پہلا خطبہ :
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے ۔اے رب ہم تیری حمد بیان کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں تجھ ہی سے مغفرت طلب کرتے ہیں۔ تیری ہی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں اور تیری ہر طرح کی اچھی تعریف کرتے ہیں۔ اُس کی حکمت کے نور سے دل روشن ہوئےاور اُس کے ذکر سے منہ معطر ہوئے۔ اُسی ذات کا قصد کرو اور اُسی کی معرفت حاصل کرواور اُسے مضبوطی سے تھامے رہوتو تم ہدایت پالوگے اوراُس کی ہدایت اِسے چاہنے والوں کے لئے کافی ہے۔
میں گواہی دیتا ہوں کہ ایک اللہ کے سوا کوئی معبودِ حقیقی نہیں ،وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ،اُس نے علم اور امن وامان کو خیر و اطمنان کا ذریعہ بنایا ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روشن فضائل اور بہت سی خوبیوں والے اہلِ خانہ اور صحابہ کرام کے ذریعے اُن کی تائید فرمائی۔ اہلِ علم اور سرحدوں کے محافظوں کو عظیم مقام و مرتبہ کے ساتھ فائز کیا۔ اپنی شریعت کے ذریعے اُمت کو منتخب فرمایا،آپ ﷺ متقیوں کے امام اور باعمل علماء کےقدوہ ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا دورود و سلام نازل ہو اُن پر اور اُن کی نیک و پاکیزہ آل و اولاد پر اور اُن کےنیک و روشن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجعین پر اور جو قیامت تک اُن کی بہتر انداز میں پیروی کرے اُن پر۔
اما بعد!
اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ کا کما حقہ تقویٰ اختیار کرو ،اس لئے کہ وہ سب سے بہتروصیت ،مخلوقات کے پروردگار کی وصیت ارشادِ ربانی ہے:
وَلَقَدْ وَصَّيْنَا الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَإِيَّاكُمْ أَنِ اتَّقُوا اللَّهَ
النساء – 131
اور واقعی ہم نے ان لوگوں کو جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے تھے اور تم کو بھی یہی حکم کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو ۔
اور فرمایا:
وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
البقرۃ – 282
اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
وہ ایام کتنے ہی شاندار ہیں جنہیں تقویٰ زینت بخشےاور سب ہی کی کوششوں کا انجام قابلِ تعریف ہو۔اس لئے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بُلند تقویٰ کے ذریعے ہی نفوس رب کی قربت تلاش کرتے ہوئے بُلندیوں تک پہنچتے ہیں۔
مسلمانو! اہلِ عقل و خرد کےلئے یہ بات مخفی نہیں ہوگی کہ ہماری روشن شریعت دنیا و آخرت کے معاملات میں بندوں کے مفادات کو سموئے ہوئے ہے۔ شریعت سازی کا عام مقصد اُمت کے نظام کی حفاظت کرنا اور معاشرے کے نگراں یعنی انسان کی دُرستگی کو برقرار رکھ کر معاشرے کی دُرستگی کو برقراررکھنا ہے۔یہاں دوعظیم صنف اور دوعظیم گروہ ہیں،وہ دونوں معاشرے کی سلامتی کا باندھ اوراُس کی سلامتی کا حصار ہیں۔علماء جو شریعت کے نگراں ہیں اور فوجی محافظ جو سرحدوں کے نگراں ہیں۔ علماء اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں جن میں انسان کی دُرستگی اورعقل و عمل کی دُرستگی اوراُس کے عالم کی تمام چیزوں کی دُرستگی شامل ہے جو اُس کے سامنے ہے۔ یہ چیز صرف شریعت کے معیارکے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے نہ کہ نفوس کی خواہشات کے ذریعے ۔ اور اِس معیار پر منفرد عقلوں اور اجتہادی صلاحیتوں کے مالک مخلص اہلِ علم اور ربانی علماء ہی قائم رہ سکتے ہیں۔جو اُصول و قواعد میں پختگی رکھتے ہیں اور معاملات کو دینِ حنیف کے ترازو پر تولتے ہیں۔
تو علماء ہی مخلوقات کے پیشوا ،اسلام کے محافظ ،دین کے نگراں اور بدعت و تحریف سے اُس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔وہی لوگ اللہ تعالیٰ کے ایسے اولیاء ہیں جنہیں دیکھنے سے اللہ کی یاد آتی ہے۔تو وہ اُمت کو گمراہی سےبچانے والے ہیں،وہ نوح کی کشتی ہیں تو جو اُس سے پیچھے رہ گیا خاص کر اِس زمانے میں وہ ڈوبنے والوں میں سے ہوگا۔تو اُمت میں اُن کی موجودگی امن کی ڈاٹ ہے۔لیکن بعض لوگ اُن کے مرتبے کو نظر انداز کرتے ہوئے اُن کی کمیاں نکالتے ہیں اوراُن پر طعنہ زنی اور اُن کی عیب جوئی میں لگے ہوئے ہیں۔تو جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا ہے: لوگوں پر اُن کا اثر کتنا اچھا ہےاور لوگوں کا اُن پر اثر کتنا گھناؤنا ہے۔ بعض اہلِ علم یااُن میں سے کسی ایک کی موت اسلام میں ایسا خلا ہے کہ جس قد رات و دن کا سلسلہ گزرتا ہےجسےکوئی چیز بھر نہیں سکتی ۔
مؤ من بھائیو! نفس کے لئے سب سے قیمتی چیز کھونا اوراُمت کے لئے سب سے زیادہ دکھ اور صدمے کا نقصان ربانی علماء اور مصلح علماء کا کھونا ہے۔کیونکہ وہ انبیاء کے وارث اور رسولوں کے جانشین اور میراثِ نبوت کے امین ہیں۔ وہ لوگوں کے لئے روشن سورج ،چمک دار ستارے اور اُمت کے لئے تاریکی میں چراغ اور ہدایت کے نور ہیں۔اُنہیں کے ذریعے دین کو محفوظ رکھا گیا ہےاور دین کے ذریعے وہ محفوظ رکھے گئے۔اُنہیں کے ذریعے ملت کے مناروں کو بُلند کیا گیا اور اِن کے ذریعے وہ بُلند کئے گئے۔ ارشادِ ربانی ہے :
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ ۚ
المجادلة – 11
اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان ﻻئے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا۔
امام احمد کے ایک حدیث صحیح سند سے وارد ہے: انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: علما ء کی مثال ستاروں کی طرح ہے ، خشکی اور تاریکی میں اُن کے ذریعے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے ۔ جب یہ ستارے بجھ جائیں گے تو جلد ہی رہنمائی کرنے والے بھٹک جائیں گے۔ اور اُس آفت کی ہولناکی اور اُس مصیبت کی سنگینی کو بیان کرنے میں ہمارے لئے امام الانبیاء ﷺ کا یہ قول کافی ہے: اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھینتے ہوئے نہیں اُٹھائے گابلکہ وہ علماء کو اُٹھا کرعلم کو اُٹھا لےگا۔یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کونہیں چھوڑے گا تولوگ جاہلوں کو اپنا سربراہ بنا لیں گے۔اُن سے سوال کئے جائیں گےتو وہ علم کے بغیر فتوے دیں گے ، اس طرح وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کوبھی گمراہ کریں گے ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : علم کو لازم پکڑو قبل اِ س کے کہ اُسے اُٹھا لیا جائے۔ اور اُس کا اُٹھا لیا جانا اُس کے اہل کا چلا جانا ہے۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ اُنہوں نے کہا : جب کسی عالم کی موت ہوجاتی ہےتو اسلام میں ایک سوراخ ہوجاتا ہےاوراُس سوراخ کو اُس کا کوئی جانشین ہی پر کرپاتاہے۔تیری زندگی کی قسم مال کو کھونا ،گھوڑے اور اونٹ کامرنا مصیبت نہیں ہےلیکن اصل مصیبت تو اُس عالم کی موت ہےجس کی موت سے بہت مخلوق مرجاتی ہے۔ تو عالم کی موت ایک شخص کی موت نہیں بلکہ ایک قوم کی عمارت منہدم ہوجاتی ہے۔
حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: عالم کی موت اسلام میں ایسا سوراخ ہے،جس قدر بھی رات و دن گزر جائیں اُسے کوئی پر نہیں کرسکتا ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے پوچھا گیا : قیامت اور لوگوں کی ہلاکت کی نشانی کیا ہے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ : جب اُن کے علماء ختم ہوجائیں۔جب زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: جو یہ چاہتا ہےکہ علم کے ختم ہونے کو دیکھےتو دیکھ لے کہ علم اِس طرح ختم ہوتا ہے۔
حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا: عالم کی موت اسلام میں ایسا سوراخ ہے،جس قدر بھی رات و دن گزر جائیں اُسے کوئی پر نہیں کرسکتا ۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے پوچھا گیا : قیامت اور لوگوں کی ہلاکت کی نشانی کیا ہے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ : جب اُن کے علماء ختم ہوجائیں۔جب زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی وفات ہوگئی تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: جو یہ چاہتا ہےکہ علم کے ختم ہونے کو دیکھےتو دیکھ لے کہ علم اِس طرح ختم ہوتا ہے۔
جب کوئی علم و تقویٰ والا فوت ہوجاتا ہےتو اسلام میں ایک قسم کا شگاف پڑ جاتا ہے۔ ایسے عابد کی موت جو رات میں اپنے رب سے سرگوشی کرتے ہوئے بہت زیادہ قیام کرتاہو ایک خسارہ اور مصیبت ہے۔پسندیدہ صالح کی موت ایک خسارہ ہے۔اُس کےدیدار میں اسلام کی زندگی ہے۔اس زمانے کی عظیم مصیبتوں میں سے علما کا پتوں کی طرح گرنا اوراُمت کے بُلند علمی و عدالتی شخصیات کا وفات پانا ہے۔مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ اُن کے عظیم مرتبے کی معرفت حاصل کریں،اُن سے فائدہ اُٹھائیں ،اُن کا ذکر ِ جمیل کریں،اُن کی زندگی میں اور اُن کے مرنے کے بعد بھی اُن کے لئے دُعائیں کریں۔
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اُس کےقضاء و قدر پر ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اُن کے کھونے پر اللہ تعالیٰ ہمیں اجر سے نوازے ،اُن کے کھونے پر اُمت کو عظیم جانشیں عطاکر کے بہترین بدل سے نوازے ۔ نااُمیدی کی کوئی بات نہیں ہے ۔اِ س لئے کہ قیامت کے دن تک اِس اُمت میں خیر رہنے والا ہے۔جب ہم میں سے کسے کے سردار کی موت ہوتی ہےتو کوئی دوسرا سردار کھڑا ہوجاتا ہے۔جو معزز لوگوں کی باتیں کہنے اور کرنے والا ہوتا ہے۔
مؤمنو! ایمان و عمل دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اِن دونوں کے محافظ ہم مثل ہیں۔اِن دونوں کی جڑیں پائیدار ہیں اور اُن کی شاخیں آسمان میں ہیں ۔وہ شریعت کے نگراں اور دین کے محافظ ہیں ۔اُن دونوں کے بغیر کوئی زندگی نہیں ہے۔جب تک سینوں میں دھڑکن ہےلوگوں میں سے کوئی بھی اُن دونوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ جب سے اِس روشن شریعت کو سورج طلوع ہوااُس وقت سے اُس نے کائنات کو وسیع امن اور محبت بھرے احساس کا سایہ عطا کیا۔
مؤمنو! ایمان و عمل دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اِن دونوں کے محافظ ہم مثل ہیں۔اِن دونوں کی جڑیں پائیدار ہیں اور اُن کی شاخیں آسمان میں ہیں ۔وہ شریعت کے نگراں اور دین کے محافظ ہیں۔اُن دونوں کے بغیر کوئی زندگی نہیں ہے ۔جب تک سینوں میں دھڑکن ہےلوگوں میں سے کوئی بھی اُن دونوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔تو سرحد پر پہرہ دینے والوں کو مبارکباد اوراُن کے لئے کتنی اچھی خوشخبری ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ نے فرماتے ہوئے سنا : دو طرح کی آنکھیں ایسی ہیں جنہیں جھنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ ایک وہ آنکھ جو اللہ کے ڈر سے روئےاور دوسری وہ آنکھ جو رات بھر اللہ کی راہ میں پہرہ دے۔ صحیح بخاری میں سہل بن السعدالسعیدی کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے راستے میں ایک دن کا پہرہ دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔جنت میں کسی کے لئے کوڑے جتنی جگہ دنیا ومافیہا سےبڑھ کر ہے۔نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک دن اورایک رات سرحد پر پہرہ دینا ایک ماہ کے روزے اور قیام سے بہتر ہے۔ اور اگر پہرہ دینے والا فوت ہوگیاتو اُس کا وہ عمل جو وہ کررہا تھا آئیندہ بھی جاری رہے گا۔
میت کا عمل ختم ہوجاتا ہے۔سوائے اللہ کے راستے میں سرحد پر تعینات شخص کے ۔ اللہ تعالیٰ اُس کے عمل کو قیامت کے دن تک بڑھا تا رہتا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ہر میت کے عمل کاسلسلہ بند کردیا جاتاہے۔سوائے اُس شخص کے جو اللہ کے راستے میں پہرہ دیتے ہوئے مرے تو اُس کا عمل قیامت کےدن تک بڑھایاجاتا رہے گا اور وہ قبرکے فتنے سے محفوظ و مامون رہے گا۔سنن الترمذی،حدیث حسن صحیح
امام قر طبی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ان دونوں حدیثوں میں اس بات کی دلیل ہے کہ سرحد کی نگرانی اُن اعمال میں سے سب سے افضل ہے جس کا ثواب مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے اس لئے کہ صدقہ جاریہ وہ علم ہے کہ جس سے فائدہ اُٹھا یا جائےاور نیک اولاد جواپنے والدین کے لئے دُعائیں کرے۔ اِن تمام کا ثواب صدقے کے ختم ہونے ،علم کے چلے جانے اوراولاد کے مرنے کے بعدختم ہوجاتا ہے۔ لیکن سرح کی نگرانی کا ثواب قیامت کےدن تک بڑھایا جاتاہے۔اس لئے کے بڑھنے کا کوئی معنیٰ نہیں ہے سوائے اِس کے کہ اِسے دوگنا کیا جائے۔اور یہ کسی سبب پر موقوف نہیں ہے کہ اُس کے ختم ہونے پر ختم ہوجائے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا دائمی فضل ہے جوقیامت کے دن تک جاری رہے گا۔اور یہ اس لئے کہ تمام نیک اعمال تبھی انجام دئے جاسکتے ہیں جب دشمن سے حفاظت اور امان حاصل ہو۔اللہ اکبر
سرحد کی نگرانی کرنے والوں کی شان کس قدر بُلند ہے۔صحیح خبر نے اُن کے ذکر کو پست اور بلند جگہوں پر پھیلایا۔ وہ ہمارے لشکر ہیں۔جب سرحدوں پر دشمنوں کے کرخت چہروں کو دیکھتے ہیں تو وہ بزدل نہیں ہوتے۔تو سرحدوں کے محافظ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں پہرہ دینے والے کس مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔اور کتنا وہ عظیم فضل ہے جو اِن سب کا انتظار کررہا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمہ رحمہ اللہ نے علماء کی ایک جماعت سے نقل کیا ہے کہ اللہ کے راستے میں تعینات رہ کر نگرانی کرنا،حرمین شریفین اور تمام مساجد میں اعتکاف کرنے سے بھی افضل ہے۔ہمارے پاس پیارے نبی کریم ﷺ کی سچی اور صحیح بات پہنچی ہے۔عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے حرمین کے مقیم فُضیل بن عیاض کو یہ اشعار لکھے، جب فُضیل نے اِ ن اشعار کو پڑھا تو اُن کی آنکھیں بہنے لگیں اوراُنہوں نے کہا: ابو عبدالرحمٰن نے سچ کہا۔اس طرح اہلِ علم ہوا کرتے تھے۔وہ مسلمانوں کے ممالک کی سرحدوں پرنگرانی کے حریص ہوتےاورایک دوسرے کو اس پر اُبھارتے،اس لئے کہ اس کا عظیم اجر اور بڑا ثواب ہے ۔ مقدس مقامات جانو،اُن کی حفاظت اور ملکوں کے استحکام میں اس کا زبردست اثر ہے۔ہم اپنے جوانوں ،بہادر سیکیورٹی اہل کاروں اور سرحدوں کے مضبوط پہرے داروں،ہتھیاروں سے لیس نگرانی کرنے والوں،سرحدوں پر تعینات فوجیوں اور ٹھکانوں کی حفاظت کرنے والوں پر حد درجہ فخر کرتے ہیں۔اور ممبرِ مسجدِ حرام سے اُن کی شاندار بہادری اور کامیابیوں سے پر دفتر پر خوشبو دار معطر مہکتی ہوئی مبارکباد اورنیک خواہشات پیش کرتے ہیں۔یہ تعظیم و احترام اور خصوصی تعریف و فخر کی مبارکبادی ہے۔تم راتوں میں جگے رہے تب ہی ہم سو پائے،تم نے دفاع کیا تب ہی ہم امن سے رہے۔بہادری اور شجاعت کے ساتھ تم نے میدانوں میں مقابلہ کیاتو ہمارے لئے تمہارے اوپر آنسو بہا کر دُعا کرنا واجب ہوگیا۔
اے بُلندی والے ! تم اسی طرح قوت کے ساتھ بہادر بن کر بُلند رہوورنہ نہیں۔ یہ ایسا شرف ہے جو عظمت میں ستاروں سے بھی آگے بڑھا ہواہے ۔اور ایسی عزت ہے جو پہاڑوں کو بھی بدل دیتی ہے۔تواے بہادر فوجی تمہیں فتح نصیب ہو۔اور ہمیشہ حاضر و مستقبل میں کامیاب ہو۔ ہمارے بہادر جو ہر مجلس کی گفتگو ہیں۔وہ اپنے ملک کے ساتھ بخل نہیں کرتے ،جنگ کی تلخی پر اُنہوں نے صبر کیا تو وہ میٹھے پیالوں میں شیریں آرزؤ ں سے ہمکنار ہوئے۔اور جن لوگوں کو مصیبتیں لگی ہیں اُن کے لئے ان شاء اللہ شفایابی اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گی۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٤٥﴾ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ ۖ وَاصْبِرُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ
الانفال – 45/46
اے ایمان والو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ توثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تاکہ تمہیں کامیابی حاصل ہو۔ اور اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرتے رہو، آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر و سہارا رکھو، یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی مدد قریب ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں اورآپ کو کتاب و سنت میں برکت عطا فرمائے،اُس میں جو واضح آیتیں اور حکمتیں اور ہیں اُن سے ہمیں فائدہ پہنچائے۔اورا ُن کے ذریعے ہمیں بُلندی عطا فرمائے۔
میں اپنی یہ باتیں کہتا ہوں اورا پنے لئے ،آپ کے لئے اور تمام مسلمانوں کےلئے ہر طرح کے گناہ سے مغفرت طلب کرتاہوں تو تم بھی اُسی سے مغفرت طلب کرو اوراُسی کی بارگاہ میں توبہ کرو۔یقیناً میرا رب معاف کرنے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ :
ہر طرح کی تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ ایسی حمد جو اُس کے چہرے کے جلال اوراس کی بادشاہت کی عظمت کے لائق ہو۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبودِ حقیقی نہیں ،وہ اکیلا ہے اُس کا کوئی شریک و ساجھی نہیں ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔وہ سب سے بہتر ہیں جنہوں نے حق و ہدایت کی طرف رہنمائی کی ۔ اللہ تعالیٰ کا درود و سلام اور برکتیں نازل ہوں آپ ﷺ پر ،آپ کی آل و اولاد اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر،تابعین پر اور قیامت تک جو حق کے ساتھ اُن کی پیروی کرے اُن پر۔
اما بعد!
اے اللہ کے بندو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو اور اُس کا شکر بجا لاؤ، اس لئے کہ جس نے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا تو وہ اُس محفوظ رکھتا ہے اور جو اُس کا شکر بجا لاتا ہے تو جو اُسے عطا کیا اور نوازا ہے اُس میں اضافہ فرماتا ہے۔
مؤمنو! ہمارے اوپر عظیم نعمتوں اور انوازشوں میں سے ایک امن و امان کی نعمت ہےاور یہ سب سے عظیم نعمتوں میں سے ہے جو امن و امان کی نعمت ہمارے اوپر ہے۔اللہ کے فضل سے ہمارا ملک بے پایا امن اور حد درجہ امان میں ہے۔یہ ملک اللہ تعالیٰ کی حفاظت کی وجہ سے محفوظ ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے دشمنوں سے مأمون و محفوظ ہے۔یہ ملک پہلے اللہ کے فضل سے پھر اپنے مضبوط فوجیوں اور بہادر لشکروں بری،بحری اور فضائی شاہینوں ،مسلح افواج اور تمام عسکری شعبوں میں موجود جوانوں اور ایسے مشترکہ و متحدہ فورسزکے میزائیلوں کا مقابل کرنے اور اُنہیں تباہ کرنے ،ملک و شہروں کا دفاع کرنے ،مقدسات کی حفاظت کرنے ،فائدوں صلاحیتوں اور شہری سہولیات کی حفاظت کرنے کے لئے قولی وعملی طورپر اعلیٰ صلاحیت ،مثالی تیاری،گھات میں لگے رہنے اور بیدار رہنے کو کردکھایا ہے۔تاکہ مشترک سیکیورٹی آپریشن کو یقینی بناتےہوئے علاقے کے خلاف دہشتگردوں کی جارہیت و زیادتی اور اُن کے جرائم کو روکا جائے اور ملکی و بین الاقوامی سطح پر منڈلارہے خطرات کو دور کیا جائے۔
کامیابیوں کی خوشخبریاں ظاہر ہونے لگی ہیں تاکہ امن و امان کو یقینی بنایا جاسکےاور ظالموں کے ظلم اور دہشتگردوں کی دہشتگردی پر بندھ باندھا جاسکےاور خطے میں امن و استحکام قائم کیا جاسکےاور علاقائی اور بین الاقوامی خطرات کا مردانہ وار مقابلہ کر کےاُن کو ختم کیا جائے اور کل اللہ کے حکم سے ان شاء اللہ فتح کی خوشخبری چمکنے لگے گی اور فتح کی خوشخبریاں آنے لگیں گی۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ﴿٤﴾ بِنَصْرِ اللَّهِ ۚ يَنصُرُ مَن يَشَاءُ ۖ وَهُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ ﴿٥﴾ وَعْدَ اللَّهِ ۖ لَا يُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
الروم – 4/5/6
اس روز مسلمان شادمان ہوں گے۔اللہ کی مدد سے، وه جس کی چاہتا ہے مدد کرتا ہے۔ اصل غالب اور مہربان وہی ہے۔اللہ کا وعده ہے، اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
اللہ کے بندو! اب تک احتیاطی اقدامات اور بچاؤ کی تدابیر اور صحت کی ضروریات اختیار کرنے کے سلسلے میں لگتار یاد دہانی کی جارہی ہے۔ایسا آپ کی صحت کا خصوصی خیال رکھنے ،آپ کے خاندان ،بال بچوں کی سلامتی کے لئے کیا جارہا ہے۔یہ حرمین شریفین میں بھی اور دیگر علاقوں میں بھی کیا جارہا ہے خاص طور پر کرونا وبا اور اُس کے جدید ویرئنٹس کے پھیلاؤ کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔ یہ صورتِ حال متنبہ رہنے اور احتیاطی اقدامات کو نافذ کرنے میں سنجیدہ ہونے کا مطالبہ کررہی ہے،خاص طور پر جسمانی دوری اختیار کرنے ،ماسک پہننے ،ایک جگہ زیادہ افراد کے جمع ہونے ، ویکسین کی بوسٹر ڈوز لگوانے کی کوشش کرنے کی۔ اس لئے کہ ہماری ایمیونٹی ہماری زندگی ہے۔بطورِ خاص اِس صورتِ حال میں جبکہ اسکولوں میں مکمل حاضری اور تعلیم کا آغاز ہونے جارہا ہے۔جو کہ نفسیاتی طور پر تیار ہونے اور پر امن اور صحت مند ماحول تیار کرنے کا مطالبہ کررہا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک بلادِ حرمین شریفین کی اور تمام مسلم ممالک کی ہر برائی اور مصیبت سے حفاظت فرمائے اور ہر طرح کی بہتان تراشی اور افواہوں سے محفوظ رکھے۔
درود و سلام بھیجو نبی مصطفٰی احمد ِ مجتبیٰ پر ،جس کا اللہ تعالیٰ نے تمہیں معزز حکم دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
الاحزاب – 56
اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔
ہماری طرف سے نبی کریم ﷺ اور اُن کے اہلِ خانہ پر درودو سلام ہو ۔لاتعدا د و بے شمار کہ اگر گنا جائے تو ختم نہ ہوں۔جس کے سبب ہمارے مالک و خالق کے نزدیک ہمارے درجات بلند ہوتے ہیں جہ کہ نجات ہے اور پیشانی پر تمغہ ہے ۔
اے اللہ تو اپنی رحمتیں اپنی برکتیں سید المرسلین،امام المتقین خاتم النبین ،اپنے بندے اور رسول ﷺ پر نازل فرما جو خیر کے امام اور خیر کے قائد ہیں رسول ِ رحمت ہیں ۔ اے اللہ ! انہیں مقام ِ محمود سے نواز جسے سے اگلے اور پچھلے اُن پر رشک کریں اور اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں ۔یاکریم یا وہاب۔
اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔
اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔
اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔
اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔
اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔
اے اللہ ! تو اپنے اولیاء کی مدد کر، مصیبت زدہ لوگوں کی مصیبت کو دور کر،مقروضوں کے قرضوں کو دور کر،بیماروں کی بیماری کو دور کر،مسلمانوں کے بیماروں کو شفاءِ کاملہ عطا کردے ۔
اے اللہ ! جنہیں ہم کھو چکے ، اپنے سربراہانِ مملکت میں سے ،علماء میں سے ،رشتے داروں میں سے اُن تمام کی مغفرت فرمادے ،اُن کو معاف فرمادے،اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما۔
اے اللہ ! گناہوں سے اُنہیں ایسے پاک کردے جیسے سفید کپڑا کسی گندگی اور میل کچیل سے پاک کیا جاتا ہے ۔
اےاللہ ! علماء میں سے جو زندہ ہیں اُنہیں تو اپنے دین پر قائم رکھ اوراُن کی برکات کو اوراُن کے فیض کو عام کردے ۔
اےاللہ ! ہمارے شہیدوں کو قبول فرما۔
اے اللہ ! اُن کے مریضو ں کو شفا یابی عطا فرما۔
اے اللہ ! اُنہیں صحیح سالم اور فتح یاب فرما۔اے جلال و اکرام والے۔
اے اللہ ! مہنگائی کو ،وبا کو ،سُود کو ،زنا کو،زلزلے کو ،اِن تمام کو ہم سے دور فرما اور ہمیں اِن سے محفوظ فرما۔
اےاللہ ! وباؤں سے ہمیں محفوظ کردے اور اُنہیں ہم سے دور کردے۔
اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔تو تم اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرو اور وہ تمہارا ذکر کرے گا۔اورتم اُس کی تعمتوں پر شکر کرو تو وہ تم کو زیادہ دے گا۔ اور یاد رکھو! جو کچھ تم کرتے ہو اُس سے اللہ تعالیٰ خوب آگاہ ہے۔
خطبة الجمعة مسجد النبوی ﷺ : فضیلة الشیخ صلاح البدیر حفظه اللہ
بتاریخ 18جمادی الثانی 1443 ھ مطابق 22 جنوری 2022