غفلت کے خطرات، اسباب اور تدابیر

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو زندہ کرتا اور مارتا ہے، وہی ہر چیز پر قادر ہے، اس کے نام مقدس  اور صفات جلیل القدر ہیں، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی حکمت والا اور باخبر ہے، اسی نے قرآن ، نصیحت، حکمت اور عملِ صالح کے ذریعے دلوں کو زندگی بخشی، حق سے رو گرداں شخص کو اسی کے حال پر چھوڑ دیا تو وہ خسارے ،غفلت اور دھوکے میں ڈوب گیا، میں اپنے رب کی تمام نعمتوں  پر تعریف کرتا ہوں اور بے پناہ فضل پر شکر گزاری کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہی سمیع و بصیر ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی  جناب محمد  ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں ، آپ بشیر و نذیر اور سراج منیر ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول جناب محمد ﷺ پر ان کی آل اور تمام مومنوں کے لئے عملی نمونہ بننے والے صحابہ کرام پر درود  و سلام اور برکتیں نازل فرما ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی کےلئے رضائے الہی کا موجب بننے والے اعمال کرو اور ایسے تمام اعمال سے بچو  جن سے اللہ تعالی نے روکا ہے اور جو اللہ کے غضب کا موجب بنتے ہیں؛ کیونکہ تقوی دنیا میں سعادت اور آخرت میں حصولِ جنت کا باعث ہے، تقوی اپنانے والا مبارکبادی اور اس سے رو گردانی کرنے والا تباہی کا حقدار ہے۔

اللہ کے بندوں!

دلوں کےلئے بہتری کا باعث بننے والی چیزوں سے دلوں کی اصلاح کرو اور دلوں کو گدلا کرنے والی چیزوں سے اسے بچاؤ؛ کیونکہ دل دیگر تمام اعضا کا سلطان ہے، جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (خبردار! جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر وہ صحیح ہو تو مکمل جسم صحیح ہے اور جب وہی خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے، خبردار! وہ لوتھڑا دل ہے) بخاری و مسلم نے اسے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

کیا آپ کو دلوں کی سب سے بڑی بیماری کا علم ہے؟ یہ بیماری جسے لگ جائے تو وہ خیر کے تمام مواقع سے محروم ہو جاتا ہے، یا بہت سے خیر کے مواقع سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے! دلوں کی سب سے بڑی بیماری غفلت ہے، دلوں پر اچھی طرح چھائی ہوئی غفلت وہ ہے جن کی وجہ سے کفار اور منافقین بد بختی میں مبتلا ہیں، یہی غفلت  ان کیلیے جہنم میں دائمی جلنے سڑنے کا باعث بنے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

 مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ (106) ذَلِكَ بِأَنَّهُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ (107) أُولَئِكَ الَّذِينَ طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَأَبْصَارِهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ

النحل – 106/108

 جو شخص ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے ما سوائے اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو ، مگر جو کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت سے زیادہ محبوب بنایا، یقیناً اللہ تعالی کافر لوگوں کو راہ راست نہیں دکھاتا ۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں ،کانوں اور جن کی آنکھوں پر مہر لگا دی گئی ہے اور یہی لوگ غافل ہیں ۔

غفلت  مسلمان سے بھی ہو سکتی ہے کہ خیر کے کچھ کاموں سے غافل ہو جائے یا اپنے فائدے کے اسباب نہ اپنائے اور نقصانات سے بچاؤ  کیلیے اقدامات نہ کرے، تو ایسا کرنے پر غفلت کے برابر وہ ثواب سے محروم رہتا ہے، اور اتنی ہی مقدار میں اسے  تنگیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

 وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَلِيُوَفِّيَهُمْ أَعْمَالَهُمْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ

الاحقاف – 19

ہر ایک کے لیے درجات ہوں گے ان کے اعمال کے مطابق اور وہ انہیں ان کے اعمال کا پورا بدلہ دے گا  اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اور اسی طرح فرمایا:

 وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى (39) وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى(40) ثُمَّ يُجْزَاهُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَى

النجم – 31/41

 اور انسان کو صرف وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی۔ اور اس کی کوشش عنقریب ملاحظہ کر لی جائے گی ۔پھر اسے مکمل بدلہ دیا جائے گا۔

اور نبی ﷺ نے اللہ تعالی کا یہ فرمان ذکر کیا کہ: (میری رحمت سے جنت میں داخل ہو جاؤ اور اپنے اعمال کے مطابق اسے تقسیم کر لو)

آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (ایک قوم [ہر کام میں]تاخیر کا شکار ہو گی یہاں تک کہ اللہ تعالی بھی انہیں مؤخر فرما دے گا، چاہے وہ جنت میں بھی داخل ہو جائیں)۔

اللہ تعالی نے اسباب نجات اپنانے میں غفلت کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا:

أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

آل عمران – 165

 تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو گنا پہنچا چکے ، تو یہ کہنے لگے یہ کہاں سے آ گئی ؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے  بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔

اسی طرح فرمایا:

وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَنْ كَثِيرٍ

الشوریٰ – 30

 اور تمہیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے، اور اللہ بہت سے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔

اس آیت میں مذکور معافی مسلمان کیلیے ہے کافر کیلیے نہیں؛ کیونکہ کافر کے گناہ توبہ یعنی اسلام لائے بغیر معاف نہیں ہو سکتے۔

غفلت اسے کہتے ہیں کہ: اچھا کام کرنے کا ارادہ کیا جائے اور نہ ہی اچھے کاموں سے لگاؤ ہو، مزید بر آں دل میں علم نافع اور عمل صالح بھی نہ ہو، یہ ٖانتہا درجے کی غفلت ہے جو کہ تباہی کا سبب ہے، ایسی غفلت کفار اور منافقین میں پائی جاتی ہے، جس سے بچاؤ اور خلاصی صرف توبہ کی صورت میں ہے، جب انسان پر ایسی غفلت غالب آ جائے تو وہ صرف گمان اور ہوس کے پیچھے ہی چلتا ہے، شیطان ان چیزوں کو مزین کر کے دکھاتا اور من مانیاں اس کے دل میں ڈال دیتا ہے، یہ ہے وہ غفلت جس کی وجہ سے اللہ تعالی نے منافقوں اور کفار کو دنیا و آخرت میں سزا دی، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ

الاعراف – 179

 بہت سے ایسے جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ ان کے دل تو ہیں مگر ان سے  سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں۔ ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے  اور یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُمُ الرِّجْزَ إِلَى أَجَلٍ هُمْ بَالِغُوهُ إِذَا هُمْ يَنْكُثُونَ (135) فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَأَغْرَقْنَاهُمْ فِي الْيَمِّ بِأَنَّهُمْ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَكَانُوا عَنْهَا غَافِلِينَ

الاعراف – 135/136

 جب ہم ان سے عذاب کو ایک وقت تک دور کر دیتے جسے وہ پہنچنے والے تھے تو اچانک وہ عہد توڑ دیتے تھے [135] پھر ہم نے ان سے انتقام لیا اور انہیں دریا میں غرق کر دیا اس وجہ سے کہ انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ ان سے غافل تھے۔

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ آيَاتِنَا لَغَافِلُونَ

یونس -92

 اور بہت سے لوگ ہماری آیتوں سے یقیناً غافل ہوتے ہیں۔

اللہ تعالی نے منافقین کے بارے میں فرمایا:

صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ

البقرۃ – 171

وہ بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں وہ تو عقل نہیں رکھتے۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَأَنْذِرْهُمْ يَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِيَ الْأَمْرُ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ وَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ

مریم – 39

 اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرائیں جب فیصلہ کر دیا جائے گا اور وہ یہاں غفلت میں ہیں  ایمان نہیں لا رہے۔

 سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (جس وقت جنتی جنت میں چلے جائیں گے اور جہنمی جہنم میں چلے جائیں گے تو موت کو چتکبرے دنبے کی شکل میں لایا جائے گا اور آواز لگانے والا کہے گا: اہل جنت! تو جنتی گردنیں لمبی کر کے دیکھیں گے، تو وہ کہے گا: “اسے جانتے ہو؟” تو جنتی کہیں گے: “ہاں یہ موت ہے” اور سب جتنی اسے دیکھ لیں گے۔ پھر وہ صدا لگائے گا: اہل جہنم! تو جہنمی گردنیں لمبی کر کے دیکھیں گے، تو وہ کہے گا: “اسے جانتے ہو؟” تو جہنمی کہیں گے: “ہاں یہ موت ہے” اور سب جہنمی اسے دیکھ لیں گے۔ پھر اسے جنت اور جہنم کے درمیان ذبح کر دیا جائے گا، اور کہا جائے گا: اہل جنت تمہارے لیے دائمی زندگی ہے اس میں موت نہیں ہے، اور اہل جہنم تمہارے لیے بھی دائمی زندگی ہے اس میں موت نہیں ہے، پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی) بخاری ، مسلم، جبکہ بعض روایات میں ہے کہ: (اگر اللہ تعالی نے اہل جنت کیلیے دائمی زندگی نہ لکھی ہوتی تو وہ [یہ سن کر]خوشی سے مر جائیں اور اگر اہل جہنم کیلیے اللہ تعالی نے دائمی زندگی نہ لکھی ہوتی تو وہ [یہ سن کر] غم اور حسرت کی بنا پر مر جائیں) اللہ تعالی کے فرمان:

 وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ

 یعنی: وہ دنیا کے اندر غفلت میں ڈوبے رہے؛ کیونکہ آخرت میں تو غفلت کا تصور ہی نہیں ہے۔

کفار اور منافقین کی غفلت مکمل طور پر انسان کو اپنے قابو میں کرنے والی غفلت ہے جس کی وجہ سے انسان دائمی جہنم کا ایندھن بنے گا، اور وہ یہ  ہے کہ اچھا کام کرنے کا ارادہ ہی نہ کیا جائے اور نہ ہی اچھے کاموں سے دل میں محبت ہو، مزید بر آں دل میں خواہش پرستی کے ساتھ علم نافع اور عمل صالح بھی نہ ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا

الکھف – 28

اور آپ اس کی اطاعت نہ کریں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور وہ ہوس پرستی میں مبتلا ہے اور اس کا معاملہ حد سے بڑھا ہوا ہے۔

مفسرین اس آیت کے مفہوم کو واضح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: “آپ ایسے شخص کے پیچھے مت لگیں جس کے دل کو ہم نے قرآن اور اسلام سے غافل کر دیا ہے اور اس کا معاملہ اب تباہی اور بربادی ہے”۔

جبکہ مسلمان کی غفلت یہ ہوتی ہے کہ وہ چند ایسے نیک کاموں سے غافل ہو جاتا ہے جن کا ترک کرنا اسلام کے منافی نہیں ہوتا ، یا ایسے گناہوں میں وہ ملوث ہو جاتا ہے جو کفریہ نہیں ہوتے، اسی طرح مسلمان گناہوں کی سزاؤں سے غافل ہو جاتا ہے۔

مسلمان کے غافل ہونے کا نقصان اور خمیازہ بہت سنگین ہوتا ہے، اس کے خطرناک نتائج تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، غفلت کی وجہ سے مسلمان کیلیے نیکی کے دروازے بند ہو سکتے ہیں۔

غفلت کے نقصانات بہت زیادہ ہوتے ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا:

 وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسَاهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

الحشر – 19

 اور ان لوگوں کی طرح مت ہو جانا جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ تعالی نے انہیں ان کا اپنا من  ہی بھلا دیا ، یہی لوگ فاسق ہیں۔

اسی طرح فرمایا:

نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

التوبة – 67

 وہ اللہ کو بھول گئے تو اللہ انہیں بھول گیا، بیشک منافقین  فاسق ہیں۔

ایک اور جگہ فرمایا:

وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ وَلَا تَكُنْ مِنَ الْغَافِلِينَ

الاعراف – 205

 اور اپنے پروردگار کو صبح و شام دل ہی دل میں عاجزی، خوف کے ساتھ اور دھیمی آواز سے یاد کیا کیجئے اور ان لوگوں سے نہ ہو جائیے جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ۔

کامل عقیدہ توحید کی معرفت سے غافل انسان کامل عقیدے سے محروم رہتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ

یوسف – 106

 اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان لانے کے باوجود وہ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔

نماز کے ارکان اور واجبات کے سیکھنے میں غفلت برتنے سے انسان کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے، جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ : “نبی ﷺ نے ایک شخص کو جلد بازی میں نماز پڑھ کر جاتے ہوئے دیکھا تو واپسی پر اس نے نبی ﷺ کو سلام کیا، اس پر آپ ﷺ نے اسے فرمایا: (جاؤ واپس جا کر دوبارہ نماز پڑھو؛ کیونکہ تم نے نماز پڑھی ہی نہیں)یہ معاملہ تین بار ہوا، تو پھر آخر کار نبی ﷺ نے اسے نماز کے ارکان میں اطمینان سکھایا” بخاری، مسلم

جب انسان نماز با جماعت کے ثواب سے غافل ہو  تو اس کی ادائیگی میں سستی کا شکار ہو جاتا ہے، نبی ﷺ کا فرمان ہے: (منافقین کیلیے سب سے گراں نماز عشا اور فجر کی نماز ہے، اگر انہیں ان نمازوں کے اجر و ثواب کا علم ہو جائے تو وہ انہیں [با جماعت ]ادا کرنے کیلیے ضرور آئیں چاہے انہیں گھٹنوں کے بل آنا پڑے) بخاری، مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔

جب زکاۃ ادا کرنے کا ثواب اوجھل ہو اور غفلت کی وجہ سے زکاۃ روکنے والے کی سزا ذہن میں نہ رہے تو یہ زکاۃ کی ادائیگی میں سستی کا باعث بن جاتی ہے، ایک حدیث میں ہے کہ: (کوئی بھی اپنے خزانے کی زکاۃ ادا نہ کرے تو وہ خزانہ اس کیلیے گنجے اژدھے کی شکل اختیار کر جائے گا پھر وہ اس کے جبڑوں  کو کاٹ کر کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں ، میں تیرا مال ہوں ) بخاری اور مسلم نے اسے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ وہ بہت بڑا اژدھا بن کر اس کی باچھوں کو پکڑے گا اور اس میں اپنا زہر چھوڑ دے گا۔

والدین کی نافرمانی کی سزا سے غافل اولاد ؛ والدین کی نافرمان بن جاتی ہے، اور ان کے بارے میں نبی ﷺ کا یہ فرمان سچ ہو جاتا  ہے کہ : (تین قسم کے لوگ جنت میں نہیں جائیں گے: والدین کا نافرمان، دیوث  اور مردوں کی مشابہت کرنے والی خواتین) اسے نسائی اور حاکم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے، اس کی سند صحیح ہے۔ دیوث اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے اہل خانہ کو زنا سے نہ روکے، مردوں سے مشابہت اختیار کرنے والی خواتین۔

قطع رحمی کی سزا سے غفلت پر قطع رحمی کرنے والے کیلیے وعید  ہے، چنانچہ جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:  (جنت میں قطع رحمی کرنے والا داخل نہیں ہو گا) بخاری

ظالم کو ملنے والی سزاؤں سے غفلت کی وجہ سے روئے زمین پر ظلم و زیادتی بڑھ جاتی ہے، ناحق قتل ہوتے ہیں، دوسروں کی دولت لوٹی جاتی ہے اور عزتیں تار تار ہوتی ہیں، تعمیری سوچ تخریب کاری میں بدل جاتی ہے، زر خیز زمین بنجر ہو جاتی ہے، فصلیں اور نسلیں تباہ ہو کر رہ جاتی ہیں، چہار سو ہو کا عالم ہوتا ہے، نیز ظالم پر بھی ظلم کے بدلے میں سزائیں نازل ہوتی ہیں، جیسے کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے: (بیشک اللہ تعالی ظالم کو مہلت دیتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب اسے پکڑتا ہے تو بالکل موقع نہیں دیتا، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی:

وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ

هود – 102

 اور جب بھی آپ کا پروردگار کسی ظالم بستی کو پکڑتا ہے تو اس کی گرفت ایسی ہی ہوتی ہے بلاشبہ اس کی گرفت دکھ دینے والی اور سخت ہوتی ہے ۔ بخاری  اور مسلم نے اسے ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔

غفلت حقیقت میں تمام برائیوں کی کنجی ہے، غفلت کی وجہ سے مسلمان بہت سے اجرو ثواب سے محروم رہ جاتا ہے، مسلمان کے اجر و ثواب میں کمی غفلت کی وجہ سے ہی آتی ہے، لہذا غفلت سے نجات  میں سعادت  ہے، بندگی کے اعلی درجوں تک جانے کیلیے غفلت سے دوری لازمی امر ہے، یہی وجہ ہے کہ غفلت سے بچاؤ کی صورت میں دنیاوی سزاؤں سے تحفظ ملتا ہے اور مرنے کے بعد دائمی نعمتیں بھی حاصل ہوتی ہیں۔

غفلت سے بچاؤ اسی وقت ممکن ہے جب غفلت کے اسباب سے ہم دور رہیں اور انسان کو دھوکے میں ڈالنے والی دنیا کی جانب مائل نہ ہوں۔

غفلت سے بچاؤ کیلیے معاون چیز یہ بھی ہے کہ نماز با جماعت کا اہتمام خشوع اور حاضر قلبی کے ساتھ کیا جائے؛ کیونکہ نماز میں دلوں کی زندگی ہے اس لیے کہ نماز اپنے اندر عظیم معنی خیزی رکھتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي

طٰه – 14

 اور میری یاد کیلیے نماز قائم کر۔

ہر حال میں اللہ کا ذکر بھی غفلت سے نجات دہندہ ہے؛ کیونکہ ذکر دل کو زندہ رکھتا ہے اور شیطان کو دور بھگاتا ہے، روح کا تزکیہ کرتا ہے، بدن میں نیکی کرنے کیلیے قوت پیدا کرتا ہے، بلکہ خواب غفلت سے بھی بیدار کر دیتا ہے، اسی طرح دائمی طور پر ذکر میں مشغول رہنے سے انسان گناہوں سے محفوظ ہو جاتا ہے، ابو موسی رضی اللہ عنہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ  آپ نے فرمایا: (اپنے پروردگار کا ذکر کرنے اور نہ کرنے والے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے زندہ اور مردہ کی مثال ہوتی ہے) بخاری، مسلم

قرآن کریم کی تلاوت بھی غفلت سے بچاتی ہے؛ تلاوتِ قرآن کریم کا معاملہ بہت تعجب خیز ہے، تلاوتِ قرآن میں دلوں کیلیے شفا ہے، تلاوت ہمہ قسم کی نیکی اور بھلائی کرنے پر ابھارتی ہے، ہمہ قسم کے گناہوں سے روکتی ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ

الاسراء – 82

 اور ہم قرآن نازل کرتے ہیں جو کہ مومنوں کیلیے شفا اور رحمت ہے۔

علمائے کرام اور نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے سے بھی انسان کو غفلت سے تحفظ ملتا ہے؛ کیونکہ وہ اللہ کی یاد دلاتے ہیں اور شرعی علم سے بہرہ ور کرتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا

الکھف – 28

  اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ ہی مطمئن رکھیں جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں، آپ کی آنکھیں ان سے ہٹنے نہ پائیں کہ دنیوی زندگی کی زینت چاہنے لگیں ۔

لہو و لعب ، فسق و فجور اور برے دوستوں کی محفل سے دوری بھی غفلت سے بچاؤ کا سبب ہے فرمانِ باری تعالی ہے:

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ

النساء – 140

  اللہ تعالی اپنی کتاب میں یہ حکم پہلے نازل کر چکا ہے کہ جب تم سنو کہ آیات الٰہی کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو وہاں ان کے ساتھ مت بیٹھو تا آنکہ یہ لوگ کسی دوسری بات میں نہ لگ جائیں، ورنہ تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو جاؤ گے۔

اور ایک حدیث میں ہے کہ: (برے دوست کی مثال بھٹی پھونکنے والے کی طرح ہے)۔

فانی دنیا سے آشنائی بھی غفلت سے نجات کیلیے معاون ثابت ہوتی ہے، اگر اس کی رنگ رنگینیوں سے دھوکا نہ کھائیں اور آخرت کو مت بھولیں  تو انسان غفلت سے بچ جاتا ہے، دنیا کی محبت بہت سے لوگوں کو آخرت اور راہِ ہدایت پر چلنے سے روکتی ہے۔

گناہوں سے دوری بھی غفلت سے بچاؤ کیلیے مفید ہے؛ کیونکہ انسان کوئی بھی گناہ کرے تو وہ حقیقت میں غفلت کی بنا پر ہی کرتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ (201) وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لَا يُقْصِرُونَ

الاعراف – 201/202

بلاشبہ جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں انہیں جب کوئی شیطانی وسوسہ چھو بھی جاتا ہے تو چونک پڑتے ہیں اور فوراً صحیح صورت حال دیکھنے لگتے ہیں۔ اور ان (شیطانوں) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین  ﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے،  میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفیں  اللہ رب العالمین کیلیے ہیں وہی رحمن و رحیم ہے، میں اپنے رب کی ظاہری و باطنی تمام نعمتوں پر اسی کیلیے حمد و شکر بجا لاتا ہوں ، اور تمام مثبت صفات کے ذریعے اس کی ثنا خوانی کرتا ہوں جیسے کہ اس نے خود اپنی صفات حمیدہ بیان کی ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اس کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہی غالب اور حکمت والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد ﷺ اس کے  بندے  اور رسول ہیں آپ صراطِ مستقیم کی رہنمائی کرنے والے ہیں، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی  آل ، تابعین عظام ، اور متقی اور انتہائی با اخلاق صحابہ کرام پر رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

کما حقُّہ تقوی اختیار کرو ، اور اسلام کے مضبوط کڑے کو اچھی طرح تھام لو۔

اللہ کے بندوں!

مسلمان کو غفلت اور غفلت کے مضر اثرات سے محفوظ کرنے کا سب سے عظیم سبب موت اور اس کے بعد ہونے والے امور کی یاد دہانی ہے؛ کیونکہ موت بلیغ ترین نصیحت ہے، موت دیکھی سنی چیز ہے، اسے یقینی طور پر چکھنا ہے، موت اچانک آتی ہے، اور یقینی طور پر آ کر رہتی ہے، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: (لذتوں کو پاش پاش کر دینے والی یعنی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے۔

لہذا جو شخص موت کو جتنا یاد رکھے گا اس کا دل اتنا ہی بہتر ہو گا، اس کے اعمال پاکیزہ ہوں گے، وہ غفلت سے سلامت رہے گا۔

موت کے وقت مومن کو خوشی ہوتی ہے جبکہ فاجر آدمی ندامت کا شکار ہو جاتا ہے وہ واپس جانے کی تمنا کرتا ہے، لیکن اس کی یہ تمنا کون پوری کرے! فرمانِ باری تعالی ہے:

حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ (99) لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ كَلَّا إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ

المؤمنون – 99/100

  یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آنے لگتی ہے تو کہتا ہے اے میرے پروردگار ! مجھے واپس لوٹا دے۔ کہ اپنی چھوڑی ہوئی دنیا میں جا کر نیک اعمال کر لوں ۔ ہرگز ایسا نہیں ہوگا یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے ان کے پس پشت تو ایک حجاب ہے ان کے دوبارہ جی اٹھنے کے دن تک ۔

انسان کی اصل عمر تو وہی ہے جو اطاعت کے کاموں میں گزر جائے، لہذا گناہوں میں گزرے لمحات تو زندگی کا خسارہ ہیں!!

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

 یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو۔

اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: (جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا)

اس لیے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود  و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً۔

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،  یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا،  تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین !

یا اللہ اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ نصیب فرما، یا اللہ! کفر اور کافروں کو ذلیل و رسوا فرما، یا اللہ! دین سے متصادم بدعات کو ذلیل و رسوا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! دینِ محمدی سے متصادم بدعات کو ذلیل و رسوا فرما، اور بدعتی لوگوں کو بھی ذلیل و رسوا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہم پر عنایتیں فرما، یا اللہ! ہمیں ثابت قدم فرما، یا اللہ! ہمیں تیرے نبی محمد ﷺ کی سنت پر ایسے کار بند فرما جیسے تجھے پسند ہو، یا اللہ! ہمیں تیرے نبی محمد ﷺ کی سنت پر ایسے کار بند فرما جیسے تجھے پسند ہو، یا رب العالمین! اور ہمیں اسی پر موت عطا فرما ، جب ہم یہاں سے جائیں تو توں ہم سے راضی ہو، یا اکرم الاکرمین!

یا اللہ! ہم تجھ سے جنت اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم جہنم اور اس کے قریب کرنے والے ہر قول و فعل  سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔

یا اللہ! تو ہمارے اگلے پچھلے، خفیہ اعلانیہ، اور جنہیں تو ہم سے بہتر جانتا ہے سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی ترقی و تنزلی دینے والا ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔

یا اللہ! تمام معاملات کا انجام ہمارے لیے بہتر فرما، اور ہمیں دنیاوی رسوائی اور اخروی عذاب سے پناہ عطا فرما۔

یا اللہ! ہم تجھ سے معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہم تجھ سے اپنے دین ، دنیا اور اہل خانہ سمیت سب امور کے بارے میں معافی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، یا رب العالمین!

یا اللہ! تمام مسلمان مرد و خواتین اور مومن مرد و خواتین کے معاملات سنوار دے، یا رب العالمین!

یا اللہ! مسلمانوں کے دلوں میں الفت ڈال دے، یا اللہ! مسلمانوں کے دلوں میں الفت ڈال دے، یا اللہ! بھوکے مسلمانوں کیلیے کھانے پینے کا بندوبست فرما، انہیں پہننے کیلیے کپڑے مہیا فرما، دہشت زدہ مسلمانوں کو امن نصیب فرما۔

یا اللہ!  یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ مسلمانوں پر ظلم کرنے والوں سے انتقام لے، یا اللہ! مسلمانوں پر ان کے دین کی وجہ سے ظلم کرنے والوں سے انتقام لے، یا اللہ! ان سے مسلمانوں کا بدلہ لے اور جلد از جلد اپنی پکڑ ان پر نازل فرما، یااللہ! جو بھی مسلمانوں کی جان، مال، عزت آبرو  اور سر زمین پر مسلط ہو گیا ہے اور انہیں گھر بدر کر رہا ہے ، یا اللہ! اس پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! یا رب العالمین! یا اللہ! مسلمانوں پر رحم فرما، یا اللہ! جناب محمد ﷺ کی امت پر رحم فرما۔

 یا اللہ! اسلام دشمن قوتوں کی اسلام اور مسلمانوں کی خلاف کی ہوئی منصوبہ بندیاں غارت فرما، یا رب العالمین!  یا اللہ! ان کی مکاریاں تباہ فرما، ان کی عیاریاں برباد فرما،  بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ!   یا ذو الجلال و الاکرام! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے دین پر ثابت قدم فرما، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! تمام مسلمان فوت شدگان کی مغفرت فرما، یا غفور! یا رحیم! یا اللہ! مسلمانوں کی قبروں کو منور فرما، یا اللہ! جو زندہ ہیں ان کے معاملات آسان فرما، یا اللہ! بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! بیماروں کو شفا یاب فرما، یا رب العالمین! یا اللہ بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! مصیبت زدہ لوگوں کو عافیت نصیب فرما، یا اکرم الاکرمین! یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان ، شیطانی چیلوں اور چالوں سے محفوظ فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ ہم سب کا انجام بہتر فرما ، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! خادم حرمین شریفین  کو تیری مرضی کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! انہیں تیری مرضی کے مطابق توفیق عطا فرما، یا اللہ! ان کی تمام تر کاوشیں تیری رضا کیلیے مختص فرما ، اور ان کی ہر اچھے کام پر مدد فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ان کی اچھے کاموں پر مدد فرما، یا اللہ! ان کی آرا درست فرما، اور انہیں تمام نیک اور صالح اعمال کرنے کی توفیق عطا فرما، یا ارحم الراحمین! یا رب العالمین!

یا اللہ! ان کے دونوں نائبوں کو تیری مرضی اور تیری رہنمائی کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرما، اور ان کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ توں انہیں صحت و عافیت سے نواز، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمیں دنیا و آخرت میں بھلائی عطا فرما، اور ہمیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔

اللہ کے بندوں!

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (90) وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ

النحل – 90/91

 اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو[90] اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے۔

   فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ: آپ ان دنوں مسجد نبوی کے امام ، قبل ازیں مسجد قباء کے امام تھے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت آواز میں بہترین لہجے میں قرات قرآن کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کے محبین موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ تادیر آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ۔آمین