یوں تو اس وقت تمام عالمِ اسلام مختلف قسم کے خطرات میں گھرا ہوا ہے لیکن جس قیامت خیز صورتِ حال سے القدس اور مقبوضہ کشمیر کے حرماں نصیب لوگ گزر رہے ہیں وہ ہر دردِ دل رکھنے والے انسان کے لیے جاں گسل اور روح فرسا ہے۔ کشمیر جل رہا ہے، القدس لہو لہو ہے، غزہ کھنڈر بنا دیا گیا ہے لیکن امتِ مسلمہ کے حکمران جمود کی جس کیفیت میں مبتلا ہیں وہ غزہ اور کشمیر میں ڈھائے جانے والے ظلم سے بڑا المیہ ہے۔ ایسے وقت میں جب ایک طرف اسلامی سرحدیں اپنی بدحالی پر کسی محمد بن قاسم اور یوسف بن تاشفین کی راہ تَک رہی ہیں اور دوسری طرف امتِ مسلمہ کی تنزلی اور خستہ حالی کے اس دَور میں حکمران طبقہ حرص و ہوس، عہدوں کی لوٹ کھسوٹ اور یہود و ہنود کی کاسہ لیسی میں مصروف ہے۔ اقتدار کی رسہ کشی میں باہم دست و گریبان اسلامی دنیا کے حکمرانوں پر شاعر کی یہ بات خوب صادر آتی ہے:-
کشمیر جلے تو جلنے دو۔۔۔۔ جو بکتی ہے اقصی بکنے دو۔۔۔
یہ قوم تماشا بینوں کی، اک اور تماشا کرنے دو۔۔۔
اور حقیقت بھی یہی ہے قبلہِ اول ، سرزمینِ ’’القدس‘‘ اور یہاں کے مسلمانوں کا رشتہ امتِ مسلمہ کے ساتھ نہایت گہرا ہے اور ہماری ایمان افروز تاریخ بھی ان کے ساتھ وابستہ ہے۔ فلسطین کی مقدس سرزمین اہلِ ایمان کے لیے شروع سے عقیدتوں اور محبتوں کی مرکز رہی ہے۔ انبیا کے اس مسکن کو ہر دَور میں مسلمانوں نے اپنی جان سے زیادہ اہمیت دی۔ آج یہی سرزمین یہود کے خونیں نرغے میں ہے اور بے بسی کے عالم میں کسی نورالدین زنگی اور ایوبی کے روحانی فرزندوں کی منتظر ہے جو بہ بانگِ دہل پکار اٹھے:-
اے قبلہِ اول ! تیرے لیے ہم آخری سجدہ لائیں گے
ہیکل کے منارے ٹوٹیں گے، آئینِ جفا مٹ جائیں گے
زخمی القدس ، فلسطینی بچوں کی فلک شگاف آہ و بکا، سسکتی بیٹیاں اور خون آلود بدن مسلم امہ کی اجتماعی بے حسی پر ماتم کناں ہیں اور یہ اس بات کی عکاس ہے کہ:
“جب دل سے زیادہ بدن کی آرائش ہونے لگے اور روح سے زیادہ جسم کی زیبائش ہونے لگے تو زندگی موت کہلاتی ہے۔ جب حق کی جگہ حکایت.. اور جہاد کی جگہ جمود.. ملک کی جگہ مفاد اور اخلاق و مروت، شرافت و دیانت اور شمشیر و سناں کی جگہ منافقت، عیاری، فحاشی، مایوسی اور تعصب آ جائے تو اقوام پر اجتماعی موت طاری ہو جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج یہی مرض الموت ہے جس میں امتِ مسلمہ مبتلا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے : –
يُوشِكُ الْأُمَمُ أَنْ تَدَاعَى عَلَيْكُمْ كَمَا تَدَاعَى الْأَكَلَةُ إِلَى قَصْعَتِهَا». فَقَالَ قَائِلٌ: وَمِنْ قِلَّةٍ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: «بَلْ أَنْتُمْ يَوْمَئِذٍ كَثِيرٌ، وَلٰكِنَّكُمْ غُثَاءٌ كَغُثَاءِ السَّيْلِ! وَلَيَنْزَعَنَّ اللهُ مِنْ صُدُورِ عَدُوِّكُمُ الْـمَهَابَةَ مِنْكُمْ، وَلَيَقْذِفَنَّ اللهُ فِي قُلُوبِكُمُ الْوَهْنَ»، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ! وَمَا الْوَهْنُ؟ قَالَ: «حُبُّ الدُّنْيَا وَكَرَاهِيَةُ الْمَوْتِ
(رواه أبو داود رقم الحدیث: 4297)
ترجمہ : قریب ہے کہ (گمراہ) قومیں تمھارے خلاف اس طرح یلغار کریں گی جس طرح کھانے والے کھانے پہ ٹوٹ پڑتے ہیں ، کسی نے عرض کیا : اس روز ہماری تعداد کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوگا؟ ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا : نہیں، بلکہ اس روز تم زیادہ ہوگے لیکن تم سیلاب کی جھاگ کی طرح ہو گے، اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دل میں وہن ڈال دے گا۔ ‘‘ کسی نے عرض کیا، اللہ کے رسول : ’’ وہن کیا ہے؟ ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا : دنیا سے محبت اور موت سے نفرت۔‘‘ .
اس ارشادِ گرامی کی روشنی میں دیکھا جائے تو آج دنیا کی محبت ہی ہے جس میں لتھڑے ہونے کی وجہ سے شمشیر و سناں کے وارث، دینی حمیت کے خوگر، شرم و حیا کے زیور سے آراستہ.، دلیری کے مظہر، ہمتِ مرداں کے دھنی، اعلائے کلمۃ اللہ کے متمنی اور قیصر و کسری کے محلات میں بلا تردد گھس جانے والے مسلماں نعمتِ اسلام سے بد گماں، قران و سنت سے بے زار، وفا شعاری اور اخلاص سے نا واقف ہو کر کفر کی ہیبت سے لرزہِ براندام ہیں۔ شام و کشمیر اور فلسطین و برما میں مسلمان بیٹیاں، مسلمانوں کا قبلہِ اول اور مسجدِ بابری کسی طارق بن زیاد اور موسی بن نصیر کے لشکروں کی چاپ کے منتظر ہیں۔ خوابِ غفلت میں ڈوبے مسلمانوں کو رب العزت کا فرمانِ گرامی جھنجھوڑ رہا ہے :-
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا
( سورۃ النساء :75 )
ترجمہ : بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راه میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ﻇالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا۔
ہماری تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ کبھی کوئی غیر مسلم بیٹی کی طرف بھی بری نظر سے دیکھتا تو مسلم سپاہ سالاروں کو حکم دے دیا جاتا کہ وہ ظالموں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں. آج حالت یہ ہے کہ ہماری مسلمان بیٹیاں یہود و ہنود کے پنجہِ استبداد میں کسی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی کا انتظار کر رہی ہیں۔ شاعر سے معذرت کے ساتھ یوں کہنا چاہوں گی۔
جب ہوا تھا اک مسلماں بیٹی پہ ظلم و ستم
کھل گئے تھے ابن قاسم کی شجاعت کے عَلَم
بیٹیاں برباد ہیں القدس میں کشمیر میں
جوش کیوں آتا نہیں اسلام کی شمشیر میں
لیکن ہم بہ حیثیتِ قوم اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمارے دل احساس اور مظلوموں کی آہ و بکا سمجھنے سے قاصر ہیں اور ایسا ہو بھی کیسے جب یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ:
“گھنگھرو کی جھنکار اور ڈھولک کی تھاپ پر ناچنے والی ماؤں کے بطن سے کبھی محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی پیدا نہیں ہوتے”
اہلِ اسلام پر عرصہِ حیات تنگ ہو چکا ہے۔ مسلمان گاجر اور مولی کی طرح کٹ رہے ہیں اور جن لوگوں کو اللہ نے اس آزمائش سے محفوظ رکھا ہے ان کو ایک ہی دھن لگی ہے اور وہ ہے دنیا کی سرداری اور تمکنت کی، دنیا کا جاہ وجلال، برینڈڈ اور نان برینڈڈ کی دوڑ..
اور اس بات کا شعورِ وافر کہ دنیا میں کیسے میں اعلیٰ سٹیٹس کا حامل بن سکتا ہوں..
یاد رکھیے!!! قدرت ڈھیل تو دیتی ہے مگر برائی میں مداہنت اختیار کرنے والوں کے لیے قدرت کا انتقام بڑا سخت بھی ہے. جیسا کہ رب العزت نے خود اعلان فرمایا :
إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ
( سورۃ البروج :12)
يقينا آپ کے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔
تو آئیے ! ہم یہ دعا کریں کہ رب العزت ہمیں اس خطرناک صورتِ حال سے نکال کر صراطِ مستقیم پر گامزن فرمائے۔ آمین۔
آخر میں شاعر کی زبان میں نوجوانانِ ملت سے التماس ہے:-
اٹھ باندھ کمر مردِ مجاہد کا جگر لے
مومن ہے تو مسجدِ اقصیٰ کی خبر لے
ایوبی کا بيٹا ہوں دنیا کو بتا دے
صہیونی شر انگیزوں کی خبر لے
جا دیکھ فلسطیں کے خوں آلود بدن کو
مت آنکھیں چرا اس سے، تو مت راہِ مفر لے۔
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…