بحرانوں کے بھنور سے نکلنے کا ایک ہی حل

پہلا خطبہ:

یقینا تمام  تعریفیں اللہ کے لئے ہیں، وہی نیک لوگوں کا ولی ہے،   میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہی حق اور ہر بات واضح کرنے والا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد  اس کے بندے اور رسول ہیں، آپ ساری مخلوق کے سربراہ بھی ہیں،  یا اللہ! ہمارے نبی اور رسول، آپ کی آل، اور تمام صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں اور سلامتی  نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانوں!

میں اپنے آپ اور تمام سامعین کو تقوی  الہی کی نصیحت کرتا ہوں، تقوی ہی اصلاح اور کامیابی کا راز ، اور کامیابی و کامرانی کی بنیاد ہے ۔

مسلم اقوام!

مسلمانوں  کو  موجودہ دور میں مختلف قسم کے چیلنجز، مایوس کن فتنوں اور سنگین مسائل  کا سامنا ہے،  دانشور  مستقبل کے لئے ایسے وژن  کے منتظر ہیں جو امت مسلمہ کو موجودہ صورتحال سے نکال باہر کرے، چنانچہ اس کے لئے مفکرین نے  اپنی رائے پیش کی، سیاسی لوگوں نے  اپنے اپنے حل  سامنے رکھے، اہل قلم  نے اپنے نظریات تحریر کیے۔

چنانچہ ان حالات کے بارے میں الگ الگ تجزیے سامنے آئے، مسائل کے حل اور بحران سے نکلنے کے مختلف  راستے  منظر عام پر رونما ہوئے، اور اب پوری امت کو اجتماعی ، قومی، انفرادی ، حکومت اور عوام  سب کو خواب غفلت سے بیدار ہونے وقت آچکا ہے، انہیں  اپنی قوت ، اور کامیابی و کامرانی کے سر چشمے  کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے؛ کیونکہ انہوں نے قومیت اور گروہ بندی کی بنیاد پر بنائے گئے متعدد قوانین کو آزما کر دیکھ لیا ہے،  جن میں صرف انسانی سیاست کار فرما ہے،  مسلمانوں نے در آمد شدہ افکار کو بھی اپنا کر دیکھ لیا ہے جو صرف اور صرف رسوائی، ذلت،  کمزوری، ناتوانی، تنزلی، تباہی اور گروہ بندی کا سبب بنے ہیں۔

مسلمانوں کو اس وقت  اپنی  شان و شوکت ، اور ترقی کے ضامن   اصولوں  کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے، انہیں اس وقت  در پیش مسائل  کے حل کے لئے اپنے دین و عقائد کی روشنی میں کامیاب حل تلاش کرنے چاہییں۔

اور امت اسلامیہ کو مسائل ، بحرانوں، اور مشکلات سے  نکلنے کا راستہ ایک ہی جگہ سے  ملے گا، اور وہ ہے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح فہم۔

اسلامی بھائیوں!

ایک عظیم نصیحت غور سے سنو جو کہ معلم انسانیت، سید الخلق ہمارے نبی محمدﷺکی طرف سے ہمیں ملی ہے، آپ کی یہ نصیحت  امت کے لئے سرمدی دستاویز  کی حیثیت رکھتی ہے، اسی کے ذریعے  زندگی خوشحال ،تمام معاشرے خوش و خرم اور سب خطے  ترقی یافتہ  بن جائیں گے، یہ نصیحت ہر وقت ہماری آنکھوں کے سامنے ہونی چاہیے، ہمارے تمام تصرفات  پر اسی نصیحت کا کنٹرول ہو،  ہماری نقل و حرکت  اسی کی روشنی میں ہو، بلکہ ہمارے ارادوں اور اہداف کی تصحیح بھی اسی کے رنگ میں رنگی ہونی چاہیے۔

یہ نصیحت  ایسی ہے جس میں کسی خاص قوم کو ترجیح نہیں دی گئی ، اس میں کسی قسم کا تعصب نہیں ہے، اور نہ ہی وقتی مصلحت  کار فرما ہے، یہ نصیحت ایسی شخصیت کی ہے جس کی زبان خواہش پرست نہیں ہے، بلکہ ان کی ہر بات وحی ہوتی ہے، یہ محمدی دستاویز اور روشن  نصیحت ہے، یہ پوری امت کو  خوشحال زندگی  کے لئے کھڑا کر سکتی ہے، اسی طرح خیریت و عافیت، عزت، صلاحیت، قوت، ترقی، خوشحالی، اتحاد اور اتفاق کی صورت میں ثمر آور بھی  ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ

الانفال – 24

 اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بات بانو، جب بھی وہ تمہیں زندگی بخش امور کی دعوت دیں۔

جی ہاں! اس میں فرد اور قوم کا مکمل اجتماعی  احیا ہے ،  یہ ایک ایسی زندگی ہے جو ایمانی قوت پر قائم ہے، جس کے بغیر کسی بھی بحران کا سامنا کرنا ممکن نہیں ہے، یہ احیا کی کامل  اور واضح ترین صورت ہے، اسی سے خوشحالی، پر امن زندگی، سلامتی،  خیریت و عافیت، اور تمام شعبہ ہائے زندگی میں ترقی بھی ملے گی۔

مسلمانوں!

اس نصیحت پر عمل پیرا ہونے سے صرف عزت  ہی نہیں بلکہ دونوں جہانوں  میں  شان و شوکت بھی ملے گی، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ

الاعراف – 35

  متقی اور اصلاح کرنے والوں پر کوئی خوف ہوگا اور نہ ہی وہ غمگین ہونگے۔

فرد اس پر عمل پیرا ہوئے بغیر ضائع ہوتا رہے گا، جبکہ اس دستاویز کے مضامین سے دوری پوری قوم کے لئے تباہی و بربادی  کا پیش خیمہ ہے، یہ دستاویز  مسلمان کو  بنیادی  عقائد سے جوڑ کر  عصر حاضر کے تقاضوں  سے ہم آہنگ بھی کرتی ہے،  اس پر عمل  امت اسلامیہ کو در پیش مسائل کا منفرد  حل ہے انہی مسائل کی وجہ سے اس امت کے اصولوں، صلاحیتوں اور خصوصیات کو  نشانہ بنایا جا رہا ہے، عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں: “تم لوگوں  سے آگے اس لیے نکلے ہو کہ تم نے اس دین کی آبیاری کی ہے”۔

اللہ آپ سب کی حفاظت فرمائے! آئیں ہم اس عظیم نصیحت ، اور سرمدی دستاویز  کو اس پر عمل  کر کے اس کا عملی نمونہ  بننے  کے لئے سچے دل اور اخلاص کیساتھ غور سے سنیں! ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا، تو آپ نے مجھے فرمایا: (لڑکے! میں تمہیں کچھ باتیں سکھاتا ہوں: تم اللہ کی حفاظت کرو وہ تمہاری حفاظت کریگا، تم اللہ کی حفاظت کرو ، تم  اسے اپنی سمت میں پاؤں گے، جب بھی مانگو اللہ ہی سے مانگو، اور جب بھی  مدد طلب کرو تو اللہ سے ہی مانگو، یہ بات ذہن نشین کر لو کہ  اگر پوری قوم تمہیں کوئی فائدہ پہنچانے کے لئے متحد ہو جائے، تو وہ تمہیں وہی فائدہ پہنچا سکتے ہیں  جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کسی نقصان  پہنچانے کے لئے متحد ہو جائیں تو وہی نقصان پہنچا سکے گیں جو اللہ تعالی نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، [اس فیصلے سے ] قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور قرطاس خشک ہو چکے ہیں) اس روایت کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور اسے حسن صحیح  قرار دیا ہے، جبکہ دیگر بڑے محدثین کے ہاں یہ روایت صحیح ہے۔

ترمذی کے علاوہ ایک جگہ یہ الفاظ بھی ہیں: (تم اللہ کی حفاظت کرو! تم اسے اپنے سامنے ہی پاؤ گے، تم خوشحالی میں اللہ کو  پہچانو، وہ تمہیں  تنگی میں  پہچانے گا، یہ بات ذہن نشین کر لو کہ: جو  چیز تمہیں تک نہیں پہنچنی وہ کبھی تمہیں  پا نہیں سکتی، اور جو چیز تم تک پہنچ گئی وہ کبھی تم سے چوک نہیں سکتی تھی، یہ بھی یاد رکھو! غلبہ صبر کیساتھ اور فراوانی  تنگی کے ساتھ آتی ہے، اور ہر مشکل کے بعد آسانی ہے)

کچھ اہل علم کہتے ہیں:  اس حدیث  میں اہم دینی  امور سے متعلق انتہائی عظیم  نصیحتیں  موجود ہیں، حتی کہ کچھ علمائے کرام نے یہاں تک کہہ دیا کہ: “میں نے اس حدیث پر غور کیا تو میں مدہوش ہوگیا، ایسا لگا کہ مجھے ذہول ہو رہا ہے،  بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہم اس حدیث کے مطلب و مفہوم  سے بالکل نابلد اور اس کا معنی بہت کم سمجھتے ہیں”۔

مسلمانوں!

اللہ کی حفاظت کا مطلب  حدود الہی  کی پاسداری، حقوق اللہ کی ادائیگی، احکاماتِ الہی کی بجا آوری، اور ممنوعہ کاموں سے مکمل اجتناب ہے:

هَذَا مَا تُوعَدُونَ لِكُلِّ أَوَّابٍ حَفِيظٍ [32]  مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَنَ بِالْغَيْبِ وَجَاءَ بِقَلْبٍ مُنِيبٍ

ق – 32/33

 یہ ہے حدود کی حفاظت اور توبہ کرنے والوں سے کیا ہوا وعدہ۔ جو رحمن سے بن دیکھے ڈرتے رہے، اور [آج] رجوع کرنے والے دل کیساتھ آئے ہیں۔

اس حفاظت میں اعضاء کجروی، اور حواس بے راہ روی سے محفوظ رہنے چاہییں، نبیﷺکا فرمان ہے: (جو شخص مجھے اپنے جبڑوں کے درمیان [زبان] کی اور اپنی ٹانگوں کے درمیان [شرمگاہ] کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں) بخاری۔

یہ حفاظت شہوت کی وجہ سے معاشرے اور افراد  کو گمراہ ہونے سے روکتی ہے، یا انہیں  بلند اخلاقی اقدار اور اچھی صفات سے  ہٹنے نہیں دیتی۔

وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا

الاحزاب – 35

 اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور خواتین، اللہ کا خوب ذکر کرنے والے مرد اور خواتین  ان کے لئے اللہ تعالی نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہوا ہے۔

اس حفاظت کے ضمن میں حکمران و رعایا اللہ کی طرف سے واجب کردہ امور ادا کریں، ان امور میں حقوق کی ادائیگی ، امانتداری اور ایفائے عہد بھی شامل ہیں۔ اس حفاظت کے تحت  سب لوگ زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی تعلیمات پر مکمل عملی  نمونہ پیش کریں، اس کے لئے کسی قسم کی کمی کوتاہی یا تاویل یا خواہش پرستی کو خاطر میں نہ لائیں۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً

البقرة – 208

 اے ایمان والو! پورے کے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ۔

مسلم اقوام!

جس شخص نے ذکر شدہ مفہوم کے مطابق  اللہ کی حفاظت کی تو اسے بھی اللہ کی طرف سے مکمل حفاظت  اور اہتمام حاصل ہوگا، جس میں دینی و دنیاوی ہمہ قسم کی حفاظت شامل  ہوگی، اس کی تمام ضروریات چاہے زندگی  میں ہو یا مرنے کے بعد سب پوری ہونگی، اور ہمہ قسم کی ضرر رساں اشیاء سے بچاؤ بھی حاصل ہوگا۔

بلکہ رسول اللہ ﷺنے یہی مفہوم  اپنی اس نصیحت میں تاکید کے ساتھ بیان فرمایا: (تم اللہ کی حفاظت کرو! تم اسے اپنی سمت میں ہی پاؤ گے) چنانچہ جو شخص بھی حدود اللہ کی پاسداری کرے ، حقوق اللہ کا اہتمام کرے تو اللہ تعالی اسے اپنی حفظ و امان  میں گھیر لیتا ہے، پھر اسے مزید کی توفیق  اور  سیدھے راستے پر بھی رکھتا ہے، بلکہ افراد ہوں یا اقوام سب کے مقابلے میں اسے اللہ تعالی کی تائید و مدد بھی حاصل ہوتی ہے:

إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ

النحل – 128

 بیشک اللہ تعالی ان لوگوں کیساتھ ہے جو ڈرتے ہیں، اور جو احسان کرتے ہیں۔

قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: “جو شخص بھی تقوی الہی اختیار کریگا اللہ تعالی اس کے ساتھ ہوگا، اور جس کے ساتھ اللہ تعالی ہو تو ایسی قوت اس کے ساتھ ہے جو کبھی مغلوب نہیں ہوتی، ایسے پہرے دار کیساتھ ہے جو کبھی نہیں سوتا، اور ایسے رہنما کیساتھ ہے جو کبھی نہیں بھٹکتا ہے”۔

سلف صالحین میں سے کسی نے اپنے بھائی کی طرف خط لکھا: “۔۔۔ حمد و صلاۃ کے بعد: اگر اللہ تمہارے ساتھ ہے تو کس سے ڈر رہے ہو؟!! اور اگر اللہ تعالی ہی تمہارے خلاف ہے تو پھر کس سے امید لگا سکتے ہو؟!!”

بالکل اسی کے مطابق پوری قوم  کی زبانِ حال گویا ہونی چاہیے کہ: “اگر اللہ تعالی ہمارے ساتھ ہے تو ہمیں کس کا ڈر ہے؟ اور اگر اللہ تعالی ہمارے ساتھ نہیں ہے تو ہم کس سے امید لگائے بیٹھے ہیں؟ لہذا ہمارے لئے اس جگہ پر اللہ تعالی کے فرمان پر غور فکر کرنا ضروری ہے:

فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ

الذاریات – 50

 اللہ کی طرف دوڑو!

یعنی : اطاعت الہی اور اطاعتِ رسولﷺکرتے ہوئے اللہ کی طرف دوڑو!۔

مسلم اقوام!

پوری امت فرد ہو یا قوم ، ان کی ذمہ داریاں کسی بھی قسم کی ہوں، انکا مقام کتنا ہی بلند ہو ، جو بھی شریعت الہی  کی حفاظت کرے، اور اپنے ہر معاملے  میں اللہ کے سامنے سر نگوں ہو جائے ، نفسانی خواہشات اور قلبی شہوت سے پاک  ہو جائے ،  سیاسی ، اقتصادی، سماجی اور دیگر  امور  منہج الہی اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے  موافق ہوں، جس وقت بھی  خالص اسلام کو اپنی حیات کے تمام شعبہ ہائے زندگی  اور مراحل کے لئے طرز زندگی  بنائیں، اپنے تعلقات ، مصروفیات، اور ہمہ قسم  کی نقل کو حرکت کے لئے اسلام سنگ میل ہو تو اسی وقت  اللہ کی طرف سے افراد اور اقوام کو تمام مصیبتوں ، تکلیفوں، بحرانوں اور فتنوں سے تحفظ ملے گا، اس امت کو اسی وقت  امن، استحکام، شان و شوکت، اور غلبہ حاصل ہوگا، کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا، اور اس کا وعدہ بالکل سچا ہے:

الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ

الانعام – 82

 جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کیساتھ ظلم [شرک] کی آمیزش  نہ کی تو انہی لوگوں کے لئے امن ہوگا، اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہونگے۔

چنانچہ امت اسلامیہ نے جس وقت بھی اپنی قیادت  شریعتِ الہی اور سنت نبوی ﷺکے ہاتھ میں دی، اور انہی دونوں چیزوں کا اہداف، حرکات و سکنات  سب پر مکمل نفاذ ہوا تو  پوری امت اسلامیہ کو ہر طرح سے امن و امان ملے گا،  سیاسی ، اقتصادی، اور سماجی  امن حاصل ہوگا،  لیکن  دانشور  کہاں ہیں!؟  مفکرین کہاں ہیں!؟ اور  امت محمدیہ کی تاریخ پڑھنے والے ان باتوں سے دور کہاں ہیں؟!

مسلم اقوام!

امت جس وقت بھی سخت آزمائش میں مبتلا ہو،  دہشت زدہ ہو کر امن  طلب کرے، ذلت کے دنوں میں عزت کی متلاشی ہو، پسماندہ حالات میں ترقی و استحکام کی خواہاں ہو  -اور امت کی آج کل یہی صورت حال ہے-اسے کسی صورت میں  یہ اہداف حاصل نہیں ہونگے،  یہاں تک کے  اللہ عز و جل  کی لگائی ہوئی شرطیں پوری نہ کرے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت، اسلامی شریعت پر مکمل رضا مندی اور اللہ کے ہاں پسندیدہ منہج  کا نفاذ، تب جا کر  اس امت سے فساد و کمزوری کا خاتمہ ہوگا، اس امت  سے خوف، پریشانی اور عدم استحکام کا بوریا بستر گول ہوگا، بلکہ زمین کی کوئی بھی بڑی سے بڑی طاقت اس کے راستے میں کھڑی نہیں ہوسکے گی؛ آپ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی سیرت پڑھ کر دیکھ لیں، اسی طرح خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلنے والے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ  کی سوانح پڑھ لیں کیونکہ اللہ تعالی نے شروع سے لیکر آخر تک پوری امت کو فرما دیا ہے کہ:

 فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى[123] وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى

طٰه – 123/124

جب میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے  تو جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بدبخت ہوگا۔ اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔

کسی بھی جگہ پر مقیم امت اسلامیہ! بیشک اللہ کا وعدہ  اب بھی قائم و دائم ہے، زمانہ کتنا ہی تبدیل ہو جائے، حالات کس قدر بدل جائیں جب بھی مذکورہ شرط پائی جائے گی اللہ تعالی اپنا وعدہ پورا فرما دے گا۔

لیکن تمام مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ  پوری قوم سے پہلے ہر فرد ، اور حکمرانوں سے پہلے رعایا انفرادی طور پر اپنے اندر جھانک کر دیکھیں، اپنی حالت کو چیک کریں، اپنے طرزِ زندگی کو کھنگالیں کہ کیا یہ سب کچھ اللہ  کے پسندیدہ منہج کے مطابق ہے؟  کیا یہ سب کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرزِ حیات کے موافق ہے؟  تبھی کسی عقلمند کے لئے صحیح جواب کی صورت میں  نتیجہ سامنے آئے گا!۔

ابن کثیر رحمہ اللہ نے 463 ہجری  کے واقعات نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: “رومی بادشاہ  بے شمار گھڑ سوار دستوں کی شکل میں پہاڑوں  کی طرح امڈ آیا، ان کی تعداد بہت ہی بڑی تھی، رومی بادشاہ کا یہ عزم تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے، چنانچہ مسلم سلطان تقریباً 20 ہزار کے لشکر کی صورت میں مقابلے میں آیا، اور مشرکین کی تعداد  سے خوفزدہ ہونے لگا، جس پر فقیہ ابو نصر محمد بن عبد الملک بخاری نے مشورہ دیا کہ جنگ کا وقت  جمعہ کا دن اور زوال کے بعد ہو، کیونکہ اس وقت خطباء مجاہدین کے لئے دعائیں کرینگے، چنانچہ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو مسلمانوں کے سلطان  نے گھوڑے سے اتر کر اللہ کے لئے سجدہ کیا، اور اللہ سے دعا مانگتے ہوئے فتح طلب کی، تو اللہ تعالی نے مسلمانوں کے لئے اپنی مدد نازل فرمائی، اور انہیں مشرکوں کو چاروں شانے چت کرنے کا موقع دیا، اور یہ واقعی ایک بڑی شان و شوکت والی فتح تھی” انتہی ، ابتدا ہو یا انتہا تعریفیں صرف اللہ کے لئے ہی ہیں۔

اور اگر امت باہمی لڑائی جھگڑے، گروہ بندی، فرقہ واریت،  بلکہ منہج الہی ، نفاذ شریعت،  سید الانبیاء و المرسلین  کی سیرت پر چلنے سے کوسوں دور ہو،  تو کہاں سے مدد ملے گی!؟ کہاں سے کامیابی و کامرانی ملے گی!؟ اور امن و امان کیسے قائم ہوگا؟  فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ

محمد – 7

اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو تو وہ تمہاری مدد کریگا، اور تمہیں ثابت قدم بنا دے گا۔

اللہ تعالی ہمارے لئے قرآن و سنت کو بابرکت بنائے، اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، اور اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے لئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش  مانگو وہ بہت ہی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے۔

دوسرا خطبہ

اپنے رب کی حمد بیان کرتا ہوں، اور اسی کا شکر گزار ہوں، میں گواہی دیتا ہوں  کہ اللہ علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں، ، اللہ تعالی آپ پر ، آپ کی آل، اور برگزیدہ صحابہ کرام پر رحمتیں ، برکتیں، اور سلامتی نازل فرمائے۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

مسلمانوں!

ماہ شعبان میں کچھ نفل عبادات سے غفلت برتی جاتی ہے، چنانچہ ہمیں اس ماہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کرنی چاہیے، چنانچہ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا : “اللہ کے رسول! جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے ہیں اتنے روزے کسی اور مہینے میں نہیں رکھتے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رجب اور رمضان کے درمیان یہ ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غافل رہتے ہیں، اس مہینے میں  اعمال رب العالمین کی طرف  بھیجے جاتے ہیں، تو مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرے اعمال جب پیش کیے جائیں تو میں روزے سے ہوں) نسائی نے اسے حسن سند کے ساتھ  روایت کیا ہے۔

اور عائشہ رضی اللہ عنہا  -اللہ تعالی ان کے والد سے بھی راضی ہو-کہتی ہیں کہ : (نبی ﷺشعبان سے زیادہ کسی اور مہینے میں روزے نہیں رکھتے تھے، آپ پورے  شعبان میں روزے رکھتے تھے) بخاری

اور ایک روایت میں ہے کہ: (آپ شعبان میں چند دنوں کے علاوہ روزانہ روزہ رکھتے تھے) مسلم

سلف صالحین  کثرت کیساتھ  اس مہینے میں تلاوت کیا کرتے تھے، چنانچہ انس کہتے ہیں: “جب ماہِ شعبان شروع ہوتا تو  مسلمان قرآن مجید  کے لئے ڈیرے ڈال لیتے اور خوب تلاوت کرتے”۔

سلمہ بن کہیل کہتے ہیں: “کہا جاتا تھا کہ شعبان تلاوت کرنے والوں کا مہینہ ہے”۔

حبیب بن ابی ثابت  جب بھی شعبان کا مہینہ شروع ہوتا تو کہتے: “یہ تلاوت کرنے والوں کا مہینہ ہے”۔

عمرو بن قیس  ماہِ شعبان شروع ہونے پر  اپنی دکان بند کر کے تلاوت قرآن کے لئے مشغول ہو جاتے تھے۔ تاہم نصف شعبان کو دن میں روزہ  اور رات کو قیام کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے، جیسے کہ بہت سے محقق علمائے کرام نے اس بات کا ذکر کیا ہے، اور جو چیز دین میں ثابت نہ ہو اس پر عمل کرنا بدعت کہلاتا ہے، چنانچہ کسی بھی مسلمان کے لئے اس پر عمل کرتے ہوئے قرب الہی تلاش کرنا جائز نہیں ہے، اور امت اسلامیہ کو سب سے زیادہ نقصان بھی انہی بدعات کی وجہ سے ہوا ہے  جو کسی بھی قرآنی آیت یا حدیث نبوی کی بنیاد پر قائم نہیں ہیں۔

اللہ کے بندوں!

اللہ تعالی نے ہمیں ایک عظیم کام کا حکم دیا ہے، اور وہ ہے نبی ﷺپر درود و سلام ،  یا اللہ! ہمارے نبی   محمد  پر رحمتیں نازل فرما ، یا اللہ! ہمارے نبی   محمد   کی آل پر  رحمتیں نازل فرما،  یا اللہ! ہمارے نبی   محمد  پر برکتیں نازل فرما ، یا اللہ! ہمارے نبی   محمد   کی آل پر  برکتیں نازل فرما۔

یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ، تمام صحابہ کرام،   تمام تابعین، اور قیامت تک انکے راستے پر چلنے والے افراد سے  راضی ہو جا۔

یا اللہ! ہمیں تیری اطاعت کے ذریعے عزت و غلبہ عطا فرما، یا اللہ! ہمیں تیری اطاعت کے ذریعے عزت و غلبہ عطا فرما، یا اللہ! ہمیں تیری اطاعت کے ذریعے عزت و غلبہ عطا فرما۔

یا اللہ! ہماری خصوصی حفاظت فرما، یا اللہ! ہماری خصوصی حفاظت فرما، یا اللہ! ہماری خصوصی حفاظت فرما، یا اللہ! ہماری  مدد فرما، یا اللہ! مسلمانوں  کی اپنی تائید، نصرت، اور اہتمام کے ذریعے مدد فرما،  یا اللہ! انکی  خصوصی مدد فرما،  اور انہیں اپنی حفاظت  کے سپرد فرما، یا اللہ! اپنی فضاؤں، دریاؤں، اور صحراؤں میں انکی حفاظت فرما۔

یا اللہ! تمام اسلامی ممالک کو نقصان اور برائی سے محفوظ فرما، یا اللہ! ملک حرمین شریفین اور تمام اسلامی  ممالک کو امن و امان کا گہوارہ بنا،  یا اللہ! اسلامی ممالک کی حفاظت فرما، یا اللہ! تمام اسلامی ممالک کو مکاروں  کی مکاریوں سے محفوظ فرما، دھوکہ بازوں کی دھوکہ دہی سے انکی حفاظت فرما، یا اللہ! مسلمانوں کی حفاظت فرما۔

 یا اللہ! خونِ مسلم کی حفاظت فرما، یا اللہ!  مسلمانوں کے خون، جان، مال، اور عزت آبرو کی حفاظت فرما، یا ذالجلال والاکرام!

یا اللہ! مسلم مرد و خواتین کی مغفرت فرما، مؤمن مرد و خواتین کی مغفرت فرما، جو زندہ ہیں انکی بھی اور جو فوت ہو چکے ہیں انہیں بھی  معاف فرما۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کی حفاظت فرما، یا اللہ! انہیں تیری پسند کے کام کرنے کی توفیق عطا فرما، یا اللہ! ہر معاملے  میں ان کے لئے کامیابی لکھ دے، یا اللہ! ہر معاملے  میں ان کے لئے کامیابی لکھ دے، یا اللہ! ہر معاملے  میں ان کے لئے کامیابی لکھ دے۔

یا اللہ! ہمارے حکمران کے ذریعے اپنے دشمنوں کے دلوں میں رعب ڈال دے، یا اللہ! ہمارے حکمران کے ذریعے اپنے اور مسلمانوں کے دشمنوں کے دلوں میں رعب ڈال دے۔

یا اللہ ساری دنیا میں مسلمانوں کی شان و شوکت میں اضافہ فرما، یا اللہ ساری دنیا میں مسلمانوں کی شان و شوکت میں اضافہ فرما، یا اللہ! انکے غموں کو دھو ڈال، یا اللہ! انکے غموں کو دھو ڈال ، یا اللہ! انکے غموں کو دھو ڈال ، یا اللہ! انکی تکالیف   دور فرما دے، یا اللہ! انکی تکالیف   دور فرما دے۔

یا اللہ! بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! تمام بیماروں کو شفا یاب فرما، یا اللہ! انکے حالات درست فرما،  یا اللہ! ان پر اپنی مدد، نصرت، اور تائید نازل فرما، یا ذو الجلال والاکرام!

یا اللہ! ہمارے لئے ماہِ شعبان میں برکت فرما،  یا اللہ! ہمیں رمضان المبارک نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں رمضان المبارک نصیب فرما، یا اللہ! ہمیں رمضان المبارک نصیب فرما، اور ہمیں جہنم کی آگ سے آزاد ہونے والوں میں سے بنا۔ یا اللہ! یاحیی! یا قیوم! یا غنی! یا حمید! یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمیں بارش عطا فرما، یا اللہ! ہمارے دلوں کو ایمان کی بارش عطا فرما،  یا اللہ! ہمارے ملک کو نافع اور مفید بارش عطا فرما،  یا اللہ! ہمارے اور دیگر اسلامی ممالک میں بارشیں نازل فرما، یا اللہ! ہمارے اور دیگر اسلامی ممالک میں بارشیں نازل فرما، یا اللہ! ہمارے اور دیگر اسلامی ممالک میں بارشیں نازل فرما۔

اللہ کے بندوں!

اللہ کا ذکر کثرت کے ساتھ کیا کرو اور صبح و شام اسی کی تسبیحات پڑھا کرو!۔

فضیلۃ الشیخ جسٹس حسین بن عبد العزیز آل الشیخ حفظہ اللہ: آپ مسجد نبوی کے امام و خطیب ہیں، شیخ محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ کے خاندان سے ہیں، بنو تمیم سے تعلق ہے، آپ نے جامعہ محمد بن سعود الاسلامیہ سے ماجستیر کی ڈگری حاصل کی ، پھر مسجد نبوی میں امام متعین ہوئے اور ساتھ ساتھ مدینہ منورہ میں جج کے فرائض بھی ادا کررہے ہیں۔