اسلام دینِ عدل ہے ۔جس میں عدل کی ترغیب دیتے ہوئے حکم دیا گیا کہ:
اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ
المائدة – 9
عدل کرو یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے۔
اسلام عقائد و احکام سے لے کر معاشرت کے ہر پہلو کے حوالے سے عدل کا درس دیتا ہے۔اس کے عالمگیر اور عدل پر مبنی قوانین کی نظیر کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ، معاشرتی معاملات میں سے ایک بنیادی معاملہ وراثت کا بھی ہے۔ اسلام نے جو وراثت کا نظام پیش کیا ہےیہ مکمل طور پر ایسے عدل پر مبنی ہے جس سے تمام مذاہب محروم ہیں۔
اسلام کے نظام وراثت کی عادلانہ خصوصیات کو بیان کرنے سے قبل بعض دیگر مذاہب کےظلم پر مبنی نظام وراثت کا طائرانہ ذکر کرنا ضروری ہے تاکہ اسلامی نظام وراثت کی خصوصیات مزید ابھر کر سامنے آجائیں۔
وراثت اور دیگر مذاھب
وراثت کے حوالے سے ہم یہاں مشت از خروارے کے طور پر یہ ذکر کریں گےکہ اسلام کے علاوہ تمام مذاہب عادلانہ خصوصیات سے محروم ہیں۔ جن میں سے چند ایک کی تفصیل درج ذیل ہے۔
دور جاھلیت میں وراثت
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں بیمار تھا ،محمدﷺاور ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ میری بیمار پرسی کے لئے بنو سلمہ کے محلے میں پیادہ پا تشریف لائے میں اس وقت بے ہوش تھا۔ آپﷺ نے پانی منگوا کر وضو کیا ،پھر وضو کے پانی کا چھینٹا مجھے دیا جس سے مجھے ہوش آیا، تو میں نےنبی ﷺ سے پوچھا کہ میں اپنے مال کی تقسیم کس طرح کروں؟ اس پر آیتِ مواریث نازل ہوئی۔[2]
سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیوی رضی اللہ عنہا ، رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺیہ دونوں سعدرضی اللہ عنہ کی لڑکیاں ہیں، ان کے والد آپ کے ساتھ جنگ احد میں شریک تھے اور وہیں شہید ہوئے۔ ان کے چچا نے ان کا کل مال لے لیا ہے ان کے لئے کچھ نہیں چھوڑا اور یہ ظاہر ہے کہ ان کا نکاح مال کے بغیرنہیں ہو سکتا، آپ ﷺنے فرمایا: اس کا فیصلہ خود اللہ کرے گا، چنانچہ آیتِ میراث نازل ہوئی،آپ ﷺنے ان کے چچا کے پاس بذریعہ ایک شخص کے حکم بھیجا کہ دو تہائیاں تو ان دونوں لڑکیوں کو دو اور آٹھواں حصہ ان کی ماں کو دو اور باقی مال تمہارا ہے۔ [3]
سورۂ نساء کی آیت نمبر11 کے بارے میں امام ابن جریر طبریؒ فرماتے ہیں:
’’یہ بات ذکر کی جاتی ہےکہ یہ آیت، میت جو مال اور ورثہ چھوڑ کر فوت ہو اس کے بارے میں ایک واجب حکم کی تبیین کے لئے نازل ہوئی ،اس لئے کہ اہل جاہلیت میت کی وراثت کو اس کے ورثاء میں سے ان افراد کو نہیں دیتے تھے جودشمن سے جنگ وغیرہ میں قتال نہ کرسکتے ہوں۔ جیساکہ چھوٹے بچے اور عورتیں۔ذریت کو چھوڑ کر مقاتلین میں تقسیم کردیا کرتے تھے۔ (گویاکہ کمزور طبقہ محروم ہوجاتا تھا)اللہ تعالیٰ نے اس آیت اور اس سورت کے آخر میں میت جو ورثاء چھوڑ کر جائے ان کے نام لے کر ان کے حصوں کو فرض کردیا۔میت کے چھوٹے،بڑے بچوں اور بچیوں کے لئے بھی ان کے والد کی وراثت سے حصہ مقرر کیا،جب ان کے علاوہ کوئی اور وارث نہ ہو،تو مذکر کو مؤنث کی بہ نسبت دگنا ملے گا۔‘‘
امام ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’اہل جاہلیت تمام مال لڑکوں کو دیتے تھے اور لڑکیاں خالی ہاتھ رہ جاتی تھیں، تو اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ بھی مقرر کردیا البتہ دونوں کے حصوں میں فرق رکھا، اس لئے کہ مردوں کے ذمہ جو ضروریات ہیں وہ عورتوں کے ذمہ نہیں، مثلاً: اپنے متعلقین کے کھانے پینے، اخراجات کی کفالت، تجارت اور کسب اور اسی طرح کی دیگرمشقتیں ۔تو انہیں ان کی حاجت کے مطابق عورتوں سے دوگنا دلوایا۔‘‘[4]
بہرحال ان حوالوں سے معلوم ہوا کہ اہل جاہلیت میں تقسیم وراثت کا نظام سراسر ظلم پر مبنی تھا،جسے اسلام نے ختم کیا اور مکمل طور پر ایک عادلانہ نظام وضع کیا ،جو کمزور سے کمزور طبقے کو اس کا وہ حق دیتا ہے،جس کا وہ مستحق ہے۔
یہودیت اور وراثت
یہودیت جوکہ وہ دین ہے جو سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا، چونکہ یہ عالمگیر اور دائمی دین نہیں تھا، لہذا اس مذہب میں موجود ضوابط کا تعلق بھی ایک خاص وقت سے تھا،اور مزید یہ کہ آج وہ اپنی اصل حالت میں موجود بھی نہیں کیونکہ اس میں بہت زیادہ تحریفات ہوچکی ہیں۔بہرحال عہد نامہ قدیم کے مطابق یہودیت جو نظام دے رہی ہے وہ غیر عادلانہ اور نامکمل ہے،جیساکہ گنتی : باب 27فقرہ نمبر 1تا11 میں یہ بیان ہوا ہے:
’’1۔ تب یُوسف کے بیٹے منسّی کی اَولاد کے گھرانوں میں سے صلافحاد بِن حِفر بِن جِلعاد بِن مکِیر بِن منسّی کی بیٹِیاں جِن کے نام مَحلاہ اور نُوعاہ اور حُجلاہ اور مِلکاہ اور تِرضاہ ہیں پاس آکر۔ 2۔خَیمۂِ اِجتماع کے دروازہ پر مُوسیٰ اور الیِعزر کاہِن اور امِیروں اور سب جماعت کے سامنے کھڑی ہُوئِیں اور کہنے لگِیں کہ۔ 3۔ہمارا باپ بیابان میں مَرا پر وہ اُن لوگوں میں شامِل نہ تھا جِنہوں نے قورَح کے فرِیق سے مِل کر خُداوند کے خِلاف سر اُٹھایا تھا بلکہ وہ اپنے گُناہ میں مَرا اور اُس کے کوئی بیٹا نہ تھا۔ 4۔سو بیٹا نہ ہونے کے سبب سے ہمارے باپ کا نام اُس کے گھرانے سے کیوں مِٹنے پائے؟ اِس لِئے ہم کو بھی ہمارے باپ کے بھائِیوں کے ساتھ حِصّہ دو۔
5۔مُوسیٰ اُن کے مُعاملہ کو خُداوند کے حضُور لے گیا۔ 6۔خُداوند نے مُوسیٰ سے کہا۔ 7۔صلافحاد کی بیٹِیاں ٹِھیک کہتی ہیں۔تُو اُن کو اُن کے باپ کے بھائِیوں کے ساتھ ضرُور ہی مِیراث کا حِصّہ دینا یعنی اُن کو اُن کے باپ کی مِیراث مِلے۔ 8۔اور بنی اِسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی شخص مَر جائے اور اُس کا کوئی بیٹا نہ ہو تو اُس کی مِیراث اُس کی بیٹی کو دینا۔ 9۔اگر اُس کی کوئی بیٹی بھی نہ ہو تو اُس کے بھائِیوں کو اُس کی مِیراث دینا* اگر اُس کے بھائی بھی نہ ہوں تو تُم اُس کی مِیراث اُس کے باپ کے بھائِیوں کو دینا + اگر اُس کے باپ کا بھی کوئی بھائی نہ ہو تو جو شخص اُس کے گھرانے میں اُس کا سب سے قرِیبی رِشتہ دار ہو اُسے اُس کی مِیراث دینا ۔ وہ اُس کا وارِث ہو گا اور یہ حُکم بنی اِسرائیل کے لِئے جَیسا خُداوند نے مُوسیٰ کو فرمایاواجِبی فرض ہو گا۔‘ ‘ [5]
ان فقرات میں جو معاملہ واضح ہے، وہ یہ ہے کہ صلافحاد کی بیٹیوں نے اپنا حصہ طلب کرتے وقت فقرہ نمبر ۵ میں یہ کہا کہ ’’ سو بیٹا نہ ہونے کے سبب سے ہمارے باپ کا نام اُس کے گھرانے سے کیوں مِٹنے پائے؟ ‘‘ جس سے مفہوم واضح ہے کہ اگر بیٹا ہوتو ان بیٹیوں کو کچھ نہیں ملے گا!! فافھم و تدبر گویا کہ عورت کے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے،اور پھر یہودیت کی کتاب تالمود کے مطابق ،یہودی اللہ کا جزء ہیں(نعوذ باللہ ) اور اللہ کے یہاں فرشتوں سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔تالمود یہ بھی کہتی ہےکہ کسی یہودی کو تکلیف دینا اللہ کی عزت کو تکلیف دینا ہے۔اور یہودی تمام لوگوں اور ان کے اموال پر غاصب ہوسکتے ہیں،اور جو اس طرح کسی کے مال پر مسلط ہوجائے اسے ملامت نہیں کیا جائے گا۔(اعاذنا اللہ منھم)
جس مذہب کی تعلیمات اس قدر ظلم و استحصال پر مشتمل ہو،وہ بھلا کیسے عالمگیر طور پر عادلانہ نظام وراثت پیش کرسکتا ہے!!
مولانا صلاح الدین حیدر لکھوی صاحب بھی اپنی کتاب ’’ اسلام کا قانون وراثت ‘‘میں یہودیت کے غیر عادلانہ نظام وراثت کا ذکر کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہودیت کے مطابق صرف بیٹا وارث بن سکتا ہےاور اس میں بھی ناانصافی یہ ہے کہ بڑے بیٹے کو دگنا ملے گا۔یہودیت ولد الزنیٰ کو تووارث بناتی ہے،لیکن ماں ،بیوی یا بیٹی کو وارث نہیں بناتی [6]۔
عیسائیت اور وراثت
عیسائیت شریعت موسوی ہی پر مشتمل ہے۔جیساکہ بائبل میں عیسیٰ علیہ السلام کا قول موجود ہے ۔
’’یہ نہ سمجھو کہ مَیں تَورَیت یا نبِیوں کی کِتابوں کو منسُوخ کرنے آیا ہُوں۔ منسُوخ کرنے نہیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہُوں۔ کیونکہ مَیں تُم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب تک آسمان اور زمِین ٹل نہ جائیں ایک نُقطہ یا ایک شوشہ تَورَیت سے ہرگِز نہ ٹلے گا جب تک سب کُچھ پُورا نہ ہو جائے۔ ‘‘[7]
یہاں واضح طور پر بائبل کا بیان ہے کہ عیسی علیہ السلام توریت کو منسوخ کرنے نہیں آئے۔لہذابائبل کے گزشتہ حوالے[8] کا اطلاق عیسائیت کے لئے بھی ہوگا۔ ورنہ عہدنامہ جدید میں وراثت کے حوالے سے کوئی تفصیل موجود نہیں۔ لہذاعہد نامہ عتیق کی رو سے یہودیت کی طرح یہ بھی عادلانہ نظام وراثت سے محروم ہے۔ساتھ ہی ان دونوں مذاہب میں یہ بھی نقص موجود ہےکہ ان میں مفصل نظام وراثت موجود نہیں۔
ھندو مت اور وراثت
جس مذہب میں انسانیت کو چار طبقاتی تقسیم میں منقسم کردیا گیاہو۔
۱۔ برہمن : یہ طبقہ مذہبی پنڈت یا روحانی پیشواپر مشتمل ہے۔
۲۔ کشتری :یہ طبقہ اشراف و امراءپر مشتمل ہے۔
۳۔ ویش :یہ طبقہ کارو باری طبقہ پر مشتمل ہے۔
۴۔ شودر: یہ طبقہ خدمت گزار ی ا ورنوکرقسم کے افراد پر مشتمل ہے۔
ان تقسیمات میں انسان کو بانٹ دیا گیا ہو تو وہ مذہب کیسے عادلانہ نظام وراثت دے سکتا ہے!!
مزید یہ کہ جو اس طبقے سے بھی خارج ہیں، انہیں تو معاشرے سے خارج ہی سمجھا جاتا ہے۔ان کی وراثت کو ظاہر سی بات ہے غصب ہی کیا جائے گا۔
بہرحال ان تمام مذاہب کے مقابلے میں اسلام نے جو نظام دیا وہ پیش خدمت ہے۔
اسلام کے عادلانہ نظام وراثت کی خصوصیات
مختصر طور پر مختلف ادیان کے غیر عادلانہ نظام وراثت کو بیان کیا گیا ہے،اب ہم آئندہ سطور میں اسلام کے عدل پر مبنی نظام کے چند نکات کو بیان کئے دیتے ہیں تاکہ دیگر ادیان اور اسلام کے دئیے گئے نظام میں تقابل آسان ہوجائے۔
سب سے پہلے یہ بات جان لی جائے کہ کسی وراثت کی تقسیم کو بنیادی طور پر دو اقسام کی طرف لوٹایا جاسکتا ہے۔ زندگی میں کسی کو اپنے مال کا وارث بنانا (جسے ہبہ سے تعبیر کیا جاتا ہے)اور موت کے بعد وارث بننا ۔
اسلامی نقطۂ نظر سے ان دونوں طریقوں سے وارث بنا جاسکتا ہے،لیکن دونوں طریقوں کی صورتیں مختلف ہیں۔ مگر عدل کا طریق بہرحال دونوں صورتوں میں قائم ہے۔
(1) ھبہ (Gift) کرنا
اسلامی نظام وراثت کی خصوصیت یہ ہے کہ اگر کوئی کسی کو اپنی زندگی میں وارث بنانا چاہے تو کیا شریعت اس کی اجازت دیتی ہے تو جواب یہ ہے کہ شریعت اس کی اجازت دیتی ہے لیکن اس کے کچھ ضابطے ہیں ۔اور مکمل ضابطہ شریعت نے بیان کیا ہےکہ اگر کوئی اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کرے تواس کو کتب فقہ میں فرائض یا میراث کے تحت نہیں لایا جاتا اور نہ ہی اس کی تقسیم وراثت کی سی ہوگی بلکہ وہ ایک ہبہ اور عطیہ ہے کتب فقہ میں اسی باب کے تحت اس حوالے سے بحث ملے گی۔اور اس کے احکام و ضوابط بھی مختلف ہیں۔
ھبہ کے حوالے سے ضروری ضوابط
اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں وراثت تقسیم کررہا ہے تو وہ ایک ہدیہ ہے اور اس میں اولاد کے درمیان برابری ضروری ہے،خواہ وہ مرد ہوں یا عورتیں سب کو برابر برابر دیا جائے گا۔
ورثاء میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے باقیوں کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے باپ (بشیر) نے ان کی ماں کے کہنے پر انہیں کچھ مال ہبہ کر دیا، تو ان کی ماں نے کہا کہ اس پر نبی کریمﷺکو گواہ بنا لو۔ سیدنا بشیر رضی اللہ عنہ نے جب نبی کریمﷺ سےاس کی درخواست کی تو نبی کریمﷺ نے پوچھا کہ کیا تمہاری کوئی اور اولاد بھی ہے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں! نبی کریمﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے سب کو اتنا ہی مال ہبہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں! تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔[9]
بعض روایات میں ہے کہ ’’اللہ سے ڈر جاؤ اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔ ‘‘[10]
عاق کرنا: کسی کو عاق نہیں کیا جاسکتاکیونکہ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں شرعی ورثاء میں سے کسی کو محروم کردے۔
ورثاء کو چھوڑکر کُل مال کسی اور کو نہیں دیا جا سکتا۔
منہ بولا بیٹا شرعی طور پر وارث نہیں بن سکتا۔
دور جاہلیت میں ہبہ کی ایک قسم عمریٰ اور رقبیٰ بھی تھی ، اسلام نے دور جاہلیت والی صورت کو ختم کیا ہے۔
عمری
یہ ہبہ کی ایک صورت ہے اس میں عمر کی قید لگائی جاتی ہے کہ دینے والا کہتا ہے کہ یہ چیز میں نے تیری زندگی تک تجھے دی۔ اور اس کے بعد یہ واپس میری ہوجائے گی۔ جیسا کہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’دور جاہلیت میں ایک شخص دوسر ے کو گھر دیتا اور اسے کہتا کہ میں نے یہ خاص تیرے لئے تیری زندگی تک تجھے دیا۔ ‘‘[11]اس طرح کی شرط کو بھی شریعت نے ختم کیا ہے۔
لہذا ایسا کوئی عطیہ کیا گیا ہے تووہ واپس نہیں لوٹے گا بلکہ معمّر(جس کے لئے ہبہ کیا گیا ہے) اسی کے ورثاء میں تقسیم ہوگا۔ [12]الا یہ کہ عمر کی قید کے علاوہ وقت مقرر کیا جائے چند سال وغیرہ کا تو یہ صحیح ہے۔
رقبیٰ
یہ بھی تحفہ اور عطیہ کی ایک صورت ہے، دور جاہلیت میں ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص دوسرے کو کوئی چیز بطور تحفہ دیتا اور کہتا : اگر میں تجھ سے پہلے مرگیا تو یہ تحفہ تیرے پاس ہی رہے گا اور اگر تو مجھ سے پہلے مرگیا تو یہ تحفہ واپس آجائے گا، مثلاًگھر وغیرہ۔ اسے رقبیٰ کہتے ہیں کیونکہ دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کی موت کا انتطار کرتا ہے۔ اور رقبیٰ بھی انتظار کو کہتے ہیں۔ چونکہ یہ طریقہ صحیح نہیں اس لئے اسلام نے اسے باطل قرار دیا۔ اب جو شخص کسی کو عطیہ کرے گا اور وہ عطیہ اس کے آخری سانس تک اس کے پاس رہے تو وہ مرنے کے بعد بھی واپس نہیں آئے گا بلکہ اس کا ترکہ شمار ہوگا اور اس کے ورثاء کو ملے گا، ہاں جو چیز کسی کو کچھ عرصے کے لئے دی جائے ، مثلاً چند سال کے لئے مقرر کرکے دے دی گئی، وہ مقرر کردہ وقت کے بعد واپس آجائے گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ زندگی میں ہبہ کے ذریعے کسی کو وارث بنانا شرعاً جائز ،لیکن اس میں بھی عادلانہ قوانین اسلام ہی کا امتیاز ہیں ۔
(2)وفات کے بعد کسی کا وارث بننا
زندگی میں کوئی شخص کسی کو اپنا مال ہبہ کرسکتا ہے اس کی تفصیل کے بعداب ہم میت کی وفات کے بعد تقسیم وراثت میں اسلام کے نظام عدل کو بیان کرتے ہیںجوکہ ہر پہلو سے جھلکتا نظر آتا ہے۔
تقسیم وراثت سے قبل کے عادلانہ پہلو
تقسیم وراثت سے قبل تین شروط کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔جن کی موجودگی میں تقسیمِ وراثت صحیح ہوگی ورنہ نہیں۔(1) مورَّث (جس کا وارث بنا جارہا ہے) کی موت کا ثابت ہونا ،یا ایسا مفقود کہ جس کے بارے میں قاضی میت سمجھ لینے کا فیصلہ دے دے۔(2) وارث کی زندگی کا ثابت ہونا (3)جس بنیاد پر وارث بناجارہا ہے اس کا اثبات۔
ان تینوں شروط کے تعین سے عدل کا معاملہ واضح طور پر جھلک رہاہےکیونکہ ان شروط کےتعین کا مقصود یہی ہے کہ کسی قسم کی زیادتی اور ظلم نہ ہو۔ مثلاً
پہلی شرط :میت کے موت کے یقینی یا حکماً اثبات کی شرط میں میت کے ساتھ عدل کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ کہیں کوئی دھوکہ دیتے ہوئے کسی کی عدم موجودگی کا ناجائز فائدہ اٹھاکر اس کی وراثت کو تقسیم نہ کردے۔
ووسر ی شرط: وارث کی زندگی کا ثابت ہونا،اس میں تمام ورثاء کے ساتھ عدل کو ملحوظ رکھا گیا ہےکیونکہ مورث کی زندگی میں جو فوت ہوجائے وہ شرعاً وارث نہیں بن سکتا،تو اس میں تمام زندہ ورثاء کے ساتھ عدل ہے۔
تیسری شرط :جس سبب سے وہ وارث بن رہا ہے اس کا ثابت ہونا جوکہ تین ہیں ، مثلاً وراثت کےتین اسباب ہیں،نکاح ،ولاء ،قرابت۔تو اس شرط میں بھی ورثاء کے استحقاق کی حفاظت کی گئی ہے جو عین عادلانہ ہے، اس شرط کی روسے کوئی غیر وارث ،حقیقی وارث کے حصے کو غصب یا ہتھیا نہیں سکتا۔
مزید عدل کا عالم یہ ہے کہ اب شخص ان تین شروط پر پورا اترتے ہوئے میت کا وارث بننے کا اہل ہے لیکن اگر شرعی موانع میں کوئی ایک مانع بھی آگیا تو وارث نہیں بن سکتا ۔موانع بھی تین ہیں ۔
غلام ہونا :غلام نہ خود وارث بن سکتا ہے اور نہ ہی اس کا وارث بناجاسکتا ہے۔کیونکہ اس کی ساری کمائی مالک کی ملکیت ہوتی ہے۔
اس میں عدل کا پہلو یہ ہے کہ عام طور پر جنگوں کے دوران غیر مسلم قیدی لوگ غلام بن جاتے ہیں۔لہذا ایسے غیر مسلم جنہیں غلام بنایا گیا ہے کہیں وراثت کے طریق سے ان کے لئے کوئی مدد کا سلسلہ نہ بن جائے اور وہ اپنے مالک کے حقوق ادا نہ کرے۔ دوسرے نمبر پر یہ حکمت بھی نظر آتی ہے کہ اس غلام کی وجہ سے آزاد وارثوں کو نقصان نہ پہنچے۔ ظاہر سی بات ہے اس غلام کو وراثت ملنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کے مالک کی ملکیت ہوجانا کیونکہ غلام کا سب کچھ اس کے مالک کا ہے۔ اس طرح وہ مال نہ غلام کا رہا اور نہ ہی آزاد وارث کا۔شریعت نے اس ضابطے کے ذریعے ظلم و جبر کے بہت بڑے راستے کو بند کیا ہے،یوں سمجھ لیں کہ اس ضابطے کی وجہ سے بس ایک شخص غلام ہواور اگر یہ اصول ختم ہوجائے صرف وہ شخص ہی غلام نہیں رہے گا بلکہ اس غلامی کی لپیٹ میں اس کے تمام قریبی رشتے دار آجائیں گے۔
قتل:قاتل اپنے مورث کو کردے ،جس پر قصاص یا دیت لازم ہو،اس قتل کی وجہ سے یہ قاتل وراثت سے محروم ہوجاتا ہے۔
اس میں حکمت یہی نظر آتی ہے کہ مال و دولت کا حرص اور حصول مال کی جلدی کی بناء پر وہ اس طرح کا گناہ نہ کرے۔گویا کہ کسی مال ہتھیانا جہاں کسی دوسرے کے لئے ناممکن وہیں شرعی وارث بھی ناجائزطریقے سے ہتھیا نہیں سکتا۔
دین کا مختلف ہونا:مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ اور وجہ اس میں بھی یہی ہے کہ ایک کافر کی وجہ سے مسلمان ورثاء کے حصوں میں نقص واقع ہوجائے گا۔ اور دینی غیرت و حمیت کے منافی بھی ہے۔
بہرحال ان موانع کے ذریعے سے بھی عدل کو قائم کیا گیا ہےاور ظلم کے دروازوں کو بند کردیاگیا ہےتاکہ کسی اعتبار سے غیر مستحق شخص وارث نہ بن سکے۔
عدل کا اگلا مرحلہ
اب تک تو تقسیمِ وراثت کے حوالے سے ضروری امور کا ذکر ہوا جوکہ عین عادلانہ ہیں۔ لیکن تقسیم وراثت سے قبل شریعت میت کے حوالے سے حسن سلوک کا حکم دیتی ہےجوکہ میت کا حق ہے اور اس میں میت کے ساتھ عدل کا لحاظ رکھا گیا ہے۔
میت کی تدفین کا انتظام
میت کی تدفین کا انتظام کیا جائے گا ،اور ورثاء میں سے کوئی اس کے خرچ کا ذمہ لے لے تو یہ اس کے لئے باعث اجر ہے لیکن واجب نہیں۔ ورنہ میت کے مال سے ہی اس کا سارا خرچ ہوگا۔البتہ اگر میت نے مال نہیں چھوڑا تو اب ورثاء پر اپنی آمدنی سے تدفین کے انتظام کو سنبھالنا واجب ہے۔شریعت کے اس حکم میں میت اور اخلاف دونوں کے ساتھ ہی عدل کا پہلو موجود ہے۔اس لئے کہ انتظام و انصرام کو نہ ہی اخلاف کے ساتھ وجوبی طور پر مخصوص کیا گیا ہے کہ بہر صورت و ہی تدفین کا خرچ برداشت کریں اور میت کے مال سے کچھ خرچ نہ کیا جائےایسا ہرگز نہیں۔ اور نہ ہی انہیں بہر صورت بری کردیا گیا ہے کہ اگر میت کے ترکہ میں کچھ بھی نہیں تو بھی یہ بری ہیں ایسا بھی نہیں ہے۔
یہ تفصیل مکمل طور پر تمام اعتبارات سے عدل پر مبنی ہےکیونکہ کسی ایک کے ساتھ بہر صورت خرچ کا ذمہ لازم کردیا جائےتو یہ ناانصافی ہوگی ،بہرحال میت کی تدفین و تکفین کے انتظام سے پہلے وراثت کی تقسیم نہیں کی جاسکتی۔
میت کے قرض کی ادائیگی
میت کی تقسیم سے قبل دوسرا اہم ترین مرحلہ یہ ہے کہ میت کے ذمے جو قرض ہےاسے ادا کیا جائےیہ میت کے مال سے ادا کیا جائے گا اور اگر میت کوئی مال نہ چھوڑے یا قرض سے کم چھوڑے تو باقی ماندہ قرضہ کی ادائیگی ورثاء پر ہے۔
میت کی وصیت کا لاگو کرنا
تقسیم وراثت سے قبل ایک اہم معاملہ میت کی وصیت کا بھی ہےکہ اسے بھی لاگو کیا جائے۔ اور اس کے لاگو کرنے کے حوالے سے بھی شریعت کے بیان کردہ ضوابط اپنے اندر عدل والی امتیازیت سموئے ہوئے ہیں۔
وصیت کے احکام
ابتدائی دور میں وصیت فرض تھی ،وراثت کے تفصیلی احکام آجانے کے بعد اب اس کا حکم استحبابی ہے۔ایک تہائی سے زائد میں وصیت جائز نہیں۔جیسا کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں اس قدر بیمار ہوگیا کہ موت کو جھانکنے لگا رسول اللہ ﷺمیری عیادت کرنے آئے میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے پاس بہت زیادہ مال ہے اور میری بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کردوں؟ آپﷺ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: نصف؟ فرمایا: نہیں۔ میں نے کہا: ایک تہائی ؟ فرمایا: ہاںایک تہائی ، ایک تہائی بھی بہت زیادہ ہی ہے۔ تو اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ کرجائے یہ بہتر ہےاس سے کہ تو انہیں فقیر چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنےہاتھ پھیلائیں۔ [13]اگر ایک تہائی سے زائد پر وصیت ہوگی تو ورثاء زائد کے بارے میں حق رکھتے ہیں کہ اسے نافذ نہ کریں۔
وصیت وارث کے بارے میں کرناجائز نہیں۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کو اس کا حق دے دیا ہے۔ پس وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں۔[14]اگرایسی وصیت کی گئی تو وہ نافذ نہیں ہوگی۔
پہلے قرض کو ادا کیا جائے گا پھر وصیت کا نفاذ ہوگا۔
ورثاء کی طرف سے وصیت کو رد و بدل کرنا حرام ہے۔
وصیت میں کسی کو نقصان پہنچانا جائز نہیں۔جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک انسان مرد یا عورت ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت کے عمل کرتے رہتے ہیں ، پھر جب ان کی موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں (وارثوں کو) نقصان دے جاتے ہیں تو ان کے لئے آگ واجب ہوجاتی ہے۔[15]
کمزور طبقوں تک وراثت کی رسائی
اسلامی نظام وراثت کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ کمزور سے کمزور طبقوں تک بھی ان کا حق پہنچاتاہے جس کے وہ مستحق ہیں جبکہ اس خصوصیت سے دیگر مذاہب محروم ہیں۔ ہم ذیل میں ان کی قدرے وضاحت کرتے ہیں:
یتیم بچہ (Orphan)
یتیم بچہ معاشرے کا ایک کمزور طبقہ ہے،اسلام سے قبل یتیموں کا مال غصب کرلئے جاتے تھے۔ اسلام نے آکر یتیموں کے حوالے سے احکامات نافذ کئے ،اور ان کے ساتھ نارواں سلوک کرنے والوں کی مذمت کی اور ڈرایا گیا کہ اگر ان کی اولا د ان یتیموں کی جگہ ہوتی تب بھی وہ یہی چاہتے کہ ان کے ساتھ بھی وہی سلوک جو وہ یتیموں کے ساتھ کرتے ہیں۔اسلام نے جو احکامات یتیم کے حوالے سے دئیے ان میں چند ایک درج کئے جاتے ہیں۔
یتیم کے مال کی دیکھ بھال
یتیم کی کفالت کی ترغیب دلائی گئی اور اس کی فضیلت بھی بیان کی گئی ۔ جیساکہ رسول اللہ ﷺ نے سبابہ اور درمیان والی انگلی کوتھوڑے فاصلے کے ساتھ ملاتے ہوئے فرمایا کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والاجنت میں اس طرح ہونگے۔[16]
یتیم کا کفیل اگر مالدار ہے تو حد درجہ اس کے مال کو خرچ کرنے میں احتیاط برتے۔
اگر خودغریب ہے تو اس کے مال کو خرچ کرسکتا ہے ،لیکن فضول خرچی اور اسراف نہ ہو،اور نہ ہی مال ضائع کیا جائے اور نہ ہی یتیم کے مال سے اپنی جمع پونجی بنائی جائے۔[17]
یتیم کا مال کھانا کبیرہ گناہ ہے۔ [18]
بہرحال عام معاملات میں بھی اس کے ساتھ حسن سلوک اور وراثت کے حوالے سے بھی وہ جس حصے کا وارث ہے اسے دیا جائے گا نیز اس کی کفالت کی بھی ترغیب دلائی گئی اور بڑے ہوجانے پر اس کا مال اس کے حوالے کرنے کا بھی حکم دیا گیا۔
حمل (Unborn Child)
اسلامی نظام وراثت میں انتہا درجے کے عدل کی ایک عمدہ مثال یہ بھی ہے کہ اس نظام میں ماں کے پیٹ میں موجود حمل (اگر وہ پیدائش کے بعد شرعی طور پر وارث بنتا ہو) کے لئے بھی حصہ رکھ لیا جائے گااور اسے کالعدم نہیں سمجھا جاسکتا ،کیونکہ یہ اس کے ساتھ ناانصافی اور ظلم ہوگا۔ البتہ اس کی تقسیم کے حوالے سے مشکل یہ ہے کہ حمل کے بارے میں بہت سی باتوں کا علم نہیں ہوتا مثلاً وہ زندہ بھی ہوگا یا نہیں ،مذکر ہوگا یا مؤنث، پھر وہ ایک ہے یا ایک سے زائد ہیں ۔وغیرہ
بہرحال اس کا حل یہ ہے کہ اولاً کوشش یہی ہونی چاہئے کہ تمام ورثاء وضع حمل کا انتظار کریں،ورنہ حمل کے لئے اکثر حصہ روک کر باقی ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گایعنی اگر بچہ کی صورت میں حصہ زیادہ بنتا ہے تو وہ روک لیں گے اور اگر بچی کی صورت میں زیادہ بنتا ہے تو وہ روک لیں گےاور حمل کے لئے جس حیثیت (بچہ /بچی)سےحصہ روکا گیا ہے اگر وضع حمل کے بعد وہ وہی (بچہ یا بچی )ہے ،پھر تو ٹھیک۔ ورنہ اس کا حصہ کم کرکے وہ مال ورثاء میں تقسیم کردیا جائے گا۔مزید تفصیل اس حوالے سے کتب میراث میں دیکھی جاسکتی ہے،ہم یہاں جس حوالے سے بات کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ حمل کے لئے اس کا حصہ روک کر رکھنا اسلامی نظام وراثت کا امتیازی حکم ہے۔جو اس بچے کے ساتھ عین عدل ہے۔اور ظاہر سی بات ایک زندہ بچہ اس کی کم عمری کا ناجائز فائدہ اٹھایاجاسکتا ہے تو حمل کو نظر انداز کرنا بالاولیٰ ممکن ہے لیکن اسلامی شریعت کی پیروی میں ایسا ممکن نہیں۔
خنثیٰ (Transgender)
خنثیٰ (ہیجڑا) بھی معاشرے کا کمزور طبقہ ہے ،شریعت کے مطابق وارثت کا حقدار ہے۔اور جس حصے کا یہ مستحق ہے وہی اسے دیا جائے ،خنثیٰ کی تین صورتیں ہیں1جس کی ہیئت عورتوں جیسی ہو تو اسے عورت کے اعتبار سے ہی حصہ ملے گا،2جس کی ہیئت مرد جیسی ہو اسے مرد کے اعتبار سے ہی حصہ ملے گا اور 3تیسرے معاملہ کو بھی حل کیا گیا ہے جسے خنثیٰ مشکل کے نام سے جانا جاتا ہے،یعنی جس میں مرد و عورت والی دونوں ہیئتیںہوں یا دونوں ہی نہ ہوں،(بچپن میں نہ ہوں،عام طور پر بڑے ہوکر تعین ہوجاتاہے۔) اہل علم نے اس پر بھی بحث کی اور حل کیا، جس کی تفصیل کتب میراث میں دیکھی جاسکتی ہے۔بس یہاں اس قابل غور پہلو کی طرف صرف اس قدر نشاندہی مقصود ہے کہ ایک ایسا طبقہ جو معاشرے کا انتہائی کمزور طبقہ ہے اس میں بھی اگر حسب استحقاق حصہ پہنچ رہا ہے ،اس سے بڑھ کر عدل کی کیا حد ہوسکتی ہے؟؟
عورت (Woman)
اسلام عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیتا ہے،چنانچہ قرآن مجید میں فرمان باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُوا النِّسَاءَ كَرْهًا ۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللَّـهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
النساء – 19
ترجمہ: ’’ اے ایمان والو! تمہارے لیے یہ جائز نہیں کہ تم زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو ۔ اور نہ ہی انہیں اس لیے روکے رکھو کہ جو مال (حق مہر وغیرہ) تم انہیں دے چکے ہو اس کا کچھ حصہ اڑا لو ۔ اِلا ّ یہ کہ وہ صریح بدچلنی کا ارتکاب کریں ۔ اور ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ کوئی چیز تمہیں ناگوار ہو مگر اللہ نے اس میں بہت بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘
جیسا کہ گزشتہ سطورمیں گزر چکا کہ یہودیت اور دیگر مذاہب میں عورت کا وارث بن جانا بہت مشکل ہے،لیکن اسلام نے عورت کی مختلف حیثیتوں کو سامنے رکھا اور ان حالتوں کی حیثیت کے بقدر اس کا حصہ مقرر کیا۔جیسا کہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
عورت ماں کی حیثیت سے
اولاد یا ایک سے زائد بہن بھائی کی موجودگی میں چھٹے حصے کی مستحق ٹھہرتی ہے۔(دیکھئے سورۃ النساء کی آیت نمبر11) ورنہ کل مال سے ایک تہائی ملے گا۔ اور ایک صورت میں ماں کو باقی ماندہ کا ایک تہائی مال ملے گا۔ اور وہ یہ ہے کہ ورثاء میں خاوند ،ماںاور باپ یا بیوی ماں اور باپ ہوں۔جسے مسئلہ عمریتین کے نام سے جانا جاتاہے۔
عورت بیٹی کی حیثیت سے
بیٹی کی حیثیت سے اگر اولاد میں اکیلی بیٹی ہی ہے تو اسے نصف مال ملے گا۔
ایک سے زائد بیٹیاں ہوںتو انہیں دو تہائی مال ملے گا۔
اور اگر بیٹے و بیٹیاں دونوں ہوں تو مرد کو دو حصے اور عورت کو ایک حصہ کے اصول کے تحت مال تقسیم ہوگا۔(دیکھئے سورۃ النساء :11)
عورت بہن کی حیثیت سے
بہنوں کی کئی صورتیں ہیں ،مثلاً سگی بہن ،علاتی بہن (باپ کی طرف سے بہن )، اخیافی بہن (ماں کی طرف سے بہن ) ۔ان تینوں حیثیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے حصے میں بھی تبدیلی آئے گی جیسا کہ درج ذیل ہے۔
سگی بہن
اگر سگی بہن اکیلی ہے اور میت کی کوئی اولاد نہیں تو اس صورت میں بہن کو آدھا مال ملے گا۔
اگر ایک سے زائد ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا۔جوان کے مابین تقسیم ہوگا۔
اگر بہن کا بھائی موجود ہے تو یہ عصبہ بالغیر ہونے کی حیثیت سے وارث بنے گی ۔بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ مل جائے گا۔
اگر صرف بیٹی موجود ہےیا پوتی موجود ہے تو اس صورت عصبہ میں مع الغیر ہونے کی حیثیت سے باقی ماندہ مال کی وارث بنے گی اور بیٹی یا پوتی کو نصف مال ملے گا۔
اگر میت کا بیٹا یا پوتا ،باپ یا دادا موجود ہے تو ایسی صورت میں سگی بہن محروم ہوجائے گی۔
علاتی بہن (باپ کی طرف سے بہن )
اگر میت کے باپ،دادا اور اولاد موجود نہیں اور نہ ہی سگے بہن بھائی ہیںاور نہ ہی علاتی بھائی (باپ کی طرف سے بھائی ) ہےاور علاتی بہن اکیلی ہے تو اس صورت میں اسے نصف مال ملے گا۔اور اگر ایک سے زائد ہیں تو دو تہائی ملے گاجو کہ ان کے مابین تقسیم ہوگا۔اور اگر سگی بہن موجود ہے تو چھٹا حصہ تکملۃ للثلثین ملے گا۔اور علاتی بہن یا علاتی بھائی کی موجودگی میں یہ عصبہ بالغیر ہونے کی حیثیت سے وارث بنے گی۔
اخیافی بہن (ماں کی طرف سے بہن )
اخیافی بہن اگر اکیلی ہے اور میت کی اولاد اور باپ دادا موجود نہیں تو اسے چھٹا حصہ ملے گا۔اور اگر ایک سے زائد ہیں تو انہیں ایک تہائی حصہ ملے گا۔اور اگر میت کی اولاد یا باپ دادا موجود ہے تو یہ وراثت سے محروم ہوجائیں گی۔
عورت بیوی کی حیثیت سے
اگر اولاد موجود نہ ہو تو اسے کل مال سے چوتھا حصہ ملتا ہے۔ اور اگر اولاد موجود ہوتو اسے آٹھواں حصہ ملتا ہے۔(دیکھئے سورۃ النساء : آیت نمبر:12)
عورت دادی اور نانی کی حیثیت سے
اگر میت کی ماں موجود نہیں اور نانی ،دادی ہے تو یہ چھٹے حصے کی حق دار ہیں۔ ماں کی موجودگی میں دونوں کو کچھ نہیںملے گا اور باپ کی موجودگی میں دادی کو کچھ نہیں ملے گا۔
عورت پوتی/پڑ پوتی (الی ما نزل )کی حیثیت سے
اگر وہ اکیلی ہے اور میت کا بیٹا ،بیٹی اور پوتے کی عدم موجودگی میں اگر پوتی اکیلی ہے تو نصف مال کی حق دار اور ایک سے زائد ہیں تو دو تہائی مال کی حق دار ہیں۔اور اگر بیٹی بھی ہے اور پوتی بھی تو بیٹی کو نصف اور پوتی کو تکملۃ للثلثین(یعنی بیٹیوں کے حصے دو تہائی کو پورا کرنے کے لئے ) چھٹا حصہ ملے گا۔اور اگر پوتا موجود ہے تو عصبہ بن جائے گی،اصحاب الفرائض سےبچا ہوا باقی ماندہ پوتا ،پوتی میں للذکر مثل حذ الانثیین (مرد کے دو، عورت کا ایک حصہ)کے اصول کے تحت تقسیم ہوگا۔اور اگر میت کا بیٹا موجود ہے چونکہ باقی ماندہ مال وہی لے لے گا ایسی صورت میں پوتی یا پوتےکوکچھ بھی نہیں ملے گا۔
خلاصہ
اس ساری تفصیل کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام مختلف صورتوں میں عورت کی حیثیت کے بقدر اس کا حصہ بھی تبدیل ہورہا ہے۔ لہذا اسلامی نظام وراثت میںتفصیلی طور پر عورت کی تمام حیثیتوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسے مناسب حصہ دیا گیا ہے۔ جبکہ دیگر مذاہب اسے سرے سے محروم کررہے ہیں۔
باطل شبہ کا ازالہ
عام طور پر بعض لوگ یہ اعتراض کرتے نظر آتے ہیںکہ اسلام عورت کو کم حصہ دیتا ہے اور مرد کو زیادہ حصہ دیتا ہے ۔
یہ شبہ بالکل باطل ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام ہر وارث کو اس کی حیثیت ،میت سے قرابت اور ذمہ داریوں کو سامنے رکھتے ہوئے حصہ دیتا ہے،جس میں ورثاء کے حصے میں باہم تفاوت لازمی امر ہے،جہاں تک عورت کے حصے کا تعلق ہے اس کا معاملہ بھی یہی ہے،جہاں اس کاحصہ زیادہ ہے وہاں اس کی قرابت اور ذمہ داری کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ کبھی مردوں کاباہم ایک دوسرے سے حصہ کم زیادہ ہوسکتا ہےاورکبھی دو عورتوں کا حصہ آپس میں ایک دوسرے سے کم زیادہ ہوسکتا ہے، اسی طرح مرد و عورت کا حصہ بھی ایک دوسرے سے کم اورزیادہ ہوسکتا ہے۔اور وجہ ان کی حیثیتوں کا فرق ہے۔
دوسری بات جو بڑی اہم ہے ہمیشہ عورت کا مرد سے حصہ کم نہیں ہوتا ،بلکہ اس میں خاصی تبدیلیاں آتی ہیں۔ جیساکہ درج ذیل ہیں۔
کبھی عورت کا حصہ مرد کی بہ نسبت زیادہ ہوتا ہے۔مثال کے طور پرایک شخص فوت ہوا اور اس کے ورثاء میں اس کی بیٹی اور والدین ہیں ۔ اب اس صورت میں بیٹی کو آدھا مال مل جائے گا اور ماں کو کل مال سے چھٹا حصہ ملے گااور بقیہ باپ کو ملے گا،یوں سمجھ لیں گے 100 روپے میں سےپچاس روپے بیٹی کو ملے اور 6.16 روپے ماں کو ملے اور باقی 4.33 روپے باپ کو ملیں گے۔
اب اس صورت میں بیٹی( جوکہ ایک عورت ہے) میت کے باپ (جوکہ ایک مرد ہے) سے زیادہ حصہ لے رہی ہے۔
اس سے بھی زیادہ واضح مثال پر غور کریں
ایک عورت مال وراثت چھوڑ کر فوت ہوئی،ورثاء میں بیٹی ،شوہر اور باپ ہیں۔
بیٹی کو آدھا حصہ ملے گا ،شوہر کو چوتھا حصہ ملے گا اور باپ کو باقی ماندہ مال ملے گا، یوں سمجھ لیں گے 100 روپے میں سےپچاس روپے بیٹی کو ملے اور 25 روپے شوہر کو ملے اور باقی 25روپے باپ کو ملیں گے۔
اب اس مثال میں غور کریں ایک عورت کو اتنا مال ملا جوکہ دو مردوں کو مل رہا ہے۔
کبھی مرد کی بہ نسبت کم ہوتا ہے۔مثال کے طور پرپانچ حالتوں میں مرد کو عورت کی بہ نسبت دگنا مال ملتا ہے، دو حالتوں کا تعلق باپ اور ماں سے ہے، (1) جب میت کے ورثاء میں صرف والدین ہی ہیں اور کوئی اولاد بھی نہیںتو باپ کا حصہ ماں سے دگنا ہوجاتا ہے، کہ ماں کوایک تہائی اور باقی دوتہائی باپ کو مل جائے گا۔ وجہ یہ ہے کہ میت کے باپ کے ذمے میت کی ماں کی(جوکہ اس کی بیوی ہے) کفالت ہے۔ (2)ورثاء میں میت کی صرف بیٹی اور والدین ہیں۔ایسی صورت میں بیٹی کو نصف اور ماں کوچھٹا حصہ، باقی ماندہ باپ کومل جائے گا جوکہ ثلث بچے گا۔ اور یہاں دگنا دینے میں بھی یہی مصلحت ہے کہ میت کی ماں کا واحد کفیل باپ ہے جوکہ اس کا شوہر ہے شرعاً بیٹی میت کی ماں یعنی اپنی دادی کی کفیل نہیں۔
واضح رہے کہ ایک صورت میں ماں باپ کا حصہ برابر ہوجاتا ہے،جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
باقی تین صورتیں یہ ہیں۔
(1) شوہر کی بیوی کی بہ نسبت دگنا ،اوروجہ بھی واضح ہے کہ شوہر کے ذمہ بیوی اور بچوں کی کفالت بھی ہے۔ (2) میت کی اولاد میں مذکر کو مؤنث کی بہ نسبت دگنا ملے گا۔ وجہ بھی واضح ہے کہ ان بیٹوں پر میت کی بیٹیوں (جوکہ ان کی بہنیں ہیں) کی کفالت کا ذمہ ہے اور ان کی تربیت سے لے کر شادی تک کے معاملات انہیں کے ذمے ہیں۔ (3)میت کے بہن بھائیوں میں بھی باہم تقسیم اسی طرح ہوگی کہ مذکر کو مؤنث کی بہ نسبت دگنا ملے گا،وجہ وہی ہے جو ابھی مذکور ہوئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان پانچ صورتوں میں مذکر کا حصہ مؤنث سے دگنا ہے اور اس کی وجہ بھی واضح ہے۔ تو لہٰذا اس میں عورت میں کسی قسم کی زیادتی نہیں ،بلکہ اس کے لئے مرد کی بہ نسبت آسانی ہی ہے،کیونکہ وہ اپنے حصے کو چاہے بچائے یا خرچ کرے لیکن مرد پر تو اس کی کفالت لازم ہے اس لئے اس کے لئے بچاکر رکھنا تو مشکل ہے۔
کبھی مرد کے برابر بھی ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پر
میت کے اخیافی (ماں کی طرف سے بہن بھائی ) کا حصہ ان کے درمیان مذکر و مؤنث میں برابر برابر تقسیم کیا جائے گا۔
اسی طرح اگر میت کی اولاد میں بیٹے موجود ہیں ،ایسی صورت میں ماں باپ کا حصہ برابر ہوجاتا ہےکہ دونوں میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ عورت کو حصہ مل جاتا ہے اور مردمحروم ہوجاتا ہے۔
مثال کے طور پرکوئی شخص فوت ہوا ،اور ورثاء میں بیٹی /بیٹیاںاور سگی بہن /بہنیں ہیں،اور چچا/علاتی بھائی/اخیافی بھائی ہیں۔
اس صورت میں بیٹی/بیٹیاںاور سگی بہن /بہنوں میں ہی کل مال تقسیم ہوجاتا ہے ،اور چچا/علاتی بھائی/اخیافی بھائی محروم ہوجاتے ہیں۔
اور پھر میت کے ورثاء میں سے تین قسم کے مردوں (شوہر ،بیٹا اور باپ) کی طرح تین قسم کی عورتیں بھی ایسی ہیں جو کلی طور پر میت کی وراثت سے محجوب (محروم) نہیں ہوسکتیں اور وہ بیوی ،بیٹی اور ماں ہیں ۔
خلاصه کلام
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اسلامی نظام وراثت ایک ایسا عادلانہ نظام ہے کہ جس میں میت کے لئے وصیت کا حق رکھا گیا لیکن اس کی حدود کو بیان کردیا گیا۔تاکہ کسی بھی طبقے کے ساتھ ظلم و زیادتی نہ ہو۔
غیر مستحقین کے قبضے اور غصب کا خاتمہ کردیا گیا ہے۔ اور اس میں ذرا برابر بھی قبضہ مافیا کی کوئی گنجائش نہیں۔
میراث میں عورت کا حصہ مقرر کیا اور اس حوالے سے ظلم کی تمام صورتوں کو ختم کیا۔بلکہ معاشرے کے کمزور سے کمزور طبقے تک وراثت کی تقسیم کو پہنچایا گیا ہے۔
عمر کے حوالے سے صغر و کبر کے فرق کا ایسا خاتمہ کردیا گیا کہ کوئی بد نیت کسی کی صغر سنی کا فائدہ نہیں اٹھاسکتا۔
ورثاء کے حصے کو ان کی حیثیت ،درجہ اور ذمہ داری کو ملحوظ رکھتے ہوئے حصہ مقرر کیا گیا۔
واللہ ولی التوفیق ، وما علینا الا البلغ المبین