فرشتے نورانی مخلوق ہیں جنہیں ان کی اصلی شکل و صورت میں دیکھنا انبیاء و رسول علیہم السلام کے علاوہ کسی اور کے لیے ممکن نہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے اردگرد لاتعداد فرشتے اپنے کاموں میں مصروف ہیں مگر ہمیں وہ دکھائی نہیں دیتے۔ اگر وہ انسانی شکل اختیار کر کے سامنے آئیں تو پھر انہیں دیکھنا ممکن ہے ۔انسان کی نسبت فرشتے عظیم مخلوق ہیں اوران میں بھی بعض چھوٹے ہیں اوربعض بڑے۔
فرشتوں میں بعض کے دو دو پر ہیں اور بعض کے چھ چھ سو تک۔ قرآن مجید میں ہے:
الْحَمْدُ لِلّٰـهِ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَاعِلِ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا
[الفاطر : 01]
’’اللہ تعالیٰ ہی کے لیے تمام تعریفیں ہیں جو (ابتداً) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور دو دو، تین تین،چار چار، پروں والے فرشتوں کو اپنا قاصد (پیغمبر ) بنا نے والا ہے۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’میں نے جبرائیل کوان کی اصلی پیدائشی صورت میں صرف دو مرتبہ دیکھا ہے۔ میں نے انہیں آسمان سے اترتے دیکھا تو ان کا وجود آسمان سے لے کر زمیں تک پھیلا ہوا تھا۔‘‘ (ترمذی،صححہ الألباني)
بعض روایات کے مطابق جبرائیل علیہ السلام کے چھ سو پر دیکھے گئے اور ہر پر نے اُفق کو گھیر رکھا تھا۔ ان کے پروں سے مختلف رنگ اور قیمتی موتی بکھر رہے تھے۔ (مسند احمد:3617)
وہ فرشتے جنہوں نے عرش اُٹھا رکھا ہے۔ ان کے قدوقامت کے بارے میں سیدنا نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے ان میں سے ایک فرشتے کی قدوقامت بیان کرنے کی یہ اجازت ملی ہے(اور اُس کا وجود کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ) اس کے کان کی لو سے کندھے تک کا درمیانی حصہ اتنا لمبا ہے کہ جتنی سات سو سال کی مسافت۔‘‘ (ابوداؤد،صححہ الالبانی)
ایک دوسری حدیث میں سیدنا انس رضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:
’’عرش کو اُٹھانے والے فرشتوں میں سے ایک فرشتے کے بارے میں مجھےیہ بتانے کی اجازت دی گئی ہے، اس کے پاؤں سب سے نچلی ساتویں زمین میں ہیں اور اس کےکندھوں پر عرش ہے اور اس کے دونوں کانوں کی اور کندھوں کے درمیان اتنی دوری ہے کہ اسے طے کرنے کے لیے پرندے کو سات سو سال کی پرواز چاہئیے۔ وہ فرشتہ کہتا ہے: ’’ یا اللہ ! تو پاک ہے جہاں بھی ہے اورجہاں بھی ہو ۔‘‘ (مسند ابی یعلی:6584)
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں میں شادی بیاہ کی حاجت نہیں رکھی اسی طرح انہیں کھانے پینے سے بھی بے نیاز کردیا ہے۔ اس کی وضاحت قرآن مجید میں مذکورسیدنا ابراہیم علیہ السلام کے اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے آئے تو آپ (علیہ السلام) ان کے لیے فوراََ گوشت لے آئے مگر انہوں نے اسے تناول نہیں کیا۔
فَرَاغَ إِلَىٰ أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ (۲۶) فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ
[الذاریات : 26 – 27]
پھر (چﭗ چاپ جلدی جلدی) اپنے گھر والوں کی طرف گئے اور ایک فربہ بچھڑے (کا گوشت) ﻻئے۔ اور اسے ان کے پاس رکھا اور کہا آپ کھاتے کیوں نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو بیماری، سستی، کاہلی، دکھ، تکلیف، تھکاوٹ اور اکتاہت وغیرہ سے محفوظ رکھا ہے اور وہ دن رات فقط اللہ تعالی کی اطاعت میں اپنے کاموں میں مصروف و مشغول ہیں۔ قرآن مجید میں ہے:
وَلَهُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَمَنْ عِندَهُ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَلَا يَسْتَحْسِرُونَ (۱۹) يُسَبِّحُونَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ لَا يَفْتُرُونَ
[الانبیاء : 19 – 20]
’’آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے، اُسی اللہ کا ہے اور جو اس کے پاس (فرشتے) ہیں وہ اس کی عبادت سے نہ سرکشی کر تے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ وہ دن رات (اس اللہ کی) تسبیح بیان کرتے ہیں اور ذرا سی بھی سستی نہیں کرتے۔‘‘
آرام اور نیند، تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے ہوتی ہے اور جب یہ واضح ہوگیا کہ فرشتے نہ تھکتے ہیں اور نہ سست پڑتے ہیں تو پھر لا محالہ ان کے لیے ان کے لیے نیند اور آرام کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ فرشتے تقریباً عام طور پر آسمانوں میں رہتے ہیں۔ اور اللہ کے حکم سے مختلف کاموں کے لیے زمین پر اترتے ہیں اور پھر واپس آسمان پر چلے جاتے ہیں۔ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر خود فرشتوں کی یہ بات مذکور ہے کہ:
وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ ۖ
[مریم : 64]
’’ہم تیرے رب کے حکم کے بغیر نہیں اترتے۔‘‘
فرشتوں کی تعداد کتنی ہے؟ اس بارے میں کوئی تفصیل نہیں ملتی۔ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ
[المدثر : 31]
’’تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا اور کوئی جانتا ہی نہیں۔‘‘
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں کی تعداد بہت ذیادہ ہے بلکہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسانوں اور جنوں سے بھی ان کی تعداد ذیادہ ہے۔ یہ احادیث درج ذیل ہیں:
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’ آسمانوں میں کہیں چار انگلیاں جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدہ ریز نہ ہو۔‘‘ (ترمذی 2312و ابن ماجہ4190و أحمد1735)
سیدنا عبداللہ بن مسعودرضي اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:’’قیامت کے روز جہنم کو اس حال میں لایا جائے گا کہ اس کی ستر (۷۰) لگامیں ہوں گی اور ہر لگام کے ساتھ ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اسے کھینچ کر لارہے ہوں گے۔‘‘ (صحیح مسلم:2842)
فرشتوں کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حکم سےاپنی اصلی شکل کے علاوہ کوئی اور صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ یہ صورت کسی ایسے انسان کی بھی ہوسکتی ہے جسے دیکھنے والے پہچان لیں۔ انسانوں کے علاوہ کسی اور ذی روح کی صورت اختیار کرنے کی فرشتوں کو طاقت ہے یا نہیں؟ اس کے بارے میں قرآن و سنت میں کوئی صراحت یا ذکر نہیں ملتا البتہ ان کے انسانی شکل اختیار کرنے کے واقعات ضرور ملتے ہیں اور انہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم سے دیگر شکلیں بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
سیدناابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے انسانی شکل میں آئے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام ان فرشتوں کو پہچان نہ پائے پھر فرشتوں کے بتانے پر آپ علیہ السلام کو معلوم ہوا کہ یہ انسان نہیں ہیں۔
سیدہ مریم علیہا السلام کے پاس سیدنا جبریل انسانی شکل میں تشریف لائے تھے۔اورسیدناجبریل علیہ السلام سوائے دو مرتبہ کے ہر مرتبہ نبی اکرم ﷺ کے پاس انسانی شکل میں تشریف لائے۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو انسانوں اور جنوں سے کئی گناہ زیادہ قوت و طاقت عطا کر رکھی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے جب طائف کے مقام پر وہاں کے لوگوںکو اسلام کی دعوت پیش کی توآپ ﷺ پر وہاں کے لوگوں نے ظلم وجبر کی انتہا کر دی اور آپ ﷺ کو لہولہان کردیا تواُس مقام پرسیدنا جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے ۔ انہوں نے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا ہے اور جو انہوں نے آپ کے خلاف اقدام کیا (وہ بھی دیکھ چکا ہے) آپ کے پاس اللّہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے آپ ان لوگوں کے بارے میں جو چاہیں اس (فرشتے) کو حکم دیں۔ اس کے بعد پہاڑوں کا فرشتہ مخاطب ہوا، اس نے آپ ﷺ کو سلام کیا اور کہا:اے اللہ کے رسولﷺ آپ جو حکم دیں گے (میں اس کی تعمیل کروں گا) اگر آپ ﷺ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑوں کو ان پر لا کر ملا دوں (جن سے یہ پس جائیں؟) ‘‘۔
اسی طرح سیدنا جبرائیل کی قوت و طاقت کے بارے میں قرآن مجید میں ہے:
عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَىٰ
[النجم : 5]
’’ اُسے (یعنی رسولِ اکرم ﷺ) کو زبردست طاقت والے فرشتے نے سکھایا ہے جو زور آور ہے۔‘‘
فرشتے اپنے ہر کام میں نظم و ضبط کی پابندی کرتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی کمی بیشی یا سستی اور کاہلی وغیرہ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ جن فرشتوں کی جب اور جہاں ڈیوٹی شروع ہوتی ہے وہ اس وقت وہاں پہنچ جاتے ہیں اور اپنے کسی کام میں ہلہ گلہ اور شورشرابا نہیں کرتے۔
جس طرح انسانوں کی پیدائش اور موت کے مختلف مراحل ہیں، فرشتوں کے لیے یہ مراحل نہیں ہیں یعنی دنیا میں نئے انسان پیدا ہوتے ہیں اور پہلے سے موجود انسان فوت ہوتے رہتے ہیں، لیکن اس کے برعکس جب سےاللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو پیدا کیا ہے، تب سے وہ زندہ ہیں اور قیامت قائم ہونے تک جب تک اللہ چاہےزندہ رہیں گے اور اللّہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں انہیں احسن طریقے سے وہ پورا کرتے رہیں گے لیکن جب قیامت آجائے گی تو یہ فرشتے بھی موت سے دوچار ہوں گے اور ایک ایسا اقت آئے گا جب کائنات میں اللہ رب العزت کے علاوہ کوئی اور زندہ نہ رہے گا۔ اسی صورتحال کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ (۲۶) وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ
[الرحمٰن : 26 – 27]
’’زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں، صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے، وہی باقی رہ جائے گی‘‘۔
مزید ایک جگہ فرمایا کہ:
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ
[آل عمران : 185]
’’ ہر نفس (جان) کو مرنا ہے۔‘‘
ان آیات سے معلوم ہوا کہ یہ ساری کائنات تباہ ہوگی اوراللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر ذی روح موت سے دوچار ہوگی۔ اُس کے بعدسب سے پہلے اللہ تعالیٰ سیدنا اسرافیل علیہ السلام کو زندہ کریں گے اور انہیں حکم دیں گے کہ وہ صور پھونکیں۔ جس سے وہ ساری مخلوق جو مردہ تھی، زندہ ہوجائے گی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَىٰ فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنظُرُونَ
[الزمر : 68]
’’پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ (سب) کھڑے ہوکر دیکھنے لگ جائیں گے۔‘‘
اجماعِ امت سے یہ بات ثابت ہے کہ فرشتوں پر بھی اسی طرح موت و فنا نے آنا ہے جیسے دیگر تمام مخلوقات پر موت آئی گی،اور اس بات پر قرآن و سنت کے دلائل بھی شاہد ہیں جیساکہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ۚ
[القصص : 88]
’’ اُس ذاتِ باری(اللہ تعالیٰ)کے علاو ہرچیز نے فنا ہونا ہے‘‘۔
جس میں فرشتے بھی شامل ہیں جیساکہ تفسیر قرطبی میں سیدنا ابنِ عباس رضي اللہ عنہماسے منقول ہے۔
اورجہاں تک فرشتوں کی موت کی کیفیت کا تعلق ہے تو اس حوالہ سے قرآن و سنت کے نصوصِ صحیحہ سے ہمیں کچھ نہیں ملتا،البتہ چند ضعيف روایات و آثار اس حوالہ سے ضرورملتےہیں خصوصاً چار بڑے فرشتے سیدنا جبرائیل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت کی موت کی کیفیت کے حوالہ سے ۔
لیکن یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ:
یہ مسئلہ غیبی معاملات سے تعلق رکھتا ہے اور غیبی امور سے متعلق کچھ بھی اُس وقت تک بیان نہیں کیا جاسکتا جب تک کہ اُس کا ثبوت قرآن کریم یا صحیح حدیث سے نہیں ملتا۔
قرآن وسنت کے ظاہری آثار سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ تمام فرشتوں کی ارواح کو ملک الموت ہی قبض کریں گے اور ملک الموت بغیر کسی فرشتے کے روح قبض کئےفوت کیئے جائیں گے۔ والعلم عند اللہ ۔
وآخرُ دعوانا ان الحمدُ للہ رب العا لمین۔
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…