سوشل میڈیا انفلوئنسر اور ان کی ذمہ داریاں
خطبہ اول:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہ احسان کرنے والا، کائنات کو ایک نظام اور پختگی کے ساتھ پیدا کرنے والا ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، جو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے، جن کے ذریعے اللہ سیدھے راستے اور واضح شریعت کی ہدایت دیتا ہے۔ میرے رب کی رحمتیں اور سلامتی ہو آپ پر اتنا جتنا قلم لکھے اور میزان تولے اور جتنی بار صبح نمودار ہو اور دنیا کو منور کرے۔
اما بعد:
میں آپ کو اور خود کو اللہ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہی مومن کے دین کا زادِ راہ اور اپنے رب سے ملاقات کے وقت اس کا ذخیرہ ہے۔ جس نے اسے تھام لیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اس سے روگردانی کی وہ ناکام اور نامراد ہوا۔
تقویٰ ثابت قدمی کا معیار ہے اور یہ ایسا قلعہ ہے جو فکر کو انحراف سے، نفس کو اضطراب سے اور معاشرے کو انتشار سے بچاتا ہے۔
اس تیز رفتار ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی بکثرت تعداد پائی جاتی ہے اور ذرائع کی بھرمار ہے۔ ایک آواز چند لمحوں میں سنی جاتی ہے اور اس کی گونج ہزاروں بلکہ لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے۔
اور ایسے چہرے اور شخصیات سامنے آئے ہیں جن کا اپنے ذاتی چینلز اور تکنیکی صلاحیتوں کے ذریعے اثر و رسوخ ہے، انہیں کئی وجوہات کی بنا پر قبولیت ملی ہوئی ہے، جیسے پیشکش میں خلوص، بات میں حکمت، لوگوں کو فائدہ پہنچانا، دین کی اقدار اور وطن کے تحفظ کی سچی نمائندگی، یا ایسی روح جو عمل اور امید پر ابھارے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہیں آج “انفلوئنسر” اور اپنے معاشروں کی مشہور شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔
قوتِ تاثیر صرف اس شخص میں محدود نہیں جو کوئی خطاب یا ڈگری رکھتا ہو۔ بلکہ حقیقتاً قوتِ تاثیر ہر اس شخص میں پائی جاتی ہے جس کی لوگ پیروی کرتے ہیں، اس کو سنتے ہیں اور اس کی بات، رویے، خیال یہاں تک کہ اس کے زندگی گزارنے کے طریقے سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔
انفلوئنسر کا اس مقام پر پہنچ جانا ایک نعمت ہے اور بعض نعمتوں کی عظمت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب انہیں ذمہ داری کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس نعمت کی خوبصورتی یہ ہے کہ اسے ایک امانت سمجھا جائے اور اس کی مذہبی، اخلاقی اور قومی ذمہ داریوں کا خیال رکھا جائے۔
اثر انگیزی صرف شہرت کا نام نہیں بلکہ یہ ایک خفیہ ذمہ داری ہے جسے پیروکاروں (فالوورز) کی تعداد سے نہیں بلکہ مفید اثر کی گہرائی سے ناپا جاتا ہے۔ سچا مومن جانتا ہے کہ سچا اثر وہی ہے جو اصلاح کرے نہ کہ بگاڑے، اور جو متحد کرے نہ کہ بانٹے۔ اور کتنی ہی خوبصورت بات ہے کہ ایک موثر شخصیت کو اس بات کا ادراک ہو کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اس کی میزانِ اعمال میں رکھی جانے والی بھاری ترین چیزوں میں سے ہو سکتا ہے، جب اس کی نیت ہو کہ وہ لوگوں کو نفع پہنچائے، ان کی تکلیفیں کم کرے، ان میں امید کی کرن جگائے، انہیں ان کے رب سے جوڑے، انہیں ان کی ذات سے آگاہ کرے، ترقی کے لیے ان کے عزائم کو مہمیز دے، علم سے ان کی عقلوں کو منور کرے اور ایمان کی روشنی سے ان کے دلوں کو بیدار کرے۔
کتنے ہی سچے کلمات نے مردہ دل کو زندگی بخشی، کتنے ہی اخلاقی پہلوؤں نے بگڑے گھروں کو درست کیا اور کتنے ہی خیر کے اقدامات نے قوم کو بلند کیا اور وطن عزیز میں تعاون کی روح پھونکی۔ جب موثر شخص کو علم ہو جائے کہ اس کی کہی بات کسی کی زندگی کا دھارا بدل سکتی ہے یا اس کی روزمرہ کی ایک عام ویڈیو کلپ کسی کے رویے کو نئی شکل دے سکتی ہے یا اس کا ایک بے ساختہ تبصرہ اس کے فالوور کے دل میں ایک فیصلہ بن سکتا ہے تو اس کا شعور اور سچائی اسے اپنے ہر مواد پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر دے گی اور وہ ہر شائع کردہ چیز کا جائزہ لے گا اور ہر لمحہ اپنے آپ سے پوچھے گا: “کیا جو کچھ میں پیش کر رہا ہوں اس میں قوم کی تعمیر ہے یا اس کی بربادی؟ اور کیا یہ وہ چیز ہے جس کے ساتھ میں اللہ سے ملنا پسند کروں گا؟” اور اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا اثر اسکرین تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے جانے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے، چاہے وہ چیز اس کے حق میں ہو یا اس کے خلاف۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ، وَإِنَّ العَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ، لاَ يُلْقِي لَهَا بَالًا، يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ1
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بند ہ اللہ کی رضامندی کے لئے ایک بات زبان سے نکالتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اسی کی وجہ سے اللہ اس کے درجے بلند کردیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایک ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی نارضگی کا باعث ہوتا ہے اسے وہ کوئی اہمیت نہیںدیتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔
کتنے ہی موثر لوگ ہیں، خواہ انہیں محسوس ہو یا نہ ہو، انہوں نے اپنی باتوں سے پہلے اپنے کردار سے تعمیر کی ہے۔ کتنے ایسے معمولی مناظر ہیں جنہوں نے ایک نوجوان کے دل میں ایسی روح کو زندہ کیا جو بجھنے کے قریب تھی۔ کتنی ہی عورتیں ہیں جنہوں نے ایک سچے پیج کو فالو کیا جس کی وجہ سے ان کے قدم استوار ہو گئے، گھر سنور گئے، شوہر کی حالت درست ہو گئی اور بیٹے مہذب بن گئے۔ اس طرح یہ اثر انگیزی زندگی کا ایک پیغام بن جاتی ہے جسے چمک دمک سے نہیں بلکہ لوگوں اور وطنوں میں ہونے والی بھلائی سے ناپا جاتا ہے۔
آج کا موثر شخص نفسوں کی تربیت میں شریک بن گیا ہے، لہذا اسے اس شراکت کے تقاضے پورے کرنے چاہئیں۔ وہ اقدار عام کرے، راستے روشن کرے، مفید کام کی ترغیب دے، دلوں میں تعمیر کی محبت، الفت کی روح اور وابستگی کا شریفانہ جذبہ پیدا کرے۔ اس کی بات چیت میں ایسی تاثیر ہونی چاہیے جو نیک انسان بنائے، ایسا نیک انسان جو زمین کو ایمان اور عمل سے آباد کرے۔
کچھ لوگ ہیں جنہوں نے اس پیغام کی ذمہ داری لی، جنہوں نے اپنی موجودگی کو زندگی کی کرن بنایا اور اپنے مواد کو ہدایت کا ذریعہ بنایا۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے لیے اللہ نے قبولیت لکھ دی ہے اور ان کا ذکر دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ پھر کیا ہی اچھا ہے جب انہیں لوگوں کی تعریف بھی ملے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَٰنُ وُدًّا2
بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے عنقریب ان کے لیے رحمان محبت پیدا کر دے گا۔
بے شک آج کے ہمارے صحافتی میدان میں ایک بابرکت طبقہ موجود ہے جس نے اپنے سوشل پلیٹ فارمز کو ایسا منبر بنا رکھا ہے جس سے دین، تربیت، اخلاقیات، صحت، قومی شناخت اور امن و سلامتی جیسے شعبوں میں بھلائی کا پیغام جاری ہے۔ ان کے مواد میں رحمت کی روح کار فرما ہے اور وہ ایک متوازن نسل کی تعمیر کی ذمہ داری محسوس کرتے ہیں جو اپنے دین، اپنی قوم اور اپنے وطن سے محبت رکھتی ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ3
اور بات کے اعتبار سے اس سے اچھا کون ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ بے شک میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فالوور بھی اثر انگیزی میں شریک ہے، کاش کہ اس ذمہ داری کا احساس انفلوئنسر سے لے کر فالوور تک پھیل جائے تاکہ وہ لوگوں کے سامنے ایسی شخصیات کو سپورٹ کرے جو اپنی قوم کی خدمت میں حصہ دار ہوں، ان کی پشت پناہی کرے جو اقدار کو عام کریں اور دلوں میں سنجیدہ کام اور بہترین قومیت کے مفاہیم کو زندہ کریں۔ اور ان آوازوں کو طاقت دے جو ذہنوں کو روشن کرتی ہوں نہ کہ دلوں میں پھوٹ ڈالتی ہوں، اور ان لوگوں کے اثر کو پھیلائے جو علم و ہدایت کی بات کرتے ہوں نہ کہ لوگوں کو تشویش و غفلت میں ڈالنے کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ دَلَّ عَلَى خَيْرٍ فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِهِ4
جس نے کسی بھلائی کی طرف رہنمائی کی اسے اس عمل کرنے والے کے برابر ثواب ملے گا۔
میں اپنی یہ بات کہتا ہوں اور اللہ سے اپنے اور آپ سب کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں، آپ بھی اس سے مغفرت طلب کریں، بے شک وہ بہت معاف کرنے والا، بڑا مہربان ہے۔
خطبہ ثانی:
تمام تعریف اللہ کے لیے ہے، وہ عظیم، بردبار اور وسیع فضل والا ہے۔ اس نے مخلوق کو علم، حکمت اور درست تقدیر کے ساتھ پیدا فرمایا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ بڑا قریب اور خوب جاننے والا ہے۔
اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے سردار اور نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ راہ ہدایت دکھانے والے اور حکمت والے ہیں۔ میرے رب کی رحمتیں اور سلامتی ہو آپ پر جتنی بار معزز دن میں سورج چمکے اور جتنی بار عظیم صبح طلوع ہو۔
اما بعد:
میں آپ کو اور خود کو اللہ کے تقوی کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہی تمام بھلائیوں کا جوہر ہے، جس نے اسے تھام لیا اللہ نے اسے بچا لیا، جس نے اس پر عمل کیا اللہ نے اسے بلند کیا، اور جس نے اسے زندگی کا طریقہ بنا لیا اللہ نے اس کی دنیا درست کر دی اور آخرت میں اسے عزت سے نوازا۔ تاثیر ایک امانت ہے اور جسے اللہ نے لوگوں کے بیچ مقبولیت کی نعمت سے نوازا ہے اسے چاہیے کہ اپنی موجودگی کو ایسا نور بنا دے جس سے رہنمائی لی جائے۔
آج امت کو سچے قدوہ و اسوہ کی شدید ضرورت ہے جو امید کے بیج بوئیں، اعتماد پروان چڑھائیں، اور لوگوں میں کام اور عطا و نوازش کا جذبہ زندہ کریں۔ یقینا ذمہ داری سب میں مشترکہ ہے اور دین کے ساتھ حسن وفا اور خود کے ساتھ امانت داری یہ ہے کہ ہم سب اس چیز کو پھیلانے میں حصہ لیں جو ہدایت پر مددگار ہو، اطاعت کے قریب کرے اور اقدار کو زندہ کرے۔
ہر سچی بات، ہر مفید عمل اور ہر درست رویہ اسلام کو پھیلانے، امت کی حفاظت کرنے اور ایک مومن، مضبوط اور متحد وطن کے اندر نیک نسل کی تعمیر میں ایک اینٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ خوشخبری ہے ہر سچے موثر شخص کے لیے، ہر ہدایت یافتہ فالوور کے لیے، ہر ایسے لفظ کے لیے جس نے اصلاح کی اور ہر ایسے پلیٹ فارم کے لیے جس نے روشنی پھیلائی اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ سب سے بہتر اور پائیدار ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ5
اور کہہ دے تم عمل کرو، پس عنقریب اللہ تمھارا عمل دیکھے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے بھی اور عنقریب تم ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے، تو وہ تمھیں بتائے گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
اور درود بھیجو اس ذات پر جسے اللہ نے خیر کا روشن مینار اور ہدایت و نور کا مطلع بنایا، اتنی بار جتنا ذکر کرنے والوں نے ذکر کیا اور غافل لوگ اس کی محبت سے غافل رہے۔ محمد بن عبداللہ پر، جو بھیجی گئی رحمت اور عطا کی گئی نعمت ہیں، ان پر بہترین اور مکمل سلام ہو۔
اے اللہ! تو راضی ہوجا چاروں خلفائے راشدین سے: ابوبکر، عمر، عثمان اور علی سے، اور اہل بیت اور صحابہ کرام سے، اور ان کے ساتھ ہم سے بھی اپنے عفو و کرم اور اپنے احسان سے، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے! اے اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما، مسلمانوں کے حالات درست کر دے اور انہیں حق اور ہدایت پر اکٹھا کر دے، انہیں ان کے دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھ اور ان سے ظاہر و باطن ہر طرح کے فتنوں کو دور کر دے۔
اے اللہ! پریشان حال مسلمانوں کی پریشانی دور فرما، غمزدہ لوگوں کے غم کو آسان کر، قرضداروں کا قرض ادا فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے مریضوں کو شفا عطا فرما، ہمارے اور مسلمانوں کے فوت شدگان پر رحم فرما۔
اے اللہ! ہر جگہ کمزوروں کی نصرت فرما، ان کے خوف کو امن میں بدل دے، ان کے خون کی حفاظت فرما اور ان سے ظالموں کی چال کو ٹال دے۔
اے اللہ! ہم تجھ سے جلد اور دیر سے آنے والی، معلوم اور نامعلوم تمام بھلائی مانگتے ہیں اور ہم تیری پناہ چاہتے ہیں جلد اور دیر سے آنے والی، معلوم اور نامعلوم تمام برائیوں سے۔ اے اللہ! ہم تیری پناہ مانگتے ہیں تیری نعمتوں کے ختم ہو جانے سے، تیری عافیت کے پھر جانے سے، تیرے عذاب کے اچانک نازل ہونے سے، اور تیرے ہر قسم کے غضب سے۔
اے اللہ! ہمارے سربراہ خادم حرمین شریفین کو اس کام کی توفیق عطا فرما جو تجھے پسند ہے اور جس سے تو راضی ہو، انہیں تیری ہدایت کی توفیق دے اور ان کے عمل کو اپنی رضا کے مطابق کر دے، اور ان کے ولی عہد کو ہر بھلائی کی توفیق عطا فرما،
اے رب العالمین! اس وطن کو امن و سکون کے ساتھ محفوظ رکھ، اس پر سکینت سایہ فگن ہو، اس میں بھائی چارے کی برکت عطا فرما، اس کے باشندے کلمہ توحید، نیک عمل اور خالص نیت پر متحد رہیں اور تمام مسلم ممالک کی حفاظت فرما اور ان کی زمین و آسمان کو بھلائی، امن و امان سے معمور کر دے۔
اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ اور دشمنی نہ ڈال۔ اے ہمارے رب! بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔ بیشک اللہ انصاف، احسان اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ تو تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں یاد رکھے گا اور اس کی نعمتوں اور احسانات کا شکر ادا کرو وہ تم کو مزید عطا کرے گا اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔
خطبہ مسجد النبوی:
09 جمادی الاول 1447 ہجری / 31 اکتوبر 2025 عیسوی: تاریخ
خطیب: فضیلۃ الشیخ عبدالباری الثبیتی حفظہ اللہ
آخر نبی کریم ﷺ نے حدیث لکھنے سے کیوں روکا تھا؟ کیا حدیث نہ لکھنے…
مارکیٹنگ کی شرعی اہمیت کیا ہے؟ مارکیٹنگ میں کون سے شرعی اصولوں کا خیال ضروری…