محاسبہ نفس اور نیکیوں کی تگ ودو

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو آسمان و زمین کا رب اور صاحبِ انعامات و برکات ہے۔جسے نیکیوں سے کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ بُرائیوں سے کوئی نقصان ،بلکہ نفع و نقصان تو نیکی اور بدی کرنے والوں کا ہی ہوتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ تو تمام مخلوقات سے بے پرواہ اور بے نیاز ہے۔ظاہر اور پوشیدہ تمام نعمتوں پر اپنے رب کا شکر بجا لاتا ہوں ،ہر حال میں اُسی کی بڑائی اور شکر ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لا شریک کے سوا کوئی معبود ِ برحق نہیں وہ خوبصورت ناموں اور عظیم الشان صفات کا مالک ہےاور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سردار محمدﷺ اللہ کے بندے اور براہین و معجزات سے تائید یافتہ رسول ہیں ۔

اے اللہ ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺاور خیرات کی طرف جلدی کرنے والے ان کے تمام اہل و اصحاب پر صلوٰۃ و سلام  اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و ثنا کے بعد

اللہ عزوجل کو راضی کرنے والے اعمال کرتے ہوئے اور اُس کی ناراضگی اور نافرمانی سے دور رہتے ہوئے اُس کا تقویٰ اختیار کروکیونکہ اہلِ تقویٰ ہی ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور مجرم برباد ہوتے ہیں ۔اے مسلمانوں ! محاسبہ ِ نفس اور اطاعت و فرمانبرداری میں جدو جہد نیکویوں میں اضافہ اللہ کی مدد و توفیق سے نصیب ہونے والے عمل ِ صالح کی حفاظت اور نیکیوں کو ضائع کرنے والے امور سے اجتناب ہی دنیا وآخرت کی حقیقی کامیابی اور سعادتِ دارین ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ ‎﴿٤٠﴾‏ فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَىٰ

النازعات – 40/41

ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔ تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔

اور جنتیوں کے بارے میں اللہ عزوجل فرماتا ہے:

وَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ يَتَسَاءَلُونَ ‎﴿٢٥﴾‏ قَالُوا إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنَا مُشْفِقِينَ ‎﴿٢٦﴾‏ فَمَنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا وَوَقَانَا عَذَابَ السَّمُومِ

الطور – 25/26/27

اور آپس میں ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہو کر سوال کریں گے۔ کہیں گے کہ اس سے پہلے ہم اپنے گھر والوں کے درمیان بہت ڈرا کرتے تھے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہم پر بڑا احسان کیا اور ہمیں تیز وتند گرم ہواؤں کے عذاب سے بچا لیا۔

اور فرمایا:

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ

محمد – 33

اے ایمان والوں ! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرواور اپنے اعمال کو ضائع نہ کرو۔

اور فرمانِ باری تعالیٰ  ہے کہ :

وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ

الحشر – 18

اور ہر شخص دیکھ (بھال) لے کہ کل (قیامت) کے واسطے اس نے (اعمال کا) کیا (ذخیره) بھیجا ہے۔

اِس آیت کی تفسیر میں ابن ِکثیر رحمہ اللہ نے بیان کرتے ہیں : اپنا حساب شروع ہونے پہلے بذاتِ خود اپنا محاسبہ کرتے ہوئے دیکھ لو بروزِ قیامت اپنے رب کے حضور پیشی کے لئے  تم نے اپنے نامہ اعمال میں کتنی نیکیاں ذخیرہ کر رکھی ہیں ۔

اور آپ ﷺ نے فرمایا: حقیقی عقلمند شخص وہ ہے جس نے اپنے نفس پر قابو رکھتے ہوئے مرنے کے بعد کے لئے کچھ کمالیااور عاجز و بے بس وہ شخص ہے جس کی خواہشات ِ نفس اُس پر مسلط اور غالب رہیں اور وہ  خالی اللہ سے اُمیدیں لگائے بیٹھا رہا۔ (سنن ترمذی)

ماضی حال اور مستقبل یعنی ہر وقت تمام گناہوں سے توبہ کرنا ۔نیکیوں میں اضافہ کرنا اور باطل کرنے والے امور سے عمل ِ صالح کی حفاظت کرنا  ہی محاسبہ نفس ہے ۔ جبکہ خواہشِ نفس کی پیروی ،محرمات کا ارتکاب ترکِ اطاعت اور عملِ صالح کو ضائع کرنے والی چیزوں کے قریب جا ہی درحقیقت بدبختی ،خسارہ اور ذلت و رسوائی ہے۔ کسی شخص کی بربادی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ایسا عمل کرے جس سے اُس کی نیکیوں کا ثواب گھٹ جائے ۔ اے مسلمانوں ! تم دیکھ رہے ہو کہ کس طرح شب و روز ایک کے بعد ایک تیزی سے گزر رہے ہیں اور سال پر سال نیکی سے خالی جارہے ہیں    اور یہ کہ گزرا ہوادن  اور اُس دن کی کوئی چیز ہر گز واپس نہیں آئے گی۔جبکہ یہ عمر بھی تو چند اور دن اور چند راتیں ہیں  پھر موت کے آتے ہی عمل منقطع ہوجائیں گے  اور خالی امیدوں کا غرور خاک ہوجائے گا ۔بلاشبہ تم اپنے ایسے بابرکت مہینے کے شروع میں ہو کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بھلائیوں کے دروازے کھول دئے اور اسبابِ خیر کو آسان کردیا ہے چناچہ تم بھلائیوں کےدروازوں میں داخل ہوجاؤاور ہلاکت و بربادی کے دروازوں سے دور رہو۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ

البقرة – 208

ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وه تمہارا کھلا دشمن ہے۔

اے مسلمانوں! ایمان و قرآن کی شان و عظمت کو سمجھو کیونکہ ایمان و قرآن سے بڑھ کر کوئی افضل عطا نہیں ہے۔اور جو بھی مسلمان بحالت ِ ایمان اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید سے رمضان کا روزہ رکھتاہے وہ ایما ن اور قرآنی برکات کو پالیتا ہے ۔ اور وہ قرآن پر عمل کرتاہے تو وہ ہی حقیقی اہلِ قرآن ہے اگرچہ وہ حافظِ قرآن نہ بھی ہو۔ اور جو عمل نہ کرے وہ اہلِ قرآن نہیں ہوسکتااگرچہ وہ حافظِ قرآن ہی کیوں نہ ہو۔

قرآن کا ہدایت ،عمومی و خصوصی رحمت اور باوقار زندگی کے ساتھ رمضان میں نازل ہونا امت کا سب سے پہلا انعام ہے ۔ ماہِ صیام میں نزول ِ قرآن خیر و برکت ،اصلاح ِ زندگی، آخرت کے اعلیٰ درجات میں کامیابی کی بنیاد اور روشنیوں کا منبع ہے جو حالت ِ گمراہی اور اندھیروں کی دوری کا باعث ہے ۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ وَلَٰكِن جَعَلْنَاهُ نُورًا نَّهْدِي بِهِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا ۚ وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

الشوریٰ – 52

اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں، ہدایت دیتے ہیں، بیشک آپ راه راست کی رہنمائی کر رہے ہیں۔

اللہ سبحانہ  وتعالیٰ نے فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَكُم بُرْهَانٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُّبِينًا ‎﴿١٧٤﴾‏ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَاعْتَصَمُوا بِهِ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِي رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا

النساء – 174/175

اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے سند اور دلیل آپہنچی اور ہم نے تمہاری جانب واضح اور صاف نور اتار دیا ہے۔ پس جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان ﻻئے اور اسے مضبوط پکڑ لیا، انہیں تو وه عنقریب اپنی رحمت اور فضل میں لے لے گا اور انہیں اپنی طرف کی راه راست دکھا دے گا۔

پس اس امت کاسب سےپہلا یا دنیا کا سب سے آخری شخص جب اس قرآن پر ایمان لایا تو اُس نے قرآن کی تمام اور ایمان کے خصوصی انعام کا شکریہ ادا کیا  اور جو قرآ ن پر ایما ن نہ لایا تو اُس نے تمام انعامات کی ناشکری کی اور جہنم کے دائمی عذاب سے دو چار ہوا۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے: 

وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ

ھود – 17

اور تمام فرقوں میں سے جو بھی اس کا منکر ہو اس کے آخری وعدے کی جگہ جہنم ہے۔

اور فرمایا: 

وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ

البقرة – 121

 اور جو اس کے ساتھ کفر کرے وه نقصان واﻻ ہے۔

اور فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا وَاسْتَكْبَرُوا عَنْهَا لَا تُفَتَّحُ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّىٰ يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُجْرِمِينَ

الأعراف – 40

جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان سے تکبر کیا ان کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائیں گے اور وه لوگ کبھی جنت میں نہ جائیں گے جب تک کہ اونٹ سوئی کے ناکہ کے اندر سے نہ چلا جائے اور ہم مجرم لوگوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں۔

اللہ تالیٰ نے ہر چیز پر محیط اپنے علم و حکمت اور ہمارے ساتھ مہربانی کی وجہ سے ہم پر رمضان المبارک کے روزے فرض کئے ہیں ۔اور اللہ کے رسول ﷺ نے ہمارے لئے رمضان  کے قیام کو سنت قرار دیااور دیگر مہینوں سے ہٹ کر اس کی خصوصی فضیلت بیان فرمائی ۔ پس اس مہینے میں نیکیوں اور عبادات  کی بہت سی عظیم الشان انواع اقسام جمع  ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اعمال کے اجر و ثواب کو کئی گنا بڑھادیا ہے  تاکہ مسلمان ایمان و قرآن کےاحسان پر    اللہ کا شکر ادا کریں ۔ نعمتیں عطا کرنے والے اللہ جل و علی شکریہ ادا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ و ہ نعمتوں کو زوال سے محفوظ رکھے ۔اور ابھی اور آئیندہ  مزید احسانات سے مالا مال فرمادے ۔

اللہ تعالیٰ کے انعامات پر شکر کئی طرح کی عبادات سے ممکن ہے ۔ اور ان تما م عبادات  میں سب سے عظیم عبادت اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ہے جبکہ مخلوق  کے احسان بھی شکر ِ خداوندی میں شامل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا:

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ‎﴿١﴾‏ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ

الکوثر – 1/2

یقیناً ہم نے تجھے (حوض) کوﺛر (اور بہت کچھ) دیا ہے۔ پس تو اپنے رب کے لئے نماز پڑھ اور قربانی کر۔

الکوثر سے مراد وہ  خیرِ کثیر ہے کہ جس کا علم سوائے اللہ کہ اور کسی کو نہیں اور اسی سے جنت کی  نہر ِ کوثر ہے ۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی محمد ﷺ  کی رہنمائی فرمائی کہ وہ     مختلف عبادات سے اللہ کی  نعمتوں پر اس کا شکر بجالائے اور کئی قسم کے فوائد و احسانا ت کے ذریعے مخلوق کےساتھ نیکی کرے لہٰذا ہمارے سردار محمد ﷺ نے ان تمام مقامات  پر اللہ کے حکم کی تعمیل کا حق ادا کردیا ۔پس اللہ تعالیٰ تمام امت کی طرف سے ہمارے نبی محمد ﷺ کو سب سے افضل و احسن جزا دے کیونکہ بلا شبہ آپ ﷺ   نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچا کر امانت کو  ادا کرتے ہوئے امت کی خیر خواہی  کی  اور اللہ تعالیٰ کے لئے خوب جدو جہد اور محنت کی۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:

فَخُذْ مَا آتَيْتُكَ وَكُن مِّنَ الشَّاكِرِينَ

الاعراف – 144

تو جو کچھ تم کو میں نے عطا کیا ہے اس کو لو اور شکر کرو۔

اور فرمایا:

اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا ۚ وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ 

سباء – 13

اے آل داؤد اس کے شکریہ میں نیک عمل کرو، میرے بندوں میں سے شکرگزار بندے کم ہی ہوتے ہیں۔

بعض مفسرین نے لکھا ہے : کہ دن یا رات کی کوئی گھڑی ایسی نہیں گزری کہ جس میں آل ِ داؤد کا کوئی فرد رکوع یا سجدے میں نہ ہو۔

اللہ تعالیٰ نے جب مریم علیہا اسلام پر اپنی نعمتوں کا تذکرہ کیا تو  انہیں اِن نعمتوں  شکر  کی تلقین کرے ہوئے فرمایا

يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ

آل عمران – 43

اے مریم! تو اپنے رب کی اطاعت کر اور سجده کر اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔

اور اللہ تعالیٰ نےصحابہ کو سب سے افضل امت کہتے ہوئے فرمایا:

مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ

الفتح – 29

محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں۔

پس رمضان وغیرہ کی تما م تر عبادات ،ایما ن و قرآن  جیسے انعامات پر اللہ کا شکر ہے ۔ رمضان میں روزو ں کی بدولت صفاتِ  خیر کی قوت اور کشش ِ شر اور شیطانی تسلط کی کمزوری کی وجہ سے قرآن کا غلبہ اور اس کی عظیم تاثیر  روح  پر غالب رہتی ہے ۔لہٰذا غور و فکر  اور تدبر سے خوب تلاوت ِ قرآن کرواور یاد رکھو کہ قرآن و سنت کے بغیر مسلمانوں کی اصلاح ہرگز نا ممکن ہے۔ اور اگر دنیا کے زندہ و مردہ سب دانا جہاں کی گتھی سلجھانے کے اکھٹے ہوجائیں  تو بھی وہ سلجھا نہیں سکتے ۔لیکن قرآن نے ہر ممکن و مشکل دشواری کا راستہ واضح کریا ہے۔     ذرا اللہ اور اُس کے اسماء و صفات  کے عقیدے  اور اُس کے حقِ عبادت کے مسئلے پر غور کروکہ جس کے بارے میں اتنے زیادہ عقائد پائے جاتے ہیں جو اعداد و شمار سے ظاہر ہے جب کہ عقیدے کے اس مسئلے میں حق صرف وہی ہے  جو قرآن نے بیان کیا ہے  ۔اور جو قرآن کے برخلاف ہے وہ سب جھوٹ اور باطل ہے ۔

 جب اقتصادیا ت کے عالمی ماہرین یہ گتھی سلجھانے میں بے بس ہوگئے تب اس مالی لین دین کی تفسیر میں قرآنی تعلیمات ہی صحیح ثابت ہوئیں  اور بعض غیر مسلم دانشوروں نے بھی بعض معاملات میں شریعت ِ اسلامی کے احکامات سے ہی استفادہ کیا  اگرچہ سب لوگوں کا مسلمان ہونا ممکن نہیں لیکن سب مسلمانوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن و سنت پر اس طرح کا ربند ہوں کہ جب لوگ ہر مسلمان  کو ایک شاندار مثال کے طور پر دیکھیں تو اس سے استفادے پر مجبور ہوجائیں خواہ  وہ ان کے دنیاوی معاملات ہی کیوں نہ ہوں۔

قرآن ِ عظیم ہی امت کا   سانچہ ،امت کی بقاء ،عزو ت و قو ت اور طاقت ہے۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ هَٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِي لِلَّتِي هِيَ أَقْوَمُ وَيُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ أَجْرًا كَبِيرًا

الاسراء – 9

یقیناً یہ قرآن وه راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن ِ مجید کو میرے اور تمہارے لئے باعث ِ برکت بنائے اور اِس کی آیات کو  ذکرِ حکیم کو نفع  بخش بنائے۔اور ہمیں سید المرسلیں ﷺ کے طریقے  اور  دُرست راستے   یکجا کرے ۔اسی پر اپنے ،تمہارے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں تم  بھی اُسی سے بخشش طلب کرو۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اُ س اللہ کے لئے ہیں جو پہلی اور دوسری بار پیدا کرنے والا ہو جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے اُسی کی حقیقی بادشاہت اور حمد ہےجو چاہتا ہے وہی فیصلہ کرتا ہے  ۔ میں اپنے رب کے فضل پر اُسی کی حمد و شکر بجا لاتا ہوں  اُسی سے مزید کا سوال کرتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے وحدہ  لاشریک کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں  وہی ولی حمید ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اس کےبندے رسول اور راہِ راست کے ہادی ہیں ۔ اے اللہ ! اپنے بندے اور رسول محمد ﷺ اور ان کی ہدایت یافتہ آل و اصحاب پر صلوٰۃ و سلام اور برکتیں نازل فرما ۔

حمد و ثنا کے بعد!

ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرتے ہوئے دنیا  و آخرت کے شاندار نتائج کے حصول  میں کامیاب ہوجاؤ۔

اے اللہ کے بندوں ! زندگی کے منافع کے ساتھ ساتھ تم میں سے روشن خیال  لوگوں کے لئے فریضہ  صوم میں بہت بڑ ا اجر و ثواب ہے ۔ البتہ روزہ اپنے روزہ دار کے لئے تب تک سود مند اور ثمر آور نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسے عملِ صالح کےذریعے پاکیزہ نہ رکھے اور روزہ توڑنے یا اج  وثوا میں کمی کرنے والے تمام جرائم و گناہ  سے اس کی حفاظت نہ کرے۔ چناچہ اے مسلم جب تو روزہ رکھے تو تیرے کان ، آنکھ ،زبان اور اعضاء کا بھی تما م حرام امور سے روزہ ہونا چاہیئے ۔ تاکہ نیکیوں سے تمہار تزکیہ نفس ہوسکے۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ

محمد – 33

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو۔

اور حدیث میں ہے کہ جب تمہارے کسی ایک روزے کا دن ہو تو وہ فحش گوئی اور فضول گفتگو سے اجتناب کرے۔ اور اگر اسے کوئی گالی دے  تو وہ کہے میں روزے سے ہوں۔

متفق علیہ ابو ہریرۃ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص  روزہ  رکھ کر بھی جھوٹ اور دغا بازی  نہ چھوڑے  تو اللہ تعالیٰ کو اس کے فاقے کی کوئی ضرورت نہیں  کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔ متفق علیہ

ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ ﷺ نے فرمایا: روزہ تب تک گناہوں سے ڈھال ہے جب تک کہ اُسے توڑا یا خراب نہ کیا جائے۔یعنی غیبت و چغلی جیسے گناہوں سے اُسے نہ توڑا جائے۔

اے مسلم !رمضان میں اپنا محاسبہ کرلو تاکہ قیامت کے دن کے حساب میں آسانی ہوجائے اور اپنے آپ سے پوچھو کہ کیا تم نے رمضان میں اللہ کے حکم کے مطابق نماز قائم کی اور کیا روزے کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ بھی ادا کی ؟ کیا تو نے تمام گناہوں سے اللہ کے سامنے توبہ کرلی؟ کیا تونے سُود اور حرام کاروبار جیسی تمام حرم  کمائیوں سے توبہ کرلی ہے؟ کیا تو نے کبھی صلہ رحمی بھی کی ہے؟ کیا تونے والدین کے ساتھ نیک برتاؤ  کیا ہے ؟ کیا تونے کبھی نیکی کا حکم دیا اور بُرائی سے روکا ہے کیا تونے نبوی طریقے پر کاربند رہنے کی کوشش کی تاکہ ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل ہوجائے ؟

فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا ‎﴿٧٠﴾‏ يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا

الاحزاب – 71

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو۔ تاکہ اللہ تعالیٰ تمہارے کام سنوار دے اور تمہارے گناه معاف فرما دے، اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی تابعداری کرے گا اس نے بڑی مراد پالی۔

اے اللہ کے بندوں! بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کےفرشتے نبی کریم ﷺ پر درود بھیجتے ہیں تو اے ایمان والوں تم بھی نبی کریم ﷺ پر درور و سلام بھیجو۔آپ ﷺ نے فرمایا:  جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا تو اِس کے عوض اللہ اس پر دس مرتبہ رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے۔اے اللہ اپنے نبی کریم ﷺ پر اور ان کی آل پر رحمتیں اور برکتیں اُسی طرح نازل فرما جس طرح تو نے ابراھیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائیں ہیں بے شک تو حمید و مجید ہے۔

اے اللہ ! تو تمام صحابہ سے راضی ہوجااور بالخصوص خلفاء راشدین سے  جو کہ ہدایت یافتہ ہیں ان سے راضی ہوجا ، ابو بکر ،عمر ،عثمان، علی رضی اللہ عنہم   جمیعاً اور تابعین اور تبع تابعین سب سے راضی ہوجا اور یا اللہ ان کے ساتھ ساتھ ہم سے بھی راضی ہوجا اپنے فضل و احسان سے اے ارحم الراحمین ۔

   فضیلۃ الشیخ پروفیسر ڈاکٹر علی بن عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ: آپ ان دنوں مسجد نبوی کے امام ، قبل ازیں مسجد قباء کے امام تھے ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوبصورت آواز میں بہترین لہجے میں قرات قرآن کی وجہ سے دنیا بھر میں آپ کے محبین موجود ہیں ، اللہ تعالیٰ تادیر آپ کی دینی خدمات کا سلسلہ جاری رکھے ۔آمین