انجینئر علی مرزا جہلمی کی بعض عوامی حلقوں میں مقبولیت

آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ انجینئر علی مرزا جہلمی کو چند سالوں میں بعض مخصوص عوامی حلقوں خصوصاً سوشل میڈیا پر شہرت حاصل ہوئی؟ اس کی وجوہات پر تفصیلاً بھی لکھا جاسکتا ہے لیکن۔۔۔

لیکن ہماری اس تحریر کے دو مقصد ہیں:

ایک کس سطح و کن حلقوں میں مرزا صاحب کو شہرت حاصل ہوئی اور دوسرا اس کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟

سب سے پہلے تو یہ واضح ہوکہ انہیں جو شہرت بھی حاصل ہے “وہ عموماً عوامی سطح پر ہے” دوسرے الفاظ میں انہیں “دینی علمی حلقوں” میں کسی سطح پر کوئی بھی معتبر حیثيت حاصل “نہیں” بلکہ علمی حلقوں میں انہیں عالم و محقق تو کیا ایک صحیح عقیدہ و فکر کا حامل شخص بھی نہیں سمجھا جاتا (جس کی بنیادی وجہ آگے ذکر کی جائے گی) یعنی وہ تمام علماء کرام جنہوں نے اپنی زندگیاں قرآن و حدیث اور ان کے علوم کو پڑھنے سمجھنے اور سمجھانے میں وقف کردیں وہ سب ایک طرف اور مرزا صاحب دوسری طرف ہیں۔۔۔

یہاں یہ بھی ذہن میں رہے کہ عوامی سطح میں “وہ دنیاوی پڑھے لکھے بعض لوگ بھی شامل ہیں” جنہیں آپ مرزا صاحب کے گن گاتے یا بسا اوقات مرزا صاحب کو ان کے جھرمٹ میں دیکھتے ہیں جیسے بعض ٹیوی اینکرز و انٹرویوز ، چند ایک معروف سماجی شخصیات اور چند یوٹیوبرز وغیرہ “جس کی بنیاد پر مرزا صاحب کو معتبر دینی اسکالر سمجھ لیا جاتا ہے” جبکہ آج کی میڈیائی دنیا میں یہ بات مخفی نہیں کہ کسی کو میڈیا پر لانے کا معیار اس کا صحیح و غلط ہونا نہیں “بلکہ اس کے اور اس کے ذریعہ اپنے چینل و پروگرام کی تشہیر اور فین و فالورز میں اضافہ” بھی ہوتا ہے۔۔۔

لہذا سمجھنے کی بات یہ ہے کہ عوامی سطح پر اگر کسی کو کوئی “شہرت” حاصل ہوجائے تو “نہ ہی یہ کوئی معیارِ حق” ہے اور “نا ہی شرعی اعتبار سے کوئی بڑی بات” ۔۔۔

“خاص طور پر آج کے اس معاشرے میں” کہ

جب عام مسلمانوں کی دنیا بھر میں عموماً کوئی معقول علمی حیثيت نہیں” (چند خواص اس سے مستثنیٰ ہیں)

آج کی مسلمان عوام کے ہاں تو علم کی بھی کوئی معقول حیثیت نہیں، اور ہم فقط دینی علم کی بات نہیں کررہے بلکہ دنیاوی علوم و فنون میں بھی آج کے مسلمانوں کی تعلیم کا ریشو دنیا جانتی ہے جن میں پاکستانی مسلمانوں کی بات کریں تو اس کا گراف اور بھی گر جاتا ہے،

اب ایسے معاشرے میں کہ جس میں عام مسلمانوں کی اکثریت کو:

اللہ کا کلام قرآن مجید تک پڑھنا صحیح سے نہ آتا ہو، عبادات و معاملات تو دور استنجا و طہارت تک کے احکام و مسائل تک “صحیح طرح” معلوم نہ ہوں،

صحابہ کرام کی سیرت و زندگی تو دور جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اپنے نبی و رسول ﷺ کی مکمل سیرتِ طیبہ تک خود سے نہ پڑھی ہو وغیرہ وغیرہ ۔۔۔

تو ایسے معاشرے میں انجینئر ہو یا کوئی بھی اور، بس مندرجہ ذیل حقائق سے آگاہ ہو اور انہیں استعمال کرنے کے ہنر سے بھی واقف ہو تو بڑی آسانی سے وہ آج کے معاشرے میں مقبولیت حاصل کرسکتا ہے.

اب نوٹ فرمائیں کہ وہ حقائق کیا ہیں:

ایک طرف تو آج کی مسلمان عوام کا یہ علمی لیول جو اوپر ذکر کیا گیا،

دوسری طرف ان کی چند ایک مخصوص معاملات میں انتہا کی “جذباتیت” جیسے اہلِ بیتِ اطہار سے متعلق،

تیسرا عوام کی عمومی طبیعت و مزاج میں دین بیزاری و روایتی علماء سے ایک حد تک تنفر،

اور سب سے بڑھ کر آج کے معاشرے میں یہ عوامی طبقہ ان علماءِ کرام کے بارے میں اس احساسِ کمتری میں مبتلا ہے کہ یہ علماء اگرچہ اپنے شعبہ علمِ دین میں تو بڑے ماہر ہیں، عربی زبان، علومِ قرآن، حدیث، تفسیر،فقہ، تاریخ اور ان کے اصول وغیرہ لیکن چونکہ ان کے پاس کسی اکیڈمک فیلڈ میں کوئی ڈگری یا نام نہیں وہ ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر وغیرہ نہیں۔۔۔ اس لیے وہ روایتی علماء ہیں اور ان کی بات میں کوئی وزن نہیں بلکہ وہ تو مُلا ہیں۔۔۔

جبکہ اس کے برخلاف جو دنیاوی علم و فن کا حامل ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر وغیرہ ہے (جو اپنی فیلڈ میں بھی ماہر نہ ہو) “وہ” اگر دین بلکہ دین کے حساس ترین معاملات میں بھی اگر رائے زنی کرے اور اگرچہ ایسا کرتے کرتے وہ مسلمہ اصول اور صدیوں سے جاری متفقہ معاملات کی دھجیاں بھی اڑا دے اور ایک نیا دین، نظریہ و مسئلہ جِدی٘ت کی تعبیر کے ساتھ (وہ انداز میں ہو یا الفاظ میں) اگر ہمارے معاشرے میں متعارف کروا دے تو ایسوں کے بارے انتہائی احساسِ برتری میں مبتلا آج کے یہ عوامی مسلمان اسے اپنا امام و نجات دھندہ قبول کرلیں گے۔۔۔

اور اس سلسلے کی آخری بات کہ

پھر وہ تاریخِ اسلام جیسے حساس ترین موضوع پر کو اپنی وجہ شہرت کے لیے منتخب کرے (کہ جس کی مختلف جہات میں سے ایک ایک جہت پر عبور حاصل کرنے کے لیے بنیادی طور پر اس کے اصل مراجع کی اصل زبان، علومِ عالیہ، کئیں بڑے اساتذہ اور بڑی مدت چاہیے ہوتی ہے جن میں سے کچھ بھی مرزا جیسوں کو حاصل نہیں) اور مذکورہ “عوامی حقائق” کا سہارا لیتے ہوئے یعنی:

عوام کی جہالت، علومِ دین و اصولِ تاریخ سے ان کی عدمِ واقفیت، اہلِ بیت کے لیے ان کی جذباتیت، روایتی علمائے قرآن حدیث و تاریخ سے ان کی بیزاری و تنفر، اور اپنے بارے میں احساسِ برتری جیسی عوامی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر جب مرزا صاحب کچھ بولتے ہیں تو یہ بیچاری علم و اصول سے نابلد جذباتی عوام اس کی باتوں میں پھر کیوں نہیں آئے گی؟ خاص کر وہ جو علم، علماء، مساجد و دینی اداروں سے کسی بھی طور دور بھی ہوں۔۔۔

ان سب باتوں کی روشنی میں ایسے شخص کا آج کی مسلمان عوام میں مشہور ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ۔۔۔ کیونکہ

کیونکہ یہ مسلمانوں کی سنہری تاریخ کا وہ دور نہیں کہ جب ایک عامی مسلمان بھی آج کے دینی طالب علم کی طرح بنیادی علوم اور علمی مراجع پر مشتمل معقول علمی لائبریری کا حامل ہوتا تھا اور اس کا دینی مراکز سے بھی غیر معمولی تعلق ہوتا تھا۔۔۔

بلکہ آج کا معاشرہ تو وہ معاشرہ ہے جس میں:

فرمانِ نبویﷺ کے مطابق جہالت انتہاء پر عام ہے، علماءِ حق دنیا سے رخصت ہوتے چلے جا رہے ہیں اور لوگوں نے (دین کی بنیادی زبان و علوم اور مسلمہ اصول سے ناواقف محض ترجمے پڑھ پڑھ کر اور انہیں من چاہے معانی پہنا کر عوام میں پھیلانے والے) جاہلوں کے سرغوں کو اپنا پیشوا بنالیا ہے جو خود بھی گمراہ ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔ (بخاری) ۔۔۔

تحریر کے دوسرے مقصد پر بات ان شاءاللہ اگلے حصہ میں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔

جاگتے رہیے ۔۔۔ جاری ہے ۔۔۔

الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ: آپ نے کراچی کے معروف دینی ادارہ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی سے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی اورالمعہد الرابع مکمل کیا ، آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں گریجویشن کیا، اب دعوت کی نشر و اشاعت کے حوالےسے سرگرم عمل ہیں اور المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر کراچی میں ریسرچ اسکالر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔