رمضان المبارک چلا گیا ، سب کچھ چلا گیا

ماہِ رمضان تو گزر گیا لیکن کیا ہم ماہِ رمضان سے تقویٰ کی سند لے کر فارغ ہوئے؟ کیا ہم نے رمضان کو باقی مہینوں میں نمازوں کی پابندی  کا  قاعدہ و قانون  بنا لیا ہے؟ کیا ہم نے رمضان کو باقی مہینوں میں  خطاؤں اور گناہوں کو ترک کرنے کا نقطہِ آغاز بنا لیا ہے؟ ذرا اپنے آپ کو پرکھیئے کہ اس ماہِ مقدس کا ہمارے دلوں میں کتنا اثر باقی  ہے؟ رمضان المبارک کے بعد ہمارے حالات کیا ہیں؟

رمضان کے بعد لوگوں کی اقسام

مشاہدے میں زیادہ تر یہی آیا ہے کہ ماہِ رمضان گزرتے ہی لوگ تین گروہوں میں بٹ جاتے ہیں۔ ان تینوں گروہوں کی تفصیل درج ہے ۔

پہلی قسم : نیک اور اطاعت گزار لوگ

پہلا گروہ نیک اور فرمانبردار لوگ ہیں ۔ جب رمضان آیا تو انہوں نے نیک اعمال کے لیے اپنی کمر کس لیں ۔ رب کو راضی کرنے کے لیے اپنی کوششیں دوگنی کر دیں۔ انہوں نے ماہِ رمضان کو  رب العزت کی طرف سے غنیمت اور تحفہ سمجھا اور اپنی نیکیوں میں خوب اضافہ کیا ، رب کی رحمتوں کو خوب سمیٹا  اور اپنی خطاؤں ، نافرمانیوں اور کوتاہیوں کی خوب تلافی کی ۔ چنانچہ رمضان گزرتے ہی اللہ رب العزت  کے ہاں ان کے درجات بلند ہو گئے، جنت میں اعلی درجات کے مستحق بن گئے اور ان کی روحیں جہنم سے آزاد ہو گئیں۔

دوسری قسم: اللہ کی اطاعت سے غافل اور منحرف لوگ

جہاں تک دوسرے گروہ کا تعلق ہے تو یہ وہ لوگ ہیں جو رمضان سے پہلے ہی اطاعتِ الہی سے غافل اور منحرف تھے، جب رمضان آیا تو اطاعت و عبادت کرنے لگ گئے، روزے رکھے اور نمازیں ادا کیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کی ، صدقہ و خیرات دیے ، خوفِ الہی سے ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں اور دل پسیج گئے لیکن جوں ہی رمضان گزرا وہ اپنی غفلت اور گناہوں کی طرف لوٹ گئے۔ یعنی وہ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ آئے۔ ان لوگوں سے ہم یہی کہیں گے کہ جو  رمضان کی عبادت کیا کرتا تھا تو سمجھو   رمضان فوت ہو چکا اور جو رب العزت کی عبادت کرتا تھا  تو اللہ رب العزت زندہ ہے اسے کبھی موت نہیں آتی۔

اے اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کی طرف لوٹنے والو! ، اچھی طرح جان لو کہ جس رب العزت نے تمہیں رمضان میں عبادت کرنے کا حکم دیا ہے اسی خالقِ کائنات نے تم کو رمضان کے بعد بھی اپنی عبادت کا حکم دے رکھا ہے ۔ جب اللہ نے ماہِ رمضان المبارک میں تمہیں بد اعمالیوں اور برے کاموں سے پاک کر دیا تھا تو تم  پھر سے برے کاموں کی طرف کیسے لوٹ آئے؟ جب اللہ نے تمہارے نامہِ اعمال سے گناہوں اور نافرمانیوں کو مٹا دیا تھا تو تم دوبارہ ان گناہوں اور نافرمانیوں کی طرف کیوں پلٹ آئے ؟ کیا آپ جہنم سے آزاد ہونے کے بعد دوبارہ اس میں داخل ہونا چاہتے ہو ؟ کیا آپ اپنے نامہ اعمال کو پھر سے  سیاہ کرنا چاہتے ہو؟ اے با جماعت نماز کے عادی بننے والے مسلمانوں! منافقوں کی راہ  پر کیسے واپس آ گئے ہو؟ ماہِ رمضان میں اپنی زبان کو غیبت، چغلی اور جھوٹ سے پاک رکھنے والے مسلمانوں! اب بھی اسلام کی سیدھی راہ  پر چلتے رہیں اور نیک اعمال کی  جستجو میں کوشش کرتے رہیں۔ ماہِ رمضان میں اپنی آنکھوں کو حرام نظروں سے اجتناب کرنے والےمسلمانوں! جب تک زندگی باقی ہے ، اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ۔ اگرآپ نے یہ طریقہ اختیار کر لیا تو جب تک آپ زندہ رہیں گے اللہ آپ کے دل کو ایمان کی شیرینی عطا کرے گا۔

ماہِ رمضان میں اپنے کانوں کو حرام چیزوں جیسے غیبت، چغلی اور موسیقی و گانوں سے دور رکھنے والے مسلمانوں! ، اللہ سے ڈرو اور اس کی نافرمانی کا اعادہ نہ کرو۔ ماہِ رمضان میں اپنے پیٹ کو حلال چیزوں سے بچانے والے مسلمانوں! اب رمضان کے بعد پھر سے سود کھانے سے بچو! کیونکہ سود کھانے والا اللہ اور اسکے رسول سے اعلان جنگ کرتا ہے۔ کیا آپ اللہ تعالیٰ سے اعلان جنگ کر سکتے ہو؟اے روزہ دارو ، اے تہجد گزارو! خبردار!  اُس عورت کی طرح مت ہو جانا جس کے بارے میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے :

وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا

( سورۃ النحل :92)

ترجمہ :اور اس عورت کی طرح نہ ہونا جس نے بڑی محنت سے سوت کاتا پھر خود ہی اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا۔

اور یہ بات اچھی طرح یاد رکھو کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے :

إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ

(سورۃ الرعد: 11)

اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنے اوصاف خود نہ بدل دے۔

 لہٰذا اپنی حالت بدلو، اپنے گناہوں سے توبہ کرو اور اپنی طرف رجوع کرو۔ رب العزت کی قسم – آپ نہیں جانتے کہ آپ کب مریں گے، آپ نہیں جانتے کہ آپ اس دنیا سے کب چلے جائیں گے۔ لہٰذا آج سے ہی اپنی حالت بدلو، اپنے گناہوں سے توبہ کرو کیونکہ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے۔

تیسری قسم : کلی طور پر بےعمل لوگ

تیسرا گروہ وہ لوگ ہیں جو رمضان آنے سے پہلے بھی بد اعمالیوں اور نافرمانیوں کے دلدل میں پھنسے ہوئے تھے اور رمضان آ کر گزر گیا لیکن انکی حالت جوں کی توں رہی۔ کچھ  بھی نہیں بدلا۔ بلکہ ان کے گناہوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔ ان کے گناہ بڑھتے گئے اور ان کے نامہِ اعمال سیاہ ہوتے گئے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ایسے لوگوں کے لیے ہی یہ ارشاد فرمایا تھا :

ورَغِمَ أنفُ رجلٍ دخلَ علَيهِ رمضانُ ثمَّ انسلخَ قبلَ أن يُغفَرَ لَهُ

( صححه الألباني في صحيح الترمذي: 3545)

اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کی زندگی میں رمضان کا مہینہ آیا اور اس کی مغفرت ہوئے بغیر وہ مہینہ گزر گیا۔

یہی لوگ درحقیقت اصل خسارے میں ہیں! ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے رب کے حضور توبہ کریں اور اپنی باقی زندگی کی اصلاح کریں۔

امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

 إن الله جعل رمضان مِضماراً لخلقه؛ يتسابقون فيه بطاعته إلی مرضاته ، فسبق قوم ففازوا، وتخلف آخرون فخابوا، فالعجب من اللاعب الضاحك في اليوم الذي يفوز فيه المحسنون ويخسر المبطلون.

(لطائف المعارف لابن رجب ص: 210)

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے ماہِ رمضان کو اپنی مخلوق کے لیے ایک تربیت گاہ بنایا ہے۔ چنانچہ وہ اس میدان میں اللہ کی اطاعت اور رضا کی خاطر ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں، کچھ لوگ کارِ خیر میں آگے بڑھ گئے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے، جبکہ کچھ پیچھے رہ گئے اور نامراد ہو گئے۔ بروز قیامت تعجب تو ان لاپرواہی برتنے والوں پر ہے جس دن نیکی کرنے والے کامیاب و کامران ہوں گے اور باطل پرست ہار جائیں گے۔

قبولیتِ اعمال کی علامت

ہر چیز کی ایک نشانی ہوتی ہے اور نیکی کے قبول ہونے کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ نیکی کو جاری وساری رکھا جائے اور بندے کی حالت پہلے کی نسبت بہتر ہو۔ لہذا اپنے روزوں کی کیفیت چیک کر لیجیے کہ آپکا روزہ قبول ہے یا نہیں۔

ماہِ رمضان کے بعد کونسے کام پابندی سے کریں؟

اکثر لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ ماہِ رمضان میں گناہوں اور برے کاموں سے توبہ کر لیتے ہیں، فرض نمازوں کے ساتھ کثرت سے سنتوں اور نوافل کا اہتمام کرتے ہیں ، اپنی زبانوں کو ذکر و اذکار سے ہمیشہ تر رکھتے ہیں ، صدقہ و خیرات کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں لیکن ماہِ رمضان ختم ہوتے ہی یہ لوگ پھر سے گناہوں اور بدکاریوں کی طرف پلٹ آتے ہیں ۔ یہ طرزِ عمل اپنے نیک اعمال کو ضائع کرنا ہے جو انسان کی بد نصیبی کی علامت ہے ۔

پہلا کام : تقوی و پرہیزگاری میں اضافہ۔

جس طرح اللہ تعالیٰ کے خوف سے ہم رمضان میں ہر چھوٹے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے تھے اسی طرح جب تک ہماری سانسیں چل رہی ہیں ہمیں اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ

( آل عمران :102 )

اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو، جیسا اس سے ڈرنا چاہیے اور تمہاری موت آئے تو اسلام پر آئے۔

لہذا رمضان المبارک میں نمازوں کی پابندی ، توبہ و استغفار ، نماز ، ذکر و اذکار اور صدقہ و خیرات کے ذریعے جو پرہیزگاری اور تقوی ہمارے اندر پیدا ہوا ہے اس میں مزید اضافہ کریں۔

تقویٰ کو بڑھانے کے ذرائع

1۔ اللہ کی عبادت

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

(سورۃ البقرۃ:21)

اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور تم سے پہلے لوگوں کو بھی، تاکہ تم پرہیزگار بن سکو۔

2۔ فہمِ قرآنِ مجید

قرآنِ مجید کو سمجھ کر پڑھنا حصولِ تقوی کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ اللہ کی مضبوط رسی اور واضح نور ہے۔ جو اس کو مضبوطی سے پکڑے گا اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہو گا۔ اللہ اسے نجات دے گا۔ ارشادِ ربانی ہے:

خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

( سورۃ البقرۃ:63)

جو کتاب ہم نے تمہیں دی ہے اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونا اور جو احکام اس میں درج ہیں انہیں خوب یاد رکھنا۔ اس طرح شاید تم پرہیزگار بن جاؤ۔

3۔ رسول اللہ (ﷺ) کی اتباع

نبی اکرم ﷺ کی اتباع تقویٰ کے حصول اور اضافے کا ذریعہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بنی نوعِ انسان کی ہدایت کے لیے اسوہِ حسنہ بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:

وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ  وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ  ذَٰلِكُمْ وَصَّاكُم بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

( سورۃ الأنعام :153)

اور بلا شبہ یہی میری سیدھی راہ ہے لہٰذا اسی پر چلتے جاؤ اور دوسری راہوں پر نہ چلو ورنہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا کر جدا جدا کردیں گی اللہ نے تمہیں انہی باتوں کا حکم دیا ہے تاکہ تم متقی بن جاؤ ۔

4۔ روزہ

تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ روزہ  ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ارشاد فرمایا ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ

( سورۃ البقرۃ : 183)

اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔

ر وزہ اپنے اندر ایک عجیب خصوصیت رکھتا ہے۔ یہ ریا کاری اور دکھاوے سے کوسوں دور عبادت ہے۔  روزہ عابد و معبود اور ساجد و مسجود کے درمیان ایک راز ہے۔ اس کا علم روزے دار اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں ہوتا۔

دوسرا کام ۔ نیک اعمال میں ثابت قدمی

رمضان میں جس اہتمام سے نمازوں اور دیگر عبادتوں کی پابندی کرتے تھے ، رمضان گزر جانے کے بعد بھی ان کی پابندی کرتے رہیں کیونکہ ماہِ رمضان گزر بھی جائے تب بھی مؤمن کا عمل زندگی کی آخری سانس تک ختم نہیں ہوتا ۔ ارشادِ باری ہے  :

وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ

( الحجر :99)

اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیے یہاں تک کہ آپ کو موت آ جائے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ :

وَكانَ نَبِيُّ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ إذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكانَ إذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ، أَوْ وَجَعٌ عن قِيَامِ اللَّيْلِ، صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً،  

(صحيح مسلم: 746)

اللہ کے نبی ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو آپ ﷺ پسند کرتے کہ اس پر قائم رہیں اور جب نیند یا بیماری غالب آ جاتی اور رات کا قیام نہ کر سکتے تو آپ ﷺ دن کو بارہ رکعتیں پڑھ لیتے۔

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

أَحَبُّ الأعمالِ إلى اللهِ أدْومُها و إن قَلَّ

(صحیح البخاري :6465، ومسلم : 1830)

اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ترین کام وہ ہے جس پر ہمیشہ عمل کیا جائے اگرچہ وہ قلیل ہو۔

ذرا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت کا مطالعہ کریں کہ انہوں نے اس سنتِ نبوی سے کیسے راہنمائی حاصل کی اور اس سنتِ نبوی پر کیسے ہمیشگی اختیار کی ،  کیسے  ثابت قدم رہے اور اسے اپنے روز مرہ معمولاتِ زندگی میں کیسے لاگو کیا؟

اسی طرح سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

يا عَبْدَ اللہِ لا تَكُنْ مِثْلَ فُلانٍ؛ كانَ يَقُومُ اللَّيْلَ، فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ

( صحیح ابن ماجہ : 1104)

”اے عبد اللہ ! فلاں کی طرح مت ہو جانا، وہ رات میں قیام کرتا تھا (تہجد پڑھتا تھا) پھر اس نے رات کا قیام چھوڑ دیا“

تیسرا کام : قبولیتِ اعمال کی دعا

سلف صالحین کا طریقہ یہ تھا کہ ماہِ رمضان المبارک تشریف لانے سے پہلے اور ماہِ رمضان گزر جانے کے بعد خوب دعائیں کیا کرتے تھے۔

چنانچہ معلی بن فضل رحمہ اللہ  کہتے ہیں :

كانوا يدعون الله تعالى ستة أشهر أن يبلغهم رمضان، ويدعونه ستة أشهر أن يتقبَّل منهم۔

(لطائف المعارف، ص: 148)

سلف صالحین چھ ماہ پہلے سے رمضان پانے کی دعائیں کیا کرتے تھے اور جب رمضان کا مہینہ بیت جاتا تو چھ مہینے یہ دعائیں کرتے تھے کہ ہم نے جو نیکیاں کی ہیں انہیں قبول فرما لے ۔

یحی بن ابی کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں :

كان من دعائهم: اللهم سلِّمني إلى رمضان وسلِّم لي رمضان وتسلَّمه مني متقبلًا

(لطائف المعارف، ص: 148)

سلف صالحین کی دعاؤں میں سے ایک دعا یہ تھی : اے اللہ ! مجھے رمضان تک پہنچا دے اور رمضان کو مجھ تک پہنچا دے اور مجھ سے قبول فرما۔

 سلف صالحین کے اس طریقے کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں بھی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

چوتھا کام : شوال کے چھ روزے

شوال کے چھ نفلی روزے رکھیں۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

مَن صامَ رَمَضانَ ثُمَّ أتْبَعَهُ سِتًّا مِن شَوَّالٍ، كانَ كَصِيامِ الدَّهْرِ

( صحیح مسلم :1164)

”جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہی صوم الدھر ہے ۔

رمضان کے نیک اعمال میں ثابت قدمی کے اہم طریقے

1۔ اللہ سے مدد اور ثابت قدمی کی دعا

نیک اعمال کی توفیق اور اس میں استقامت اور مداومت کے لیے سب سے پہلے اللہ سے دعا کرنی ہے ۔  کیونکہ اللہ  تعالیٰ نے مؤمنوں کو یہی تعلیم دی ہے کہ وہ اللہ سے ایمان پر ثابت قدمی کی دعا کیا کریں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ

( آل عمران:8)

اے ہمارے رب ! ہمارے دلوں کو ہدایت دینے کے بعد کج روی میں نہ مبتلا کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بے شک تو بڑا عطا کرنے والا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی دعا

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کثرت کے ساتھ یہ دعا کیا کرتے تھے:

كانَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ يُكْثِرُ أن يقولَ : يا مُقلِّبَ القلوبِ ثبِّت قَلبي على دينِكَ ، فقلتُ : يا رسولَ اللَّهِ ، آمنَّا بِكَ وبما جئتَ بِهِ فَهَل تخافُ علَينا ؟ قالَ : نعَم ، إنَّ القُلوبَ بينَ إصبُعَيْنِ مِن أصابعِ اللَّهِ يقلِّبُها كيفَ شاءَ

(صحيح الترمذي: 2140)

اے دلوں کو بدلنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھنا، میں نے عرض کیا : اللہ کے نبی (ﷺ) ! ہم آپ پر اور آپ کی شریعت پر ایمان لا چکے، تو کیا آپ کو ہمارے بارے میں اندیشہ ہے؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ”ہاں کیونکہ دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے انہیں بدلتا رہتا ہے۔

اس لیے ہمیں دعا مانگنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ دل کو ہمیشہ سلامتی کی راہ پر لگائے رکھے اور گمراہی کی طرف نہ مڑنے دے۔

نیک لوگوں کی صحبت

نیک لوگوں کی صحبت اللہ رب العزت کا حکم ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ

( سورۃ الکہف: 28)

” اور اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ روکے رکھیں جو اپنے رب کو صبح شام یاد کرتے ہیں، اس کی رضا چاہتے ہیں۔

عبد الرحمن بن ناصر السعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں :

اس آیتِ کریمہ میں حکم دیا گیا ہے کہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے۔ ان کی صحبت اختیار کرنے اور ان کے ساتھ اختلاط میں نفس کے ساتھ مجاہدہ کیا جائے خواہ یہ نیک لوگ فقرا ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ ان کی صحبت میں اتنے فوائد ہیں جن کا شمار نہیں ہو سکتا۔1

یہ ایک حقیقت ہے کہ  نیک لوگوں کی صحبت سے انسان نیک بنتا ہے اور برے لوگوں کی صحبت سے انسان بد کردار بن جاتا ہے۔ فارسی زبان میں یہ مثل مشہور ہے:

صحبتِ صالح ترا صالح کند و صحبتِ طالح ترا طالح کند

یعنی نیک اور اچھے لوگوں کی صحبت تجھے نیک بنائے گی اور برے افراد کی صحبت ، ہم نشینی اور ان کے ساتھ میل جول سے تمہارے اندر ناپاک خیالات جنم لیں گے، تمہاری روش اور چال چلن خراب ہو جائے گا۔ شب و روز کا مشاہدہ بھی ہے کہ کوئی بچہ یا جوان فطری طور پر نیک طبیعت ہو لیکن جب اس کو غلط ماحول مل جاتا ہے تو رفتہ رفتہ وہ بھی اسی رنگ میں ڈھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ وہی بچہ جو گالی کے نام تک سے واقف نہیں تھا اب برے اور شریر بچوں کی صحبت میں اس کی زبان فحش گالیوں سے آلودہ ہو جاتی ہے، وہ نوجوان جس کو ٹی وی، ناچ گانے اور فحش کاموں سے نفرت تھی چند دنوں بد خصلت اور برے دوستوں کی ہم نشینی اسے بھی سینیما اور فلموں کا عاشق بنا دیتی ہے۔ اسی لیے یہ امرِ واقعہ ہے جو جس طرح کے لوگوں کی صحبت اور میل جول اختیار کرے گا وہی جذبات و خیالات اور وہی ذوق و رجحان اس میں بھی پیدا ہوگا جو دوسروں میں ہے۔ اس لیے آدمی کو دوست اور مجالس کے انتخاب میں انتہائی غور و فکر سے کام لینا چاہیے اور قلبی لگاؤ ایسے افراد سے بڑھانا چاہیے جن کا ذوق و رجحان، افکار و خیالات اور دوڑ دھوپ دین و ایمان کے تقاضوں کے مطابق ہو جو طبیعت کے نیک اور مزاج کے اچھے ہوں ۔

صحبتِ صالح اور صحبتِ طالح کی مثال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحبتِ صالح اور صحبتِ طالح دونوں کو ایک مثال کے ذریعے خوب سمجھایا ہے جس سے ہر شخص اچھی و بری صحبت کے فوائد یا مضر اثرات و نقصانات کو بآسانی سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت أبو موسی أشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ والجَلِيسِ السَّوْءِ، كَمَثَلِ صاحِبِ المِسْكِ وكِيرِ الحَدَّادِ؛ لا يَعْدَمُكَ مِن صاحِبِ المِسْكِ إمَّا تَشْتَرِيهِ أوْ تَجِدُ رِيحَهُ، وكِيرُ الحَدَّادِ يُحْرِقُ بَدَنَكَ أوْ ثَوْبَكَ، أوْ تَجِدُ منه رِيحًا خَبِيثَةً

(صحيح البخاري: 2101)

اچھے اور برے دوست کی مثال مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے لوہار کی طرح ہے،  مشک بیچنے والے کی صحبت سے تم کو کچھ فائدہ ضرور پہنچے گا یا مشک خریدو گے یا مشک کی خوشبو پاؤ گے لیکن لوہار کی بھٹی تمہارا جسم یا کپڑا جلائے گی یا تمہیں اس کے پاس سے ایک ناگوار اور بد بودار بو پہنچے گی ۔

قابلِ افسوس بات

لیکن افسوس کی بات ہے کہ آج علماء ، اہل تقویٰ اور صلحاء سے عوام کا فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز فتنہ و فساد کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ نہ ماحول اور معاشرے میں اسلامی جھلک ہے نہ آخرت کی  فکر ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کو پانے کی تڑپ ہے۔ مسلمانوں میں اسلامی ذہنیت آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ علماء ، صلحاء اپنے دینی فرائض اور ذمہ داریوں کا بخوبی احساس کریں ۔ دعوت و تبلیغ اور دینی محفلوں کے انعقاد کا اہتمام کریں اور عوام بھی علماءِ کرام سے اپنا تعلق استوار کریں۔ اس کے بغیر دنیا و آخرت میں نجات کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی۔ اللہ سے دعا ہے کہ ماہِ رمضان میں کی گئی ہماری چھوٹی بڑی نیکیوں کو قبول فرمائے اور جانے اور انجانے میں جو گناہ  سرزد ہوئے ہوں ان سے درگزر فرمائے ۔ نیک اعمال کی توفیق عطا فرمائے۔ عبادات پر دوام اور ہمیشگی اور استقامت عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان اور عملِ صالح پر ہو۔ آمین یا رب العالمين۔

  1. (تفسیر سعدی ، سورہ کہف: 28 )
الشیخ اکرم الٰہی حفظہ اللہ: