حافظ صلاح الدین یوسف [1]
سوال : انکار حدیث کا مطلب اور منکر حدیث کا مصداق کون ہے؟
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین وبعد
الجواب بعون الوھاب والیہ المرجع والمآب
یہ سوال اور اس کا جواب ، اس لحاظ سے بڑی اہمیت کا حا مل ہے کہ مستشرقین کے ڈسے ہوئے یا شاید مغرب کی عشوہ طرازیوں سے مسحور ، یا اپنے خود ساختہ نظریات کے فتراک کے نخچیر، جس حدیث کو چاہتے ہیں قبول کرلیتے اور جس کو چاہتے ہیں رد کر دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ احادیث جن کی صحت پر امت مسلمہ متفق ہے اور انہیں امت کا تلقی بالقبول حاصل ہے ( جیسے صحیحین کی احادیث اور دیگر صحیح احادیث ہیں) تو وہ اگر ان کے مزعومات اور باطل نظریات کے خلاف ہوتی ہیں تو وہ مردود اور ضعیف ومنکر، حتیٰ کہ موضوع روایت سے بھی اگر ان کا مطلب پورا ہوتا ہو تو وہ مقبول قرار پاتی ہیں ۔
اس طرح وہ بہت سی صحیح حدیثوں کو خلاف قرآن یا عقل کے خلاف باور کراتے ہیں اور ان کو رد کردیتے ہیں۔جب کہ مسلم امہ کے علماء اور ائمہ احدیث ، ہر اس حدیث کو صحیح اور قابل حجت سمجھتے ہیں جو محدثین کے بنائے ہوئے نقد و تحقیقِ حدیث کے اصول اور ضوابط جرح و تعدیل کی روشنی میں صحیح قرار پاتی ہے یا قرار پائی ہے اور جو اس کے برعکس ہیں وہ ضعیف ، منکر یا موضوع ہیں اور وہ نا قابلِ حجت ہیں۔علاوہ ازیں علمائے امّت اور ائمہ حدیث کے نزدیک کوئی بھی صحیح حدیث نہ قرآن کے خلاف ہے اور نہ عقل کے خلاف۔ صحیح حدیث کو خلافِ قرآن یا خلاف عقل قرار دینا ، ہر باطل گروہ کا شیوہ رہا ہے اورہے، کیونکہ اس کے بغیر ان کے باطل نظریات کا اثبات ممکن نہیں۔
جیسے حدرجم کی روایات ہیں ۔یہ متواتر بھی ہیں کہ تین درجن صحابہ سے مروی ہیں ۔ اور ان کی صحت پر پوری امّت کا اجماع و اتفاق بھی ہے۔ لیکن ایک گروہ اپنے خود ساختہ نظریہ رجم کے اثبات کےلئے ان روایات کو خلاف قرآن باور کرا کے ردّ کر رہا ہے۔[2]
اس طرح حدیث ،ان باطل نظریات کے حامل گروہوں کے ہاں تختہ مشقِ ستم بنی ہوئی ہے اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو حدیث کا حمایتی اور حدیث کا ماننے والا باور کراتے ہیں۔ لیکن حدیث کو ردّ کرنے کے لئے حدیث کی ایسی تعریف کرتے ہیں جس سے حدیث از خودمردود قرار پا جاتی ہے۔ جیسے اس گروہ کے بزرگ نے کہا کہ: حدیث اور سنت دو الگ الگ چیزیں ہیں ، سنت تو امّت کا وہ تواتر عملی ہے جس کی رو سے نماز وغیرہ عبادات کے طریقے مسلّمہ چلے آ رہے ہیں اور یہ قرآن کی طرح حجت ہیں اور حدیث کا مطلب ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال اور تقریرات۔ لیکن احادیث چونکہ ظنی (یعنی مشکوک ) ہیں اس لئے یہ غیر محفوظ اور نا قابلِ اعتبار ہیں ۔[3]
یوں سنت و حدیث کی الگ الگ تعریف کر کے سارے ذخیرہ حدیث کورد کر دیا ۔ اس لئے ان صاحب نے صحیحین کی بیسیوں روایات کو مردود قرار دے دیا ہے۔
ان صاحب کے شاگرد نے نہلے پر دھیلا مارتے ہوئے اس میں اور اضافہ کیا اور فرمایاکہ’’ سنت دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ‘‘۔[4]
اور ان سنتوں کی تعداد بھی انہوں نے متعین فرمادی ہے کہ وہ صرف 27ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ہی فرما دیا ہے کہ ’’سنت یہی ہے ۔ ان کے علاوہ یعنی قرآن اور ۲۷ سنتوں کے علاوہ ) کوئی چیز دین ہے نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے‘‘ (حوالہ مذکورہ)
کیسا ادعائی انداز ہے اور کتنا بڑا دعویٰ ہے کہ دین صرف یہ 27سنتیں ہیں ۔
اس شوخ چشمانہ جسا رت کا حوصلہ ان صاحب کے اندر کس نے پیدا کیا؟ صرف سنت کی اپنی گھڑی ہوئی تعریف نے۔ اس طرح ان کےپیش رو اور “امام استاذ ” مولانا امین احسن اصلاحی نے حدیث اور سنت کو الگ الگ کر کے سارے ذخیرہ احادیث کو غیر محفوظ اور ایک دفتر بے معنی قرار دے دیا ۔اور اس کی وجہ بھی ان کا علمی پندار اور زعم ہمہ دانی ، نیز حدیث و سنت کے درمیان تفریق کرنا ہے۔ جب کہ محدثین کے نزدیک یہ دونوں لفظ مترادف المعنی ہیں اور دونوں سے مراد اقوال و افعال اور تقریرات رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔
بہر حال یہ فراہی گروہ اور اس طرح کے دیگر گروہ ، جو قرآن کو حدیث کی روشنی میں سمجھنے کے قائل نہیں ، بلکہ لغت یا اپنے خود ساختہ نظریات کی روشنی میں قرآن کی من مانی تفسیر کرنے کے قائل ہیں ۔ یہ سارے گروہ حدیث کے بارے میں ذہنی تحفظات رکھتے ہیں ، اس لئے بالکلیہ حدیث کو ردّ نہیں کرتے بلکہ اپنے مزعومات کے مطابق حدیث کو مانتے یا اس کو ردّ کرتے ہیں۔ ردّ و قبولِ حدیث کے ان مسلمہ اصولوں کو نہیں مانتے جو محدثین نے وضع کئے اور پوری امت انہی کی روشنی میں حدیث کو قبول یا ردّ کرتی ہے۔
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کوئی بھی گروہ کلی طور پر حدیث کا منکر نہیں ہے۔ اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انکار حدیث کا فتنہ سرے سے موجود ہی نہیں ہے اور فتنہ انکارِ حدیث کا جو شورو غوغا ہے وہ یوں ہی ہے ۔ حقیقت میں کوئی بھی منکرِ حدیث نہیں ہے۔
انکارِ حدیث کا مطلب اور اس کا مصداق:
لیکن کیا واقعتاً ایسا ہی ہے ۔ نہیں ہر گز نہیں ۔ انکارِ حدیث کا فتنہ اپنی پوری حشر سامانی کے ساتھ نہ صرف موجود ہے بلکہ روز افزوں اور وسعت پذیر ہے۔ اس لئے ہمیں غور کرنا ہوگا کہ انکارِ حدیث کا مطلب کیا ہے ؟ اور اسکا مصداق کون یا کون کون ہیں؟
گمراہ فرقوں اور ان کی گمراہیوں کا علیٰ وجہ البصیرت جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ مسلّمہ اصلاحات کو ان کے مسلّمہ مفہوم کے مطابق ماننے کے بجائے ، ان کے مفہوم میں تبدیلی کرنا اور اپنے ذہنی تحفظات یا خود ساختہ نظریات اور باطل مزعومات کی روشنی میں ان کا نیا مفہوم گھڑنا ، یہ ان کی گمراہی کی اصل بنیاد ہے اور اس فن کا رانہ چابکدستی سے وہ بہت سے لوگوں کو یا کم از کم اپنے حلقہ ارادت کو یہ باور کروا دیتے ہیں کہ وہ ان چیزوں (مسلمات) کے منکر نہیں ہیں جو ان اصطلاحات کا متبادر مفہوم ہے، یا اگر وہ ان کے منکر ہیں تو اس کی وجہ وہ احادیث ہیں جو قرآن کے خلاف ہیں ۔جیسے پرویزی گروہ ہے جس نے صلاۃ و زکوٰۃ کے مسلّمہ مفہوم کو بدل کر ان کا ایک نیا مفہوم گھڑا جس کی بنیاد حدیث کے بجائے سنت پر ہے۔ ذرا ملاحظہ فرمائیں ، غلام احمد پرویز لکھتا ہے :
’’الصلوٰۃ ، صراطِ مستقیم پر چلنے کا نام ہے ، وہ صراط جس کے بارے میں فرمایا کہ انّ ربّی علیٰ صراطٍ مّستقیم ـ’’ تیرے نشونما دینے والے کا قانون ربوبیت ، خود متوازن راہ پر چل رہا ہے ‘‘ اس کے پیچھے پیچھے تم بھی چلتے جاؤ۔ مُصلِّی، اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو گھوڑا دوڑ میں پہلے گھوڑے کے بالکل پیچھے پیچھے ہو، جو اِدھر اُدھر کی راہوں میں نکل جائے وہ مُصلِّی نہیں‘‘[5]
یہ اقتباس لغت کے بَل پر تفسیر کرنے کا شاہکار ہے۔ پہلے اِنّ ربّی علیٰ صراطٍ مُّستقیم کا سیدھا ترجمہ: (میرا رب سیدھے راستے پر ہے ) چھوڑ کر ’’لغوی ترجمہ ‘‘ملاحظہ ہو:’’تیرے نشونما دینے والے کا قانون ربوبیت ، خود متوازن راہ پر چل رہا ہے‘‘
یہ ترجمہ لغوی ہے یا نہیں ؟ تاہم فکر پرویزی یا حیلہ پرویزی کا پورے طور پر غماز ہے کیونکہ اسی پرویزی مفہوم پر ’’الصلوٰۃ ‘‘ کا لغوی مفہوم متفرع ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ہے : ’’اس کے پیچھے پیچھے تم بھی چلتے جائو‘‘ ، اس کے بعد حاصل مراد ملاحظہ ہو: ’’ مُصلِّی، اس گھوڑے کو کہتے ہیں جو گھوڑا دوڑ میں پہلے گھوڑے کے بالکل پیچھے پیچھے ہو‘‘، لیکن مُصلِّی کے معنی (نماز پڑھنے والا) نہیں بلکہ پیچھے پیچھے چلنے والے گھوڑے کے ہیں۔ اور جس’’قانون ربوبیت ‘‘ کے پیچھے پیچھے چلنا ہے ، وہ کیا ہے؟ کمیونسٹ نظام ، یا سوشلزم ہوگااور مُصلِّی (نماز پڑہنے والے ) سے مراد ہے جو اس نظام کے پیچھے پیچھے چلے گا۔
یہ قرآن کی لغوی تفسیر کا کیسا شاہکار نمونہ ہے۔
پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
جوبات کی خدا کی قسم لاجواب کی
زکوٰۃ کے بارے میں بھی پرویزیوں کی لغوی تفسیر ملاحظہ ہو:
’’ایتائے زکوٰۃ ‘‘ اسلامی حکومت کا بنیادی فریضہ ہے۔ یعنی تمام افراد معاشرہ کو سامان نشوو نما بہم پہنچانا ۔ اس مقصد کے پیشِ نظر اس کی تمام آمدنی ’’ زکوٰۃ یعنی ذریعہ ‘‘ نشوونما کہلا سکتی ہے‘‘[6]
یعنی ایتائے زکوٰۃ ہر صاحبِ نصاب کی ذمّہ داری نہیں ہے، بلکہ یہ حکومت کی ذمّہ داری ہے۔ گویا نماز کے بعد زکوٰۃ کی ادائیگی سے بھی فراغت ۔ مزید ملاحظہ فرمایئے:
’’ ہمارے ہاں ’’ایتائے زکوٰۃ ‘‘ کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ وہ زکوٰۃ دیں گے (یعنی لوگ زکوٰۃ دیں گے ) اور زکوٰۃ سے مراد لیا جاتا ہے کہ جمع شدہ مال و دولت سے سال کے بعد اڑھائی فیصد روپیہ نکال کر غریبوں کو دے دینا ۔۔۔‘‘ ایتائے زکوٰۃ کا یہ مفہوم قرآنی نہیں ‘‘[7]
اس طرح غلام احمد پرویز نے احادیث اور مسلّماتِ اسلامیہ کو نظر انداز کر کے لغت کے نام پر قرآنی حقائق کوجن کا صحیح تعین احادیث سے ہوتا ہے ، بری طرح مسخ کر کے اسلام کا ایک نیا ایڈیشن تیار کیا ہے۔اور یہ صرف پرویز ہی نہیں اور بھی بعض ’’اہلِ علم ‘‘ نے اسی منہج پر چلتے ہوئے قرآنی حقائق اور مسلّمات اسلامیہ سے انحراف کیا ہے ۔ ایک ایسے ہی پرویز و غامدی کے ہم نواپروفیسر خورشید عالم صاحب ہیں ۔ ان صاحب نے ’’ لغات قرآن اور عورت کی شخصیت ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں عورت کے بارے میں ان تمام اسلامی تصورات کی نفی کی گئی ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور چودہ سو سال سے امّتِ مسلمہ میں مسلّم چلے آرہے ہیں مثلاً
عورت کو پردے میں رکھنا ، اس کو زندہ درگور کر دینا ہے۔
مرد اور عورت میں کامل مساوات ہے۔ ہر وہ کام جو مرد کرتا ہے عورت بھی کر سکتی ہے
اس لئے عورت کا مردوں کے ساتھ ہر شعبہ زندگی میں شانہ بشانہ کام کرنا نہ صرف جائزہے بلکہ ملکی ترقی کے لئے نا گزیر ہے۔
مرد و عورت کی گواہی برابر ہے اور ہر معاملے میں اس کی گواہی مقبول ہے۔
ملکہ سبا ایک مثالی عورت تھی اور اس کی طرح عورت حکومت کی سربراہ بن سکتی ہے۔
حور عین ، یہ اہلِ جنت کی بیویاں نہیں بلکہ ان کی ساتھی اور ہم نشیں ہو ں گی اور بہن بھائیوں کی طرح آمنے سامنے بیٹھی ہوں گی۔اور یہ جس طرح مردوں کے لئے ہوں گی ، عورتوں کے لئے بھی ہوں گی ۔
مخلوط تعلیم جائز ہے۔
حضرت سارہ ، حضرت مریم ، حضرت آسیہ کی بابت ان کا رجحان ان کی نبوت کی طرف ہے ۔
مرد و عورت کا دائرہ کار الگ الگ نہیں ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک فاضل مصنفہ پروفیسر ثریا بتول علوی (بنت مولانا عبد الرّحمٰن کیلانی رحمہ اللہ) فرماتی ہیں:
’’ اس طرح یہ کتاب عربی لغت اور گرامر کے پردے میں عورت کے بارے میں پورا مغربی ایجنڈا مسلمانوں میں قرآن کے نام پر رائج کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔اگر اپوائی بیگمات یا این جی اوز ، اسلام کے خاندانی اور تمدنی و معاشرتی مسائل کے بارے میں بات کریں تو سب کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ غلط مسائل مسلم معاشرے میں پھیلائے جا رہے ہیں۔ مگر گھمبیر مسئلہ اس وقت بنتا ہے جب نام نہاد علماء و فاضلین حضرات اپنے علم و فضل کے زعم میں ، عربی لغت کے زور پر اپنی چرب زبانی کی بنیاد پر وہی کام کرتے نظر آتے ہیں جو اہلِ مغرب کو مطلوب ہے تو پھر تلبیسِ ابلیس ہمارے لئے بہت خطرناک بن جاتی ہے۔
تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ روشن خیال حضرات جو حسبنا کتاب اللہ کا دعویٰ رکھتے ہیں ، خود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قرآن پاک کی تشریح و تفسیر کا حق دینے کو تیار نہیں ۔ ان کو اپنی عربی دانی پر اتنا بھروسہ ہے کہ اسی کی بنیاد پر فرنگیت کو اسلام میں داخل کرتے نظر آتے ہیں ۔ وہ مغربی فکر کو زبردست لفاظی کے ذریعے قرآن و حدیث میں سے کشید کرنے لگ جاتے ہیں ۔وہ تاویل اور اجتہاد کا کلہاڑا ہاتھ میں لے کر عربی گرامر، لغت اور عربی شاعری کی مدد سے عورت کا دائرہ کار وہی متعین کرتے نظر آتے ہیں جو یو این او کے ایجنڈے ، سیڈا (CEDAW) کو مطلوب ہے۔ غرض مصنف نے پرویزی فکر کو آگے بڑھایا اور غامدی فکر کو خوب پروان چڑھایاہے۔ لغات قرآن کے پردے میں شیطان کو کمک بہم پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ یہ مارِ آستین ہیں جو اپنے فساد فکر و نظر سے امّتِ مسلمہ کو نقصان پہنچانے کے لئے پوری طرح کوشاں ہیں ‘‘۔[8]
اصلاحی صاحب کا رویّہ ، منکرین حدیث ہی کی ہم نوائی:
گذشتہ چند مثالوں سے واضح ہے کہ جو لوگ مغربی تہذیب کو مشرف بہ اسلام کرنا چاہتے ہیں وہ احادیث کو نظر انداز کر کے قرآن کے نام پر اپنا یہ ایجنڈا پورا کر رہے ہیں ۔ اسلامی تہذیب کی تشکیل میں حدیث کا کردار بنیادی ہے۔اس بنیاد کو درمیان سے نکال دیا جائے تو پھر قرآن سے لغت کے ذریعے سے اور باطل تاویلات کے زور پر جو چاہے ثابت کرنا اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا آسان ہو جاتا ہے ۔ منکرینِ حدیث قرآن کی آڑ میں یہی کچھ کر رہے ہیں ۔
اصلاحی صاحب کا رویّہ بالکل مذکورہ گروہوں کی طرح تو نہیں ہے لیکن ایک تو وہ خود بھی منکرینِ حدیث کی طرح حدیث کو ناقابلِ اعتبار سمجھتے ہیں۔ دوسرے، اپنے خود ساختہ اور مزعومہ نظریات کے اثبات کے لئے احادیث کو نظر انداز کر کے عربی لغت ہی کا سہارا لیتے ہیں۔ اس طرح کم و بیش کے فرق کے ساتھ وہ منکرین حدیث ہی کے ہم نوا قرار پاتے ہیں۔
حدّرجم کی متفق علیہ اور متواتر روایات کا انکار کر کے اپنے خود ساختہ نظریہ رجم بطور تعزیر کے لئے انہوں نے بھی قرآن کے لفظ ’’تقتیل‘‘ سے بہ زعم خویش عربی گرامر اور لغت ہی کا سہارا لیا ہے ۔
ایک دوسری مثال : کسی عورت کو یکے بعد دیگرے تین طلاقیں مل جائیں ، یعنی وہ عورت مبتوتہ(طلاق بتّہ کی حامل ) ہو جائے تو ایسی عورت کا نکاح اب اسی خاوند سے دوبارہ نہیں ہوسکتا ۔ یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے خاوند سے باقاعدہ ہمیشہ آباد رہنے کی نیّت سے نکاح کرے ، پھر اتفاقیہ اس کو وہاں سے طلاق مل جائے یا زوج ثانی فوت ہو جائے تو اس کا دوبارہ نکاح پہلے خاوند سے کرنا جائز ہوگا۔ اس کے لئے قرآن کے الفاظ یہ ہیں : [حَتّیٰ تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہٗ]( البقرہ-230) ’’یہاں تک کہ وہ زوج اوّل کے علاوہ کسی اور سے نکاح کرے‘‘۔
اس آیت میں نکاح کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عربی لغت میں نکاح کے دو معنی ہیں ۔ پہلا عقد نکاح ۔ دوسرا ، وطی ( ہم بستری) کرنا ۔ حدیث کی رو سے یہاں نکاح بمعنی وطی (ہم بستری کرنا) ہے۔ حدیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ رفاعہ قرظی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق بتّہ دے دی، ان کی بیوی نے ایک دوسرے شخص (عبدالرّحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ ) سے شادی کر لی۔ لیکن عورت ان سے مطمئن نہ ہو سکی اور ان کے درمیان (بغیر ہم بستری کے) جدائی ہو گئی ، وہ عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور صورت حال سے آگاہ فرمایا، آپ نے اس کی گفتگو سے اندازہ فرما لیا کہ یہ عورت اپنے پہلے خاوند ہی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے۔ لیکن آپ نے واضح الفاظ میں فرمایا کہ جب تک دونوں ایک دوسرے کا مزہ نہ چکھ لیں ، عورت پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں:”لا حتی یذوق عسیلتک و تذوق عسیلتہ”[9]
اس حدیث نے قرآن کریم کے لفظ تنکح کے معنی متعین کر دئے کہ یہاں نکاح کا لفظ صرف عقدِ نکاح کے لئے نہیں ، بلکہ وطی کے معنی میں ہے۔ لیکن اصلاحی صاحب نے اس حدیث کو ردّ کر کے یہاں نکاح بمعنی عقد نکاح لیا ہے۔[10]
تفسیر ’’ تدبّرِ قرآن‘‘ میں اور بھی بعض مثالیں ایسی ہیں جہاں واضح حدیث کو نظر انداز کر کے لغوی معنی یا اپنا خود ساختہ مفہوم مراد لیا ہے۔ شاید اس کی کچھ مزید تفصیل آگے آئے ۔ ہمارا یہاں صرف اصلاحی صاحب کی منکرینِ حدیث کی ہم نوائی کو واضح کرنا مقصود ہے۔ اور وہ الحمدُ لِلّٰہ واضح ہے۔
مسلّمہ اصطلاحات کے مفہوم میں تبدیلی ، ان کا انکار ہے:
اس تفصیل سے واضح ہے کہ مسلّمہ اصطلاحات کے مفہوم میں تبدیلی ، ان کا انکار ہے۔ اس کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
’’ ختمِ نبوّت ایک اصطلاح ہے جو قرآن مجید کے لفظ خاتم النبیین سے مستفاد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں ، آپ پر وحی و رسالت کا خاتمہ فرمادیا گیا ۔ اب آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔ اور یہ اصطلاح قرآن و حدیث کی نصوص صریحہ پر مبنی ہے اور اہلِ سنّت کے ہاں مسلّم ہے۔
لیکن مرزائی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا بلکہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی مہر کے بغیر کوئی نبی نہیں آسکتا اور مرزائے قادیانی پر آپ کی مہر لگی ہوئی ہے اس لئے مرزائے قادیان بھی (نعوذُ باللہ) سچا نبی ہے۔
ذرا سوچئے کہ ان مذکورہ شرعی اصطلاحات کی نئی تعبیر کرنے والے کیا صلوٰۃ ، زکوٰۃ اور ختم ِنبوت کے ماننے والے کہلائیں گے یا ان کے منکر؟ ظاہر بات ہے کہ کوئی باشعور مسلمان ایسے لوگوں کو ان مسلّمات اسلامیہ کا ماننے والا نہیں کہے گا ، بلکہ یہی کہے گا کہ یہ نماز کے بھی منکر ہیں، زکوٰۃ کے بھی منکر ہیں اور ختم نبوت کے بھی منکر ہیں ۔ وعلیٰ ھٰذا القیاس دوسرے گمراہ فرقوں کی اپنی وضع کردہ اصطلاحات ہیں۔
سنّت اور حدیث ، اہلِ سنت کی مسلّمہ اصطلاح ہے:
اس طرح سنت یا حدیث بھی شرعی اصطلاح ہے ۔علاوہ ازیں یہ صحابہ اور تابعین (سلف) اور محدثین کے نزدیک ایک ہی چیز ہے۔ اس کا مفہوم و مصداق بھی چودہ سوسال سے مسلّم چلا آ رہا ہے۔اس کو جو اس کے مسلّمہ مفہوم ومصداق کے مطابق مانے گا ، وہ اس کو ماننے والا تسلیم کیا جائے گا اور جو یہ کہے گا کہ میرے نزدیک سنّت کا یہ مفہوم ہے اور حدیث کا یہ مفہوم ہے اور وہ مفہوم اس کا خود ساختہ اورمسلّمہ مفہوم کے یکسر خلاف ہے تو وہ حدیث و سنت کا ماننے والا نہیں کہلا سکتا ، چاہے وہ زبان سے حدیث و سنت کو ماننے کا ہزار مرتبہ بھی دعویٰ کرے۔ جیسے مرزائی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم ختمِ نبوّت کے قائل ہیں ، لیکن وہ منکر ہی کہلائیں گے کیونکہ وہ ختمِ نبوّت کا وہ مفہوم نہیں مانتے جو مسلّمہ ہے ، بلکہ خود ساختہ مفہوم کی روشنی میں مانتے ہیں ۔
اس وضاحت کی روشنی میں جہاں پرویزی حدیث کے منکر ہیں ، وہاں اسی کے منہج پر چلنے والے فراہی، اصلاحی اور غامدی اور دیگر ان کے ہم نوا بھی منکرِ حدیث ہی قرار پاتے ہیں ۔
ھذا ما عندی واللہ أعلم بالصواب