تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جو مارتا ہے اور زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ جس کے سارے نام ہرعيب سے پاک ہیں اور جس کے سارے اوصاف جليل القدر ہیں۔ جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ جو خوب حکمت والا اور جاننے والا ہے۔ جو دلوں کو قرآن، وعظ و نصیحت، حکمت اور مقبول عمل صالح کے ذریعے زنده کرتا ہے اور حق سے اعراض کرنے والے کو اس کے اپنے ہی نفس کے حوالے کردیتا ہے پھر وہ ناکامی، غفلت اور دھوکے کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور میں تمام نعمتوں پر اپنے پروردگار کی حمد بجا لاتا ہوں اور اس کےعظیم فضل و احسان پر شکر ادا کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود برحق نہیں۔ وہ تنہا ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ جو بشارتیں سنانے والے، ڈرانے والے اور روشن چراغ بنا کر بھیجے گئے۔ اے اللہ! تو اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر، ان کی آل و اصحاب پر رحمتیں، سلامتیں اور برکتیں نازل فرما ۔
حمد و صلاۃ کے بعد
اللہ تعالی کے ہر ایک پسندیدہ عمل کو سر انجام دیتے ہوے اور اس کے ہر ایک مبغوض اور ناپسندیدہ عمل سے اجتناب کرتے ہوئے اس سے ڈرتے رہو کیونکہ اللہ تعالی کا ڈر اور اس کا تقویٰ ہی اس دنیا میں سعادت و خوشی کا سبب اور آخرت میں خلد بریں سے سرفراز ہونے کا ذریعہ ہے۔ خوشخبری ہے اس کے لیے جس نے تقوی الہی کو لازم پکڑا اور ویل و نا کامی ہے اس کے لیے جس نے اسے (تقوی) کو چھوڑ دیا اور اس پر عمل نہ کیا۔
دل کی اصلاح کیجئے
اللہ تعالی کے بندوں! جن چیزوں سے دلوں کی اصلاح ہوتی ہے ان سے اپنے دلوں کی اصلاح کرو اور دلوں کو بگاڑنے والے امور سے اپنے دلوں کو محفوظ رکھو اور ان کی نگرانی کرتے رہو کیونکہ دل ہی جسمانی اعضاء کا بادشاہ ہے۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ألا وإنَّ في الجَسَدِ مُضْغَةً، إذا صَلَحَتْ، صَلَحَ الجَسَدُ كُلُّهُ، وإذا فَسَدَتْ، فَسَدَ الجَسَدُ كُلُّهُ، ألا وهي القَلْبُ
(صحيح البخاري: 52 ، وصحيح مسلم: 1599)
سن لو! جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب وہ درست ہو جاتا ہے تو سارا جسم درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ یاد رکھو! وہ دل ہے۔
دل کی سب سے بڑی بیماری غفلت
کیا آپ جانتے ہیں کہ دل کی وہ سب سے بڑی بیماری کونسی ہے کہ جو بھی اس میں مبتلا ہوتا ہے وہ ہر خیر سے محروم ہو جاتا ہے یا خیر کے بہت سے راستوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ تو سنو! دل کی سب سے بڑی بیماری غفلت ہے۔ یہی وہ شدید غفلت ہے جس سے کفار و منافقین بد بخت قرار پائے اور جو ان کے ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہنے کا سبب بنا۔ ارشاد باری تعالی ہے :
مَن كَفَرَ بِاللهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ، ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ ، أُولَٰئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
( سورۃ النحل:107،106، 108)
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اسکا دل ایمان پر برقرار رہے مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ تعالی کا غضب ہے اور انہیں کے لیئے بڑا عذاب ہے۔ یہ اس لئے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب رکھا۔ یقینا اللہ تعالی کافر لوگوں کو راہ راست نہیں دکھاتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اور جن کے کانوں پر اور جن کی آنکھوں پر اللہ تعالی نے مہر لگا دی ہے اور یہی لوگ غافل ہیں۔
بسا اوقات ایک مسلمان کار خیر کے بعض کاموں سے غفلت برتتا ہے اور نفع اور فائدے کے وسائل نیز برائیوں سے نجات کے اسباب اختیار کرنے سے بھی غفلت اختیار کرتا ہے تو وہ غفلت کے بقدر کار خیر کے ثواب سے بھی محروم ہو جاتا ہے اور نجات کے اسباب ترک کرنے کی وجہ سے شرور و فتن اور دیگر ناپسندیدہ چیزوں کا مزہ چکھتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِّمَّا عَمِلُوا وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
( سورۃ الأحقاف : 19)
اور ہر ایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے تاکہ انہیں ان کے اعمال کے پورے پورے بدلے دیئے جائیں اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا ۔
اور دوسری جگہ ارشاد ہے :
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ، وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَىٰ، ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَىٰ
( سورۃ النجم :39، 40، 41)
اور یہ کہ ہر انسان کے لیئے صرف وہی ہے جس کی اس نے خود کوشش کی اور یہ کہ بیشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا ۔
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ روز قیامت اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا :
يا عبادي! ادخلوا الجنة برحمتي واقتسموها بأعمالكم
اے میرے بندوں ! میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جاؤ اور اپنے اعمال کے مطابق اس میں سے حصہ لے لو۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو دیکھا کہ وہ پیچھے کی صفوں میں رہتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا:
تقدَّموا فأْتَمُّوا بي ، وليأتَمَّ بِكُم مَن بعدَكُم ، لا يزالُ قومٌ يتأخَّرونَ حتَّى يؤخِّرَهُمُ اللہُ
(صحيح مسلم: 438 ، وصحيح ابن ماجہ: 805)
”آگے آ جاؤ اور نماز میں تم میری اقتداء کرو اور تمہارے بعد والے تمہاری اقتداء کریں، کچھ لوگ برابر پیچھے رہا کرتے ہیں یہاں تک کہ اللہ ان کو (اپنی رحمت سے یا اپنی جنت سے) پیچھے کر دیتا ہے۔
اسی طرح سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
احضروا الذِّكرَ وادْنوا من الإمامِ فإنَّ الرَّجلَ لا يزالُ يتباعدُ حتَّى يُؤخَّرَ في الجنَّةِ وإن دخلها
(السلسلۃ الصحيحۃ : 365، و صحيح أبي داود: 1108)
خطبہ جمعہ میں حاضر ہوا کرو اور امام کے قریب بیٹھا کرو، بلاشبہ آدمی (بےرغبتی کرتے ہوئے) دور ہوتا رہتا ہے، حتی کہ اسے جنت میں بھی پیچھے ہی جگہ ملتی ہے اگرچہ داخلہ مل ہی جائے۔
غفلت کی سزا
اللہ تعالی نے نجات کے اسباب اختیار کرنے میں غفلت برتنے کی سزا سناتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا :
أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ إِنَّ اللہَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
( سورۃ آل عمران : 165 )
(کیا بات ہے) کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے تو یہ کہنے لگے یہ کہاں سے آ گئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے۔ بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
اور ارشاد باری تعالی ہے:
وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ
( سورۃ الشوری : 30 )
اور جو تم پر مصیبت آتی ہے وہ تمہارے ہاتوں کے کیے ہوئے کاموں سے آتی ہے اور وہ (اللہ) بہت سے گناہ معاف کر دیتا ہے ۔
یہاں پر معاف کرنے کی بات مسلم کے لئے ہی کہی گئی ہے، کافروں کے لئے نہیں، کیونکہ کافر کا گناہ معاف نہیں ہوتا جب تک وہ توبہ نہیں کرتا۔
غفلت کا معنی
غفلت کا معنی جان بوجھ کر نیکی اور بھلائی کا ارادہ نہ کرنا اور اسے اچھا نہ جاننا ، ساتھ ہی ساتھ علم نافع اور عمل صالح سے خالی ہونا، یہی سخت درجہ کی مہلک غفلت ہے۔ یہ کافروں اور منافقوں کی غفلت ہے کہ آدمی اس غفلت کے ساتھ کبھی فلاح و بہبودی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ توبہ نہ کرلے ۔ جب انسان پر غفلت حاوی ہوتی ہے تو وہ صرف وہم و گمان، ہوائے نفس، شیطانی وسوسے اور خواہشات نفس ہی کی پیروی کرتا ہے اور یہی وہ غفلت ہے جس پر اللہ تعالی کافروں اور منافقوں کو دنیا و آخرت دونوں جگہ عذاب دیتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
(سورۃ الأعراف :179)
” اور بلاشبہ ہم نے بہت سے جن اور انسان جہنم کے لیے ہی پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں یہ لوگ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ یہ زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ یہی ہیں جو بالکل بے خبر ہیں۔“
اور مزید اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَىٰ أَجَلٍ هُم بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنكُثُونَ، فَانتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ
(سورۃ الأعراف :135، 136)
پھر جب ہم ان سے عذاب کو ایک وقت تک دور کردیتے، جسے وہ پہنچنے والے تھے تو اچانک وہ عہد توڑ دیتے تھے تو ہم نے ان سے انتقام لیا، پس انھیں سمندر میں غرق کردیا، اس وجہ سے کہ بے شک انھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ ان سے غافل تھے۔
اور مزید فرمایا :
وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ
( سورۃ یونس :92)
بیشک بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے بے خبر اور غافل ہیں۔
اللہ تعالی نے منافقوں کے بارے میں فرمایا:
صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
( سورۃ البقرۃ : 171)
وہ بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ انہیں عقل نہیں
صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ
( سورۃ البقرۃ :18)
بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہیں پلٹتے
اور ایک جگہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:
وَأَنذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
( سورۃ مریم :39 )
اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب (ہر) کام کا فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں اور وہ ایمان نہیں لاتے
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
يُؤْتَى بالمَوْتِ كَهَيْئَةِ كَبْشٍ أمْلَحَ، فيُنادِي مُنادٍ: يا أهْلَ الجَنَّةِ، فَيَشْرَئِبُّونَ ويَنْظُرُونَ، فيَقولُ: هلْ تَعْرِفُونَ هذا؟ فيَقولونَ: نَعَمْ، هذا المَوْتُ، وكُلُّهُمْ قدْ رَآهُ، ثُمَّ يُنادِي: يا أهْلَ النَّارِ، فَيَشْرَئِبُّونَ ويَنْظُرُونَ، فيَقولُ: هلْ تَعْرِفُونَ هذا؟ فيَقولونَ: نَعَمْ، هذا المَوْتُ، وكُلُّهُمْ قدْ رَآهُ، فيُذْبَحُ، ثُمَّ يقولُ: يا أهْلَ الجَنَّةِ، خُلُودٌ فلا مَوْتَ، ويا أهْلَ النَّارِ، خُلُودٌ فلا مَوْتَ. ثُمَّ قَرَأَ: {وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ}، وهَؤُلاءِ في غَفْلَةٍ أهْلُ الدُّنْيا {وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ} [مريم: 39].
(صحيح البخاري: 4730)
ترجمہ :جب جنتی جنت میں داخل ہوجائیں گے اور جہنمی جہنم میں داخل ہوجائیں گے تو موت کو چت کبرے مینڈے کی شکل میں لایا جائے گا۔ ایک آواز دینے والا آواز دیگا اے جنت والوں! تمام جنتی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے۔ آواز دینے والا پوچھے گا کہ تم اس مینڈھے کو پہنچانتے ہو؟ وہ بولیں گے ہاں! یہ موت ہے۔ ہر شخص اس کا ذائقہ چکھ چکا ہے وہ پھر آواز دیگا اے جھنم والوں! تمام جہنمی گردن اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے، آواز دینے والا فرشتہ آواز دیگا، تم اس مینڈھے کو پہنچانتے ہو؟ وہ بولیں گے ہاں! یہ موت ہے، ہر شخص اس کا ذائقہ چکھ چکا ہے، پھر اسے جنت اور جھنم کے درمیان لا کر ذبح کر دیا جائے گا ۔ کہا جائے گا۔ اے جنت والوں! اب تمہارے لیئے ہمیشگی ہے اور تم پر کبھی موت نہ آئے گی۔ اور اے جہنم والوں! تمہیں بھی ہمیشہ اسی میں رہنا ہے اور تم پر بھی کبھی موت نہیں آئے گی، پھر آپ (ﷺ) نے سورہ مریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ
(سورۃ مريم: 39)
اور انھیں پچھتاوے کے دن سے ڈرا جب (ہر) کام کا فیصلہ کردیا جائے گا اور وہ سراسر غفلت میں ہیں
سیدنا ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إذا كانَ يومُ القيامةِ أُتيَ بالموتِ كالكَبشِ الأملَحِ فيوقَفُ بينَ الجنَّةِ والنَّارِ فيُذبَحُ وَهُم ينظرونَ ، فلَو أنَّ أحدًا ماتَ فرَحًا لماتَ أَهْلُ الجنَّةِ ، ولَو أنَّ أحدًا ماتَ حُزنًا لماتَ أهلُ النَّارِ
(صحيح الترمذي.: 2558)
”قیامت کے دن موت کو چتکبرے مینڈھے کی طرح لایا جائے گا اور جنت و جہنم کے درمیان کھڑی کی جائے گی پھر وہ ذبح کی جائے گی اور جنتی و جہنمی دیکھ رہے ہوں گے، سو اگر کوئی خوشی سے مرنے والا ہوتا تو جنتی مر جاتے اور اگر کوئی غم سے مرنے والا ہوتا تو جہنمی مر جاتے“۔
اور بعض روایات میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا:
فَلَوْلَا أَنَّ اللَّهَ قَضَى لِأَهْلِ الْجَنَّةِ الْحَيَاةَ فِيهَا وَالْبَقَاءَ لَمَاتُوا فَرَحًا، وَلَوْلَا أَنَّ اللَّهَ قَضَى لِأَهْلِ النَّارِ الْحَيَاةَ فِيهَا وَالْبَقَاءَ لَمَاتُوا تَرَحًا
(سنن ترمذي: كتاب تفسير القرآن : 3156)
اگر اہل جنت کے لئے زندگی اور بقاء کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو وہ خوشی سے مر جاتے اور اگر اہل جہنم کے لئے جہنم کی زندگی اور جہنم میں ہمیشگی کا فیصلہ نہ ہوچکا ہوتا تو وہ بھی غم میں مر جاتے۔
وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ
اس آیت میں وارد ایک جملہ (وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ) کا مطلب ہے کہ وہ لوگ دنیا کے اندر غفلت میں ہیں کیونکہ آخرت میں کوئی غفلت نہیں ہوگی چنانچہ کافروں اور منافقوں کی غفلت سخت قسم کی غفلت ہوتی ہے جو صاحب غفلت کے جہنم میں ہمیشہ رہنے کا موجب ہے اور اسی طرح یہ بھی غفلت ہے کہ جان بوجھ کر نیکی اور بھلائی کا ارادہ نہ کرنا اور اسے اچھا نہ جاننا، ساتھ ہی ساتھ دل کا علم نافع اور عمل صالح سے خالی ہونا اور خواہش نفس کی پیروی کرنا ۔
ارشاد باری تعالی ہے :
وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا
(سورۃ الکہف :28)
اور اس شخص کا کہنا مت مان جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔
مفسرین کہتے ہیں:
اس شخص کی پیروی نہ کرو جس کے دل کو ہم نے قرآن اور اسلام سے غافل کر دیا ہے اور جس کی ساری کوششیں برباد اور اکارت ہیں۔
غفلت کیسے سرزد ہوتی ہے ؟
جہاں تک ایک مسلمان کی غفلت کی بات ہے تو یہ غفلت اس طرح کی ہوتی ہے کہ وہ بعض ایسے نیک اعمال سے غافل ہو جاتا ہے جس کا ترک کرنا اور چھوڑنا اسلام کے منافی نہیں یا یہ کہ بعض ایسے گناہوں کا ارتکاب کرلیتا ہے جو اسے کفر تک تو نہیں پہنچاتے اسی طرح گناہوں سے غفلت برتا ہے۔
غفلت کے نقصانات
مسلمان شخص کا غفلت برتنا اس کے لئے بہت بری چیز ہے اس کے نقصانات بھیانک ہیں یہ غفلت اسے ہلاکت و تباہی کی کھائی میں دھکیل دیتی ہے اور خیر و بھلائی کی راہوں کو مسدود کر دیتی ہے۔ غفلت کے بہت سارے نقصانات ہیں اور اس کے شر کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دوری
غفلت کے نقصانات میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ غفلت انسان کو اپنے خالق کی یاد سے غافل کر دیتی ہے جو انسان کے اپنے رب سے دوری کا سبب بن جاتی ہے
ارشاد باری تعالی ہے
وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللہَ فَأَنسَاهُمْ أَنفُسَهُمْ أُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
(سورہ الحشر : 19)
اور ان کی طرح نہ ہوں جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا پھر اللہ نے بھی ان کو ایسا کردیا کہ اپنے آپ کو ہی بھول گئے اور یہی لوگ ہی نافرمان ہیں ۔
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
نَسُوا اللہَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ
( سورۃ التوبة: 67)
وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انہیں بھلا دیا بیشک منافقین ہی نافرمان ہیں۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا :
وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينَ
( سورۃ الأعراف :205)
اور اپنے رب کو اپنے دل میں عاجزی سے اور ڈرتے ہوئے یاد کرتے رہا کرو، صبح و شام بلند آواز سے اور ہلکی آواز سے اور غافلوں میں سے مت ہو جاؤ ۔
کمال ِتوحید میں نقص
مسلمان شخص جب کمال توحید سے واقفیت حاصل کرنے میں غفلت اختیار کرتا ہے تو وہ کمال توحید میں نقص و کمی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللہِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ
(سورۃ یوسف: 106)
ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو اللہ کو تو مانتے ہیں اور ساتھ شرک بھی کرتے ہیں۔
نماز میں خلل
ایک بندہ جب نماز کے ارکان اور اس کے واجبات کی معرفت سے غفلت و لا پرواہی اختیار کرتا ہے تو اس کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے ۔ جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أنَّ رَسولَ اللہِ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ دَخَلَ المَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ، فَصَلَّى، فَسَلَّمَ علَى النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَرَدَّ وقالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ، فإنَّكَ لَمْ تُصَلِّ، فَرَجَعَ يُصَلِّي كما صَلَّى، ثُمَّ جَاءَ، فَسَلَّمَ علَى النبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، فَقالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ، فإنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا، فَقالَ: والذي بَعَثَكَ بالحَقِّ ما أُحْسِنُ غَيْرَهُ، فَعَلِّمْنِي، فَقالَ: إذَا قُمْتَ إلى الصَّلَاةِ فَكَبِّرْ، ثُمَّ اقْرَأْ ما تَيَسَّرَ معكَ مِنَ القُرْآنِ، ثُمَّ ارْكَعْ حتَّى تَطْمَئِنَّ رَاكِعًا، ثُمَّ ارْفَعْ حتَّى تَعْدِلَ قَائِمًا، ثُمَّ اسْجُدْ حتَّى تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا، ثُمَّ ارْفَعْ حتَّى تَطْمَئِنَّ جَالِسًا، وافْعَلْ ذلكَ في صَلَاتِكَ كُلِّهَا.
(صحيح البخاري: 757، و مسلم :397)
ترجمہ : نبی ﷺ مسجد میں تشريف لے گئے، تو ایک شخص مسجد ميں داخل ہوا۔ اس نے نماز پڑھی، پھر آکر نبی ﷺ کو سلام کیا، تو آپ ﷺنے فرمایا: لوٹ جاؤ، پھر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی” ۔ اس نے لوٹ کر (دوبارہ) نماز پڑھی جیسے پہلے پڑھی تھی، پھر آیا اور نبی ﷺ کو سلام کیا، تو آپ ﷺ نے (پھر) فرمایا: ”لوٹ جاؤ، پھر نماز پڑھو، کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی” (اسی طرح) تین مرتبہ (ہوا) تو اس شخص نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے بہتر (نماز) نہیں پڑھ سکتا ہوں۔ لہٰذا آپ مجھے سکھا دیجيے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھر جتنا قرآن تم آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھو، پھر رکوع کرو یہاں تک کہ رکوع میں تمہیں اطمینان حاصل ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ، پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ ميں تمھیں اطمینان حاصل ہو جائے، پھر سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو“
نماز باجماعت کی پابندی نہ کرنا
جماعت کی پابندی کو ذہن نشین نہ کرنا اور اس سے غفلت اختیار کرنا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں تساہل اور سستی کا موجب بنتا ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إنَّ أَثْقَلَ صَلَاةٍ علَى المُنَافِقِينَ صَلَاةُ العِشَاءِ، وَصَلَاةُ الفَجْرِ، ولو يَعْلَمُونَ ما فِيهِما لأَتَوْهُما ولو حَبْوًا
(صحيح مسلم: 651)
منافقین پر سب سے بھاری عشاء اور فجر کی نماز ہے، اگر وہ ان دونوں نمازوں کا ثواب جان لیں تو مسجد میں ضرور آئیں گے، خواہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے کیوں نہ آنا پڑے“۔
والدین کی نافرمانی
والدین کی نافرمانی پر جو سزائیں ہیں ان سے لاعلمی اور غفلت کی بنیاد پر اولاد اپنے والدین کی نافرمانی کرتی ہے ۔اس پر نبی ﷺ کا ارشاد منطبق ہوتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
ثلاثةٌ لا يدخلون الجنَّةَ : العاقُّ لوالدَيه ، والدَّيُّوثُ ، ورَجِلَةُ النِّساءِ
(صحيح الترغيب: 2070. وصحيح الجامع: 3063)
تین طرح کے لوگ جنت میں داخل نہیں ہونگے ،ان میں سے ایک والدین کی نافرمانی کرنے والا ، دوسرا دیوث (بےغیرت، جو اپنی بیوی کے زنا پر خاموش رہتا ہے) اور تیسرا مردوں کی مشابہت کرنے والی عورتیں ۔
قطع رحمی کرنا
قطع رحمی (رشتہ داروں سے اچھے تعلقات ختم کرنا) غفلت کی بنا پر انسان قطع رحمی کا مرتکب ہو جاتا ہے اور اس کی وعید سے دوچار ہوتا ہے۔ جیسا کہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
لَا يَدْخُلُ الجَنَّةَ قَاطِعُ رَحِمٍ.
( صحيح مسلم: 2556)
قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا ۔
غفلت سے نجات کے اسباب
نماز جماعت کی پابندی
غفلت اور لا پرواہی سے نجات اس وقت مل سکتی ہے جب اس کے اسباب سے دور رہیں اور دنیا سے لگاؤ کو کم کریں جو کہ انسان کو آخرت سے غافل کردیتی ہے اور ایک مسلمان کو غفلت سے بچانے میں جو چیزیں معین و مدد گار ہیں ان میں خشوع و خضوع کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنا ہے ۔
نماز ہی دلوں کی حیات وزندگی کی ضامن ہے کیونکہ نماز میں عظیم معانی ومقاصد مضمر ہیں۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے :
إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي
(سورۃ طہ : 14)
بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں ہے اس لیے آپ میری عبادت کیجیے اور مجھے یاد کرنے کے لیے نماز قائم کیجیے ۔
ذکر الہی
غفلت سے نجات دینے والے امور میں ہر حال میں اللہ تعالی کا ذکر کرنا بھی ہے کیوںکہ ذکر الہی سے دل زندہ ہوتے ہیں، شیطان دور بھاگتا ہے، روح پاک ہو جاتی ہے اور بدن اطاعت کے کاموں میں راغب ہوتا ہے ، خواب غفلت سے انسان بیدار ہوتا ہے اور دائمی ذکر الہی بندے کو گناہوں سے بچاتا ہے۔ ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَثَلُ الذي يَذْكُرُ رَبَّهُ والذي لا يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الحَيِّ والمَيِّتِ
(صحیح البخاري :6407، ومسلم :779)
جو شخص رب کو یاد کرتا ہے اور جو نہیں یاد کرتا ان دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے
(یعنی: اللہ کو یاد کرنا تو زندہ لوگوں کی نشانی ہے اور جو اللہ کو یاد نہیں کرتے وہ تو گویا مردہ ہیں)
تلاوت قرآن مجید
غفلت سے حفاظت کے اسباب میں قرآن کی تلاوت بھی ہے۔ اس میں انتہائی حیرت انگیز قصے اور انسان کی دلچسپیوں کا سامان موجود ہے۔ اس میں دلوں کی شفاء ہے۔ اس میں ہر خیر پر ابھارا گیا ہے اور شر سے ڈرایا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ
(سورۃ الأسراء : 82)
اور ہم قرآن میں ایسی چیزیں نازل کرتے ہیں کہ وہ ایمان والوں کے لیے شفاء اور رحمت ہیں۔
اہل علم کی صحبت
اسی طرح غفلت سے بچاؤ کے اسباب میں سے اہل علم اور نیک لوگوں کی صحبت اور ہم نشینی اختیار کرنا بھی ہے ۔ کیونکہ یہ لوگ رب کی یاد دہانی کراتے ہیں اور لوگوں کو علم شرعی کی تعلیم دیتے ہیں ۔ارشاد باری تعالی ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا
(سورۃ الکہف : 28)
اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ ہی مطمئن رکھئے جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں، آپ کی آنکھیں ان سے ہٹنے نہ پائیں کہ دنیوی زندگی کی زینت چاہنے لگیں۔
برے لوگوں کی محفل سے اجتناب
اور غفلت سے نجات کے اسباب میں سے لھو و لعب، فسق و فجور کی مجلسوں اور برے لوگوں کی صحبت سے دور رہنا بھی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا
( سورۃ النساء:140)
اور اللہ تعالی تمہارے پاس اپنی کتاب (قرآن) میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ تم جب کسی مجلس والوں کو اللہ تعالی کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے سنو تو اس مجمع اور مجلس سے اٹھ جاؤ وہاں نہ بیٹھو جب تک کہ وہ اس کے علاوہ دیگر باتوں میں مصروف نہ ہوجائیں، وگرنہ تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو ۔ یقینا اللہ تعالی تمام کافروں اور منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے ۔
الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے برے لوگوں سے دور رہنے کی تاکید کی ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِنِّما مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ ، وجَلِيسِ السُّوءِ ، كَحامِلِ المِسْكِ ، ونافِخِ الكِيرِ ، فَحامِلُ المِسْكِ ، إِمَّا أنْ يَحْذِيَكَ ، وإِمَّا أنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ ، وإِمَّا أنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً ، ونافِخُ الكِيرِ ، إِمَّا أنْ يَحْرِقَ ثَيابَكَ ، وإِمَّا أنْ تَجِدَ رِيحًا خَبيثَةً
(صحيح مسلم: 2628، و صحيح البخاري :2101)
ترجمہ :اچھے ہم نشین اور برے ہم نشین کی مثال مشک (خوشبو) رکھنے والے اور بھٹی میں پھونک مارنے والے کی سی ہے۔ مشک والا یا تو تمہیں تحفہ میں خوشبو دیدے گا یا تم اس سے وہ خرید سکو گے یا کم از کم اس سے تمہیں اچھی خوشبو حاصل ہو گی اور بھٹی میں پھونک مارنے والا یا تو تیرے کپڑے جلا دے گا یا تم اس سے بدبو ہی پاؤ گے ۔
دنیا کی رنگینیوں سے دوری
غفلت سے نجات کے اسباب میں سے دنیا کی بے بضعتی، حقارت اور بے ثباتی کو جاننا بھی ہے۔ اس کی چمک دھمک اور حسن آرائش سے دھوکا نہ کھانا اور آخرت کو فرموش نہ کرنا بھی ہے۔ کیونکہ اسی چیز نے اکثر لوگوں کو آخرت اور ہدایت کے راستے سے دور کر رکھا ہے۔
اللہ تعالی میرے اور آپ کے لیے قرآن کریم کو باعث برکت بنائے۔ اس کی آیات اور حکیمانہ نتائج سے مجھے اور آپ سب کو نفع پہنچائے۔ میں اپنے لیے اور آپ سب کے لیے استغفار کرتا ہوں اور آپ سب بھی استغفار کرو۔ یقینا وہ (اللہ) بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے ۔
دوسرا خطبہ :
تمام تعریفیں تمام جہانوں کے پالنے والے اللہ تعالی کے لیے ہیں جو بڑا مہربان، نہایت رحم کرنے والا ہے۔ میں اپنے رب کی حمد بیان کرتا ہوں اور اس کی ظاہری اور باطنی تمام نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں وہ کہ مالک اکیلا ہے، تنہا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور نبی محمد (ﷺ) اس کے بندے اور رسول ہیں جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرنے والے ہیں۔ اے اللہ! رحمتیں اور سلامتی اور برکتیں نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر اور ان کے متقی پرہیزگار اعلی اخلاق کے پیکر صحابہ کرام پر۔
فکر آخرت
اللہ کے بندوں! اللہ تعالی سے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔ مسلمانوں کو غفلت سے بیدار کرنے اور اس کے نقصان دہ اثرات سے بچانے والی اشیاء میں سے ایک عظیم چیز موت اور اس کے بعد والے احوال کا تذکرہ کرنا اور ان کو یاد کرنا بھی ہے۔ یہ موت ایک موثر بلیغ واعظ ہے جس کا لوگ مشاہدہ کرتے رہتے ہیں، اس کے بارے میں سنتے رہتے ہیں اور جس کا ذائقہ چکھنا یقینی عمل ہے۔ اس سے ملاقات عنقریب ہونے والی ہے اور اس کا وقوع پذیر ہونا یقینی ہے ۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
أَكثروا ذِكرَ هاذمِ اللَّذَّات يعني الموتَ
(صحيح الترمذي: 2307)
لذتوں کو توڑ دینے والی ( یعنی: موت ) کو کثرت سے یاد کرتے رہا کرو ۔
اور جو موت کو بکژت یاد کر تا ہے اس کا دل صحیح سالم رہتا ہے، اس کا عمل پاکیزہ و طیب رہتا ہے اور وہ غفلت کا شکار ہونے سے بچ جاتا ہے۔ موت کے وقت ایک مؤمن خوش ہوتا ہے اور فاسق و فاجر شرمندگی محسوس کرتا ہے اور واپسی کی تمنا کرتا ہے جبکہ اس کی تمنا کسی صورت پوری ہونے والی نہیں ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے :
حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ ، لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ
(سورۃ المؤمنون : 100، 99 )
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے سرہانے موت آکھڑی ہوگی تو اس وقت کہنے لگے گا اے میرے رب ! مجھے دنیا میں دوبارہ لوٹا دے۔ تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں وہاں جا کر عمل صالح کروں، ہرگز نہیں! یہ محض ایک لفظ ہے جسے وہ کہہ رہا ہے (اسے دوبارہ بھی توفیق عمل نہیں ہوگی) اور وہ لوگ اپنی موت کے بعد قیامت کے دن تک عالم برزخ میں رہیں گے۔
حقیقی زندگی کیا ہے؟
انسان کی حقیقی زندگی وہی ہے جو اطاعت الہیہ کے کاموں میں گزری ہو۔ گناہ و معاصی میں گزری زندگی انسان کے لئے خسارہ اور ضیاع ہے ،
اللہ کے بندوں! یقینا اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والوں! تم بھی نبی ﷺ پر درود بھیجو۔ نبیﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن صَلَّى عَلَيَّ واحِدَةً صَلَّى اللَّهُ عليه عَشْرًا
( صحيح مسلم: 408)
جس نے ایک بار مجھ پر درود پڑھا تو اللہ تعالی اس پر دس رحمتوں کا نزو ل فرمائے گا ۔
لہذا سید الاولین و الآخرین، امام المرسلین، نبی محمد ﷺ پر سب درود و سلام بھیجو۔ اے اللہ! تو محمد ﷺ پر اور ان کی آل پر رحمتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم (علیہ السلام) اور آل ابراہیم پر رحمتیں نازل کیں۔ یقینا تو ہی تعریف کیا گیا، بزرگی والا ہے۔ اے اللہ! محمد ﷺ پر اور آل محمد ﷺ پر برکتوں کا نزول فرما جس طرح تو نے ابراھیم (علیہ السلام) اور آل ابراھیم پر برکتیں نازل فرمائیں۔ یقینا تو ہی تعریف کیا گیا، بزرگی والا ہے۔ بہت زیادہ سلامتی نازل فرما۔
اے اللہ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہوجا۔ چاروں خلفائے راشدین ابو بکر و عمر و عثمان و علی اور تمام صحابہ و تابعین اور احسان کے ساتھ تا قیامت انکی پیروی کرنے والوں سے راضی ہوجا۔ اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما۔ شرک اور مشرکین اور اہل بدعات کو ذلیل و رسوا فرما۔ اے اللہ! ہمارے کمزور مسلمان بھائیوں کی مدد فرما۔ یا اللہ! فلسطینی مسلمانوں کی مدد فرما۔ اے اللہ! فلسطین کے کمزور مسلمان بچوں، عورتوں کی خصوصی تایئد و نصرت فرما۔ اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما ، آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اے اللہ! خادم حرمین شریفین کو خصوصی تو فیق سے نواز اور ان کے ولی عہد کو اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق عطا فرما۔ اے اللہ! ہم تجھ سے دنیا میں بھلائی کا سوال کرتے ہیں اور آخرت میں بھی اور ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں! اللہ تعالی عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے ، بے حیائی اور برے کاموں سے منع کرتا ہے، ظلم و زیادتی سے روکتا ہے اور وہ خود تمہیں نصیحت کر رہا ہے اور تم نصیحت حاصل کرو اور اللہ تعالی کو یاد کرو وہ تمہیں یاد کرے گا اور اس کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرو وہ مزید تمہیں نوازے گا اور اللہ تعالی کا ذکر تو بہت بڑی چیز ہے۔ جو کام تم کرتے ہو اللہ تعالی وہ جانتا ہے ۔
خطبة الجمعة، مسجد نبوی
فضیلۃ الشیخ: احمد بن طالب بن حمید حفظہ اللہ تعالی
30 جمادی الثانی 1445 بمطابق 12 جنوری 2024