پہلا خطبہ:

بلاشبہ تمام تعریفات و تسبیحات اُس اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جس کی ہم حمد بیان کرتے ہیں اور جس سے ہم استعانت و بخشش طلب کرتے ہیں ۔ہم اپنے نفس کی شرارتوں اور بُرائیوں سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ جسے اللہ ہدایت دے اُسے کوئی گمراہ کرنے والا نہیں اور جسے وہ گمراہ کردے اُسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے سوا کوئی سچا معبود نہیں  اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺ اُس کے بندے اور رسول ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ اور آپ ﷺ کی آل  و اصحاب پر بیش بہا  درود وسلام نازل فرمائے۔

اما بعد!

اے اللہ کے بندو! اللہ تعالیٰ سے کما حقہ  ڈرو اور اسلام کے مضبوط کڑے کو مضبوطی سے تھام لو۔

اے مسلمانو! اللہ تعالیٰ کی پہچان اور  معرفت دین کی بنیاد ہے اور اللہ پاک نے اپنے ناموں اور اپنی صفات کے ذریعے ہی اپنے بندوں کو اپنا تعارف کروایا ہے۔اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے نام  افعال اور صفات کا تذکرہ ،حلال و حرام کی آیات سے بھی زیادہ وارد ہوا ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ  کےناموں میں سے ایک نام الحمید ہے۔یعنی وہ ذات کہ جس کی چند صفات اور کچھ ایسے اسبابِ حمد ہیں جن کا تقاضہ ہے کہ اُس کی ہمہ وقت تعریف ہوتی رہےخواہ علاوہ عظیم کوئی بھی اُس کی تعریف نہ کرے ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں الحمید  کو عزت ،ولایت،بزرگی ،غنا اور حکمت کے ساتھ جوڑ کر بیان فرمایاہے۔اور اللہ پاک کی حمد سے مراد اُس کی عظمت کے گن گانا،اُس کی صفاتِ کمال پر اُس کی حمد و ثنا بیان کرنا  اور اُس کی محبت و عظمت کے ساتھ اُس کی خوب خوبیاں بیان کرناہے۔یعنی اللہ پاک کے ذاتی کمال و جمال   اور اُس کی مخلوقات  پر اس کے اکرام و احسان اور افعال کی بدولت ہی اُس کی تعریف کی جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی حمد و کبریائی بیان کی ہے اور وہ تعریف و مدح سرائی کو پسند کرتا ہے۔اور اُس کا اپنی مدح سرائی کرنا سب سے اعلیٰ وعظیم ہے۔کیونکہ اُس سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں جانتا کہ وہ کس قدر تعریفات کا مستحق ہے ۔اور نہ ہی اُس کی مخلوقات میں سے  کوئی  اُس کی ثنا خوانی کا احاطہ کرسکتاہے۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کسی کو بھی مدح سرائی پسند نہیں اسی لئے تو اُس نے اپنی مدح سرائی کی ہے۔متفق علیہ

امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: درحقیقت ا س میں بندوں کی ہی بھلائی ہےکیونکہ وہ اُس کی کبریائی بیان کرتے ہیں اور وہ انہیں اِس پر اجر و ثواب عطا کرتا ہےجس سے یہ فیض یاب ہوتے ہیں،حالانکہ اللہ رب العالمین تو تمام جہانوں سےایسا بے نیاز ہے کہ اگر وہ اُس کی مدح  کو اختیار کریں تو اِس سے اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے اور اگر اِسے ترک کردیں تو اُسے  کوئی کمی لاحق نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی تخلیق کی ابتداء اپنی حمد سے کی اور فرمایا:

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ

الانعام – 1

تمام تعریفیں اللہ ہی کےلائق ہیں جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا ۔

اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کی پانچ سورتوں کی ابتداء حمد سے کی ہےاور اُن میں بتایا کہ بلاشبہ اُسی نے آسمان و زمین کوپیدا کیا،کتاب نازل کی ،تمام رسول بھیجے،اپنی مخلوق کو مارا اور زندہ کیااور یہ سب کچھ اُسی کی حمد سے ہے۔اورا ُس نے اپنی عظیم کتاب میں ان تمام امور پر محیط اپنی ربوبیت اور اپنی تعریف  کی کہ تمام تعریفیں اُس اللہ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔حاملین عرش بلا تعطل اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے رہتے ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا

المؤمن – 7

عرش کے اٹھانے والے اور اس کے آس پاس کے (فرشتے) اپنے رب کی تسبیح حمد کے ساتھ ساتھ کرتے ہیں اور اس پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان والوں کے لیے استفغار کرتے ہیں۔

بلکہ تمام فرشتے ہی اللہ تعالیٰ کی تعریف بیان کرتے رہتے ہیں جیسا کہ فرمایا:

وَالْمَلَائِكَةُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ

الشوریٰ – 5

اور تمام فرشتے اپنے رب کی پاکی تعریف کے ساتھ بیان کر رہے ہیں۔

اور ہر نبی نے حالات کے بدلنے پر اپنے رب کی حمد کا اظہار کیا،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

فَإِذَا اسْتَوَيْتَ أَنتَ وَمَن مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي نَجَّانَا مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ

المؤمنون – 28

جب تو اور تیرے ساتھی کشتی پر باطمینان بیٹھ جاؤ تو کہنا کہ سب تعریف اللہ کے لئے ہی ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات عطا فرمائی۔

اور ابراھیم علیہ السلام نے فرمایا:

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَهَبَ لِي عَلَى الْكِبَرِ إِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ ۚ

ابراھیم – 39

اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اس بڑھاپے میں اسماعیل واسحاق (علیہما السلام) عطا فرمائے۔

اور داؤد علیہ السلام  اور سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:

وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ

النمل – 15

اور دونوں نے کہا، تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایماندار بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔

اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے پیغمبر محمد رسول اللہ ﷺ  کو حکم فرمایاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کریں:

قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَىٰ عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَىٰ ۗ

النمل – 59

تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے برگزیده بندوں پر سلام ہے۔

اللہ پاک نے اپنے تمام بندوں کو حکم دیا کہ وہ اُس کی تعریف بیان کریں:

وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ سَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ فَتَعْرِفُونَهَا ۚ

النمل – 93

کہہ دیجئے، کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کو سزاوار ہیں وه عنقریب اپنی نشانیاں دکھائے گا جنہیں تم (خود) پہچان لو گے۔

 اور جن مؤ منوں کے لئے جنت کا وعدہ کیا گیا اُن کی صفات یہ بیان کی گئی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے رہتے ہیں۔

التَّائِبُونَ الْعَابِدُونَ الْحَامِدُونَ

التوبة – 112

وه ایسے ہیں جو توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے۔

وَيُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ

الرعد – 13

گرج اس کی تسبیح وتعریف کرتی ہے اور فرشتے بھی، اس کے خوف سے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ بتاتے ہوئے کہ ہمہ وقت اور ہر جگہ  اُسی  کی تعریف  بیان ہوتی رہتی ہےفرمایا:

وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ

الروم – 18

تمام تعریفوں کےلائق آسمان وزمین میں صرف وہی ہے تیسرے پہر کو اورظہر کے وقت بھی (اس کی پاکیزگی بیان کرو)۔

اور آسمان و زمین میں سب تعریفیں اُسی کے لئے ہیں۔اور اُن کے مابین کی ہر چیز اُس کی تعریف سے بھری ہوئی ہے۔اور کائنات کی کوئی چیز ایسی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی حمد بیان نہ کرتی ہو۔جیسا کہ فرمایا:

وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ

الاسراء – 44

ایسی کوئی چیز نہیں جو اسے پاکیزگی اور تعریف کے ساتھ یاد نہ کرتی ہو۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ تم اس کی تسبیح سمجھ نہیں سکتے۔

اللہ کی حمد بیان کرنا ایک عظیم ذکر ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور بندہ جو بھی بولتا اور اپنے شب و روز میں جس چیز کی پابندی کرتاہے ،اللہ تعالیٰ اُس کا سب سے زیادہ حق دار ہے اور بندے کے دن اور رات کی کوئی گھڑی اللہ کے حمد و ثنا سے خالی نہیں ہے۔چنانچہ سارے دین کا دار و مدار توحید اور اللہ تعالیٰ کی حمد پر ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

هُوَ الْحَيُّ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ فَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۗ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

المؤمن – 65

وه زنده ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں پس تم خالص اس کی عبادت کرتے ہوئے اسے پکارو، تمام خوبیاں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: حمد توحید کےبغیر نامکمل ہے اور وہ توحید کا محور و پیش خیمہ ہےاور اِسی لئے کلام کا آغاز حمد سے ہے اور پھر توحید کی گواہی ہوتی ہے۔تمام عبادات میں سے نماز کا آغاز اللہ پاک نے اپنے  بندوں کے لئے حمد سے مشرو ط کیا ہے اورنبی اکرم ﷺ دن رات کی نمازوں  کے شروع میں حمد کے مختلف  الفاظ پڑھتے تھے ۔نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ نماز میں پڑھ رہا ہے:

اَللّٰہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیرًا وَسُبْحَانَ اللّٰہِ بُکْرةً وَأَصِیلًا

صحیح مسلم

تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے بڑا تعجب ہوا جب اِن الفاظ کےلئے آسمان کے دروازے کھول دئے گئےہیں۔

اور فاتح سورہ حمد ہے  جس کے بغیر کوئی نماز دُرست نہیں ہوسکتی ۔ اور جب بندہ رکوع سے سر اُٹھا تے ہوئے “سمع اللہ لمن حمدہ”کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا  اپنے بندے کی مناجات  اور اُس کی قبولیت کو حمد ِ الٰہی کے ساتھ معلق کردینا ایک ایسا عمل ہے جو حمد کو نماز کی روح اور سُتون قرار دیتا ہے۔اور نبی اکرم ﷺ رکوع کے بعد کھڑا ہونے والے اس رُکن میں مختلف الفاظ کے ساتھ اپنے رب کی بکثرت حمد بیان کرتے اور اِس کی حمد کو کثرت ،پاکیزگی اور برکت کے ساتھ موصوف کرتے تھے۔اور آپ ﷺ  نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ رکوع کے بعد پڑھ رہا ہے

رَبَّنَا وَلَكَ الحَمْدُ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ

 تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو دیکھا جو ان کلمات کو سب سے پہلے لکھنے کےلئے مقابلہ کررہے تھے۔صحیح بخاری

اور جس نے اپنی نماز پوری کرنے کے بعد

سبحانَ اللهِ والحمدُ للهِ واللهُ أكبرُ

پڑھا تو اُس کی ساری خطائیں معاف کردی  جاتی ہیں خواہ وہ سمندرکی جھاگ کے برابر ہوں۔اور آدمی اِس کےذریعے ایسے اموال خرچ کرنے والوں کے رتبے کو حاصل کرلیتا ہے ۔صحیح مسلم

اور نبی اکرم ﷺ حج کے اکثر مقامات پر اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے تھے۔اور حج کے چار تلبیہ

إِنَّ الْحَمْدَ، وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ

بھی اللہ تعالیٰ کی انفرادیت پر مشتمل ہیں۔متفق علیہ

جمعوں ،عیدوں اور بڑے بڑے مجموں کے خطبوں اور اہم ترین معاملوں کا آغاز بھی حمد ِ باری تعالیٰ سے ہی ہوتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا  تو دِلوں کو موہ لیتی ہے۔جیسا کہ جماد ازدی  رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے  اور اُنہوں نے آپ ﷺ کو اپنی تقریر  کے شروع میں

إِنَّ الْحَمْدَ للهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ ۔۔۔ الخ

حدیث کےآخر تک رب کی حمد و ثنا بیان کرتے ہوئے سنا تو وہ پکاراُٹھا کہ یقیناً میں نے کائنوں اورجادوگروں  کے کلام سنے مگر آپ کے اِن کلمات جیسے کلمات نہیں سنے ۔یہ تو دریائے بلاغت کی آخری گہرائی تک پہنچ گئے ہیں۔پھر اُس نے نبی اکرم ﷺ  سے عرض کی اپنا ہاتھ آگے بڑھایئےتاکہ میں آپ کی بیعت کرسکوں ۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر اُس نے بیعت کرلی ۔پھر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: کیا تم اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرنا چاہتے ہو؟ تو اُس صحابی نے آپ ﷺ سے اُن کلمات کو دہرانے کےلئے کہا تو آپ ﷺ نے تین مرتبہ دہرایا تو اُس نے کہا جی ہاں! میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرنا چاہتا ہوں۔صحیح مسلم

اِسی طرح جن مجالس ِ ذکر میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان ہوتی ہواُن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بتاتے ہیں کہ وہ

سبحانَ اللهِ والحمدُ للهِ ولا إلهَ إلا اللهُ واللهُ

 پڑھ رہے  ہیں اور دُعائیں مانگ رہے ہیں تو انہیں معاف کردیا جاتاہے ۔متفق علیہ

حمد کے ساتھ دُعائیں شروع کرنے وہ قبولیت کے لائق ہوجاتی ہیں۔جیسا کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا:  جب تمہارا کوئی ایک صلوٰۃ یعنی دُعا مانگے تو اُسے چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا سے شروع کرے ۔سنن ترمذی

جس طرح عبادات میں حمد پڑھنا بندے کے لئے ضروری ہے اِسی طرح تمام احوال میں بھی حمد پڑھنا ضروری ہے ۔پس نبی اکرم ﷺ جب کھانا تناول فرماتے تو پڑھا کرتے تھے:

الْحَمْدَ للهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ

صحیح بخاري

کھانے پینے کےبعدالحمد للہ پڑھنا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور تقرب کا باعث ہے جیسا کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالیٰ ایسے بندے کےساتھ ضرورراضی ہوتا ہے جو کھانے کےہر نوالے اور پانی کے ہر گھونٹ پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائے۔صحیح مسلم

اور نعمتِ لباس بھی کھانے پینے سے ہی منسلک ہے ۔ نبی اکرم ﷺ جب کوئی نیا کپڑا پہنتے تو اُس کا نام لے کر کہتے : اے اللہ ! تیرا شکر ہے ۔تونے ہی مجھے یہ لباس پہنایا ہے ۔ سنن احمد

اور جو چھینک لے اُسے بھی نبی اکرم ﷺحکم دیا ہے کہ وہ الحمد للہ پڑھے۔صحیح بخاری۔

اور جب کسی سفر سے واپسی ہو توپڑھے :

آيِبُونَ، تائِبونَ ، عابِدونَ ، ساجِدونَ ، لرَبِّنا حامِدونَ

رجوع کرنے والے ،توبہ کرنے والے اور اپنے رب کی عبادت کرنے والے، سجدہ کرنے والے اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں۔متفق علیہ

اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جب کوئی اپنے بستر پر آئے تو وہ سونے سے قبل تینتیس مرتبہ الحمد للہ پڑھے تو یہ سبحان اللہ ،اللہ اکبر کے ساتھ اُس کے لئے خادم سے بھی افضل ہے ۔صحیح مسلم

اور نیند کے بعد جس کی روح کو اللہ تعالیٰ لوٹادے تو اُس کی عمر بڑھا کر اللہ تعالیٰ نے اُس پر احسان کیاتاکہ وہ اپنی نیکیوں میں اضافہ کرلے ۔اسی لئے نبی اکرم ﷺ جب اپنی نیند سے بیدار ہوتے  تو کہتے تمام تعریفیں اُس اللہ  کے لئے ہیں۔جس نے ہمیں موت  کے بعد زندگی بخشی اور اُسی کی طرف زندہ ہو کر لوٹنا ہے۔صحیح مسلم۔

اللہ تعالی کی ثنا سے شرح صدر حاصل ہوتاہے ۔اور تمام امور  میں مدد ملتی ہے۔جیساکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

 وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ‎﴿٩٧﴾‏ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ

الحجر – 97/98

ہمیں خوب علم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوتا ہے۔آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجده کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔

اور جس نے حمد کے لئے اپنی زبان کو ایک بار ہلایااُسے ہر بار حمد کے بدلے اپنے مال سے صدقہ کرنے کےبرابر اجر و ثواب ملے گا۔جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:ہر بار الحمد للہ پڑھنا ایک صدقہ ہے۔صحیح مسلم

اور الحمد اُن چار کلمات میں سے ایک ہےجو اللہ تعالیٰ کو تمام کلمات سے زیادہ پسندہیں اور نبی اکرم ﷺ دنیا وما فیھا کی ہر اُس چیز سے زیادہ محبوب ہےجن پر سورج طلوع ہوتاہے۔صحیح مسلم

اور جس نے الحمد پڑھنے پر ہمیشگی اختیار کی وہ اپنے غیروں پر فوقیت لے جاتا ہے۔جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص  صبح شام سو بار

  سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ

پڑھا تو روزِ قیامت اُس سے افضل عمل والاکوئی نہ ہوگا۔سوائے اُس شخص کے جس نے اُس کے برابر یا اُس سے بھی زیادہ مرتبہ پڑھا ہوگا۔ صحیح مسلم

اور لاالٰہ الّا اللہ  کے ساتھ الحمد للہ پڑھنا غلاموں کے آزاد کرنے کےبرابرہے۔اور اِس سے گناہوں اور خطاؤں کا مٹنا واجب ہوجاتاہے۔اور جس نے پڑھا

سُبحَانَ اللہِ الْعَظِیمِ وَبِحَمْدِہِ

 تو اُس کےلئے جنت میں ایک کھجور کا درخت لگادیا جاتاہے ۔صحیح مسلم

  الحمد کے کچھ ایسے الفاظ بھی ہیں جن کا ثواب کئی گنا زیادہ ہوتا ہے ۔جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے جویریہ رضی اللہ عنہا سے کہا: میں نے تمہارے بعد ایسے چار کلمات  تین مرتبہ پڑھے اگر اُن کو اُن کلمات کےساتھ تولہ جائے جو تم نے آج تک پڑھے ہیں تو وہ ان سے بھی زیادہ بھاری ہوں۔اور وہ کلمات یہ ہیں۔

سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ

صحیح مسلم

حمد و ثنا اگرچہ زبان پر ہلکے ہیں مگر ترازو  میں بھاری ہیں۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا:

دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں لیکن میزان میں بھاری اور رحمٰن کو بہت زیادہ محبوب ہیں۔اور وہ یہ ہیں:

سبحان اللہ وبحمدہ ،سبحان اللہ العظیم

متفق علیه

اور الحمد للہ پڑھنے سے ترازو  بھر جاتا ہے۔ (یعنی کہ اجر سے )صحیح مسلم

سبحان اللہ کے ساتھ الحمد للہ پڑھنے سے آسمان و زمین کا خلاء اجر و ثواب سے بھر جاتا ہے ۔اور جس طرح الحمد ہر چیز کی ابتداء ہے اسی طرح وہ اُس کی انتہا بھی ہے۔جو شخص کسی محفل میں بیٹھا اور اُس سے بہت زیادہ بے ہودہ باتیں ہوگئیں اور اُس نے اپنی مجلس چھوڑنے سے پہلے یہ دُعا پڑھ لی :

سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ ، أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا أَنْتَ ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ

تو اُس کی اُس مجلس میں ہونے والی تمام لغزشیں معاف ہوجاتی ہیں۔ سنن ترمذی

اللہ تعالیٰ کے نبی کریم محمد رسول اللہﷺ کے ذریعے دین کو مکمل اور آپ پر نعمت کر مکمل کردینے کے بعد جب آپ کی وفات کا وقت قریب ہواتو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ سے فرمایا:

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ

النصر – 3

اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کرو اور اُس سے بخشش طلب کرو۔

ہمارے نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرنے والے ہیں اور روز ِ قیامت اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو مقامِ محمود پر فائز کرے گا، تب ساری خلقت آپ ﷺ کی تعریف کرے گی،آپ ﷺ تشریف لائیں گے اور آپ ﷺ  کے ہاتھ میں حقیقی اور معنوی حمد کا جھنڈا ہوگا،ساری خلقت اُس کے نیچے ہوگی۔جیسا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:  روزِ قیامت میں آدم کی ساری اولاد کا سردار ہوں گا اور اِس پر مجھے کوئی گھمنڈ نہیں ، اور میں وہ پہلا شخص ہوں گاجس کے لئے زمین پھٹے گی اور مجھے اِس پر بھی کوئی فخر نہیں، اور وہ حمد کا جھنڈا بھی میرے ہاتھ  میں ہوگا اورمجھے اِس پر بھی کوئی گھمنڈنہیں ہے، آدم علیہ السلام اور اُ ن کے علاوہ دیگر تمام انبیاء علیہم السلام بھی اُس جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور مجھے اس پر بھی کوئی گھمنڈ نہیں ہے۔مسند احمد

اللہ تعالیٰ نے جس طرح اس مخلوق کا آغاز حمد سے کیا اسی طرح اِس جہان کا خاتمہ بھی حمد کے ساتھ کرے گا۔جس طرح اس کی ابتداء کی ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقُضِيَ بَيْنَهُم بِالْحَقِّ وَقِيلَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

الزمر – 75

اور ان میں انصاف کا فیصلہ کیا جائے گا اور کہہ دیا جائے گا کہ ساری خوبی اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پالنہار ہے ۔

امام ابن کثیر رحمہ اللہ  فرماتے ہیں: بولنے والے اور چوپائے یعنی کہ ساری کائینات بولےگی کہ تمام تعریفات اللہ رب العالمین کےلئے ہیں۔ اس کے عدل و حکم  میں حمد کے ساتھ۔ اسی لئے حمد کو کسی  کہنے والے کی طرف منسوب کرنے کے بجائے مطلق رکھا گیا جوکہ اس بات کی دلیل ہےکہ بلاشبہ ساری مخلوقات  اللہ تعالیٰ کے لئے حمد کی گواہی دیں گی۔ اللہ تعالیٰ کی حمد دنیا میں ثابت اور آخرت میں ہمیں ہمیشہ رہے گی، چنانچہ جنتی جنت میں داخل ہوں گےتو وہاں اُن کا سب سے پہلا کلمہ بھی  الحمد للہ ہی ہوگا۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ

الاعراف – 43

اور وه لوگ کہیں گے کہ اللہ کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتا ۔

جنت میں جنتیوں سے حمد و ثنا اُسی طرح جاری ہوگی جس طرح اُن کی سانس جاری ہوتی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

دَعْوَاهُمْ فِيهَا سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَتَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَامٌ ۚ وَآخِرُ دَعْوَاهُمْ أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ

یونس – 10

ان کے منھ سے یہ بات نکلے گی سبحان اللہ اور ان کا باہمی سلام یہ ہوگا السلام علیکم اور ان کی اخیر بات یہ ہوگی تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے ۔

بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یعنی اُن کے  کلام کا آغاز تسبیح سے اور خاتمہ حمد پر ہوگا۔

 اے مسلمانو! دنیا آخرت ،آسمان و زمین ،اُن کے مابین اور جو اُن کے اندر ہے سب اللہ کی حمد سے بھرپور ہے۔اور بندوں میں سے جس نے اُس کے ساتھ کفر کیایا اُس کی نعمتوں کی ناشکری کی  تو اللہ تعالیٰ اُن سے مستغنی و  بے نیاز ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

إِن تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنكُمْ ۖ وَلَا يَرْضَىٰ لِعِبَادِهِ الْكُفْرَ ۖ وَإِن تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ ۗ

الزمر – 7

اگر تم ناشکری کرو تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تم (سب سے) بے نیاز ہے، اور وه اپنے بندوں کی ناشکری سے خوش نہیں اور اگر تم شکر کرو تو وه اسے تمہارے لئے پسند کرے گا۔

تمام نعمتیں بھی اُس کی حمد سے شروع ہوتی  ہیں اور اُسی کی حمد پر ختم ہوتی ہیں۔اور حمد و شکر سے ہی نعمتوں کی ہمیشگی اور زیادتی ہوتی ہے۔اور وہی پاکیزہ ہستی معبود ومحمود ہے۔لہٰذا اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اطاعت بکثرت بجا لاؤ۔اُس کے دین اور شریعت کے گن گاؤ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کی پسند کے گن گانا ہی اُس کی حمد و مدح سرائی ہے۔

وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَىٰ وَالْآخِرَةِ ۖ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ

القصص – 70

وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں، دنیا اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے۔ اسی کے لیے فرمانروائی ہے اور اسی کی طرف تم سب پھیرے جاؤ گے۔

اللہ تعالیٰ میرے اورآپ   کےلئے قرآن ِ عظیم کو با برکت اور اُس کی آیات او ر ذکرِ حکیم کو بابرکت  بنائے ۔ اِسی پر اکتفا کرتے ہوئے میں اپنے ،تمہارے اور تمام مسلمانو ں کے لئے اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں تو آپ بھی اُسی سے بخشش طلب کریں  بلاشبہ وہی بخشنے والا مہربان ہے۔

دوسرا خطبہ:

اللہ تعالیٰ کے احسانات  پر اُس کی تعریف و توصیف اور اُس کے انعامات پر اس کا شکر ہے ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ،وہی عظیم الشان ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد ﷺاُس کے بندے اور رسول ہیں۔اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کی تمام آل و اصحاب پر لاتعداد صلوٰۃ و سلام نازل فرمائے۔

اما بعد!

اے مسلمانو! حمد تسبیح کی ساتھی اور تابع ہے ،چنانچہ تسبیح اگر اللہ تعالیٰ کے عیوب و نقائص سے پاکیزگی ہے  تو حمد مجمل و مفصل طور پر اللہ تعالیٰ کے لئے کمال و جمال کا اثبات ہے ۔یعنی ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کےلئے لازم ہےاور ان میں سے کسی ایک کو جب اکیلا ذکر جائے تو وہ دوسرے کے معنی پر مشتمل ہوتاہے ۔اور بندے کا اپنے رب کا ذکر کرنا اُس کا مولا سے سچی محبت کی نشانی ہے ۔ اور جس نے خوشحالی میں اپنے رب کو حمد و ذکر کے ساتھ پہچانا ہوگاوہ اُسے تنگی و سختی میں پہچانے گا۔ اور جس نے اُس کا ذکر زیادہ کیاہوگا  تو وہ کامیاب ہوجائےگا۔

بس جان لو کہ  بے شک اللہ تعالیٰ نے تم کو اپنے نبی کریم ﷺ پر درود  بھیجنے کا حکم دیاہے ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ حکیم میں فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

الاحزاب – 56

اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہا کرو۔

ہماری طرف سے نبی کریم ﷺ اور اُن کے اہلِ خانہ اور اصحاب  پر لاتعدا د و بے شمار درودو سلام ہو ۔

اے اللہ تو اپنی رحمتیں اپنی برکتیں سید المرسلین،امام المتقین خاتم النبین ،اپنے بندے اور رسول ﷺ پر نازل فرما جو خیر کے امام اور خیر کے قائد ہیں رسول ِ رحمت ہیں ۔

 اے اللہ تو راضی ہوجاان کے چاروں خلفاء راشیدین، ہدایت یافتہ سربراہان  ابو بکر ،عمر ،عثمان ،علی   سےاورتمام صحابہ اور تابعین سے اور ان سے جو دُرست طریقے سے قیامت تک اُن کی پیروی کریں ۔

اے اللہ ! تو اسلام کو اور مسلمانوں کو عزت و عظمت عطا فرما۔

اے اللہ ! تو اسلام کو غالب کردے اور مسلمانوں کی مدد فرما۔اور شرک و مشرکین کو ذلیل و رسوا کردے اور دین ِ اسلام کے دشمنوں کو نیست و نابود کردے۔

اے اللہ ! تو اس ملک کو امن و اطمنان ، ہمدردی و سخاوت  ، اتحاد و بھائی چارے سے بھر دے اور اسی طرح باقی تمام مسلم ممالک کو بھی ۔

اے اللہ ! ہم تجھ سے سوائے خیر کے اورکسی چیز کا سوال نہیں کرے تو ہمیں خیر عطا فرما۔اور جس چیز کا تجھ سے سوال نہیں کرتے اس کی ابتلاء سے محفوظ فرما۔

اے اللہ ! اپنے بندے خادم الحرمین شریفین کو ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما جن سے تو راضی ہوجاے۔اےاللہ ! تو اُن کے ولی عہد کو بھی بھلائی اور اپنی خوشنودی کے کاموں  کی توفیق عطا فرما اور اُ ن پر استقامت دے۔

اے اللہ ! تو فلسطین کی اور  اہلِ فلسطین کی کی مدد فرما ان کی نصرت فرما ان کی حفاظت فرما۔

اے اللہ ! ہمیں دنیا و آخرت کی بھلائی عطا فرما اور جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما۔ اللہ کے بندوں ! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے عدل و انصاف کا اور قریبی رشتہ داروں  سے صلہ رحمی کا اور ہر قسم کی بے حیائی اور نافرمانی سے بچنے کا ۔تو تم اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرو اور وہ تمہارا ذکر کرے گا۔اورتم اُس کی تعمتوں پر شکر کرو تو وہ تم کو زیادہ دے گا۔اللہ تعالیٰ کا ذکر سب سے بڑھ کر ہے ۔اور جو کچھ تم کرتے ہو اُس سے اللہ تعالیٰ خوب آگاہ ہے۔

خطبة الجمعة مسجدِ نبوی : فضیلة الشیخ  عبدالمحسن قاسم حفظه اللہ
تاریخ 2 ربیع الاول 1443هـ بمطابق 8 اکتوبر 2021

فضیلۃ الشیخ جسٹس ڈاکٹر عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ

آپ یعنی جناب عبد المحسن بن محمد بن عبد الرحمن القاسم القحطانی کو پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے گریجویشن کیا اور المعہد العالی للقضاء سے ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی مسجد نبوی کی امامت و خطابت کے ساتھ ساتھ محکمۃ الکبریٰ مدینہ منورہ میں قاضی (جسٹس ) بھی ہیں ۔

Recent Posts

منہجِ سلف سے کیا مراد ہے؟

منہجِ سلف میں راہِ اعتدال کیا ہے؟ فہمِ سلف سے کیا مراد ہے؟ کیا منھجِ…

7 hours ago

یا محمد ﷺ کہنا یا لکھنا کیسا ہے؟

کیا اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں نبی کریم ﷺ کو نام سے پکارا ہے؟…

1 day ago

ستاروں کی تخلیق کے تین مقاصد!؟

اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا پر کوئی حکم نازل فرماتا ہے تو شیاطین اسے سننے…

4 days ago

داتا اور مشکل کشا کون؟

اولیاء کرام کو "داتا" یا "مشکل کشا" ماننا؟ "داتا" کا مطلب کیا ہے؟ مشکل کشائی…

4 days ago

مشکلات اور پریشانیوں کےحل کےلیے نسخہ؟

قرآنِ مجید نے انسان کے غم اور پریشانی کے موقع پر اس کی کس فطرت…

1 week ago

جنتی فرقہ کونسا ہے؟

فرقہ واریت کسے کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ فرقے کس امت کے ہوں گے؟ مسلمانوں…

1 week ago