الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلی آله وصحبه أجمعین
اللہ تبارکو تعالیٰ نےاپنی رحمت اورحکمت کے پیش نظراپنی مخلوق کوایک دوسرے پرفضیلت اور برتری دے رکھی ہے، چنانچہ رب العزت ارشاد فرماتاہے :
وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ مَا كَانَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ سُبْحَانَ اللَّهِ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ
القصص – 68
اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ، اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے ، ان میں سے کسی کو کوئی اختیارنہیں ، اللہ ہی کے لئے پاکی ہے وہ بلندتر ہے ہر اس چیزسے کہ لوگ شریک کرتے ہیں ۔
چنانچہ دنیا کی تمام جگہوں میں مکہ، مدینہ اور بیت المقدس کوخصوصی فضیلت اور اہمیت ہے .اور دنوں میں بعض مہینوں کو بعض پر اور بعض ایام کو بعض پر فضیلت ہے، جیسے رمضان کو دیگر مہینوں پر، لیلۃ القدرکو دیگر راتوں پراور جمعہ کو دیگر ایام پر ، اسی طرح ذی الحجہ کے پہلے عشرہ اور عاشورہ اور عرفات کے ایام کو خصوصی فضیلت حاصل ہے۔
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
التوبة – 36
بے شک مہینوں کی گنتی، اللہ کے نزدیک، اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے، جس دن اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ یہی سیدھا دین ہے۔ سو ان میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو، جیسے وہ ہر حال میں تم سے لڑتے ہیں اور جان لوکہ بے شک اللہ متقی لوگوں کے ساتھ ہے۔
ان چار مہینوں کی تعیین کے سلسلے میں اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّ الزَّمانَ قَدِ اسْتَدارَ كَهَيْئَةِ يَومَ خَلَقَ السَّمَواتِ والأرْضَ؛ السَّنَةُ اثْنا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْها أرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلاثَةٌ مُتَوالِياتٌ: ذُو القَعْدَةِ، وذُو الحِجَّةِ، والمُحَرَّمُ، ورَجَبُ مُضَرَ الذي بيْنَ جُمادَى وشَعْبانَ،۔۔
صحیح البخاری – 466
زمانہ اپنی اصل حالت پر گھوم کر آ گیا ہے؛ اس دن کی طرح جب اللہ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا. دیکھو! سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں: چار ان میں سے حرمت والے مہینے ہیں. تین لگاتار ہیں: ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم، اور چوتھا رجب مضر جو جمادی اور شعبان کے بیچ میں پڑتا ہے۔
ان مہینوں کی عظمت و برتری اسلام کے آغاز سے پہلے بھی تھی اور اسلام سے پہلے دوسرے آسمانی مذاہب میں ان مہینوں كی حرمت تسلیم کی گئی ہے یہاں تک کہ مکہ کے مشرکین کفر و شرک کی حالت میں بھی ان مہینوں کے عظمت و فضیلت کے قائل تھے ، اسلام کے آغاز تک ان مہینوں میں جہاد و قتال بھی منع تھا اور ساتھ ہی ان مہینوں میں عبادات کی خاص فضیلت رکھی گئی تھی اور اب بھی ان مہینوں میں عبادت کی فضیلت بر قرار ہے لہذا جو شخص ان مہینوں میں عبادت و اطاعت کرتا ہے وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں خاص فضیلت و اہمیت کی شان رکھتی ہے۔
حرمت کا مطلب :
کسی بھی چیز کی حرمت کا مطلب ہوتاہے اس کی تعظیم وتکریم کرنا، اور اس مقام یا وقت میں ظلم وعدوان اور اور شرک وخرافات سے خصوصی طور پر احتراز اور کتاب وسنت کے مطابق ثابت شدہ عبادات وامور کو احسن طریقے سے ادا کرنا ، کیونکہ ان جگہوں یاان اوقات میں نیکیوں کا ثواب بڑھ جاتاہے اور گناہ ومعاصی کا انجام بھی بڑا ہو جاتاہے ۔
حُرمت والے مہینوں كی فضیلت :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
اِختصَّ اللهُ أربعةَ أشهُرٍ فجعلهُنَّ حُرُما ، وعظَّم حُرُماتِهنّ ، وجعل الذنبَ فيهنَّ أعظم ، وجعل العملَ الصالح والأجرَ فيهنَّ أعظم1
اللہ تعالی نے (تمام) مہینوں میں سے چار کو خاص کرلیا ہے اور ان کو حرمت والا قراردیاہے ، اور ان کی حرمت کو عظیم قراردیا ہے اور ان (حرمت والے مہینوں) میں گناہ کو بڑا کردیاہے اورعمل صالح اورثواب کو بڑا کردیاہے۔
چنانچہ یہ وہ چار مہینے ہیں جنہیں اللہ تعالی نے حرمت والے قراردیاہے ،اور ان مہینوں کا نام حرمت والا اس لئے پڑا کہ ان مہینوں میں خصوصی طور پر ظلم وجبر ، لڑائی وجھگڑا اور معاصی کو حرام قراردیاگیاہے ۔
حرمت والے مہینوں سے متعلق بعض احکام:
ان مہینوں کی حرمت کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتاہے:
فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنْفُسَكُمْ
التوبة – 36
ان مہینوں میں خود پر ظلم مت کرو۔
کیونکہ ان میں گناہ کرنا دیگر ایام کے مقابلے میں زیاد ہ قبیح اور سبب گناہ ہے ، امام قتادہ رحمہ الله فرماتےہیں :” گرچہ ظلم ہر حال میں بڑاہے لیکن حرمت والے مہینوں میں دیگر مہینوں کے مقابلے بڑا گناہ ہے”۔ (دیکھئے تفسیر ابن کثیر) چنانچہ ان مہینوں میں ظلم وزیادتی اور جنگ وجدال سے خصوصی طور پر منع کیاگیاہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ مندرجہ بالا آیت کی تفسیرکرتے ہوئے لکھتے ہیں :
” گناہوں کا ارتکاب کرکے ( اپنے نفس پر ظلم مت کرو)کیونکہ اللہ تعالی جب کسی چیز کو کسی ایک جہت سے عظیم بناتاہے تو اس کے لئے ایک حرمت ہوتی ہے ، اور جب دو جہت یا مختلف جہات سے عظیم بناتاہے تو اس کی حرمت متعدد ہوجاتی ہے ، لہذا اس میں برے عمل کی سزابڑھ جاتی ہے جیساکہ عمل صالح سے ثواب بڑھ جاتاہے ۔ چنانچہ جس نے اللہ کی اطاعت حرمت والے مہینے میں بلد حرام (مکہ ومدینہ ) میں کیا تو اس کا ثواب حلال ( غیرحرمت والے ) مہینے میں حلال جگہ(مکہ ومدینہ کے علاوہ) جیسا نہیں ہے ۔ اور جس نے حلال مہینے میں حرمت والی جگہ پر اللہ کی اطاعت کی تو اس کا ثواب حلال مہینے میں حلال جگہ کی طرح نہیں ہے “۔(دیکھئے : تفسیر قرطبی)
لہذا اشہر حُرم کی مناسبت سے ایک آسان عمل کے فضائل قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔ ایک ایسا آسان عمل ہے جس کے فوائد اور فضائل ایک درجن سے زیادہ ہیں اور ایک مسلمان کے لئے ان فضائل اور فوائد کو سمیٹنے کے لئے حرمت والے مینوں سے افضل اور بہتر موقع کوئی اور نہیں ہو سکتا۔
مسجد کی طرف جلدی جانا
نہایت افسوس كی بات ہے كہ اسلامی معاشروں میں ایك منفی رجحان یہ پایا جاتا ہےكہ لوگ مسجد میں نماز کے لیے دیر سے پہنچتے ہیں ،بہت كم ایسے لوگ ہیں جو اذان سے پہلے مسجد کی طرف رخ کرتے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو اس وقت مسجدكے لئے نكلتے ہیں جب مسجدسے اقامت کی آواز آنے لگتی ہے،چنانچہ اس كا نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ نماز کا کچھ حصہ چھوٹ جاتا ہے یا مسجد آتے آتے مکمل نماز ہی چھوٹ جاتی ہے ، تکبیر اولی كے ساتھ جماعت میں شامل ہونے والوں کی تعداد روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے ۔جبکہ نماز کے لیے جلدی مسجد جانے میں بہت سے دینی فوائد اور فضیلتیں موجود ہیں ، قارئین کے فائدے اور یاد دہانی کے لئے چند فوائد اور فضیلتیں صحیح احادیث کی روشنی میں پیش کی جاتی ہیں ۔
مسجد جلدی جانے کے فوائد اور اس کی فضیلتیں
مسجد جلدی آنے والا نماز کے حکم میں
جلدی مسجد آنے کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ مسجد جلدی آنے والے کو نماز کے انتظار کرنے کا موقع ملتا ہے اور حدیث میں صراحت ہے کہ :
من كانَ في المسجدِ ينتظرُ الصَّلاةَ ، فَهوَ في الصَّلاةِ
صحیح النسائی – 733
کہ نماز کا انتظار کرنے والا ایسا ہے گویا کہ وہ نماز کی حالت میں ہے ۔
دوسری حدیث میں آتا ہے کہ:
لا يَزالُ أحَدُكُمْ في صَلاةٍ ما دامَتِ الصَّلاةُ تَحْبِسُهُ، لا يَمْنَعُهُ أنْ يَنْقَلِبَ إلى أهْلِهِ إلَّا الصَّلاةُ.
صحیح البخاری – 656
جب تک تم میں سے کسی کو نماز روکے رکھتی ہے وہ مسلسل نماز میں ہوتا ہے ، اسے گھر کی طرف لوٹنے سے نماز کے علاوہ اور کسی چیز نے نہیں روکا ہوتا ۔
فرشتوں کی دعائیں
جلدی مسجد آنے والا جب نماز کا انتظار کر رہا ہوتا ہے تو فرشتے اس بندے کے لئے مغفرت اور رحمت کی دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
المَلَائِكَةُ تُصَلِّي علَى أحَدِكُمْ ما دَامَ في مُصَلَّاهُ الذي صَلَّى فِيهِ، ما لَمْ يُحْدِثْ، تَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ له، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ.
صحیح البخاری – 445
تم میں سے کوئی شخص جب تک اپنی ( نماز پڑھنے کی ) جگہ پر بیٹھا رہتا ہے ، فرشتے اس کے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں جب تک وہ بے وضو نہیں ہوتا ۔کہتے ہیں : اے اللہ ! اسے بخش دے ! اے اللہ اس پر رحم فرما ! ۔
ایک اور حدیث میں نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إنَّ المَلَائِكَةَ تُصَلِّي علَى أَحَدِكُمْ ما دَامَ في مَجْلِسِهِ، تَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ له، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، ما لَمْ يُحْدِثْ، وَأَحَدُكُمْ في صَلَاةٍ ما كَانَتِ الصَّلَاةُ تَحْبِسُهُ.
صحیح مسلم – 649
تم میں سے کوئی شخص جب تک اپنی ( نماز پڑھنے کی ) جگہ پر بیٹھا رہتا ہے ، فرشتے اس کے حق میں دعا کرتے رہتے ہیں ، کہتے ہیں : اے اللہ ! اسے بخش دے ! اے اللہ اس پر رحم فرما ! یہ اس وقت تلک جاری رہتا ہے جب تک وہ بے وضو نہیں ہوتا ، اور جب تک تم میں سے کسی شخص کو نماز روکے رکھتی ہے ، وہ نماز ہی میں ہوتا ہے ۔
گناہوں کی بخشش اور درجات کی بلندی
جلدی مسجد آنے والا جب نماز کے انتظار میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ نماز کے انتظار کرنے والے کے خطاؤں کو در گزر فرماتا رہتاہے اور اس کےدرجات بلند فرماتا رہتاہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَلا أدُلُّكُمْ علَى ما يَمْحُو اللَّهُ به الخَطايا، ويَرْفَعُ به الدَّرَجاتِ؟ قالُوا بَلَى يا رَسولَ اللهِ، قالَ: إسْباغُ الوُضُوءِ علَى المَكارِهِ، وكَثْرَةُ الخُطا إلى المَساجِدِ، وانْتِظارُ الصَّلاةِ بَعْدَ الصَّلاةِ، فَذَلِكُمُ الرِّباطُ، فَذَلِكُمُ الرِّباطُ.
صحیح مسلم – 251
کیا میں تم کو ایسی عبادت نہ بتاؤں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ مٹا دے اور جس سے تمہارے درجات بلند فرمائے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا : کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا : تکلیف کے وقت اچھی طرح (پانی بہا کر) وضو کرنا، کثرت سے مسجد کی طرف جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ، پس یہی تمہارے لیے رباط ہے، پس یہی تمہارے لیے رباط ہے یعنی گناہ سے بچنے کی سرحد ہے اور حفاظت کا ذریعہ ہے ۔
یعنی یہ اعمال جہاد کی طرح ہیں جن کے ذریعہ انسان اپنے سب سے بڑے دشمن شیطان کو زیر کرتا ہے، اس وجہ سے اسے «رباط» کہا گیا ہے جس کے معنی سرحد کی حفاظت و نگہبانی کے ہیں۔
باجماعت نماز کی فضیلت
جلدی مسجد جانے والے کویقینی طور پر جماعت کے ساتھ نماز میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والے کو اکیلے نماز پڑھنے والے پر27 درجات کی فضیلت حاصل ہے ، جیساکہ حدیث میں آتا ہے ۔
صَلَاةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلَاةَ الفَذِّ بسَبْعٍ وعِشْرِينَ دَرَجَةً.
صحیح البخاری – 645
ایک اور حدیث میں نماز باجماعت کی فضیلت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَن تَوَضَّأَ لِلصَّلَاةِ فأسْبَغَ الوُضُوءَ، ثُمَّ مَشَى إلى الصَّلَاةِ المَكْتُوبَةِ، فَصَلَّاهَا مع النَّاسِ، أَوْ مع الجَمَاعَةِ، أَوْ في المَسْجِدِ غَفَرَ اللَّهُ له ذُنُوبَهُ.
صحیح مسلم – 232
”جو شخص نماز کے لیے پورا وضو کرے پھر فرض نماز کے لیے (مسجد کو) چلے اور لوگوں کے ساتھ یا جماعت سے یا مسجد میں نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا۔“
تلاوت قرآن مجید
جلدی مسجد آنے والوں کو اذان اور اقامت کے درمیانی وقت میں تلاوت قرآن مجید کا موقع میسر آتا ہے ، اس طرح جلدی مسجد آنے والا فرشتوں کی مجلس اور صحبت میں شامل ہوجاتا ہے اور فرشتے اللہ تعالیٰ کے ہاں اس بندے کی حاضری کی گواہی دیتے ہیں حدیث میں آتا ہے کہ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي قَوْلِهِ: وَقُرْءَانَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْءَانَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا قَالَ: تَشْهَدُهُ مَلَائِكَةُ اللَّيْلِ وَمَلَائِكَةُ النَّهَارِ
صحیح الترمذی – 3135
نبی اکرم ﷺ نے آیت (وقرآن الفجر إن قرآن الفجر كان مشهودا) ”صبح کو قرآن پڑھا کرو کیونکہ صبح قرآن پڑھنے کا وقت فرشتوں کے حاضر ہونے کا ہوتا ہے“ کے متعلق فرمایا: ”اس وقت رات کے فرشتے اور دن کے فرشتے سب حاضر ہوتے ہیں“۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلَائِكَةٌ بِاللَّيْلِ وَمَلَائِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيَجْتَمِعُونَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ فَيَسْأَلُهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ بِهِمْ ، كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادِي ؟ فَيَقُولُونَ : تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ ، وَأَتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ
صحیح البخاری – 555
رات اور دن میں فرشتوں کی ڈیوٹیاں بدلتی رہتی ہیں۔ اور فجر اور عصر کی نمازوں میں (ڈیوٹی پر آنے والوں اور رخصت پانے والوں کا) اجتماع ہوتا ہے۔ پھر تمہارے پاس رہنے والے فرشتے جب اوپر چڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے حالانکہ وہ ان سے بہت زیادہ اپنے بندوں کے متعلق جانتا ہے، کہ میرے بندوں کو تم نے کس حال میں چھوڑا۔ وہ جواب دیتے ہیں کہ ہم نے جب انہیں چھوڑا تو وہ (فجر کی) نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس گئے تب بھی وہ (عصر کی) نماز پڑھ رہے تھے۔
یعنی اللہ تعالیٰ فرشتوں کی زبان سے یہ اعتراف کراتا ہے کہ ہم جب بنو آدم کے پاس گئے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ان کے پاس سے آئے تو نماز پڑھ رہے تھے۔
تکبیرِ تحریمہ کی فضیلت
جلدی مسجد آنے والا تکبیر تحریمہ یعنی تکبیر اُولی کی فضیلت حاصل کرتا ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ:
مَنْ صلَّى للهِ أربعينَ يومًا في جماعةٍ ، يُدْرِكُ التَّكْبيرَةَ الأُولَى ، كُتِبَتْ لهُ بَرَاءَتَانِ : بَرَاءَةٌ مِنَ النارِ، و بَرَاءَةٌ مِنَ النِّفَاقِ
السلسلة الصحیحة – 2652
جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے چالیس دن تک تکبیر اُولیٰ کے ساتھ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے اس کے لئے دو براءتین لکھ دی جاتی ہیں ، ایک جہنم سے براءت اور دوسری نفاق سے براءت ۔
صفِ اول کی فضیلت
جو شخص جلدی مسجد آتا ہے اسے صفِ اول میں نماز کا موقع ملتا ہے اس طرح وہ صف اول کی فضیلت پالیتا ہے ، صف اول کی فضیلت میں نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ ما في النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عليه لَاسْتَهَمُوا، ولو يَعْلَمُونَ ما في التَّهْجِيرِ لَاسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، ولو يَعْلَمُونَ ما في العَتَمَةِ وَالصُّبْحِ لَأَتَوْهُما ولو حَبْوًا.
صحیح البخاری – 2689
رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ”اگر لوگ جان لیں کہ اذان دینے میں اور پہلی صف میں رہنے میں کیا ثواب ہے، پھر قرعہ اندازی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ پائیں تو وہ اس کے لیے قرعہ اندازی کریں گے، نیز اگر وہ جان لیں کہ ظہر اول وقت پر پڑھنے کا کیا ثواب ہے تو وہ اس کی طرف ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے، اور اگر وہ اس ثواب کو جان لیں جو عشاء اور فجر میں ہے تو وہ ان دونوں نمازوں میں ضرور آئیں گے، اگرچہ سرین کے بل گھسٹ کر آنا پڑے“۔
دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إنَّ اللَّهَ وملائِكتَهُ يصلُّونَ على الصَّفِّ الأوَّلِ۔
صحیح ابن ماجه – 823
بے شک اللہ تعالیٰ پہلی صف میں کھڑے ہونے والوں پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے پہلی صف والوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔
رسول کریم ﷺ کی دعائے مغفرت
پہلی صف والوں کے لئے نبی كریم ﷺ بھی دعائے مغفرت کرتے ہیں ، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ :
وكانَ يستغفِرُ للصَّفِّ المقدَّمِ ثلاثًا وللثَّاني مرَّةً
صحیح ابن ماجه – 822
کہ رسول اللہ ﷺ پہلی صف والوں کے لئے تین دفعہ مغفرت کی دعا کرتے تھے اور دوسری صف کے لئے ایک دفعہ ۔
دائیں صف کی فضیلت
جو شخص جلدی مسجد آتا ہے اس کو صف کی دائیں جانب نماز پڑھنے کا موقع میسر آتا ہے ،اور نبی كریم ﷺ نے ارشاد فرمایا كہ :
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى مَيَامِنِ الصُّفُوفِ
أخرجه ابن حبان – 2140
” بیشک اللہ تعالیٰ صفوں کے دائیں اطراف والوں پر اپنی رحمت ( خاص ) نازل فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے دعائیں کرتے ہیں ۔ ‘‘
اور اسی لئے صحابہ کرام صف کی دائیں جانب کھڑا ہونا زیادہ پسندیدہ فرماتے تھے، چنانچہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كُنَّا إذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ رَسولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ، أَحْبَبْنَا أَنْ نَكُونَ عن يَمِينِهِ
صحیح مسلم – 709
”جب ہم رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ ﷺ کی داہنی جانب کھڑا ہونا پسند کرتے تھے۔“
صحیح ابن خزیمہ میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ
لأنه كان يبدأ بالسلام عن يمينه
1564
”ہم رسول اللہ ﷺکی دائیں طرف کھڑا ہونا اس لئے زیادہ پسند کرتے تھے۔“ کیونکہ آپ ﷺ سلام پہلے دائیں طرف کہتے تھے۔
آمین کہنے کی فضیلت
مسجد جلدی آنے والوں کو جب باجماعت نماز میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے تو اسے امام کے پیچھے جہری نمازوں میں بلند اواز سےآمین کہنے کا موقع ملتا ہے ، حدیث میں بلند آواز میں آمین کہنے کی بڑی فضیلت آئی ہے ، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إذا قالَ الإمامُ: {غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} فَقُولوا آمِينَ، فمَن وافَقَ قَوْلُهُ قَوْلَ المَلائِكَةِ غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ
صحیح البخاری – 4475
رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”جب امام غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تو تم آمين كہو کیونکہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین کے ساتھ مل جائے تو اس کی تمام پچھلی خطائیں معاف ہو جاتی ہیں۔“
دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إذا قالَ أحَدُكُمْ: آمِينَ، وقالتِ المَلائِكَةُ في السَّماءِ: آمِينَ، فَوافَقَتْ إحْداهُما الأُخْرَى غُفِرَ له ما تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِهِ.
صحیح بخاری – 781
کہ جب کوئی تم میں سے آمين کہے اور فرشتوں نے بھی اسی وقت آسمان پر آمين کہی۔ اس طرح ایک کی آمين دوسرے کے آمين کے ساتھ مل گئی تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
سنن مؤکدہ کی فضیلت
جو شخص جلدی مسجد آتا ہے اسے سنن رواتب یعنی فجر کی دو سنتیں اسی طرح ظہر سے پہلے چار رکعت سنتیں پڑھنے کا موقع حاصل ہوتا ہے ، فجر کی دو رکعت کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
رَكْعَتَا الفَجْرِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَما فِيهَا.
صحیح مسلم – 725
ایک اور حدیث میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
وكانَ يُصَلِّي في بَيْتي قَبْلَ الظُّهْرِ أَرْبَعًا، ثُمَّ يَخْرُجُ فيُصَلِّي بالنَّاسِ، ثُمَّ يَدْخُلُ فيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ
صحیح مسلم – 730
ٓپ ﷺ میرے گھر میں ظہر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھتے پھر گھر سے نکلتے اور لوگوں کو فرض نماز پڑھاتےپھر گھر میں آ کر دو رکعت پڑھتے تھے۔
ظہر کی چار رکعات سنتوں کی فضیلت میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من رَكعَ أربعَ رَكعاتٍ قبلَ الظُّهرِ وأربعًا بعدَها حرَّمَ اللَّهُ عزَّ وجلَّ لحمَه علَى النَّار
صحیح النسائی – 1811
نوافل كی فضیلت
جلدی مسجد آنے والے كو اذان اور اقامت كے درمیان نوافل یعنی تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجدپڑھنے كا موقع ملتا ہے ۔چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ:
بيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ، قالَهَا ثَلَاثًا، قالَ في الثَّالِثَةِ: لِمَن شَاءَ.
صحیح مسلم – 838
ہر اذان اور اقامت کے درمیان نماز ہے، آپ نے یہ جملہ تین بار فرمایا، اور تیسری مرتبہ میں کہا: ”اس کے لیے جو چاہے۔
ما مِن صلاةٍ مفروضةٍ إلَّا وبينَ يدَيْها ركعتانِ
صحیح ابن حبان – 2455
ہر فرض نماز سے پہلے (کم از کم) دو رکعت (نفلی نماز) ہے۔
اسی طرح نبی كریم ﷺ نے عصر سے پهلے چار ركعت نفل كی فضیلت كے بارے میں فرمایا:
رحِمَ اللَّهُ امرَأً صلَّى قبلَ العصرِ أربعًا
صحیح أبی داؤد – 1271
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جس نے عصر سے پہلے چار رکعتیں پڑھیں ۔
تحیۃ الوضو کی فضیلت:
حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نماز فجر کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلا کر پوچھا کہ :
أنَّ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قالَ لبِلالٍ عِنْدَ صَلَاةِ الفَجْرِ: يا بلَالُ، حَدِّثْنِي بأَرْجَى عَمَلٍ عَمِلْتَهُ في الإسْلَامِ؛ فإنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بيْنَ يَدَيَّ في الجَنَّةِ. قالَ: ما عَمِلْتُ عَمَلًا أَرْجَى عِندِي: أَنِّي لَمْ أَتَطَهَّرْ طُهُورًا، في سَاعَةِ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ، إلَّا صَلَّيْتُ بذلكَ الطُّهُورِ ما كُتِبَ لي أَنْ أُصَلِّيَ.
صحیح البخاری – 1149
اے بلال! مجھے وہ عمل بتادو جس عمل سے آپ کو اللہ سے سب سے زیادہ اس بات کی امید ہے کہ اللہ تمہیں بخش دے گا، اس لیے کہ آج رات کو میں نے جنت میں تممارے قدموں کی آہٹ سنی ہے، تم وہ کون سا عمل کرتے ہو کہ میں معراج کے وقت جنت میں داخل ہوا تو میرے آگے کسی کی چلنے کی آواز آرہی تھی۔ میں نے پوچھا تو بتایا گیا کہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں، تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میرا کوئی اور خاص عمل نہیں ہے صرف یہی ہے کہ میں جب بھی میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی۔
یہ نفل نمازتحیۃ الوضو کہلاتا ہے ، تحیۃ الوضو کی اتنی اہمیت اور فضیلت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے بلال رضی اللہ عنہ کے قدموں کی آہٹ جنت میں سنی ۔یہ واقعہ معراج کے موقع پر پیش آیا تھا۔
اذان اور اقامت کے درمیان دعا کی فضیلت
جلدی مسجد آنے والے کو اذان اور اقامت کے درمیان ذکر واذکار اور دعا ئیں کرنے کا موقع ملتا ہے اور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
الدُّعاءُ لا يُردُّ بينَ الأذانِ والإقامةِ
صحیح الترمذی – 3595
کہ اذان اور اقامت کے درمیان کی گئی دعا رد نہیں ہوتی ۔
آخری بات
پیش کردہ قرآن وحدیث کے نصوص سے معلوم ہوا کہ جس طرح روزہ، قیام اللیل، تلاوتِ قراٰن ،ذکر واذکار ، توبہ واستغفار اور دیگر عبادات کی فضیلت ہے اسی طرح جلدی مسجد کی طرف آنے کی بھی بہت سے فوائد اور فضیلتیں ہیں، حُرمت والے مہینے نیک بندوں کے لئے نیکیوں کا سیزن ہے، یہ مہینےرب کریم سے قربت کا ایک بہترین موقع ہے، ان مبارک ایام میں نیکیوں سے غفلت برتنا بہت سی برکتوں اور فضیلتوں سے محرومی کا سبب ہے، لہٰذا ہر مسلمان ان مبارک مہینوں میں دیگر نیکیوں کی فضیلتیں سمیٹنے کے ساتھ اس آسان عمل کی طرف بھی دیہان دیں۔ اور اشہر حرم میں روزه ،قیام اللیل، تلاوتِ قراٰن ،ذکر واذکار ، توبہ واستغفار اور دیگر نیک اعمال کے ساتھ جلدی مسجد تشریف لاکر ایک درجن سے زائد فضیلتیں حاصل کر سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان مبارک ساعات میں تمام مسلمانوں کو کثرت سے نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین