بنیادی نکات:
- حالیہ توہین؟
- عالم کفر کی یہ اوچھی حرکات کا ہدف؟
- وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ وجہ؟
ہم کیا کرسکتے ہیں؟ کیا کرنا چاہیے؟ (سب سے اہم بات)
حالیہ عید الاضحیٰ کے موقع پر سویڈن میں قرآن کریم کی توہین کی گئی، جنوری 2023ء میں بھی اسی سویڈن میں قرآن پاک کو معاذ اللہ نذرِ آتش کیا گیا اور کرنے والا حکومتی جماعت کا کارندہ تھا، لیکن اِس بار سویڈن میں عدالتی اجازت نامے کے بعد قرآن کریم کی بےحرمتی کی گئی، جیساکہ بارہا فرانس، ناروے وغیرہ میں صاحبِ قرآن رسولِ مقبول محمد ﷺ کی ناموس پر حکومتی سرپرستی میں حملہ کیے جاتے ہیں۔۔۔اور یہ سب مغرب اور یورپ کے مخصوص بڑے طبقے کے سینے میں دہکتی اسلام دشمنی کا واضح ثبوت ہے۔
اس موقع پر ہمارے لیے تین باتیں قابلِ توجہ ہیں:
1) عالَمِ کفر کی ان اوچھی حرکات کا نتیجہ؟
عالَمِ کفر کی یہ اوچھی حرکات اسلام کو دبانا تو دور اس کی بڑھتی و چڑھتی مقبولیت میں کمی کے بجائے ہمیشہ اضافے کا ہی سبب بنی ہیں اور بنتی رہیں گی ان شاء اللہ۔
فرمانِ الہِ العالَمین ہے:
يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ}
(التوبہ:32)
“وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں لیکن اللہ کو یہ منظور نہیں، وہ تو اپنے نور کو پورا کرکے ہی رہے گا، خواہ یہ بات کافروں کو کتنی ہی بری لگے”۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
یہ اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
2) وہ بار بار ایسا کرتے کیوں ہیں؟
اس کے بہت سے اسباب میں سے دو بنیادی سبب یہاں قابلِ ذکر ہیں:
1- ایک یہ کہ اپنے اپنے ممالک کو عشرت کدوں میں تبدیل کرنے کے باوجود، وہ لوگ قرآن کریم کی تعلیمات سے خائف ہیں۔
2- دوسرا اسی وجہ سے دنیا بھر کے انسانوں میں قرآن کریم، رسولِ مقبول محمد ﷺ اور دینِ اسلام کی بڑھتی ہوئی قبولیت و مقبولیت انہیں بےچین و مضطرب کیے رکھتی ہے۔
اور جب وہ اس کے خلاف کچھ بھی کرنے سے قاصر رہتے ہیں تو کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق یا تو اسلامی مقدسات کی توہین کرکے اپنے خبثِ باطن کا اظہار کرتے ہیں یا کمزور و نہتے مسلمانوں پر ظلم و بربریت ڈھاکر اپنی وحشیانہ طبیعت کو تسکین پہچانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔
وہ قرآن کریم کی بار بار اور حکومتی سرپرستی میں توہین اس لیے کرتے ہیں کہ:
- قرآن کریم پوری انسانیت ہی نہیں بلکہ تمام مخلوقات کو ان کے ان حقیقی حقوق و مقام سے نوازتا ہے جو سب کے لیے برابر ہیں،
- وہ دنیا کے تمام معبودانِ باطلہ کا انکار کرکے ایک رب الأرباب کی ربوبیت و الوہیت کے اقرار و اعتراف کا حکم دیتا ہے،
- وہ انسانوں کو انسانوں کا نہیں بلکہ حکمِ الٰہی کے تحت اللہ کے بھیجے ہوئے رسول کا مطیع و فرمانبردار بنانا چاہتا ہے، جو ہوس کے پجاری انسانوں کو قبول نہیں،
- وہ کمزور کو طاقتور کی غلامی سے آزادی دلانے کی بات کرتا ہے،
- وہ عرب و عجم، کالے گورے، مشرق و مغرب اور ذات پات کی بنیاد پر انسانوں کی نسلی و طبقاتی تقسیم سے روکتا ہے،
- قرآن کریم عورت کو رونقِ بازار، عشرت کدوں اور مے کدوں کی بجائے، ماں، بہن اور بیٹی کی حیثیت سے گھر اور معاشرے کی پروقار و فعال رکن کی حیثیت دیتا ہے،
- قرآن کریم محض خاوند اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہے مگر وہ عیش کوش مرد ایسا ہرگز نہیں چاہتے جو عورت کو ہر مرد کے دل بہلانے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں،
- قرآن کریم خاندانی نظام کو قائم کرنے اور اسے بہر صورت برقرار رکھنے کی تعلیم دیتا ہے،
- قرآن کریم پوری دنیا پر قابض مخصوص ٹولوں کی فسطائیت، معاشی غنڈا گردی،
- جابرانہ سودی نظام سمیت ہر ظالمانہ معاشی نظام کو ڈھانے و ختم کرنے کا حکم دیتا ہے،
- قرآن کریم صرف معاشی ہی نہیں بلکہ ایک منصفانہ نظامِ سیاست و حکومت، نظامِ عدل اور مکمل نظامِ زندگی انسانوں کو مہیا کرتا ہے جو دنیا کے باطل و ظالمانہ نظاموں کے خلاف ہے،
- الغرض قرآن کریم اور صاحبِ قرآن محمد ﷺ کی صورت میں دینِ اسلام انسانوں کی پانچ بنیادی ضروریات جان، مال، عزت، عقل اور دین کی ناصرف حفاظت کا حقیقی و واحد ضامن ہے بلکہ ہر دور، زمانہ، جگہ و مقام پر ان سے متعلق مکمل و صحیح راہنمائی انسان کو مہیا کرتا ہے۔۔۔
” یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے لوگ یہ جانتے و سمجھتے ہیں ویسے ویسے اسلام قبول کرتے چلے جاتے ہیں “
اور جو اس قرآن کریم کے منکر منحرف و باغی ہیں ان سے یہ سب ہضم نہیں ہوتا کہ کیسے مسلمانوں کی یہ کتاب و رسول ہمارے نظام و کردار اور چودھراہٹ کو کچلتے ہوئے انسانوں کو ہم سے اور ہماری غلامی سے آزاد کرا رہے ہیں؟؟
سو وہ ہمیشہ سے ہی قرآن کریم کی تعلیمات اور محمد رسول اللہ ﷺ کے فرامین و احکامات سے سہمے رہے ہیں، ہمہ وقت سہمے رہتے ہیں اور ہمیشہ ہی سہمے رہیں گے۔۔۔
3) تیسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں اس صورتحال سے پریشان ” ہم سب مسلمان کیا کرسکتے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ “
جواب:
احتجاج ، احتجاج اور بس احتجاج ۔۔۔!
جی! یہی تو ہم نے کیا ہے، ابھی بھی کریں گے اور آئندہ بھی۔۔۔
لیکن ۔۔۔۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف احتجاج سے مقصد حاصل ہوجائے گا؟؟
اور یہ آپ بھی مانتے ہیں کہ مقصد حاصل نہیں ہوگا۔۔۔ البتہ جذبات نکل جائیں گے، غصہ بھی ٹھنڈا ہوجاۓ گا۔۔۔ لیکن مقصد حاصل نہیں ہوگا۔۔۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ احتجاج مت کریں۔۔۔
احتجاج ضرور کریں۔۔۔ ہر سطح پر کریں۔۔۔ بھرپور کریں۔۔۔
سویڈن مصنوعات کا ہر ممکن بائیکاٹ ہونا چاہیے۔۔۔
بلکہ غیرت و حمیت کا تقاضا یہ ہے کہ فرانس اور سویڈن دونوں ہی ملکوں کے سفیر ملک بدر کیے جائیں اور دونوں ہی ملکوں کے ساتھ تعلقات فوری منقطع کیے جائیں۔۔۔
لیکن اس کے لیے جو غیرت و جرتِ ایمانی چاہیے وہ نہ ہی پہلے والوں میں تھی، نہ ہی آج والوں میں ہے۔۔۔ اور یہ ہمارے بارے میں ہمارے دشمن بھی جانتے ہیں۔۔۔
لہذا تھوڑا ٹہر کر ہم یہ غور کریں کہ احتجاج و دیگر فوری کاموں کے ساتھ ساتھ
“ہم ایسا کیا کریں جس سے واقعی ہمیں ایک حد تک مقصد حاصل ہوسکے، دور رس اور تعمیری مقصد؟؟ “
وہ تمام مسلمان جو قرآن کریم کی حالیہ اس توہین پر سیخ پا و شعلہ زن ہیں اور واقعی کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں تو پہلے ذرا خلوت نشیں ہوکر یہ بھی سوچیں کہ:
” ہم نے آج تک خود اس قرآن کریم کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے؟؟ “
قرآن کریم تو سننے پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے لیے نازل کیا گیا تھا ناں؟
پھر اسے خود پر، معاشرے پر نافذ کرکے دنیا بھر میں پہچانے کی ذمہ داری بھی ہمیں ہی سونپی گئی تھی ناں؟
یہ ہماری اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے بلکہ زندگی کے ہر ہر معاملہ میں اسی کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے ہی تو اللہ رب العزت نے ہمیں دیا تھا؟
سورۃ النساء پڑھ لیجیے۔۔۔
- اگر ہماری طبعِ نازک پر گراں نہ گزرے تو ہم ابھی فوراً سے پہلے اٹھیں! اور اپنے گھر کے کھلے بند طاقچوں میں رکھے قرآنِ مجید کو اٹھائیں اوردیکھیں!
- اگر اس کے غلاف پر گَرد اور مٹّی کی تہ جمی ہوئی ہے تو ہمیں سویڈن کے خلاف احتجاج کے ساتھ ساتھ اسی قرآن کریم کے ساتھ اپنی بے اعتنائی اور بے وفائی کے خلاف پہلے خود سے بھی شدید احتجاج کرنا ہوگا۔۔۔!!
- اگر ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اور خوب کرتے ہیں لیکن آج تک ہمیں قرآنِ مقدس کا ترجمہ پڑھنے کی اور اسے سمجھنے کی توفیق تک میسر نہ ہوئی تب بھی پہلے ہمارا احتجاج خود سے بنتا ہے کہ ہمارا قرآن کریم کے ساتھ یہ رویہ انتہائی نامناسب ہے۔۔۔
- ہمارے گھر، تعلیمی اداروں، سکولز، کالجز، یونیورسٹیز، میں قرآن کریم، سیرت طیبہ و دینی تعلیم کو کیا اہمیت و مقام حاصل ہے؟ سوچیں۔۔۔ اس حوالہ سے ہم نے کیا ذمہ داری نبھائی ہے؟ اس پر بھی احتجاج کریں۔۔۔
- ہمارے نظامِ انصاف میں “قرآن کریم و رسول اللہ ﷺ کے فیصلوں” کو کیا حیثیت حاصل ہے؟ اس پر کون اور کب احتجاج کرے گا؟ ۔
توہینِ قرآن و توہینِ صاحبِ قرآن کے خلاف ضرور و بھرپور احتجاج کریں اور ساتھ میں اس ناانصافی، بے توقیری و بےوفائی کے خلاف بھی احتجاج کریں جو ہم مسلمانوں نے خود قرآن کریم کے ساتھ عرصہ سے روا رکھی ہوئی ہے اور وقت کے ساتھ یہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔۔۔
بہ صورتِ دیگر تو ہماری قرآن کریم کے ساتھ یہ ظاہری مَحبّت بڑی پھیکی اور رُوکھی سی ہے۔۔۔
ہم اپنے مُلک میں رہ کر سویڈن کے خلاف احتجاج کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔۔۔
لیکن ہمارا بنیادی و بڑا احتجاج اور تعمیری کام یہ ہوگا کہ “ہم خود کو ، اپنے گھر و معاشرے کو قرآن کریم کے سانچے میں ڈھالنے کا اہتمام کریں، یہی تو قرآن کریم کے ساتھ اصل اور حقیقی محبت و عقیدت کا تقاضا ہے۔
سوچیں! اٹھیں! تعمیری کام کریں، خود سے پہل کریں کہ جب تک ہم خود میں اپنے اندر تبدیلی نہیں لاسکتے دوسروں میں اور باہر کیا تبدیلی لائیں گے؟؟
ابتداء سیکھنے سے کریں، ساتھ ساتھ عمل اور پھر سکھانے و پھیلانے کی ذمہ داری اٹھائیں کہ پھر آگے کے راستے خود بنتے چلے جائیں گے۔۔۔ ان شاء اللہ