پہلا خطبہ :
تمام تعریفیں اس مالک کے لیے ہیں جو بادشاہ ہے، پاک ہے، امن و سلامتی والا ہے اور عظمت و بزرگی والا ہے۔ ہمارے رب کے نام نہایت مقدس ہیں، اس کی صفات نہایت بلند و بالا ہیں، اس کی ذات ویسے ہی ہے جیسا کہ اس نے بیان کیا ہے۔ ہم اس کی تعریفوں کو شمار نہیں کر سکتے۔ دنیا و آخرت میں ہمیشگی کے ساتھ تمام تعریفیں اسی کے لیے ہیں۔ میں اپنے رب کی حمد بجا لاتا ہوں. فضیلتوں اور خیرات کے کاموں پر اسی کا شکر ادا کرتا ہوں. ان میں سے جن کا ہمیں علم ہے یا نہیں علم ہے. وہی انعامات کرنے والا ہے. اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہ ایسے غلبے والا ہے جو مغلوب نہیں کیا جا سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں جو ایسے نور مبین کے ساتھ مبعوث کیے گئے کہ جس کے ذریعے اللہ تعالی نے اور دوسرے اندھیروں کو مٹا دیا. اے اللہ ! تو رحمتیں اور برکتیں نازل فرما اپنے بندے اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، ان کی آل پر اور معزز صحابہ کرام پر
حمد و صلاۃ کے بعد !!!
اللہ کے بندوں ! تقوی الہی اختیار کرو. نیک کاموں کو انجام دے کر اور برائیوں سے دور رہ کر اس کا تقرب حاصل کرو کیونکہ جو اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے لیے کافی ہو جائے گا اور جو اپنی خواہش کی پیروی کرے گا اور دنیا کو ترجیح دے گا وہ ناکام و نامراد ہو گا اور آخرت کی دائمی نعمتوں سے محروم رہے گا۔
ارشاد باری تعالی ہے:
فَاَمَّا مَنْ طَغٰى وَ اٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰى وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى
النازعات 36-41
جس نے سرکشی کی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی بے شک جہنم اس کا ٹھکانہ ہوگا اور جو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنت اس کا ٹھکانہ ہوگا۔
مسلمانوں ! تمہیں تمہارے رب نے ایمان جیسے وصف کے ساتھ متصف کیا اور اس کے ساتھ مخاطب کیا جو انسان کی سب سے عظیم خوبی ہے کہ تم نیک اعمال کو وسیلہ بناؤ اور اعمال و ایمان کو باطل اور کمزور کرنے والی اشیاء سے محفوظ رکھو.
ارشاد باری تعالی ہے:
یااَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
المائدۃ35
اے ایمان والوں ! اللہ سے ڈرو اور اس تک وسیلہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر لو۔
وسیلے میں تمام قسم کی عبادات شامل ہیں. خواہ ان کا تعلق اللہ تعالی کے حکموں کو بجا لانے کے ساتھ ہو یا منع کردہ اشیاء کو ترک کرنے کے ساتھ ہو. اسی طرح وسیلہ اطاعت کے تمام وسائل و ذرائع کو بھی شامل ہے. خیرات و بھلائیوں کا سرچشمہ سزاؤں سے نجات دلانے والا، اعمال صالحہ کا منبع اور ہلاکتوں سے بچنے کا مضبوط ترین قلعہ اللہ تبارک و تعالی کا ذکر ہے. یہ فرائض و واجبات کی تکمیل کرتا ہے. عبادات کی کمی کو پورا کرتا ہے. اس کے ذریعے نیکیوں کے ثواب میں بڑھوتری ہوتی ہے گناہ مٹ جاتے ہیں. اس کے ثواب و فضیلت اور قدر و منزلت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالی نے نماز, حج اور دوسری بہت ساری عبادات میں اسے فرض قرار دیا ہے. اور شریعت نے ہر حال میں ذکر کرنے کی ترغیب دلائی ہے حتی کہ دین کا پہلا رکن ہی اللہ تعالی کا ذکر ہے. چنانچہ ہم کہتے ہیں. میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں. اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں. اسلام کی تمام شریعت سازی اسی ذکر کی تفسیر اور اس گواہی کی ذیلی شاخ ہے. اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں. اس میں اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار ہے. اور اس بات کی گواہی دینا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں. اس میں اکیلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا اقرار ہے. ارشادباری تعالی ہے:
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
الحجرات1
اے ایمان والو ! تم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے حکم سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ خوب سننے والا اور بڑا جاننے والا ہے ۔
اللہ تعالی نے ذکر الہی کو جس طرح بکثرت کرنے کا حکم دیا ہے کسی اور عبادت کو اس طرح کرنے کا حکم نہیں دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًا وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا
الاحزاب41-42
اے ایمان والوں ! اللہ کو خوب یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح بیان کرو۔
اوس بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود پڑھنے کا حکم آیا ہے جیسا کہ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ جمعہ کے دن بکثرت مجھ پر درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا بھیجا ہوا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے ۔
رواہ ابو داؤد و ابن حبان
اور اسی طرح انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اس کے دس گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور دس درجات بلند کر دیے جائیں گے ۔
سنن نسائی
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین پہنچایا ہے، راہ الہی میں آپ نے جہاد کیا اور امت کی بھلائی اور سچی خیر خواہی کی ہے لہذا اس کے بدلے میں درود و سلام پڑھنا ایک مسلمان کی جانب سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعا ہے۔ مسلمانوں کے لیے ہر قسم کی خیر و بھلائی اور اجر و ثواب والے اعمال جو اللہ تعالی کی جانب سے جاری کیے گئے ہیں اور جن کے ذریعے جنت کی راہ ہموار ہوتی ہے وہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہی ہم تک پہنچے ہیں۔ اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا دراصل اللہ تعالی کی ہی عبادت ہے۔ ذکر الہی کی فضیلت کے دلائل میں سے چند دلائل یہ ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
الانفال45
اور اللہ کو کثرت سے یاد کرتے رہو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔
ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی مثال جو اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو اپنے رب کا ذکر نہیں کرتا زندہ اور مردہ کی طرح ہے ۔
متفق علیہ
ابو دردہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک ایسے عمل کے بارے میں نہ بتلاؤں جو تمہارے تمام اعمال میں سے بہتر ہے. تمہارے مالک کے نزدیک سب سے زیادہ پاکیزہ ہے. تمہارے درجات کو سب سے زیادہ بلند کرنے کا سبب بن سکتا ہے. سونا اور چاندی خرچ کرنے سے زیادہ تمہارے لیے بہتر ہے. اور اس بات سے زیادہ بہتر ہے کہ تم دشمن سے قتال کرو، وہ تمہاری گردنیں مارے اور تم اس کی گردنوں کو مارو. صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں؟ تو آپ نے فرمایا: وہ اللہ کا ذکر ہے.
رواہ احمد ،ترمزی ،و حاکم
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے،کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ قیامت کے دن کس بندے کا درجہ سب سے زیادہ بلند ہوگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے کا درجہ سب سے زیادہ بلند ہوگا ۔
رواہ ترمزی
عبداللہ بن بصر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہا اے اللہ کے رسول ! اسلام کے احکامات ہم پر بہت زیادہ ہیں لہذا آپ ہمیں کسی ایسی جامع چیز کی طرف رہنمائی کر دیں جسے ہم لازم پکڑ لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تم اپنی زبان کو ہر وقت ذکر الہی سے تر رکھو ۔
رواہ ترمزی،احمد،ابن ماجہ ،وابن حبان
ذکر الہی اعمال کا تزکیہ کرتا ہے اور ان کی کمی کو پورا کرتا ہے. چھوٹی ہوئی نیکی کی بھرپائی کرتا ہے. اور گناہوں کو مٹا دیتا ہے. ذکر الہی کے تین مراتب ہیں. پہلا مرتبہ یہ ہے کہ انسان دل سے اللہ کو یاد کرے. دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرے. اور اللہ تعالی اپنی جودو سخا سے بھی اجر و ثواب سے نواز دیتا ہے.
ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ تعالی فرماتا ہے: میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق ہوتا ہوں. اور جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں. اگر وہ مجھے اپنے نفس میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے نفس میں یاد کرتا ہوں.
متفق علیہ
اور دوسرا مرتبہ یہ ہے اور یہ درمیانہ درجہ ہے کہ انسان اپنے رب کو اپنی زبان سے یاد کرے بعض اوقات اس ذکر کے معنی اور مفہوم پر غور کرنے سے دل غافل ہو جاتا ہے،ایسا شخص بھی عظیم خیر و بھلائی کو سمیٹ رہا ہوتا ہے ،اس درجہ کے ثواب کو اللہ کے علاوہ کوئی شمار نہیں کر سکتا ،اور اس کا اجر پہلے درجہ کے مقابلے میں زیادہ ہے ، کیونکہ اس میں زبان کا بھی استعمال ہے ، زبان سے کلمات ادا کرتا ہے ۔
جیسا کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : بسا اوقات انسان اپنی زبان سے اللہ کا ایسا پسندیدہ کلمہ ادا کرتا ہے جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دے رہا ہوتا ہے ، لیکن اس کی بدولت اللہ تعالی اس کے درجا ت بلند کر دیتا ہے۔
رواہ البخاری
اور تیسرا مرتبہ یہ ہے اور یہ اعلی ترین مرتبہ ہے کہ انسان زبان سے اللہ کا ذکر کرتے ہوئے دل کے ساتھ ذکر کے معنی و مفہوم پر غور کرے ، اور ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی کی عظمت کو ذہن نشین کررکھے۔ یہ ذکر کا اعلی ترین درجہ ہے اور اس انداز سے ذکر الہی بجا لانے والا شخص بھلائیوں اور اعلی درجات کی طرف سبقت کرنے والا شمار ہوتا ہے .
جیسا کہ رفاعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو بندہ سچے دل سے گواہی دیتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ، اور میں اللہ کا رسول ہوں ، پھر اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، تو اسے موت آتی ہی اس لئے ہے تاکہ وہ جنت میں داخل ہو جائے
رواہ احمد
اس حدیث میں زبان اور دل، دونوں سے ذکر کرنے کی ایک ساتھ فضیلت بیان ہوئی ہے ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم اس دیوار کے پیچھے جس شخص سے بھی ملو ، جو صدق دل سے اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، تو تم اسے جنت کی خوشخبری دے دینا ۔
رواہ مسلم
اللہ سبحانہ وتعالی کا ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان لا الہ الا اللہ ، اللہ اکبر ، الحمد للہ ، سبحان اللہ ، لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم وغیرہ کا ورد کرے ، اسی طرح بکثرت توبہ و استغفار کرے ، دعا کرے، نبی کریم ﷺ پر درود بھیجے ، ہر نقص و عیب سے اللہ تعالی کے ذات کی پاکی بیان کرے اور اس کی عظمت و جلالت، عزت و کبریائی اور کمال و جمال کے منافی امور سے اللہ کی تقدیس بیان کرے اور ذات الہی کو مخلوقات میں سے کسی سے تشبیہ نہ دے ،اللہ سبحانہ وتعالی کی بہترین حمد و ثنا اس کے اسماء حسنہ، صفات علیا میں پوشیدہ ہے ۔ جیسا کہ آیۃ الکرسی اور سورۃ حشر کی آخری آیتوں میں موجود ہے ۔ یہ بھی اللہ تعالی کی تعظیم ہے کہ مخلوق پر اللہ کی نعمتوں کو یاد کیا جائے اور بیان کیا جائے ان کے سامنے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
یٰاَیُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْؕ-هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰهِ یَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِؕ
فاطر 3
اے لوگو! اپنے اوپر اللہ کا احسان یاد کرو کیا اللہ کے سوا اور بھی کوئی خالق ہے کہ جو آسمان اور زمین سے تمہیں روزی دے
اور مزید فرمایا :
وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًاۚ-وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَاؕ
آل عمران103
اوراللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ پیدا کردیا پس اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں اس سے بچالیا۔
ان کے علاوہ دیگر آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ، اور ذکر الہی زبان پر ہلکا ہوتا ہے لیکن ترازو میں بھاری ہوتا ہے۔ ذکر اس وقت تک بارآور نہیں ہوگا نہ اس سے دلوں کا تزکیہ ہوگا اور نہ ہی اعمال کی اصلاح ہوگی جب تک اسے اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں نہ کیا جائے ۔افضل ترین ذکر، تلاوت قرآن مجید ہے کیونکہ قرآن میں اللہ تعالی کی ہر قسم کی تعریف ہے ، نعمتوں کا ذکر ہے اور شریعت کی تفصیل موجود ہے ۔ نیز اس میں ہر بھلائی پر ابھارا گیا ہے اور ہر شر سے ڈرایا گیا ہے ۔ مسلمانوں ! یہ ہیں ذکر کی بھلائیاں ، برکتیں اور فوائد اور جہاں تک اس کے ثواب کا تعلق ہے تو اس پر اتنا ثواب ہے کہ نا تو اسے کسی آنکھ نے دیکھا ہوگا ، اور نا ہی کسی انسان کے وہم وگمان سے گزرا ہوگا ۔ ذکر الہی کے ثواب کے سلسلے میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت یے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے دل میں لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر، یہ ذکر سو مرتبہ پڑھ لیتا ہے تو اسے دس گردنیں آزاد کرنے کا اجرو ثواب ملتا ہے ، اس کے لئے سو نیکیاں لکھ دی جا تی ہیں ، اس کے سو گنا ہ مٹا دیے جاتے ہیں اور شام تک اسے شیطان سے پناہ نصیب ہوگی اور کو ئی شخص اس سے زیادہ اچھا عمل نہیں کر سکتا الا یہ کہ کوئی شخص اس سے بھی زیادہ یہ کلمات کہے۔
رواہ البخاری
ام ہانی رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہتی ہیں کہ میں نے کہا اللہ کے رسول ﷺ ! آپ مجھے کوئی ایسا کام کرنے کا حکم دیں جسے میں بیٹھی بیٹھی کر سکوں تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم سو بار اللہ تعالی کی پاکی بیان کرو یعنی سبحان اللہ کہو کیونکہ یہ اولاد اسماعیل میں سے سوغلام آزاد کرنے کے برابر ہے اور سو مرتبہ اللہ کی تعریف بیان کرو یعنی الحمد للہ کہو کیونکہ یہ زین و لگام سمیت ایسے سو گھوڑوں کے برابر ہے جن پر تم سوار ہو کر اللہ کے راستے میں نکلو اور سو مرتبہ اللہ اکبر بھی کہو کیونکہ یہ قلادے والے یعنی گلے میں لٹکاۓ ہوئے، نشانی والے، مقبول سو اونٹوں کے برابر ہے ، اور سو مرتبہ لاالہ الا للہ کہو کیونکہ یہ آسمان و زمین کو بھر دیتا ہے ۔
رواہ احمد ،نسائی،و حاکم
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اللہ کی عظمت کو بیان کرتے رہو تو سبحان اللہ ،الحمد للہ ،لا الہ الا اللہ یہ کلمات عرش کے ارد گرد گھومتے ہیں اور شہد کی مکھی کی بنبناہٹ کی طرح ان کی آواز ہوتی ہے ، اور یہ کلمات اپنے کہنے والے کو یہ یاد کرتے ہیں ۔
رواہ ابن ماجہ و حاکم
معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اہل جنت کسی چیز پر افسوس نہیں کریں گے سواۓ اس وقت پر جس میں انھوں نے اللہ کا ذکر نہں کیا ہوگا ۔
رواہ طبرانی
اور وہ اس وقت پر اس لئے افسوس کریں گے کہ وہ ذکر کے عظیم ثواب کو دیکھ رہے ہونگے۔ ذکر کے ثواب میں سے یہ بھی ہے کہ اس سے ذکر کرنے والے کو شیطان سے حفاظت نصیب ہوتی ہے ۔
حارث بن حارث اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی نے یحی بن ذکریا علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ بنی اسرائیل کو پانچ کلمات پڑھنے کا حکم دیں اور ان پانچ کلمات میں ذکر الہی بھی تھا۔ کیونکہ اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے کہ دشمن تیزی سے اس کا پیچھا کررہا ہو یہاں تک کہ وہ شخص کسی مضبوط قلعے میں پہنچ کر اپنے آپ کو دشمن سے محفوظ کر لیتا ہے ، اسی طرح بندہ اپنے آپ کو ذکر کے ذریعہ سے محفو ظ کرلیتا ہے ۔
رواہ ترمذی ،ابن حبان ،حاکم
ذکر کا عظیم ترین ثواب حصول جنت اور جہنم سے نجات ہے ، اللہ تعالی کی رضا مندی سب سے بڑی چیز ہے ،ذکر کے ثواب میں سے یہ بھی ہے کے اللہ تعالی ذکر کرنے والے کو تکلیف ، پریشانی اور ہلاک کرنے والی چیزوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ یونس علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :
فَلَوْ لَاۤ اَنَّهٗ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِهٖۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
الصفات143-144
تو اگر وہ تسبیح کرنے والا نہ ہوتا۔ توضرور اس دن تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہتا جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔
ذکر کے ثواب میں سے یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی ذکر کرنے والے کو دونوں جہانوں میں بلند کردیتا ہے ۔ارشاد باری تعالی ہے:
فَاذْكُرُوْنِیْۤ اَذْكُرْكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ
البقرہ 152
تو تم مجھے یاد کرو ،میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکرادا کرو اور میری ناشکری نہ کرو۔
ذکر کے ثواب میں سے یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ روح و بدن کو تقویت ملتی ہے ،اور عبادت کی ادئیگی میں مدد ملتی ہے ، محرمات سے بچاؤ ہو تا ہے ، اور اس کی وجہ سے اللہ تعالی رزق کو آسان کر دیتا ہے ۔جیسا کہ عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
نوح علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا: میں تمہیں سبحان اللہ وبحمدہ کہنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ مخلوق کا درد اور تسبیح ہے اور اسی کے ذریعہ مخلوق کو رزق دیا جا تا ہے ۔
رواہ نسائی ،حاکم
ذکر کا ایک ثواب یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے نفاق سے چھٹکارا نصیب ہو تا ہے اور یہ دین کے اندر سب سے بڑی مصیبت ہوتی ہے نفاق ۔ نبی کریم ﷺ دعا اور اذکا ر میں جامع کلمات اختیا ر کیا کرتے تھے ۔چناچہ آپ کے جامع کلمات میں سے وہ کلمات بھی ہیں جو آپ نے جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنھا کو سکھائے تھے ، سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ: عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ، وَزِنَةَ عَرْشِهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ۔
رواہ مسلم
ارشاد باری تعالی ہے :
وَ الذّٰكِرِیْنَ اللّٰهَ كَثِیْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِۙ-اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا
الاحزاب 35
اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں، ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
دوسرا خطبہ :
تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جو نیک و کاروں کا کارساز ہے ۔ اس کی اطاعت کی جا تی ہے تو وہ قدر کرتا ہے اور اس کی نا فرمانی کی جاتی ہے تو وہ معاف کر دیتا ہے ۔ میں اپنے رب کی بے شمار معلوم و نامعلوم نعمتوں پر اس کی حمد بیان کر تا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ روزی دینے والا، طاقت ور اور مضبوط ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی و سردار محمد ﷺ اس کے بندے اور امانت دار رسول ہیں ۔ اے اللہ ! تو اپنے بندے محمد ﷺ پر اور ان کے اصحاب پر تا قیامت رحمتیں و برکتیں نازل فرما ۔
حمد و صلاۃ کے بعد !!!
نیک اعمال کر کے اور محرمات سے اجتناب کر کے اللہ تعالی سے ڈرو ، اللہ تعالی کے بندوں ! غفلت ، اعراض اور امیدوں کے دھوکے سے اٹھ کر اللہ تعالی کی جانب دوڑو کیونکہ تم ایک متعین وقت کے لئے ہی بھیجے گۓ ہو ۔ ہر دور کی چیز قریب ہو جاتی ہے اور ہر نئی چیز پرانی بھی ہو جا تی ہے۔ اللہ تعالی نے تمہیں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًا
الاحزاب21
یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ ﷺ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے
عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ہر وقت اللہ تعالی کو یاد کیا کرتے تھے۔
مسلم
زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : موسی علیہ السلام نے کہا: اے میرے رب ! تو نے مجھ پر بہت زیادہ احسان کیا ہے اس لئے تو مجھے شکر ادا کرنے کا طریقہ سکھا تو اللہ تعالی نے فرمایا : تم مجھے بہت زیادہ یاد کیا کرو۔ اگر تم مجھے بہت زیادہ یاد کرو گے تو گویا تم نے میرا شکرادا کر دیا اور اگر تم مجھے بھول جاؤ گے تو تم نے میری ناشکری کی .
رواہ البیہقی
سلف صالحین رحمہ اللہ ہمیش اللہ کے ذکر میں مشغول رہتے تھے کیونکہ وہ اللہ سے بھرپور محبت کرتے تھے جیسا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دو ہزار دانون والی تسبیح تھی وہ اس وقت تک نا سوتے جب تک مکمل سبحان اللہ کی تسبیح نا کر لیتے ۔
حلیة الاولیاء
ابن سیرین رحمه الله كی عام گفتگو سبحان الله وبحمده سبحان الله العظیم ہوا کرتی تھی ۔اور خالد بن میدان رحمہ اللہ ہر روز تلاوت قرآن کے علاوہ چالیس ہزار مرتبہ سبحان اللہ کہتے تھے۔
حلیة الاولیاء
آج کے دور میں مسلمان کو ذکر الہی میں مشغول رہنے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ فتنے بہت زیادہ ہو گۓ ہیں ، لوگوں کے دل بہت زیادہ غفلت کا شکار ہو گۓ ہیں ، نگاہیں شہوت زدہ ہو چکی ہیں ، شبہات اور خواہشات کا دور دورہ ہے اور جب دنیا کی رنگینیوں سے انسان دھوکہ کھانے لگے تو مسلمان کو چاہیے کہ وہ اذکار کی کتابوں کو حرض جان بنا لے جو اس کے لیے بصیرت اور نفع بخش ہوں اور ان اذکار پر عمل بھی کرے۔ اذکار کی کتابوں میں سے بہترین کتابیں تحفۃ الذاکرین ہے اور دیگر کتا بیں بھی ہیں ۔ اللہ کے بندوں ! یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں پس اے ایمان والوں ! تم بھی کثرت سے درود بھیجو ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدَۃً صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ عَشْرًا”درود وسلام بھیجو نبی کریم ﷺ پر جو دنیا و آخرت میں تمام لوگوں کے سردار ہیں ، جو رسولوں کے امام ہیں ۔ اے اللہ ! رحمتیں نازل فرما۔ اے اللہ ! تو درود نازل فرما محمدﷺپر اور ان کی بیویوں اور ان کی ذریت پر جیسے تو نے درود نازل فرمایا آل ابراہیم پر اور تو برکت نازل فرما محمدﷺپر اور ان کی بیویوں اور ان کی ذریت پر جیسے تو نے برکت نازل فرمائ آل ابراہیم پر۔ بے شک تو بہت تعریف کے لائق اور عظمت والا ہے۔ اے اللہ ! تو خلفاء راشدین ابوبکر ، عمر، عثمان اور علی سے اور باقی تمام صحابہ و تابعین سے اور ان لوگوں سے راضی ہوجا جو تا قیامت ان کا اچھی طرح اتباع کریں اور ان کے ساتھ ان سے بھی اپنے عفو و کرم اور سخاوت سے راضی ہوجا۔ اے اللہ ! ہمارے اگلے پچھلے تمام گناہوں کو معاف فرما ۔ اے اللہ ! ہر مسلمان کے معاملات کا تو ہی والی بن جا۔ اے اللہ ! مقروضوں کے قرض ادا فرما دے ، ان کی مدد فرما۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ اے اللہ ہمارے فوت شدگان اور مسلمانوں کے فوت شدگان کی مغفرت فرما۔ اے اللہ ہمارے ملکوں کو ہر قسم کے شر سے محفوظ فرما ۔ اے اللہ ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطان کی اولاد سے محفوظ فرما۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے ۔ یاحی یا قیوم ! تو خادم حرمین شریفین کو اس کام کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو اور تو اس سے راضی ہو اور انہیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے بہترین بدلہ عنایت کر ۔ اے اللہ تو انہیں اور ان کے ولی عہد کو اس کام کی توفیق دے جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بھلائی ہو۔
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
(سورۃ النحل: 90)
خطبة الجمعة، المسجد النبوی ﷺ:
فضیلة الشیخ : ڈاکٹر علی بن عبدالرحمن الحذیفی حفظه اللہ
21 ربیع الاول 1445 ھ بمطابق 06 اکتوبر 2023