جدید بینکنگ کے حوالے سے ایک اور قابل ذکر مسئلہ جس کے بارے میں عام طور پر کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ پر ڈسکاؤنٹ آفرز کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے ۔
ڈسکاؤنٹ آفرز کی وضاحت :
اس قسم کی آفرز سے مراد یہ ہے کہ مالیاتی اداروں (Banks)کی طرف سے کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ پر مخصوص قسم کے انعامات رکھے جاتے ہیں۔ جیسے کسی خاص چیز کی خریداری کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے کرنے پر خاص رعایت ملتی ہے جسے کاروباری زبان میں “ڈسکاؤنٹ آفر” کہا جاتا ہے جس میں فیصد کے حساب سے قیمت پر رعایت دی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر :
مختلف مالیاتی ادارے (Banks) کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ پر ایک آفر پیش کرتے ہیں کہ اگر ان کے کارڈ کو استعمال کرتے ہوئے صارف کسی مقرر کردہ برانڈ کی کوئی چیز خریدتا ہے تو اُسے اُس چیز کی قیمت میں 10 فیصد یا 20 فیصد رعایت ملے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ مالیاتی اداروں (Banks)کی طرف سے دی گئی ایسی کسی آفر سے فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے یا نہیں؟
شرعی حکم :
سب سے پہلی بات تو یہ کہ کریڈٹ کارڈ اور ڈیبٹ کارڈ دو مختلف سروسز ہیں ۔
کریڈٹ کارڈ حرام ہے کیونکہ اس کے معاہدے میں بینک کی طرف سے ایک ایسی شق شامل کردی جاتی ہے جو اسے سُود کے لین دین میں بدل دیتی ہے۔ (اگرچہ بینکنگ میں اس کے لئے کچھ مخصوص اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ اس کارڈ کے تحت حاصل کی جانے والی سروس کا حصہ ہے لیکن بنیادی طور پر وہ معاملہ سُود ہی کا ہوتا ہے ) اور باوجود اس کہ کے صارف ایسا کوئی کاروبار نہیں کر رہا جس میں سُود ہو لیکن صرف معاہدے کی اُس شق پر رضامندی ظاہر کرنے کی وجہ سے وہ اِس حرام کام کا حصہ بن جاتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ہمارے مضمون کریڈٹ کارڈ کا شرعی حکم کا مطالعہ کیا جائے ۔
جہاں تک ڈیبٹ کارڈ کا معاملہ ہے چونکہ یہ کریڈٹ کارڈ سے یکسر مختلف ہے تو ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے ایسی کسی رعایتی آفر سے فائدہ حاصل کرنا کیسا ہے ؟ مثال کے طور پر آپ ایک موبائل فون خریدنا چاہتے ہیں اور اس موبائل کی قیمت دس ہزار روپے ہے لیکن ڈیبٹ کارڈ پر دس فیصد رعایت کی وجہ سے اس کی قیمت نو ہزار 9000 روپے ہوجاتی ہے۔ نتیجتاً آپ کو اس موبائل فون کی خریداری پر ایک ہزار روپے کی رعایت ملی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر آپ نے وہ ایک ہزار روپے نہیں دیئے جس سے موبائل کی قیمت پوری ہونی تھی اور اُس دوکاندار نے بھی اپنی طرف سے وہ پیسے نہیں دیے تو پھر وہ پیسے کس نے دیے؟ جبکہ موبائل کی قیمت دس ہزار ہی ہے اور دوکاندار بھی اِسی قیمت پر یہ موبائل فون بیچ رہا ہے۔
تو یہاں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک ہزار روپے ہماری طرف سے دوکاندار کو بینک نے ادا کیے جس کی وجہ سے ہمیں رعایت ملی ۔ بظاہر اس میں کوئی حرج نہیں کہ بینک نے ہمیں بطورِ تحفہ یہ رعایت دی ہے ۔ معاملہ یہ ہے کہ بینک کی اپنی جو بھی کمائی ہے وہ سُود ی کاروبار پر منحصر ہے اور ظاہر ہے بینک نے آپ کو جو رعایت دی ہے وہ اسی سُودی کاروبار سے حاصل ہونے والے منافع سے دی ہے ۔
واضح رہے کہ جس شخص یا جس کمپنی کی کمائی میں سُود شامل ہو یا اس کے لین دین میں سُود شامل ہو تو وہ کمائی اور لین دین دونوں حرام ہیں اور اُس شخص یا اُس کمپنی کی طرف سے دیا جانے والا تحفہ بھی حرام ہے۔ اسی بنا پر ہمیں بینک کی طرف سے دی گئی کسی رعایتی آفر سے فائدہ حاصل نہیں کرنا چاہیئے۔ یہ علماء کا متفقہ فیصلہ ہے جو کہ صحیح اور قابلِ فہم بھی ہے۔
لہذا یہ بات واضح ہوگئی کہ کریڈٹ کارڈ تو ویسے ہی حرام ہے اور ڈیبٹ کارڈ پر بھی ڈسکاؤنٹ لینا جائز نہیں ہے۔
یہاں کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ بینک وہ رعایتی قیمت پیسے کی صورت میں ادا نہیں کر رہا ہوتا۔ تو یہ ضروری نہیں ہے کہ قیت ہی ادا کی جائے بلکہ مارکیٹنگ کے اصولوں کے تحت جب صارف بینک کے کارڈ پر دی گئی آفر کو حاصل کرلیتا ہے تو بینک اس کے عوض میں رقم کی بجائے دیگر سروسز بھی دوکاندار کو فراہم کردیتا ہے ، یہ ایک صورت ہے اورایسی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں جیسے مارکیٹنگ ، سروسسز یا کچھ اور۔ لیکن چونکہ بینک وہ رعایتی قیمت یا اس قیمت کے عوض کوئی سروس کسی نہ کسی صارف کی جانب سے رعایتی آفر حاصل کرنے پر ہی فراہم کرتا ہے ۔ لہٰذا کریڈٹ کارڈ کا ڈسکاؤنٹ یا ڈیبٹ کارڈ کا ڈسکاؤنٹ اس کے لیے کسی بھی حالت میں استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حلال اختیار کرنے کی اور حرام سے بچنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین