اہلِ ایمان کی دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کا دار و مدار اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور سچی توبہ کرنے میں ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَتُوبُوْا إِلَى اللَّـهِ جَمِيْعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
النور – 31
’’ اے مؤمنو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ‘‘۔
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ نیکیوں کے موسموں میں اعمالِ صالحہ کی ابتداء اللہ تعالیٰ سے سچی توبہ و استغفار سے کرے۔
پھر نیکیوں کے اس موسمِ بہار سے نیک اعمال کے ذریعہ بھرپور طور پر فائدہ اٹھانے کا پختہ عزم کریں اور یاد رکھیں کہ جو مسلمان اخلاص کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی سنت کے مطابق نیک عمل کرنے کا پختہ عزم و نیت کرلے تو اللہ تعالیٰ نا صرف یہ کہ اُس کی مدد فرماتا ہے بلکہ اس کے اسباب بھی اُسے مُیسر فرما دیتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّـهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ
العنکبوت – 69
’’اور جن لوگوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم ضرور اُنہیں اپنی راہ دکھائیں گے اور بے شک اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کے ساتھ ہے‘‘۔
ذو الحجہ اسلامی مہینوں میں آخری مہینہ ہے اور دینِ اسلام میں حرمت والے مہینوں میں سے ہے۔ اس کی حرمت کا تقاضا یہ ہے کہ اس میں ہر قسم کے گناہ و نافرمانی کے کام ، ہر قسم کے ظلم، زیادتی اور حقوق کی پامالی و حق تلفی سے بچنے کا خاص اہتمام کیا جائے جیسا کہ قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ ۚ فَلَا تَظْلِمُوا فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ
التوبة – 36
’’ بے شک اللہ تعالی کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) میں، جس دن سے اس نے آسمان و زمین کو بنایا ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں یہی دین کا سیدھا راستہ ہے تو ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو‘‘۔
ان چار مہینوں میں گناہ کا وبال بڑھ جاتا ہے اور ایک قول یہ بھی ہے کہ تمام مہینوں میں گناہ کے ذریعے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔1
اس بات کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ جیسے نیکیاں اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ ہیں اسی طرح گناہ اللہ اور اُس کی رحمت سے دوری کا سبب ہیں لہٰذا ان دنوں میں بالخصوص اور سال و زندگی بھر بالعموم جہاں ایک طرف مسلمان نیک اعمال کا اہتمام کرتا ہے وہاں دوسری طرف اسے چاہیے کہ وہ گناہوں سے مکمّل اجتناب کرے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جس طرح نیکیاں گناہوں کو ختم کرنے کا ذریعہ ہیں بالکل اسی طرح گناہ بھی نیکیوں کو کھا جاتے اور ضایع کر دیتے ہیں ۔
ذو الحجہ کے ان ابتدائی دس دنوں میں مذکورہ تمام اعمال کے علاوہ بھی کسی بھی نیک عمل کو معمولی یا حقیر مت سمجھیے اور زیادہ سے زیادہ اعمالِ صالحہ کرنے کا اہتمام کیجیے! اور رسولِ كريم ﷺ کے اس فرمان کو ہمہ وقت ملحوظ رکھیے کہ: ’’ان (ذو الحجہ کے ابتدائی) دس دنوں میں کیے جانے والے اعمالِ صالحہ اللہ تعالیٰ کو سال کے بقیہ تمام دنوں میں کیے جانے والے اعمال سے زيادہ محبوب ہیں ۔
توحید (اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ) کے بعد فرائض میں سب سے مقدم (اللہ تعالی کا حق) ’’ نماز‘‘ ہے جس کی پابندی احسن اور مکمل انداز سے کی جائے اس طور پر کہ باجماعت تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا کرنے کی کوشش کی جائے اور اسی طرح سنتوں اور نوافل کا بھی زیادہ سے زیادہ اہتمام کیا جائے۔ سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’ اللہ کے آگے کثرت سے سجدہ ریز ہوا کر، اللہ کے آگے تیرے ایک سجدہ کرنے سے اللہ تیرا ایک درجہ بلند کردے گا اور ایک خطا کو مٹا دے گا‘‘۔2
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے بندے کو نجات
اللہ تعالیٰ کی وحدانیت (لا الہ الا اللہ)، عظمت و بڑائی (اللہ اکبر) اور تسبیح (سبحان اللہ) بیان کرنا:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم ﷺ نے فرمايا: ’’اللہ تعالى كے ہاں ان دس دنوں سے عظيم (پورے سال کا) كوئى دن نہيں اور ان دس دنوں ميں كیے جانے والے اعمال سے زيادہ كوئی عمل محبوب نہيں لہذا کثرت سے اللہ کی وحدانیت (لا الہ الا اللہ) ، عظمت و کبریائی (اللہ أکبر) اور تسبیح (سبحان اللہ) پڑھا كرو‘‘۔3
امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ ذکر فرماتے ہیں: ’’ سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ذو الحجہ کے پہلے دس دنوں میں بازار میں نکل جاتے اور بلند آواز سے تکبیرات پڑھتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیریں کہنے میں مل جاتے‘‘۔4
ایک اور مقام پر ذکر فرماتے ہیں کہ: ’’سیدنا عمررضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمہ میں تکبیرات پڑھتے جسے لوگ سنتے اور تکبیریں کہتے اور بازار والے بھی تکبیریں کہنا شروع کردیتے حتی کہ منیٰ تکبیرات کی آواز سے گونج اٹھتا‘‘۔5
لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، عظمت و کبریائی کی صداؤں سے اللہ کی زمین کو بھر دیں اور ہم اپنے گھروں میں ہوں ، بازار، دوکان، آفس، کمپنی و فیکٹری میں ہوں یا کہیں بھی، مصروف ہوں یا فارغ، ان دس دنوں میں بالخصوص تکبیرات کو اپنا وطیرہ بنا لیں اور اپنی زبان کو تکبیرات سے تر رکھیں کہ ان میں سے ایک ایک آواز و پکار کل روزِ قیامت اللہ کے یہاں ہماری نجات کا سبب ہوں گی ان شاء اللہ۔اسی طرح اپنے گھر والوں، بچوں اور رشتہ دار و اقارب اور دوست احباب کو بھی اس کی ترغیب دلائیں کہ ان دنوں میں یہ عمل رسول اللہ ﷺ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اُن کے بعد ہر زمانہ میں اہلِ ایمان و نیک لوگوں کا شعار رہا ہے۔ اللہ توفیق عطا فرمائے۔
تکبیرات کے الفاظ:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تکبیرات کے مختلف الفاظ و صیغے مروی و ثابت ہیں جو درجِ ذیل ہیں:
اَللهُ أَكْبَرُ اَللهُ أَكْبَرُ لَا اِلٰهَ إِلَّا اللهُ ، وَ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَ لِلهِ الْحَمْدُ6
اَللهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا ، اَللهُ أَكْبَرُ كَبِيْرًا ، اَللهُ أَكْبَرُ وَ أَجَلُّ ، اللهُ أَكْبَرُ وَ لِلهِ الْحَمْدُ7
اَللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ وَ لِلهِ الْحَمْدُ اللهُ أَكْبَرُ وَ أَجَلُّ، اللهُ أَكْبَرُ عَلٰى مَا هَدَانَا8
تکبیرات میں مذکورہ کلمات کا اہتمام بھی صحیح ہے اوران دنوں کے تعلّق سے رسول اللہ ﷺ کے فرمان کہ :’’کثرت سے اللہ کی وحدانیت (لا الہ الا اللہ) ، عظمت و کبریائی (اللہ أکبر) اور تسبیح (سبحان اللہ) پڑھا كرو‘‘۔ (صحیح مسلم) کے تحت اللہ کی وحدانیت ، تکبیر و تسبیح کو کسی بھی انداز و الفاظ میں ادا کیا جاسکتا ہے جیسے : (لا الہ الا اللہ) (اللہ أکبر) اور (سبحان اللہ) وغیرہ۔ اصل مقصود اللہ تعالٰی کی توحید و تکبیر و تسبیح کرنا ہے ۔ واللہ اعلم۔
تکبیرات دو طرح سے ادا کی جائیں گی:
تکبیراتِ مطلق :
جس کا وقت ذو الحجہ کا چاند نظر آتے ہی شروع ہو جاتا ہے یعنی یکم ذو الحجہ سے لیکر ایام التشریق کے اختتام یعنی 13 ذو الحج بقرعید کے چوتھے دن کے اختتام تک۔
ان مذکورہ دنوں میں تکبیرات کو مطلق طور پر صبح شام ، نمازوں سے پہلے اور بعد میں ہر وقت ادا کرنا ہے ۔
تکبیراتِ مقید: جن کا وقت بالخصوص بقرعید سے ایک دن پہلے یعنی 9 ذوالحج کی فجر سے شروع ہوتا ہے اور ایام التشریق یعنی 13 ذو الحج بقرعید کے چوتھے دن کے اختتام تک رہتا ہے۔ اس طرح کہ انہیں مقید طور پر خصوصاً فرض نمازوں کے فوراً بعد ادا کیا جاتا ہے۔ فرض نماز سے سلام پھیر کر تکبیر پڑھیں ، 3 مرتبہ استغفار کریں اور پھر
اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام
پڑھ کر تکبیرات پڑھیں۔ واللہ اعلم
نوٹ: یہ تکبیرِ مقید غیر حاجی(جو حج نہیں ک ر رہے) اُنکے لیے ہے جبکہ حاجی (حج کرنے والے) کی تکبیرِ مقید کا وقت قربانی کے دن دس ذو الحجہ کی ظہر سے شروع ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ذو الحجہ کا چاند نظر آتے ہی تکبیرات شروع کردینی چاہیے اور انہیں صبح شام ، نمازوں سے پہلے اور بعد میں ہر وقت ، ہر جگہ اور ہر حالت میں پڑھتے رہنا چاہیے اور پھر بقرعید سے ایک دن پہلے یعنی 9 ذوالحج کی فجر سے مقید طور پر فرض نمازوں کے فوراً بعد خاص طور پر ان کا اہتمام کرنا چاہیے اور ایام التشریق (11،12،13) کے اختتام یعنی 13 ذو الحج بقرعید کے چوتھے دن کے اختتام تک اس سلسلہ کو جاری رکھنا چاہیے۔9 واللہ اعلم
جو شخص قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو اس کے لئے حکم ہے کہ ماہ ِذو الحجہ کا چاند نظر آنے کے بعد سے قربانی کرنے تک نہ تو اپنے جسم کے کسی حصہ کے بال کاٹے یا اکھاڑے اور نہ ہی ناخن تراشے۔ اور ان کاموں سے ذو الحجہ کا چاند نظر آنے سے پہلے فراغت حاصل کرلے۔
سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اللہ ﷺ نے فرمایا: جب دس دِن (یعنی ذی الحج کے پہلے دِس دِن ) آجائیں اور تم میں کوئی قُربانی کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے جسم (کے کسی حصہ کے بال و ناخن) کو (تراشنے و کاٹنے کی غرض سے) مت چھوئے۔ یعنی جسم کے بال یا ناخن وغیرہ نہ اتارے۔10
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس شخص نے اللہ کے گھر کا حج کیا اور بے ہودگی و فسق اور ہر قسم کے گناہ سے بچا رہا تو (حج کے بعد) اس حالت میں لوٹے گا جیسے آج ہی (تمام گناہوں سے پاک) ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو‘‘۔11
رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ مبارک ہے: ’’حج مبرور (مقبول) کی جزا تو صرف جنت ہے‘‘۔12
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’رسول اللہ ﷺ چار کام کبھی نہیں چھوڑتے تھے: عاشوراء (دس محرّم) کا روزہ، عشرہ ذو الحجہ کے روزے، ہر (اسلامی) مہینے کے تین دن (ایامِ بیض یعنی اسلامی 15،14،13تاریخ ) کے روزے اور فجر کی دو سنتیں‘‘۔13
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’عرفہ (۹ ذو الحجہ) کے دن کا روزہ رکھنا، مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنا دے‘‘۔14
نوٹ : یہ روزہ حاجی کے لیے نہیں ہے اس لیے کہ نبی ﷺ نے دورانِ حج اس کا روزہ نہیں رکھا تھا ، اور یہ بھی مروی ہے کہ نبیﷺ نے یومِ عرفہ نے میدان عرفات میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے لہذا حاجی کے علاوہ باقی سب کے لیے یہ روزہ رکھنا مستحب ہے۔ نیز یہ روزہ ذو الحجہ کی 9 تاریخ کا روزہ ہے جسے ہر شخص اپنے علاقے کی 9 ذو الحجہ کو رکھے گا جبکہ اہلِ علم کا ایک طبقہ اسے عرفہ ہی کے دن رکھنے کا قائل ہے ۔ واللہ اعلم
امام حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز تصنیف زاد المعاد ( 1/54 ) میں فرماتے ہیں: اللہ تعالی کے ہاں سب سے افضل اور بہتر دن یوم النحر ( قربانی ، عید الاضحٰی ) کا دن ہے اور وہ حجِ اکبر والا دن ہے جس کا ذکر اس حدیث میں بھی ملتا ہے جو امام ابو داود رحمہ اللہ نے بیان کی ہے: نبی ﷺ کا فرمان ہے: یقینا یوم النحر(قربانی کا دن) اللہ تعالی کے ہاں سب سے بہترین دن ہے ۔ (علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داؤد میں اسے صحیح قرار دیا ہے )۔
لہٰذا عشرہِ ذو الحجہ کے اعمال میں اہم ترین عمل اللہ ہی کے لیے ’’قربانی ‘‘ کرنا یعنی جانور اللہ کی راہ میں ذبح کرنا ہے۔ سیدنا ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہیں کرتا وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے‘‘۔15
اپنے والدین ، بیوی، بچوں کے ساتھ ساتھ قریبی رشتہ دار، پڑوسی ، محلہ دار اور تمام مسلمانوں میں مستحقین، یتیم و بیواؤں ،فقراء و مساکین اور اللہ کے راستے میں مختلف مدود میں خوش دلی کے ساتھ، اللہ کی رضاء اور اپنی واجبی ذمہ داری سمجھتے ہوئے خرچ کرنا ۔
سیدنا ابو سعيد خدرى رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ عيد الفطر يا عيد الاضحى كے دن نبى كريم ﷺ عيدگاہ كى طرف نكلے اور پھر وہاں لوگوں كو وعظ و نصيحت فرمائى اور انہيں صدقہ و خيرات كرنے كا حكم ديتے ہوئے فرمايا: لوگوں! صدقہ كيا كرو۔اور عورتوں كے پاس سے گزرے تو فرمايا: اے عورتوں كى جماعت! صدقہ كيا كرو كيونكہ ميں نے ديكھا ہے كہ تمہارى تعداد آگ ميں سب سے زيادہ ہے۔
اور جب نبى كريم ﷺ اپنے گھر تشريف لے گئے تو ابن مسعود رضى اللہ عنہ كى بيوى سیدہ زينب رضى اللہ تعالى عنہا اندر آنے كى اجازت مانگنے لگىں: تو نبى كريم ﷺ سے عرض كيا گیا کہ زينب رضى اللہ عنہا آئى ہیں تو رسول كريم ﷺ نے دريافت كيا كونسى زينب؟ تو كہا گيا كہ ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كى بيوى۔ تو رسول كريم ﷺ نے اجازت مرحمت فرمائی، سیدہ زینب اندر آئیں اور عرض کیا: اے اللہ كے نبى ﷺ! آپ نے آج صدقہ و خيرات كرنے كا حكم ديا ہے اور ميرے پاس ميرا زيور ہے ميں اسے صدقہ كرنا چاہتى ہوں۔ ابن مسعود رضى اللہ عنہ كا خيال ہے كہ وہ اور اس كى اولاد اس صدقہ كى زيادہ مستحق ہے تو رسول كريمﷺ نے فرمايا: ’’ابن مسعود رضى اللہ عنہ نے سچ كہا ہے۔ تيرا خاوند اور تيرى اولاد كسى دوسرے پر صدقہ كرنے سے زيادہ حقدار ہے‘‘۔16
سیدنا ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم ﷺ نے فرمايا: ’’ اللہ تعالىٰ كا فرمان ہے: اے ابن آدم! خرچ كر ميں تجھ پرخرچ كرونگا ‘‘۔17
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم ﷺ نے فرمايا: ’’ روزانہ صبح دو فرشتے نازل ہوتے ہيں، ان ميں سے ايک كہتا ہے: اے اللہ ! خرچ كرنے والے كو نعم البدل دے اور دوسرا كہتا ہے: اے اللہ! روك كر ركھنے والے كا مال تلف (ختم) كردے‘‘۔18
اللہ کے ذکر اور فرض نماز بالخصوص عید کی فجر کی نماز کی ادائیگی میں، رسول اللہ ﷺ پر مسنون صلوٰۃ و سلام پڑھنے میں ، سنن اور نوافل کی ادائیگی میں، قرآن کریم کی تلاوت میں، دعائیں کرنے میں ، ذو الحجہ کے روزے بالخصوص 9 ذو الحجہ کا روزہ رکھنے میں، قربانی کرنے والے کا ذو الحجہ کا مہینہ شروع ہونے کے بعد بال یا ناخن کاٹنے سے اجتناب کرنے میں ، حرام مال و ذریعہ معاش سے اجتناب کرنے میں، ہر قسم کے ظلم و زیادتی سے دور رہنے میں ، حقوق العباد میں ، والدین کے ساتھ حسنِ سلوک میں ، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے میں ، لوگوں کو معاف کرنے اور اُن سے در گزر کرنے میں، امانت کی ادائگی اور وعدہ کو پورا کرنے میں، زبان و شرم گاہ اور نگاہوں کی اللہ کی نافرمانی سے حفاظت کرنے میں، اپنی استطاعت کے مطابق حکمت کے ساتھ لوگوں کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنےمیں ، خیر و بھلائی اور نیکی کے معاملہ میں ایک دوسرے کی مدد کرنے میں ، اولاد کی صحیح دینی تربیت کرنے میں ، ہر مسلمان کے حق میں اپنے دل کو ہر قسم کے بغض ، حسد اور نفرت سے پاک کرنے میں ، صدقہ و خیرات کرنے میں وغیرہ شامل ہیں ۔
لہٰذا مذکورہ تمام امور میں غور کریں اور جہاں اور جس معاملہ میں خود میں کمی و غفلت محسوس کریں اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کریں کہ مؤمن ہر وقت اپنی اصلاح کرنے اور خود کو سنوارنے میں لگا رہتا ہے۔ اللہ توفیق عطاء فرمائے۔
تصحیح و مراجع: الشیخ حماد امین چاولہ حفظہ اللہ
منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…
کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…
اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…
قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…
فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…