تعارف نظریہ وحدتِ ادیان:
فی زمانہ کسی بھی بین الاقوامی اجتماع میں جب تمام مذاہب کے ماننے والوں کو جمع کیا جاتا ہے تو عموماًمشترکہ طور پر اس اجتماع کا پیغام یہ ہوتا ہے کہ :
’’ تمام مذاہب یکساں اور بر حق ہیں ‘‘اور کسی بھی مذہب کی پیروی سے کا ٰئنات کے خالق اللہ رب العالمین کی رضا اور خوشنودی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اور ہر مذہب اس دنیا کے مالکِ حقیقی کی طرف پہنچنے کا ہی ذریعہ ہے ،لہٰذا انسان کوئی بھی مذہب اختیار کرے ، جانا سب نے ہی جنت میں ہے۔ لھذا کسی ایک مذہب والے (خصوصاًاہل اسلام) کا اس بات پر اصرار کہ اب تا قیا مت نجات کی سبیل صرف ہمارا دین و مذہب ہے یہ (معاذ اللہ) ایک بے جا سختی اور تشدد یا انتہا پسندی ہے، جس کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔
اور پھر حقوقِ انسانیت ، محبّت، خدمتِ خلق جیسے جذباتی نعروں کا سہارا لیکر وحدتِ ادیان کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔
پھر اس’’ نظریہ وحدت ادیان‘‘ کی تفصیل کچھ یوں بیا ن کی جاتی ہے کہ :
’’جب منزل ایک ہو تو راستوں کے جدا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘ یعنی ہر مذہب والا ایک بزرگ و بر تر ذات کی بات کرتا ہے جسے مختلف ناموں سے پکارا جاتا ہے ، کبھی اللہ تو کبھی بھگوان اور کبھی God جبکہ حقیقتاًتمام مذاہب اللہ کی بندگی اور خوشنودی حاصل کرنے کے ذرائع ہیں ، اس لئے ہر مذہب میں حق و انصاف ، انسان دوستی اور انسانی بھائی چارے کی تعلیم دی گئی ہے لھذا تمام انسانوں کو تمام مذاہب کا برابر کا احترام کرنا چاہیے، کسی ایک مذہب یا دین کی پیروی پر اصرار تشدد اور بے جا سختی ہے ، وغیرہ وغیرہ۔ مذکورہ بالا گفتگو گویا ’’ وحدت ادیان ‘‘ کے نظریہ کا خلاصہ ہے۔
بسا اوقات اسے یوں بھی تعبیر کردیاجاتا ہے کہ:
’’ دین و مذہب‘‘ کی پیروی انسان کا ’’پرائیویٹ ‘‘معاملہ ہے خوا ہ جس’’ مذہب ‘‘کی چاہے اتباع کرے ، اس پر ہرگزاعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
صاحب علم و صاحب مطالعہ حضرات جوکہ خصوصاً اسلام کا مطالعہ کما حقہ رکھتے ہیں وہ یقیناًاس بات سے اتفاق کریں گے کہ یہ’’نظریہ وحدت ادیان ‘‘ ایک جدید اصطلاح ہے کہ جسےاسلام دشمن عناصر نے یا احباب نما اغیار نےدینِ اسلام کی بڑھتی ہوئی عالمی مقبولیت کو روکنےاور اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطرایجاد کیا ہے۔اور یقیناًاس نظریہ کا حامل ہو کر کو ئی شخص اسلام کی حقانیت، رفعت اور شان و عظمت کو کبھی اجا گر نہیں کر سکتا کیونکہ جوں ہی وہ اس قسم کی کوئی تحریر یا تقریر ضبط میں لانا چاہے گا تو اسے بے جا سختی اور تشدد و انتہا پسندی کے القابات سے نواز کر چپ رہنے کو کہا جائیگا ۔
آ ج اس فتنہ ’’وحدت ادیان ‘‘ کومذہبی تعصبات کے خاتمے کے خوشنما لیبل کے ساتھ دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے کی کو شش ہر سطح پر کی جا رہی ہے جس کے اثرات ِ بدسے موجودہ مسلمان خصوصاً نئی نسل کسی حد تک متا ثر بھی دکھا ئی دینے لگی ہے۔ دور ِحا ضر میں کیونکہ یہ ایک ’’اسلام دشمن ‘‘ عقیدہ اور نظریہ ہے تو اس کی بیخ کنی اور حقیقت اور خطرناکی کو واضح کرنے کیلئے بعض اہل علم نے بر وقت مواد تحریری شکل میں مرتب کیا ہے ، جن میں سے ڈاکٹر بکر ابو زید رحمہ اللہ کی کتاب:
’’الإبطال لنظریۃالخلط بین الأدیان‘‘
اور مولانا سلطان احمد اصلا حی کی کتاب: ’’وحدت ادیان کا نظریہ اور اسلام ‘‘ بہت مفید دکھائی دیتی ہیں ۔
مولانا مقصود الحسن فیضی (جمعیۃ الغاط الخیریہ، سعودی عرب) نے بھی اپنی علمی تحریر ’’وفاداری یا بیزاری‘‘ میں اس ’’نظریہ ‘‘ پر تفصیلی نقد کیا ہے۔
’’نظریہ وحدت ادیان ‘‘ کو ’’تقارب ادیان‘‘ کا راستہ قرار دینے والوں پر شیخ امین اللہ پشاوری نے بھی اپنے فتاویٰ ’’الدین الخالص‘‘جلدنمبر ۹ میں بڑی مضبوط گرفت فرمائی ہے۔
اسی نظریہ سے متاثر ہو کر کافروں کے کفر میں شک کر نیوالے یا انہیں کافر قرار نہ دینے والے حضرات کے اس ’’غلط نظریہ‘‘ پرسابق مفتی اعظم سعودی عرب الشیخ عبد العزیزبن بازرحمہ اللہ نے بھی علمی انداز سے نکیر فرمائی ہے جسے ’’مجموع فتاویٰ و مقالات متنوعہ‘‘کی جلد نمبر2میں دیکھا جا سکتا ہے۔
فجزاھم اللہ تعا لیٰ خیر الجزاء وتقبل جھودھم المبارکۃ۔
تاریخی پس منظر:
’’وحدت ادیان ‘‘کے اس غیر اسلامی نظریہ کو ہم تاریخ میں مرحلہ وار دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کس وقت کس شکل میں کس نعرے کے ساتھ صحیح عقیدے کے ’’بگاڑ‘‘میں کار فرما رہا یا اسے اس ’’بگاڑ‘‘کے لئے استعمال کیا گیا ۔
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آل عمران -85
ترجمہ:جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔‘‘
اسلام کے خلاف دشمنانِ اسلام کا یہ ’’ہتھیار‘‘ غالباً کافی پرانا ہے اور اس کے موجدین میں مشرکینِ عرب اور ملتِ یہودنصا ریٰ سر فہرست ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ اسلام کے مقابلے میں سب سے قبل مشرکینِ عرب نے اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ سختی ، ظلم و ستم اور تشدد کا راستہ اختیار کیا اور جب اس میں کامیاب نہ ہو سکے تو سودے بازی ، ملمع کاری پر اتر آئے کہ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول کو اپنا کر اسلام کا راستہ روکا جائے۔سورۃ الکافرون کا سببِ نزول عمومی طور پر اسی موقعہ پر تقریباًسارے مفسرین نے بیان کیا ہے کہ: مشرکین ِعرب نے نبی مکرمﷺ کے سامنے ’’اپنے زعم‘‘ میں ایک ’’درست‘‘ بات رکھی اور وہ یہ کہ ایک سال ہم آپ کے معبود اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت کریں اور ایک سال آپ ہمارے معبو د (باطلہ) کی عبادت کریں ، ہم حق پر ہوئے تو آپ کو بھی ایک حصہ حق کا مل جائیگا اور ہمیں آپ کے دینِ حق میں سے ایک حصہ مل جائیگا وغیرہ وغیرہ۔
جس پر یہ جواب الہیٰ نازل ہوا:
قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٣﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿٤﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٥﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾
الکافرون – 1/4
’’ آپ کہہ دیجیے: اے کافرو! جس کی تم عبادت کرتے ہو میں اس کی عبادت نہیں کرسکتا نہ تم عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں۔ اور نہ میں عبادت کرونگا جسکی تم عبادت کرتے ہو۔ اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کر رہا ہوں۔ تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین‘‘. اور پھر جابجا یہی مفہوم اجاگر کیا گیا کہ:
قُلْ أَفَغَيْرَ اللَّـهِ تَأْمُرُونِّي أَعْبُدُ أَيُّهَا الْجَاهِلُونَ
الزمر – 65
’’آپ کہہ دیجئے اے جاہلو! کیا تم مجھ سے اللہ کے سوا اوروں کی عبادت کو کہتے ہو ‘‘۔
قُلْ إِنِّي نُهِيتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ لَمَّا جَاءَنِيَ الْبَيِّنَاتُ مِن رَّبِّي وَأُمِرْتُ أَنْ أُسْلِمَ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٦٦﴾
غافر – 66
’’ آپ کہہ دیجئے! کہ مجھے ان کی عبادت سے روک دیا گیا ہے جنہیں تم اللہ کے سوا پکار رہے ہو اس بنا پر کہ میرے پاس میرے رب کی دلیلیں پہنچ چکی ہیں، مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں تمام جہانوں کے رب کا تابع فرمان ہو جاؤں‘‘۔
’’وحدت ادیان ‘‘ اور ’’تقارب ادیان ‘‘ کے نام سے آج یہی کچھ ہورہا ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو کے تحت ’’ادیان ِباطلہ‘‘ کو بھی حق تسلیم کرکے سمجھوتا ایکسپریس چلائی جائے۔
ا۔مدینہ منورہ میں بھی یہودو نصاریٰ نے حق کوجان کر بھی اپنی یہی دعوت دینی چاہی کہ:
وَقَالُوا كُونُوا هُودًا أَوْ نَصَارَىٰ تَهْتَدُوا ۗ
البقرۃ – 135
’’یہ کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ بن جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔ تم کہو بلکہ صحیح راہ پر ملت ابراہیمی والے ہیں‘‘۔
جواب ملا :
بَلْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا ۖ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
البقرۃ – 135
’’اور ابراہیم خالص اللہ کے پرستار تھے اور مشرک نہ تھے‘‘۔
دوسرا دور :
خیرالقرون (دورِ صحابہ، تابعین و تبع تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین ) کے بعد علماءِ حق سے دوری اور دنیاوی مال و زر کی کثرت نے فتنہ بن کر جب علم ِ تصوف کو رواج دیا تو ’’وحدت ادیان ‘‘کے فتنے نے پھر جان پکڑی اور یہاں تک کہہ دیا گیا کہ : ’’یہودیت، نصرانیت اور اسلام میں باہم حیثیت وہی ہے جو خود اسلام میں مسالکِ اربعہ (شافعیہ، حنابلہ)کی ہے ، کسی بھی مذہب پر عمل کرکے انسان اللہ تعا لیٰ تک پہنچ سکتا ہے‘‘۔ والعیاذ باللہ
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاویٰ 105/4 میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ ’’صوفی ازم ‘‘جسے آج عیسائی اور یہودی لابی ہر طرح سے سپورٹ کرکے اس کو بطو ر ِاسلام کے دنیا کےسامنے لانا چاہتی ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ صوفی ازم ’’وحدت ادیان‘‘کے نظریہ کو قبول کرتا ہے اس قول کے ساتھ کہ انسان اگر محقق بن جائے (یعنی وحدت الوجود کا قائل ہو جا ئے، جو کہ کفریہ عقیدہ ہے) تو اس کے لئے پھر یہودیت اور عیسائیت قبول کرنے میں کو ئی حرج نہیں۔
کما لایخفیٰ علی اھل العلم۔
تیسرا دور:
چودھویں صدی کے آغاز سے ہی تقریباًتمام عالمِ اسلام پر ہمیں یہو دو نصاریٰ کا تسلط اور غلبہ دکھائی دیتاہے اور وہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسلام کے اصل چہرہ کو مسخ کر دینے کے در پہ دکھا ئی دیتے ہیں اسی تناظر میں ما سونیت (Freemasonry) تحریک نے ’’وحدت ادیان‘‘ کا نعرہ بلند کیا تاکہ یہودو نصاریٰ کے بارے میں جو نفرت مسلمانوں میں پا ئی جا رہی ہے وہ کم کی جا سکے اور اس طرح وہ جدید عالمی نظام کے تحت تما م ممالک ( خصوصاًاسلامی ممالک) پر قابض ہو سکیں اور اس کام کے لئے انہوں نے مسلمانوں ہی میں سے کچھ لوگوں کو استعمال کیا (اور اس مقصد کے لیے اُنہوں نے نے بالخصوص اُن لوگوں کا انتخاب کیا جو دینِ اسلام سے متنفر ہوں ، سیکولرازم و لبرل ازم کے حامی ہوں اور دینِ اسلام کے اصول و قوانین کو دقیانوسیت سے تعبیر کرتےہوں، مغربی ذہنیت رکھنے والے ہوں اور انہیں ہی اپنی نجات دہندہ تسلیم کرتے ہوں یاپھر مادیت پرست ایمان و ضمیر فروش قسم کے لوگ ہوں ) جنہوں نے باقاعدہ بیروت میں ایک سوسائٹی قائم کی جس کا نام ’’جمعیۃ التالیف والتقریب‘‘رکھا اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک و سوسائٹی کے ممبران میں شیعہ، عیسائی اور یہودی بھی شامل تھے تاکہ ’’مطلوبہ مقاصد‘‘ کوآسانی سے حاصل کیا جا سکے ۔
آخری مرحلہ:
غالباًیہ ہمارا دور ہے کہ جب ورثۃالانبیاء (علماءِ حق)یکے بعد دیگرے ہم سے رخصت ہورہے ہیں اور بظاہر تسلطِ اغیار غالب اورتسلطِ مسلمان سرنگوں دکھا ئی دے رہا ہے ایسے میں ’’وحدت ادیان‘‘ کے زہریلے عقیدے کو مزید تقویت دینے کے لئے اپنے اور بیگانے سب ہی ’’فرقہ واریت سے پاک پاکستان‘‘کے خوشنما نعروں کو لیکرمیدان عمل میں آبیٹھے ہیں اور ’’احترام مذاہب ‘‘ کے نام نہاددعوے بڑھتے ہی جا رہے ہیں ۔واللہ المستعان
اب ہنود و مجوس جیسے بتوں ، شرمگاہوں اور جانوروں کی پوجا کرنے والے مشرکوں کو بھی مشرک کہنا اور سمجھنا ،اور دیگر کافر وں کو کا فر کہنے اور لکھنے میں بھی ’’جھجھک ‘‘ محسوس کی جا رہی ہے ، جسے اللہ تعالیٰ نے بھی صراحۃ ً بلکہ اب تو ’’دلیلیں ‘‘ دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہودو نصاریٰ کو کب کا فر مشرک کہا گیا ہے ؟ اور پھر ستم در ستم یہ کہ دیگر ملت کافرہ کو اہل کتاب ہی باور کر لیا جائے تو حرج ہی کیا ہے؟ اور وہ بھی اس طرح کہ گویا ’’اہل کتاب‘‘ تو بس ’’موحد‘‘ ہی ہیں مشرک و کافر تو نہیں !!!
واللہ المستعان علی ھذا الخُذلان۔
قرآن تو علی الاعلان ’’اہل کتاب‘‘کو کافر اور مشرک کہتا ہے۔
لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنفَكِّينَ حَتَّىٰ تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ
البینۃ – 1
’’ اہل کتاب کے کافر اور مشرک لوگ جب تک کہ ان کے پاس ظاہر دلیل نہ آ جائے باز رہنے والے نہ تھے (وہ دلیل یہ تھی کہ)‘‘
هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِن دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ ۚ مَا ظَنَنتُمْ أَن يَخْرُجُوا ۖ وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّـهِ فَأَتَاهُمُ اللَّـهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ ۚ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
الحشر – 2
ترجمہ:وہی ہے جس نے اہل کتاب میں سے کافروں کو ان کے گھروں سے پہلے حشر کے وقت نکالا تمہارا گمان (بھی) نہ تھا کہ وہ نکلیں گے اور وہ خود بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین) قعلے انہیں اللہ (عذاب) سے بچا لیں گے پس ان پر اللہ کا عذاب ایسی جگہ سے آپڑا کہ انہیں گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا اور وہ اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں اجاڑ رہے تھے اور مسلمان کے ہاتھوں (برباد کروا رہے تھے) پس اے آنکھوں والو! عبرت حاصل کرو‘‘۔
اور اب تو بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک بھی آ پہنچی ہے کہ ’’وحدت ادیان ‘‘ اور چند خوشنما نعروں کی آڑ میں یہ دعوت دی جا رہی ہے کہ تما م مذاہب کی عبادت گاہیں ایک ہی جگہ اور ایک ہی وال باؤ نڈری میں بنائی جا ئیں ، مسجد،کنیسہ، گرجا اور مندر یکجا ہوں حتیٰ کہ تمام مذاہب کی تعلیمات کو ایک ہی کتاب میں جمع کر دیا جائے اور پھر شا ید نماز بھی ایک ہی ’’امام صاحب‘‘ کے پیچھے ہو جائے کہ ’’وحدت‘‘ تو یہی ہے نا!!
حاملین وحدت ادیان کے خوشنما نعرے :
’’نظریہ وحدت ادیان ‘‘ کے حاملین ، قائلین اور فاعلین ’’اقارب و اجانب‘‘ بظاہر بڑے خوبصورت نعرے لئے پھرتے ہیں اور ایسا محسوس ہو تا ہے کہ واقعی اب عالم دنیا کو اسی ڈگر پر چلانے کی ضرورت ہے ، خواہ آخرت برباد ہی کیوں نہ ہو جائے۔معاذاللہ۔
کہتے ہیں جی ’’وحدت ادیان درحقیقت وحدت ابدان سے ہے‘‘ تقارب بین الأدیان تو دلوں کو جوڑنے کا نام ہے ، وحدت ادیان دینی تعصب کا خاتمہ ، دینی بھائی چارے کا پیغام، فرقہ واریت کا خاتمہ ، فتنہ تکفیر کی بیخ کنی ، انسان کی فلاح و بہبود کا راستہ ہے وغیرہ وغیرہ۔
جبکہ سو سائٹی ، تنظیم اور ادارہ جات میں بھی ’’وحدت ادیان ‘‘ کا پیغام دینے کے لئے ’’جمعیۃ التالیف والتقریب‘‘ مجمع الادیان ، مسلم، کرسچن ویلفیئر سوسا ئٹی ایسے ’’گمراہ کن ‘‘ نام اختیار کئےجا تے ہیں۔ انہیں نعروں میں سے یہ نعرے بھی ہیں، شیعہ سنی بھا ئی بھائی ، اپنا مذہب چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مذہب کو چھیڑو نہیں۔
حامیان نظریہ وحدت ادیان:
اس نظریہ کی ابتداء (کچھ اختلاف الفاظ کے ساتھ) مشرکین عرب اور یہود و نصاریٰ نے کی تھی جیسا کہ پیچھے گزرچکا ہے بعد ازاں ہندوستان میں اسے پروان چڑھا یا گیا اور آج تو تما م عالم ہی گو یا اس کی تر ویج میں کو شاں ہے حتیٰ کہ سعودی عرب کے ’’شاہ صاحب‘‘ بھی اس کے مؤید دکھا ئی دیتے ہیں ۔
ذیل میں ہم اجمالاًترتیب سے اس نظریہ کے حامیان کے اسماء لکھتے ہیں مثلاً:
۱۔یہودو نصاریٰ
۲۔قادیانی
۳۔ شیعہ
۴۔پرویزی
۵۔متحد دینِ غامدی وغیرہ
۶۔میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے اپنی جگہ ’’عوام میں‘‘ بنانے والے جن میں سر فہرست طاہر القادری اور مولانا وحید الدین خان ہیں۔
۷۔ویلفیئر کے نام پر ’’انسان سے پیا ر کرو‘‘ کا پیغام دینے والے ’’سماجی ہمدرد ‘‘۔
۸۔سیاست دان کہ جن کا کو ئی مذہب نہیں ہوتا ، جیسا دیس ویسا بھیس۔
۹۔وحدت ادیان کی ترویج و اشاعت اور اسے آگے بڑھانے کی ’’مہم‘‘ کے سلسلے میں کچھ عرصہ قبل ’’مکہ کانفرس‘‘ میڈرڈ کانفرس اور عالمی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ’’مکالمہ بین الادیان‘‘ کے فضا ئل بیا ن کئے گئے اور اس مکمل کاروائی کی سر براہی ’’تو حید کے علمبردار‘‘ مملکت سعودیہ عربیہ کو نصیب ہوئی۔
ایں سعادت زور بازو ینست۔۔۔۔۔نا (تفصیل کے لئے دیکھئے سہہ ما ہی ’’ایقاظ‘‘ جنوری تا مارچ ۲۰۰۹)۔
نظریہ وحدت ادیان کے برے اور بھیانک اثرات :
منافی اسلام اور ملحدانہ نظریہ سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے اپنا کس قدر نقصان کیا اس کا اندازہ کافرانہ شعار و تہوار کے بڑھتے ہو ئے رجحانا ت سے کیا جا سکتا ہے ، عملاً اس با طل نظریہ کو قبو ل کر لینے کے مظاہر اب ہولی، دیوالی ، ویلنٹا ئن ، بسنت، کرسمس ڈے وغیرہ کی شکل میں پھلتے پھولتے نظر آرہے ہیں اور مختلف تاویلات و حیلوں کے ذریعے انہیں فقط ایک ’’موسمی تہوار‘‘ قرار دیکر مسلمانوں میں رائج کیا جا رہا ہے حتیٰ کہ کرسمس ڈے پر نہ صرف ’’ہیپی کرسمس‘‘ کی صدائیں سنائی دیتی ہیں بلکہ نام نہاد ’’شیخ الاسلام ‘‘کہلوانے والے مذہبی سکالر اس موقعہ پر سر عام ’’محرف بائبل‘‘ کی ’’تلاوت شریف ‘‘سنتے دکھائی دیتے ہیں اور کیک بھی کاٹتے ہیں کہ کہیں ’’عیسائی مشنریاں ‘‘ ناراض نہ ہو جا ئیں ۔واللہ المستعان
اس باطل نظریہ ’’وحدت ادیان‘‘ کو غیر محسوس طریقے سے عوام و خواص ہر دو طبقوں نے قبول کر لیا ہے جس کے نتیجے میں ’’موالات محرمہ‘‘ سامنے آ رہی ہیں مثلاًکفار کی نصرت و تائید ، محبت اور دوستی ، احترام و تعظیم ، میل جول اور سکونت ،کفار سے مشابہت اور باہم رازداری کے معاملات وغیرہ۔ * اس باطل نظریہ کا ایک اثر یہ ہوا کہ اسلام کو جو فوقیت اور برتری دی گئی تھی کہ
’’لیظهره علی الدین کله ولو کره المشرکون‘‘
وہ آج باقی نہیں رہی ، بلکہ اس برتری اور امتیاز کی بات کو ’’بے جا تشدد‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے ، حتیٰ کہ اس مسموم عقیدے کے حامل لوگوں نے ایک ہی امام ’’پوپ‘‘ کے پیچھے نماز پڑھ کر اسلامی اقدار کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ (دیکھئے وفاداری یا بیزاری از مقصود الحسن فیضی)
مسلمان نہ تھے) کا نام صحابی رسول عائذ بن عمروؓ سے پہلے لیا تو نبی رحمت ﷺ نے عائذؓ کا نام پہلے لے کر جملہ کی تصحیح فرمائی اور فرمایا :
’’الاسلام اعزمن ذرک ، الاسلام یعلو ولا یعلی‘‘
دارقطنی: 3578
اس باطل نظریہ کو قبول کرنے سے ایک دوسرا خطرناک اثر یہ سامنے آیا کہ شریعت کا حکم
’’الموالاة فی الله وا لمعاداة فی الله‘‘
الولا ء والبرارکی تعلیم پس پشت ڈال دی گئی جو ملت ابراہیم کی اساس تھی ، اس نظریہ وحدت ادیان کے حامی ترکی کے صدر نے تمام دینی غیرت و حمیت سے ماورا ہو کر اپنے وزیر سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ قرآن مجید سے ایسی ۳۰۰ آیات حذف کر دی جائیں کہ جن پر اس زمانے میں عمل نہیں کیا جاسکتا ۔(دیکھئے وفاداری یا بیزاری)
اس وحدت کے نظرئےکو عملاًقبول کرنے میں ایک انتہائی برا اثر یہ ہوا کہ اعلاء کلمۃاللہ کیلئے کیا جانے والا جہاد ’’دہشت گردی اور انتہا پسندی ‘‘قرار دیدیا گیا۔اور یوں اسلام کی کو ہان کو کاٹ کر رکھ دیا گیا ، حالانکہ یہ امر اس وقت تک کیلئے تھا کہ جب تک اس روئے زمین پر ایک اللہ کی بندگی عملاًنہ اختیار کر لی جائے ۔ (تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں کتب احادیث کی طرف مراجعت فرمائیں)
وحدت ادیان کے نظریہ کو قبول کرنے کا نتیجہ یوں بھی نکلا کہ غیر مسلموں نے جو مسلمانوں اور ان کی اراضی پر جو قبضہ و ظلم و ستم روا رکھا ہوا ہے، اس سے دستبر داری کا اعلان کیا جائے اورا س تنازعہ کو ختم کیا جائے ، خواہ اس سے اہل کفر کے ظلم کو تقویت ہی کیوں نہ ملے۔مثلاًفلسطین پر ظالم یہودیوں کا قبضہ تسلیم کر لیا جائے ، فلسطین اور بیت المقدس کا مطالبہ ترک کیا جائے ، ہندوستانی مسلمان ہندو تہذیب میں بس ضم ہو جا ئیں اور مسلمانان عالم کشمیر، بوسنیا، چیچنیا کے مسلمانوں کی مدد غذا اور لباس سے تو کریں مگر جہادکا نام مٹا ڈالیں، وغیرہ وغیرہ۔
وحدت ادیان کے بارے میں شریعت کا حکم:
اس باطل نظریہ کی حقیقت تاریخی پس منظر ، اس کے علمبردار ، اس کی قبولیت کے ملی مظاہر اور اس کی ’’مسموم‘‘ غرض و غا یت جان لینے کے بعد یہ ضروری ہے کہ ہم اس نظریہ سے متعلق شریعت کا حکم دیکھیں ، کیا شریعت اسلامیہ اس کی اجازت دیتی ہے ؟ کیا اسلام اسے قبو ل کرتا ہے؟ یقینامذکورہ بالا سوالوں کا جواب نفی میں ہی ہو سکتا ہے خصوصاً سورۃ الکافرون تو یہی درس دیتی ہے کہ :
ُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ﴿١﴾ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ ﴿٢﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٣﴾ وَلَا أَنَا عَابِدٌ مَّا عَبَدتُّمْ ﴿٤﴾ وَلَا أَنتُمْ عَابِدُونَ مَا أَعْبُدُ ﴿٥﴾ لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ ﴿٦﴾
الکافرون – 1/4
ترجمہ: ’’ کہہ دیجئے :اے کافروں!میں ان کی عبادت نہیں کرتا جنکی تم عبادت کرتے ہو نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتا ہوں۔اور نہ میں ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔اور نہ تم ہی اسکی عبادت کرنے والے ہو جسکی میں عبادت کرتا ہوں۔تمہارے لئے تمہارادین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے‘‘ ۔
یہ دو ٹوک اسلامی فیصلہ ہے جس کے بعد’’وحدت ِادیان‘‘ کے نظریہ کو قبول کرنے کا کوئی جوازکسی مسلمان کے پاس باقی نہیں رہ جاتا ۔
وجوہات درج ذیل ہیں۔
۱) یہ نظریہ اسلام سے اصو لاًو فروعاًمتصادم ہے ، کیونکہ اسلام کامل مکمل ہے اور اس کے بعد تمام ادیان منسوخ ہو چکے ہیں، اب نجات صرف اور صرف اسلام سے وابستہ ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آل عمران- 85
ترجمہ: جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔‘‘
مزید فرمایا:
إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ ۗ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّـهِ فَإِنَّ اللَّـهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
آل عمران – 19
’’ بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہے (١) اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے (٢) اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے (٣) اللہ تعالٰی جلد حساب لینے والا ہے۔ ‘‘
(تفصیل کے لئے دیکھئے مجموع فتاویٰ و مقالات متنوعہ از شیخ ابن بازؒ 282-277/2 )
نبی ﷺ نے فرمایا ’’اگر اس امت کا کوئی بھی یہودی یا عیسائی جو میری رسالت کے بارے میں سن چکا ہو اور پھر بھی میری شریعت پر ایمان نہ لایا تو مر کر جہنم میں جا ئے گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
۲) قرآن مجید سا بقہ تما م کتابوں کا نا سخ بھی ہے اور ان پر حاکم و نگہبان بھی ، اس کی موجودگی میں دوسری کسی کتاب (بائبل وغیرہ) کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے قرآن سے ملایا جا سکتا ہے ، منسوخ اور باطل تعلیمات کو حق کی تعلیمات کے مساوی سمجھنا بد ترین گمراہی ہے۔
وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
المائدۃ – 48
اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافظ ہے اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے مطابق حکم کیجئے اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راہ مقرر کر دی اگر منظور مولا ہوتا تو سب کو ایک ہی امت بنا دیتا لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں ہر وہ چیز بتا دے گا، جس میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے۔
معروف واقعہ ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے سیدنا عمرؓ کے توراۃ کا ورق پڑھنے پر کس قدر نا راضگی اور غضب کا اظہا ر کیاتھا اور فرمایا تھا
’’لو بدالکم موسیٰ فاتبعتموہ و تر کتمو نی لضللتم عن سواء السبیل ولو کان حیا و ادرک نبوتی لا تبعنی‘‘
سنن الدارمی: 435
لہذٰا ’’وحدت ادیان‘‘ کا نظریہ ایک گمراہ کن نظریہ ہے جو یقیناًطریقہ ارتداد ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ تمام کتابوں کو ایک ہی جگہ لکھ کر مساوی درجہ دیا جائے۔معاذاللہ
۳) وحدت ادیان کا نظریہ قبول کرنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے احکام اسلام معطل ہو کر رہ جائیں جیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافر یضہ ہے اور معروف عقیدہ توحید اور منکر اکبر شرک ہے ، وحدت ادیان کے نظریہ کو قبول کرکے جب یہ مان لیا گیا کہ کسی کو کافر ، مشرک یا گمراہ نہ کہیں تو پھر آپ کس طرح توحید و سنت کی آ بیاری اور شرک و بدعت کی بیخ کنی کریں گے؟؟؟
۴) نظریہ وحدت ادیان ، اسلامی نظر الولاء والبراء (جو کہ اصل التوحید ہے) کے منافی ہے، مسلمان ہر گز اہل کفرۃوفجرۃ سے یارانہ نہیں لگا سکتا ، وہ صرف مسلمانوں سے ہی دوستی لگانے کا پابند ہے جیسا کہاللہ تعالی کا فرمان ہے:
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ
المائدۃ – 55
’’ (مسلمانوں)! تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوۃ ادا کرتے ہیں اور رکوع (خشوع و خضوع) کرنے والے ہیں‘‘۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے :
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ أُولَـٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَـٰئِكَ حِزْبُ اللَّـهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
المجادلۃ – 22
’’ اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے رکھتے ہوئے ہرگز نہ پائیں گے گو وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے کنبہ (قبیلے) کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالٰی نے ایمان کو لکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں، یہ خدائی لشکر ہے آگاہ رہو بیشک اللہ کے گروہ والے ہی کامیاب لوگ ہیں۔
۵) اس نظریہ مسمو مہ کوقبو ل کرنا گو یا کہ لوگوں کو اجازت دینا ہے کہ وہ شریعت محمدیہ سے ہٹ کر بھی کسی دوسری شریعت پر عمل کر سکتے ہیں اور کامیاب ہو سکتے ہیں ، جب کہ ایک مسلمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ، شیخ الاسلام محمد بن عبد الوہابؒ نے مذہب مشرکین و غیر مسلمین کی تصحیح کو نواقض اسلام میں سے شمار کیا ہے۔
ربّ العالمین سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن و سنّت کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وآخرُ دعوانا ان الحمدُ للہ ربّ العالمین
وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
آل عمران – 85
’’جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے، اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔‘‘