جب تک غلطی اور تسامح ایسا ہو جہاں ائمہ دین اورعلمائے راسخین کے ہاں بھی دوعلمی موقف موجود ہیں تو ایسی جگہ شخصیت نہیں بلکہ موقف ہی کو زیر بحث لانا چاہئے اور وہ شخص غلطی کے باوجود ایک اجر کا حق دار ہے۔۔۔لیکن جب کوئی فرد ہی گمراہی کا داعی، ضلالت کا استعارہ اور اس کے افکار میں انحرافات کی بھرمار ہو، جس کی مثال: کاندھلوی، جہالوی، عباسی، وحید الدین خان،عثمانی، عمادی، اوکاڑوی، غامدی، جہلمی وغیرھم جیسے منحرفین ہیں تو بلا شبہہ اس شخص سے تحذیر وتنفیر اور اس کی توہین وتضلیل ہی اہل سنت کا طریق ہے، تاکہ کوئی ناواقف غلطی سے بھی انھیں راہبر مان کر اس کی بدعت سے متاثر نہ ہو جائے، بلکہ ائمہ حدیث تو پس مرگ بھی ایسے اشخاص کی تضلیل و تحذیر کو ضروری سمجھتے تھے، مبادا بعد والے اسی کو صائب اور راہنما بنا لیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرما تے ہیں:
“إذا كان مبتدعاً يدعو إلى عقائد تخالف الكتاب والسنة، أو يسلك طريقاً يخالف الكتاب والسنة… بُيِّن أمره للناس؛ ليتقوا ضلاله، ويعلموا حاله”1
یعنی ہر وہ بدعتی جو کتاب وسنت کے مخالف عقائد کی طرف بلاتا ہے یا اس کا طرز عمل ہی کتاب وسنت کے منافی ہے تو اس کی ضلالت وحالت کو بیان کرنا ضروری ہے، تاکہ لوگ اس کو پہچان لیں اور اس کی بدعت کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔۔۔۔!
نیز ایک جگہ لکھتے ہیں:
وَيَجِبُ عُقُوبَةُ كُلّ مَنْ انْتَسَبَ إلَيْهِمْ ، أَوْ ذَبَّ عَنْهُمْ ، أَوْ أَثْنَى عَلَيْهِمْ ، أَوْ عَظَّمَ كُتُبَهُمْ ، أَوْ عُرِفَ بِمُسَاعَدَتِهِمْ وَمُعَاوَنَتِهِمْ ، أَوْ كَرِهَ الْكَلَامَ فِيهِمْ ، أَوْ أَخَذَ يَعْتَذِرُ لَهُمْ بِأَنَّ هَذَا الْكَلَامَ لَا يَدْرِي مَا هُوَ ،أَوْ مَنْ قَالَ : إنَّهُ صَنَّفَ هَذَا الْكِتَابَ وَأَمْثَالَ هَذِهِ الْمَعَاذِيرِ الَّتِي لَا يَقُولُهَا إلَّا جَاهِلٌ أَوْ مُنَافِقٌ ؛ بَلْ تَجِبُ عُقُوبَةُ كُلّ مَنْ عَرَفَ حَالَهُمْ ، وَلَمْ يُعَاوِنْ عَلَى الْقِيَامِ عَلَيْهِمْ ؛ فَإِنَّ الْقِيَامَ عَلَى هَؤُلَاءِ مِنْ أَعْظَمِ الْوَاجِبَاتِ ؛ لِأَنَّهُمْ أَفْسَدُوا الْعُقُولَ وَالْأَدْيَانَ عَلَى خَلْقٍ مِنْ الْمَشَايِخِ وَالْعُلَمَاءِ وَالْمُلُوكِ وَالْأُمَرَاءِ، وَهُمْ يَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا، وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ ؛ فَضَرَرُهُمْ فِي الدِّينِ : أَعْظَمُ مِنْ ضَرَرِ مَنْ يُفْسِدُ عَلَى الْمُسْلِمِينَ دُنْيَاهُمْ وَيَتْرُكُ دِينَهُمْ كَقُطَّاعِ الطَّرِيقِ وَكَالتَّتَارِ الَّذِينَ يَأْخُذُونَ مِنْهُمْ الْأَمْوَالَ وَيُبْقُونَ لَهُمْ دِينَهُمْ”2
یعنی ہر اس شخص کی سزا دہی ضروری ہے جو ان ( اہل بدعت) کی طرف اپنی نسبت کرے یا ان کا دفاع کرے یا ان کی مدح کرے یا ان کی کتابوں کی تعریف وتعظیم کرے یا اہل بدعت کے ساتھ تعاون کا ارتکاب کرے یا ان کے متعلق تنقید کرنا برا سمجھے یا ان کی طرف سے ناروا عذر پیش کرے کہ اس کلام کا یہ نہیں وہ مطلب ہے۔ یا یہ کہے کہ کون کہتا ہے: یہ اس کی تصنیف ہے۔ یا اسی طرح کے دوسرے نا معقول عذر پیش کرے جو صرف کسی جاہل یا منافق انسان کا وتیرہ ہوتے ہیں۔ بلکہ ہر اس شخص کی سرزنش اور عقوبت بھی ضروری ہے جو ایسے بدعتیوں کو جانتا تو ہے لیکن ان کے خلاف سعی کرنے میں تعاون ہی نہیں کرتا۔ کیونکہ اس طرح کے اہل بدعت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا اور چارہ جوئی کرنا نہایت ضروری ہے، اس لیے کہ ان گمراہوں نے بڑی تعداد میں علما ومشایخ اور صاحبان اقتدار کے دین وعقل کا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ یہی لوگ زمین میں فساد پھیلانے والے اور راہ خدا سے روکنے والے ہیں۔ اتنا نقصان تو لوگوں کو چور ڈاکو بھی نہیں پہنچاتے جتنا یہ لوگ نقصان کر دیتے ہیں، اس لیے کہ چور ڈاکو تو لوگوں سے مال ضرور چھینتے ہیں لیکن ان کے دین کا نقصان نہیں کرتے۔
اللہ تعالی ائمہ سنت کے منہج پر استقامت نصیب کرے کہ بات صرف دلیل کی نہیں بلکہ اس کے راست فہم وتطیبق کی بھی ہوتی ہے اور اس میں وہی فہم معتبر ہے جو صحابہ وتابعین اور ائمہ دیں سے متوارث منقول ہو۔