہاں چھوڑنے گئے تو اس وقت انہوں نے دعا مانگی جس کو قرآن نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ
( ابراھیم : 37)
ترجمہ : اے میرے پروردگار ! بے شک میں نے اپنی اولاد کو آباد کیا ایک ایسی سرزمین میں جو کہ کھیتی والی نہیں ہے تیرے حرمت والے گھر کے پاس۔
اس دعا کے الفاظ ’’عند بیتک المحرم ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کے وقت بیت اللہ کی بنیادیں موجود تھیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ بیت اللہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے بھی تعمیر ہو چکا تھا۔
اقوال محدثین
حافظ ابن حجر ر حمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقد روینا أن أول من بنی الكعبة آدم ، ثم انتشر ولده في الأرض ، فجائز أن یكون بعضهم قد وضع بیت المقدس ، ثم بنی إبراهیم علیه السلام الكعبة بنص القرآن
ترجمہ : ہم تک یہ بات روایت کی گئی ہے کہ آدم علیہ السلام نے کعبہ کو سب سے پہلے تعمیر کیا پھر ان کی اولاد زمین میں پھیل گئی تو ممکن ہے ان کی اولاد میں سے کسی نے بیت المقدس کو بھی تعمیر کردیا ہو ، اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا جیسا کہ قرآن مجید میں مذکور ہے ۔23
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ:
وَقَدْ وَجَدْتُ مَا يَشْهَد لَهُ وَيُؤَيِّد قَوْل مَنْ قَالَ : إِنَّ آدَم هُوَ الَّذِي أَسَّسَ كُلًّا مِنْ الْمَسْجِدَيْنِ ، فَذَكَرَ اِبْن هِشَام فِي ” كِتَاب التِّيجَان ” أَنَّ آدَم لَمَّا بَنَى الْكَعْبَة أَمَرَهُ اللہُ بِالسَّيْرِ إِلَى بَيْت الْمَقْدِس وَأَنْ يَبْنِيَه فَبَنَاهُ وَنَسَكَ فِيهِ
ترجمہ : مجھے اس شخص کی تائید میں جس کا کہنا ہے کہ دونوں مسجدوں کی بنیاد آدم علیہ السلام نے رکھی ہیں ایک قول ملا ہے جسے ابن ہشام نے “کتاب التیجان” میں ذکر کیا ہے اور وہ قول یہ ہے کہ آدم علیہ السلام جب تعمیر کعبہ سے فارغ ہوچکے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیت المقدس کی طرف جانے کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے تعمیل حکم کرتے ہوئے اسے تعمیر کیا اور اس میں عبادت کی ”۔24
امام نووی رحمہ اللہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
ورد أن واضع المسجدين آدم عليه السلام، وبه يندفع الإشكال بأن إبراهيم بنى المسجد الحرام وسليمان بنى بيت المقدس، وبينهما أكثر من أربعين عامًا، بلا ريب فإنهما هما مجددان”.
ترجمہ : روایتوں میں آیا ہے کہ دونوں مساجد کے بانی آدم علیہ السلام تھے اور اس کے ساتھ یہ اشکال بلا شبہ ختم ہوجاتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے مسجد الحرام کی تعمیر کی اور سلیمان علیہ السلام نے بیت المقدس کی تعمیر کی اور ان دونوں تعمیرات کے درمیان چالیس سال سے زائد کا عرصہ تھا کیونکہ وہ دونوں مسجد اقصیٰ کے مجدد تھے۔25
علامہ ابو الحسن محمد بن عبدالہادی سندھی (ت:1136ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لیس المراد بناء ابراھیم للمسجد الحرام و بناء سلیمان للمسجد الأقصیٰ فإن بینھما مدۃ طویلة ، بل المراد البناء سوا لھذین البنائین
ترجمہ : یعنی حدیث میں ان ہر دومساجد کی ابراہیمی اور سلیمانی بنیادیں مراد نہیں ہیں۔ ان کے درمیان تو طویل مدت کا فاصلہ ہے بلکہ ان ہر دو کے سوا ابتدائی بناء مراد ہیں۔26
5۔ مسجد اقصیٰ کی اولین تعمیرکی بابت اہل کتاب کا موقف
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ حدیث ابو ذر رضی الله عنہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
وعند أهل الكتاب أن یعقوب علیه السلام هو الذي أسس المسجد الأقصیٰ وهو مسجد إیلیا ببیت المقدس شرفه الله ، وهذا متجه ، ویشهد له ما ذكرناه من الحدیث ، فعلیٰ هذا یكون بناء یعقوب علیه السلام وهو إسرائیل بعد بناء الخلیل وابنه إسماعیل المسجد الحرام بأربعین عاما ً
ترجمہ : اہل کتاب کے ہاں یہ بات معروف ہے کہ مسجد اقصیٰ کی بنیادیں یعقوب علیہ السلام نے رکھی تھیں۔ بیت المقدس میں واقع اس مسجد کو مسجد ایلیاء بھی کہتے ہیں اور یہ بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ جو حدیث ہم نے ذکر کی ہے وہ بھی اسی کی دلیل ہے لہذا یہ ماننا پڑے گا کہ یعقوب علیہ السلام نے ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کی بناء کعبہ کے چالیس سال بعد مسجد اقصیٰ کو تعمیر کیا تھا ۔27 اس کے بعد حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ جس حدیث میں یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے تعمیر مسجد اقصیٰ کے بعد تین دعائیں کی تھیں ۔۔۔ تو اس سے مراد اس کی تجدید ہے نہ کہ تأسیس
فتوی کمیٹی سعودی عرب کا فتوی
سعودی عرب کی فتوی کمیٹی نے اپنے ایک فتوی میں لکھا ہے :
اختلف في من بنی المسجد الأقصیٰ ، فقیل : نبي الله یعقوب بن اسحاق بن إبراهیم، وهو أشبه ، وقیل : سلیمان ، والصحیح أن بناء سلیمان تجدید لا تأسیس، لأن بینه وبین إبراهیم أزمانا كثیرة أكثر من أربعین
ترجمہ : اس بات میں اختلاف ہے کہ مسجد اقصی کو کس نے بنایا ؟ تو کہا گیا ہے کہ اسے اللہ کے نبی یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیھم السلام نے بنایا تھا اور یہی بات زیادہ درست معلوم ہوتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے سلیمان علیہ السلام نے بنایا تھا لیکن صحیح یہ ہے کہ انہوں نے اس کی تجدید کی تھی کیونکہ ان کے اور ابراہیم علیہ السلام کے درمیان چالیس سال سے کہیں زیادہ کا عرصہ تھا ۔28
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی وضاحت
یعقوب علیہ السلام کی تعمیرِ مسجدِ اقصیٰ کے متعلق ابن کثیر رحمہ اللہ خود ہی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وفي عهد يعقوب بن إسحاق عليهما السلام أعيد بناء المسجد الأقصى بعد أن هرم بناء إبراهيم عليه السلام.
ترجمہ : یعنی یعقوب بن اسحاق علیھما السلام کے دور میں ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارت کے منہدم ہونے کے بعد مسجد اقصیٰ کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔29
امام شہاب مقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وكان هذا البناء تجديدًا
ترجمہ : یہ تعمیر مسجد اقصیٰ کی تجدید تھی۔30
بائبل کی شہادت
بائبل میں مذکور ہے کہ بیت المقدس کو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے آباء و اجداد کی پرانی نشانیوں پر تعمیر کیا تھا ۔ اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ بیت المقدس کے بانی اول سلیمان علیہ السلام نہیں ہیں ۔31
ابن کثیر رحمہ اللہ اور دیگر علماء اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ خانہ کعبہ کو سب سے پہلے بنانے والے ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کا استدلال یہ ہے کہ وہ روایتیں جن میں ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ کسی اور کے خانہ کعبہ کی تعمیر کا ذکر ہے، وہ سند کے لحاظ سے بالکل غلط ہیں۔ جبکہ دوسری طرف بہت سے علماء مثلاً امام شافعی، ابن اسحاق، الطبری، ابن الجوزی، ابن الأثير ، القرطبی، ابن حجر، ابن الملقن، العینی ۔ قسطلانی، اور المقدسی رحمھم اللہ کا خیال ہے کہ خانہ کعبہ ابراہیم علیہ السلام سے پہلے تعمیر ہو چکا تھا اور ابراہیم عیہ السلام نے اسے دوبارہ تعمیر کیا کیونکہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ تباہ ہو گیا تھا۔
خلاصہ کلام
درج بالا دلائل اور شواہد سے معلوم ہوا کہ مسجد الحرام کی تعمیر آدم علیہ السلام نے کی اور بعد ازاں ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام نے انہی بنیادوں پر دوبارہ اسے تعمیر کیا۔ مسجد الاقصیٰ کے ضمن میں بعض مورخین یعقوب علیہ السلام کو مسجد اقصی کا بانی قرار دیتے ہیں مگر اوپر بیان کردہ صحیح البخاری کی حدیث ابو ذر رضی اللہ عنہ سے بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے بانی بھی خود جناب آدم علیہ السلام ہی ہیں اور بعد میں آنے والے انبیائے اکرام، اقوام اور حکمران محض اس کی تعمیر نو کرنے والے ہیں۔ مسجد اقصیٰ کی اسی تجدیدی تعمیر میں ابراہیم، اسحاق، یعقوب، داؤد اور سلیمان علیھم السلام کے نام تاریخی کتب میں مختلف آرا کے ساتھ موجود ہیں۔ سلیمان علیہ السلام کی تجدیدی تعمیر کو یہود ہیکل سلیمانی کا جواز بنا کر پیش کرتے اور اسی جگہ ہیکل سلیمانی کے وجود کا بے بنیاد دعویٰ کرتے ہیں جبکہ مسجد اقصی سے نیچے کھدائیوں کے باوجود آج تک کسی دوسری عمارت کا کوئی نام و نشان انہیں نہیں مل سکا۔ یوں ان کی اپنی تحقیق بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے ادوار سے اس با برکت مقام پر مسجد الاقصیٰ ہی کا وجود ہے اور مسلم اُمہ کو تو معلوم ہونا ہی چاہیے کہ انبیائے کرام مساجد ہی تعمیر فرماتے تھے ہیکل نہیں لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمان مسجد الحرام کو تو اپنا سمجھتے ہیں مگر مسجد الاقصی بھی ہماری ہی قیمتی میراث ہے اس بات کو سمجھنے اور جاننے سے قاصر ہیں۔ ہم اپنے منصب کو سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ ہم ہی امت وسط ہیں۔ ہم ہی انبیائے کرام اور مسجد الحرام، مسجد نبویﷺ اور مسجد الاقصیٰ کے حقیقی وارث ہیں۔ جہاں ہم اپنے فرائض سے کوتاہی کے مرتکب ہو کر انسانیت کو مادہ پرستی کی جہالت میں ڈوبتا دیکھ کر خاموش ہیں وہیں مسجد الاقصی کے پنجہ یہود میں جکڑے جانے پر بھی ہم پر غفلت کا عجب سکتہ طاری ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ ہماری اس مقدس عبادت گاہ کا تقدس آئے دن یہود کے ناپاک اور مغضوب وجود سے پامال ہو رہا ہے۔ نصاریٰ ان کی پشت پر ان کے نگہبان بن کر کھڑے ہیں۔ کفار عالم تماش بین ہے اور ہم انتشار کا شکار، اپنی تاریخ اپنی میراث سے بے خبر اور بے پرواہ زندگی کی صبحیں اور شامیں بے سمت و بے مقصد گزار رہے ہیں۔ فقط چند نہتے فلسطینی یہود کے ناپاک عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں۔
- ( سبل الهدی والرشاد في سیرة خیر العباد ، محمد بن یوسف الصالحي ، ج1 ، ص: ،194، دار الكتاب المصري ، القاهرة، 1410ه / 1990م)
- (فتح الباري 6/495 ، وكشف المشكل :1/ 360) .
- ( الأنس الجلیل بتاریخ القدس والخلیل ، مجد الدین الحنبلي ، مكتبۃ المحتسب ، عمان ، ج 1 ، ص:66 ،77 ، و إتحاف الأخصا بفضائل المسجد الأقصى ، محمد بن شهاب الدین السیوطي، تحقیق أحمد رمضان أحمد ،الهیئۃ المصریۃ للكتاب ، القاهرة ، 1982م ، ج2، ص:7،8 )
- ( الاعتداعات الباطنیۃ علی المقدسات الإسلامیۃ ، د. كامل سلامۃ الدقس ، ص: 24)
- (تاریخ بناء المسجد الأقصی ، موقع صید الفوائد )
- (أخبار مكۃ وما جاء فيها من الآثار ، محمد بن عبد الله بن أحمد الأزرقي: 1/ 59)
- (تفسير عبد الرزاق بن همام الصنعاني (1/ 291
- ( زاد المعاد : 1/50)
- (فتح الباري 6/495)
- (المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم (2/ 115)
- (فتح الباري 6/495)
- (كشف المشكل ” (1/ 360)
- (فتح الباري 6/495 ) وکتاب التيجان في ملوك حمير، ج1/ 22، ط1، مركز الدراسات والأبحاث اليمنية 1347هـ)
- ( الجامع لأحكام القرآن ( 4/138)
- ( تفسیر طبری ،الآیۃ :127، سورۃ البقرۃ)
- ( تفسیر طبری ،الآیۃ :127، سورۃ البقرۃ)
- ( تفسیر طبری ،الآیۃ :127، سورۃ البقرۃ)
- (تفسیر قرطبی، الآیۃ: 96،سورہ آل عمران)
- (الجامع لأحكام القرآن، تفسیر الآیۃ: 127، سورة البقرة )
- (الکامل فی التاریخ لابن الأثیر ، دار الفکر ، بیروت ، ج1، ص: 199)
- ( البدايۃ والنهايۃ : 2/ 299)
- (دلائل النبوۃ ‘للبیہقی‘ج 2‘ص45ورواہ ابن کثیر فی تفسیرہ و اللفظ لہ)
- (فتح الباري 6/495 ، وكشف المشكل :1/ 360)
- (فتح الباري 6/495 ) وکتاب التيجان في ملوك حمير، ج1/ 22، ط1، مركز الدراسات والأبحاث اليمنيۃ 1347هـ)
- ( شرح مسلم للنووی )
- ( حاشیہ سنن نسائی، جلد، اول ص: 112 )
- ( قصص الأنبیاء لابن كثیر : 155)
- ( فتاوی اللجنۃ الدائمۃ: 6/228)
- (البدايۃ والنہايۃ،ج1، ص:184)
- (مثير الغرام، شهاب الدين المقدسي ، ص:134)
- (بائیبل تواریخ2 باب3 آیات1-2 )